👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟞 𝟡⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟞  𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقصد یہ نہیں کہ قصبہ تباہ کرایا جائے بوڑھے نے کہا بلکہ یہ کہ یہاں کے کسی مسلمان کو زندہ نہ رہنے دیا جائے اور لڑکیوں کو فوج اٹھا لے جائے سب متفق ہوگئے اور فیصلہ ہوا کہ میزبان یہودی اسی رات شاہ بالڈون کی خیمہ گاہ کو روانہ ہوجائے وہ باہر نکلے تو انہیں ایک گھوڑا سوار قصبے میں داخل ہوتا نظر آیا وہ کوئی اجنبی تھا خطیب کا گھر نظر آرہا تھا یہ سوار خطیب کے گھر کے سامنے گھوڑے سے اترا۔ دروازے پر دستک دی خطیب باہر آیا اجنبی سے ہاتھ ملایا اور اسے اندر لے گیا یہ سوار دمشق یا قاہرہ کا قاصد ہے میزبان یہودی نے کہا عشاء کی نماز کے بعد نمازی چلے گئے پانچ چھ آدمی خطیب کے پاس بیٹھے رہے ان میں یہ اجنبی گھوڑ سوار بھی تھا خطیب نے کسی سے کہا کہ مسجد کا دروازہ اندر سے بند کردیا جائے
میرے دوستو! خطیب نے کہا ہمارا یہ دوست الملک العادل کی طرف سے خبر لایا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی بہت جلد قاہرہ سے کوچ کرنے والے ہیں آپ سب فوجی ہیں اور شب خون کے استاد ہیں آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے تربیت اور مشق تیز کردو۔ العادل نے یہ اطلاع بھیجی ہے کہ صلیبی بادشاہ بالڈون کی فوج جو حماة سے بھاگی تھی ہمارے قریب کہیں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ہمیں اس پر نظر رکھنی ہے اور اس کی نقل وحرکت کی اطلاع العادل تک پہنچانی ہے انہوں نے یہ حکم بھی بھیجا ہے کہ اگر ہم ضروری سمجھیں تو صلیبیوں کی اس فوج پر شب خون ماریں یا چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ یہ فوج چین سے نہ بیٹھ سکے اس کے ساتھ ہی العادل نے یہ بھی کہا کہ اس فوج نے مسلمانوں کے بہت سے گاؤں تباہ کردئیے ہیں۔ چونکہ العادل کے پاس فوج کی کمی تھی اس لیے صلیبی فوج کا تعاقب نہ کیا جاسکا انہوں نے کہا کہ اگر بالڈون کی فوج اور پیچھے اپنے علاقے میں چلی جاتی ہے تو اسے نہ چھیڑا جائے کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ حمص کو تباہ کردے گی ہمیں تربیت اور مشق تیز کرنے کو کہا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ سلطان ایوبی کسی طرف حملہ کریں تو بالڈون ان پر عقب یا پہلو سے حملہ کردے اس صورت میں ہمیں بالڈون کے عقب پر شب خون مارنے ہیں اور اسے یہیں الجھائے رکھنا ہے
خطیب نے ایک آدمی کو یہ کام سونپا کہ وہ اس فوج کو دیکھ آئے اس وقت تبریز اور ویرا اس حالت میں قصبے میں داخل ہوئے کہ ویرا تبریز کی پیٹھ پر تھی راستے میں پانی تو مل گیا تھا لیکن کھانے کو کچھ نہیں ملا تھا۔ ویرا صلیبیوں کی شہزادی تھی وہ پیدل سفر کی عادی نہیں تھی تبریز رات کے لیے کہیں رکنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ویرا کو پیٹھ پر اٹھا لیا اور باقی سفر اسی طرح طے کیا اس نے لڑکی کو اپنے گھر کے سامنے اتارا اور اسے اندر لے گیا اس کے گھر والوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ تبریز زندہ ہے اس کا گھوڑا پہلے ہی گھر پہنچ چکا تھا اس نے گھر والوں کو بتایا کہ اس پر کیا بیتی ہے
ویرا کو معلوم تھا کہ اس کی منزل یہودی تاجر کا گھر ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے گھر فوراً جانا چاہتی ہے شاید اس کا باپ زندہ آگیا ہو تبریز اس کے ساتھ گیا اسے یہودی تاجر کا گھر معلوم تھا راستے میں اندھیرا تھا ویرا اچانک رک گئی اور تبریز سے لپٹ گئی کبھی چہرہ اس کے سینے پر رگڑتی اور کبھی اس سے الگ ہوکر اس کے ہاتھ چومتی اور آنکھوں سے لگاتی ہماری منزلیں جدا ہیں ویرا نے جذبات اور رقت سے بوجھل آواز میں کہا مگر ہم کسی دوراہے پر پھر ملیں گے  میں اپنی روح سے بیگانہ تھی وہ مل گئی ہے اور میں نہیں جانتی تھی محبت کیا ہے؟ 
وہ تم نے دے دی ہے دل میں تمہاری یاد لے کے جارہی ہوں تم مجھے بھول جاؤ گے
نہیں ویرا تبریز کی جذباتی کیفیت ویرا سے زیادہ متزلزل تھی کہنے لگا میں تمہیں بھول نہیں سکوں گا میں نے تمہیں راستے میں کہا تھا کہ اب تک ایک باطل مذہب کی پجاری رہی ہو باقی عمر اسلام کے سائے میں گزارو میں تمہارا انتظار کروں گا میرے دل میں اب کوئی لڑکی نہیں سما سکے گی تم اب اسی قصبے میں رہو گی ہم ملا کریں گے لیکن وہاں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے
تبریز نے امانت میں خیانت نہیں کی تھی دوران سفریہ لڑکی اس کی مرید ہوگئی تھی پھر یوں ہوا کہ لڑکی تبریز کے دل میں اتر گئی اب وہ دل پر پتھر رکھ کر اسے یہودی کے حوالے کرنے جارہا تھا وہ جب اسے یہودی کے گھر لے گیا تو وہاں اسے بوڑھا عیسائی ملا اس نے ویرا کو گلے لگا لیا یہودی تاجر گھر نہیں تھا وہ فیصلے کے تحت شاہ بالڈون کی خیمہ گاہ کو روانہ ہوگیا تھا تبریز بوڑھے کے اصرار کے باوجود وہاں رکا نہیں وہاں سے وہ مسجد چلا گیا دروازہ اندر سے بند تھا اس نے دستک دی، دروازہ کھلا تو وہ اندر چلا گیا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک سال کے اندر اپنی فوج تیار کرلی تھی اس نے مزید انتظار نہ کیا جس رات حمص کا ایک یہودی تاجر شاہ بالڈون سے یہ کہنے جارہا تھا کہ وہ اپنی فوج سے حمص کے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کردے اس رات سلطان ایوبی کی فوج قاہرہ سے نکل گئی تھی اس کی منزل دمشق تھی کوچ بہت تیز تھا۔ سلطان ایوبی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس دور کے وقائع نگاروں کے مطابق سلطان ایوبی دمشق قیام کرکے وہاں کے حالات غداریوں اور سازشوں کا جائزہ لے کر اور ان کا سدباب کرکے العادل سے ملنا چاہتا تھا اور وہاں سے اسے جنگی کارروائی کا آغاز کرنا تھا مگر راستے میں ہی اس نے راستہ بدل دیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اسے عزالدین کا ایک ایلچی راستے میں ملا وہ سلطان ایوبی کے نام قاہرہ پیغام لے کر جارہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ سلطان ایوبی وہاں سے کوچ کر آیا ہے آدھے راستے میں اس نے ایک فوج آتی دیکھی جھنڈوں سے پہچانا گیا کہ یہ سلطان ایوبی کی فوج ہے وہ قلب میں چلا گیا جہاں سلطان ایوبی تھا ایلچی نے اسے عزالدین کا پیغام دیا۔ عزالدین نورالدین زنگی مرحوم کے مشیروں میں سے تھا، جسے امیر کا درجہ حاصل تھا وہ مرد مومن تھا۔ اس لیے زنگی کا منظور نظر تھا زنگی نے وفات سے پہلے اسے حلب کے صوبے میں قارا حصار کے نام کا قلعہ دے کر اس کا امیر بنا دیا تھا خاصا علاقہ اس قلعے کے تحت آتا تھا اس سے ملحق ابن لاعون کی ریاست تھی جو صلیبیوں کے ساتھ صلیبی اور مسلمانوں کے ساتھ مسلمان بن جاتا تھا۔ اس نے صلیبیوں کی شہہ پر عزالدین کے علاقے میں سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا عزالدین اکیلا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا وہ حلب اور موصل والوں سے مدد نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ جب سے حلب اور موصل کے حکمرانوں الملک الصالح اور سیف الدین وغیرہ نے سلطان ایوبی کے خلاف محاذ قائم کیا تھا عزالدین نے ان کے ساتھ تعلقات توڑ لیے تھے
اس نے سلطان ایوبی کو جو پیغام بھیجا وہ یوں تھا قابل احترام سلطان صلاح الدین ایوبی بن نجم ایوب سلطان مصر وشام! آپ پر اور سلطنت اسلامیہ پر اللہ کی رحمت ہو میری وفاداری کے متعلق آپ کو شک نہیں ہوگا میں نے تل خالد کی طرف سے صلیبیوں کا راستہ روک رکھا ہے تمام تر علاقہ اور پیش قدمی کے راستے میں میرے چھاپہ ماروں کی نظر میں رہتے ہیں صلیبیوں نے مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے ابن لاعون کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے آپ جانتے ہیں کہ میری سرحد اس علاقے سے ملتی ہے جو دراصل آرمینیوں کا علاقہ ہے ان آرمینیوں نے میری سرحدی چوکیوں پر حملے شروع کردئیے ہیں آپ آگاہ ہوں گے میرے پاس فوج کی کمی ہے صلیبیوں اور آرمینیوں نے میرے پاس دو بار ایلچی قیمتی تحائف کے ساتھ بھیجے تھے وہ مجھے دعوت دے رہے ہیں کہ میں ان کا اتحادی بن جاؤں اور آپ کے خلاف لڑوں انکار کی صورت میں انہوں نے مجھے حملے کی دھمکی دی ہے میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اپنی زمین کے تحفظ کے لیے یہ دعوت قبول کرلیتا یہ جگہ اتنی دور ہے کہ وقت پڑے تو مدد کو آنے والے بروقت نہیں پہنچ سکتے اس کے باوجود میں نے اس کی دعوت کے بجائے ان کی دھمکی قبول کی ہے اور میں نے یہ اقدام اللہ کے بھروسے پر کیا ہے۔ میں اپنا قلعہ اور اپنا علاقہ اور اس کے ساتھ اپنی جان قربان کردوں گا صلیبیوں کے ساتھ اتحاد نہیں کروں گا۔ میں نورالدین زنگی مرحوم کی روح کے آگے جواب دہ ہوں اور میں ان لاکھوں شہیدوں کے آگے جواب دہ ہوں جو قبلہ اول کے نام پر قربان ہوچکے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آپ کا آئندہ اقدام کیا ہوگا مجھے یہ معلوم ہے کہ رملہ کے حادثے کے بعد آپ تنظیم نو اور دیگر تیاریوں میں مصروف ہوں گے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ محترم الملک العادل میری مدد کو آنے کے قابل نہیں میں آپ کو اپنے احوال سے خبردار رکھنا ضروری سمجھتا تھا اگر آپ حکم دیں تو میں اپنے علاقے اور قاراحصار سے دستبردار ہوکر اپنی فوج آپ کے پاس لے آؤں دوسری صورت میں مجھے ہدایت دیں کہ میں کیا کروں میں کسی قیمت پر صلیبیوں اور آرمینیوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا
سلطان ایوبی نے یہ پیغام پڑھا اسی وقت اپنے سالاروں اور مشیروں کو بلایا پیغام انہیں پڑھ کر سنایا اور یہ حکم دے کر سب کو حیران کردیا کہ کوچ کا راستہ بدل دو۔ ہم ابن لاعون کے علاقے پر یلغار کریں گے سلطان ایوبی ڈکٹیٹروں کی طرح حکم نہیں دیا کرتا تھا اور وہ جذبات سے مغلوب ہوکر بھی کوئی جنگی کارروائی نہیں کیا کرتا تھا مگر اس حکم کے پیچھے جنگی فہم وفراست کے ساتھ جذبات بھی کارفرما تھے
قاراحصار میرے محترم استاد نورالدین زنگی مرحوم کی نشانی ہے' سلطان ایوبی نے کہا اور عزالدین کے الفاظ میں مجھے زنگی مرحوم کی آواز سنائی دے رہی ہے میں اس شخص کو تنہا نہیں رہنے دوں گا جو ہمارے مقصد اور عزم کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتا ہے
سلطان محترم! ایک سالار نے کہا ہم حقائق کو سامنے رکھیں تو کسی بہتر فیصلے پر پہنچ سکیں گے حقائق یہ ہیں کہ ہمیں پہلے دمشق جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لینا تھا سلطان ایوبی نے کہا اب اگر ہم دمشق چلے گئے تو ابن لاعون تل خالد پر حملہ کردے گا اور عزالدین اس کے آگے نہیں ٹھہر سکے گا آگے حلب ہے۔ تم سب الملک الصالح اور اس کے مشیروں کو اچھی طرح جانتے ہو بے شک وہ اس معاہدے کا پابند ہے جو اس نے ہمارے ساتھ کررکھا ہے لیکن معاہدہ لوہے کی دیوار نہیں ہوتی کہ ٹوٹ نہ سکے وہ فوراً صلیبیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ایک بار پھر ہمارے خلاف لڑنے کو آجائے گا میں صلیبیوں کو حلب نہیں لینے دوں گا اور عزالدین کو میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا
کچھ دیر عملی پہلوؤں پر بحث ومباحثہ ہوا اور طے ہوا کہ تل خالد کی سمت کوچ ہوگا سلطان ایوبی نے عزالدین کے ایلچی کو زبانی پیغام دیا جس میں کہا کہ عزالدین ابن لاعون سے ملے اور اسے دوستی کا دھوکہ دے لیکن اسے اپنے علاقے میں دخل انداز نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ دوستی کی شرائط پر بات چیت کرتا رہے اور اسے یہاں تک دھوکہ دے کر وہ اپنی فوج اس کے حوالے کردے گا سلطان ایوبی نے ایلچی کو بتا دیا کہ اس نے اپنی فوج کو تل خالد کی طرف تیز کوچ کا حکم دے دیا ہے ایلچی روانہ ہوگیا صلیبی جاسوس سلطان ایوبی کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے اور صلیبیوں تک خبریں پہنچا رہے تھے جن کے مطابق انہوں نے اپنے قلعوں اور اپنے علاقوں کا دفاع مضبوط کرلیا تھا وہ جانتے تھے کہ سلطان ایوبی کے اقدامات کے متعلق کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی صلیبیوں کے مشترکہ ہیڈکوارٹر میں جب جاسوسوں نے یہ اطلاع دی کہ سلطان ایوبی کی فوج دمشق کے راستے سے ہٹ کر کسی دوسری سمت جارہی ہے تو ان کے جرنیلوں نے کہا کہ ایوبی اپنے آزمائے ہوئے میدانوں میں لڑنا چاہتا ہے
حمص کا یہودی تاجر جو حمص کو تباہ کرانے کے لیے شاہ بالڈون کے پاس گیا تھا واپس آگیا تھا اسے بالڈون نہیں ملا تھا۔ وہ اپنے صلیبی دوستوں سے مدد مانگنے گیا تھا۔ اس کے جرنیلوں نے یہودی سے کہا تھا کہ وہ شاہ بالڈون کے حکم کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرسکتے کریں گے ضرور۔ یہودی حمص واپس آیا تو اسے بتایا گیا کہ ویرا زندہ آگئی ہے اور اسے تبریز نام کا ایک مسلمان لایا ہے تبریز کو عیسائیوں اور یہودیوں نے نقد انعام پیش کیا تھا جو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا تھا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے
اب یہودی تاجر ویرا کو بے کار سمجھتا تھا کیونکہ قصبے کو تباہ کرانے کا انتظام ہوچکا تھا یہ فیصلہ کیا گیا کہ ویرا کو واپس ہیڈکوارٹر میں بھیج دیا جائے لیکن ویرا چالاک لڑکی تھی اس نے کہا کہ وہ خطیب کے اعصاب پر غالب آجائے گی اور مسلمانوں کو جنگی تربیت دینے والوں کے درمیان رقابت کی دشمنی پیدا کردے گی اس نے یہ بھی کہا کہ یہاں کے مسلمانوں کے عزائم معلوم کرنے کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے چنانچہ اسے حمص ہی میں رہنے دیا گیا لیکن کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ صرف تبریز کی خاطر وہاں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہے
وہ تبریز سے ملتی رہی رات کو وہ قصبے سے دور نکل جاتے اور بہت دیر وہیں بیٹھے رہتے تھے اس صلیبی لڑکی کے مقابلے میں تبریز کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی وہ تو امراء وزراء اور بادشاہوں کے محلات میں رہنے والی لڑکی تھی۔ دمشق میں اس نے انتظامیہ کے دو امراء کو اپنے قدموں میں بٹھا لیاتھا اور ان کے ہاتھ ایسی سازش تیار کرادی تھی جس کی اطلاع پر سلطان ایوبی دمشق جارہا تھا مگر طغیانی کی دہشت اور تبریز کے کردار نے اسے ایسا جھٹکا دیا تھا کہ اس کی ذات میں روح اور جذبات بیدار ہوگئے تھے وہ تبریز کی پوجا کرنے لگی تھی اور تبریز اس کی محبت میں گرفتار ہوچکا تھا
تبریز ایک بات بتاؤ ایک رات ویرا نے اس سے پوچھا خطیب اور دوسرے چند ایک آدمی جو تمہیں جنگی تربیت دیتے ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں؟
تبریز جواب دینے لگا تو ویرا بول اٹھی رہنے دو جانے دو تبریز! ہمیں اس سے کیا، کوئی کچھ کرتا پھرے ہم اتنی خوبصورت رات کو جنگ کی باتوں سے کیوں مکدر کریں
اس طرح وہ دو حصوں میں کٹ گئی تھی تبریز کے ساتھ ہوتی تو وہ معصوم اور پاک لڑکی ہوتی تھی۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ وہ جاسوس ہے اس نے ایک ہی بار تبریز سے خطیب اور دوسرے استادوں کے متعلق پوچھا لیکن اسے اس نے دھوکہ سمجھا اور تبریز کو جواب دینے سے روک دیا یہی ویرا جب یہودی تاجر کے گھر میں بیٹھی ہوتی تو مسلمانوں کی تباہی کی باتیں کرتی تھی
ڈیڑھ دو مہینے گزر گئے تھے ایک شام ویرا تبریز کے گھر چلی گئی اور اس کی ماں کے ساتھ باتیں کرتی رہی اس نے تبریز کو اشارہ کیا جسے وہ سمجھتا تھا وہ چلی گئی شام کا اندھیرا گہرا ہوتے ہی تبریز اس جگہ پہنچ گیا جہاں وہ ملا کرتے تھے ویرا آگئی تھی تبریز کو قصبے سے دور لے گئی وہ گھبرائی ہوئی تھی تبریز کے پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کی گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے۔ انہیں آوازیں سنائی دیں کوئی ویرا کو پکار رہا تھا۔ تبریز نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ 
ویرا نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا کہ اس کے آدمی اسے تلاش کررہے ہیں چلو اور دور نکل چلیں ویرا نے کہا اور اسے اور دور لے گئی اسے ابھی تک کوئی پکار رہا تھا ان آوازوں کو مت سنو تبریز ویرا نے کہا میں جب تمہارے پاس ہوتی ہوں تو میں اپنے کسی آدمی کی آواز نہیں سننا چاہتی
آگے چٹانیں تھیں ویرا تبریز کو چٹانوں کے پیچھے لے گئی تبریز حیران سا ہوکے اس کے ساتھ چلتا رہا اور وہ ایک جگہ رک گئے وہاں کسی کی آواز نہیں پہنچی تھی تبریز چونک اٹھا اور بولا شور سا سنائی دیتا ہے تم بھی سننے کی کوشش کرو۔ ایسے لگتا ہے جیسے چیخ وپکار ہورہی ہے اور گھوڑے دوڑ رہے ہیں
تمہارے کان بج رہے ہیں ویرا نے ہنس کر کہا ہوا کے تیز جھونکے چٹانوں سے ٹکرا کر گزر رہے ہیں یہ ان کی آوازیں ہیں
ویرا نے اسے اپنے بازوؤں اور ریشمی بالوں میں گرفتار کرکے اس کی آنکھوں کانوں اور عقل پر قبضہ کرلیا تبریز مان گیا کہ یہ آوازیں ہوا کی ہیں جو بہت دور کے شور کی طرح سنائی دیتی ہیں مگر اسے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ آوازیں اس کی اپنی بستی کے لوگوں کی ہیں اور وہاں قیامت بپا ہوچکی ہے جو یہودی تاجر بپا کرانا چاہتا تھا۔ ویرا کو معلوم تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ آوازیں تبریز کے کانوں تک پہنچیں
یہ انتظام اس طرح ہوا تھا کہ یہودی تاجر ایک بار پھر بالڈون سے ملنے گیا تھا اسے بالڈون مل گیا تھا یہودی نے اسے بتایا کہ حمص کے مسلمان کیا کررہے ہیں اور وہ کس طرح صلیبی فوج کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں بالڈون کا یہ من پسند شکار تھا اس نے یہودی کو بتایا کہ وہ کسی رات چپکے سے حمص پر حملہ کرائے گا اس نے یہودی سے یہ بھی کہا کہ عیسائی اور یہودی اس رات حملے سے پہلے قصبے سے نکلیں اگر وہ دن کے دوران نکلے تو مسلمانوں کو شک ہوگا کہ کوئی گڑبڑ ہے یہودی نے واپس آکر جب اپنے آدمیوں کو یہ سکیم بتائی تو ویرا نے کہا کہ وہ تبریز اور اس کے کنبے کو بچانا چاہتی ہے
اسے ہم صلیب سے غداری کہیں گے بوڑھے عیسائی نے کہا
سانپ کے بچوں کو بچانا کہاں کی عقل مندی ہے؟
یہودی تاجر نے کہا یہاں مسلمانوں کے دو گھر ایسے ہیں جن کے ساتھ میرے دلی تعلقات ہیں وہاں کے رہنے والے ایک عیسائی نے کہا لیکن میں انہیں بچانے کی نہیں سوچ رہا ہمیں مسلمان کا خون چاہیے۔ مسلمان میرا ذاتی دوست ہوسکتا ہے میرے مذہب کا وہ دشمن ہی ہوگا
میں اسے زندہ رکھنا چاہتی ہوں جس نے مجھے موت کے منہ سے نکالا تھا ویرا نے غصے سے کہا ہم نے اسے اتنا انعام پیش کیا تھا جو اس نے کبھی خواب میں نہیں دیکھا ہوگا یہودی تاجر نے کہا اس نے کہا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے ہم نے اسے انعام پیش کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے اب وہ ہمارا دشمن اور ہم اس کے دشمن ہیں میں اسے دشمن نہیں سمجھتی ویرا نے جھنجھلا کر کہا یہ صرف ایک مرد ملا ہے جس نے میرے جسم پر ذرہ بھر توجہ نہیں دی تم سب گناہ گار ہو تم میں کون ہے جس کی نیت میرے حق میں صاف ہے میری آنکھوں میں اپنے چہرے دیکھو تم صرف تبریز کو بچالو یہودی تاجر نے کہا لیکن اسے کیسے بچاؤ گی؟ 
اگر تم نے اسے بتایا کہ کیا ہونے والا ہے تو وہ ساری آبادی کو نہیں بتا دے گا؟ 
اور اگر تم اس کے پورے کنبے کو گھر سے نکل جانے کو کہو گی تو وہ وجہ نہیں پوچھیں گے؟ 
تم کیا بتاؤ گی؟ 
تم ایک مسلمان کو نیکی کا صلہ دیتے دیتے ان تمام مسلمانوں کو چوکنا کردو گی جو ہمارے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں مجھے اناڑی نہ سمجھو ویرا نے کہا میں صلیب کو دھوکہ نہیں دونگی
حملے کی شام ویرا تبریز کے گھر گئی اور اسے باہر لے گئی اس کے آدمیوں کو معلوم تھا کہ رات کو وہ اکثر کہاں چلی جاتی ہے اس نے انہیں بتا رکھا تھا کہ تبریز کو محبت کا دھوکہ دے کر وہ اس سے بھید لیتی ہے وہ اسے باہر لے گئی تو قصبے سے عیسائی اور یہودی دبے پاؤں نکلنے لگے انہوں نے ویرا کی تلاش میں ایک آدمی بھیجا جو اسے پکارتا رہا لیکن ویرا تبریز کو دور ہی دور لے جاتی رہی وہ اسے اتنی دور لے جانا چاہتی تھی جہاں سے اسے قصبے کا شور نہ سنائی دے ویرا کی تلاش میں جو آدمی گیا تھا وہ مایوس ہوکر واپس چلا گیا قصبے پر نیند کا غلبہ طاری ہوچکا تھا صلیبی فوج کے پیادے دبے پاؤں قریب آگئے تھے ان کی تعداد قصبے کی آبادی سے کئی گنا زیادہ تھی پیادہ فوج بالکل قریب آگئی تو عقب سے گھوڑ سوار بھی آگئے مسلمان گہری نیند سوئے ہوئے تھے فوج نے طغیانی کی طرح یلغار کردی فوجیوں نے مشعلیں جلا لی تھیں دو تین جھونپڑوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ روشنی ہوجائے صلیبی سپاہی دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوئے زیادہ تر مسلمان جاگنے سے پہلے ہی مارے گئے جو بروقت جاگ اٹھے اور ہتھیار اٹھا سکے انہوں نے مقابلہ کیا بعض لڑکیوں نے خودکشی کرلی صلیبی گھوڑ سواروں نے قصبے کو گھیر رکھا تھا کسی کو باہر کو بھاگتا دیکھتے تھے تو اسے برچھی یا تلوار کا شکار کرلیتے تھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تھی وہ چیخ وپکار اور شور جو چٹانوں میں بیٹھے ہوئے تبریز نے سنا تھا اس کا گھر تباہ ہوچکا تھا بچہ بچہ کٹ گیا تھا شاہ بالڈون نے مسلمانوں کی اس بستی سے بھی اپنی شکست کا انتقام لے لیا تھا
تم آج مجھے اتنی دور کیوں لے آئی ہو؟
تبریز نے پوچھا اور کہا تم آج بولتی کیوں نہیں؟ 
گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟
اس لیے کہ تم میرا ساتھ نہیں دو گے ویرا بہت ہوشیار لڑکی تھی کہنے لگی میں تمہیں کہیں اور لے جا رہی ہوں اسے خاموش دیکھ کر بولی کل واپس آجائیں گے
کہاں؟
کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں؟
ویرا نے اسے بازوؤں میں لے کر اس کا چہرہ اتنا قریب کرلیا کہ اس کے بکھرے ہوئے ریشمی بال تبریز کے گالوں کو چھونے لگے یہ وہی بال تھے جنہیں گف میں ڈھلا ہوا دیکھ کر تبریز نے اپنی ذات میں عجیب سا لرزہ محسوس کیا تھا اب تو ویرا کی محبت اس کے دل میں دور تک اتر گئی تھی اس پر خمار سا طاری ہوگیا ہم کب تک چوروں کی طرح ملتے رہیں گے؟ 
میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو مجھ سے ابھی یہ نہ پوچھو کہ میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں یہ سمجھ لو کہ ہم وہاں چلیں گے جہاں ہمارے درمیان مذہب کی دیواریں حائل نہیں ہوں گی تم مرد ہو مجھے دیکھو کمزور سی عورت ہوکر تمہاری محبت کی خاطر کتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہوں کمزور دراصل تبریز تھا ویرا اس کی عقل پر غالب آگئی تھی وہ اس کوشش میں تھی کہ تبریز اپنے قصبے میں واپس نہ جائے وہ جانتی تھی کہ وہاں اسے اپنے گھر کے جلے ہوئے کھنڈر اور گھر والوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں گی پھر وہ پاگل ہوجائے گا ہوسکتا تھا ویرا کو کسی شک کی بنا پر قتل ہی کردے ویرا کے دماغ میں کچھ اور آگیا تھا اس نے محبت کی خاطر اور طغیانی سے بچانے اور اسے باعزت حمص لانے کے صلے میں صلیبیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا تھا اور اب اپنے گھر کی بربادی دیکھنے کی اذیت سے بچانا چاہتی تھی اس نے تبریز کو اٹھا لیا اور چل پڑی تبریز اس کے ساتھ یوں جارہا تھا جیسے ہیپناٹائز کرلیا گیا ہو
صبح طلوع ہوئی تو حمص جلے ہوئے کھنڈروں میں تبدیل ہوچکا تھا وہاں کوئی مسلمان زندہ نہیں رہا تھا بڑی مسجد کے مینار کھڑے تھے خطیب اور اس کے ساتھی مقابلے کے بغیر شہید ہوگئے تھے اس وقت ویرا تبریز کو ساتھ لیے صلیبی فوج کی خیمہ گاہ تک پہنچ چکی تھی تبریز کا دماغ بیدار ہوگیا اس نے ویرا سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا لینے آئی ہے ویرا نے اس کے وسوسے اپنی زبان کے کمان سے رفع کردئیے اسے ایک طرف کھڑا کرکے اس نے ایک کمان دار سے بات کی کمان دار نے اسے کوئی راستہ سمجھایا ویرا تبریز کو ساتھ لیے ادھر چلی گئی
وہ جہاں پہنچے وہ شاہ بالڈون کی ذاتی خیمہ گاہ تھی جس پر محل کا گمان ہوتا تھا محافظوں نے بہت کچھ پوچھ کر ویرا کو بالڈون کے خیمے میں جانے دیا کچھ دیر بعد تبریز کو اندر بلایا گیا بالڈون نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا یہ لڑکی تمہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے اس نے ایسی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے ہم رد نہیں کرسکتے تمہیں کسی قسم کا شک یا ڈر نہیں ہونا چاہیے میں اپنا مذہب تبدیل نہیں کروں گا تبریز نے کہا تمہیں مذہب تبدیل کرنے کو کس نے کہا ہے ویرا نے کہا پھر کیا ہوگا؟
تبریز نے پوچھا میں یہاں رہ کر کیا کروں گا؟ 
مجھے واپس جانا ہے
تبریز! ویرا نے اسے اپنی طرف متوجہ کرکے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور کہا میں نے تمہیں کیا کہا تھا مجھے بھی وہیں جانا ہے جہاں تمہیں جانا ہے تبریز کچھ بھی نہ سمجھ سکا
عزالدین کا ایلچی سلطان صلاح الدین ایوبی کا جواب لے کر کب کا عزالدین کے پاس پہنچ چکا تھا سلطان ایوبی کی ہدایت کے مطابق عزالدین نے ابن لاعون سے ایک ملاقات کرلی تھی اور اسے یقین دلا دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ دوستی کر لے گا اور سلطان ایوبی کو دھوکہ دے گا اس نے ابن لاعون کو ایسے سبز باغ دکھائے تھے کہ وہ پوری طرح اس کے جھانسے میں آگیا تھا اس کے بعد ابن لاعون اسے ملنے قارا حصار آیا تھا قارا حصار زرخیز اور سرسبز علاقہ تھا جسے دیکھ کر ابن لاعون کے چہرے پر رونق آگئی تھی
اس سے چند ہی روز بعد سلطان ایوبی اپنی فوج کے ساتھ قارا حصار کے قریب جاکر خیمہ زن ہوا اس کی فوج تھکی ہوئی تھی لیکن وہ آرام میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا یہ خطرہ بھی تھا کہ حملے میں تاخیر ہوگئی تو ابن لاعون کو فوج کی آمد کی خبر مل جائے گی اسے توقع تھی کہ ابن لاعون کے ساتھ بڑا سخت مقابلہ ہوگا اس خطرے کے پیش نظر اس نے حلب کی فوج کو بھی بلا لیا تھا یہ اس معاہدے کے تحت تھا جو سلطان ایوبی نے الملک الصالح کو شکست دے کر اس کے ساتھ کیا تھا
آدھی رات سے کچھ دیر بعد سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو یلغار کے لیے کوچ کا حکم دیا انٹیلی جنس رپورٹوں سے معلوم ہوگیا تھا کہ آرمینیوں کی چوکیاں کہاں کہاں ہیں اور ان میں کتنی کتنی نفری ہے نفری جتنی بھی تھی وہ بے خبر پڑی تھی عزالدین کی طرف سے تو انہیں حملے کا خطرہ ہی نہیں تھا اور سلطان ایوبی کا وہاں اتنی خاموشی سے پہنچ جانا ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا سلطان ایوبی کی یلغار سہ طرفی تھی ہر حملہ آور کالم کے ساتھ عزالدین کے مہیا کیے ہوئے گائیڈ تھے سلطان اس کالم کے ساتھ تھا جس نے نہرالاسود (دریائے سیاہ) کی طرف سے حملہ کیا تھا
یہ دریا ابن لاعون کے ملک کی سرحد تھا اس پر کشتیوں کا پل بنا ہوا تھا دریا کے کنارے آرمینیوں کا قلعہ مخاضتہ الاحزان تھا ابن لاعون اسی قلعے میں مقیم تھا اسے سر کرنے سے تمام تر علاقہ فتح ہوسکتا تھا اسی لیے سلطان ایوبی اپنی فوج کے اس کالم کے ساتھ رہا اس کی قیادت سلطان ایوبی کا بھتیجا فرخ شاہ کر رہا تھا جو غیرمعمولی طور پر بہادر اور حرب وضرت کا ماہر تھا دوسرے دو کالموں نے چوکیوں پر حملے کرکے دشمن کی فوج کو ہلاک یا قید کرلیا اور چوکیوں کو آگ لگا دی دہشت پھیلانے کے لیے بعض بستیوں کو بھی آگ لگا دی گئی ابن لاعون کی آنکھ اس وقت کھلی جب سلطان ایوبی کے جانباز کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھ گئے تھے اور منجنیقوں سے وزنی پتھر پھینک کر قلعے کا دروازے توڑا جاچکا تھا قلعے میں فوج سوئی ہوئی تھی ابن لاعون دوڑ کر قلعے کے ایک مینار پر گیا دور اسے آگ کے شعلے نظر آئے وہ ابھی سوچ بھی نہ پایا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور وہ کیا کرے کہ سلطان ایوبی کا ایک جانباز جیش اس پر ٹوٹ پڑا اس کے محافظوں نے مقابلہ خوب کیا لیکن مارے گئے اور ابن لاعون کو قید کرلیا گیا صبح طلوع ہو رہی تھی جب ابن لاعون کو سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا کیا گیا سلطان ایوبی حکم دے چکا تھا کہ قلعے کو مسمار کردیا جائے اس کی فوج اس کام کے لیے کافی نہیں تھی عزالدین بھی سلطان ایوبی کے ساتھ تھا سلطان ایوبی کے کہنے پر ابن لاعون کے ہر طرف قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دئیے کہ تمام فوج ہتھیار ڈال کر قلعے کے قریب آجائے فوج کے آنے تک سلطان ایوبی نے عزالدین کے کہنے پر ابن لاعون کے ساتھ صلح کی شرائط طے کرلیں ان میں ایک یہ تھی کہ ابن لاعون اپنی آدھی فوج سلطان ایوبی کے حوالے کردے دوسری یہ کہ ابن لاعون کی فوج کی حد مقرر کردی گئی تیسری یہ کہ ابن لاعون سالانہ جزیہ دیتا رہے اور ایسی چند شرائط تھیں جنہوں نے ابن لاعون کو برائے نام حکمران رہنے دیا جب ابن لاعون کی فوج ہتھیار ڈال کر قلعے کے قریب اکٹھی ہوگئی تو سلطان ایوبی نے اس فوج کو حکم دیا کہ قلعے کو اس طرح مسمار کردے کہ اس کا یہاں نشان بھی نہ رہے شکست خوردہ فوج نے اسی وقت قلعہ مسمار کرنا شروع کردیا اور سلطان ایوبی اپنی فوج کو مصافہ نام کے ایک گاؤں کے قریب لے گیا اس نے حلب کی فوج واپس بھیج دی اور اپنی فوج کو آرام کی لمبی مہلت دی ابن لاعون کی جو آدھی فوج اس نے لے لی تھی وہ عزالدین کو دے دی مگر سلطان ایوبی کو معلوم نہ تھا کہ اس کی فوج کی خیمہ گاہ جو سلسلہ کوہستان کے دامن میں ہے اس کے اندر اور اس کی بلندیوں پر بالڈون کی فوج آچکی ہے اور وہ عقاب کی طرح اس پر جھپٹنے کو پر تول رہی ہے سلطان ایوبی نے اس علاقے میں دیکھ بھال کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کیونکہ اسے کسی فوج کا خطرہ نہیں تھا
تقریباً تمام مورخوں کی تحریروں سے حیرت کا اظہار ہوتا ہے کہ سلطان ایوبی نے عزالدین کے پیغام پر کیوں اپنا اتنا بڑا پلان تبدیل کرکے ابن لاعون جیسے غیر اہم حکمران پر فوج کشی کی جس میں اس نے بے شک فتح حاصل کی لیکن جو وقت اور جو فوج ضائع ہوئی اس کی قیمت زیادہ تھی ارنول نام کا مورخ لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی اردگرد کے خطروں کو کم کرنا چاہتا تھا اس وقت کے وقائع نگار جن میں اسد الاسدی قابل ذکر ہے لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی عزالدین کا پیغام پڑھ کر جذبات کے غلبے میں آگیا تھا بہرحال جنگ کے ماہرین نے سلطان ایوبی کے اس حملے کو سراہا نہیں وہ لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کو معلوم تھا کہ قریب ہی کہیں شاہ بالڈون کی فوج ہے جو سلطان ایوبی پر اس وقت حملہ کرسکتی تھی جب وہ ایک ہی رات میں حاصل کی ہوئی فتح کے مابعد کے انتظامات میں مصروف تھا مورخ اس پر بھی حیران ہیں کہ بالڈون نے اپنی فوج کو اس وقت پہاڑی علاقے میں جنگی ترتیب میں پھیلا دیا تھا جب سلطان ایوبی کی فوج پہاڑیوں کے دامن میں خیمے گاڑ رہی تھی شاہ بالڈون نے حملے میں تاخیر کی کسی بھی مورخ کو معلوم نہیں کہ یہ اس کی شاہانہ حماقت تھی یا کوئی مجبوری اگر وہ اسی وقت حملہ کرتا تو سلطان ایوبی کی حالت وہی ہوتی جو رملہ میں ہوئی تھی شکست اور پسپائی!
سلطان ایوبی کو وہاں خیمہ زن ہونے کے بعد بھی پتہ نہ چلا کہ شاہ بالڈون اس کے سر پر بیٹھا دانت تیز کر رہا ہے بلندیوں سے بالڈون کے دیکھ بھال والے آدمی سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے اور بالڈون کو بتاتے رہتے تھے یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ سلطان ایوبی کا جاسوسی اور دیکھ بھال کا نظام ڈھیلا پڑا گیا تھا
تبریز بھی اس فوج کے ساتھ تھا ویرا نے ابھی تک اسے بتایا نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ کیوں لے آئی ہے وہ شاید اسے عیسائی بنا کر جاسوس بنانا چاہتی تھی اس میں دونوں باتیں تھیں صلیب کی وفاداری بھی اور تبریز کی محبت بھی شاہ بالڈون کو تبریز کے ساتھ کوئی دلچسپی تھی یا نہیں اسے ویرا کے ساتھ گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی ایک روز ویرا نے بالڈون سے کہا تھا کہ وہ اسے اس کے ہیڈکواٹر میں بھیج دے جو عکرہ میں تھا بالڈون نے اسے روک لیا تھا
یہ اس جگہ کی باتیں ہیں جو حمص کے قریب تھی ایک روز بالڈون کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ سلطان ایوبی کی فوج تل خالد کو جارہی ہے بالڈون کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ سلطان ایوبی ابن لاعون پر حملہ کرنے جارہا ہے وہ اس علاقے سے واقف تھا اس نے فوراً اپنی فوج کو مصافہ کی پہاڑیوں کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا اس کا پلان یہ تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو ان پہاڑیوں میں گھسیٹ کر لڑائے گا اس پلان کے مطابق اس نے پہاڑیوں کی موزوں بلندیوں اور ڈھکی چھپی جگہوں میں اپنی فوج کو پھیلا دیا یہ بہت بڑے پیمانے کی گھات تھی
اس نے جب حمص کے قریب کی خیمہ گاہ سے کوچ کا حکم دیا تھا ویرا نے اسے کہا کہ وہ اس کے پاس پناہ لینے آئی تھی تبریز کے متعلق اس نے بالڈون کو ساری کہانی سنا کر بتایا تھا کہ وہ اسے کیوں ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہے اب جبکہ بالڈون لڑنے کے لیے جارہا تھا ویرا اور تبریز کا اس کے ساتھ رہنے کا کوئی مقصد نہیں تھا مگر بالڈون نے ویرا کو نہ جانے دیا میرے ہاں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں بالڈون نے کہا مگر تم پہلی لڑکی ہو جس نے میرے دل پر قبضہ کرلیا ہے تم میرے پاس ہوتی ہو تو مجھے روحانی سکون محسوس ہوتا ہے تم کچھ عرصہ اور میرے ساتھ رہو ویرا اپنے بادشاہوں کو اچھی طرح جانتی تھی بالڈون کی نیت کو سمجھنا اس کے لیے مشکل نہیں تھا اس نے صاف الفاظ میں اسے کہہ دیا اگر بات روحانی سکون کی ہے تو مجھے یہ سکون اس مسلمان سے ملتا ہے جس کا سارا کنبہ قتل کرا کے میں اسے ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہوں میں بتا نہیں سکتی کہ میں نے اسے اس کے کنبے کے قتل سے بے خبر رکھنے کا جو گناہ کیا ہے اس کا کفارہ میرا ضمیر مجھ سے کس طرح ادا کرائے گا
تمہاری بھی روح ہے؟
بالڈون نے طنزیہ کہا
تمہارا ضمیر ہے؟ 
راتیں مسلمان امراء کے ساتھ گزارنے والی گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی بھی سوچ سکتی ہے؟
آپ کے سامنے میں صرف جسم ہوں دلکش جسم ویرا نے کہا اور جب میں تبریز کے پاس ہوتی ہوں تو روح ہوتی ہوں پیار کی پیاسی روح
بالڈون بادشاہ تھا اس نے بادشاہوں کی طرح حکم دیا تم میرے ساتھ رہوگی اس نے دربان کو بلا کر کہا اس مسلمان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دو جو ہماری خیمہ گاہ میں رہتا ہے
اور جب بالڈون مصافہ کی پہاڑیوں میں پہنچا تب تبریز زنجیروں میں بندھا ہوا قیدی تھا اور ویرا ایسی قیدی جسے زنجیر نہیں ڈالی گئی تھی وہ محافظوں کے پہرے میں تھی یہاں آکر بالڈون اپنی فوج کے ڈیپلائے میں مصروف ہوگیا فارغ ہوا تو اس نے ویرا کو تڑپانا شروع کردیا۔m اس کا طریقہ یہ تھا کہ تبریز کو اپنے سامنے بلا لیتا ویرا کو سامنے کھڑا کر لیتا اور حکم دیتا کہ تبریز کو کوڑے مارے جائیں کوڑے تبریز کی پیٹھ پر پڑتے تو چیخیں ویرا کی نکل جاتی تھیں بالڈون ویرا سے کہتا تم اپنے آپ کو مجھ سے بچا نہیں سکتی میں تمہیں اس زبان درازی کی سزا دے رہا ہوں جو تم نے میرے ساتھ کی تھی
تبریز تو جیسے گونگا اور بہرہ ہوگیا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اسے یہ سزا ویرا دلا رہی ہے ویرا کی چیخوں اور آہ زاری سے وہ سمجھ گیا کہ ویرا بھی مظلوم ہے تبریز برداشت کرتا مگر ایک روز ویرا کی برداشت ٹوٹ گئی وہ بالڈون کے پاس چلی گئی اس کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی اور کہا کہ جب تک کہیں گے اور جس طرح کہیں گے آپ کے ساتھ رہوں گی تبریز کو چھوڑ دیں بالڈون کے حکم سے تبریز کی زنجیریں کھول دی گئیں اور اس کی مرہم پٹی کا انتظام کر دیا گیا ویرا شاہ بالڈون کی تنہائی کی رونق بن گئی چند دنوں بعد بالڈون نے رات شراب اور ویرا کے حسن سے بدمست ہوکر اسے کہا اگر میں صلاح الدین ایوبی کو تبریز کی طرح زنجیروں میں باندھ کر تمہارے سامنے کھڑا کردوں تو مان جاؤ گی کہ میں اتنا بوڑھا نہیں جتنا تم مجھے سمجھتی ہو؟
میں صلاح الدین ایوبی سے کہوں گی کہ میں ملکہ بالڈون ہوں ویرا نے کہا اپنی تلوار میرے قدموں میں رکھ دو
دو روز بعد میں تمہیں یہ کرکے دکھا دوں گا جو میں نے کہا ہے بالڈون نے کہا ممکن نظر نہیں آتا ویرا نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے میرے قدموں میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے؟
بالڈون نے کہا پرسوں صبح کی تاریکی میں ہم اس پر حملہ کریں گے پیشتر اس کے کہ اسے معلوم ہو کہ یہ کیا ہوا ہے وہ میرا قیدی ہوگا اسے میری موجودگی کا علم نہیں تبریز آزاد تھا اس کے متعلق بالڈون نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ چلا جائے رہے یا کیا کرے وہ شاہی مہمان بنا ہوا تھا صبح طلوع ہوئی تو ویرا تبریز کے خیمے میں گئی تبریز بے تابی سے اسے ملا اور اس پر برسا زیادہ باتوں کا وقت نہیں ویرا نے اسے کہا میں آج تمہارے احسان کا صلہ اور تمہاری محبت کا جواب دینا چاہتی ہوں میں جو کہتی ہوں وہ کرنا مجھ سے کچھ نہ پوچھنا میں نے بہت گناہ کیے ہیں تمہارا حمص تباہ ہوچکا ہے وہاں نہ جانا وہاں کھنڈر ہوں گے اور تمہیں وہاں اپنے گھر والوں کی ہڈیاں ملیں گی اس نے تبریز کو اس تباہی کی اور تبریز کو بچانے کی تفصیل سنا کر کہا تمہیں بالڈون کی فوج سے انتقام لینا ہے آج رات اس طرح پہاڑی علاقے سے نکل جاؤ کہ تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے صلاح الدین ایوبی کے پاس جاؤ اور اسے بتاؤ کہ صلیبی فوج تمہارے سر پر بیٹھی ہے اور پرسوں تم پر حملہ کرے گی  ویرا نے اسے بالڈون کے حملے کا سارا پلان بتا دیا اور کہا اب میری طرف نہ دیکھو ورنہ یہاں سے ہل نہیں سکو گے میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہماری منزلیں جدا جدا ہیں آج ہم دونوں نے اپنی اپنی منزل پا لی ہے
اگر ویرا اسے حمص کی تباہی اور قتل عام کی کہانی نہ سناتی تو تبریز وہاں سے اتنی جلدی نہ چلتا وہ آنکھوں میں آنسو لے کر ویرا سے جدا ہوا شام تاریک ہوتے ہی وہ چپکے سے نکلا اور بچتا بچاتا نکل آیا سلطان ایوبی کی فوج کی خیمہ گاہ میں آیا اور کہا کہ وہ سلطان کے پاس جانا چاہتا ہے اسے وہاں پہنچا دیا گیا سلطان ایوبی نے اس کی ساری داستان تحمل سے سنی اور اس سے بالڈون کی فوج اور اس کے پلان کے متعلق پوری اطلاع لی اس نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا اور ضروری احکام دئیے شاہ بالڈون نے تیسری رات کے آخری پہر سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ پر حملہ کیا مگر وہ صرف خیمے تھے فوج نہیں تھی اچانک فضا میں فلیتے والے تیروں کے شرارے اڑے اور خیموں پر گرے خیمے جن کے اندر خشک گھاس اور اس پر آتش گیر سیال چھڑکا ہوا تھا مہیب شعلے بن گئے بالڈون نے یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے مزید دستوں کو حملے کے لیے بھیجا ان پر دائیں اور بائیں سے تیروں کی بوچھاڑیں پڑیں صبح ہوگئی بالڈون کی اس فوج پر جو وادیوں میں چھپی ہوئی تھی حملہ ہوگیا تب بالڈون کو احساس ہوا کہ اس نے سلطان ایوبی کو بے خبری میں نہیں لیا بلکہ وہ خود سلطان ایوبی کی گھات میں آگیا ہے بالڈون ایک بلندی پر جا کھڑا ہوا اور اپنی فوج کا حشر دیکھنے لگا عقب سے اس پر تیر آئے مگر وہ اس کے دو محافظوں کو لگے وہ بھاگ کر نیچے اترا تو آگے سے سلطان ایوبی کے سپاہی آگئے بالڈون ایک تنگ سے راستے سے نکل بھاگا
اکتوبر ١١٧٩ء (٥٧٥ ہجری) کے اس معرکے میں بالڈون قیدی ہوتے ہوتے بچا سلطان ایوبی نے رملہ کی شکست کا انتقام لے لیا جس سے اس کی فوج کا حوصلہ بلند اور خود اعتمادی بحال ہوگئی اور ویرا اور تبریز تاریخ کی تاریکیوں میں روپوش ہوگئے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی