👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟟 𝟡⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟  𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رضیع خاتون کو خادمہ نے اطلاع دی کہ اسے اس کی بیٹی شمس النساء ملنے آئی ہے رضیع خاتون کی آنکھیں ٹھہر گئیں پھر ان آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ماں بیٹی اس وقت جدا ہوئی تھیں جب بیٹی کی عمر نو سال تھی اب بیٹی پندرہ سال کی ہو چکی تھی ماں کو دوڑ کر باہر نکل جانا اور اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی کو سینے سے لگا لینا چاہئے تھا مگر ماں نے غصے سے پوچھا وہ کیوں آئی ہے؟
آپ سے ملنے آئی ہے خاتون خادمہ نے کہا شاید آپ کے پاس واپس آ گئی ہے ماں پر خاموشی طاری ہوگئی خادمہ منتظر کھڑی تھی ماں نے کہا اسے کہو واپس چلی جائے اپنے غدار بھائی کے پاس جائے میرے سامنے آنے کی جرات نہ کرے یہ تو اس وقت بچی تھی جب آپ کا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا خادمہ نے کہا معصم بچی کو کیا معلوم تھا کہ بھائی اسے کہاں لے جا رہا ہے
میں جانتی ہوں اسے بھائی نے بھیجا ہے رضیع خاتون نے کہا اور میں یہ بھی جانتی ہوں کیوں بھیجا ہے میرا بیٹا غدار اور بے غیرت ہے میں بیٹی سے نہیں ملوں گی رضیع خاتون نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ تھی آپ اس سلسلے کی پچھلی اقساط میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ اسلام کی عظمت کا پاسبان نورالدین زنگی فوت ہوگیا تو اس کے امراء وزراء اور بعض فوجی حکام نے من مانی کرنے کے لیے اس کے بیٹے الملک الصالح کو سلطان بنا دیا تھا الملک الصالح کی عمر صرف گیارہ سال تھی شمس النساء اس کی چھوٹی بہن تھی عمر آٹھ نو سال تھی زنگی مرحوم کی سلطنت کے تحت بعض امراء اور قلعہ داروں نے خود مختاری کا اعلان کردیا اور وہ بغداد کی خلافت تک سے آزاد ہوگئے ان سب نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف محاذ قائم کرلیا اس وقت سلطان ایوبی مصر میں تھا زنگی محروم اور سلطان ایوبی کے خلاف ان امراء وغیرہ کو یہ شکایت تھی کہ ان دونوں نے عیش و عشرت ممنوع قرار دے رکھی تھی انہوں نے اپنے جینے کا مقصد صرف یہ بنا رکھا تھا کہ صلیبیوں کے عزائم کو تہس نہس کریں گے فلسطین کو آزاد کرائیں گے اور سلطنت اسلامیہ کو وسعت دیں گے باغی امراء پر صلیبیوں کے اثرات بھی تھے اسی لیے وہ عیش وعشرت کے دلدادہ تھے صلیبیوں کی بھیجی ہوئی لڑکیوں اور زر و جواہرات نے ان کا ایمان خرید لیا تھا نورالدین زنگی تو فوت ہوگیا تھا
اب یہ لوگ سلطان ایوبی کو شکست دے کر اس کی حکمرانی کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے زنگی مرحوم کی آدھی فوج باغی کر لی گئی تھی سلطان ایوبی کو اطلاح ملی تو وہ صرف سات سو سواروں کے ساتھ دمشق میں داخل ہوا شہریوں نے اس کا استقبال کیا شہر کہ قاضی نے اسے شہر کی چابی دے دی مگر فوج کا جو حصہ باغی تھا وہ لڑا یہ خانہ جنگی تھی نور الدین زنگی کی بیوہ سلطان ایوبی کی حامی تھی وہ اپنے خاوند کے مقاصد کی تکمیل چاہتی تھی
ایک ہی رات میں باغی فوج کو شکست ہوئی رات ہی رات الملک الصالح اس کا حاشیہ بردار امراء دو تین سالار اور باغی فوج دمشق سے بھاگ کر حلب چلے گئے المک الصالح اپنی بہن شمس النساء کو بھی ساتھ لے گیا جن امرا اور قلعہ داروں نے خود مختاری کا اعلان کیا ان میں حرن کا قلعہ دار گمشتگین اور موصل کا امیر سیف الدیں غازی خاص طور پر قابل ذکر ہیں المک الصالح  نے حلب کو اپنا دارالحکومت بنا لیا پھر یہ شہر اس کی فوج گمشتگین اور سیف الدین کی افواج کا مشترکا ہیڈ کوارٹر بن گیا ان سب کے پاس صلیبی مشیر آگئے ان کے ساتھ شراب اور لڑکیاں بھی آئیں جو صرف خوبصورت ہی نہیں تھیں بلکہ جاسوسی اور ذہنی تخریب کاری کی ماہر تھیں
صلیبیوں نے انہیں برائے نام جنگی مدد بھی دی اور اپنی پراپیگنڈا مشینری کو اسطرح استعمال کیا کہ ان کے دلوں میں سلطان ایوبی  کی مخالفت پختہ ہوگئی
نورالدین زنگی کی بیوہ رضیع خاتون دمشق میں رہی جہاں اس نے لڑکیوں کو فوجی ٹرننگ دینے کا انتظام کر لیا اور اس نے جہاں ضرورت پڑی ان لڑکیوں کو استعمال کیا وہ جوانی کی عمر میں تھی اسکا خاوند مر چکا تھا اس کے دو بچے تھے دونوں اس سے چھن گئے وہ معصوم بچے تھے اس نے سینے پر سل رکھ لی اور اپنے آپ کو یہ یقین دلا لیا کے اس کے بچے بھی مر گئے ہیں مگر کبھی کبھی ممتا ابھر آتی تھی اور اس کے آنسو نکل آتے تھے سلطان ایوبی نے اپنے جاسوس حلب حرن اور موصل بھیج دئیے تھے وہ بڑی خطرناک اطلاعیں بھیج رہے تھے وہاں صلیبیوں کی زیر نگرانی زور و شور سے سلطان ایوبی کے خلاف جنگی تیاریاں ہو رہی تھیں سلطان ایوبی نے مصر سے فوج بلا لی دمشق کی فوج کا بڑا حصہ اس کے ساتھ تھا اس نے پہلے تو تمام باغی امراء کو پیغام بھیجے کے وہ عظمت اسلام کی خاطر صلیبیوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور اسکا ساتھ دیں تاکہ صلیبیوں کو عالم اسلام سے بے دخل کر کے یورپ پر چڑھائی کی جائے مگر ان ایمان فروشوں نے سلطان ایوبی کے ایلچیوں کا مذاق اڑایا اور جواب دئیے بغیر واپس بھیج دیا گمشتگین نے جو قلعہ دار سے خود مختار حاکم بن گیا تھا سلطان ایوبی کے دو ایلچیوں کو قید میں ڈال دیا سلطان ایوبی نے پیش قدمی کی نور الدین زنگی کی بیوہ دمشق سے دور تک اسے رخصت کرنے گھوڑے پر سوار اس کے ساتھ گئی اور بوقت رخصت کہا اگر میرا بیٹا تمہارے تیر اور تلوار کی زد میں آئے تو بھول جانا وہ میرا بیٹا ہے وہ غدار ہے اس کی لاش ملے تو دفن نہ کرنا گدھوں اور گیدڑوں کے آگے پھینک دینا ماں کی آنکھیں خُشک تھیں لیکن سُلطان ایوبی کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے رضیع خاتون اُس سے چھوٹی تھی اُس نے سُلطان ایوبی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چُوما اور کہا اللّٰہ تمہیں فتح عطا فرمائے وہ بہت دیر تک  فوج کو جاتے دیکھتی رہی تھی
یہاں سے مُسلمانوں کی خانہ جنگی کا طویل اور خون میں ڈوبا ہوا دور شروع ہوگیا آپ اِن تمام لڑائیوں کی تفصیلات پڑھ چُکے ہیں جو سُلطان ایوبی کو مُسلمان امراء کے خلاف لڑنی پڑیں صلیبیوں نے یہ پلان بنایا تھا کہ مُسلمانوں کے خلاف لڑنے کی بجائے انہیں آپس میں لڑایا جائے اور ان کے اتحاد کے ساتھ ساتھ ان کی جنگی طاقت کو بھی ختم کیا جائے اس دوران انہوں نے حسن بن صباح کے فدائیوں سے سُلطان ایوبی پر قاتلانہ حملے بھی کرائے اللّٰہ نے ہر بار اسلام کی عظمت کے اس پاسبان کو بچا لیا مسلمان تین چار سال آپس میں لڑ لڑ کر مرتے رہے سُلطان ایوبی کو خدائے ذوالجلال نے ہر میدان میں فتح عطا فرمائی ایک لڑائی میں زنگی کی بیوہ کی بھیجی ہوئی سینکڑوں لڑکیوں نے بھی معرکہ لڑا اور معرکے کا پانسہ پلٹ دیا تھا مگر سُلطان ایوبی نے سختی سے حکم دے دیا کہ آئندہ کوئی بھی عورت میدانِ جنگ میں نہ آئے آخری معرکے میں سُلطان ایوبی حلب تک جا پہنچا اور حلب کا دفاعی قلعہ اعزاز لے لیا الملک الصالح نے اپنی بہن شَمسُ النساء کو اپنے ایلچیوں کے ساتھ سُلطان ایوبی کے پاس صلح کے معاہدے کے لیے بھیجا اور بہن سے یہ بھی کہلوایا کہ اعزاز کا قلعہ انہیں واپس دے دیا جائے سُلطان ایوبی نے بچی کو گلے لگا لیا الملک الصالح کی پیش کش منظور کرلیا اعزاز کا قلعہ بچی کو دے دیا چند اور شرائط طے کرکے الملک الصالح کو حلب کا نیم خود مختار حکمران رہنے دیا اِن شرائط میں یہ بھی تھا کہ سُلطان ایوبی کو جب بھی فوج کی ضرورت پڑے گی الملک الصالح اُسے فوج دے گا یہ صلح کا معاہدہ تھا گمشتگین کو الملک الصالح نے اپنے خلاف سازش کے جُرم میں مروا دیا تھا باقی امراء نے سُلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرل ۔پچھلی قسط میں آپ نے پڑھا ہے کہ سُلطان ایوبی نے قارا حصار کے حکمران ابن لاعون کو شکست دی اِس جنگ میں معاہدے کے مطابق حلب سے بھی فوج بھیجی گئی تھی اِس کے ساتھ ہی سُلطان ایوبی نے ایک صلیبی بادشاہ بالڈون جو سُلطان ایوبی پر حملہ کرنے آیا تھا بہت ہی بُری شکست دی بالڈون قید ہوتے ہوتے بچا اور اُس کی فوج کا انجام بہت ہی برا ہوا اب سُلطان ایوبی انہی علاقوں میں کہیں خیمہ زن تھا اور صلیبی اپنے جاسوسوں کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشِش کر رہے تھے کہ ان کی اگلی پیش قدمی کس طرف ہوگی
نومبر ١١٨١ء (رجب ۵۷۷ ھ) کا واقعہ ہے کہ الملک الصالح کی چھوٹی بہن شمس النساء حلب سے دمشق اپنی ماں کو ملنے آئی وہ ماں سے جدا ہوئی تو اس کی عمر آٹھ نو سال تھی اب وہ پندرہ سولہ سال کی کی جوان لڑکی تھی الملک الصالح سترہ اٹھارہ سال کا جوان ہو گیا تھا شمس النساء کے ساتھ محافظ بھی تھے خادمہ نے نور الدین زنگی کی بيوه کو بتایا کے اس کی بیٹی آئی ہے تو اس نے بیٹی سے ملنے سے انکار کر دیا خادمہ بھی عورت تھی اس نے رضیع خاتون کو قائل کرنے کے لیے مامتا کا واسطہ دیا اور کہا وه اتنی دور سے اتنے عرصے بعد آئی ہے اسے اندر بلا کر کہہ دیں کے وه چلی جائے مامتا مر چکی ہے رضیع خاتون نے کہا اتنے میں کمرے میں ایک نوجوان لڑکی داخل ہوئی اس کے چہرے بالوں اور کپڑوں پر گرد کی تہیں چڑھی ہوئی تھیں صاف پتہ چلتا تھا کے وه لمبے سفر سے آئی ہے رضیع خاتون نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور پوچھا تم کون ہو؟
لڑکی خاموش کھڑی رہی خادمہ ایک طرف ہٹ گئی رضیع خاتون آہستہ آہستہ آگے بڑھی اس کے بازو اپنے آپ ہی پھیلتے جا رہے تھے اس کے منہ سے سرگوشی نکلی تم میری بچی ہو شمس النساء میری شمسی وه آہستہ آہستہ آگے بڑھی جارہی تھی اور کہہ رہی تھی تم اتنی بڑی ہو گئی ہو شمس النساء دروازے کے پاس خاموش کھڑی رہی رضیع خاتون اپنی بیٹی سے دو تین قدم دور رہ گئی تو رک گئی اس کے پھیلے ہوئے بازو اس کے پہلوؤں میں گر پڑے اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی دو تین قدم آگے جانے کی بجائے وه دو تین قدم پیچھے ہٹ آئی اس کے دانت جو مسکرائے تھے غصے سے پسنے لگے مامتا جو اپنے آپ بيدار ہو گئی تھی اپنے آپ بجھ گئی تم یہاں کیوں آئی ہو؟ 
ماں نے دبی ہوئی مگر قہر بھری آواز میں پوچھا
ماں! شمس النساء نے رندھی ہوئی آواز میں کہا اور بازو پھیلا کر آگے بڑھی میں آپ سے ملنے آئی ہوں میں نے بارہ روز کی مسافت تین دنوں میں طے کی ہے
تم یہاں کیوں آئی ہو؟
ماں نے بلند آواز میں پوچھا اور کہا دور کھڑی رہو میں صلیبوں کے سائے میں پلی ہوئی لڑکی کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی
ماں! میری بات سن لو بیٹی نے منت کی میرے اوپر جو گرد پڑی ہے اسے دیکھو اس گرد سے مجھے مجاہدین اسلام کے خون کی بو آرہی ہے ماں نے کہا یہ ان مجاہدین کا خون ہے جو میرے بیٹے کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے یہ خانہ جنگی کا خون ہے
ماں! شمس النساء دوڑ کر آگے آئی اور ماں کے قدموں میں گر پڑی رو رو کر کہنے لگی بھائی الملک الصالح مر رہا ہے شاہد مرچکا ہے وه آپ کو بلا رہا ہے وه سخت تکلیف میں ہے اس نے مجھے بھیجا ہے اس نے کہا ہے کے ماں کو لے آؤ میں اس سے دودھ کی دھاریں اور گناہ بخشواؤں گا میں اسے دودھ کی دھاریں بخش سکتی ہوں ماں نے کہا اسے وه خون کون بخشے گا جو اُس نے مُسلمان کی اولاد ہوکر مُسلمانوں کا بہایا ہے ماں اپنے بیٹے کی غداری کا گُناہ نہیں بخش سکتی ماں وہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے شَمسُ النِساء نے کہا وہ آپ کے عَظیم شوہر کی نِشانی ہے اُس نے باپ کی عظمت کو صلیبیوں کے قدموں تلے پھینک دیا ماں نے کہا وہ سُلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر چُکا ہے شمسُ النِساء نے کہا اُن کی اب آپس میں کبھی لڑائی نہیں ہوگی کیا تم مجھے حلفیہ بتا سکتی ہو کہ اُس کے ہاں کوئی صلیبی موجود نہیں؟
ماں نے گرج کر بیٹی سے پوچھا کیا اُس کے حرم میں کوئی صلیبی اور یہودی لڑکی نہیں؟ 
وہ اب اٹھارہ سال کا جوان ہوگا اُس کے نیچے اب گھوڑا بھی محسوس کرتا ہوگا کہ پیٹھ پر کوئی مرد سوار ہے مجھے یقین دلا دو کہ اب میرے بیٹے کے دربار سے صلیب کے مکروہ سائے اُٹھ گئے ہیں تو تم نے بارہ روز کی جو مُسافت تین دنوں میں طے کی ہے وہ میں ڈیڑھ دن میں طے کرکے اپنے بیمار بیٹے کے پاس پہنچوں گی وہ اب کسی لڑکی کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہا ماں بیٹی نے کہا اُس کی زِندگی کے لیے دُعا کرو میں دُعا نہیں کروں گی ماں نے کہا اور بد دُعا بھی نہیں دوں گی س کی آواز کو جذبات نے دبا لیا وہ رقت میں دبی ہوئی آواز میں بولی ماں بد دُعا نہیں دیا کرتی لیکن  ماں کی آہوں کو خُدائے ذوالجلال نظر انداز بھی نہیں کیا کرتا میں روزِ محشر اُن ہزاروں شہدوں کی ماؤں بیویوں اور بیٹیوں کے آگے شرمسار بھی نہیں ہونا چاہتی جو میرے بیٹے کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں میں اُن شہیدوں کی مُقدس روحوں کو اپنی مامتا کے خون کا خراج دوں گی
وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے ماں بیٹی نے روتے اور چلاتے ہوئے کہا یہ بھی مجھے فریب نظر آتا ہے
ماں نے کہا مجھے معلوم ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حلب کو تہہ تیغ کرلیا تو اُس نے تمہیں صلاح الدین ایوبی کے پاس اعزاز کے قلعے کی بھیک مانگنے کو بھیجا تھا اُس عظیم سُلطان نے تُمہیں اپنی بچی سمجھ کر قلعہ تمہیں بخش دیا تھا الصالح خود سُلطان کے سامنے کیوں نہیں آیا تھا اُس نے شکست کھا لی تھی تو اُسے اپنے گناہوں سے شرمسار ہونا چاہیئے تھا اُسے خود آکر اپنی تلوار ایوبی کے قدموں میں رکھنی چاہیئے تھی ایوبی اُس کا دُشمن نہیں تھا اُسے وہ ماموں جان کہا کرتا تھا مگر اپنا ایمان نیلام کر دینے والوں میں اپنے گُناہوں کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوتی وہ بزدل اور فریب کار ہوجاتے ہیں عیار اور مکار ہوجاتے ہیں
پتھر دل نہ بنو ماں شمس النساء نے کہا ہر وہ شہید جو اس خانہ جنگی میں شہید ہوا ہے اس کی ماں نے دِل پر پتھر رکھا ہوا ہے ماں نے کہا وہ کسی کو بتاتے ہوئے شرمسار ہوتی ہیں کہ انہوں نے جو بیٹے اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجے تھے وہ آپس میں لڑ کر مارے گئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
میرا بیٹا وہ اس وقت بہت چھوٹا تھا ماں تو میرے پاس رہتا ماں نے کہا اس کا شعور حب بیدار ہوگیا تھا تو میرے پاس آ جاتا حلب سلطان ایوبی کے حوالے کر دیتا تم چلی جاؤ تم جلدی چلی جاؤ اگر اسلام کی مائیں جذبات میں الجھ گئیں تو اللّٰہ کی راہ میں کوئی بیٹا شہید نہیں ہوگا میں مامتا کو مار چکی ہوں مامتا شہید ہو چکی ہے مائیں اپنی بیٹیوں کو یوں رخصت کیا کرتی ہیں ماں؟
تو میرے پاس رہو ماں نے کہامگر اس شرط پر کہ میرے سامنے بھائی کا کبھی نام نہیں لوگی ماں یہ ممکن نہیں بیٹی نے کہا جس بھائی نے مجھے پالا پوسا ہے اس کا نام میں کیوں نہیں لوں گی تو اسی کے پاس پہلی جاؤ ماں نے کہا تم صلیبیوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئی ہو یہاں کی بیٹیوں کو دیکھو اسلام کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں میں جب انہیں جنگی تربیت دیتی اور انہیں ڈانتی اور جھڑکتی ہوں تو ڈرتی ہوں کہ ان میں سے کوئی مجھے یہ نہ کہہ بیٹھے کہ ذرا اپنی بیٹی کی بھی خبر لو کیا تم اس غلیظ حقیقت کو جھٹلا سکتی ہوکہ میرا بیٹا صلیبیوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پیتا ہے اور اس کے حرم میں صلیبی اور یہودی لڑکیاں ہیں؟
شمس النساء کا سر جھک گیا وہ انکار نہ کرسکی اپنی ماں کے گھر کا کھانا قبول کرلو اور جاؤ ماں نے کہا اگر میرا بیٹا زندہ ہوا تو اسے کہنا کہ ماں نے تمہیں دودھ کی دھاریں بخش دی ہیں مگر شہیدوں کا خون نہیں بخشا اسے کہنا کہ تمہارے سینے میں صلیبیوں کا تیر اتر گیا ہوتا اور تم سلطنت اسلامیہ کے جھنڈے کے سائے میں گر کر جان دیتے تو تمہاری ماں اڑ کر پہنچتی اور تمہاری لاش کو سینے سے لگا کر دمشق لاتی اور فخر سے کہتی کہ یہ ہے میرے شہید بیٹے کا مزار اب میں کیا کہوں؟ 
ماں کا فخر بیٹے نے چھین لیا ہے شمس النساء کچھ دیر خاموش کھڑی رہی اس کا سر جھکا ہوا تھا اس نے سر اٹھایا تو اس کے رخساروں پر گرد کی جو تہہ جمی ہوئی تھی اس میں سے آنسوؤں نے ندی کی طرح راستہ بنالیا تھا اس نے دوزانو ہوکر ماں کے کرتے کے دامن کو پکڑ کر چوما آنکھوں سے لگایا اور اٹھ کر کہا وہ میرا بھائی ہے بچپن کا ساتھی ہے شاید زندہ نہ رہے میں اس کے پاس ضرور جاؤں گی طبیبوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا میں اس کے کفن دفن کے بعد آپ کے قدموں میں آ بیٹھوں گی
کس لیے؟
ماں نے طنزیہ پوچھا 
اس بچے کو جنم دینے کے لیے جو اللّٰہ کی راہ میں شہید ہوگا بیٹی نے کہا آپ کے بیٹے کے عوض میں آپ کو ایک بچہ دوں گی جس کی قبر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر آپ فخر سے کہہ سکیں گی کہ یہ میرے شہید بیٹے کا مزار ہے میں آؤنگی ماں میں آؤں گی میری شادی کا انتظام کر رکھنا میں آنکھیں بند کرکے آئی تھی آنکھیں کھول کر جا رہی ہوں مجھے اجازت دو کہ بھائی کو اپنے ہاتھوں کفن پہنا سکوں الوداع ماں الوداع
لڑکی جو دبے پاؤں آہستہ آہستہ چلتی اندر آئی تھی 
سینہ پھیلا کر گردن تان کر لمبے لمبے ڈگ بھرتی کمرے سے نکل گئی رضیع خاتون اسے دیکھتی رہی دروازہ بند ہوا تو اس نے بازو پھیلا دیے اور وہ دروازے تک گئی اس کے منہ سے چیخ سی نکلی میری بچی اس نے دروازہ ذرا سا کھولا باہر سے اسے اپنی بچی کی آواز سنائی دی جو بڑی ہی گرجدار تھی بن آذر! تمام سواروں کو جلدی بلاؤ حلب کو واپسی کے لیے فوراً ذرا سی دیر بعد ماں نے ذرا سے کھلے ہوئے کواڑ میں سے دیکھا اس کی بیٹی گھوڑے پر سوار آٹھ سواروں کے آگے چلی جا رہی تھی جو اس کے حکم پر تیز ہو گئے رضیع خاتون نے کواڑ بند کر دیا اور اس کی ہچکی بندھ گئی خادمہ اندر آئی تو رضیع خاتون نے روتے ہوئے کہا وہ بھوکی چلی گئی ہے
یہ نومبر ١١٨١ء کا واقعہ ہے جب ماں بیٹی کی ملاقات ہوئی تھی دو سال پہلے کا واقعہ ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے ابن لاعون کو ایسی شکست دی کہ اس کا قلعہ اسی کی فوج کے جنگی قیدیوں سے اس طرح مسمار کرا دیا تھا کہ اس کا نام ونشان نہیں رہا تھا اس کا ملبہ دریا میں پھینک دیا گیا تھا اس کے فوراً بعد سلطان ایوبی نے صلیبی بادشاہ بالڈون کو شکست دی تھی یہ دراصل ایک مسلمان جاسوس کا کارنامہ تھا اس نے سلطان ایوبی کو بروقت اطلاع دے دی تھی کہ فوج فلاں پہاڑی مقام پر گھات میں بیٹھی ہے آپ نے ان دونوں جنگوں کی تفصیلات پچھلی قسط میں پڑھی ہیں
یہ بالڈون کی دوسری پسپائی اور پٹائی تھی اس سے پہلے وہ سلطان ایوبی کے بھائی العادل سے ایسی ہی شکست کھا چکا تھا اب سلطان ایوبی نے اسے اٹھنے کے قابل نہیں رہنے دیا تھا لیکن وہاں وہ اکیلا صلیبی بادشاہ نہیں تھا عالم اسلام میں کئی صلیبی افواج موجود تھیں ان کے حکمران دل سے ایک دوسرے کے خلاف تھے لیکن ان کا دشمن مشترک تھا اس لیے وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے ہر ایک کے دل میں یہی تھا کہ وہ اکیلا زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہوجائے اسی مقصد کے تحت بالڈون نے اکیلے العادل اور اس کے بعد سلطان ایوبی سے جنگیں لڑی تھیں اس کے پاس فوج اور وسائل کی کمی نہیں تھی اس کا اسلحہ بھی برتر تھا اور اس کے جانور بھی بہتر تھے لیکن ہار گیا کچھ عرصہ تو اسے بکھری ہوئی فوج اکٹھی کرنے میں لگ گیا اس دوران اسے اطلاع ملی کہ سلطان ایوبی ابن لاعون کو بھی شکست دے کر اس کی بادشاہی اور جنگی طاقت کمزور کر آیا ہے ابن لاعون آرمینی تھا آرمینی صلیبیوں کے دوست تھے ان کی شکست صلیبیوں کے لیے اچھی خاصی چوٹ تھی اس کے ساتھ ہی اسے اطلاع ملی کہ ابن لاعون کی سلطنت تل خالد اور اس کے قلعے قارا حصار پر حملے میں سلطان ایوبی کی فوج کے ساتھ الملک الصالح کی فوج کے دستے بھی تھے تو وہ بے چین ہوگیا یہ تو اسے اور دوسرے صلیبی حکمرانوں کو پتہ چل چکا تھا کہ سلطان ایوبی نے الملک الصالح کو شکست دے کر اپنا خودمختار امیر بنا لیا ہے مگر انہیں یہ توقع تھی کہ الصالح اس معاہدے پر عمل نہیں کرے گا یہ الصالح کی خصلت تھی وہ بظاہر سلطان ایوبی کے تابع ہوگیا تھا مگر اس نے صلیبیوں کے ساتھ مراسم نہیں توڑے تھے اب بالڈون کو پتہ چلا کہ الصالح نے سلطان ایوبی کو فوج دی تھی تو وہ یروشلم چلا گیا جہاں صلیبی بادشاہوں کا ہیڈکوارٹر بن گیا تھا دوسرا ہیڈکوارٹر عکرہ تھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان پھر متحد ہورہے ہیں؟
بالڈون نے صلیبی حکمرانوں اور جرنیلوں کی کانفرنس میں کہا الملک الصالح کو آپ لوگ اپنا اتحادی سمجھتے رہے اور اس نے اپنی فوج صلاح الدین ایوبی کو دے دی تھی ابن لاعون کی شکست ہماری شکست ہے فلپس آگسٹس نے کہا اگر آپ گھات میں بیٹھنے کی بجائے ابن لاعون کی مدد کو پہنچتے صلاح الدین ایوبی پر عقب سے حملہ کردیتے تو شکست اس کی ہوتی جس طرح آپ میں سے کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ صلاح الدین ایوبی نے پیش قدمی کا رخ بدل کر تل خالد کا رخ کرلیا ہے اسی طرح مجھے بھی معلوم نہ ہوسکا یہ آپ کے نظام جاسوسی کی کوتاہی ہے آف لوزینان نے کہا ہم بہت دور تھے دیکھ بھال اور جاسوسی کا انتظام آپ کو کرنا چاہیے تھا آپ قریب تھے سلطان ایوبی کی فوج آپ کے قریب سے گزر گئی آپ کو پتہ نہ چل سکا آپ گھات میں چھپے رہے مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایک مسلمان جاسوس ہے بالڈون نے کہا میں اسے بے ضرر آدمی سمجھتا رہا وہ میرا قیدی تھا مگر بھاگ گیا اور سلطان ایوبی کو گھات کی خبر دے دی لیکن اب یہ سوچنا ہے کہ ایوبی اور الصالح کا معاہدہ اور اتحاد کس طرح توڑا جائے کیا آپ مسلمانوں کی کمزوریوں کو بھول گئے ہیں یا انہیں نظر انداز کررہے ہیں؟
ایک اور صلیبی بادشاہ نے کہا اس وقت الصالح بچہ تھا جب ہم نے اس کے مشیروں امیروں اور سالاروں کو تحفے تحائف اور عیاشی کا سامان دے کر اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اب وہ جوان ہوگیا ہے اسے اب ہاتھ میں لینا زیادہ آسان ہے اپنا حربہ استعمال کریں اور مخصوص تحفہ اپنے ایلچی کے ہمراہ بھیج دیں اگر آپ جنگی قوت سے اسے ساتھ ملانے کی سوچ رہے ہیں تو یہ خیال ذہن سے نکال دیں
سلطان ایوبی کی فوج اس علاقے میں موجود ہے
العادل بھی اپنی فوج کے ساتھ یہیں ہے الصالح کے پاس اپنی فوج کے علاوہ حرن اور موصل کی فوج بھی ہے اگر آپ نے حلب پر حملہ کیا تو سلطان ایوبی تمام افواج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا اگر اس نے ہم پر فتح حاصل نہ کی تو یہ نقصان ضرور ہوگا کہ الصالح آپ کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا ہمیں فلسطین کا دفاع کرنا ہے ہم نے اپنی افواج کو مختلف جگہوں پر پھیلا دیا ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کدھر کا رخ کرتا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں ان حالات میں ہم آپ کی مدد نہیں کرسکیں گے آپ اپنے طور پر الصالح کو ہاتھ میں لے لیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
١١٨٠ء میں والئی موصل سیف الدین غازی مرگیا اس کی جگہ عزالدین مسعود نے امارت سنبھال لی اسی سال سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھائی شمس الدولہ طور ان شاہ سکندریہ میں فوت ہوگیا سلطان ایوبی مصر چلا گیا وہاں کے حالات پھر بگڑنے لگے تھے وہ اپنی فوج اپنے بھائی العادل کی زیر کمان پیچھے چھوڑ گیا تھا
١١٨١ء کا سال آگیا بالڈون نے اپنی فوج کی کمی پوری کرلی تھی اسے ٹریننگ بھی دے لی تھی اس نے اپنی فوج کو سلطان ایوبی کی چالوں کے مطابق جنگی مشقیں بھی کرائی تھیں وہ اگلی جنگ کے لیے تیار تھا لیکن الملک الصالح کو وہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا
الصالح اب بچہ نہیں جوان تھا سلطنت کے کاروبار کو وہ سمجھنے لگا تھا اس کی کمزوری اس کے مشیر اور سالار تھے جو درپردہ صلیبیوں کے حامی تھے جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرلی تھی مگر اس کے دماغ سے ابھی بادشاہی کا خبط نکلا نہیں تھا وہ خودمختار حکمران بننے کے خواب دیکھ رہا تھا ایک روز اسے اطلاع ملی کہ صلیبی بادشاہ بالڈون کا ایلچی آیا ہے اس نے فوراً اسے اندر لانے کی اجازت دے دی یہ ایلچی ذہنی تخریب کاری کا ماہر اور انسانی نفسیات کی کمزوریوں سے واقف تھا اس نے الملک الصالح کو بتایا کہ وہ کچھ تحفے بھی لایا ہے
تحفوں میں ایک تو بیش قیمت ہیروں اور جواہرات اور سونے کے سکوں کا بکس تھا دو تلواریں تھیں پچاس اعلیٰ نسل کے گھوڑے تھے اور ایک لڑکی تھی الصالح نے باہر جاکر گھوڑے دیکھے ہیرے اور جواہرات دیکھے لیکن جس تحفے پر اس کی نظریں جم کر رہ گئیں وہ لڑکی تھی وہ بہت دیر لڑکی کو ہی دیکھتا رہا اس کی اٹھتی جوانی کی تمام تر کمزوریاں ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئیں ایلچی نے اس کے ہاتھ میں بالڈون کا پیغام دیا جو عربی زبان میں لکھا ہوا تھا اس نے کچھ دیر تو پیغام کی طرف دیکھا ہی نہیں لڑکی اس کے خوابوں سے زیادہ حسین تھی
ایلچی نے پیغام کھول کر اس کے آگے رکھا اس نے پڑھا بالڈون نے لکھا تھا عزیز الملک الصالح والئی حلب میں ایلچی اور تحفوں کے بجائے اپنی فوج بھیج سکتا تھا لیکن میں آپ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا آپ میرے دوست اور میرے بچے ہیں ہم نے آپ کی مدد اس وقت کی ہے جب آپ بچے تھے اور صلاح الدین ایوبی آپ کی سلطنت پر قابض ہونے کے لیے آگیا تھا ہمیں افسوس ہے کہ گمشتگین اور سیف الدین نے آپ کو دوستی کے دھوکے میں رکھا ہم بھی اس دھوکے کو نہ سمجھ سکے اگر آپ اکیلے ہوتے تو آپ کی فوج کبھی شکست نہ کھاتی آپ نے دیکھ لیا ہے کہ گمشتگین کس قدر فریب کار تھا آپ کو اسے سزائے موت دینی پڑی سیف الدین نے بھی آپ کو ہمیشہ دھوکے میں رکھا وہ حلب پر قبضہ کرنا چاہتا تھا یہ ہم تھے جنہوں نے اسے ان عزائم سے باز رکھا
آپ نے آخر صلاح الدین ایوبی سے شکست کھائی جس نے آپ کو اس کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا آپ اتنے مجبور ہوئے کہ اسے آپ نے ابن لاعون پر حملہ کرنے کے لیے فوج دے دی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ جیسا غیور جنگجو اپنی یہ توہین برداشت نہیں کرسکتا مگر آپ تنہا تھے میں خود جنگ وجدل میں الجھا رہا ورنہ آپ کی مدد کو پہنچتا اب میں آپ کی طرف توجہ دینے کے قابل ہوگیا ہوں آپ نہ بھولیں کہ صلاح الدین ایوبی نے آپ کو ایسی خومختاری دی ہے جس کا مطلب غلامی ہے وہ آپ کو آہستہ آہستہ غلام بنا رہاہے اس نے عزالدین کی مدد کے لیے آرمینیوں کو شکست دی اور اسے اپنے احساس کی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے تمام چھوٹے چھوٹے امراء اس کی اطاعت قبول کرچکے ہیں اب اس کی نظر آپ کے علاوہ موصل اور حرن پر ہے
ذرا غور کریں کہ وہ مصر سے ہمارے خلاف لڑنے کے لیے فوج لایا تھا لیکن اس نے تل خالد پر جا حملہ کیا اور آپ سے بھی فوج لے لی اب وہ پھر مصر چلا گیا ہے اس کے جانے کا جو مقصد ہے وہ ہمارے جاسوس ہمیں بتا چکے ہیں وہ بے بہا خزانہ لے کر گیا ہے جو وہ قاہرہ اپنے خزانے میں رکھ کر واپس آئے گا اس نے آپ کو کیا دیا آپ کی فوج کو اس نے مال غنیمت میں کتنا حصہ دیا ہے؟ 
اس نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں کی؟ 
کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ آرمینیوں کی کتنی لڑکیاں وہ اپنے ساتھ لے گیا ہے؟
ان سوالوں کو اپنے ذہن میں الٹ پلٹ کریں آپ پر صلاح الدین ایوبی کے کردار اور اس کی نیت کی اصل حقیقت واضح ہوجائے گی آپ کے ساتھ ہماری کوئی دشمنی نہیں ہم اس خطے میں امن وامان قائم کرنے آئے ہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سلطان ایوبی یہاں سے ہمیں بے دخل کرکے یورپ پر حملہ کرنے اور اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی سوچ رہا ہے آپ کو اور دوسرے امراء کو وہ اپنی تھیلی کے سکے سمجھتا ہے اگر آپ نے اپنے دفاع کا انتظام نہ کیا تو آپ کا نام ونشان مٹ جائے گا ہم یہاں یورپ کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں اگر آپ میری بات سمجھ گئے ہیں تو مجھے جواب دیں میں اپنے مشیر بھیجوں گا جو آپ کی مالی اور جنگی ضرورت کا جائزہ لے کر مجھے بتائیں گے میں نے جو گھوڑے بھیجے ہیں یہ تحفہ ہے میں آپ کی فوج کے لیے ایسے سینکڑوں گھوڑے بھیج سکتا ہوں یورپ سے ہم نے جدید ہتھیار منگوائے ہیں وہ بھی آپ کو دئیے جائیں گے آپ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ نہ توڑیں درپردہ معاہدہ توڑ دیں اور اپنے دفاع کی تیاری کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں
الملک الصالح کے نوجوان اعصاب پر یہودیوں کی اتنی حسین اور دلکش لڑکی نے پہلے ہی قبضہ کرلیا تھا پیغام کے الفاظ جادو کی طرح اس کے دل میں اترتے گئے اس نے ایلچی کے آرام اور خوراک کا ایسا انتظام کرنے کا حکم دیا جیسے بالڈون خود آگیا ہو پھر اس نے اپنے آپ کو لڑکی کے حوالے کردیا اس نے اس سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں بھی دیکھی تھیں لیکن اس لڑکی کا جو انداز تھا اور اس کی جو مسکراہٹ تھی اس نے اس کے حسن میں طلسماتی اثر پیدا کر رکھا تھا 
الصالح اندھا ہوگیا رات کو لڑکی اس کی خواب گاہ میں آئی تو اس کے ہاتھ میں صراحی اور پیالے تھے یہ بھی تحفہ تھا لڑکی نے اسے بتایا کہ یہ فرانس کی شراب ہے جو صرف بادشاہوں کے لیے تیار کی جاتی ہے
آپ کے حرم میں تو کچھ بھی نہیں لڑکی نے اسے کہا کیا آپ ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ آپ کا حرم آباد ہو؟
میرے حرم کے لیے تم اکیلی کافی ہو الملک الصالح نے مخمور آواز میں کہا میں اپنے جیسی لڑکیوں سے آپ کا حرم بھر دوں گی لڑکی نے شراب کا پیالہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کیا یہ صحیح ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی ایک ہی بیوی ہے اور وہ کسی کو حرم میں عورتیں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا؟
ہاں! الصالح نے جواب دیا یہ صحیح ہے وہ شراب کی بھی اجازت نہیں دیتا آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا اپنا ایک خفیہ حرم ہے جس میں غیر معمولی طور پر حسین لڑکیاں ہیں ان میں مسلمان بھی ہیں یہودی بھی اور عیسائی بھی ہیں
فانون کی رنگین اور ہلکی ہلکی روشنی اور فرانس کی شراب کے نشے میں یہ لڑکی طلسم بن کر اس پر چھاتی چلی گئی اور ذرا سی دیر بعد وہ لڑکی کے ریشمی بالوں کی زنجیروں میں جکڑا گیا گناہ کی رات کی کوکھ سے سحر نے جنم لیا تو الصالح نے لڑکی سے کہا یہاں میری ایک بہن بھی ہے تم اس کے سامنے نہ آنا وہ ابھی پسند نہیں کرتی کہ میں شادی کے بغیر کسی لڑکی کے قریب جاؤں میں کسی وقت اسے بتاؤں گا کہ تم مسلمان ہو اور میرے ساتھ شادی کرنے آئی ہو
اپنی بہن کو آزاد کیوں نہیں کرتے؟
لڑکی نے کہا اسے مردوں میں اٹھنے بیٹھنے دیں وہ شہزادی ہے آپ بادشاہ ہیں صلاح الدین ایوبی آپ کی یہ حیثیت ختم کر رہا ہے ہم آپ کی بہن کو الگ سلطنت دے کر سلطانہ بنا دیں گے
الملک الصالح تصوروں میں بادشاہ بن گیا کیا خبر لائے ہو؟
بالڈون نے شراب کے نشے میں بدمست لہجے میں اپنے ایلچی سے پوچھا کیا میں کبھی ناکام بھی لوٹا ہوں؟
ایلچی نے جواب دیا اس نے الملک الصالح کے محل میں چار روز قیام کیا تھا اور بڑی لمبی مسافت طے کرکے ابھی ابھی واپس آیا تھا اس نے کہا مسلمانوں پر فوج کشی کرکے آپ اتنی جانیں ضائع کرتے اور اتنے زیادہ گھوڑے مرواتے ہیں مسلمانوں کے حکمرانوں سے صرف ایک لڑکی ہتھیار ڈلوا سکتی ہے صرف لڑکی نہیں بالڈون نے کہا مسلمان کو اگر لڑکی کا صرف تصور دے دو تو وہ اپنے نیک و بد کو بھول کر اسی تصور کا ہوجاتا ہے
کہو تم کیا کرکے آئے ہو؟
اس نے تحریری جواب نہیں دیا ایلچی نے کہا کہتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کے جاسوس اور چھاپہ مار ہر طرف گھومتے پھرتے رہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغام پکڑا جائے اس نے آپ کی ہر بات مان لی ہے وہ صلاح الدین ایوبی کا حامی نہیں البتہ گھبرایا ہوا تھا اور اپنے آپ کو ایوبی کے مقابلے میں تنہا سمجھتا تھا آپ کے پیغام نے اسے بہت حوصلہ دیا ہے اس نے کہا کہ آپ اپنے مشیر بھیج دیں لیکن عربی تاجروں کے لباس میں ہوں اور یہاں ہر کسی کو یہی بتائیں کہ وہ شاہی سطح پر تجارت کی بات چیت کرنے آئے ہیں
وہ کسی شک میں تو نہیں؟
بالڈون نے پوچھا آپ نے اسے یہودیوں کا جو تحفہ بھیجا ہے اس نے کسی شک کی گنجائش نہیں رہنے دی ایلچی نے جواب دیا میں نے وہاں چار روز قیام کیا ہے اس دوران میں اس کے سالاروں سے ملتا رہا ہوں اور اس کے دوسرے حاکموں سے بھی ملا ہوں ان میں بہت سے ایسے ملے ہیں جو ایوبی کے حق میں ہیں میں نے ان میں سے دو کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور انہیں وعدے دئیے ہیں چوری چھپے انہیں تحفے بھی دئیے ہیں وہاں صلاح الدین ایوبی کے جاسوس بھی موجود ہیں اس لیے کسی بات کو مخفی رکھنا ممکن نہیں تاہم الملک الصالح کو اپنے ہاتھ میں سمجھئے میں نے لڑکی کو ان دو جرنیلوں سے متعارف کروایا ہے جنہیں میں نے ہاتھ میں لیا ہے وہ اپنا کام کرتی رہے گی آپ اپنے آدمی جلدی روانہ کردیں
یہ ایلچی صرف ایلچی نہیں تھا بتایا جاچکا ہے کہ انسانی نفسیات سے کھیلنے والا استاد تھا اس نے کہا صلاح الدین ایوبی اپنے افسروں کو اور اپنی قوم کو نصیحت اور وعظ کرتا رہتا ہے کہ بادشاہی کے خواب دولت اور عورت ایسی بدعتیں ہیں جو انسان کے ایمان کو ختم کردیتی ہیں اسے معلوم نہیں کہ جب یہ تینوں بدعتیں کسی عالم فاضل کے سامنے آجائیں تو اس کے بھی ایمان کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں یہ انسانی کمزوریاں ہیں ان کے سامنے وعظ بے کار ہوجاتے ہیں
بالڈون نے اسی وقت تین مشیر تیار کرلیے تجارتی سامان سے لدے ہوئے بہت سے اونٹوں کا ایک قافلہ حلب میں الصالح کے محل سے ذرا ہی دور رکا اس کے ساتھ کئی ایک آدمی تھے ان میں سے تین آدمی جو عربی لباس میں تھے محل کی طرف چل پڑے دربانوں نے انہیں روک لیا تاجر الملک الصالح سے ملنا چاہتے تھے کہتے تھے کہ وہ ہیرے اور کچھ اور بیش قیمت سامان لائے ہیں جو بادشاہ خریدتے ہیں اور وہ حلب کے ساتھ تجارت کرنے کی بات چیت کریں گے محافظوں کے کمانڈر ابن خطیب نے انہیں سر سے پاؤں تک دیکھا ان کی باتوں میں دلچسپی لے کر انہیں بے تکلفی سے بولنے کا موقع دیا وہ ان کی آنکھوں کا سبز اور نیلا رنگ اور چہرے کی رنگت کو غور سے دیکھتا رہا اسے معلوم تھا کہ تجارت کی بات چیت براہ راست بادشاہ کے ساتھ کبھی بھی نہیں ہوئی وہ انہیں الگ لے گیا آپ اپنا اصل مقصد بتائیں ابن خطیب نے پوچھا ہم اپنا مقصد بتا چکے ہیں 
یروشلم سے آئے ہو یا عکرہ سے؟
ابن خطیب نے پوچھا
ہم تاجر ہیں ایک نے جواب دیا ہم ہر ملک میں جاتے ہیں یروشلم اور عکرہ بھی جاتے ہیں تم کس شک میں ہو؟
شک میں نہیں ابن خطیب نے کہا مجھے یقین ہے میں آپ تینوں کو جانتا ہوں آپ مجھے نہیں جانتے میں آپ کا آدمی ہوں میرا نام ابن خطیب ہے لیکن میرا نام کچھ اور ہے ہرمن اچھی طرح جانتا ہے
ہرمن صلیبیوں کے جاسوسی اور سراغ رسانی کے نظام کا سربراہ اور اس فن کا ماہر تھا ابن خطیب نے کوئی خفیہ لفظ بولا جو صلیبیوں کے جاسوس ایک دوسرے کی شناخت کے لیے بولا کرتے تھے تاجر جو دراصل بالڈون کے بھیجے ہوئے مشیر تھے مسکرائے انہیں بتایا گیا تھا کہ الملک الصالح کے ہاں صلیبی جاسوس موجود ہیں ابن خطیب نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ انہی کا جاسوس ہے آپ اسی مقصد کے لیے آئے ہیں؟
ابن خطیب نے پوچھا مجھ سے نہ چھپائیں ورنہ آپ کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا
ہاں! ایک صلیبی نے کہا اسی مقصد کے لیے اور ہمیں یہ بتاؤ کہ صلاح الدین ایوبی کے جاسوس محل میں موجود ہیں؟
موجود ہیں لیکن ان پر ہماری نظر ہے ابن خطیب نے کہا ان سے ہم آپ کو چھپائے رکھیں گے لیکن مجھے آپ کے مقصد سے پوری واقفیت ہونی چاہیے ان تینوں نے اپنے خفیہ الفاظ اور طریقوں سے یقین کرلیا کہ ابن خطیب انہی کا آدمی ہے انہوں نے اسے اپنا مقصد بتا دیا ابن خطیب نے اندر جاکر الملک الصالح کو اطلاع دی کہ تاجر شرف ملاقات چاہتے ہیں
تم محافظ دستے کے نئے کمان دار ہو؟
الملک الصالح نے پوچھا
جی حضور! اس نے جواب دیا
کہاں کے رہنے والے ہو؟
اس نے کسی گاؤں کا نام لیا تو الملک الصالح نے کہا ہم ہر وقت ہر کسی سے نہیں مل سکتے آئندہ خیال رکھا جائے ان تینوں کو اندر بھیج دو اس نے باہر جاکر تینوں کو اندر جانے کو کہا اور آنکھ مار کر ہدایت کی کہ بہت سنبھل کر بات کریں
رات عشاء کی نماز کے بعد ابن خطیب جامع مسجد کے امام کے پاس بیٹھا ہوا تھا دو اور آدمی بھی تھے
اب اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ الملک الصالح ایک بار پھر صلیبیوں کے جال میں آرہا ہے
ابن خطیب نے کہا میں نے آپ کو پہلے ایلچی اور تحفوں کی اطلاع دی تھی وہ صلیبیوں کی طرف سے آئے تھے اور ساتھ ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی آج پتہ چل گیا ہے کہ وہ ایلچی بالڈون کی طرف سے آیا تھا آج تین تاجر الملک الصالح سے تجارت کی بات چیت کرنے کے لیے آئے ہیں آپ جانتے ہیں کہ میں نے دو سال بیت المقدس میں صلیبیوں کے درمیان رہ کر جاسوسی کی ہے ان تینوں کے چہرے اور زبان کا لہجہ بتاتا تھا کہ انہوں نے جو عربی لباس پہن رکھا ہے یہ بہروپ ہے میں نے ان کا جاسوس بن کر ان کا اصل روپ دیکھ لیا ہے
بیت المقدس کی جاسوسی نے آج مجھے بہت فائدہ دیا ہے میں ان کے خفیہ (کوڈ) الفاظ جانتا ہوں اور خفیہ اشارے بھی محترم علی بن سفیان کی تربیت کی برکت آج دیکھی ہے
ابن خطیب سلطان ایوبی کا جاسوس تھا جو تھوڑا ہی عرصہ گزرا حلب میں آیا اور الملک الصالح کے ایک ایسے نائب سالار کی کوشش سے محافظ دستے کا کمانڈر بنا دیا گیا جو سلطان ایوبی کا حامی تھا ابن خطیب علی بن سفیان کا خصوصی پر ذہین اور بے خوف جاسوس تھا
وہ دو سال بیت المقدس میں صلیبی بادشاہوں اور جرنیلوں کے ہیڈکوارٹر میں رہا اور اس نے کامیاب جاسوسی کی تھی جامع مسجد کا امام ان تمام تر جاسوسوں کا کمانڈر تھا جو سلطان ایوبی نے حلب میں بھیج رکھے تھے عشاء کی نماز کے بعد جسے کوئی رپورٹ دینی ہوتی وہ مسجد میں جاکر امام کو دیتا تھا امام اپنے طور پر تصدیق کرکے رپورٹ سلطان ایوبی تک پہنچا دیتا تھا ابن خطیب بڑی ہی قیمتی رپورٹ لایا تھا
اتنے میں ایک ادھیڑ عمر عورت آگئی وہ سر سے پاؤں تک سیاہ برقع نما کپڑے میں مستور تھی اندر آکر اس نے چہرہ بے نقاب کیا اسے دیکھ کر سب ہنس پڑے وہ الملک الصالح کی خادمہ تھی یہ اس کی خواب گاہ کی دیکھ بھال کرتی اور اس کی درپردہ زندگی کی راز دان تھی
وہ اسی روز امام کو رپورٹ دے چکی تھی کہ صلیبیوں کی طرف سے الملک الصالح کے پاس ایک لڑکی آئی ہے جو شکل وصورت جسم رنگ نازو ادا اور زبان کی چاشنی کے لحاظ سے سرتا پا ایسا جادو ہے جس سے کوئی زاہد اور پرہیز گار بھی نہیں بچ سکتا وہ امام کو بتا چکی تھی کہ الصالح کا باقاعدہ حرم نہیں لیکن اس کی راتیں عورت کے بغیر نہیں گزرتیں عورت اس کی کمزوری بن گئی ہے مگر اس لڑکی نے جو مجھے یہودی معلوم ہوتی ہے الصالح کو اپنا غلام بلکہ قیدی بنا لیا ہے خادمہ نے کہا وہ اتنا پاگل ہوگیا ہے کہ مجھ سے باچھیں کھلا کر پوچھتا ہے یہ لڑکی تمہیں پسند ہے؟ 
میں اس کے ساتھ شادی کر لوں؟
میں نے ایک بار اسے کہا کہ اپنی بہن سے پوچھ لیں اس نے مجھے سختی سے کہا کہ اس کی بہن کے ساتھ ذکر نہ کروں خادمہ بھی جاسوس تھی اس نے تفصیل سے بتایا کہ الملک الصالح پوری طرح اس لڑکی کے جال میں آگیا ہے اب کوئی اور لڑکی اس کی خواب گاہ میں داخل نہیں ہوسکتی اب سوچنا یہ ہے کہ اسی وقت سلطان ایوبی کو اطلاع دے دی جائے یا دیکھ لیا جائے کہ صلیبی کیا کرتے ہیں یا الصالح سے کیا کرواتے ہیں امام نے کہا میری رائے ہے کہ الصالح کوئی ٹھوس کارروائی کرلے جو معاہدے کے خلاف ہو تو سلطان کو اطلاع دی جائے سلطان مصر چلے گئے ہیں ایک اور نے کہا جو بوڑھا تھا اور دانش مند معلوم ہوتا تھا ادھر العادل ہیں وہ سلطان سے حکم منگوائے بغیر کوئی کارروائی نہیں کریں گے اتنے عرصے میں یہاں کے حالات ایسے ہوسکتے ہیں جو شاید قابو سے نکل جائیں کیوں نہ کوئی ایسی کارروائی سوچی جائے جو اس سلسلے کو یہیں پر ختم کردے میں آپ کو ایک مشورہ دیتی ہوں خادمہ نے کہا الصالح کی توجہ صرف لڑکی پر ہے وہ بھلا برا سوچنے کے بھی قابل نہیں رہا یہ لڑکی دن کے وقت بھی اسے شراب میں مدہوش رکھتی ہے بدبخت پہلے بھی پیتا تھا لیکن صرف رات کو پیتا تھا اور اتنی زیادہ اس نے کبھی نہیں پی تھی نشے کی حالت میں وہ اپنی بہن کے سامنے نہیں ہوتا تھا اسے دن کو ملتا تھا اب یہ حالت ہے کہ جب پوچھتی ہے تو میں کہہ دیتی ہوں کہ سلطنت کے کام ایسے ہیں کہ الصالح کو فرصت نہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ لڑکی کو غائب کردیا جائے تو الصالح کے ہوش ٹھکانے نہیں رہیں گے میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکے گا کہ صلیبیوں سے کوئی بات کرے یا نہ کرے
اس کارروائی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا ابن خطیب نے کہا کہ وہ تاجروں کو بھی غائب کرسکتا ہے یہ فیصلہ ہوا کہ موقعہ دیکھ کر پہلے لڑکی کو غائب کیا جائے مگر یہ کام آسان نہیں تھا بلکہ ناممکن تھا تاہم انہوں نے اسی کارروائی کا فیصلہ کرلیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی