⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟝 𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کا رنگ اچھا قدبت اور زیادہ اچھا اور چہرہ دل کش تھا دماغی لحاظ سے وہ تیز اور ہوشیار تھا وہ گھوڑے کی سواری کا اتنا ماہر تھا کہ فوجی نمائشوں اور میلوں میں حیران کر دینے والے کرتب دکھایا کرتا تھا اداکاری میں بھی مہارت رکھتا تھا اس نے سیاہ ریش کے سامنے اپنے آنسو نکال لیے تھے وہ عیسائی نام سے عکرہ میں داخل ہوا تھا اور اس نے وہاں کوئی اپنی دردناک کہانی سنائی تھی اور بتایا تھا کہ وہ حلب کی مسلمان فوج میں نئے سپاہیوں کو گھوڑ سواری اور رسالے کی لڑائی کی ٹریننگ دیا کرتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس کی نوجوان بہن کو اغوا کرکے اسے فوج سے نکال دیا
اس کی اداکاری سے متاثر ہوکر اسے سواری کی ٹریننگ دینے کے لیے رکھ لیا گیا لیکن اس کے شاگرد فوجی نہیں تھے بلکہ جوان لڑکیاں تھیں اور بڑے بڑے فوجی افسروں کے لڑکے اسے پتہ چلا کہ ان لڑکیوں کو مسلمان علاقوں میں جاسوسی کے لیے تیار کیا جارہا ہے پھر مرد بھی اس کے حوالے کیے جانے لگے یہ سب صلیبی جاسوس تھے وہ ان میں گھل مل گیا تھا اور ان سے اسے بڑی قیمتی معلومات مل جاتی تھیں
یہ لڑکی جو اب قاہرہ کے مضافات کے ایک گاؤں میں اسے کہہ رہی تھی کہ اب نہیں نکل سکو گے عکرہ میں اس کی شاگرد تھی وہ جاسوسی کا تجربہ رکھتی تھی گھوڑ سواری نہیں جانتی تھی علی بن سفیان کا یہ جاسوس اسے اچھا لگنے لگا تھا پھر استادی شاگردی بڑے گہرے لگاؤ کی صورت اختیار کرگئی لڑکی نے یہاں تک ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اس آدمی کی خاطر جاسوسی جیسا ذلیل پیشہ ترک کردے گی اور اس کی بیوی بن کر باعزت زندگی گزارنے لگے گی اس مسلمان جاسوس نے محبت کا جواب محبت سے دیا تھا لیکن اپنے فرض کو نظرانداز نہیں کیا تھا لڑکی نے اپنے کام میں دلچسپی لینی چھوڑ دی تھی وہ اس آدمی کی ہو کے رہ گئی تھی
ایک روز عکرہ میں دو مسلمان جاسوس پکڑے گئے ان میں سے ایک نے اپنے گروہ کے ان تمام آدمیوں کی نشاندہی کردی جنہیں وہ جانتا تھا ان میں یہ جاسوس بھی تھا عجیب بات یہ ہوئی کہ اسی لڑکی نے اس سے پوچھا تم جاسوس تو نہیں ہوسکتے تم مسلمان تو نہیں؟
مجھے پتہ چلا ہے کہ یہاں کا جاسوسی کا محکمہ تمہارے متعلق تفتیش کررہا ہے اور تم پر نظر رکھی جارہی ہے
وہ ہنس پڑا اور الزام کی تردید کی مگر بے چین ہوگیا رات کو وہ اپنے زمین دوز کمانڈر سے ملا کمانڈر نے اسے بتایا کہ گروہ کے بہت سے آدمیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے اور بہتر ہے کہ وہ یہاں سے نکل جائے وہ کمانڈر کے گھر سے نکلا تو اسے پتہ چل گیا کہ دو آدمی اس کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں یہ تعاقب تھا وہ چلتا گیا اور اصطبل میں گیا ایک گھوڑے پر زین کسی تو دونوں آدمی آگئے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے وہ پھرتیلا اور ہوشیار تھا کود کر گھوڑے پرسوار ہوا اور ایڑی لگا دی ایک آدمی اس کے گھوڑے تلے کچلا گیا وہ عکرہ سے نکل آیا میں نے تمہیں پہچان لیا ہے اس نے لڑکی سے کہا وہ ایک دوسرے کو تین سال بعد دیکھ رہے تھے اس نے کہا مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے تھا تم آخر جاسوس ہو تین سال پہلے میں نے تمہاری محبت کے دھوکے میں آکر جاسوسی چھوڑ دینے کا عہد کیا تھا لڑکی نے کہا تم اگر مجھے بتا دیتے کہ تم مسلمان ہو اور جاسوس ہو تو بھی میں تمہیں دھوکہ نہ دیتی شاید تمہارے ساتھ آجاتی تمہارے بھاگ آنے کے بعد جب مجھے پتہ چلا تھا کہ تم مسلمان جاسوس تھے تو مجھے دکھ نہیں ہوا تھا تمہارے کھو جانے کا بہت غم تھا کیا اب تمہارے دل میں میری محبت نہیں؟
جاسوس نے پوچھا تم اب میرے ملک میں ہو میرے ساتھ آؤ یہاں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا محبت اب بھی ہے لڑکی نے کہا مگر اس پر فرض غالب آگیا ہے یہ تمہارا جرم ہے میں نے تو تمہاری محبت کی خاطر جاسوسی چھوڑ دینے کا ارادہ کرلیا تھا مگر تم نے میرے ارادوں کو کچل ڈالا اور جاسوسی کی غلاظت میں مجھے ڈبو آئے تین سال گزر گئے ہیں اتنی لمبی مدت میں میں اپنے آپ کو بری طرح ناپاک کرچکی ہوں اسلام کے خلاف نفرت میری روح میں اترگئی ہے اب نہیں اب تم میرے قیدی ہو میں اپنے گروہ کو دھوکہ نہیں دے سکتی میں جس آدمی کے ساتھ آئی ہوں اسے میں نے ہی بتایا تھا کہ تم جاسوس ہو میں نے اسے عکرہ کی ساری بات سنا دی تھی اگر میں تمہیں صحن میں گزرتے اتفاق سے نہ دیکھ لیتی تو ہم سب گرفتار ہوچکے ہوتے تمہیں میں نے پکڑوایا ہے یہ آدمی جو غیب دان اور مرشد بنا ہوا ہے مسلمان ہے یا صلیبی؟
جاسوس نے پوچھا
اب پوچھ کر کیا کرو گے؟
لڑکی نے پوچھا
جاسوسی ایک عادت بن گئی ہے جاسوس نے کہا مرنے سے پہلے جاننا چاہتا ہوں اب یہ راز باہر تو نہیں لے جاسکوں گا یہ مسلمان ہے لڑکی نے کہا مسلمانوں کی کمزوریوں سے واقف ہے استادوں کا استاد ہے
کمرے کا دروازہ کھلا سیاہ ریش ایک آدمی کے ساتھ اندر آیا لڑکی سے بولا اگر تمہاری بات پوری ہوگئی ہے تو باہر نکل جاؤ لڑکی جاسوس کو گہری نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئی سیاہ ریش نے جاسوس سے پوچھا مجھے صرف یہ بتا دو کہ میرا راز کس کس کو معلوم ہے کیا تم نے علی بن سفیان کو بتا دیا ہے کہ میں مشکوک آدمی ہوں؟
نہیں جاسوس نے جواب دیا میں جاسوس ضرور ہوں جاسوسی کے خیال سے یہاں نہیں آیا تھا
سیاہ ریش کے ہاتھ میں چمڑے کا چابک (ہنٹر) تھا اس نے پوری طاقت سے جاسوس کو مارا اور کہا میں سچی بات سننا چاہتا ہوں دروازہ زور سے کھلا وہی لڑکی اندر آئی اس نے سیاہ ریش کے دونوں بازو پکڑ کر التجا کی اسے مارو مت سب کچھ بتا دے گا میں کچھ نہیں بتاؤں گا جاسوس نے کہا سیاہ ریش نے چابک گھمایا تو لڑکی دوڑ کر جاسوس کے آگے ہوگئی چلا کر بولی مارو نہیں اس کے جسم کی چوٹ میرے دل کا زخم بن جائے گی تم اسے بچانا چاہتی ہو؟
دوسرے آدمی نے گرج کر پوچھا نہیں لڑکی نے روتے ہوئے کہا یہ کچھ نہ بتائے تو تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سرتن سے جدا کردو اذیت دے کر نہ مارو لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے گئے پھر جاسوس پر تشدد شروع ہوگیا اسے رات بھر سونے نہ دیا گیا اس سے بہت کچھ پوچھا جارہا تھا اسے بہت کچھ بتایا جارہا تھا مگر وہ بت بنا چوٹ پر چوٹ کھا رہا تھا سحر کا وقت تھا لڑکی پھر اس کمرے میں آگئی اس وقت جاسوس نیم غشی کی حالت میں تھا وہ فرش پر پڑا تھا اب اسے تلوار کی نوک جگہ جگہ چبھوئی جارہی تھی لڑکی اس کے اوپر لیٹ گئی اور چیخنے لگی یہ میں برداشت نہیں کرسکتی میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ یہ میری پہلی اور آخری محبت ہے اس کی اذیت میری اذیت ہے یہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے میں اپنا فرض ادا کر رہی ہوں ہمارے لیے یہی کافی ہے اسے جان سے مار دو اذیت نہ دو جاسوس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے اوپر پڑی لڑکی کو بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا اور مری ہوئی آواز میں بولا تم چلی جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں اپنے فرض سے بھٹک جاؤں یہ اذیتیں میرے فرض کا حصہ ہیں تم اپنے مذہب پر قربان ہو جاؤ مجھے اپنے مذہب پر قربان ہوجانے دو لڑکی پاگل ہوئی جارہی تھی اسے ایک بار پھر گھسیٹ کر باہر لے گئے سیاہ ریش نے حکم کے لہجے میں کہا اس بدبخت لڑکی کو کسی کمرے میں بند کردو دن آدھا گزر چکا تھا علی بن سفیان اس جاسوس کے انتظار میں بیزار ہوا جارہا تھا ایک روز پہلے اس نے جس آدمی کو سفید داڑھی کے بہروپ میں پکڑا تھا اسے بھی گزشتہ رات قید خانے میں ایسی ہی اذیتیں دے کر اس سے کہلوا لیا گیا تھا کہ یہ سیاہ ریش کون ہے اور اس کی اصلیت اور اس کا مشن کیا ہے دن کے پچھلے پہر علی بن سفیان نے اس شک کی بناء پر کہ اس کا جاسوس پکڑا نہ گیا ہو فوج کا ایک چھاپہ مار جیش تیار کیا اس مکان کے متعلق پتہ چل ہی چکا تھا کہ تخریب کار جاسوسوں کا اڈہ بن گیا ہے چھاپہ مار اس قدر تیزی سے آئے کہ گاؤں میں کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا وہ گھوڑوں سے اتر کر بندروں کی طرح مکان کی دیواریں پھلانگ گئے دروازے توڑ دئیے گئے اندر جتنے آدمی تھے انہیں پکڑ لیا گیا علی بن سفیان کے جاسوس کی اب یہ حالت تھی کہ بے ہوش پڑا تھا اور اس پر نزاع کی کیفیت طاری تھی ایک کمرے میں اسے چاہنے والی لڑکی فرش پر پڑی تھی ایک خنجر اس کے دل میں اترا ہوا تھا وہ اتنا ہی کہہ سکی میں نے خودکشی کی ہے اور وہ مرگئی سیاہ ریش کو اس ہجوم کے سامنے کھڑا کیا گیا جو گاؤں کے اندر اور باہر جمع تھا اور اسے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اس کی اصلیت کیا ہے اور وہ کس مقصد کے تحت فوج اور سلطان کو بدنام کررہا تھا اس نے بتا دیا ایک لڑکی مرچکی تھی دوسری کو لوگوں کے سامنے کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ لڑکی مسلمان نہیں صلیبی ہے یہ بھی سب کو بتایا گیا کہ ٹیلوں کے علاقے میں آگ کے قریب جو پانی اور کھجوریں پڑی تھیں وہ اس کے گروہ کے آدمیوں نے رکھی تھیں یہ گروہ اس سے دور دور سفر کرتا تھا
علی بن سفیان نے اپنے تہہ خانے میں اس آدمی اور اس کے گروہ سے جو باتیں اگلوائیں ان سے پتہ چلا کہ اس نے محاذ سے بھاگے ہوئے نئے فوجیوں کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اس کے ساتھ اپنے آدمی بھی تھے یہ تمام لوگ مسجدوں میں اور ان جگہوں پر جہاں لوگ اکٹھے ہوئے تھے مصر کی فوج کے خلاف باتیں کرتے تھے مقصد یہ تھا کہ قوم اور فوج کے درمیان شکوک اور نفرت کی دیوار کھڑی کی جائے اس سے صلیبی بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے اس مہم میں مصر کی انتظامیہ کے چند ایک حاکم بھی شامل تھے اور معزول شدہ عباسی خلافت کے خفیہ پیروکار بھی مختصر یہ کہ دشمن تو اس مہم میں شریک تھا ہی خود وہ مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے تھے جن کا کوئی نہ کوئی مفاد وابستہ تھا
جب کبھی فوج اور قوم میں نفرت پیدا ہوگئی سمجھ لو سلطنت اسلامیہ کا زوال شروع ہوگیا سلطان ایوبی نے کہا اس نے حکم دیا تمام مسجدوں کے اماموں کو رملہ کی شکست کے اصل اسباب بتانے کا انتظام کرو اور امام ساری قوم کو بتائیں اگر کسی کو ذمہ داریاں اور الزامات عائد کرنے سے تسکین ہوتی ہے تو ساری ذمہ داری مجھ پر ڈالو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سولی پر جان دے کر قوم کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا تھا میں فلسطین کے میدان جنگ میں جان دے کر اپنی قوم کے ہر اس فرد کے گناہوں کا کفارہ ادا کروں گا جو تخت وتاج کے نشے میں میری فوج اور مقبوضہ فلسطین کے راستے میں حائل ہو رہا ہے اور میرے خون کے قطروں سے آواز آئے گی کہ شکست کی ذمہ دار فوج نہیں تھی اور میری کسی فوج نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا
حمص پرسکون قصبہ تھا یہ حلب کے شمال میں آج کے شام اور لبنان کی سرحد کے قریب واقع تھا پرسکون اس لیے تھا کہ ابھی جنگ کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا اس کے مضافات سے کبھی کبھی صلیبی فوج گزرا کرتی تھی اس کے قریب سے ایک چھوٹا سا دریا گزرتا تھا اس لیے حمص فوجوں کی عام گزرگاہ نہیں بن سکتا تھا اس قصبے میں مسلمانوں کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ اسے مسلمانوں کی بستی کہا جاتا تھا چند ایک گھرانے عیسائیوں کے بھی تھے اور چند ایک یہودیوں کے بھی تجارت عیسائیوں اور یہودیوں کے قبضے میں تھی یہ لوگ دور کے علاقوں میں کاروبار کے سلسلے میں جاتے رہتے تھے اس لیے وہ باہر کی دنیا کی جو خبریں لاتے تھے انہیں سچ سمجھا جاتا تھا صلیبی فوج کے متعلق وہ ڈراؤنی باتیں سنایا کرتے تھے
ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ حمص کے مسلمانوں پر صلیبی فوج کی دہشت طاری رہے اور کم از کم اس بستی کا کوئی مسلمان اسلامی فوج میں نہ جائے لیکن اس کا اثر الٹا ہورہا تھا مسلمانوں نے ڈرنے کے بجائے جنگی تیاریاں شروع کردی تھیں انہیں ان تیاریوں سے کوئی حکماً نہیں روک سکتا تھا یہاں صلیبیوں کی حکمرانی نہیں تھی حمص کے مسلمان گھوڑ سواری نیزہ بازی تیغ زنی اور تیراندازی کی مشق کرتے رہتے تھے یہ تربیت لڑکیوں کو بھی دی جاتی تھی ان کا قائد بڑی مسجد کا خطیب تھا جس کا علم اور عمل جہاد پر مرکوز تھا اس نے مسلمانوں کو بتا رکھا تھا کہ قبلہ اول کو آزاد کرانا ہے اور صلیبیوں کو عرب کی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے اور یہ جنگ کیوں لڑی جارہی ہے؟
خطیب اپنے خطبوں میں اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دہراتا رہتا تھا صلیبی عرب پر قبضہ کرکے اپنی بادشاہی قائم کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم یہاں اللہ کی بادشاہی قائم کرنے کے لیے جان ومال کی قربانیاں دے رہے ہیں انہوں نے عرب کو میدان جنگ صرف اس لیے بنایا ہے کہ خدائے ذوالجلال کا عظیم پیغام عرب کو عطا ہوا ہے اور اس پیغام نے ہم عربوں پر یہ فرض عائد کردیا ہے کہ ہم یہ پیغام جو ہمارے رسول اکرمﷺ کو غار حرا میں عطا ہوا تھا تمام تر بنی نوع انسان تک پہنچائیں طارق بن زیاد نے بحیرہ روم کے مصر والے ساحل پر کھڑے ہوکر خدائے عزوجل سے کہا تھا اگر تیری ذات باری مجھے ہمت و استقلال عطا فرمائے تو میں تیرا نام سمندر پار لے جاؤں اور اس کے سینے سے جذبہ ایمان کا شعلہ جو اٹھا تو اس نے گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اس کی فوج کشتیوں میں یورپ کے ساحل پر اتری زیاد کے بیٹے طارق نے حکم دیا کشتیوں کو آگ لگا دو ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے مگر آج صلیبی اس عزم کے ساتھ اللہ کی اس سرزمین پر آئے ہیں کہ وہ واپس نہیں جائیں گے انہوں نے اس سرزمین کو تہہ تیغ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ خدا کے اس عظیم پیغام کو جو ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے رسول اکرمﷺ کو عطا ہوا تھا یہیں ختم کردیا جائے یاد رکھو مسلمانو! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو پتھروں کو موم کردیتا ہے ہمارے مذہب کے بنیادی اصول انسانوں کی روح میں اتر جاتے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے حقوق العباد ایک ایسا اصول ہے جو صرف اسلام نے انسان کو دیا ہے اسلام ایک نظریہ ہے صرف عقیدہ نہیں صلیب کے علمبردار جانتے ہیں کہ اسلام کو فروغ کا موقع ملا تو کرۂ ارض پر پرچم رسالتﷺ کے مقدس سائے تلے آجائے گا اور صلیب کا نام ونشان مٹ جائے گا اسی لیے صلیبی اپنی تمام تر جنگی قوت لے کر یہاں آگئے ہیں وہ علم وفضل کے اس سرچشمے کو بند کرنے آئے ہیں
یہودیوں کے ساتھ ان کا سودا ہوا ہے کہ وہ بیت المقدس کو فتح کرکے ان کے حوالے کردیں گے تاکہ یہودی مسجد اقصیٰ کو جو ہمارا قبلہ اول ہے ہیکل سلیمانی بنا لیں یہ یہودیوں کا ایک پرانا خواب ہے جسے وہ عملی شکل میں لانے کو بے تاب ہیں اس کے لیے انہوں نے اپنی بیٹیاں اور اپنی دولت صلیبیوں کے حوالے کردی ہے ان دونوں چیزوں نے ہماری صفوں میں غدار پیدا کردئیے ہیں تم سب تک صلاح الدین ایوبی کا پیغام پہنچا رہا ہوں اسے اپنے دلوں پر نقش کرلو رسالتﷺ کے پاسبان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو اور قوم کو یہ بتا رکھا ہے کہ یہ دو فوجوں کی نہیں دو مذہبوں کی جنگ ہے یہ قبلہ اول اور ہیکل سلیمانی کی جنگ ہے اگر ہم نے آج باطل کو ہمیشہ کے لیے ختم نہ کیا تو ایک روز باطل ہمارے مذہب کو ختم کردے گا ہماری روحیں دیکھیں گی اور تاریخ دیکھے گی کہ فلسطین پر یہودی قابض ہیں اور مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی میں تبدیل ہورہی ہے
حمص کے مسلمانو! تم صلاح الدین ایوبی کی فوج کے سپاہی نہیں ہو مگر اللہ کے سپاہی ہو تم پر جہاد فرض کردیا گیا ہے قرآن کا حکم ہے کہ اپنے وطن اور اپنے مذہب کے دفاع کے لیے گھوڑے اور اسلحہ تیار رکھو اور جہاد کی تیاری میں مصروف رہو اور یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارے مذہب کا دشمن صرف میدان جنگ میں تمہارے خلاف نہیں لڑتا اس کا ایک محاذ اور بھی ہے وہ افواہوں کے ذریعے تم پر اپنی فوج کی دہشت اور اسلامی فوج کے خلاف وسوسے پیدا کرتا ہے سرکردہ افراد کو حسین لڑکیوں اور سونے کی چمک دمک سے اپنا گرویدہ بناتا ہے یہ دونوں چیزیں انسان کی بہت بڑی کمزوری ہیں ان میں جب شراب شامل ہوجاتی ہے تو مسلمان اپنا ایمان اپنے ایمان کے دشمن کے قدموں میں رکھ دیتا ہے ایسا ہوچکا ہے اور ہورہا ہے صلیبی ہمیں خانہ جنگی میں الجھا کر ہماری جنگی قوت کو کمزور کرچکے ہیں یہ گناہ ان چند ایک امراء کا تھا جو صلیبیوں کے بڑے ہی دلکش جال میں آگئے تھے مگر ان کے گناہوں کی سزا قوم اور فوج کو اور سلطنت اسلامیہ کو ملی خانہ جنگی کرانے والے قوم اور فوج کو جذبات میں الجھا کر بڑھکاتے اور مرواتے ہیں اور خود اپنے محلات میں ان حرموں میں بدمست رہتے ہیں جنہیں صلیبیوں اور یہودیوں نے اپنی لڑکیوں سے رونق دی ہے یاد رکھو یہ ساری چٹانیں سونا بن جائیں اور تمہارے قدموں میں رکھ دی جائیں تو بھی یہ جہاد کا صلہ اور انعام نہیں بن سکتیں جہاد کا انعام روح کو ملا کرتا ہے روح زروجواہرات سے خوش نہیں ہوا کرتی جہاد کا انعام خدا کے پاس ہے تم اللہ کی راہ میں جان دے دو گے تو بھی زندہ رہو گے یہ جسم کی ہی لعنت ہے جس نے جسمانی لذت کو شعار بنایا اس نے اپنے بھائی کا گلا کاٹا اور مرتد کہلایا قرآن پاک تمہیں روحانی لذت سے سرشار کرتا ہے
اور اس طرح اس خطیب نے حمص کے مسلمانوں کو روحانی لذت سے سرشار کر رکھا تھا جنگی تربیت اسی کی زیر نگرانی اور اسی کی ہدایات کے تحت ہوتی تھی وہ خود تیغ اور خنجر زنی کا ماہر تھا۔حمص میں اس تربیت سے رونق رہتی تھی قصبے میں تین مسجدیں تھیں جہاں جہاد کی باتیں ہوتی تھیں مگر وہاں جو صلیبی اور یہودی رہتے تھے وہ مسلمانوں کے ہمدرد بن کر حوصلہ شکن خبریں سناتے رہتے تھے مسلمان اپنے خطیب اور اماموں سے ان خبروں کے متعلق پوچھتے اور بے قرار ہوتے رہتے تھے خطیب نے حمص کے ایک جواں سال آدمی تبریز کو اس مقصد کے لیے دمشق بھیج رکھا تھا کہ وہاں سے صحیح صورت حال معلوم کرکے آئے تبریز صحیح صورت حال معلوم کرکے حمص کو واپس جارہا تھا اسے دمشق تک جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی راستے میں ہی اس کا کام ہوگیا تھا اس نے حماة سے بہت دور صلیبی فوج دیکھی تھی جو ایک جگہ پڑاؤ کیے ہوئے تھی اس نے دور سے جھنڈوں سے پہچان لیا تھا کہ یہ صلیبی فوج ہے پھر اسے دو شتر سوار ملے تھے جو مسلمان تھے انہوں نے بھی اسے بتایا تھا کہ یہ صلیبیوں کی فوج ہے انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ فوج مسلمانوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھا کر آئی ہے تبریز نے انہیں بتایا کہ وہ حمص سے یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ صلیبی فوج کہاں تک پہنچی ہے اور عرب کے کتنے علاقے فتح کرچکی ہے
وہ پہاڑیاں تمہیں نظر آرہی ہیں شتر سواروں نے اسے بتایا تھا یہی راستہ تمہیں ان پہاڑیوں کے اندر لے جائے گا اپنی فوج وہیں ہے دمشق بہت دور ہے تم اپنی فوج کے کسی بھی آدمی سے پوچھ لینا تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا ہم اتنا ہی جانتے ہیں کہ رملہ میں لڑائی ہوئی تھی جس میں مسلمان نقصان اٹھا کر ادھر ادھر ہوگئے تھے پھر صلیبیوں سے حماة کے قلعے کے قریب لڑائی ہوئی تھی جس میں صلیبی نقصان اٹھا کر بھاگے تم آگے چلے جاؤ لیکن کسی صلیبی سپاہی کے قریب نہ جانا اسے جونہی پتہ چلا تم مسلمان ہو وہ تمہیں قتل کردے گا سورج غروب ہونے کو تھا جب وہ حماة کی پہاڑیوں سے گزر رہا تھا ایک فراخ وادی تھی آگے سے چند ایک سوار آرہے تھے تبریز راستے سے ہٹا نہیں ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور اسے غصے سے کہا کہ وہ راستے سے دور ہٹ جائے سالار اعلیٰ آرہے ہیں تبریز ذرا سا الگ ہٹ گیا سوار اسے اور پرے ہٹا رہا تھا سالار اعلیٰ اور اس کے ساتھ کے سوار تیزی سے آرہے تھے سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کا بھائی العادل تھا اس نے دیکھا کہ اس کا محافظ ایک مسافر کے ساتھ بہت غصے سے بول رہا ہے اور مسافر شاید راستے سے ہٹ نہیں رہا العادل قریب آکر رک گیا تبریز کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور محافظ کے ساتھ کیوں جھگڑ رہا ہے
تبریز نے جواب دیا کہ وہ حمص سے یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کس حال میں ہے اور صلیبی فوج کو کتنی کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس نے یہ بھی بتایا کہ حمص کے مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ سلطان ایوبی کی فوج کا انتظار کر رہے ہیں ہماری بہنیں بھی جنگ کے لیے تیار ہیں اور ہمارے بچے اور بوڑھے بھی علی بن سفیان کا نائب حسن بن عبداللہ جو انٹیلی جنس کا ذمہ دار تھا العادل کے ساتھ تھا وہ تبریز کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا تبریز جاسوس ہوسکتا تھا اس کی سادگی بتا رہی تھی کہ وہ جاسوس نہیں لیکن شک لازمی تھا جاسوس ظاہری طور پر اس سے زیادہ گنوار اور سادہ لگتے ہیں
تمہارے خطیب کا نام کیا ہے؟
حسن بن عبداللہ نے پوچھا
تبریز نے نام بتایا اس وقت کی جو غیرمطبوعہ تحریریں موجود ہیں ان میں یہ نام صاف نہیں اس لیے اسے ہم خطیب کہیں گے حسن بن عبداللہ نے العادل سے کہا کہ وہ اپنا آدمی ہے اور اس آدمی (تبریز) کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام جان فشانی سے کر رہا ہے تبریز کے خلاف جو شک پیدا ہوگیا تھا وہ رفع ہوگیا العادل کے حکم کے مطابق اسے مہمان کی حیثیت سے خیمہ گاہ میں بھیج دیا گیا جہاں اس کی خاطر ومدارت کی گئی رات حسن بن عبداللہ نے اسے اپنے خیمے میں بلایا اور خطیب کے نام یہ پیغام دیا حالات دشوار ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے آپ کو وہاں صلیبی بتا رہے ہیں لوگوں سے کہو کہ سچ اسے سمجھیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہو اور جو انہیں مسجد میں بتایا جائے ادھر ادھر کی باتوں اور خبروں کو سچ نہ سمجھیں آپ لوگ بڑے خطرناک علاقے میں ہیں اپنی بستی کے صلیبیوں اور یہودیوں پر نظر رکھیں اور یہ بھی خیال رکھیں کہ وہ آپ کی سرگرمیوں پر نظر نہ ڈال سکیں جنہیں آخر دم تک چھپائے رکھنا ہے حسن بن عبداللہ نے تبریز کو ایسا پیغام دیا جو حمص کے مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا تھا لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جنہیں آخر دم تک چھپائے رکھنا ہے حقیقت یہ تھی کہ حمص کے مسلمانوں کو سلطان ایوبی کے حکم کے تحت جنگی تربیت دی جارہی تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ جب کبھی ضرورت پڑے وہ صلیبی فوج پر عقب سے شب خون ماریں ظاہری طور پر ان کے وفادار رہیں اس مقصد کے لیے حمص میں تین چار تجربہ کار چھاپہ مار بھیج دئیے گئے تھے جو وہاں اپنے مطلب کی ٹرینگ دے رہے تھے خطیب ان کا کمانڈر تھا ان کے ساتھ ابھی باقاعدہ رابطہ نہیں رکھا گیا تھا کیونکہ ابھی ان لوگوں کی ضرورت نہیں تھی
دوسری صبح تبریز حمص کو روانہ ہوگیا وہ زمانہ قافلوں کی صورت میں چلنے کا تھا لوگ اکیلے اکیلے بھی سفر کرتے تھے ایسے اکیلے مسافروں کو جہاں چند آدمی سفر میں نظر آتے تھے وہ ان سے جا ملتے اور اس طرح قافلے بنتے اور بڑے ہوتے جاتے تھے تبریز آیا اکیلا تھا واپس جارہا تھا کہ اسے مختصر سا ایک قافلہ مل گیا جو حمص کی سمت جارہا تھا اس میں حمص کے یہودی تاجر بھی تھے دو عیسائی کنبے اونٹوں پر سوار تھے اور کچھ لوگ پیدل جارہے تھے تبریز اس قافلے میں شامل ہوگیا قافلہ چلتا گیا راستہ لمبا تھا دو راتیں قیام کرنا پڑا تیسرا دن سفر کا آخری دن تھا آدھی رات سے پہلے قافلے کو حمص پہنچ جانا تھا آگے ایک دریا تھا جو بہت بڑا نہیں تھا اس کی گہرائی زیادہ سے زیادہ کمر تک رہتی تھی لوگ اس میں آسانی سے گزر جایا کرتے تھے
سفر کے آخری روز کا سورج سر پر آیا تو افق سے سیاہ گھٹا اٹھتی نظر آئی قافلہ اور تیز چلنے لگا تاکہ بارش سے پہلے منزل تک پہنچ جائے یا چٹانی علاقے میں پہنچ کر چھپنے کی جگہ ڈھونڈ لی جائے اور اگر ممکن ہو تو طغیانی آنے سے پہلے ہی دریا پار کرلیا جائے یہ ان لوگوں کی حماقت تھی گھٹا کی رفتار قافلے کی نسبت زیادہ تھی اور گھٹا جانے کہاں سے برستی آرہی تھی وہ تمام علاقہ چٹانی اور پہاڑی تھا قافلہ دریا کے قریب پہنچا تو گھٹا دنیا کو تاریک کرچکی تھی اور مینہ ایسا موسلادھار برسنے لگا تھا کہ آنکھیں کھول کر چلنا ممکن نہ رہا ایک بوڑھے عیسائی نے کہا کہ دریا چڑھ رہا ہے ابھی گزر سکتے ہیں فوراً پار ہو جاؤ اس بوڑھے کے ساتھ والے اونٹ پر ایک جوان اور خوبصورت عیسائی لڑکی سوار تھی قافلہ دریا کے کنارے پر پہنچ چکا تھا اس کا پانی مٹیالا ہوگیا تھا اور اس کی روانی میں طغیانی والا جوش پیدا ہوگیا تھا گہرائی میں کوئی اضافہ معلوم نہیں ہوتا تھا بارش بہت تیز تھی گھٹا نے گہری شام کا منظر بنا رکھا تھا سورج غروب ہونے کو ہی تھا ایک آدمی نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا چند قدم آگے جاکر اس نے چلا کر کہا آجاؤ پیدل چلنے والے بھی آجاؤ پانی گہرا نہیں یہ کسی نے بھی نہ دیکھا کہ شدید اور خطرناک طغیانی کا ریلا آرہا ہے اوپر کی طرف بہت مینہ برسا تھا اور وہ پہاڑی علاقہ تھا جس کی طغیانی بہت ہی تیز ہوا کرتی تھی۔ اونٹ اور گھوڑے شاید اس خطرے کو محسوس کررہے تھے یہی جانور بڑے آرام اور اطمینان سے دریا میں سے گزر جایا کرتے تھے مگر بارش میں وہ دریا میں بدک رہے تھے حالانکہ پانی گہرا نہیں تھا۔ اچانک دریا بپھر گیا۔ اونچی اونچی لہریں کسی کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر آگئیں دریا کے کنارے ڈوب گئ پانی گہرا ہوگیا پیدل چلنے والے ڈوبنے لگے تو وہ تیرنے لگے اونٹوں نے واویلا بپا کردیا قافلہ دریا میں بکھر گیا دوسرا کنارہ دور تو نہیں تھا لیکن طغیانی جو بڑھتی جارہی تھی آگے جانے ہی نہیں دے رہی تھی پھر قافلے والوں کو ایک دوسرے کا ہوش نہ رہا عیسائی لڑکی کی چیخ سنائی دی تبریز وہیں قریب تھا اس نے چیخ سن لی اور یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ اونٹ جس پر عیسائی لڑکی سوار تھی طغیانی کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس کے پاؤں اکھڑ گئے طغیانی نے اسے گرا دیا اس کی پیٹھ پر بیٹھی لڑکی دریا میں جا پڑی طغیانی کا یہ عالم تھا کہ کبھی لہریں اوپر کو اٹھتی اور گرتی تھیں اور کبھی بھنور بن جاتی تھیں شور اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو کسی کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی اگر تبریز قریب نہ ہوتا تو لڑکی کی چیخ کوئی بھی نہ سن سکتا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور گھوڑا سیدھا تو نہیں جارہا تھا لیکن طغیانی کا مقابلہ کررہا تھا تبریز نے لڑکی کو پانی میں گرتے دیکھا تو اس نے گھوڑے کو دریا کے رخ میں ڈال دیا لیکن گھوڑا اتنی تیزی سے تیر نہیں سکتا تھا
تبریز گھوڑے سے کود گیا اور بہت تیزی سے تیرتا لڑکی کے پیچھے گیا ایک لہر نے لڑکی کو اوپر اٹھایا اور تبریز نے دیکھ لیا طغیانی کا زور بھی تھا اور تبریز کے جوان بازوؤں کی قوت بھی تھی کہ اس نے تھوڑی ہی دور لڑکی کو جا پکڑا وہ ابھی ڈوبی نہیں تھی لیکن وہ تیر بھی نہیں رہی تھی تبریز کے لیے اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا اسی کوشش میں پانی انہیں بہت آگے لے گیا تبریز نے اسے اپنے اوپر ڈالا اور کنارے کی طرف تیرنے لگا لڑکی دوبارہ اس کی پیٹھ سے لڑھک گئی وہ ہوش میں نہیں تھی اگر تبریز کے جسم میں طاقت اور دل میں بے خوفی نہ ہوتی تو وہ لڑکی کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر کرتا طغیانی کا زور اور اس کا شور حوصلے پست کررہا تھا جس جگہ سے قافلہ دریا میں اترا تھا وہاں سے کم وبیش دو میل دور تبریز لڑکی کو سنبھالے کنارے سے جالگا وہاں چٹانیں تھیں بارش ابھی تھمی نہیں تھی تبریز نے لڑکی کو ایک چپٹی چٹان پر لٹایا وہ زندہ تھی ہوش میں نہیں تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ بے ہوش کو کس طرح ہوش میں لایا جاتا ہے وہ لڑکی کو دیکھتا رہا لڑکی بے ہوشی میں ازخود ہی پیٹ کے بل ہوگئی پیٹ پر زور پڑا تو منہ سے دریا کا پانی نکلنے لگا تبریز نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر دبایا تو بہت سا پانی منہ کے راستے باہر نکل آیا اس نے اور زور سے دبایا پہلوؤں سے بھی پیٹ کو دبایا اس سے لڑکی کا پیٹ پانی سے خالی ہوگیا
گھٹا پھٹنے لگی بارش کا زور کم ہوگیا اور کچھ روشنی بھی ہوگئی تبریز نے لڑکی کو سیدھا کیا لڑکی نے ذرا سی آنکھ کھولی اور بند کرلی تبریز کا جسم شل ہوچکا تھا اس نے اپنا گھوڑا دریا میں چھوڑ دیا تھا وہ دریا سے نکل گیا تبریز کو معلوم نہیں تھا کہ گھوڑے کا انجام کیا ہوا تبریز کی تھکن کم ہوگئی تھی سورج غروب ہونے کو تھا اسے خیال آیا کہ رات آرہی ہے اور پناہ ڈھونڈنا ضروری ہے اسے امید تھی کہ یہ چٹانی علاقہ ہے اس میں کہیں نہ کہیں گٹ یا غار مل جائے گی لمبی مسافت کے مسافر مٹی کے ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں میں غاریں بنائے رکھتے تھے جو دوسرے مسافروں کے بھی کام آتی تھیں.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس نے لڑکی کو پیٹھ پر ڈالا اور دو چٹانوں کے درمیان چل پڑا پناہ ملنے کا اسے یقین نہیں تھا امید تھی وہ دل میں خدا سے مدد مانگتا چلا جارہا تھا کچھ ادھر ادھر گھومتے پھرتے وہ ایک کشادہ سی جگہ جا پہنچا جہاں ایک چٹان کے ساتھ اسے تین چار اونٹ کھڑے نظر آئے یہ کسی مسافر کے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ ان پر زینیں وغیرہ نہیں تھیں اونٹوں تک گیا تو اسے آوازیں سنائی دیں ادھر دیکھا تو چٹان میں اسے ایک فراخ اور اونچا دہانہ نظر آیا اس میں تیرہ چودہ سال عمر کے دو لڑکے کھڑے تھے وہ دونوں بارش میں دوڑے آئے تم دریا سے نکل کر آئے ہو؟
ایک لڑکے نے پوچھا وہاں آجاؤ بہت اچھی جگہ ہے
وہ جگہ واقعی بہت اچھی تھی چٹان بھر بھری تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ مسافروں نے یا قریب کہیں رہنے والے گڈریوں نے اسے کاٹ کاٹ کر کمرہ بنا دیا ہے یہ ایک کشادہ گف تھی اندر سے بالکل خشک تھی لڑکوں نے وہاں آگ بھی جلا رکھی تھی تبریز نے لڑکی کو فرش پر ڈال دیا وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی ایک طرف خشک گھاس اور درختوں کی خشک ٹہنیوں کا ڈھیر پڑا تھا تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
تبریز نے لڑکوں سے پوچھا ہمارا گھر دریا کے پار ہے ایک لڑکے نے جواب دیا ہم کبھی کبھی اونٹوں کو ادھر لے آتے ہیں گھاس تو ادھر بھی بہت ہے لیکن ہم یہاں کھیلنے کے لیے آتے ہیں اور اونٹوں کو بھی چرنے چگنے کے لیے ساتھ لے آتے ہیں ایک جگہ سے دریا چوڑا ہے وہاں پانی ہمارے گھنٹوں تک ہوتا ہے آج بھی ہم آگئے اور بارش شروع ہوگئی یہیں آگ جلا کر کھیلتے رہے گھر کس طرح جاؤ گے؟
تبریز نے پوچھا دریا چڑھا ہوا ہے اس دریا کا زور زیادہ دیر نہیں رہتا ایک لڑکے نے بڑے اطمینان سے کہا ہم جہاں سے گزرتے ہیں وہاں طغیانی میں خطرہ نہیں ہوتا پانی پھیل جاتا ہے بارش تھم گئی تھی سورج غروب ہورہا تھا لڑکے اپنے اونٹوں کو لے کر چلے گئے تبریز نے ان سے مدد نہ مانگی یہ بھی نہ سوچا کہ لڑکی کو اٹھا کر ان کے گاؤں چلا جائے لڑکوں کے جانے کے بعد اس نے آگ پر خشک ٹہنیاں پھینکیں شعلہ اٹھا تو اس نے اپنا کرتہ اتارا جو گلے سے ٹخنوں تک لمبا تھا اسے آگ پر خشک کرنے لگا وہ دل میں شکر ادا کررہا تھا خدا نے اسے ایسی طوفانی بارش میں ان لڑکوں کو آگ جلانے کے لیے بھیج دیا تھا اس دوران لڑکی نے آنکھیں کھول دیں اس کے چہرے پر خوف کا تاثر نظر آیا اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر تبریز کو دیکھا تو اس کا منہ دہشت سے کھل گیا تبریز نے اپنا چغہ نما کرتہ اتار رکھا تھا اور طغیانی کے مٹیالے اور گدلے پانی نے اس کے بالوں اور چہرے کو خوفناک بنا رکھا تھا ڈرو نہیں تبریز نے کہا مجھے پہچانتی نہیں ہو؟
میں تمہارا ہم سفر تھا مگر تم مسلمان ہو لڑکی اٹھ بیٹھی اور بولی مجھے تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے مجھے جانے دو جاؤ تبریز نے کہا چلی جاؤ وہ اٹھی اس سے چلا نہیں جارہا تھا گف کے باہر ایک قدم رکھا تو باہر تاریک رات کے سوا کچھ نظر نہ آیا اندر آگ کی روشنی تھی اس نے گھوم کر تبریز کو دیکھا جو ٹہنیوں کی آگ کی روشنی میں پراسرار سا انسان نظر آرہا تھا وہ لڑکی کو دیکھتا رہا لڑکی پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکی ایک دو قدم آگے آکر گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئی اور بے بسی سے تبریز کو دیکھنے لگی تمہاری نسبت مجھے وہ گھوڑا زیادہ عزیز تھا جسے میں نے دریا میں چھوڑا اور تمہیں ڈوبنے سے بچایا تبریز نے کہا میری قیمت بیس گھوڑوں سے زیادہ ہے لڑکی نے نقاہت زدہ آواز میں کہا تم نے مجھ جیسی لڑکی کبھی نہیں دیکھی ہوگی مجھے ذلیل وخوار کرکے بیچ ڈالو گے تمہیں کون روک سکتا ہے مجھے خدا روک سکتا ہے تبریز نے کہا اور خدا نے مجھے روک رکھا ہے یہ ایک معجزہ ہے کہ میں نے تمہیں اس طغیانی سے بچایا ہے جس میں اونٹ اوندھا ہوگیا تھا پھر یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیں سر پر یہ چھت اور جلتی ہوئی آگ مل گئی میں نے خدا سے مدد مانگی تھی خدا صرف ان کی مدد کرتا ہے جن کی نیت صاف ہوتی ہے یہ آگ دو لڑکے جلا گئے ہیں وہ فرشتہ تھے میں اپنے مذہب کی روشنی میں بات کررہا ہوں تم اس لیے ڈرتی ہو کہ تمہارا مذہب باطل ہے اور تم اس لیے ڈرتی ہو کہ تمہاری نگاہ اپنے جسم پر ہے جو بہت دلکش ہے اور تمہاری نظر میں اپنا چہرہ ہے جو بہت حسین ہے میری نگاہ میری اپنی روح پر ہے جو تمہارے جسم سے زیادہ دلکش اور تمہارے چہرے سے زیادہ حسین ہے میں جانتا ہوں تھوڑی دیر بعد تم مجھے اپنا جسم پیش کرکے کہو گی کہ مجھے منزل پر پہنچا دو کان کھول کر سن لو میں اپنی روح کو ناپاک نہیں ہونے دوں گا میرے دل میں یہ خرافات ڈالنے کی کوشش نہ کرو کہ میں نے تم جیسی لڑکی کبھی نہیں دیکھی ہوگی تبریز کے بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا جس نے لڑکی کے ہونٹ سی دئیے اور وہ حیرت اور خوف سے بھری ہوئی آنکھوں سے تبریز کو دیکھ رہی تھی تبریز کی باتوں میں جو خلوص اور عزم تھا وہ صاف محسوس ہورہا تھا
آگ کے قریب سرک آؤ تبریز نے کہا وہ کرتہ آگ پر خشک کررہا تھا لڑکی یوں سرک کر آگ کے قریب ہوگئی جیسے اس میں حکم عدولی کی جرأت نہیں تھی تبریز نے کرتے کا ایک سرا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اسے پکڑو اور آگ کے اوپر رکھو اس نے کرتے کو دوسری طرف سے پکڑے رکھا اور دونوں کرتے کو آگ پر ہلانے جلانے لگے لڑکی کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے کرتہ خشک ہوجائے تو تم پہن لینا پھر تمہارے کپڑے خشک کرلیں گے نہیں لڑکی نے گھبرا کر کہا میں اپنے کپڑے نہیں اتاروں گی تم اپنی کھال بھی اتار کر آگ پر رکھ دو گی تبریز نے کہا میرے فرض کے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرو لڑکی میں تم پر ثابت کروں گا کہ وحشی مسلمان ہوتے ہیں یا عیسائی میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کتنی پاک دامن ہو تم میری پناہ میں ہو میں تمہیں کوئی سخت بات نہیں کہہ سکتا تم عورت ہو میرا مذہب حکم دیتا ہے کہ مجبور عورت پر ہاتھ نہ اٹھاؤ تم نے مجھے کس طرح طغیانی سے نکالا تھا؟
لڑکی نے پوچھا کیا باقی لوگ پار ہوگئے تھے؟
تبریز نے اسے تفصیل سے بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ اسے باقی لوگوں کے متعلق بالکل معلوم نہیں لڑکی کا ڈر دور نہ ہوا کچھ کم ہوگیا تھا اور اس کی جسمانی حالت بھی اچھی ہوتی جارہی تھی تبریز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ حمص جارہی ہے وہ دونوں اس علاقے سے نقل مکانی کرکے آرہے تھے جو مسلمانوں کی حکمرانی میں تھا حمص میں ان کے رشتہ دار رہتے تھے لڑکی اپنے باپ کے لیے پریشان تھی قافلہ طغیانی میں سے نکل گیا تھا کوئی کہیں جا کنارے لگا کوئی کہیں جالگا وہ ایک دوسرے کو پکارتے اکٹھے ہونے لگے لڑکی اور تبریز ان میں نہیں تھے وہ اونٹ بھی لاپتہ تھا جس پر لڑکی سوار تھی اور تبریز کا گھوڑا کنارے لگ گیا تھا وہ دور کھڑا تھا قافلے کا ایک آدمی اسے پکڑ لایا اور سب نے یقین سے کہہ دیا کہ حمص کا اتنا خوبصورت جوان جو راستے میں قافلے سے ملا تھا گھوڑے سے گر کر ڈوب گیا ہے تبریز کا تو کسی کو دکھ نہیں تھا لڑکی کے غم میں اس کا بوڑھا باپ دو عیسائی اور ایک یہودی نڈھال ہوئے جارہے تھے وہ آگے جانے کے بجائے دریا کے کنارے دور تک جانے کی سوچ رہے تھے قافلے کے کچھ اور لوگ کہتے تھے کہ بے کار ہے وہ ڈوب گئی ہوگی وہ چاروں سوار ہوئے اور دریا کے ساتھ چل پڑے اس وقت تبریز لڑکی کو طغیانی سے نکال چکا تھا اور اسے چپٹی چٹان پر لٹا کر اس کا پیٹ پانی سے خالی کررہا تھا وہاں دریا کا موڑ تھا چٹانیں بھی تھیں اس لیے لڑکی کی تلاش میں آنے والے تبریز اور لڑکی کو دیکھ نہ سکے وہ جب اس جگہ آئے اس وقت تبریز لڑکی کو پیٹھ پر اٹھائے چٹانوں کے اندر چلا گیا تھا تلاش کرنے والے آگے نکل گئے وہ پھر واپس نہیں آئے سورج غروب ہوگیا تو حمص کے راستے پر ہو لیے اتنی قیمتی لڑکی ضائع کرنے پر انہوں نے ہمیں سزائے موت نہ دی تو ہم سمجھیں گے کہ وہ بہت ہی رحم دل ہوگئے ہیں بوڑھے نے کہا کیا جواب دو گے کہ وہ کس طرح ڈوبی؟
کہہ دیں گے طغیانی میں اس نے من مانی کی یہودی نے کہا کہتی تھی کہ الگ اونٹ پر دریا پار کروں گی اس نے ضد کی اور طغیانی کا زور اسے ہم سے دور لے گیا وہ دریا سے نکل آتی تو ہمیں مل جاتی مرگئی ہے جو جی میں آئے کہو ایک عیسائی نے کہا ہماری یہ کوتاہی بخش بھی دی جائے تو کیا تم سب کو افسوس نہیں کہ اتنی کارآمد لڑکی ضائع ہوگئی ہے؟
دوسری لڑکی لاتے ایک مہینے سے زیادہ عرصہ لگے گا میں نے کئی بار مشورہ دیا تھا کہ اس کام کے لیے دو لڑکیوں کی ضرورت ہے بوڑھے نے کہا حمص کے مسلمان جوش سے پھٹے جارہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ جو جنگی تربیت حاصل کررہے ہیں وہ کوئی جذباتی یا وقتی جوش نہیں میں نے ان کی تربیت بہت غور سے دیکھی ہے میرا تجربہ کہتا ہے کہ یہ شب خون اور چھاپے مارنے کی باقاعدہ تربیت ہے میں نے اس کے چاروں استاد دیکھے ہیں وہ قاہرہ سے بھیجے گئے ہیں یا دمشق سے اور وہ ماہر چھاپہ مار معلوم ہوتے ہیں اگر یہ لوگ ہماری حکمرانی میں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ یہ کس طرح جنگی تربیت لیتے ہیں ایک عیسائی نے کہا تم کیا سمجھتے ہو یہاں یہ اپنی تربیت مکمل کرلیں گے؟
یہودی نے کہا ہم انہیں آپس میں ٹکرا دیں گے اسی مقصد کے لیے میں اس لڑکی کو دمشق سے لارہا تھا بوڑھے نے کہا حمص میں فساد پیدا کرنے کا کام مجھے سونپا گیا تھا میں نے اس لڑکی کا نام لیا تھا انہوں نے مجھے ہی حکم دیا کہ لڑکی کے باپ بن جاؤ اور حمص لے جاؤ کوئی پوچھے تو بتاؤ کہ نقل مکانی کررہا ہوں
رات کے اندھیرے میں وہ چلتے جارہے تھے اور اپنی اس خفیہ مہم کے متعلق باتیں کرتے جارہے تھے جس کے لیے انہیں حمص جانا تھا بوڑھا صلیبیوں کا تجربہ کار جاسوس تھا اور نفسیاتی تخریب کاری کا ماہر وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا مسلمان تو ہر جگہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں دمشق میں نورالدین زنگی کی بیوہ لڑکیوں کو باقاعدہ جنگی تربیت دے رہی ہے بستی بستی یہ جوش دیکھنے میں آیا ہے مگر حمص اور اس کے گردونواح کے علاقے کو ایسی اہمیت حاصل ہے کہ یہاں مسلمانوں کے چھاپہ ماروں کو اڈہ نہیں ملنا چاہیے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ صلاح الدین ایوبی کا ایک خفیہ منصوبہ ہے اسے کامیاب نہیں ہونا چاہیے حمص سرحد پر ہے یہودی نے کہا اگر مسلمانوں نے یہاں اڈہ بنا لیا تو ہمارے لیے خطرناک ہوگا ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں کے مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے اور ان کے دلوں پر قبضہ کرلیا جائے یہ ممکن نظر نہیں آتا بوڑھے نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے آدمیوں نے بہت افواہیں پھیلائی ہیں مگر مسلمان ان پر کان نہیں دھرتے مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے خطیب کا ان پر بہت اثر ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جنگی تربیت اسی کی ہدایات کے مطابق ہورہی ہے مجھے حمص نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ ہم لڑکی گم کر بیٹھے ہیں میں اب اس لیے وہاں تک جانا چاہتا ہوں کہ خطیب کو دیکھوں کہ وہ کون ہے اور کیا وہ عالم ہے یا کوئی فوجی کماندار یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں لیا جاسکتا ہے یا نہیں مجھے اور تم سب کو حمص کے عیسائی اور یہودی گھرانوں میں سے ایک یا دو لڑکیوں کا انتخاب کرنا ہے جو اس مہم میں ہماری مدد کرسکیں تم جانتے ہو لڑکیوں کو کیا کرنا ہے میں نے تمہیں یہ دمشق میں بھی بتایا تھا کہ یہاں کے مسلمان ایمان کے پکے ہیں ایک عیسائی نے کہا ابھی تک ہم کسی ایک کو بھی نہیں خرید سکے میں ساری عمر اس دریا پر لعنت بھیجتا رہوں گا جس نے ہمیں ویرا سے محروم کردیا ہے میرا نام ویرا ہے لڑکی نے تبریز کے پوچھنے پر بتایا ہم غریب لوگ ہیں مسلمانوں نے دمشق میں ہمارا جینا محال کردیا تھا خدا غریب کی بیٹی کو حسن نہ دے بڑے بڑے امیر مجھے خریدنے کی کوشش کرتے تھے ایک نے تو مجھے اغوا کرنے کی بھی کوشش کی تھی میرا باپ مجھے قاضی کے پاس لے گیا اس نے ہماری فریاد سن لی اور میری حفاظت کا انتظام کردیا مگر وہاں حکومت مسلمانوں کی تھی ہم ڈرتے رہے میرے باپ نے یہی بہتر سمجھا کہ دمشق سے نکل ہی جائیں حمص میں ہمارے رشتے دار ہیں اب ہم ان کے پاس جارہے تھے معلوم نہیں میرا باپ زندہ ہوگا یا نہیں کیا تم ایک مظلوم اور مجبور لڑکی پر رحم نہیں کرو گے؟
رات گزرتی جارہی تھی بوڑھا عیسائی جسے ویرا اپنا باپ کہتی تھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت دور نکل گیا تھا میرا جامہ خشک ہوگیا ہے تبریز نے کرتہ اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا میں باہر نکل جاتا ہوں اٹھو اپنے کپڑے اتارو اور یہ پہن لو تمہیں سر سے پاؤں تک ڈھانپ لے گا پھر اپنے کپڑے خشک کرکے پہن لینا میں تمہارے ہاتھ میں مجبور ہوں ویرا رندھی ہوئی آواز میں بولی میرے ساتھ اس درندے کا سا سلوک نہ کرو جو شکار کو مارنے سے پہلے اس کے ساتھ کھیلتا ہے میں کہہ رہا ہوں یہ بھیگے ہوئے کپڑے اتار دو تبریز نے غصے سے کہا اور باہر کو چل پڑا ویرا نے اسے باہر جاتے اور ایک طرف ہوتے دیکھا وہ اوٹ میں ہوگیا جہاں سے ویرا کو نظر نہیں آتا تھا ویرا نے ذرا آگے ہوکر دیکھا وہ گف کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا آگ اتنی زیادہ تھی کہ روشنی تبریز کی پیٹھ پر پڑ رہی تھی ویرا نے اپنے فراک کے اندر ہاتھ ڈالا اس نے اندر کمر کے گرد کپڑا لپیٹ رکھا تھا اس نے کپڑے میں خنجر اڑسا ہوا تھا ویرا نے خنجر نکال لیا وہ دبے پاؤں آگے بڑھی تبریز بے خبر کھڑا تھا ویرا اس سے ایک قدم دور رہ گئی تو اس نے خنجر دائیں طرف کرکے پہلو میں گھونپنے کو وار کیا تبریز بجلی کی تیزی سے گھوما اور لڑکی کے دائیں ہاتھ کی کلائی اتنی زور سے مروڑی کہ لڑکی گھوم گئی اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا تبریز کے بچنے کا باعث یہ تھا کہ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں سے چند ہی قدم آگے ایک اور چٹان تھی آگ تبریز کے پیچھے تھی تبریز کو سامنے والی چٹان پر اپنا سایہ نظر آیا اس نے پیچھے نہ دیکھا کیونکہ سائے کا دایاں بازو دائیں کو پھیلا تو اسے خنجر کا سایہ صاف نظر آگیا ویرا پہلو میں وار کرکے پیٹ چاک کرنا چاہتی تھی سائے کی حرکت دیکھ کر تبریز پیچھے گوما اور لڑکی کی کلائی پکڑ لی خنجر گرا تو اس نے ویرا کی کلائی چھوڑ کر خنجر اٹھالیا اس نے نوک لڑکی کی طرف کی تو وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی جو کہو گے مانوں گی مجھے قتل نہ کرنا میں اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں کہوں گا کہ یہ کپڑے اتار دو اور میرا کرتہ پہن لو تبریز نے حکم کے لہجے میں کہا تم نے دیکھ لیا ہے کہ تم مجھے قتل نہیں کرسکتی میری آنکھیں آگے ہیں کھونپڑی کے پیچھے نہیں یہ میری روح کی آنکھیں ہیں جن سے میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا کیا میں اپنے سامنے تمہارے کپڑے نہیں اتروا سکتا؟
میں تمہیں کپڑوں کے بغیر نہیں دیکھنا چاہتا وہ ایک دفعہ پھر وہیں جاکھڑا ہوا ویرا گف کے ایک کونے میں چلی گئی اس نے بڑی تیزی سے اپنا فراک اتارا پھر زیر جامہ بھی اتار دیا اور تبریز کا کرتہ پہن لیا جس میں وہ گردن سے پاؤں تک مستور ہوگئی اس نے تبریز کو آواز دے کر کہا آجاؤ تبریز اندر آگیا ویرا کا فراک اٹھا کر ایک طرف سے اس کے ہاتھ میں دیا اور آگ پر خشک کرنے لگا ویرا اسے کنکھیوں سے دیکھتی رہی تبریز نے اس سے کوئی بات نہ کی ویرا کو اس کی خاموشی پریشان کررہی تھی اس کا دل مان نہیں رہا تھا کہ یہ جوان آدمی اسے بخش دے گا اب تو خنجر بھی اس جوان کے پاس تھا وہ خاموشی سے کپڑے خشک کرتے رہے جب خشک ہوگئے تو تبریز لڑکی کو یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ یہ پہن لو لڑکی نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے کپڑے بدلے اور تبریز کو اندر بلا لیا یہ خنجر اپنے پاس رکھو تبریز نے خنجر اس کی طرف پھینک کر کہا اور سوجاؤ صبح روانہ ہوں گے تم مجھے دھوکہ دے رہے ہو ویرا نے کہا یا تم بے حس اور مردہ انسان ہو
یہ مجھے تمہاری فوج کے سامنے ثابت کرنا ہے کہ میں بے حس اور مردہ نہیں میرے دل میں تمہارے خلاف کوئی دشمنی نہیں میں تمہارے ان بادشاہوں کا دشمن ہوں جو میرے وطن پر قبضہ کرنے آئے ہیں اور جو ہمارے قبلہ اول پر قابض ہوچکے ہیں
تمہیں غلط باتیں بتا کر بھڑکایا جارہا ہے ویرا نے کہا تم کچھ نہ جاننے والے دیہاتی ہو جسے تم قبلہ اول کہتے ہو وہ دراصل یہودیوں کا معبد ہے وہ ہیکل سلیمانی ہے صلاح الدین ایوبی اپنی سلطنت کو بہت دور تک پھیلانا چاہتا ہے تم جیسے سیدھے سادے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لیے وہ کہہ رہا ہے کہ وہ قبلہ اول ہے اور وہ مسجد ہے ہم اپنے خطیب کے سوا کسی کی بات نہیں سنا کرتے تبریز نے کہا تم سوجاؤ میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا مجھے نیند نہیں آئے گی ویرا نے کہا میں تم سے ڈرتی ہوں باتیں کرتے رہو تمہارا خطیب حمص کا رہنے والا ہے یا کہیں باہر سے آیا ہے حمص کا رہنے والا ہے تبریز نے جواب دیا اور اپنا کرتہ پہن کر لیٹ گیا ویرا کو جاسوسی اور کردار کشی کی ٹریننگ ملی ہوئی تھی دمشق میں اسے اسی مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا اور اب اسی مقصد کے لیے اس حمص لے جایا جارہا تھا اس نے حمص کے خطیب اور وہاں کے مسلمانوں کے متعلق تبریز سے معلومات لینے کے لیے بہت باتیں کیں لیکن تبریز نے کوئی دلچسپی نہ لی اور بے رخی کا اظہار کرتا رہا ویرا کا جسم ٹوٹا ہوا تھا وہ اس کوشش میں تھی کہ اسے نیند نہ آئے مگر اس کی آنکھ لگ گئی
ویرا کی آنکھ کھلی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی باہر صبح کا دھندلکا تھا اس نے ادھر ادھر دیکھا تبریز سجدے میں پڑا تھا وہ سجدے سے اٹھا پھر سجدہ کیا اور کھڑا ہوگیا وہ صبح کی نماز پڑھ رہا تھا ویرا نے اپنے لباس کا جائزہ لیا اسے رات نیند نے نہ سونے کے ارادے کے باوجود دبوچ لیا تھا آنکھ کھلی تو وہ تبریز سے ڈر گئی لیکن وہ جس حالت میں سوئی تھی اسی حالت میں جاگی اور اس نے تبریز کو خدا کے حضور سجدے میں پڑے دیکھا اسے وہ خواب سمجھنے لگی مسلمان کے متعلق اس کی رائے یہ تھی کہ وحشی قوم ہے لیکن تبریز جیسا تنو مند جوان اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہا تھا جس لڑکی نے نازو انداز سے سرکردہ مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانس لیا تھا اس کے لیے تبریز خواب کی دنیا کا ہی آدمی ہوسکتا تھا
ویرا پاک دامن نہیں تھی بچپن سے اسے ابلیسیت کی تربیت دی گئی تھی اس کے حسن اور جسم کی کشش کو جادو اثر بنانے کا خاص انتظام کیا گیا تھا جوان ہونے تک بدی اس کی فطرت میں شامل ہوچکی تھی مگر انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ برسوں کی مسلسل عرق ریزی کے بغیر اس کی اصلیت بدل نہیں سکتی اس پر بہروپ چڑھایا جاسکتا ہے ویرا کو طغیانی نے جو پٹخنیاں دی تھیں اور جس طرح موت کے منہ میں پھینکا تھا اس سے اس کے جذبات اس پر غالب آگئے وہ طغیانی سے تو زندہ و سلامت نکل آئی تھی مگر اس کی دہشت سے ابھی تک نہیں نکلی تھی اس کے ساتھ اس پر تبریز کی دہشت طاری ہوگئی تھی اس مسلمان جوان سے اسے اور کوئی ڈر نہیں تھا خوف یہ تھا کہ یہ کوئی خانہ بدوش یا بدو ہوا تو اسے کسی کے ہاتھ بیچ ڈالے گا وہ بک جانے کے بعد کی اذیت ناک زندگی سے ڈر رہی تھی رات گزر گئی تبریز نے اس کے اتنے دلکش جسم کی طرف توجہ ہی نہ دی وہ بے ہوشی کی نیند سوگئی تو بھی تبریز اس سے دور رہا صبح طلوع ہوئی تو اس کی تھکن ختم ہوچکی تھی اور تبریز کا خوف بھی رات تک وہ اسے گنوار بے حس اور مردہ سمجھتی رہی تھی اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگی تبریز کے ہونٹ ہل رہے تھے ویرا کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے یہ شخص براہ راست خدا سے ہم کلام ہو اسے تبریز کے یہ الفاظ یاد آنے لگے کہ خدا صرف ان کی مدد کرتا ہے جن کی نیت اور روح پاک ہوتی ہے تب اسے خیال آیا کہ اس کی اپنی نیت پاک نہیں وہ تبریز کی قوم کے لیے ایک حسین دھوکہ بنی ہوئی ہے اس لڑکی نے رات کو یہ بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنا آپ تبریز کے حوالے کرکے اسے کہے گی کہ اس کے عوض حمص پہنچا دو اور روح؟
ویرا کو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا جسم روح سے محروم ہے اور اگر روح ہے بھی تو وہ کردار کی غلاظت میں دب گئی لیکن روح مرا نہیں کرتی ویرا پر جو گزری تھی اس سے اس کی روح بیدار ہوگئی تھی جو اسے شرمسار کر رہی تھی اسے تبریز کی شکل وصورت بدلی ہوئی نظر آنے لگی اس کی نگاہ میں وہ فرشتہ بن گیا جو خدا سے ہم کلام تھا لڑکی کے آنسو نکل آئے تھے جوں جوں آنسو بہتے گئے اسے ایسے لگا جیسے اس کا وجود تبریز کے وجود میں سماتا جارہا ہو تبریز نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے وہ شاید بھول گیا تھا کہ اس گف میں کوئی اور بھی ہے یا یہ کہ لڑکی گہری نیند سوئی ہے اس نے بلند آواز سے کہا خدائے عزوجل! مجھے گناہوں سے دامن پاک رکھنے کی ہمت عطا فرما میری روح کو اتنی پاکیزگی عطا فرما کہ تیری اتنی خوبصورت امانت کو خیانت کے بغیر منزل تک پہنچا سکوں تیرا یہ بندہ کمزور اور ناتواں ہے مجھے شیطان کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور جرأت عطا فرما تبریز فرشتہ نہیں تھا وہ انسانی فطرت کی کمزوریوں سے پناہ مانگ رہا تھا اس نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور گھوم کر دیکھا ویرا اسے دیکھ رہی تھی اس کے رخساروں پر آنسو بہے جارہے تھے تبریز اسے کچھ دیر دیکھتا رہا لڑکی نے کوئی حرکت نہ کی
باہر جاؤ تبریز نے اسے کہا اس طرف صاف پانی کا چشمہ ہے منہ دھو آؤ اس نے اپنے سر پر لپیٹا ہوا موٹے کپڑے کا گز بھر لمبا چوڑا رومال اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا منہ اچھی طرح دھوؤ اور بالوں کو بھی جھاڑ پونچھ لو میں تمہیں اسی روپ میں تمہارے رشتے داروں کے حوالے کرنا چاہتا ہوں جس طرح تم طغیانی میں گرنے سے پہلے تھی
ویرا اس کے ہاتھ سے رومال لے کر ایسے انداز سے باہر نکل گئی جیسے گونگا اور بہرہ بچہ کسی کے اشارے پر چل پڑا ہو تبریز کے پاس کھانے پینے کا جو سامان تھا وہ گھوڑے کے ساتھ بندھا تھا اب کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا وہ ویرا کے انتظار میں بیٹھ گیا ویرا منہ سر دھو کر واپس آئی تو تبریز کو یوں دھچکا سا لگا جیسے کسی نے اسے کانٹا چٹھو دیا ہو اس سے پہلے ویرا کے بال مٹی سے اٹے ہوئے اور جڑے ہوئے تھے چہرے کا بھی یہی حال تھا اب بال اور چہرہ دھل گئے تو تبریز جیسے اسے پہچان ہی نہ سکا وہ ایسے طلسمانی بالوں کو کبھی تصور میں بھی نہیں لاسکا تھا دور دراز رہنے والے دیہاتی نے ایسا حسن کبھی نہیں دیکھا تھا چہرہ اتنا ملائم اور آنکھوں میں ایسی دل کشی اسے حیران کر رہی تھی تبریز اس تبریز کے ہاتھ سے نکلنے لگا جو کچھ دیر پہلے خدا کے حضور کھڑا تھا اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا کھانے کے لیے کچھ نہیں ہمیں خالی پیٹ سفر کرنا پڑے گا چلو وہ اٹھنے لگا تو ویرا نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ذرا دیر بیٹھو میں کچھ پوچھنا چاہتی ہوں کچھ جاننا چاہتی ہوں تبریز رات بھر اس لڑکی کے لیے دہشت بنا رہا تھا اب اس کی ذہنی کیفیت یہ تھی جیسے یہ لڑکی اس پر غالب آگئی ہو کچھ کہے بغیر اٹھتے اٹھتے بیٹھ گیا تم جب خدا کے ساتھ باتیں کر رہے تھے تو خدا تمہیں نظر آرہا تھا؟
خدا ہمیں نظر نہیں آیا کرتا تبریز نے کہا میں عالم نہیں اس لیے بتا نہیں سکتا کہ خدا نظر آئے بغیر کس طرح اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے میں اتنا جانتا ہوں کہ خدا میری باتیں میری دعائیں سن لیتا ہے
تمہیں یقین ہے کہ یہ خدا تھا جس نے تمہیں اپنی قوت دی کہ تم نے مجھے طغیانی سے نکال لیا؟
ویرا نے پوچھا
ہمیں خطیب نے بتایا ہے کہ روح پاک ہو تو خدا ہر مشکل میں مدد دیتا ہے تبریز نے جواب دیا اگر میں اس ارادے سے تمہیں بچانے کی کوشش کرتا کہ تم بہت خوبصورت ہو اور تمہیں بچا کر کہیں لے بھاگوں گا تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈوب جاتا مگر میری روح پاک نہیں ہے ویرا نے دکھیارے سے لہجے میں کہا خدا نے میری مدد کیوں کی؟
مجھے ڈوبنے سے کیوں بچایا؟
حمص چل کے خطیب سے پوچھیں گے تبریز نے کہا مجھ میں اتنی عقل نہیں اور تم نے میرے جسم سے کیوں بے رخی کی؟
ویرا نے اس سے پوچھا
اگر میں ایسا کرتا جیسے تمہیں ڈر تھا تو میں تمہارے خنجر سے نہ بچ سکتا تبریز نے جواب دیا تم خدا کی امانت ہو اور وہ چپ ہوگیا ذرا دیر بعد بے اختیار بولا تم بہت ہی خوبصورت ہو ویرا آؤ چلیں وہ بے قرار سا ہوکر اٹھنے لگا ویرا نے اسے اٹھنے نہ دیا تبریز نے کہا مجھے اپنے قریب زیادہ دیر نہ بیٹھنے دو مجھے اتنے سخت امتحان میں نہ ڈالو لڑکی مجھے خدا کے حضور سرخرو ہونے دو تمہیں اپنے خدا کی قسم ویرا نے کہا مجھے بھی خدا کے حضور سرخرو ہونے کے قابل بناؤ تم اپنے جیسے انسانوں سے بہت اونچے ہو تم خدا کے ایلچی ہو
تم رو کیوں رہی ہو؟
میں گنہگار ہوں ویرا نے جواب دیا خدا مجھ سے ناراض ہے جب اونٹ نے مجھے طغیانی میں گرا دیا تھا تو بھی مجھے خدا یاد نہیں آیا تھا میں سمجھتی تھی کہ جو کچھ ہے وہ جسم ہے اور مجھے اپنے جسم کو بچانا چاہیے تم مجھے طغیانی سے نکال کر یہاں لے آئے تو بھی میرے سامنے یہی مسئلہ آگیا کہ مجھے تم سے اپنا جسم بچانا ہے اپنے جسم کو بچانے کے لیے ہی میں نے تمہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی میں طغیانی سے بھی بچ گئی تم سے بھی بچ گئی لیکن تمہاری عبادت اور دعا نے مجھے بتایا کہ مجھے بچانے والی قوت کوئی اور تھی مجھے بتاؤ وہ قوت کیا ہے؟
کہاں ہے؟''
یہ خدا کی قدرت ہے تبریز نے جواب دیا یہ روح کی پاکیزگی کا کرشمہ ہے
میری ساری زندگی ایک گناہ ہے
مجھے صاف لفظوں میں بتاؤ تبریز نے پوچھا تم رقاصہ ہو؟
امیروں وزیروں کے پاس رہتی ہو؟
میں نے سنا ہے کہ ایسی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں میں نے ایسی خوبصورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی ویرا خاموش رہی اس کی آنکھوں سے آنسو آگئے وہ سرک کر تبریز کے قریب ہوگئی تبریز پرے سرک گیا ویرا نے کہا مجھے ڈر آتا ہے طغیانی کی دہشت مجھے ابھی تک ڈرا رہی ہے مجھے اپنے قریب رکھو
نہیں تبریز نے عجیب سے مسکراہٹ سے کہا میرے اتنا قریب نہ آؤ میں بھٹک جاؤں گا
'دیکھ لیا میں کتنی گناہ گار ہوں؟
ویرا نے کہا تم اس لیے مجھ سے دور رہنا چاہتے ہو کہ بھٹک نہ جاؤ میں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اس نے دیکھ لیا کہ تبریز کے پاس مذہبی جذبات ہیں اور جذبہ بھی لیکن اس کی سوچ میں گہرائی نہیں ہے اگر اسے کسی سانچے میں ڈھالا جائے تو ڈھل جائے گا ویرا نے اس کے ساتھ کھل کر باتیں شروع کر دیں کہنے لگی اگر میں تمہیں کہوں کہ آؤ ہم ساری عمر کے سفر میں اکٹھے رہیں تو کیا جواب دو گے؟
تبریز نے اس کے چہرے کو دیکھا ذرا سا مسکرایا اور سنجیدہ ہوگیا بولا آؤ چلیں سورج نکل آیا ہے سفر مشکل ہوجائے گا
ویرا اپنی ذات میں ایک انقلاب محسوس کررہی تھی جسے وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکی وہ اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑی وہ راستے کو کم اور تبریز کو زیادہ دیکھ رہی تھی گزشتہ رات وہ تبریز کو قتل کرکے حمص کو بھاگ جانے کی فکر میں تھی لیکن وہ اب تیز چلنے سے گریز کررہی تھی وہ زیادہ سے زیادہ دیر تبریز کے ساتھ رہنے کی خواہش لیے ہوئے تھی ایک بار اس نے تبریز کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا آہستہ چلو ہمیں آہستہ نہیں چلنا چاہیے تبریز نے کہ ورنہ ایک اور رات آجائے گی آنے دو ویرا نے کہا میں تیز نہیں چل سکتی جہاں رہ جاؤ گی وہاں تمہیں اٹھالوں گا تبریز نے کہا آہستہ نہ چلو
سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل نے صلیبی بادشاہ بالڈون کو حماة کے قلعے کے باہر بہت بڑی شکست دی تھی جس سے بوکھلا کر بالڈون کی فوج بکھر کر پسپا ہوئی تھی اس معرکے کی تفصیل سنائی جاچکی ہے اس صلیبی بادشاہ نے بڑی مشکل سے اپنی بکھری ہوئی فوج کو یکجا کیا تھا تب اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا ہے اس کے پاس نصف سے کچھ زیادہ فوج رہ گئی تھی وہ تو دمشق تک کے علاقے میں قبضہ کرنے آیا تھا اس کی فوج العادل کے چھاپہ مار حملے میں مری تھی اور جب صلیبی بھاگے تو ان میں سے بہت سے وادیوں اور ویرانوں میں بھٹک گئے تھے ان میں سے کئی ایک کو مسلمان گڈریوں خانہ بدوشوں اور دیہاتیوں نے مار ڈالا اور ان کے ہتھیاروں اور گھوڑوں پر قبضہ کرلیا تھا
جب بالڈون نے بچی کھچی فوج کو حماة سے دور ایک جگہ جمع کرلیا تو اسے بتایا گیا کہ فوج کے وہ سپاہی اور عہدے دار جو اکیلے اکیلے آرہے تھے مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوگئے ہیں بالڈون شکست سے بوکھلایا ہوا تھا اس اطلاع سے اس کا غصہ اور تیز ہوگیا اس نے حکم دیا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کا کوئی گاؤں نظر آئے اسے لوٹ لو جوان لڑکیاں اٹھا لاؤ اور گاؤں کو آگ لگا دو چنانچہ یہ فوج جب نفری اور دیگر نقصان پورا کرنے اور حملے کی ازسر نو تیاری کرنے کے لیے پیچھے جارہی تھی مسلمانوں کے گاؤں تباہ کرتی گئی اب یہ فوج حمص سے چھ سات میل دور خیمہ زن تھی بالڈون اس کوشش میں تھا کہ کوئی صلیبی حکمران اس کے ساتھ تعاون کرے اور اپنی فوج اسے دے دے جس سے وہ العادل سے شکست کا انتقام لے سکے اور دمشق تک اپنی حکمرانی جسے وہ صلیب کی حکمرانی کہتا تھا قائم کرنے کا عزم پورا کرسکے اسی سلسلے میں وہ ایک اور صلیبی بادشاہ ریجنالٹ آف شائتون کے ہاں گیا ہوا تھا
ویرا کی تلاش سے مایوس ہوکر بوڑھا عیسائی اور اس کے ساتھی رات بھر چلتے رہے اور صبح حمص پہنچے قافلے کے دوسرے لوگ بھی پہنچ گئے تھے ان میں سے کوئی بھی حمص کا نہیں تھا انہیں آگے جانا تھا تبریز کا گھوڑا ان کے ساتھ تھا انہوں نے گھوڑا ایک مسجد کے امام کے حوالے کرکے بتایا کہ اس کا مالک حمص کا رہنے والا تھا وہ طغیانی میں گھوڑے سے گر کر ڈوب گیا تھا اور گھوڑا باہر آگیا تھا تھوڑی دیر بعد گھوڑا پہچان لیا گیا جب گھوڑا تبریز کے گھر پہنچا تو وہاں کہرام بپا ہوگیا وہاں ایک یہودی تاجر کا گھر تھا یہ ایک دولت مند یہودی تھا وہ جو اپنے آپ کو ویرا کا باپ کہتا تھا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس یہودی کے گھر میں بیٹھا تھا وہ بتا چکا تھا کہ ویرا ڈوب گئی ہے سب افسوس کا اظہار کررہے تھے لیکن ان کا مسئلہ افسوس کرنے سے حل نہیں ہوسکتا تھا بوڑھے نے یہودی میزبان سے پوچھا کہ حمص کے مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں بہت خطرناک میزبان نے جواب دیا انہیں باقاعدہ ٹریننگ دی جارہی ہے اور یہ قصبہ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کا اڈہ بنتا جارہا ہے خطیب صرف خطیب نہیں فوج کا کمان دار اور استاد معلوم ہوتا ہے اگر اسے قتل کرا دیا جائے تو کیا فائدہ ہوگا
بوڑھے عیسائی نے پوچھا کچھ بھی نہیں یہودی تاجر نے جواب دیا اس کا نقصان یہ ہوگا کہ مسلمان ہم پر شک کرکے ہم میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں رہنے دیں گے یہ قصبہ ان کی سلطنت میں ہے
یہاں جو عیسائی اور یہودی گھرانے ہیں کیا ان کی لڑکیاں کچھ نہیں کرسکتیں؟
بوڑھے نے پوچھا
آپ جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے کتنی ٹریننگ اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے میزبان نے جواب دیا ہماری لڑکیوں میں کوئی ایک بھی اتنی چالاک نہیں اور آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان جنگی ٹریننگ حاصل نہ کریں؟
بوڑھے نے پوچھا
آپ کیا حکم لے کر آئے ہیں؟
میزبان نے پوچھا
حکم تو بڑا صاف ہے بوڑھے نے کہا ان مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانا اور انہیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف کرنا ہے ویرا کے لیے یہ کام مشکل نہیں تھا اس کے بغیر یہ مہم ممکن نہیں رہی ہمیں دو لڑکیاں یہاں لانی پڑیں گی وقت کم ہے میزبان نے کہا آپ جانتے ہیں کہ رملہ کی لڑائی کو کتنے مہینے گزر چکے ہیں جس میں صلاح الدین ایوبی کو شکست ہوئی تھی آپ اگر حقیقت کو قبول کریں تو یہ شکست صلاح الدین ایوبی کے عزم اور جذبے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی وہ سنبھل چکا ہے اور اس نے فوج تیار کرلی ہے قاہرہ سے جاسوس جو خبریں بھیج رہے ہیں وہ اچھی نہیں صلاح الدین ایوبی قاہرہ سے کوچ کرنے والا ہے ابھی یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس طرف کوچ کرے گا اور کہاں حملہ کرے گا ادھر اس کے بھائی العادل کو دمشق سے کمک مل گئی ہے اس نے شاہ بالڈون کو ایسی شکست دی ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہ بالڈون سنبھل نہیں سکا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی شب خون اور چھاپوں کی جنگ لڑتا ہے ہماری فوجوں کی رسد اس سے محفوظ نہیں رہتی اگر حمص کے مسلمانوں نے اسے چھاپہ ماروں کے لیے اڈہ مہیا کردیا تو یہ لوگ ہماری رسد اور آگے جانے والی کمک کے لیے مصیبت بن جائیں گے ان حالات میں آپ کا یہ طریقہ کار بالکل بے کار ثابت ہوگا کہ تربیت یافتہ لڑکیوں کو یہاں لاکر مسلمانوں میں رقابت پیدا کی جائے اور ان کی کردار کشی کی جائے اس کے لیے حالات اور مقامات مختلف ہوتے ہیں میں آپ کے ان افسروں پر حیران ہوں جنہوں نے ایک لڑکی یہاں بھیجی تھی
پھر کیا کیا جائے؟
صفایا میزبان نے اپنے ہاتھ کو تلوار کی طرح دائیں بائیں جنبش دے کر کہا پورے قصبے کو آبادی سمیت ختم کرنا پڑے گا اس صورت میں ہم بھی یہاں نہیں رہ سکیں گے ہم اپنے بیوی بچوں اور مال ودولت کو یہاں سے پہلے نکال دیں گے مجھے امید ہے کہ صلیبی بادشاہ ہمیں کسی دوسری جگہ آباد کرنے میں مدد دیں گے اور ہمارا مالی نقصان پورا کردیں گے میں یہودی ہوں میں ہیکل سلیمانی کی خاطر اپنا گھر تباہ کرانے کے لیے تیار ہوں لیکن اس قصبے کی تباہی کا انتظار کیا ہوگا؟
بوڑھے نے پوچھا اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے فوج موجود ہے یہودی نے کہا شاہ بالڈون کی فوج پانچ چھ میل دور خیمہ زن ہے آپ کو شاید معلوم نہیں کہ اس فوج نے پسپائی کے راستے میں آنے والی تمام مسلمان بستیوں کو تباہ وبرباد کردیا ہے اس سے حمص بھی تباہ کرایا جاسکتا ہے میں آج ہی روانہ ہو جاؤں گا اور شاہ بالڈون کو بتاؤں گا کہ ہمارا قصبہ اس کی فوج کے لیے کس قدر خطرناک ہے مقصد یہ نہیں کہ قصبہ تباہ کرایا جائے بوڑھے نے کہا بلکہ یہ کہ یہاں کے کسی مسلمان کو زندہ نہ رہنے دیا جاۓ...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*