⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برادر بزرگوار سلطان مصر وشام
اللہ آپ کو سلطنت اسلامیہ کے وقار کی خاطر عمر طویل عطا فرمائے میں اس امید پر خط لکھ رہا ہوں کہ آپ بخیروعافیت قاہرہ پہنچ چکے ہوں گے کسی نے اطلاع دی تھی کہ آپ شہید ہوگئے ہیں پھر معلوم ہوا کہ زخمی ہوئے ہیں میں اور میرے سالار فکر مند رہے آپ نے دانش مندی کی جو راستے سے قاصد بھیج کر ہمیں بتا دیا کہ آپ زندہ وسلامت ہیں اور قاہرہ جارہے ہیں مجھے توقع ہے کہ آپ نے رملہ کی شکست کو دل پر بار نہیں بنایا ہوگا ہم ان شاءاللہ شکست کا انتقام لیں گے کھوئے ہوئے علاقے واپس لیں گے اور بیت المقدس سے بھی آگے جائیں گے آپ شکست کے اسباب پر غور کررہے ہوں گے میں اس کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں کروں گا ہمیں شکست کے راستے پر اپنے بھائیوں نے اسی روز ڈال دیا تھا جس روز ہمارے خلاف صف آراء ہوئے تھے جب دو بھائی آپس میں لڑتے ہیں تو ان کے دشمن ہمدردی کے پردے میں انہیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرتے ہیں ہمارے بھائیوں کو بادشاہی کے نشے نے اندھا کیا وہ دولت جس کی ضرورت سلطنت اسلامیہ کو تھی خانہ جنگی میں ضائع ہوئی ہماری فوج کی بہترین اور تجربہ کار نفری تباہ ہوگئی ان کی فوج جو اسی خلافت کی فوج تھی جس کے ہم ہیں صرف اس لیے ضائع ہوگئی کہ چند ایک افراد نے تخت وتاتج کے خواب دیکھنے شروع کردئیے تھے جس قوم کے سربراہوں میں تخت وتاج کا لالچ پیدا ہوگا اس کو وہ اپنے اپنے عزائم کے مطابق دھڑوں میں تقسیم کرکے آپس میں ضرور لڑائیں گے ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی پڑے گی کہ قوم دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہونے پائے مذہبی فرقہ بندیاں ہی کیا کم تھیں کہ سلطانی کے حصول کے لیے قوم گروہوں میں تقسیم ہونے لگی ہے ہمیں شکست تک اسی فرقہ بندی نے پہنچایا ہے مگر اس کی سزا آج سالاروں اور سپاہیوں کو مل رہی ہے ہماری بہترین فوج خانہ جنگی میں ضائع ہوئی اس کمی کو ہم نے نئی بھرتی سے پورا کیا اور شکست کھائی میدان جنگ سے بے ترتیب بھاگنے والے تمام نئے سپاہی تھے
میں نے اور میرے سالاروں نے رملہ کی شکست کے فوراً بعد ثابت کردیا ہے کہ فوج نہیں ہاری میرے پاس وہی پیادہ اور سوار نفری تھی جو آپ نے میری کمان میں دی تھی آپ نے مجھے محفوظہ (ریزرو) میں رکھا مگر میدان جنگ کی کیفیت اس قدر تیزی سے بدل گئی کہ مجھ تک آپ کا کوئی حکم نہ پہنچ سکا یہ بھی پتہ نہ چلا کہ آگے کیا ہورہا ہے اور میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں پسپا ہونے والے ایک کمان دار نے جو دائیں پہلو پر تھا مجھے بڑی ہی تشویشناک اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ میں اپنے دستے استعمال نہ کروں اور حملے کی لغزش نہ کروں میں نے یہی بہتر سمجھا کہ کم از کم ان دستوں کو جو معرکے میں ابھی شریک ہی نہیں ہوئے بچا لوں میں نے اپنے جذبات پر قابو پالیا اور عقل سے کام لیا میں نے حماة کی طرف کوچ کا حکم دے دیا میرے دستوں کا جذبہ کسی حد تک مجروح ہوگیا تھا میں دعا کرتا رہا کہ دشمن میرے سامنے آئے اور میں اپنے دستوں کے جذبے میں جان ڈالوں میں نے مخبر پیچھے چھوڑ دئیے تھے حماة کے کوہستان میں مجھے مخبروں نے یہ قیمتیں خبریں دیں کہ بالڈون میرے تعاقب میں آرہا ہے وہ اس غلط فہمی میں اپنی تمام تر فوج حماة کے قلعے کو محاصرے میں لینے کو آیا کہ میں قلعے میں ہوں گا لیکن میں نے آپ کے طریقہ جنگ کے عین مطابق کوہستان کے اندر دستے چھپا دئیے تھے اور قلعہ دار کو صورت حال اور اپنی متوقع چال کے متعلق تفصیلاً بتا دیا تھا میری توقع اللہ نے پوری کی بالڈون کی فوج پر جس کی قوت ہم سے دس گنا زیادہ تھی میرے جانباز جیشوں نے بڑا ہی دلیرانہ اور کامیاب شب خون مارا یہ آپ کی اس فوج کا شب خون تھا جس کے متعلق تاریخ کہے گی کہ اس نے شکست کھائی تھی میری خواہش ہے کہ یہ شب خون تحریر میں لا کر کاغذات میں رکھ لیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں یہ نہ کہیں شکست کے بعد قوم مر ہی جاتی ہے اگر آپ وہ منظر دیکھتے جو اگلے روز کے سورج نے ہمیں دکھایا تو آپ شکست کے صدمے کو بھول جاتے مجھے افسوس ہے کہ بالڈون میرے پھندے سے نکل گیا اسے پکڑا نہیں جاسکا میں اس وقت ایک ٹیکری پر کھڑا کاتب سے یہ خط لکھوا رہا ہوں مجھے حماة کا قلعہ نظر آرہا ہے اس پر وحدت مصر وشام کا جھنڈا لہرا رہا ہے قلعے کے اردگرد صلیبیوں کی لاشوں کے علاوہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے تو وہ ہزاروں گدھ ہیں جو لاشوں کو کھا رہے ہیں آسمان سے گدھ اتر رہے ہیں کہیں کہیں سے دھواں اٹھ رہا ہے یہ آگ گزشتہ رات میرے چھاپہ ماروں نے لگائی تھی بالڈون کی فوج جس افراتفری میں بھاگی ہے اس سے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ بالڈون جوابی حملہ نہیں کرسکے گا تاہم میں اس کے لیے تیار ہوں اگر میرے پاس اتنے ہی دستے اور ہوتے جتنے اب ہیں تو میں صلیبیوں کا تعاقب کرتا اور شکست کو فتح میں بدل دیتا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے سالاروں کمان داروں اور تمام تر سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ تروتازہ ہوگیا ہے مجھے امید ہے کہ آپ آرام سے نہیں بیٹھے ہونگے فوج کے لیے بھرتی اور نئی تنظیم میں مصروف ہوگئے ہوں گے آپ اطمینان سے تیاری کریں میں چھاپہ مار جنگ جاری رکھوں گا دشمن کو کہیں بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دونگا اس طرح میں کسی علاقے پر قبضہ تو نہیں کرسکوں گا البتہ آپ کو تیاری کا وقت مل جائے گا میں نے دمشق بھائی شمس الدولہ کو پیغام بھیج دیا ہے کہ مجھے چند ایک دستے اور دیگر سامان بھیجے حلب الملک الصالح کو بھی پیغام بھیج دیا ہے کہ معاہدے کے مطابق مجھے مدد دے میں آپ کو اللہ کے بھروسے پر تسلی دے رہا ہوں کہ میرے متعلق فکر نہ کریں میں اور میرے سالار آپ کی خیریت اور سرگرمیوں کے متعلق جاننے کو بے تاب ہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے اسی کی ذات باری سے مدد مانگتے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے
الملک العادل
العادل نے خط پڑھوا کر سنا اس پر دستخط کیے اور قاصد کو دے کر قاہرہ کو روانہ کردیا قاہرہ کی فضا پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں پہنچ چکا تھا شہر میں اور شہر کے مضافات میں یہی ایک آواز ابھرتی سنائی دیتی تھی شکست شکست شکست شکوک اور شبہات بھی ابھرنے لگے تھے شکست جیسے حادثات اور ایسے واقعات جن کے متعلق لوگوں کو کچھ پتہ نہ چل سکے ایسی فضا پیدا کردیتے ہیں جس سے افواہیں پھوٹتی پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہیں یہ عمل قاہرہ کے اندر بھی اور اردگرد بھی شروع ہوگیا تھا وہاں دشمن کے تخریب کار اور جاسوس بھی موجود تھے جو یورپ کے باشندے نہیں مصر کے رہنے والے مسلمان تھے اس کی انہیں اجرت ملتی تھی کہ لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ صلیبیوں کے پاس اتنی جنگی قوت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی فوج نہیں ٹھہر سکتی سلطان ایوبی کی ہاری ہوئی فوج کے خلاف یہ مشہور کیا جانے لگا کہ بے کار اور عیاش فوج ہے جہاں جاتی ہے لوٹ مار کرتی اور مسلمان خواتین کی آبروریزی سے بھی گریز نہیں کرتی سلطان ایوبی کی جنگی اہلیت کے خلاف بھی باتیں شروع ہوگئیں لوگ جس قدر سیدھے سادھے ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ افواہوں اور جذباتی باتوں کو مانتے ہیں مصریوں نے دہشت کو بھی قبول کرنا شروع کردیا تھا زیادہ تر دہشت وہ سپاہی پھیلاتے تھے جو اکیلے یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں مصر کی سرحد میں داخل ہورہے تھے یہ دیہات کے رہنے والے تھے جنہیں بھرتی کرکے اور تھوڑی سی ٹریننگ دے کر میدان جنگ میں لے جایا گیا تھا العادل نے ٹھیک لکھا تھا کہ بادشاہی کے لالچی مسلمان امراء اپنی اور سلطان ایوبی کی فوج کو خانہ جنگی میں ضائع نہ کرا دیتے تو نئی بھرتی کو میدان جنگ میں لے جانے کا خطرہ مول نہ لیا جاتا ایک غلطی بھرتی کرنے والے چند ایک حکام نے کی تھی جو یہ تھی کہ فوج میں کشش پیدا کرنے کے لیے انہوں نے بھرتی ہونے والوں کو مال غنیمت کا لالچ دیا تھا جبکہ ضرورت یہ تھی کہ انہیں جہاد کے فضائل اور اغراض ومقاصد بتائے جاتے اور بتایا جاتا کہ ان کا دشمن کون ہے کیسا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں
یہ سپاہی پاپیادہ بھی آرہے تھے اونٹوں اور گھوڑوں پر بھی آرہے تھے جب کوئی سپاہی کسی آبادی میں داخل ہوتا تھا لوگ اسے گھیر لیتے کھیلاتے پلاتے اور میدان جنگ کی باتیں پوچھتے تھے یہ گنوار سپاہی شکست کی خفت مٹانے کے لیے اپنے کمانڈروں کو نااہل اور عیاش ثابت کرتے اور صلیبی فوج کے متعلق دہشت ناک باتیں سناتے تھے بعض کی باتوں سے پتہ چلتا تھا جیسے صلیبیوں کے پاس کوئی مافوق الفطرت قوت ہے جس کے زور پر وہ جدھر جاتے ہیں صفایا کرتے جاتے ہیں
ایسے مورخوں کی تعداد زیادہ تو نہیں لیکن دو تین نے جن میں ارنول قابل ذکر ہے لکھا ہے کہ صلیبی ایک خفیہ ہتھیار لائے تھے اور یہی ان کی فتح کا باعث بنا تھا تاریخ کی مختلف تحریروں میں اس خفیہ ہتھیار کا آگے چل کر کوئی ذکر نہیں ملتا قاضی بہاؤالدین شداد کی ڈائری میں جو عینی شہادت ہے ایسے کسی ہتھیار کا ذکر نہیں اس دور کے دیگر وقائع نگاروں اور کاتبوں کی تحریریں بھی اس پراسرار ہتھیار کے متعلق خاموش ہیں غالباً یہ ہتھیار اس پراپیگنڈے کا ایک خالی ہتھیار تھا جسے مصر (اور دیگر مسلمان علاقوں) میں صلیبیوں کی دہشت پھیلانے کے لیے کیا گیا تھا ہوسکتا ہے اس کے بہت زیادہ ذکر سے مورخوں نے اسے حقیقی سمجھ لیا ہو
یہ خفیہ ہتھیار دراصل پراپیگنڈا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قوم کی نظروں میں فوج کو ذلیل و رسوا کردیا جائے تاکہ سلطان ایوبی کی فوج قوم کے تعاون اور نئی بھرتی سے محروم ہوجائے دوسرا یہ کہ مسلمانوں پر صلیبیوں کی دھاک بیٹھ جائے تیسرا یہ کہ سلطان ایوبی کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوجائے چوتھا یہ کہ کچھ اور لوگ سلطانی کے دعوے دار بن جائیں اور ایک بار پھر خانہ جنگی شروع کرائی جائے سلطان ایوبی دشمن کے اس ہتھیار سے اچھی طرح واقف تھا اس نے قاہرہ پہنچتے ہی اپنی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر علی بن سفیان کوتوال غیاث بلبیس اور ان دونوں کے نائبین کو بلا کر پوری وضاحت سے بتا دیا تھا کہ اب وہ دشمن کے اس زمین دوز حملے کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور اپنے جاسوسوں اور مخبروں کو زیر زمین کرکے سرگرم کردیں مگر لوگ جاننا چاہتے تھے کہ اس شکست کے اسباب کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے رملہ سے قاہرہ تک کی مسافت بڑی ہی لمبی تھی اور سفر بھیانک اور کٹھن تھا راستے میں پہاڑی علاقے بھی تھے مٹی اور ریت کے ٹیلوں کی بھول بھلیاں بھی اور صحرا بھی تھا جو بھولے بھٹکے مسافروں کا خون چوس لیا کرتا ہے سلطان ایوبی کے وہ سپاہی جو میدان جنگ سے مصر کو چل پڑے تھے وہ اس لمبی اور بھیانک مسافت میں بکھر گئے تھے ان کی واپسی کا منظر ہیبت ناک تھا ان میں جو ریگزار کے سفر سے آشنا نہیں تھے وہ جہاں گرتے وہاں سے اٹھ نہیں سکتے تھے ان کی لاشیں صرف ایک روز سالم نظر آتی تھیں اگلے روز صحرائی لومڑیاں اور بھیڑئیے ان کی ہڈیاں بکھیر دیتے تھے ٹولیوں میں آنے والے اس انجام سے بچے رہتے تھے اور جو اونٹوں خچروں اور گھوڑوں پر سوار تھے ان کے زندہ واپس آجانے کے امکانات زیادہ تھے
ایسی ہی ایک ٹولی چلی آرہی تھی یہ سب سپاہی تھے اور وہ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھے راستے میں ان کے اکیلے دھکیلے ساتھی ان کے ساتھ ملتے گئے اور یہ ٹولی تیس چالیس افراد کا قافلہ بن گیا وہ اس بھیانک ریگزار میں سے گزر رہے تھے جو آج صحرائے سینائی کہلاتا ہے اکٹھے ہونے کی وجہ سے ان کا حوصلہ قائم تھا مگر افق تک پانی کے آثار نظر نہیں آتے تھے دور دور میدان جنگ سے زندہ نکلے ہوئے فوجی ایک ایک دو دو قدم گھسیٹتے جاتے نظر آتے تھے وہ ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ کوئی مرجاتا تو اس کا کوئی ساتھی اسے ریت میں دفن کردیتا تھا
سواروں کا یہ قافلہ چلا آرہا تھا آگے وہ علاقہ آگیا جہاں مٹی کے اونچے نیچے ٹیلے دیواروں ستونوں اور مکانوں کی طرح کھڑے تھے کسی نے دور سے ایک ٹیلے پر ایک آدمی کا سر اور کندھے دیکھے اور وہ غائب ہوگیا دیکھنے والے نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس جگہ چل کر رک جائیں گے وہاں کوئی اور بھی ہے پانی نہ ملا تو سایہ مل جائے گا قافلے میں اکثریت ان آدمیوں کی تھی جن کے دماغ تھکن اور پیاس سے ماؤف ہوئے جارہے تھے اس سے پہلے وہ جنگ کی باتیں کرتے رہے تھے مگر اب اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی ان کے جانوروں میں ابھی جان تھی اور وہ اچھی طرح چلے جارہے تھے
ایک میل دور کے ٹیلے سو کوس کی مسافت بن گئی قافلہ وہاں پہنچ گیا اور دو ٹیلوں کے درمیان سے اندر چلا گیا اندر ٹیلوں کا سایہ تھا سب جانوروں سے اترے جانوروں کو سائے میں چھوڑ کر سب ایک عمودی ٹیلے کے سائے میں بیٹھ گئے ابھی بیٹے ہی تھے کہ ایک ٹیلے کی اوٹ سے ایک آدمی سامنے آیا اور بت بن کر کھڑا ہوگیا وہ سر سے پاؤں تک سفید کپڑوں میں ملبوس تھا ایک لمبا اور سفید چغہ تھا جو کندھوں سے ٹخنوں تک چلا گیا تھا اس کی داڑھی سیاہ تھی لمبی نہیں تھی خوبی سے تراشی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں عصا تھا جو عموماً عالم فاضل یا خطیب ہاتھ میں رکھتے تھے وہ خاموش کھڑا تھا اسے دیکھ کر سب پر خاموشی طاری ہوگئی کسی نے آہستہ سے کہا حضرت خضر علیہ السلام ہیں یہ اس زمین کا انسان نہیں ایک اور نے سرگوشی کی قافلے والوں کو ڈر محسوس ہونے لگا وہ تو پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے اس پراسرار آدمی نے ان کے ڈر میں اضافہ کردیا کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں ایسے ظالم صحرا میں اس حیثیت کے کسی آدمی کی موجودگی حیران کن تھی وہ کوئی فوجی ہوتا تو سپاہیوں کے اس قافلے میں سے کوئی بھی نہ ڈرتا ان کے ڈر میں اس وقت دہشت آگئی جب اس آدمی کے پہلو میں ایک عورت اس طرح آن کھڑی ہوئی جیسے اس آدمی کے جسم سے نمودار ہوئی ہو وہ اس کے پیچھے سے سامنے ہوئی اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی تھی فوراً بعد اسی طرح ایک اور عورت اس کے دوسرے پہلو میں نمودار ہوئی دونوں عورتیں سر سے پاؤں تک مستور تھیں ان کی آنکھوں کے سامنے جالی کی طرح باریک کپڑا تھا برقعہ نما لبادے سے ان کے ہاتھ بھی نظر نہیں آتے تھے
تم پر اللہ کی رحمت ہو اس آدمی نے کہا کیا میں آگے آکر بتا سکتا ہوں کہ ہم کون ہیں؟
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اس شخص اور عورتوں کی طرف دیکھا کسی نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا آپ ہمارے پاس آئیں اور بتائیں کہ آپ کون ہیں اور ہمیں آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے
وہ ایسی چال چلتا ان تک پہنچا جو عام انسان کی چال نہیں تھی اس کے چلنے میں اور سراپا میں جلال سا تھا دونوں مستورات اس کے پیچھے پیچھے آئیں سب احترام سے اٹھ کھڑے ہوئے احترام میں ڈر بھی شامل تھا وہ ٹیلے کے ساتھ بیٹھ گیا مستورات بھی اس کے پاس گئیں جالی میں سے ان کی آنکھیں نظر آرہی تھیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ وہ خوبصورت عورتیں ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ ان آنکھوں کا سامنا کرسکتا سفید پوش شخص اور ان مستورات کے کپڑوں پر گرد تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر میں ہیں میں بھی وہیں سے آیا ہوں جہاں سے تم آرہے ہو سیاہ ریش نے بھاگے ہوئے مصری سپاہیوں سے کہا فرق یہ ہے کہ تم جہاں جارہے ہو وہ تمہارا گھر ہے اور جہاں سے آیا ہوں وہ میرا گھر تھا اس کے لہجے میں سنجیدگی اور اداسی تھی
ہم کس طرح یقین کریں کہ آپ انسان ہیں ایک سپاہی نے پوچھا ہم آپ کو آسمان کی مخلوق سمجھ رہے ہیں
میں انسان ہوں سیاہ ریش بزرگ نے جواب دیا اور یہ دونوں میری بیٹیاں ہیں میں بھی تمہاری طرح رملہ سے بھاگ کر آرہا ہوں اگر میرا پیرومرشد مجھ پر کرم نہ کرتا تو صلیبی مجھے قتل کر دیتے اور میری ان دونوں بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے یہ میرے مرشد کے مزار کی برکت ہے میں رملہ کا رہنے والا ہوں لڑکپن سے مذہب کا علم حاصل کرنے کا شوق تھا میں نے مسجدوں میں اماموں کی بہت خدمت کی اور ان سے علم حاصل کیا ہے خدا اپنے رسولﷺ کے مذہب کے پرستاروں پر بہت کرم نوازی کرتا ہے ایک رات مجھے خواب میں اشارہ ملا کہ بغداد چلے جاؤ اور وہاں کے خطیب کی شاگردی میں بیٹھ جاٶ میں پیدل چل پڑا میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا ماں باپ بہت غریب تھے چھوٹا سا مشکیزہ بھی میرے نصیب میں نہیں تھا کہ میں راستے کے لیے پانی ساتھ لے جاتا علم کا عشق مجھے گھر سے نکال لے گیا سب نے کہا یہ لڑکا راستے میں مرجائے گا میری ماں بہت روئی تھی اور میرا باپ بھی بہت رویا تھا مگر میں چل پڑا دن کے وقت پیاس اور بھوک میری جان نکال لیتی تھی شام کے بعد جب میں اس امید پر کہیں گر پڑتا تھا کہ مرجاؤں گا میرے قریب پانی کا ایک پیالہ اور کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ رکھا ہوتا تھا پہلی بار میں بہت ڈرا تھا میں اسے جنات کا دھوکہ سمجھتا تھا لیکن رات کو خواب میں اشارہ ملا کہ یہ مرشد کی کرامت ہے مجھے یہ پتہ نہ چلا کہ وہ مرشد کون ہے اور کہاں ہے میں کھا پی کر گہری نیند سوگیا صبح اٹھا تو وہاں پیالہ بھی نہیں تھا اور جس چنگیر میں روٹیاں تھیں وہ بھی نہیں تھی بغداد پہنچنے تک راستے میں دو نئے چاند طلوع ہوئے بہت لمبا سفر تھا ہر رات مجھے پیالے میں پانی اور چنگیر میں کھانا ملتا رہا بغداد میں جامع مسجد کے خطیب نے مجھے دیکھا تو میری عرض سنے بغیر بولے کہ میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں وہ مجھے اپنے حجرے میں لے گئے میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں ایک چنگیر پڑی تھی اور اس میں ایک پیالہ رکھا تھا خطیب نے پوچھا کہ تمہیں ہر رات کھانا اور پانی ملتا رہا ہے میں نے جواب دیا کہ ملتا رہا ہے مگر حیران و پریشاں ہوں کہ یہ چنگیر اور پیالہ مجھ تک ہر رات کون لے جاتا اور واپس لاتا رہا تو وہ بولے کہ خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کرنا چاہی تھی تو دریائے نیل کو حکم دیا تھا کہ راستہ دے دو دریا کا آگے کا پانی آگے اور پیچھے کا پانی پیچھے رہ گیا اور خشکی کی اس گلی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نکل آئے تھے اور جب فرعون ان کے تعاقب میں اس گلی میں داخل ہوا تو دریا کے دونوں حصے آپس میں مل گئے اور دریا اسی طرح قہر سے بہنے لگا جیسے بہتا تھا فرعون غرق ہوگیا خطیب مکرم نے کہا کہ ہم اس کی ذات کے تابع ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہمیں باری باری اس دنیا سے اٹھاتا ہے اس کا جو بندہ اس کے علم کے عشق سے دیوانہ ہوتا ہے جیسے تم ہوئے اسے وہ صحراؤں میں پیاسا نہیں مرنے دیتا اور دریاؤں میں ڈوبنے نہیں دیتا اس کی ذات باری نے مجھے اشارہ دیا کہ ہم نے اپنے ایک بندے کے لیے مہینوں کے فاصلے اور ان فاصلوں کی صعوبتیں مٹا دی ہیں تمہارے سینے میں جو علم ہے وہ اس لڑکے کے سینے میں منتقل کردو اور ہم نے تمہاری خدمت کے لیے جو دو جنات مقرر کر رکھے ہیں انہیں کہو کہ اس لڑکے کو راستے میں پانی اور کھانا پہنچاتے رہیں میں نے خدائے ذوالجلال کے حکم کی تعمیل کی ہر رات تمہارے لیے یہاں سے کھانا اور پانی جاتا رہا ہے حیران نہ ہو لڑکے پریشان بھی نہ ہو بہت کم خوش نصیبوں کے دلوں میں علم کا چراغ روشن ہوتا ہے جس کی خواہش تم لے کر آئے ہو ارادہ نیک ہو دل میں اللہ کی خوشنودی کی خواہش ہو تو جن و انس غلام ہوجاتے ہیں کیا جنات آپ کے غلام ہیں؟
ایک سپاہی نے پوچھا
وہ نہیں اس نے جواب دیا میں ان کا غلام ہوں کوئی کسی کو غلام نہیں بنا سکتا ہم سب ایک خدا کے ایک جیسے بندے ہیں اونچا اور نیچا امیری اور غریبی سے نہیں ہوتا ایمان کی پختگی اور کمزوری سے انسانوں کی درجہ بندی ہوتی ہے
اس کی باتوں میں ایسا تاثر تھا جس نے سب کے دلوں کو موہ لیا اور سب دم بخود ہوکر سن رہے تھے اس نے کہا بغداد کے خطیب نے میری روح کو علم سے روشن کردیا انہوں نے میری شادی بھی کرائی وہیں میری یہ دونوں بچیاں پیدا ہوئیں میں نے بہت چلے کیے اور قدرت کے کارخانے کے دو تین راز پالیے تب ایک رات میرے خطیب استاد نے کہا کہ اب جا اور ان کی خدمت کر جو علم اپنے ساتھ قبروں میں لیے ابدی نیند سو رہے ہیں انہوں نے مجھے واپس اپنے گھر رملہ چلے جانے کا حکم دیا دو اونٹ دئیے زاد راہ دیا اور کہا کہ گناہ کا کبھی خیال بھی دل میں نہ آنے دینا رملہ پہنچو گے تو ایک رات تم اپنے ارادے کے بغیر اٹھ کر چل پڑو گے شاید تمہیں بہت دور جانا نہیں پڑے گا تمہارے قدم اپنے آپ رک جائیں گے وہ ایک مقدس جگہ ہوگی اس جگہ کو اپنا آستانہ بنا لیا مگر مجھے ایک وقت جو ابھی مستقبل تاریکیوں میں چھپا ہوا ہے نظر آرہا ہے گناہ ہوں گے اور تمہیں دوسروں کے گناہوں کی سزا ملے گی شاید تمہیں ہجرت کرنی پڑے میں جب اپنی بیوی اور ان دو بچیوں کے ساتھ سفر میں تھا تو آفتاب کی تمازت میرے کنبے کے لیے خنک ہوگئی تھی ہمیں اس جگہ سے بھی پانی مل جاتا تھا جہاں کی ریت کے ذرے پانی کی ایک بوند کو ترستے جلتے انگاروں کے شرارے بن کر اڑتے رہتے ہیں میں رملہ پہنچا تو میرے والدین مرچکے تھے میری بیوی نے اجڑے ہوئے گھر کو آباد کیا میں علم و دانش کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا میری بچیاں بڑی ہوگئیں اور ان کی ماں کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا بچیوں نے گھر سنبھال لیا اور ایک رات جب میں گہری نیند سویا ہوا تھا میری آنکھ اس طرح کھل گئی جیسے کسی نے جگایا ہو میں اٹھ کھڑا ہوا بغداد کے خطیب کی برسوں پرانی بات یاد آئی کہ تم اپنے آپ جاگ اٹھو گے اور ارادے کے بغیر چل پڑو گے ایسے ہی ہوا میرے ذہن میں کوئی ارادہ کوئی خیال نہیں تھا میں گھر سے نکل گیا آبادی سے بھی نکل گیا کہیں کہیں ایسا لگتا تھا جیسے کوئی میرے آگے آگے جارہا ہو معلوم نہیں یہ احساس تھا یا حقیقت میں چلتا گیا معلوم نہیں تم نے وہ جگہ دیکھی ہے یا نہیں جہاں گہرائی ہے اور گہرائی میں ندی بہتی ہے صلیبیوں کی فوج اسی گہرائی میں چھپی ہوئی تھی میں نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو زمین کی آخری تہہ میں چھپا ہوا دشمن بھی نظر آتا ہے مگر وہاں اس کی آنکھوں پر خدا نے ایسی پٹی باندھی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ خود کہاں ہے صلیبی فوج تمہارے فوج کو پھندے میں لاکر گہرائی سے نکلی اور حملہ کیا اور تمہارا جو حال ہوا وہ تم جانتے ہو اس جنگ سے برسوں پہلے میں رات کو اپنے آپ یا غیب کی قوت کے زیراثر اس گہرائی میں پہنچ گیا اور ایک جگہ میرے قدم رک گئے چاندنی رات تھی مجھے ایک قبر نظر آئی جس کے اردگرد پتھروں کی دو ہاتھ اونچی دیوار تھی میں نے آزمانے کے لیے قدم کسی اور سمت کو اٹھائے لیکن میں قبر کی طرف گھوم گیا اور پتھروں کی دیوار میں اندر جانے کو جو راستہ بنا ہوا تھا اس میں داخل ہوگیا میرے ہاتھ اپنے آپ فاتحہ کے لیے اٹھے مجھے ایسے لگا جیسے وہاں چاندنی زیادہ سفید تھی میرے ذہن میں اپنے آپ خیال آیا کہ خطیب مکرم نے اسی جگہ کی نشاندہی کی تھی میں قبر کے پاس بیٹھ گیا اور قبر پر ہاتھ رکھ کر عرض کی مجھ غلام کے لیے کیا حکم ہے مجھے اس کے جواب میں کوئی آواز نہ سنائی دی اپنے آپ ہی خیال آیا کہ مجھے جو فیض ملے گا اسی سے ملے گا میں نے رات وہیں گزار دی صبح کے وقت ندی میں جاکر وضو کیا اور قبر پر نماز پڑھی وہاں سے جب رخصت ہوا تو مجھ پر خمار سا طاری تھا جیسے میں نے خزانہ پالیا ہو
اس کے بعد مجھے اس قبر سے اسی طرح اشارے ملنے لگے کہ کوئی آواز نہیں سنائی دیتی تھی میرے دل میں کوئی بات آئی جو میرا یقین بن جاتی تھی میں نے قبر کی دیواریں اونچی کرکے اوپر گنبد بنوا دیا میں دور دور تک گیا حلب اور موصل کے علاوہ بیت المقدس تک گیا اب کچھ عرصے سے مجھے اس مزار سے جو اشارے مل رہے تھے وہ اچھے نہیں تھے یہ جس برگزیدہ انسان کا مزار ہے اس کی روح تڑپتی محسوس ہوتی تھی قبر پر میں نے سبز چادر ڈالی تھی ایک رات چادر پھڑپھڑائی میں ڈر گیا اور میں نے چادر پر ہاتھ پھیر کر کہا مرشد! میرے لیے کیا حکم ہے؟
مزار کے اندر سے مجھے آواز سنائی دی تو دیکھ نہیں رہا کہ مسلمان شراب پی رہے ہیں؟
اس سے پہلے میں نے آواز کبھی نہیں سنی تھی اس نے مجھے کہا کہ میں مسلمانوں کو شراب کی تباہ کاریوں سے خبردار کروں میں نے حکم کی تعمیل کی لیکن شراب پینے والے امراء اور حاکم تھے جن کے کانوں تک میری آواز نہ پہنچ سکی پھر ایک رات قبر کی چادر نے پھڑپھڑا کر مجھے بتایا کہ مصر سے آئی فوج مسلمانوں کی آبادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو صلیبی فوج کیا کرتی ہے اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج دمشق میں بھی تھی اور دمشق سے حلب تک اور وہاں سے رملہ تک جگہ جگہ موجود تھی اس فوج کے کمان داروں نے جس مسلمان گھرانے میں کوئی قیمتی چیز اور رقم دیکھی اٹھالے گئے انہوں نے پردہ نشین خواتین پر دست درازیاں کیں ان کی دیکھا دیکھی سپاہیوں نے بھی لوٹ مار اور آبرو ریزی شروع کردی یہاں تک پتہ چلا کہ سالاروں اور کمان داروں نے مسلمان لڑکیاں اغوا کرکے اپنے خیموں میں رکھی ہوئی ہیں مزار سے مجھے حکم ملتا تھا کہ میں سلطان ایوبی کے پاس جاؤں اور اسے بتاؤں کہ یہ فوج خلافت بغداد کی ہے مصر کے فرعونوں کی نہیں اگر فوج نے یہ گناہ جاری رکھے تو اس کا حشر فرعون موسیٰ جیسا ہوگا
اس وقت سلطان ایوبی حلب کے قریب خیمہ زن تھا میں اتنی لمبی مسافت طے کرکے اسے ملنے گیا تو اس کے محافظوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم سلطان سے کیوں ملنا چاہتے ہو تو میں نے بتایا کہ میں رملہ سے آیا ہوں اور ایک پیغام لایا ہوں انہوں نے پوچھا کہ پیغام کس کی طرف سے ہے میں نے بتایا کہ جس نے پیغام دیا ہے وہ زندہ نہیں محافظوں نے قہقہہ لگایا اور ان کے کمان دار نے بلند آواز سے کہا کہ آؤ تمہیں ایک پاگل دکھاؤں کہتا ہے قبر سے سلطان ایوبی کے لیے پیغام لایا ہوں ایک نے کہا کہ یہ شیخ سنان کا بھیجا ہوا فدائی ہے سلطان کو قتل کرنے آیا ہے اسے پکڑ لو کسی نے کہا کہ صلیبیوں کا جاسوس ہے اسے قتل کردو میں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ میں پاگل ہوں میں وہاں سے بھاگ آیا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سلطان کے محافظوں کے ایک خیمے میں دو لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں ہم نے اپنی فوج کے ساتھ کوئی عورت نہیں دیکھی ایک سپاہی نے کہا ہم نے اپنی فوج کے ساتھ کوئی عورت نہیں دیکھی ایک سپاہی نے کہا کیا تم اس وقت سے فوج کے ساتھ ہو جب یہ دمشق گئی تھی؟
سیاہ ریش نے کہا ہم سب پہلی بار ادھر آئے ہیں سپاہی نے جواب دیا ہم فوج میں اتنے پرانے نہیں ہیں میں پرانی فوج کی بات کررہا ہوں اس نے کہا اس فوج کے کمان داروں اور سپاہیوں کو سزا مل چکی ہے تم نئے تھے تم نے ابھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا اسی لیے تم زندہ سلامت واپس آگئے ہو جنہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے مسلمانوں کے گھر لوٹے تھے اور پردہ دار خواتین پر دست رازی کی تھی وہ مارے گئے ہیں جو زیادہ گناہ گار تھے ان میں سے کسی کی ٹانگیں کٹیں اور کسی کے بازو وہ زندہ تھے تو گدھ ان کی آنکھیں نکال رہے تھے اور ان سے بھی زیادہ گناہ گار تھے وہ صلیبیوں کی قید میں چلے گئے ہیں جو ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہوگی ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والی اذیتیں ہیں وہ بھوکے پیاسے تڑپتے رہیں گے مگر مریں گے نہیں مرنے کی دعائیں مانگیں گے ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی کیا ہماری شکست کی وجہ یہی ہے؟
ایک سپاہی نے پوچھا مجھے دو سال پہلے اشارہ مل گیا تھا کہ یہ فوج تباہ ہوگی اس نے کہا اور یہ فوج کفار کو موقع دے گی کہ وہ اسلام کی تذلیل کریں اب یہ فوج اللہ کی درگاہ سے دھتکاری گئی ہے
آپ کہاں جا رہے ہیں؟
کسی نے پوچھا میں تمہاری طرح اللہ کے قہر سے جو صلیبی فوج کی صورت میں نازل ہوا ہے بھاگ کر آیا ہوں سیاہ ریش نے جواب دیا صلیبی فوج طوفان کی طرح آئی تمہاری فوج اسے روک نہ سکی اگر صرف میری اپنی جان ہوتی تو میں اپنے مرشد کے مزار پر جان قربان کردیتا لیکن اپنی جوان بیٹیوں کی آبرو کو میں قربان نہیں کرسکتا تھا صلیبی دو چیزوں کو نہیں چھوڑتے رقم اور خوبصورت مستورات مجھے مزار سے حکم ملا کہ اپنی بیٹیوں کو ساتھ لو اور مصر کی طرف نکل جاؤ میں نے عرض کی کہ میں زندہ کی طرح پہنچوں گا مزار سے آواز آئی کہ تم نے ہماری جو خدمت کی ہے اس کے عوض تم خیریت سے قاہرہ پہنچ جاؤ گے لیکن وہاں خاموش نہ بیٹھنا ہر کسی کو بتانا کہ گناہ کروگے تو تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسی تمہاری فوج نے بھگتی ہے مجھے مزار نے بہت کچھ بتایا ہے جو میں مصر چل کر بتاؤں گا تم ایک دوسرے کو دیکھو تمہارے چہرے لاشوں جیسے ہوگئے ہیں تمہارے جسموں میں جان نہیں رہی مجھے دیکھو میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ پیدل آرہا ہوں میرے پاس کچھ کھانے کے لیے بھی نہیں کچھ پینے کے لیے بھی نہیں کیا آپ ہمیں مصر تک اپنی طرح لے جاسکتے ہیں؟
ایک سپاہی نے پوچھا اگر تم یہ وعدہ کرو کہ دلوں سے گناہ کا خیال نکال دو گے اس نے جواب دیا اور یہ وعدہ بھی کرو کہ میں جس مقصد کے لیے مصر جارہا ہوں اس میں میرا ساتھ دوگے ہم سچے دل سے وعدہ کرتے ہیں بہت سی آوازیں سنائی دیں ہمیں اپنا مقصد بتائیں ہم جب تک زندہ ہیں آپ کا ساتھ دیں گے میں صرف اپنی اور اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے رملہ سے نہیں بھاگا اس نے کہا مجھے مزار نے حکم دیا ہے کہ مصر جاکر لوگوں کو بتاؤں کہ تم فرعونوں کی سرزمین کی پیداوار ہو اس مٹی میں گناہوں کی تاثیر ہے حضرت یوسف علی السلام مصر میں نیلام ہوئے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بے ادبی مصر میں ہوئی تھی مصر میں پیغمبروں کے قبیلے فرعونوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اے مصر والو! اس مٹی کی تاثیر سے اور اس کی فضا کے اثر سے بچو اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو تمہاری تباہی اور سزا شروع ہوچکی ہے میں یہ پیغام مصر والوں کے لیے لے جارہا ہوں تم اگر یہ پیغام سارے ملک میں پھیلانے میں میری مدد کرو گے تو تمہاری دنیا بھی بہشت بنی رہے گی اور آخرت میں بھی تمہارے لیے بہشت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی رملہ کی طرف سے آنے والے دو تین سپاہی قریب سے گزرے سیاہ ریش نے کہا کہ انہیں روک لو یہ رات تک زندہ نہیں رہیں گے انہیں روک لیا گیا وہ سسکیوں کی طرح پانی مانگ رہے تھے سیاہ ریش نے انہیں کہا پانی رات کو ملے گا اس وقت تک اس خدا کو یاد کرو جس نے تمہیں رملہ سے زندہ نکالا اور نئی زندگی دی ہے کچھ دیر بعد دو آدمی گھوڑوں پر سوار ادھر سے گزرے وہ فوجی نہیں تھے انہوں نے اس قافلے کو دیکھا پھر سیاہ ریش کو دیکھا انہوں نے گھوڑے روک لیے کود کر اترے گھوڑوں کو وہیں چھوڑ کر دوڑے آئے دونوں نے سیاہ ریش کے سامنے سجدہ کیا پھر اس کے ہاتھ چومے اور پوچھا یا مرشد! آپ کہاں؟
اس کا جواب سن کر ان دونوں نے سپاہیوں کو بتایا کہ وہ کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ کی بھیجی ہوئی بزرگ وبرتر شخصیت کا ساتھ انہیں میسر آیا ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیاہ ریش نے ایک سال پہلے بتا دیا تھا کہ مصر کی گناہ گار فوج اس مزار کے علاقے میں آگئی تو تباہ ہوجائے گی ادھر ادھر دیکھو سیاہ ریش نے سب سے کہا جہاں کہیں کوئی بھولا بھٹکا مصر کی طرف جاتا نظر آئے اسے یہاں لے آؤ رات کو یہاں کوئی بھوکا اور پیاسا نہیں رہے گا
گزرنے کا یہی ایک راستہ تھا باقی تمام علاقہ ٹیلوں کا تھا اور یہ وسیع علاقہ تھا اس کے اندر جانا بے کار تھا باہر سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ یہاں پانی کا نام ونشان نہیں سب کو موت نظر آرہی تھی مصر کی سرحد ابھی بہت دور تھی یہ لوگ سہارے ڈھونڈ رہے تھے وہ سیاہ ریش کے آگے بچھے جارہے تھے اس کی ہر ایک بات ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی مگر پیاس کی شدت سے دو تین سپاہی غشی کی حالت میں چلے گئے تھے سیاہ ریش انہیں تسلیاں دے رہا تھا
سورج غروب ہوگیا پھر رات تاریک ہوگئی بہت دیر بعد جب صحرا خاموش تھا ٹیلوں کے اندر سے ایک پرندے کی آواز سنائی دی سب چونک اٹھے ایسے جہنم میں جہاں پانی کا تصور بھی نہیں تھا اور موت سر پر منڈلا رہی تھی وہاں پرندے کی آواز غیرقدرتی تھی یہ پرندہ ہو ہی نہیں سکتا تھا سب کی سانسیں رک گئیں یہ کوئی بدروح ہوسکتی تھی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اللہ تیرا شکر سیاہ ریش نے سکون کی آہ لے کر کہا میری دعا قبول ہوگئی ہے اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے دو سپاہیوں سے کہا تم دونوں اس طرف جاؤ چالیس قدم گنو وہاں سے دائیں کو مڑ جاؤ چالیس قدم گنو وہاں سے بائیں کو مڑ جاؤ آگے کہیں آگ جلتی نظر آئے گی اس کی روشنی میں تمہیں پانی نظر آئے گا شاید کھانے کے لیے بھی کچھ ہو جو کچھ وہاں پڑا ہو اٹھا لانا یہ آواز پرندے کی نہیں غیب کا اشارہ ہے میں نہیں جاؤں گا ایک سپاہی نے خوف زدہ لہجے میں کہا میں جنات کی جگہ نہیں جاؤں گا
وہ دو آدمی اٹھ کھڑے ہوئے جو بعد میں گھوڑوں پر سوار آئے تھے اور سیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا تھا ایک نے سپاہیوں سے کہا مت ڈرو جنات تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے انہیں حکم ملا ہو ہے کہ یہ بزرگ جہاں جائیں انہیں کھانا اور پانی پہنچتا رہے گا ہم ان کے معجزوں سے واقف ہیں دو تین آدمی ہمارے ساتھ چلو وہ دو تین سپاہیوں کو ساتھ لے کر چل پڑے سیاہ ریش کے کہنے کے مطابق انہوں نے قدم گنے اور مڑے دو ٹیلوں کے درمیان سے گزرے تو انہیں ایک جگہ آگ جلتی نظر آئی سب کلمہ طیبہ کا ورد کرتے آگے بڑھے آگ کی روشنی میں پانی سے بھرے ہوئے چار پانچ مشکیزے پڑے تھے اور کپڑے کے ایک تھیلے میں کھجوریں بھری ہوئی تھیں انہوں نے مشکیزے اور تھیلا اٹھایا اور سیاہ ریش کے آگے یہ سامان جا رکھا اس نے سب میں تھوڑی تھوڑی کھجوریں تقسیم کیں اور دو مشکیزے ان کے حوالے کرکے کہا کہ ضرورت سے زیادہ پانی نہ پئیں پانی بچانے کی کوشش کریں اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہ رہی کہ سیاہ ریش کوئی عام قسم کا درویش نہیں اللہ کے مصاحبوں میں سے ہے اس نے سب کو تیمم کرایا اور باجماعت نماز پڑھائی پھر سب سو گئے ابھی سحر تاریک تھی جب اس نے سب کو جگا دیا اور قافلہ مصر کو روانہ ہوگیا سیاہ ریش کو ایک اونٹ پر اور اس کی بیٹیوں کو دوسرے اونٹ پر سوار کرادیا گیا تھا راستے میں انہیں تین چار سپاہی ملے جو مصر کو جارہے تھے سیاہ ریش نے انہیں پانی پلایا کھجوریں کھلائیں اور دو شتر سواروں کے پیچھے انہیں سوار کرا دیا اس قافلے سے دائیں طرف دور ایک اور قافلہ جارہا تھا کسی نے کہا کہ انہیں بھی ساتھ ملا لیا جائے سیاہ ریش نے کہا کہ وہ ہماری طرح بھاگے ہوئے لوگ معلوم نہیں ہوتے ان کا اور ہمارا کوئی ساتھ نہیں بہت دنوں بعد سپاہیوں کا یہ قافلہ سیاہ ریش کی قیادت میں مصر کی سرحد میں داخل ہوا وہ دو آدمی جنہوں نے سیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا تھا راستے میں سپاہیوں کو سیاہ ریش کے معجزے سناتے گئے تھے انہوں نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ اسے جو کوئی اپنے گاؤں میں رکھ لے گا اسے رزق کی کوئی کمی نہیں ہوگی اور خدا اس پر ہمیشہ مہربان رہے گا ایک ہی گاؤں کے تین چار سپاہی اسے وہاں رکھنے کے لیے تیار ہوگئے سیاہ ریش سے کہا گیا کہ وہ ان کے گاؤں چلے اس نے کچھ باتیں پوچھیں اور ان کے گاؤں جانے پر آمادہ ہوگیا یہ ایک بڑا گاؤں تھا جو قاہرہ سے دور نہیں تھا قافلہ جب اس گاؤں میں داخل ہوا تو سپاہیوں کو دیکھ کر گاؤں کے لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے ان کے جانوروں کے آگے چارہ ڈالا قافلے والوں کو کھانا اور پانی دیا اور ان سے محاذ کی باتیں سننے بیٹھ گئے انہیں سیاہ ریش کے متعلق بتایا گیا کہ خدا کے مصاحبوں میں سے ہے اور اسے خدا جنات کے ہاتھوں رزق پہنچاتا ہے لوگوں کو اس کی مختصر سی داستان حیات بھی سنائی گئی محاذ کا راز مجھ سے پوچھو سیاہ ریش نے کہا یہ سپاہی ہیں یہ صرف لڑتے ہیں انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ انہیں لڑانے والوں کی نیت کیا ہے ان چند ایک سپاہیوں نے جنہیں میں صحرا کی آگ سے زندہ نکال لایا ہوں اس فوج کے گناہوں کی سزا بھگتی ہے جو ان سے بہت پہلے ملک شام کو گئی تھی اس فوج نے ہر میدان میں فتح حاصل کی وہاں کی وادیاں اور وہاں کے صحرا سلطان ایوبی زندہ باد کے نعروں سے گونجتے لرزتے رہے اس فوج نے ہر جگہ زروجواہرات اور عورتیں دیکھیں وہاں کی عورتیں مصر کی عورتوں سے زیادہ خوبصورت ہیں فتح کے نشے نے اس فوج میں فرعونیت پیدا کردی دماغوں میں صرف مال غنیمت رہ گیا پھر اس فوج کے سالاروں کمان داروں اور سپاہیوں نے قوم کی عزت اور غیرت کو خیرباد کہا اور مسلمانوں کے گھروں میں بھی لوٹ مار شروع کردی جہاں کوئی خوبصورت عورت اور جوان لڑکی نظر آئی اسے بے آبرو اور اغوا کیا یہ سب مسلمان مستورات تھیں انہیں خیموں میں رکھا گیا
کیا سلطان صلاح الدین ایوبی اندھا تھا؟
کسی نے قہر آلود آواز میں پوچھا وہ دیکھ نہیں سکتا تھا کہ اس کی سپاہ کیا کررہی ہے؟
خدا جب سزا دینے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اماموں عالموں اور حکمرانوں کی عقل پر بھی پردہ ڈال دیتا ہے سیاہ ریش نے کہا سلطان صلاح الدین ایوبی خود فتح کے نشے سے بدمست ہوگیا تھا وہ شاید خدا کے وجود کو اور اس کی لاٹھی کو بھول گیا تھا اس کے گرد اس کے محافظوں اور عیاش سالاروں نے ایسا گھیرا ڈال رکھا تھا کہ کسی مظلوم کی فریاد اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی جو بادشاہ فریادیوں کے لیے انصاف کے دروازے اور اپنے کان بند کرلیتا ہے وہ اللہ کی بخشش سے محروم ہوجاتا ہے مجھے دو سال سے اشارے مل رہے تھے کہ یہ فوج اعمال بد سے باز نہ آئی تو تباہ ہوگی مجھے راتوں کو غیب کی آوازیں سنائی دیتی رہیں مگر جن کے لیے آوازیں آتی تھیں ان کے کان بند تھے
پھر خدا نے یوں کیا کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی جو میدان جنگ کا بادشاہ ہے اور جسے صلیب کے کفار میدان جنگ کا دیوتا کہتے ہیں عقل کا ایسا اندھا ہوا کہ ساری چالیں بھول گیا اس کی چال دشمن چل گیا اور اسے ایسی شکست ہوئی کہ تن تنہا مصر پہنچا ہم صلیبیوں سے شکست کا انتقام لیں گے ایک جوشیلے دیہاتی نے کہا ہم اپنے بیٹوں کو قربان کردیں گے فتح اور شکست خدا کے اختیار میں ہے سیاہ ریش نے کہا اس کی ذات نے حکم شکست کا دیا ہو تو بندوں کا جوش سرد پڑ جاتا ہے میں بھی اسی لیے یہاں آیا ہوں کہ مصر کے بچے بچے کو شکست کا انتقام لینے کے لیے تیار کروں لیکن سزا کا وقت ابھی ختم نہیں ہوگا تم اگر اپنے بیٹوں کو فوراً فوج میں بھرتی کرا کے محاذ پر بھیج دو گے تو وہ مریں گے اور شکست کھائیں گے ہر عمل کے لیے ایک وقت مقرر ہے وہ وقت ابھی دور ہے جب شکست کو فتح میں بدل دو گے سب سے پہلے خدا کو یاد کرو اس سے اپنے ان بیٹوں کے گناہوں کی بخشش مانگو جنہیں تم نے ملک شام میں بھیجا تھا
شکست کی ذمہ داری میرے سر پر ڈالو سلطان ایوبی نے کہا وہ اپنے سالاروں نائب سالاروں کمان داروں اور شہری انتظامیہ کے حکام سے خطاب کررہا تھا شکست کے اسباب بڑے واضح ہیں مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نئی بھرتی لے کر گیا میں زیادہ انتظار کرتا اور مصر میں بیٹھا رہتا تو دشمن سارے شام میں پھیل جاتا میں نے فوج کی جس کمی کو نئے سپاہیوں سے پورا کیا ہے اس کے متعلق تم جانتے ہو کہ اس کا ذمہ دار کون ہے لیکن میں اب اس بحث میں وقت ضائع نہیں کروں گا کہ اس کا ذمہ دار فلاں ہے اور وہ گناہ فلاں نے کیا ہے اگر جرم عائد کرنے ہیں تو مجھ پر کرو فوج کو میں نے لڑایا ہے اگر چالیں غلط تھیں تو میری تھیں اس کا کفارہ مجھے ادا کرنا ہے اور میں کروں گا فتح اور شکست ہر معرکے کا انجام ہوتا ہے آج ہم اس انجام سے دوچار ہوئے ہیں جس کے لیے تم ذہنی طور پر تیار نہیں تھے اسی لیے تم سب کے چہروں پر اداسی اور آنکھوں میں بے چینی ہے اگرتم مجھے شکست کی سزا دینا چاہتے ہو تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں میرے کانوں میں یہ آوازیں بھی پہنچ رہی ہیں کہ میری فوج شام میں جاکر آبرو ریزی لوٹ مار اور شراب خوری کی عادی ہوگئی تھی مجھے یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ میں نے خلیفہ بغداد پر دہشت طاری کرنے کے لیے دانستہ شکست کھائی ہے اور میں شکست کو فتح میں بدل کر خلیفہ کو اپنا مرید بنانے کی کوشش کروں گا مجھے فرعون تک کہا جارہا ہے میں کسی بھی الزام کا جواب نہیں دوں گا ان الزامات کا جواب میری زبان نہیں میری تلوار دے گی میں الفاظ سے نہیں عمل سے ثابت کروں گا کہ یہ کس کے گناہ تھے جن کی سزا مجھے اور میرے مجاہدین کو ملی ہے
اتنے میں دربان نے اطلاع دی کہ حماة سے قاصد آیا ہے سلطان ایوبی نے اسے فوراً اندر بلایا گردوغبار سے اٹے ہوئے اور تھکن سے چور قاصد نے سلطان ایوبی کو العادل کا پیغام دیا پیغام کھول کر پڑھا تو سلطان ایوبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے پیغام ایک سالار کے ہاتھ میں دے کر کہا یہ پڑھ کر سب کو سناؤ جوں جوں سالار پیغام پڑھتا جارہا تھا سب کی آنکھوں میں چمک آتی جارہی تھی سسکیوں کی طرح تین چار سرگوشیاں سنائی دیں زندہ باد، زندہ باد یہ گناہ گاروں کا کارنامہ ہے سلطان ایوبی نے کہا تم میں سے جو قاہرہ میں تھے نہیں جانتے کہ العادل کے پاس کتنی فوج ہے تم یہ بھی نہیں جانتے کہ بالڈون کے پاس دس گنا زیادہ فوج تھی اس کے سوار زرہ پوش ہیں اس کے پیادے لوہے کے خود پہنتے ہیں کیا العادل کے مجاہدین نے ثابت نہیں کردیا کہ ہم شکست کو فتح میں بدل سکتے ہیں؟
کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ سرپکڑ کر بیٹھ جاؤں؟
اگلی جنگ کی تیاری کرو مجھے فوج کی بھرتی دو تمہیں قبلہ اول پکار رہا ہے میں دشمن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ اور کوئی معاہدہ نہیں کروں گا
العادل کے پیغام نے جہاں سلطان ایوبی کو حوصلہ دیا وہاں تمام سالاروں وغیرہ کے بھی مجروح حوصلے تروتازہ ہوگئے۔ ان میں سے بعض کے دلوں میں سلطان ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے تھے وہ صاف ہونے لگے العادل نے اسی ایک معرکے پر اکتفا نہیں کیا اس نے اپنے دستوں کو تیس سے چالیس کی نفری کے جیشوں کے کمان داروں کو شب خون مارنے اور غائب ہوجانے کی ہدایات دیں۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن کو پریشان رکھا جائے تاکہ وہ پیش قدمی بھی نہ کرسکے اور آرام سے بیٹھ بھی نہ سکے
بالڈون پہلے ہی نقصان اٹھا چکا تھا وہ اس ارادے سے اتنی زیادہ فوج لے کر آیا تھا کہ دمشق تک کے علاقے پر قبضہ کرلے گا اب اس کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر رات خیمہ گاہ کے کسی نہ کسی حصے پر تیروں کی بوچھاڑ ہوتی یا حملہ ہوتا تھا۔ فوج کے بیدار ہونے تک حملہ آور دور نکل گئے ہوتے تھے بالڈون نے فوج کو تمام تر علاقے میں دور دور پھیلا دیا العادل کے چھاپہ ماروں کو پکڑنے کے لیے اس نے بھی ٹولیاں تیار کیں جو رات کو گشت پر رہتی تھیں مگر ہر صبح بالڈون کو یہ خبر سننی پڑتی تھی کہ آج فلاں کیمپ پر حملہ ہوا ہے یا فلاں ٹولی ماری گئی ہے وہ علاقہ پہاڑی تھا اس سے العادل کے چھاپہ مار جیش خوب فائدہ اٹھا رہے تھے مگر یہ فائدہ العادل کو بہت مہنگا پڑ رہا تھا چھاپہ مار اتنی دلیری سے شب خون مارتے تھے کہ دشمن کے کیمپ کے اندر چلے جاتے اور ان میں سے چند ایک جانیں قربان کردیتے تھے۔
اس طریقہ جنگ اور اس قربانی سے العادل کوئی علاقہ فتح نہیں کرسکتا تھا وہ دشمن کو وہاں سے پیچھے بھی نہیں ہٹا سکتا تھا لیکن یہ فائدہ کچھ کم نہ تھا کہ صلیبیوں کی اتنی بڑی فوج پیش قدمی کرنے کے قابل نہیں رہی تھی اگر بالڈون پیش قدمی کرتا تو آمنے سامنے جنگ میں العادل اتنی قلیل فوج سے اس کے سامنے دو گھنٹے بھی نہ ٹھہر سکتا۔ اس نے بالڈون کے کیمپ میں کام کرنے والے مقامی لوگوں میں اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے تھے وہ دشمن کی ذرا ذرا سی حرکت کی اطلاع العادل کو دے دیتے تھے ایک بار ان جاسوسوں میں ایک نے صلیبیوں کے اس خشک گھاس کے پہاڑ جیسے انبار کو آگ لگا دی تھی جو انہوں نے گھوڑوں کے لیے جمع کررکھا تھا
العادل کو اطلاع مل چکی تھی کہ دمشق سے تھوڑی سی کمک آرہی ہے حلب سے کمک ملنے کی توقع نہیں تھی الملک الصالح نے پیغام کا جواب دیا تھا کہ صلیبی (فرینکس جنہیں فرنگی کہا جاتا تھا) قلعہ حرن کو محاصرے میں لینا چاہتے ہیں اگر انہوں نے ایسا ہی کیا تو ان پر حلب کی فوج سے حملہ کیا جائے گا
چند ایک یورپی مورخین نے صلیبی جنگوں کے اس دور کے متعلق لکھا ہے کہ رملہ کی شکست کے بعد اسلامی فوج کو ختم کردیا گیا اس کے جو دستے بچ گئے تھے انہوں نے لوٹ مار کو پیشہ بنا لیا وہ صلیبیوں کے فوجی قافلوں کو لوٹ لیتے تھے
حقیقت یہ ہے کہ لوٹ مار خود صلیبی کرتے تھے زیادہ تر مورخ اس کی تصدیق کرتے ہیں اس سے پہلے بھی اس سلسلے کی کہانیوں میں مورخوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ صلیبی فوج مقبوضہ علاقوں میں مسلمان قافلوں کو لوٹ لیا کرتی تھی اور یہ لوٹ مار اس طرح کی جاتی تھی جیسے یہ کوئی فوجی ڈیوٹی ہو، جن مسلمان دستوں کے متعلق چند ایک مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے لگے تھے وہ العادل کے چھاپہ مار جیش تھے جنہوں نے شاہ بالڈون کی اتنی بڑی فوج کو گوریلا آپریشن سے ایک ہی علاقے میں الجھا لیا تھا
پہلے کہا جاچکا ہے کہ شب خون (گوریلا آپریشن) العادل کو مہنگا پڑ رہا تھا لیکن اس کے ٹروپس کا جذبہ ایسا تھا کہ کوئی سپاہی منہ نہیں پھیرتا تھا اکثر جیش مسلسل وادیوں وغیرہ میں ہی گھومتے اور بھٹکتے رہتے تھے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اپنے اڈے پر واپس نہیں آتے تھے اسد الاسدی کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق وہ چیتوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے تھے اور جب شکار پر جھپٹتے تھے تو انہیں اپنی جانیں چلی جانے کا کوئی غم نہیں ہوتا تھا وہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش میں شہید اور شدید زخمی ہوجاتے تھے ان کی راتیں دشت وبیاباں میں گزرتیں اور وہ من پسند کھانوں سے اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے
مگر قاہرہ میں یہ پراپیگنڈہ بہت تیزی سے بڑھتا جارہا تھا کہ اپنی فوج بدکار اور عیاش ہوگئی ہے اور رملہ کی شکست اسی کی سزا ہے قاہرہ کی انٹیلی جنس کو یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ پراپیگنڈہ کہاں سے اٹھ رہا ہے کیا یہ نئے سپاہیوں کی غیر محتاط باتوں کا نتیجہ ہے یا دشمن کے باقاعدہ ایجنٹ سرگرم ہیں؟
یہ بھی دیکھا گیا کہ لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے ہچکچاتے تھے اس شکست سے پہلے مصریوں کا رویہ یہ نہیں تھا علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے اپنے مخبروں اور جاسوسوں کا جال بچھا دیا مگر اس کے سوا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ لوگ فوج کو بدنام کررہے ہیں سلطان ایوبی کے خلاف بھی باتیں سنی سنائی جانے لگی تھیں
وہ سیاہ ریش سفید پوش جو دو بیٹیوں کے ساتھ ایک گاؤں میں ٹھہرا تھا وہیں کا ہوکے رہ گیا گاؤں والوں نے اسے ایک مکان دے دیا تھا اس نے کھلی محفل میں بیٹھنے اور باتیں کرنے سے پرہیز شروع کردیا تھا کہ اسے مصریوں کے گناہ معاف کرانے کے لیے تین ماہ کا چلہ کرنا ہے وہ اب مکان سے باہر تھوڑی سی دیر کے لیے نکلتا خاموش رہتا حاضرین کو ہاتھ لہرا کر سلام کرتا اور اندر چلا جاتا تھا اس کے خاص مصاحبوں میں وہی سپاہی تھے جو اس کے ساتھ آئے تھے اور دو وہ آدمی تھے جنہوں نے ٹیلوں کے علاقوں میں اس کے آگے سجدہ کیا تھا ان سب نے اس کی اتنی تشہیر کردی تھی کہ دور کے لوگ بھی اس کی جھلک دیکھنے کو پہنچ جاتے تھے
ایک شام علی بن سفیان کا ایک جاسوس اپنی خفیہ ڈیوٹی پر قاہرہ کے مضافات میں کسی بہروپ میں گھوم پھر رہا تھا شام ہوگئی وہ نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد میں چلا گیا نماز کے بعد امام نے دعا مانگی دعا ختم ہوئی تو ایک نمازی نے رملہ کی شکست کی بات شروع کردی اس نے سلطان ایوبی کی فوج کے خلاف وہی باتیں کیں جو سیاہ ریش نے کی تھیں اس نمازی نے سیاہ ریش کا حوالہ اس طرح دیا کہ وہ غیب دان ہے اور جنات اسے رزق پہنچاتے ہیں اس نے سفر کی پوری روئیداد سنائی اور بتایا کہ کس طرح غیب سے انہیں پانی اور کھجوریں ملی تھیں تمام نمازی انہماک سے اس کی باتیں سنتے رہے اس نے بات ختم کی تو نمازیوں نے اس سے اس قسم کی باتیں پوچھنی شروع کردیں وہ مرادیں پوری کرتا ہے؟
لاعلاج مریضوں کو شفا دیتا ہے؟
آنے والے وقت کا حال بتاتا ہے؟
اولاد دیتا ہے؟
سنانے والے نے انہیں بتایا کہ ابھی وہ سب کو یہی ایک بات بتاتا ہے کہ سلطان ایوبی اور اس کی فوج میں فرعونوں والی خصلتیں پیدا ہوگئی تھیں اور شکست کی وجہ یہی ہے اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ نہ خود فوج میں بھرتی ہونا نہ کسی کو ہونے دینا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے کیونکہ گناہوں کی سزا کا ابھی وقت پورا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ وہ تین ماہ کا چلہ کررہا ہے اس کے بعد وہ بتائے گا کہ مصر والوں کے گناہ بخشے گئے ہیں یا نہیں
یہ آدمی مسجد سے نکل کر گاؤں سے باہر کو چل پڑا علی بن سفیان کا جاسوس اس کے پیچھے گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس عالم سے کس طرح مل سکتا ہے اس نے اپنا مدعا یوں بیان کیا میں فوج میں ہوں تمہاری باتیں سن کر میرے دل میں یہ ڈر پیدا ہوگیا ہے کہ اپنی فوج کے گناہوں کی سزا مجھے بھی ملے گی میں بھی دمشق اور حلب کے محاذوں پرگیا تھا میں نے بھی وہی گناہ کیے ہیں جن کا ذکر تم کررہے ہو مجھے اس عالم بزرگ کے پاس لے چلو اگر وہ کہے گا کہ فوج سے بھاگ جاؤ تو بھاگ جاؤں گا وہ جو خدمت کہے گا کروں گا میں خدا کے قہر سے ڈرتا ہوں اس نے اتنی منت سماجت کی کہ اس کے آنسو نکل آئے میرے ساتھ چلو اس آدمی نے کہا لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا کہ تم اس کے پاس گئے تھے وہ آج کل چلے میں ہے کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا وہ جو پوچھے صرف اس کا جواب دینا فالتو بات نہ کرنا تم اسی گاؤں کے رہنے والے ہو؟
جاسوس نے پوچھا تم نے بتایا تھا کہ تم رملہ کے محاذ سے آئے ہوئے سپاہی ہو اسی لیے تو میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ بزرگ خدا کے مصاحبوں میں سے ہے سپاہی نے کہا میں نے میدان جنگ کا قہر دیکھا ہے اور میں نے سفر کا قہر بھی دیکھا ہے لیکن اس بزرگ نے ریگزار کو گلزار بنا دیا تھا میں اب فوج میں واپس نہیں جا رہا گاؤں دور نہیں تھا وہ باتیں کرتے پہنچ گئے رات گہری ہوچکی تھی سپاہی نے جاسوس کو اندھیرے میں کھڑا رہنے کو کہا اور اس مکان میں چلا گیا جہاں سیاہ ریش سفید پوش رہتا تھا تھوڑی دیر بعد واپس آیا سپاہی نے کہا کہ وہ پیچھے والے دروازے سے اندر چلا جائے وہ خود اس کے آگے آگے چل پڑا اور دونوں دروازے میں داخل ہوگئے ڈیوڑھی سے گزرے صحن سے گزرے اور ایک کمرے میں داخل ہوگئے صحن میں روشنی تھی دونوں لڑکیاں جنہیں سیاہ ریش نے اپنی بیٹیاں بتایا تھا ایک اور کمرے میں تھی انہیں جب صحن میں قدموں کی آہٹ سنائی دی تو دونوں نے دریچے کا کواڑ ذرا سا کھول کر دیکھا ایک لڑکی اتنی چونکی کہ اس کے منہ سے اوہ نکل گئی
کیا ہوا؟
دوسری لڑکی نے پوچھا کون ہے یہ؟
شاید مجھے دھوکہ ہوا ہو اس نے جواب دیا میں نے اس شخص کو کہیں پہلے بھی دیکھا ہے اور وہ گہری سوچ میں کھو گئی جاسوس نے کمرے میں جاکر سیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا اس کے پاؤں پر ماتھا رگڑا وہ فرش پر دری بچھا کر بیٹھا ہوا تھا جاسوس نے گڑگڑا کر التجا کی کہ اسے گناہوں کی بخشش دلائی جائے اس نے وہی باتیں کیں جو وہ سپاہی کے ساتھ کرچکا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے سیاہ ریش نے اپنی تسبیح اس کے سر پر پھیری اور مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا اس سے میری تسکین نہیں ہوگی جاسوس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا اپنی زبان سے مجھے تسکین دیں مجھے کوئی حکم دیں جو میں بجا لاؤں مجھے حکم دیں کہ میرا جو ایک ہی بچہ ہے اسے آپ کے قدموں میں ذبح کردوں مجھے حکم دیں کہ سلطان ایوبی کو قتل کردو تو میں آپ کا یہ حکم بھی بجا لاؤں گا کچھ بولیں کچھ کہیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں ایک اور آدمی اندر آگیا تھا اور وہ جاسوس کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اس نے جاسوس سے کہا تم اتنے بیزار اور بے تاب کیوں ہوئے جارہے ہو؟
تم اب مرشد کے سائے میں آگئے ہو میرے گناہ اتنے گھناؤنے ہیں جو مجھے راتوں کو سونے بھی نہیں دیتے جاسوس نے کہا میں نے حماة کے قریب ایک گاؤں میں ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی کو اغوا کرنے کے لیے لڑکی کے جوان بھائی کو قتل کردیا تھا اگر میں فوج میں نہ ہوتا تو مجھے جلاد کے حوالے کردیا جاتا لیکن مجھے کسی نے پوچھا تک نہیں سیاہ ریش نے آنکھیں بند کرلیں اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے پھر جاسوس کی طرف اشارہ کیا ذرا دیر بعد وہ مسکرایا اور اس نے آنکھیں کھول دیں جاسوس سے کہا بہت مشکل سے تمہارے ساتھ بات کرنے کی اجازت لی ہے غور سے سنو ہم تمہارے گناہ بخشوا دیں گے تم کل پھر یہاں آؤ کسی کے ساتھ ذکر نہ کرنا ورنہ تمہارے خاندان کا انجام بہت خوفناک ہوگا یہ آدمی (سپاہی) تمہیں گاؤں سے باہر ملے گا اور میرے پاس لے آئے گا تمہارے ماتھے پر لکھا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے خاندان کا اتنا رزق حلال ملے گا جو تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا اب چلے جاؤ کل آجانا سیاہ ریش پھر مراقبے میں چلا گیا سپاہی نے اور دوسرے آدمی نے جاسوس کو اٹھایا اور صحن میں لے جاکر اسے سیاہ ریش کی ایسی معجزہ نما باتیں سنائی جنہوں نے جاسوس کو مسحور کرلیا دونوں لڑکیاں دریچے کے کواڑ کی اوٹ سے اسے دیکھ رہی تھیں جو لڑکی اسے پہلی بار دیکھ کر چونکی تھی اس نے دوسری لڑکی سے کہا اسے میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے یہ دھوکہ نہیں وہی ہے وہی ہے
یہ وہی معلوم ہوتا ہے جو ہم پہلے بھی پکڑ چکے ہیں یہ جاسوس اپنے محکمے کے حاکم اعلیٰ علی بن سفیان کو بتا رہا تھا وہی مراقبہ چلہ جنات اور لوگوں کے جذبات کو قبضے میں لے کر ان پر اپنا جادو چلانا اپنی فوج کا جو سپاہی مجھے اس کے پاس لے گیا تھا وہ صرف فوج کے خلاف باتیں کرتا تھا وہ اس قسم کی باتیں مسجد میں نمازیوں کے ساتھ کررہا تھا اس نے میرے ساتھ جو باتیں کیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ اس کے اور بھی کئی ساتھی ہیں اور وہ مسجدوں میں جاکر نمازیوں کو فوج کے خلاف اکساتے ہیں محاذ کی چھوٹی جھوٹی باتیں سناتے ہیں اور زور اس پر دیتے ہیں کہ فوج میں بھرتی ہونا گناہ ہے
انہیں ایسی باتیں مسجدوں میں ہی کرنی چاہئیں علی بن سفیان نے کہا مسجد میں کہی ہوئی بات کو لوگ وحی کا درجہ دیتے ہیں لوگ جذبات کے غلام ہیں اسی کو مرشد مان لیتے ہیں جو ان کے جذبات کو پہلے بھڑکائے پھر الفاظ میں ان کی تسکین کردے تم کل پھر وہاں جاؤ مجھے وہ گاؤں اور مکان سمجھا دو ادھر ادھر دیکھ کر زیادہ سے زیادہ معلومات لانے کی کوشش کرنا تمہاری لائی ہوئی اطلاع کے بعد ہم وہاں چھاپہ ماریں گے مجھے ڈر ہے کہ چھاپے سے وہاں کے لوگ مشتعل ہوجائیں گے جاسوس نے کہ سپاہی نے بتایا تھا کہ گاؤں کا بچہ بچہ اس کا مرید ہوچکا ہے اور دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں
ہمیں لوگوں کے ساتھ نہیں چلنا علی بن سفیان نے کہا لوگوں کے جذبات کا خیال صرف وہ حکمران رکھا کرتے ہیں جو ان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ایسے حکمران لوگوں کے جذبات سے کھیلا کرتے ہیں تاکہ رعایا خوش رہے اور اس کے آگے سجدے کرے ہمیں سلطنت اسلامیہ اور انہیں لوگوں کے وقار کا تحفظ کرنا ہے ہم ان لوگوں کو حقیقت دکھائیں گے ہم انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام اور مرید نہیں بنانا چاہتے ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے پاسبان تم بھی اتنے ہی ہو جتنا تمہارا سلطان ہے ہم انہیں اسلام کا دشمن دکھائیں گے ہم قوم پر جذبات پرستی کا نشہ طاری کرکے اسے سلانا نہیں چاہتے قوم کو حقائق کے جھٹکے دے کر جگانا ہے تم جاکر وہ بھی دیکھو جو تمہیں ابھی نظر نہیں آیا جاسوس کے وہاں جانے کا وقت رات کا تھا علی بن سفیان نے بھیس بدلا اور اس گاؤں میں چلا گیا اس نے مکان بھی دیکھ لیا اور اس نے لوگوں کی عقیدت مندی کی بے تابیاں بھی دیکھ لیں لوگوں کی باتیں بھی سنیں فوج کے خلاف طوفان اٹھایا جارہا تھا علی بن سفیان نے مکان کے پچھواڑے کو دور سے دیکھا وہاں چھوٹا سا ایک دروازہ تھا جو بند تھا وہاں درخت تھا اور دائیں بائیں دو مکانوں کے پچھواڑے تھے اس طرف کوئی انسان نہیں تھا ہجوم مکان کے سامنے تھا دروازہ کھلا اور ایک سفید ریش آدمی پرانے سے چغے میں ملبوس دروازے سے نکلا علی بن سفیان اوٹ میں ہوگیا اس نے کھلے ہوئے دروازے میں ایک خوبصورت اور جوان لڑکی کو کھڑے دیکھا لڑکی نے فوراً دروازہ بند کردیا سفید ریش آدمی ہاتھ میں لاٹھی لیے جھکا جھکا گاؤں سے نکل گیا علی بن سفیان اسے دیکھتا رہا دور جاکر وہ رک گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار آیا سفید ریش آدمی گھوڑے پر سوار ہوگیا اور قاہرہ کی طرف چلا گیا جو آدمی گھوڑا لایا تھا وہ گاؤں کی طرف چلا گیا علی بن سفیان اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور سفید ریش سوار کے پیچھے گیا مگر فاصلہ رکھا سفید ریش نے کئی بار پیچھے دیکھا علی بن سفیان اس کے پیچھے جاتا رہا آگے جاکر سفید ریش نے قاہرہ کے راستے کے بجائے گھوڑا دوسرے راستے پر ڈال دیا رفتار معمولی تھی علی بن سفیان نے بھی گھوڑا اسی راستے پر ڈال دیا قاہرہ شہر نظر آرہا تھا دور نہیں تھا ادھر ادھر ایک ایک دو دو جھونپڑے یا خیمے نصب تھے کہیں خانہ بدوشوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے سفید ریش سوار نے کئی راستے بدلے اور وہ پیچھے دیکھتا رہا علی بن سفیان اس کے پیچھے رہا سفیدریش کی بے چینی صاف ظاہر ہونے لگی تھی آخر اس نے قاہرہ کا رخ کرلیا اور گھوڑے کی رفتار ذرا تیز کرلی علی بن سفیان نے بھی باگوں کو جھٹکا دیا ہلکی سی ایڑی لگائی اور گھوڑے کی چال بدل کر تیز ہوگئی فاصلہ پندرہ بیس قدم رہ گیا وہ اب شہر میں تقریباً داخل ہوچکے تھے سفید ریش سوار نے گھوڑا روک لیا اور علی بن سفیان کے راستے میں ہوگیا علی بن سفیان نے بھی گھوڑا اس کے قریب جاکر روکا تم کوئی راہزن معلوم ہوتے ہو سفید ریش سوار نے کہا اور خنجر نکال لیا بولا میرا پیچھا کیوں کررہے ہو
علی بن سفیان نے دیکھا کہ اس کی سفید داڑھی سے اس کی عمر ستر برس سے اوپر لگتی تھی مگر چہرہ آنکھیں اور دانت بتاتے تھے کہ چالیس سے بہت کم ہے علی بن سفیان بھی بہروپ میں تھا اس نے اپنے کمر بند سے سوا گز لمبی تلوار لٹکا رکھی تھی جو اس کے چغے میں چھپی ہوئی تھی اس نے بجلی چمکنے جیسی پھرتی سے تلوار نکال لی داڑھی اتار دو اس نے سفید ریش کے پہلو میں تلوار رکھ کر کہا اور میرے آگے آگے چل پڑو سفید ریش کی آنکھیں ٹھہر گئیں علی بن سفیان نے تلوار کی نوک اس کی کنپٹی پر رکھ کر داڑھی میں الجھائی اور جھٹکا دیا وہاں سے داڑھی چہرے سے الگ ہوگئی آدھا چہرہ ننگا ہوگیا علی بن سفیان نے اپنی داڑھی اتار دی اور بولا ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں چلو چلیں
وہ شہری انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ حاکم تو نہیں تھا لیکن چھوٹا اور غیراہم بھی نہیں تھا مصر کا رہنے والا تھا اس کے متعلق علی بن سفیان تک یہ اطلاعیں پہنچی تھیں کہ معزول کی ہوئی عباسی خلافت کا زمین دوز کارندہ ہے اس خلافت کو جس کی گدی قاہرہ میں تھی سلطان ایوبی نے سات آٹھ سال پہلے ختم کردیا تھا خلیفہ العاضد تھا جس نے حشیشین صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کررکھا تھا سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی مرحوم کے ساتھ بات کرکے اس خلافت کو معزول کیا اور امارت مصر کو خلافت بغداد کے تحت کردیا تھا معزول شدہ خلافت عباسیہ کے پیروکار ابھی تک زمین دوز کارروائیوں میں مصروف تھے رملہ کی شکست ان کے لیے زریں موقع تھا چنانچہ سلطان ایوبی اور اس کی فوج کو بدکار عیاش ٹیری اور شکست کا ذمہ دار ثابت کرنے کی مہم میں عباسی خفیہ طریقوں سے سرگرم ہوگئے تھے
علی بن سفیان نے اس آدمی کو حراست میں لے لیا اور اپنے اس قید خانے میں جا بند کیا جہاں وہ ملزموں سے ابتدائی تفتیش کیا کرتا تھا علی بن سفیان کا جاسوس رات کو سیاہ ریش بزرگ کے بتائے ہوئے وقت پر گاؤں کے باہر جاکھڑا ہوا گزشتہ رات والا سپاہی اسے لینے آگیا سپاہی نے اسے کوئی نئی ہدایات دیں اور ساتھ لے گیا وہ پچھلے دروازے سے اندر گیا مگر جاسوس کو گزشتہ رات والے کمرے کے بجائے ایک اور کمرے میں لے گئے اسے کمرے میں سیاہ ریش بزرگ نظر نہ آیا وہاں کچھ بھی نہیں تھا دروازہ بند ہوا تو اس نے دروازے کی طرف دیکھا سپاہی بھی باہر نکل گیا تھا اس نے دروازے کو ہاتھ لگایا تو اسے پتہ چلا کہ دروازہ باہر سے بند کردیا گیا ہے اس کمرے کی نہ کوئی کھڑکی تھی نہ روشن دان وہ سمجھ گیا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے اور اسے پکڑ لیا گیا ہے فرار ممکن نہیں تھا وہ سوچنے لگا کہ کیا کرے
خاصی دیر بعد دروازہ کھلا ان لڑکیوں میں سے ایک اندر آئی جنہیں سیاہ ریش نے اپنی بیٹیاں بتایا تھا وہ اب مستور نہیں تھی لیکن یورپی لڑکیوں کی طرح عریاں بھی نہیں تھی اس کا لباس عرب کی مسلمان لڑکیوں جیسا تھا نقش ونگار عرب اور یورپ کے ملے جلے تھے وہ اندر آئی تو باہر سے کسی نے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی کمرے میں قندیل جل رہی تھی جاسوس نے لڑکی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں جیسے حیرت سے ساکن ہوگئی ہوں لڑکی مسکرا رہی تھی
پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟
لڑکی نے کہا اتنی جلدی بھول گئے؟
تم میرے شہر سے بچ کر نکل آئے تھے مگر اپنے شہر میں آکر میرے قیدی بن گئے اب نہیں نکل سکو گے
جاسوس نے لمبی آہ بھری جس میں سکون بھی تھا اضطراب بھی اسے تین سال پہلے کے وہ دن یاد آگئے جب اسے جاسوسی کے لیے عکرہ بھیجا گیا تھا عکرہ صلیبیوں کے قبضے میں تھا وہاں ان کا بڑا پادری رہتا تھا جسے صلیب اعظم کا محافظ کہتے تھے صلیبی بادشاہ جو اپنی فوجیں عرب علاقوں میں قبضہ کرنے کی غرض سے لے کر آتے عکرہ ضرور جاتے اور صلیب اعظم کے محافظ کو سلام کرتے تھے اس لیے جنگی لحاظ سے یہ اہم جگہ تھی علی بن سفیان نے وہاں اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے انہوں نے عیسائیوں کے بہروپ میں وہاں ایک خفیہ اڈا بھی قائم کررکھا تھا ان میں سے تین چار پکڑے گئے اور دو شہید ہوگئے تو وہاں کے زمین دوز کمانڈر نے مزید جاسوس مانگے تھے ان میں اسے بھی بھیجا گیا تھا جو اب مصر میں ایک کمرے میں بند تھا
اس کا رنگ اچھا قدبت اور زیادہ اچھا اور چہرہ دل کش تھا دماغی لحاظ سے وہ تیز اور ہوشیار تھا وہ گھوڑے کی سواری کا اتنا ماہر تھا کہ فوجی نمائشوں اور میلوں میں حیران کر دینے والے کرتب دکھایا کرتا تھا اداکاری میں بھی مہارت رکھتا تھا اس نے سیاہ ریش کے سامنے اپنے آنسو نکال لیے تھے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*