👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟚 𝟘 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚  𝟘  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تم نخلستان کا پھول ہو جو بادشاہوں کی خواب گاہوں میں آکر مزجھا جاتا ہے''۔ جیکب نے دل ہی دل میں سارہ سے کہا …… '' تم صبح کا ستارہ ہو جو سورج کی چمک سے بجھ جاتا ہے اور رات کو پھر چمک اُٹھتا ہے۔ تمہاری زندگی راتوں کے اندھیرے میں بیت رہی ہے۔ تمہاری قسمت اندھیرے میں لکھی گئی تھی …… تم مجھے کیوں اچھی لگتی ہو؟ مجھ سے بار بار کیوں پوچھتی ہو کہ میں نے چھ کلموں کا ذکر کیوں کیا تھا ؟ تم کسی مسلمان کی ماں کی کوکھ کی پیداوار تو نہیں؟ تمہاری رگوں میں کسی مسلمان باپ کا خون تو نہیں ؟ اس راز سے پردہ کون اُٹھائے؟ میں تمہارے لیے راز ہوں، تم میرے لیے راز ہو؟؟۔
جیکب کو یاد آیا کہ صلیبی فوج مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ ان کی بچیوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ کر جاسوسی اور بے حیائی اور رقص کی تربیت یتے ہیں۔ سارہ بھی شاید انہی بد نصیب لڑکیوں میں سے ہوگئی ، ورنہ یہ قوم احساسات اور جذبات کے لحاظ سے مردہ اور بے حیائی میں پوری طرح زندہ ہوتی ہے۔ جیکب بھول گیا کہ وہ کہاں کھڑا ہے ۔ کسی مرد کو ان کمروں میں آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سارہ اُس کے دل میں ایسی اُتری تھی کہ وہ خطروںسے بے نیاز ہوگیا تھا ۔ اُس سے رہا نہ گیا ۔ اُس نے قندیل بھجا دی اور اس کے ساتھ ہی سارہ کی آنکھ کھل گئی ۔
جیکب کو اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی …… '' کون ہو؟''
''جیکب ''
'' اس وقت یہاں کیوں آگئے ہو؟'' سارہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں محبت بھی تھی ، ہمدردی بھی ۔ '' کسی نے دیکھ لیا تو تم سیدھے قید خانے میں جائو گے ۔ مجھے باہر بلا لیا ہوتا ''۔
'' یہ پریشانی مجھے اس خطرے میں لے آئی ہے کہ تم بیمار ہو؟'' جیکب نے اندھیرے میں اُ س کے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا …… '' روشنی اس لیے گل کردی ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے ۔ میں کسی اورنیت سے نہیں آیا سارہ! معلوم نہیں کیا کشش ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ تمہیں بخار تو نہیں ؟''
''میری روح علیل ہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں تو جب بھی محفلوں اور ضیافتوں میں ناچتی ہوں ، میرا دل ساتھ نہیں ہوتا ۔ میرا جسم ناچتا ہے اورروح مر جاتی ہے ، مگر آج مجھے کہا گیا کہ موصل سے دو بڑے ہی اہم مہمان آرہے ہیں تو روح کے ساتھ میرا جسم بھی بے جان ہوگیا ۔ مجھے متلی آنے لگی اور سرچکرانے لگا ۔ مجھے اِن بادشاہوں کی جنگوں اور ان کے امن اور دوستی کے معاہدوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن میرے کانوںمیں جب یہ بات پڑی کہ موصل سے اہم مہمان آرہے ہیں تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے صلیبیوں اور مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ میرا گہرا تعلق ہے۔ میں ابھی تک یہ نہیں سوچ سکی کہ میرا روحانی تعلق کس کے ساتھ ہے۔ صرف یہ احساس جاگ اُٹھا کہ میں اس محفل میں نہیں ناچ سکوں گی ۔ میں موصل کے مہمانوں کا سامنا نہیں کر سکوں گی یا وہ مجھے دیکھ کر وہاں سے بھاگ جائیں گے ''۔
''کیوں؟'' جیکب نے پوچھا …… ''موصل والوں کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟''
''میں بتا نہیں سکتی ''۔سارہ نے کہا …… '' میں تو اپنے آپ کو بھی یہ بتانے سے ڈرتی ہوں کہ موصل والوں کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے''۔
'' سارہ!'' جیکب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا …… '' تم اپنا مجھ سے کیوں چھپا رہی ہو؟ کیا تمہیں کسی قافلے سے اغوا کیا گیا تھا ؟ تم کس باپ کی بیٹی ہو؟''

سارہ کوئی جواب نہ دے سکی ۔ جیکب چونک اُٹھا۔ دونوں نے کھڑکی کی طرف دیکھا جو کھلی ہوئی تھی ، وہاں ایک سایہ کھڑا نظر آیا۔ سارہ نے جیکب کے کان میں سرگوشی کی …… '' پلنگ کے نیچے ہوجائو '' …… جیکب نے اندھیرے سے فائدہ اُٹھایا۔ آہستہ سے سرک کر فرش پر بیٹھا اور آواز پیدا کیے بغیر پلنگ کے نیچے چلا گیا ۔ سارہ لیٹ گئی۔
'' سارہ !'' کھڑکی کے ساتھ کھڑے سائے کی آواز آئی۔ یہ ایک بوڑھی عورت کی آواز تھی جو بعض راتیں ناچنے گانے والیوں کو دیکھا کرتی تھی کہ کوئی لڑکی غیر حاضر تو نہیں ۔
اُس کی آواز پر سارہ نہ بولی۔ عورت نے اُسے ایک اور آواز دی ۔ سارہ پھر بھی نہ بولی۔ عورت نے تحکمانہ لہجے میں کہا …… '' سارہ تم سوئی ہوئی نہیں ہو ۔ مجھے جواب دو ۔ قندیل کیوں بجھی ہوئی ہے؟''
سارہ نے منہ سے ایسی آوا ز نکالی جیسے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھی ہو۔ گھبراہٹ کی اداکاری کرتے ہوئے بولی ۔ '' کون ہو؟ کیا ہو گیا ہے؟''
'' میں اُدھر آکر بتاتی ہوں''۔ عورت کا سایہ کھڑکی سے ہٹ گیا ۔ وہ دروازے کی طرف سے آنا چاہتی تھی ۔ سارہ نے جھک کر جیکب سے کہا …… '' وہ دوسری طرف سے آرہی ہے ، باہر آئو اور کھڑکی سے کود جائو''۔
'' نہیں سارہ!'' جیکب نے پلنگ کے نیچے سے نکل کر کہا …… '' میں اسے جانتا ہوں ، آنے دو اسے ۔ میں اس کی مٹھی گرم کردوں گا تو خاموشی سے چلی جائے گی ''۔
''یہ خبیث عورت ہے''۔سارہ نے کہا …… '' یہ درپردہ لڑکیوں کی دلالی کرتی ہے۔ تم فوراً نکلو یہاں سے ، ورنہ میرا جھوٹ مجھے مروا دے گا ۔ میں اسے سنبھال لوں گی ''۔
وہ عورت ابھی دروازے تک آئی ہی تھی کہ جیکب کھڑکی سے باہر کود گیا ۔سارہ نے قندیل جلا دی ۔ عورت اندر آئی۔ جسم کے لحاظ سے وہ عورت کم اور مردزیادہ تھی ۔ وہ سارہ پر برس پڑی۔سارہ نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس کمرے میں اور کوئی نہیں تھا اور شاید خواب میں بول رہی ہوگی۔ عورت نے اُسے کہا کہ خواب میں عورت کی آواز مرد جیسی بھاری نہیں ہوجایا کرتی۔
'' یہ کیا ہے؟'' عورت نے جھک کر پلنگ کے قریب فرش پرگرا ہوا ایک رومال اُٹھایا۔یہ گزبھرلمبا اور اتنا ہی چوڑا کپڑا تھا جو مرد گرمی سے بچنے کے لیے سر پر ڈال لیا کرتے تھے ۔'' یہ کس کا ہے؟ یہ اُس کا ہے جو تمہارے پاس آیا بیٹھا تھا ۔ وہ کون تھا ؟ تم نے اُس سے کتنی رقم لی ہے؟''
'' میں عصمت فروش نہیں ''۔ سارہ نے غصے سے کہا …… '' میں رقاصہ ہوں۔ تم جانتی ہو، میں کسی مرد کو منہ نہیں لگاتی ''۔
'' سنو سارہ!'' عورت اُس کے پاس بیٹھ گئی اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے بولی …… '' یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ تم رقاصہ ہو مگر تم یہ نہیں جانتی کہ رقاصہ فوج کی جرنیل یا شہر کی حاکم نہیں ہوا کرتی۔ میں اتنی سی بات کہہ دوں گی کہ تمہارے پاس رات کو آدمی آیا تھا وہ تمہیں بیروت کے کسی انتہائی گھٹیا قحبہ خانے میں بیچ ڈالیں گے یا تمہیں قید میں ڈال دیں گے۔ اس نشے میں بات نہ کرو کہ تم شاہی رقاصہ ہو۔ یہاں تمہارا کوئی مقام نہیں ''۔
''تم مطلب کی بات کرو''۔سارہ نے کہا…… '' تم مجھ پر جو مہربانی کرنا چاہتی ہو، اُس کا معاوضہ کیا لوگی ؟ میں ابھی ادا کردیتی ہوں''۔
'' میں تم سے کچھ بھی نہیں لوں گی''۔ عورت نے کہا ۔ '' میں کسی اور سے معاوضہ وصول کروں گی۔ تمہاری ہاں کی ضرورت ہے''۔

سارہ اُس کا مطلب سمجھ گئی۔ باہر سے شاہی مہمان آتے ہی رہتے ہیں ۔ ان میں عیسائی بھی ہوتے تھے، مسلمان بھی ۔ شاہی حیثیت کے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے لڑکیاں موجود رہتی تھیں لیکن اُس کے ساتھ جو عملہ آتا تھا، انہیں اس قسم کی عیاشیاں مہیا نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ عورت ان لوگوں سے مل کر اُن کے پاس لڑکیاں بھیجا کرتی اور منہ مانگا معاوضہ وصول کرتی تھی ۔ یہ اُس کا خفیہ کاروبار تھا ۔ بعض شاہی مہمان ایسے ہوتے تھے جو سرکاری طور پر دی ہوئی لڑکی سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ یہ عورت درپردہ محل کے ایک دو ملازموں کے ذریعے اُن کی یہ ضرورت پوری کرتی اور انعام لیتی تھی۔ سارہ اُس کے ہاتھ کبھی نہیں آئی تھی مگر اب یہ لڑکی اُس کے جال میں آگئی ۔ وہ اگر بتاتی کہ اُس کے پاس جیکب آیا تھا اور اُس کے ساتھ اس کا تعلق پاک ہے تو یہ عورت کبھی یقین نہ کرتی اور دوسرا ظلم یہ ہوتا کہ جیکب کو قید میں ڈال کر بڑی ہی ظالمانہ اذیتیں دے دے کر ماردیا جاتا۔
''سارہ!'' عورت نے کہا …… '' اگر اپنے ہولناک انجام سے بچنا چاہتی ہو تو میری بات مان لو۔ باہرسے دو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ بہت دولت مند ہیں ۔ پرسوں سے دو ملازموں سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں اچھی قسم کی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل اُن کی عادت ہے۔ اپنے ہاں حرموں میں بیس بیس تیس تیس لڑکیاں جمع کیے رکھتے ہیں ۔ یہاں بھی چاہتے ہیں کہ ان کے کمروں میں لڑکیوں کی چہل پہل لگی رہے۔ کل تم اِن میں سے ایک پاس چلی جانا''۔
''کون ہیں وہ؟'' سارہ نے پوچھا …… '' اگر مسلمان ہیں تو میں اُن کے پاس نہیں جائوں گی ''۔
'' تو قید خانے میں جائو''۔ عورت نے کہا …… '' ہوش میں آئو۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ تم کیا ہو۔ اپنے پیشے کو دیکھو۔ شریف بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہ دِل کھول کر انعام دیں گے جس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا ''۔ے
'' اور پکڑے گئے تو؟''
'' تو قید خانے میں جائو''۔ عورت نے کہا …… '' ہوش میں آئو۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ تم کیا ہو۔ اپنے پیشے کو دیکھو۔ شریف بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہ دِل کھول کر انعام دیں گے جس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا ''۔ے
'' اور پکڑے گئے تو؟''
'' میں پکڑنے والوں کا منہ بندرکھا کرتی ہوں''۔ عورت نے کہا …… '' کل رات تیار رہنا۔ اب تم سے بالکل نہیں پوچھوں گی کہ ابھی ابھی تمہارے پاس کون آیا تھا ''۔
عورت چلی گئی۔ سارہ کے آنسو بہنے لگے۔
جیکب بھاگنے والا آدمی نہیں تھا لیکن وہ اس ڈر سے نکل گیا کہ سارہ کی مصیبت آجائے گی۔ اُسے اُمید تھی کہ سارہ اسی غلیظ دُنیا کی لڑکی ہے، وہ اس عورت کو سنبھال لے گی۔ وہ شہر کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ اس کے ذہن پر سارہ چھائی ہوئی تھی۔ سارہ سے اُسے دلی محبت ہوگئی تھی اور سارہ اس کے لیے معمہ بھی بن گئی ۔ اُسے رہ رہ کر یہی خیال آرہا تھا کہ سارہ کسی مسلمان باپ کی بیٹی ہے …… وہ چلتے چلتے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں داخل ہوگئی۔ گلیوں کے موڑ مڑتا ایک مکان کے سامنے رُکا اور دروازے پر دستک دی ۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔
''کون؟''
''حسن ''۔ جیکب نے جواب دیا ۔
'' اتنی رات گئے؟'' دروازہ کھولنے والے نے پوچھا۔ '' فوراًاندر آجائو ۔ کسی نے دیکھا تو نہیں ؟''
''نہیں''۔ جیکب نے جواب دیا …… ''کافروں کی ضیافت سے ابھی فارغ ہوا ہوں۔ ایک ضروری اطلاع لایا ہوں''۔
وہ اندرچلا گیا ۔ دروازہ بند ہوگیا۔ اب وہ جیکب نہیں بلکہ حسن الادریس تھا۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کاجاسوس تھا ۔ اس نے ایک سال پہلے اپنے آپ کو ایک عیسائی ظاہر کرکے اور نام گلبرٹ جیکب بناکر صلیبی فوج میں ملازمت کرلی تھی ۔ گورے رنگ کا جوان تھا ۔ ٹریننگ کے مطابق وہ اداکاری اور چرپ زبانی کاماہر تھا ۔ اس کی شکل و صورت اور دراز قد کی بدولت اُسے محل کی خصوصی ڈیوٹی کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا ۔ یہاں سے وہ قاہرہ کوخبریں بھیجتا رہتا تھا ۔ اس کے گروہ کا لیڈر حاتم اس مکان میں رہتا تھا جس میں داخل ہوگیا تھا ۔

'' موصل کے دو ایلچی بالڈون کے پاس آئے ہیں '' ۔ حسن نے اپنے لیڈر کو بتایا …… '' میں نے یقین کر لیا ہے کہ یہ دونوںموصل سے آئے ہیں اور دونوں مسلمان ہیں ۔ انہیں بالڈون اپنے کمرے میں لے گیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والئی موصل عزالدین کا کوئی پیغام لے کر آئے ہیں ''۔
'' اور یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف معاہدے کا پیغام ہوگا ''۔ لیڈر نے کہا …… '' یہ معلوم کر لیا ہے کہ ان کے درمیان کیا طے پایا ہے؟ سلطان ابھی تک اس دھوکے میں ہیں کہ عزالدین اور عمادالدین ہمارے دوست ہیں یا کم از کم ہمارے خلاف نہیں لڑیں گے''۔
'' ان کی بات چین بند کمرے میں ہوئی ہے''۔ حسن نے کہا …… '' میرا خیال ہے کو جو کچھ طے ہونا تھا ، ہوچکاہے۔ میں نے ان میں سے ایک ساتھ بات کی تھی ۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا ۔ بدبخت نے شراب اس قدر پی لی تھی کہ اس نے نشے میں مجھے بڑا صاف اشارہ دے دیا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں اور موصل سے آئے ہیں۔ مجھے کہتا تھا کہ وہ ہماری یعنی صلیبیوں کی محبت دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ پائوں پر کھڑا نہ ہوسکا اور گر پڑا''۔
'' ہم سلطان کو صرف یہ اطلاع بجھوائیں کہ بیروت میں موصل کے دو آدمی آئے تھے، کافی نہیں ''۔ حاتم نے کہا ……'' ہم اپنے سلطان سے بہت شرمسار ہیں کہ اُن تک ہماری یہ اطلاع نہیں پہنچ سکی کہ بیروت کو محاصرے میں لینے کا منصوبہ ترک کردیں ، کیونکہ بالڈون کو اس منصوبے کی اطلاع قاہرہ سے مل گئی ہے''۔
''اس میں ہمارا کوئی قصور نہ تھا ''۔حسن نے کہا ۔ '' اسحاق ترک برقت ورانہ ہوگیا تھا۔ وہ دھوکہ دینے والا آدمی نہیں تھا ۔ وہ راستے میں صحرا کا شکا ر ہوگیا یا پکڑا گیا ہوگا''۔
'' بیروت کے محاصرے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا جو نقصان ہوا ہے۔ ہمیں اس کا ازالہ کرنا ہے''۔ حاتم نے کہا…… '' اُن کے لیے یہ خبر بہت اہم ہے کہ موصل والے بیروت والوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرر ہے ہیں لیکن ہمیںپوری اطلاع دینی چاہیے کہ معاہدے میں کیا کیا شرائط طے ہوئیں اور کیا منصوبہ بنا ہے۔ اس وقت سلطان بہت بڑے خطرے میں بیٹھے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ دوستوں کے درمیان محفوظ ہیں لیکن وہ دراصل دشمنوں کے گھیرے میں پڑائو ڈالے ہوئے ہیں ''۔ حاتم نے حسن سے پوچھا …… '' محل میں تم کوئی ایسا ذریعہ پیدا نہیں کر سکتے جو اندر کی باتیں بتا سکے ؟''۔
''باتیں بند کمرے میں ہوئی ہیں ''۔ حسن نے جواب دیا …… '' بالڈون یا اس کے مشیروں اور سالاروں سے تو پوچھا نہیں جاسکتا ۔ ان دونوں آدمیوں کے سینے سے راز نکالنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جو موصل سے آئے ہیں۔ میں ذریعہ پیدا کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اگر نہ ہوا تو دوسرا طریقہ اختیار کریں گے ۔ یہ جب واپس جائیں گے تو انہیں راستے سے اغوا کر لیا جائے گیا یا ضرورت پڑی تو ختم کردیا جائے گا ''۔
'' انہیں ختم کرنے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا''۔ حاتم نے کہا …… '' ہمیں بالڈون اور عزالدین کے منصوبے کی ضرورت ہے''۔
'' میری یہی کوشش ہوگی ''۔ حسن نے کہا …… '' اگر منصوبہ نہ ملا تو دونوں کو سلطان ایوبی کے پاس پہنچا دیا جائے گا''۔
'' اگر انہیں قتل کرنا ہوا تو وہ میں یہیں سے کراسکتا ہوں''۔ حاتم نے کہا …… '' جس قدر جلدی ہوسکے ، مجھے بتائو کہ تم مطلوبہ معلومات حاصل کرسکتے ہو یا نہیں۔ میں صبح ایک آدمی کو سلطان کو یہ خبر دینے کے لیے روانہ کردوں گا کہ بالڈون کے پاس عزالدین کے ایلچی آئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہوگیا ہے ، تاکہ سلطان اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہیں کہ عزالدین اُن کا دوست ہے۔ تم بہت تھوڑے وقت میں مکمل اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کرو''۔
'' میری کامیابی کے لیے دُعا کریں ''۔ حسن اُٹھا اور باہر نکل گیا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
'' صلیبی چھاپہ ماروں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کرو''۔ سالار صارم مصری نے اپنے چھاپہ مار دستوں کے کمانداروں کو ہدایات دے رکھی تھیں …… '' لیکن پانی جان کو خطرے میں نہ ڈالو جہاں حملہ کرو، وہاں کاری ضری لگا ئو اور نکلنے کی کوشش کرو اور جب تم پر حملہ ہو تو جم کر لڑرو اور دشمن کو نکلنے نہ دو ۔ یہ اتنی زیادہ فوج تمہارے بھروسے پر آرام کی نیند سوتی ہے اور اتنی زیادہ رسد تمہاری ذمہ داری پر پڑی ہے''۔
چھاپہ ماروں کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا ۔ سلطان ایوبی نے خیمہ گاہ سے دُور چٹانوں اور بلند جگہوں پر بیس سے چالیس کی نفری کی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں جن کے ذمے دیکھ بھال اور خیمہ گاہ کی حفاظت تھی ۔ ایسی ہی ایک چوکی جو پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایک چٹان پرتھی دشمن کے تیروں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ۔ اس کے پیچھے اونچی پہاڑیاں تھیں اور ایک وادی ۔ اس میں وادی میں سے فوج گزر سکتی تھی ۔ اس ڈھکی چھپی گزرگاہ پر نظر رکھنے کے لیے یہ چوکی قائم کی گئی تھی ، وہاں دو سوار گھوڑوں کے ساتھ ہر وقت تیار رہتے تھے، وہاں روز مرہ کا معمول بن گیا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد تین چار تیر آتے اور دو سپاہیوں کو ختم کر دیتے ۔ ایک شام ایک گھوڑے کو بیک وقت تین تیر لگے اور گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ تیر قریب کی پہاڑی سے آتے تھے۔ اس کے فوراً بعد اندھیرا چھا جاتا تھا ، اس لیے تیر چلانے والوں کو ڈھونڈا نہیں جا سکتا تھا ۔
ایک روز شام سے پہلے چوکی کے دو سپاہی پہاڑی پر کہیں چھپ کر بیٹھ گئے ۔ سورج غروب ہونے کو تھا ۔ دو تیر آئے ، دونوں اِن سپاہیوں کی پیٹھوں میں لگے۔ دونوں شہید ہوگئے۔ صبح اُن کی اَدھ کھائی ہوئی لاشیںاُٹھائی گئیں۔ رات کو بھڑئیے لاشوں کو کھاتے رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ صلیبی چھاپہ ماروں کا کام ہے۔ ایک روز دس سپاہیوں کا ایک گشتی جیش علاقے کی تلاشی کے لیے بھیجا گیا ۔ پہاڑی علاقوں میں جا کر چار چار افراد میں تقسیم ہوکر بکھر گئے۔ ایک جگہ دس بارہ سال کی عمر کا ایک بچہ نظر آیا۔ وہ سپاہیوں کو دیکھ دوڑ پڑااور ایک بلندچٹان کے دامن میں غائب ہوگیا۔ وہ گڈریا ہو سکتا تھا لیکن وہاں کوئی بھیڑ بکری اور کوئی اونٹ نہیں تھا۔ سپاہی وہاںتک گئے تو انہیں چٹان میں تنگ سا ایک دہانہ نظر آیا جو کسی غار کا تھا ۔ بچہ اِسی میں چلا گیا ہوگا۔
سپاہیوں نے دہانے کے ساتھ کان لگائے تو اندر سے دھیمی دھیمی آواز سنائی دی ۔ کسی بچے کا غار میں چھپ جانا کوئی عجیب بات نہیں تھی ۔ یہ سپاہی اس بچے سے صلیبی چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بہت پکارا لیکن غار میں خاموشی چھاگئی۔ سپاہیوں نے دھمکی دی کہ جو کوئی اندر ہے، باہر آجائے ، ورنہ ہم اندر آکر سب کو قتل کر دیں گے۔ اندر سے ایک جوان عورت نکلی۔ وہ اس علاقے کی زبان میں سپاہیوں کو کوسنے لگی۔ پھر روپڑی اور کہا کہ مجھے قتل کردو ، میرے بچوں کو بخش دو۔ اُس کے دو بچے تھے۔ ایک دس بارہ سال کا جو باہر سے دوڑا تھا اور دوسرا چند مہینوں کا تھا جو اِس عورت نے اندر سلایا ہوا تھا ۔

سپاہیوں نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان سپاہی ہیں مگر عورت انہیں گالیاں دینے لگی اور منت سماجت بھی کرنے لگی۔ اس نے بتایا کہ دور روز ہوئے اس کے گائوں میں پندرہ سولہ صلیبی سوار آئے اور گائوں پر قبضہ کرلیا …… انہوں نے تمام گھروں کی تلاشی لی ۔ اس عورت کے خاوند کو قتل کردیا۔ قتل اس طرح کیا کہ انہوں نے گائوں کے تمام بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور تمام عورتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے کہا کہ کسی کو پتہ نہ چلنے دیںکہ اس گائوں میں سپاہی رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اور گھوڑوں کی خوراک کی ذمہ داری گائون پر ڈال دی ۔ ان کے کماندار نے تلوار نکال لی۔ اس عورت کا خاوند سب سے آگے کھڑا تھا ۔ کماندار نے خاوند کو بازو سے پکڑکر آگے کیا اور تلوار کے ایک ہی وار اُس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اُس نے گائوں والوں سے کہا کہ کسی نے اُن کے حکم کی نافرمانی کی تو اُسے ایسی سزا ملے گی۔
ان سپاہیوں نے اپنے لیے تین جھونپڑے خالی کرالیے اور گائوں کی عورتوں کو بلا کر اُن سے خدمت خاطر کرانے لگے۔ یہ عورت رات کو موقعہ پا کر وہاں سے بھاگ آئی۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ سپاہی ابھی تک گائوں میں موجود ہیں یا نہیں۔ یہ گائوں وہاں سے تھوڑی ہی دُور تھا۔ سپاہی عورت کو وہیں چھوڑ کر گائوں کی طرف گئے۔ پہاڑی سلسلہ کھل جاتا تھا، وہاں وسیع میدان تھا جس میں پندرہ بیس جھونپڑوں کا ایک گائوںتھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا گشتی جیش گھوڑوں پر سوار تھا۔ انہوں نے گائوں پر یلغار کرنے کے لیے گھوڑے دوڑا دئیے۔ اُس وقت صلیبی پاہی جو گائوں پر قابض تھے ، گائوںمیں موجود تھے۔ انہوں نے شاید پہرہ کھڑا کر رکھا تھا۔ گھوڑسوار ابھی گائوں سے کچھ دُور ہی تھے کہ تمام صلیبی سپاہی باہر آگئے اُن کے آگے چند ایک بچے او عورتیں تھیں۔ انہوں نے بچوں اور عورتوں کو ایک جگہ اکٹھے کرکے کھڑا کردیا اور خود ننگی تلواریں ہاتھوں میں لے کر اُن کے نیم دائرے میں کھڑے ہوگئے۔ ایک نے سلطان ایوبی کے سواروں سے مخاطب ہو کر چلا کر کہا …… '' اگر تم آگے آئو گے تو ہم اِن بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیں گے ''۔
سوار بیس پچیس قدم دُور رُک گئے۔ وہ مسلمان بچوں اور عورتوں کو صلیبیوں کے ہاتھوں قتل نہیں کرانا چاہتے تھے۔
'' بزدلو!'' …… سلطان ایوبی کے چھاپہ مار جیش کے کماندار نے کہا …… '' صلیب کی خاطر لڑنے آئے ہو تو مردوں کر طرح سامنے آکر لڑو۔ عورتوں اور بچوں کی ڈھال کے پیچھے کیوں کھڑے ہو''۔
'' تم سب واپس چلے جائو''…… صلیبی کماندار نے کہا …… '' ہم گائوں سے چلے جائیں گے''۔
جن بچوں اور عورتوں کو صلیبی سپاہیوں نے یرغمال بنا رکھا تھا ، ان میں سے ایک عورت نے سلطان ایوبی کے سپاہیو ں سے بلند آواز سے کہا …… '' اسلام کے سپاہیو! رُک کیوں گئے ہو۔ ہمیں اپنے گھوڑوں تلے روند ڈالو۔ ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ جانے دو۔ ہم اپنے بچوں سمیت مرنے کو تیار ہیں ''۔
صلیبی کمان دار نے تلوار کا بھرپوروار کیا۔ اس عورت کا سر اس کے جسم سے کٹ کر گر پڑا۔ سلطان ایوبی کے گشتی جیش نے اپنے سپاہیوں کو تیروکمان نکالنے کا حکم دیا ۔ پلک جھپکتے انہوں نے کمانیں کندھوں سے اُتاردیں، آگے کیں اور ترکشوں سے ایک ایک تیر نکال کر کمانوں میں ڈال لیا ۔ تم صلیبی سپاہی بچوں اور عورتوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔
'' جھوٹے مذہب کے پجاریو!'' …… مسلمان کمان دار نے کہا …… '' سپاہی بچوں اور عورتوں کی پیٹھ پیچھے نہیں چھپا کرتے ''۔

صلیبی ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔ وہ شاید بھول گئے تھے کہ گائوں میں مرد بھی ہیں ۔ ان مردوں کو صلیبیوں نے بہت خوفزدہ کر رکھا تھا ۔ وہ بھی اپنے بچوں اور عورتوں کے قتل سے ڈرتے تھے۔ اتنے میں ایک عورت نے للکار کر کہا …… '' یہ کافر تو بزدل ہیں، تم ہمارے خون سے کیوں ڈرتے ہو''…… اس نے اپنے سامنے کھڑے تین چار سال کے بچے کو اُٹھایا اور اُسے آگے زمین پر پھینک کر کہا …… '' میں اپنے اس بچے کی قربانی خوشی سے دیتی ہوں۔ہلّہ بولو۔ دس کافروں کی جان لینے کے لیے میں اپنا بچہ قربان کرتی ہوں''۔
'' ایک صلیبی تلوار نے سونتے اس عورت کو قتل کرنے کو اُٹھا مگر اسے اتنی مہلت نہ ملی۔ ان کے عقب سے گائوں کے تمام آدمی برچھیاں، لاٹھیاں اور جو ہاتھ لگا اُٹھائے صلیبی سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے۔ صلیبی بچوں اور عورتوں کے پیچھے تیروں سے بچنے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جب مقابلے کے لیے اُٹھے، مسلمان سپاہیوں نے ہلہ بول دیا ۔ ان میں دو تین سپاہی چلا رہے تھے ۔ '' عورتیں نکل بھاگیں ، بچوں کو ایک طرف کرلو''۔
ان کے گھوڑے صحرائی آندھی کی طرح آرہے تھے۔ عورتوں نے بچوں کو اُٹھایا اور نکل بھاگیں۔ گائوں کے آدمی گھوڑوں سے بچنے لگے۔ ذرا سی دیر میں دو صلیبیوں کے سوا باقی تمام کو مار ڈالا گیا۔ گائوں والوں نے اُن کی لاشوں کا قیمہ بنا دیا ۔ وہ دو زندہ صلیبیوں کو بھی اپنے ہاتھوں مارنا چاہتے تھے لیکن مسلمان جیش کے کماندار نے بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ ان دونوں سے باقی ساتھیوں کا سراغ لگایا جائے گا۔
ان دونوں کو سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کے نائب سربراہ حسن بن عبد اللہ کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس نے اِن سے کہا کہ وہ اپنے چھاپہ مار دستوں کے متعلق سب کچھ بتا دیں۔ وہ سپاہی تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ یہ بالڈون کی فوج کے چھاپہ مار تھے۔ کم و بیش ایک ہزار چھاپہ مار سلطان ایوبی کی فوج اور رسد کو نقصان پہنچانے کے لیے بیروت سے بھیجے گئے تھے ۔ ان کا ابھی کوئی مستقل اڈہ نہیں تھا ۔ وہ تمام علاقے میں پارٹیوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ اسی طرح طرح چھوٹے چھوٹے گائوں پر قبضہ کرکے وہاں سے خوراک حاصل کریں اور سلطان ایوبی کی فوج کے لیے مصیبت بنے رہیں۔
انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا۔ اُس نے ان کی باتیں سنیں اور حکم دیا …… '' اِن دونوں کو دُور لے جاکر قتل کردیا جائے۔ یہ قاتل اور لٹیرے ہیں ''…… اس نے اپنے سالاروں سے کہا …… '' اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صلیبی چھاپہ ماروں کو موصل میں یا کسی اور قلعے میں رہنے کی اجازت نہیں ملی ورنہ گائوں کو اڈے نہ بناتے'' ۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا …… '' ایسے ہر ایک گائوں میں تھوڑی تھوڑی نفری بھیج دو ۔ سپاہیوں کو سختی سے کہنا کہ گائوں میں کسی کو پریشان نہ کریں۔ اپنی اور گھوڑوں کی خوراک فوج کی رسد سے لیں۔ کسی گائوں سے اناج کا ایک دانہ اور چارے کا ایک تنکا بھی نہ لیا جائے ''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن حاتم کو رپورٹ دے کر واپس آیا تو وہ باقی رات سو نہ سکا۔ اُس کے ذہن پر سارہ سوار تھی ۔ اُسے دن کو ہی پتہ چل گیا تھا کہ سارہ کو اس عورت نے پکڑ لیا تھا ۔ اس کی اسے کوئی سزا تو نہیں ملی ؟ حسن کو معلوم تھا کہ وہ عورت کون ہے لکین اس عورت سے مل کر وہ سارہ کی سفارش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اُسے بتا نہیں سکتا تھا کہ رات سارہ کے کمرے میں وہی تھا۔ حسن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ وہ موصل کے ایلچیوں سے کس طرح معلوم کرے کہ بالڈون کے ساتھ انہوں نے کیا معاہدے طے کیا ہے ۔ یہ راز انہی سے لیا جا سکتا تھا ۔ اس اجلاس میں کوئی ملازم اندر نہیں تھا جس سے حسن کچھ معلوم کرلیتا۔ وہ جس قدر ذہن پر زور دے کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈتا تھا ، سارہ اتنی ہی زیادہ اُس کے ذہن پر غالب آتی جا رہی تھی ۔
'' سارہ!'' …… اُس کے منہ سے سرگوشی نکل گئی جو غیر ارادی تھی ۔ اس سے وہ چونک اُٹھا ۔ اسے کچھ ایسا اطمینان ہونے لگا جیسے اس مسئلے کا حل مل گیا ہو اور سارہ اس مسئلے کو حل کردے گی۔ اسے یہ سوال پریشان کرنے لگا …… '' کیا سارہ کسی مسلمان باپ کی بیٹی ہے؟'' …… اور دوسرا سوال یہ کہ اسے اگر اپنا بچپن یاد آجائے تو کیا وہ اس کا مسئلہ حل کر سکتی ہے؟ اس کا یہی ایک ذریعہ تھا کہ سارہ موصل کے کسی ایک ایلچی کو اپنا گرویدہ بنالے اور اُس پر شراب اور اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسکے سینے راز نکال لیے مگر سوال یہ تھا کہ سارہ مان جائے گی ؟ کہیں اسے ہی نہ پکڑوادے۔
جاسوسوں کو خطرے مول لینے پڑتے ہیں ۔ حسن کو اپنی زبان کے فن کا کمال دکھانا تھا ۔ اسے سارہ کی باتیں یاد آرہی تھیں جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو پسند کرتی ہے۔ حسن کہ یہ بھی احساس ہوگیا تھا کہ سارہ کو شک ہوگیا ہے کہ وہ (حسن )مسلمان ہے۔ حسن کادماغ سوچ سوچ کر تھک گیا ۔ اسے دُور سے صبح کی اذان کی آوازسنائی دینے لگی۔ اُس کے دماغ پر اسلام اور خدا کا تقدس طاری ہوگیا۔ اس کی مدد خدا ہی کر سکتا تھا ۔ اس نے اُٹھ کر وضو کیا اورکمرے کا دروازہ بند کرلیا ۔ صلیبیوں کی ا س دنیا میں وہ مسلمان نہیں عیسائی تھا ۔ حسن الادریس نہیں گلبرٹ جیکب تھا ۔ وہ چھوٹے سے کمرے میں اکیلا رہتا تھا جہاں اُس نے حضرت عیسٰی کا بت صلیب کے ساتھ لٹکا رکھا تھا ۔ دیوار کے ساتھ کسی مصور کی بنائی ہوئی مریم کی تصویر آویزاں کر رکھی تھی ۔ قریب ہی صلیب لٹک رہی تھی ۔ اُس نے یہ بُت ، تصویر اور صلیب پلنگ کے نیچے رکھ دی ۔ دروازے کے اندر والی زنجیر چڑھا کر قبلہ رُو ہوا اور نماز پڑھنے لگا۔ وہ ہر روز اسی طرح چھپ کر نماز پڑھا کرتا تھا مگر اس کی جذباتی حالت کبھی ایسی نہیں ہوئی تھی جیسی اس صبح کی نماز میں ہوئی۔ اُس نے آنسو نکل آئے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ (تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) بلند آواز سے نکل گئے تھے ۔ اُسے پہلی بار محسوس ہوا۔ جیسے خدا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اتنی قریب کھڑا ہے کہ وہ خدا کو چھو سکے گا۔ اس نے نماز ختم کرکے دو نفل پڑھے اوردُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ۔ اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اُس کی زبان سے الفاظ اس کے سوچے بغیر پھسلنے لگے …… '' قبلہ اوّل کے خدا! آج تیرا نام لینے والے ، تیرے رسول ۖ کاکلمہ پڑھنے والے مسلمان اُن انسانوں کے ڈر سے تیری مسجدِ اقصٰی میں تیرے حضور سجدہ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ جو تیرے رسول ۖ کے منکر ہیں ۔ آج تیرا قبلہ اوّل ویران ہوگیاہے۔ جو زمین تیرے رسول ۖ کے قدموں سے مقدس اور مبارک ہوئی تھی ، اس پر آج صلیب کا سیاہ سایہ پڑ گیا ہے جس بنی اسرائیل کو تیر ذات نے دھتکار دیا تھا ، وہ آج تیرے قبلہ اوّل کو ہیکل سلیمانی کہہ رہی ہے……

'' میرے خدا ! اپنی عظمت کا پتہ دے۔ مجھے بتا تو عظیم ہے یا خدائے یہود۔ مجھے بتا حضرت عیسٰی علیہ السلام تیرے پاس ہیںیا صلیبیوں کی صلیب پر لٹک رہے ہیں ۔ اپنی عظمت کا پتہ دے۔ قرآن کی عظمت کا پتہ دے۔ اپنے رسول ۖ کی عظمت کا پتہ دے اور مجھے اس کا سبب بنا کہ میں تیرے رسول ۖ اور تیرے قرآن کی عظمت کا پتہ یہودیوں اور صلیبیوں کو دوں۔ مجھے ہمت عطا فرما کہ میں ان چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر سکوں جو سلطان صلاح الدین ایوبی اور قبلہ اوّل کے درمیان حائل ہوگئی ہیں۔ مجھے روشنی دکھا کہ میں ان اندھیروں میں اپنے فرض کی منزل دیکھ سکوں۔ مجھے اتنے سخت امتحان میں ڈال کہ میری جان تیرے نام قربان ہوجائے لیکن وعدہ فرما کہ میری جان رائیگاں نہیں جائے گی۔ تجھے تیرے نام پر قربان ہونے والے شہیدوں کے یتیم بچوں کی قسم! مجھے ہمت اور روشنی عطا فرما کہ میں ان یتیموں کے باپوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لے سکوں'' ……
'' تجھے رسول ۖ کی اُمت کی اُن بیٹیوں کی قسم جن کی عصمتیں مسجد اقصٰی کی آبرو کی خاطر لُٹ گئی ہیں ۔ مجھے جرأت عطا فرما کہ کفر کے ہرقلعے کو مسمار کر سکوں۔ اپنے غازی بندوں کو، اپنے حجازی بندوں کو ہمت اور ہدایت عطا فرما کہ وہ اپنی غیرت کا انتقام لیں اور آنے والی نسلیں یہ نہ کہیں کہ ہم بے غیرت تھے۔ آج بت بھی تیرے نام پر ہنس رہے ہیں ۔ میرا خون کھول رہا ہے ۔ مجھے وہ شجاعت عطا کر کہ میں پتھر کے ان بتوں کا مذاق اُڑا سکوں۔ میرے خدا! اگر تو یہ نہیں کر سکتا تو میرے خون کو سرد کردے۔ مجھے ایسا بے غیرت بنادے کہ مجھے یاد ہی نہ رہے کہ غیرت کس چیز نام ہے۔ میری بینائی واپس لے لے کہ میں اسلام کی بیٹیوں کے حیا اور بے آبرو ہوتا نہ دیکھ سکوں ۔ میرے کان بند کردے کہ میں تیرا نام نہ سن سکوں۔ میں ان مسلمانوں کی فریاد نہ سن سکوں جو فلسطین میں صلیبیوں اور یہودیوں کے غلام ہوگئے ہیں''۔
حسن کی آواز بلند ہوگئی…… '' تو کہاں ہے؟ …… تو ہے کہ نہیں ؟…… بول میرے خدا! مجھے زبان دینے والے خدا! خودبھی بول۔ مجھے بتا سنت برحق ہے یا صلیب یا مجھے فیصلہ کرنے دے کہ سچا کون ہے! سنت یا صلیب۔ قرآن تیری آواز ہے یا کسی بندے کی ؟''
بڑی ہی ہولناک گڑگڑاہٹ سنائی دی جیسے چھت ہل رہی ہو۔ اس کے فوراً بعد رعد اتنی زور سے کڑکی کہ حسن کا کمرہ ہل گیا ۔ کمرے کی دروازوں میں سے حسن کو بجلی کی چمک دکھائی دی ۔ اُس نے اور زیادہ بلند آواز سے کہا …… '' اس بجلی سے مجھے بھسم کردے یا اپنی مسجدِ اقصٰی کو ۔ مسافر نہ رہیں ، منزل نہ رہے۔ بجلیاں ان پر بھی گرا جن کے سہاگ تیرے نام پر اُجڑ گئے ہیں۔ اپنے نام پر یتیم ہونے والوں پر بجلیاں گرا۔ اپنے رسول ۖ کے نام لیوائوں پر بجلیاں گرا تا کہ کسی کی فریادیں تیرے کانوں تک نہ پہنچ سکیں''۔
رعد پھر کرکی اوراس کے بعد گھٹائیں کرجنے لگیں۔ بیروت کا ساحل قریب ہی تھا ۔ اُن دنوں سمندر خاموش ہوا کرتا تھا مگر سمندر جوش میں آگیا۔اسکی لہروں کی مہیب آواز حسن کو یوں سنائی دینے لگی جیسے بحیرئہ روم کی غصے میں آئی ہوئی موجیں اُس کے کمرے کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہوں۔ گھٹائوں کی گرج ، رعد کی کڑک اور سمندر کاجوش مل جل کر قیامت کا شور بن گئے۔ حسن کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
'' ایسے ہی طوفان میرے اندر اُٹھا کہ میں کفر کے ہر نشان کو اُڑاتا اور بہاتا لے جائوں۔ میرے خون کے قطرے بہادے لیکن مسجدِاقصٰی کے صحن میں ۔ میں شرمسار ہوں کہ قبلہ اوّ ل کا پاسبان صلاح الدین ایوبی یہاں تیرا لشکر لے کر آیا تو میں اُسے خبردار نہ کر سکا کہ بیروت سے دُور رہے کہ یہاں کفار کا پھندا تیار ہے۔ یہ میری مجبوری تھی ۔ یہ میرا گناہ تھا ۔ مجھے جرأت اور شجاعت عطا کر کہ میں گناہ کا کفارہ ادا کرسکوں ، ورنہ یہ بت میری روح کو بھی طعنے دیتے رہیںگے تیرا تو خدا ہی کوئی نہیں۔ مجھے ان بتوں کے آگے شرمسار نہ کر، مجھے شہیدوں کی روحوں کے آگے شرمسار نہ کر، مجھے شہیدوں کی روحوں کے آگے شرمسار نہ کر، اگر میری دعا قبول نہ ہوئی تو روزِ قیامت میرے مُردے میں جان نہ ڈالنا، ورنہ میںتیرا گریبان پکڑ لوں گا اور تیری مخلوق سے کہوں گا کہ یہ ہے وہ خدا جس نے اپنے رسول ۖ کی لاج نہیں رکھی، اُس خدا نے رسولۖ کے نام لیوائوں کی اتنا مجبور اور بے بس کیاکہ قبلہ اوّل ویران ہوگیا اوراس پر صلیب اور یہود کے سیاہ سائے پڑ گئے ''۔
رعد زور سے کڑکی حسن کے کمرے کی چھت، دروازے اور کھڑکی کے کواڑ بڑی زور سے کھٹکے اور چھت پر یوں آوازیں آنے لگیں جیسے گھوڑے دوڑرہے ہوں۔ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تھی ۔ طوفانِ بادوباراں زمین و آسمان کو ہلا رہا تھا حسن کے دِل پر ایسی گرفت آگئی جس میں خوف بھی تھا اور جذبات کی شدت بھی ۔ کبھی اُسے ایسے لگتا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ اُس نے خدا سے اس طرح کبھی باتیں نہیں کی تھیںے وہ چھپ کر نماز پڑھتا تھا اور مختصر الفاظ میں دُعا مانگ کر حسن سے جیکب بن جایا کرتا تھا ۔
اُس رات جب وہ حاتم کو رپورٹ دے کر آیا تھا ۔ اُس کی جذباتی کیفیت کچھ اور تھی ۔ اس پر نیند کا اثر بھی تھا۔اُس کے سامنے مسئلہ ایسا آگیا تھا کہ وہ سوچ سوچ کر دیوانہ ہونے لگا تھا۔ اُس کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ جس مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ اسے ذہن سے اُتار دے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ، علی بن سفیان اور اس کے لیڈر حاتم کو کیا خبرتھی کہ عزالدین کے ایلچی بالڈون کے پاس آئے ہیں اور کوئی معاہدہ ہو رہا ہے۔ وہ خاموش رہتا۔ اس کے گھر میں اس کے ماں باپ کو اس کی تنخواہ اور غیر ممالک میں جاسوسی کے فالتو پیسے باقاعدہ پہنچ رہے تھے۔ بیروت میںاُسے چھی پوزیشن اور عیش و عشرت کا سامان حاصل تھا مگر وہ ایمان والا مردِ مومن تھا ۔ اپنے فرائض کو نماز روزے کی طرح متبرک سمجھتا تھا ۔ اُسے احساس تھا کہ قوم کا ہر فرد یہ سمجھ لے کہ یہ کام کوئی اور کرے گا تو یہ رویہ سیدھا شکست ، قوم کی تباہی اور کفار کی فتح کی طرف لے جاتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات بھر جاگتے ہوئے جوان اور توانا حسن کو تیند نے مصلے پر ہی دبوچ لیا ۔ اس جذباتی کیفیت میں اُسے نیند نہیں چاہیے تھی لیکن اُس سوچ نے کچھ ایسا قرار اور سکون محسوس کیا کہ روح نے جسم اور دماغ کو سلا دیا ۔ وہ وہیں اوندھا ہوگیا۔ اسے اتنی مہلت نہ ملی مصلّٰی چھاپ کر اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بت، مریم کی تصویر اور صلیب پلنگ کے نیچے سے اُٹھا کر اپنی اپنی جگہ رکھ دیتا۔ دروازہ کھول دیتا اور جیکب کے بہروپ میں پلنگ پر سوجاتا۔ وہ خوابوں کی دُنیا میں پہنچ گیا۔ اُس نے مسجدِ اقصٰی دیکھی ۔ یہ مسجد اُس نے ایک بار دیکھی تھی جب وہ بیت المقدس میں جاسوسی کے ایک مشن پر گیا تھا ۔ یہ مسجد ویران تھی ۔ اُس کے کھلے ہوئے دروازے اپنے نمازیوں کی راہ دیکھ رہے تھے مگر مسلمان چھوٹی چھوٹی مسجدوں یا گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ صلیبیوں اور یہودیوں کے بچوں نے مسجدِ اقصٰی کے صحن کو کھیل کا میدان بنایا ہوا تھا جہاں بے شمار بچے جوتوں سمیت کھیل رہے تھے۔ صلیبیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو خوف زدہ کر رکھا تھا ۔ حسن مسجدِ اقصٰی کے مقدس مقام اور مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھا ۔ وہ جب وہاں گیا تھا تو اُس کا نام ریلف نکلسن تھا ۔
 اب وہ بیروت میں خواب میں مسجدِ اقصٰی کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کے گنبد پر بے شمار کبوتر بیٹھے تھے۔ کبوتر ایک بارگی اڑے اور تمام کبوتر فضا میں جاکر شرارے بن گئے۔ یہ شرارے مسجدِ اقصٰی کے اردگرد گرنے لگے۔ مسجد کے اندر سے صلیبیوں اور یہودیوں کا ایک ہجوم نکلا۔ ان سب کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ سب اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ وہ سب چیخ اور چلا رہے تھے مگر کسی کو آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ فضا سے برستے ہوئے شرارے رنگ برنگ کے پرندے بن گئے اور ایک ایک کرکے مسجدِ اقصٰی کے سبز گنبد پر بیٹھنے لگے۔ اب مسجد میں نہ کوئی صلیبی تھا نہ یہودی ۔ حسن آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چلا ۔ آسمان نیلا تھا ۔ دن کی روشنی بھی نیلی تھی ۔ مسجد کے دروازے میں ایسی چمک دکھائی دی جیسے بہت بڑے آئینے پر سورج کی کرنیں پڑی ہوں۔
حسن کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اُس نے آنکھیں بند کرکے کھولیں۔ چمک یا نور کا یہ گولا وہاں نہیں تھا ۔ وہاں سارہ کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ حسن حیرت زدہ ہو کے رُک گیا۔ سارہ پائوں سے سرتک چاندکی طرح سفید لبادے میں ملبوس تھی ۔ اُس کا چہرہ اور دونوں ہاتھ نظر آرہے تھے ۔ اُس کی مُسکراہٹ سے اُس کے دانت اتنے زیادہ سفید نظر آرہے تھے جتنی سفیدی اس زمین کے لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی ۔ سارہ نے بازو پھیلا دئیے۔ اس کے ہونٹ ہلے نہیں تھے، لیکن حس کو اس مترنم آواز سنائی دی …… '' آجائو ، مسجدِ اقصٰی ہماری ہے۔ اس مسجد میں جو کافر داخل ہوگا اُس پر آسمان آگ برسائے گا اور جو مسلمان اس مسجد کے تقدس کو بھول گئے ہیں ، ان پر بھی آگ برسے گی۔میں نے اس کے صحن کو زم زم کے پانی سے دھویا ہے۔ میرے گناہ دُھل گئے ہیں آئو …… آئو ''۔
حسن کی آنکھ کھل گئی ۔ اُس نے پھر آنکھیں موند لیں۔ وہ اس خواب سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تھا مگر موندھی ہوئی آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ وہ اب حقیقت کی دُنیا میں لوٹ آیا تھا ۔ چھپ پر ادھر ادھر موسلا دھار بارش کا قیامت خیز شور اور جھکڑ کی چیخیں تھیں۔ اس میڈ سمندر کی بھی آواز تھی جو پہلے سے زیادہ غصے میں آگیا تھا ۔ بادو باراں اور بحیرئہ روم کے اس ہنگامے میں حسن کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ اس کا وہم بھی ہوسکتا تھا ۔ وہ وہم سے ہی بیدار ہوگیا۔ اُس نے صلیب، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بات اور مریم کی تصویر اُٹھا کر سب کو اپنی اپنی جگہ لٹکا دیا ۔ اس دوران دروازے پر دستک بڑی صاف ہوئی۔ حسن نے مصلّٰی لپیٹ کر تکیے کے نیچے رکھ دیا اور دروازہ کھول دیا ۔
دروازے میںسارہ کھڑی مُسکرارہی تھی ۔ بادوباراں کا یہ سماں کہ برآمدے سے پرے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا ۔ سارہ کے کپڑوں اور بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا ۔
'' تم اس طوفان میں میرے پاس آئی ہو؟'' …… حسن نے اُسے بازو سے پکڑ کر اندر گھسیٹتے ہوئے کہا۔
'' نہیں جیکب !'' …… سارہ نے جواب دیا …… '' میں کسی اور پاس گئی تھی ۔ وہ ملا نہیں ۔ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔ رات بھر سب شراب پیتے اور بیہودگی کرتے رہے ہیں۔ اب شام کو ہی جاگیں گے۔ میں نے انتظار کیا لیکن مایوس ہو کر اِدھر آگئی۔ یہ طوفان آنے نہیں جانے دے رہا تھا ۔ دن کے وقت تو تمہارے پاس آنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا ''۔
حسن نے ایک کپڑا اُٹھایا جو اُس نے سارہ کے سر پر ڈال دیا اور اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے بال اس کپڑے سے خشک کرنے لگا۔ سارہ کو یہ بے تکلفی بہت پسند آئی۔ حسن نے اس کا چہرہ بھی پونچھ دیا ۔ پھر ایک چادراُسے دے کر کہا …… '' میں منہ اُدھر پھیر لیتا ہوں تم بھیگے ہوئے کپڑے اُتار کر چادر لپیٹ لو''۔
سارہ نے جب بھیگے ہوئے کپڑے اتارے تو وہ سوچنے لگی کہ اس شخص کو اتنی زیادہ روحانی محبت ہے کہ اُس کے جسم کی دل کشی کے ساتھ اسے کوئی دل چسپی نہیں یا ابس کا دِل بالکل ہی مردہ ہے…… سارہ نے جب اُسے کہا کہ میں نے کپڑے بدل لیے ہیں تو حسن نے منہ پھیرا اور اُس کے کپڑے برآمدے میں جاکر نچوڑلایا۔
'' اب بتائو تم کہاں گئی تھی '' …… حسن نے پوچھا …… '' اور رات میرے بعد کیا ہوا تھا ؟ وہ عورت اندر آگئی تھی ؟

'' اسی سلسلے میں اِدھر آئی تھی '' …… سارہ نے کہا اور اُسے بتایا کہ رات کو اس عورت کو اس عورت نے اُس کے کمرے میں آکر معافی کی کیا شرط پیش کی ہے۔ اُس نے کہا …… '' میں نے یہ نہیں بتایا کہ تم میرے کمرے میں آئے تھے۔ میں نے صرف اس لیے یہ شرط مان لی کہ تمہارا نام لیا تو میرے ساتھ تمہیں بھی سزا ملے گی اور تم جانتے ہو کہ یہ سزا کیسی بھیانک ہوگی۔ تم شاید حیران ہوگئے ہوگے کہ میں کوئی پاک صاف لڑکی نہیں، پھر بھی میں موصل کے مہمانوں یا کسی اورکی خواب گاہ میں جانے کو پسند نہیں کرتی۔ میں رقاصہ ضرور ہوں لیکن میں یوں کھلونا بننا نہیں چاہتی جس طرح یہ بڑھیا مجھے بنانا چاہتی ہے۔ میری اپنی بھی کوئی پسند اور نا پسند ہے ۔ میںنے بہت گناہ کیے ہیں لیکن کسی کی آمدنی کا اور کسی اورکے گناہوں کا ذریعہ نہیں بنوں گی۔ اس عورت نے کہا ہے کہ وہ مجھے اس چوری چھپے کے کاروبار میں سے معاوضہ دے گی۔ وہ مجھے معاوضوں کی بھرکی سمجھتی ہے۔ میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ میں اس کی خواہش کے مطابق آج رات موصل کے ایک مہمان کے پاس چلی جائوں گی لیکن میں اب کوشش کر رہی ہوں کہ حاکموں کو بتادوں کہ اس عورت نے درپردہ کیا کاروبار شروع کر رکھا ہے''۔
'' اور وہ کہہ دے گی کہ رات تمہارے کمرے میں آدمی آتے جاتے ہیں ''۔ حسن نے کہا
'' کہتی رہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں تو اب سبزا لینے کو بھی تیار ہوں اور خودکشی کے لیے بھی تیار ہوں۔ میں اس عورت کے بے نقاب کرکے رہوںگی ۔ میں رقاصہ ہوں۔ میں عصمت فروشی نہیں کروں گی''۔
'' میں سامنے آکر یہ کیوں نہ کہہ دوں کہ تمہارے کمرے میں مَیں گیا تھا ''۔ حسن نے کہا …… '' میںکہوں گا کہ میرا تمہارے ساتھ جسمانی نہیں ، جذباتی تعلق ہے''۔
اگر یہ کہنا ہوتا تومیں خود کہہ دیتی کہ میرے کمرے میں جیکب آیا تھا '' ۔ سارہ نے کہا …… '' مگر ایسا کہنا تمہیں گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑادینے کے برابر ہے۔ کوئی نہیں مانے گا کہ میرا تمہارا جذباتی تعلق ہے۔ یہ لوگ کسی کے جذبات سے واقف نہیں ۔ ان کے ہاں سب کچھ جسمانی ہے …… تم البر کو تو جانتے ہو۔ اٹلی کا رہنے والا ہے۔ نیک اوررحم دل افسر ہے۔بالڈون پر اُس کا خاصا اثرہے۔ صرف ایک بڑا افسر ہے جو مجھ جیسی لڑکیوں کو صاف ستھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ میں اُسے رات کی بات سنائوں گی اوراپنی عزت بچانے کی کوشش کروں گی۔ اگر میری یہ کوشش ناکام رہی تو میں سمندر میں کود جائوں گی ۔ اگر سمندر نے میری لاش اُگل دی تو تم بھی مجھے دیکھ لینا، ورنہ الوداع۔ بحیرئہ روم کی مچھلیاں کھائو گے توشاید اُن میں تم میرے جسم کی بوسونگھ سکو گے ''۔
''سارہ!'' حسن نے کہا …… '' تم عیسائی نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ رہنے والی کوئی ایک بھی لڑکی نہیں جو جسمانی عیاشی اور معاوضے کو تمہاری طرح ٹھکرادے۔ تم نے آج تک میرے ساتھ جو باتیں کی ہیں، ان سے مجھے یقین ہوگیا ہے تمہاری رگوں میں مسلمان کا خون ہے۔اس خون میں اب اُبال آیا ہے جب تم صلیبیوں کی گناہوں کی دلدل میں پھنس گئی ہو۔ کہو، میں جھوٹ بول رہا ہوں؟''۔
سارہ نے اُس کی طرف دیکھا ۔ آہ لی اور بولی …… ''سنو جیکب !''……
'' میں جیکب نہیں سارہ !'' حسن نے کہا …… '' میرا نام حسن الادریس ہے اور ملک شام کا رہنے والا ہوں۔ یہاں میرانام گلبرٹ جیکب ہے''۔
''جاسوس ہو؟''
'' کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے''۔ حسن نے کہا …… '' جاسوسی ہی وجہ نہیں ۔ جس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کی رُوح میں اُتر گئے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں مسلمان کی اولاد ہیں ''۔اُس نے تکیے کے نیچے سے مصلّٰی نکالا اور دیوار میں سے ایک پتھر ہٹاکر اس کے پیچھے سے قرآن کا ایک چھوٹا سا نسخہ نکالا ۔ سارہ کو دکھا کر کہا …… '' میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا ، یہ بت، یہ تصویر اور یہ صلیب دھوکہ ہے ''۔
'' اگر میں کسی سے کہہ دوں کہ تم عیسائی نہیں ، مسلمان ہو تو کیا کرو گے؟'' سارہ نے ہنس کر کہا …… '' تم جاسوس نہیں ہو سکتے ۔ جاسوس اپنا آپ اس طرح ظاہر نہیں کیا کرتے ''۔
'' کہہ دو''۔ حسن نے کہا …… '' میں تمہاری نظروں کے سامنے اس طوفانِ بادوباراں میں غائب ہو جائوں گا ۔ جاسوس میری طرح اپنا آپ ظاہر نہیں کیا کرتے اورجب ظاہر ہوتے ہیں تو اتنی آسانی سے ہاتھ بھی نہیں آتے، جتنا تم سمجھتی ہو …… لیکن سارہ! مجھے یقین ہے کہ تم کسی سے نہیں کہو گی ''۔

حسن نے آگے بڑھ کر سارہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر بالکل قریب کرلیا ۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمی مگر پُر اثر آواز میں کہا …… '' تم کسی سے نہیںکہوگی ہ یہ شخص جیکب نہیں حسن ہے۔ تم کہہ ہی نہیں سکو گی۔ ہماری رگو ں میں رسولۖ کے شیدائیوں کا خون ہے۔ یہ خون سفید نہیں ہوسکتا ۔ یہ خون اپنے قطروں کو دھوکہ نہیں دے سکتا '' …… سارہ کی آنکھوں کو حسن کی آنکھوں نے جکڑ لیا۔ وہ محسوس کرنے لگی جیسے یہ خوبرو جوان بڑے ہی حسین آسیب کی طرح اُس کے دماغ اوراس کے دِل پر غالب آگیا ہو۔ حسن کہہ رہا تھا …… '' تم رقص کے لیے نہیں مسجدِ اقصٰی کو کفار سے آزاد کرانے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ خدا نے مجھے خواب میں بشارت دے دی ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ تم مسلمان نہیں ۔ تم کہہ ہی نہیں سکو گی۔ بولو سارہ! میں نے تمہیں اپنا راز ے دیا ہے ، تم مجھے اپنا راز دے دو۔ مجھے تمہارے جسم سے کوئی سروکار نہیں ۔ میں تمہاری روح کو پاک دیکھنا چاہتا ہوں''۔
'' گناہ کسی کے بھی تھے ''۔ حسن نے کہا …… '' میں نے آج تک تمہاری زبان سے جو باتیں سنی ہیں اور جس انداز سے تم نے یہ باتیں کی ہیں ، میں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ گناہ تمہارے دل اور وح میں چُبھ گئے ہیں ۔ تم صلیبیوں کے خلاف نفرت کا اور مسلمانوں کی پسندیدگی کا اظہار کرتی رہی ہو۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ چبھن تمہیں بے چین رکھتی ہے''۔
'' جب سے تم نے میری رُوح کو پاک پیار سے آشنا کیا ہے ، مجھے عیش و عشرت کی یہ زندگی جہنم سے زیادہ آتشیں اور اذیت ناک محسوس ہونے لگی ہے۔ میں گناہوں میں پلی بڑھی اور گناہوں میں جوان ہوئی ۔ گناہوں کا حسن اب زہریلا ناگ بن گیا ہے۔ میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی ''۔
'' اپنی جان لینا بھی گناہ ہے''۔ حسن نے کہا …… '' اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ گناہوں کا کفارہ اداکردو، سب بے قراریاں روحانی سکون میں بدل جائیں گی ''۔
''کیا کروں؟'' سارہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا …… '' نماز پڑھا کروں؟ تارک الدنیا ہوجائوں؟ بتائو کیا کروں؟''
''جاسوسی ''۔ حسن نے جواب دیا ……'' صرف ایک بار۔ پہلی اور آخری بار…… لیکن تم اُس وقت تک جاسوسی نہیں کر سکو گی جب تک یہ نہ سمجھ لو کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ انسان اپنے مقصد کی عظمت سے عظیم بنا کرتے ہیں۔ جانتی ہو نورالدین زنگی کا مقصد کیا تھا ؟ سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقصد کیا ہے؟ یہ تو بہت بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ میں اُن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، لیکن تم نے میری ذات میں اور میری آنکھوں میں ایسا تاثر دیکھا ہوگا جس نے تم سے سچ بات کہلوالی ہے۔ یہ دراصل میری ذات کا اثرنہیں یہ میرے مقصد کی عظمت ہے جو مجھے ایمان سے زیادہ عزیز ہے۔ مقصد کی ہی عظمت ہے اور اسی کا تقدس ہے کہ تمہارا یہ حسن اور تمہارے جسم کی یہ کشش جو عبادت گزاروں کو چونکا دیتی ہے ، مجھ پر اثر نہیں کر سکی ۔ کیوں نہیں کر سکی ؟ صرف اس لیے کہ میں انسانوں اور اشیاء کو روح کی نظروں سے دیکھا کرتا ہوں''۔

'' میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقصد اچھی طرح جانتی ہوں''۔ سارہ نے کہا …… '' میں یہ بھی جانتی ہوں کہ صلیبی حکمران مسلمان اُمراء اور حکمرانوں کو مدد اورعیاشی کا سامان دے کر انہیں سلطان ایوبی کے خلاف لڑا رہے ہیں …… اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ صلیبی عالمِ اسلام کو صلیب کے سائے میں لانا چاہتے ہیں۔ حسن! میں نے یہ مقصد یہاں کر پہچانا ہے، ورنہ میں بھی صلیب کے سیلاب میں بہہ گئی تھی ۔ یہ سیلاب مجھے یہاں تک لے آیا ہے۔ میں یہ بھی سنائوں گی کہ کیسے۔ کچھ دنوں سے مسجدِ اقصٰی میرے دل پر غالب آگئی ہے۔ دو راتیں گزریں، میں نے خواب میں مسجدِ اقصٰی دیکھی ہے۔ میں نے ابھی تک یہ مسجد نہیں دیکھی۔ مجھے معلوم نہیں یہ کسی ہے۔ خواب میں یہ مسجد دیکھی اوراُس کے اندر گئی۔ مسجد خالی اور ویران تھی ۔ مجھے ایک گونج سنائی دی …… '' یہ تیرے خدا کا گھر ہے، اسے آباد کرو''…… میں دیکھ رہی ہوں کہ آواز کہاں سے آئی ہے لیکن میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز میرے دل میں اُتر گئی ہے …… کیا اسے میں اپنا مقصد بنا سکتی ہوں؟''
'' یہ ہر مسلمان کا فرض ہے''۔ حسن نے کہا …… '' لیکن اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ میں بیروت میں ہر لمحہ موت کا انتظار کرتا ہوں۔ مں جس روز پکڑا گیا ، وہ زندگی کا آخری دن ہوگا''۔
'' میں قربانی دینے کو تیار ہوں''۔ سارہ نے کہا …… ''مجھے میرا فرض بتائو ''۔
'' تمہیں اس بوڑھی اور بھدی عورت نے موصل کے جس ایلچی کی تفریح کے لیے جانے کو کہا ہے ، تم اُس کے پاس چلی جائو'' …… حسن نے کہا
سارہ نے اُسے اتنی زیادہ حیرت سے دیکھا کہ اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔
'' ہاں سارہ!'' حسن نے کہا …… '' تمہیں یہ قربانی دینی ہوگئی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی عورت کو جاسوسی کے لیے نہیں بھیجا کرتے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک عورت کی عصمت بچانے کے لیے میں ایک مضبوط قلعہ دشمن کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ ہم عصمتوں کے محافظ ہیں ، مگر سارہ! تم یہاں موجود ہو۔ ہمیں جو فرض ادا کرنا ہے ، وہ صرف تمہارے ذریعے ہو سکتا ہے۔ تمہارے لیے یہ کوئی نہیں بات نہیں ہوگی کہ کسی کی تفریح کا سامان بنو۔ میں تمہیں ایک دو طریقے بتائوں گا جن سے تم ان بوڑھے مسلمانوں کے سینوں سے راز بھی نکال سکوگی اور اپنی عزت بھی بچالوگی۔ تمہارا مقصد بڑا پاک اور بلند ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ خدا تمہاری آبروکی حفاظت کرے گا ''۔
مجھے بتائو کرنا کیا ہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں بے آبرو لڑکی ہوں۔ اگرخدا بھی مجھ سے یہی قربانی لے کر خو ش ہوسکتا ہے تو میں یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں''۔
'' یہ دونوں ایلچی موصل کے حکمران عزالدین کی طرف سے آئے ہیں ''۔ حسن نے اُسے بتایا …… '' مجھے یقین ہے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بالڈون سے مدد لینے آئے ہیں۔ اس وقت ہماری فوج نصیبہ کے مقام پر خیمہ زن ہے۔ سلطان کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے درمیان خیمہ زن ہیں مگر وہ اپنے مسلمان دشمنوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں یہ معلوم کرکے سلطان کو خبردار کرنا ہے کہ صلیبی کیسا جنگی اقدام کریں گے اور موصل او ر حلب اور دیگر چھوٹی چھوٹی مسلمان امارتوں کا رویہ کیا ہوگا۔ کیا وہ صلیبیوں کے اتحادی بن جائیں گے ؟'' حسن نے اُسے بڑی لمبی تفصیل سے اس کا کام سمجھا دیا اور یہ بھی بتایا کہ صلیبی لڑکیاں مسلمان علاقوں میں جاکر کس طرح مسلمان اُمراء سالاروں اوردیگر حکام پر اپنی پُر کشش نسوانیت کا جادو طاری کرکے راز لے آتی ہیں ۔ حسن نے کہا …… '' تمہیں خود کشی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ میں تمہیں پاک اور پُر مسرت زندگی میں داخل کررہا ہوں۔ تم مظلوم لڑکی ہو۔ تمہیں غالباً بچپن میں صلیبیوں نے کسی قافلے سے اغوا کیا تھا ۔ انہیں نے تمہیں گناہوں کی زندگی میںداخل کیا ہے''۔
'' نہیں حسن !'' سارہ نے کہا …… '' میں نے اپنے آپ کوخود ہی اغوا کیا تھا۔ یہ کہانی پھر کبھی سنائوں گی ۔ مجھے ابھی یہ کام کرنے دو۔ دُعا کرو اللہ مجھے سرخرو کرے اورمیں گناہوں کا کفارہ ادا کرسکوں''۔
بارش تھم گئی تو سارہ اپنے کپڑے پہن کر حسن کے کمرے سے نکلی ۔ وہ جب اُس عمارت میں داخل ہوئی جہاں اُس کا کمرہ تھا تو اُسے وہ عورت مل گئی جو ان سب لڑکیوں کی کمانڈر تھی ۔ اس نے سارہ کو دیکھا اور مُسکرا کر کہا …… '' رات کو تیار رہنا۔ میرے آدمی نے موصل کے ایک ایلچی کے ساتھ بات کرلی ہے۔ آج رات نہ کہیں ناچ گانا ہوگا نہ کوئی ضیافت۔ میں تمہیں اُس کے کمرے میں چھوڑ آئوں گی ''۔
'' میں تیار رہوں گی ''۔ سارہ نے کہا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
موصل کے دونوں ایلچیوں کی حالت بھوکے بھیڑوں جیسی تھی ۔ وہ یہاں عزالدین کا اور اپنا ایمان فروخت کرنے آئے تھے۔وہ اپنی غداری کو کامیاب بنانے کے لیے صلیبی بادشاہ سے مدد لینے آئے تھے۔ یہ بادشاہ اپنے مفاد کی خاطر اور مسلمانوں کے حکمرانوں کو آپس میں لڑانے کی خاطر انہیں پشت پناہی اور مدد دے رہا تھا ۔ ان مسلمان ایلچیوں کے پاس نہ ایمان رہا تھا ، نہ ذاتی وقار اور نہ قومی رفار۔ اُن کی دلچسپی اب اس میں رہ گئی تھی کہ شاہ بالڈون انہیںزیادہ عیاشی کرائے اور انعام و کرام دے۔ اِن دونوں کو بیروت کے گردو نواح اور سمندر کی سیر کرانے کے لیے روک دیا گیا تھا۔ اس دوران ناچنے گانے والی لڑکیوں کی کمانڈر نے اپنے ایک آدمی کو اُن کے پاس بھیجاتھا۔ اس آدمی نے انہیں کہا تھا کہ وہ انہیں ایسی لڑکیاں لادے گا جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ ان دونوں کی باچھیں کھل گئیں اور معاوضہ طے ہوگیا۔ ان میں سے ایک کے پاس سارہ کو بھیجنے کے لیے تیار کیا گیا۔
رات سارہ کو سیاہ لبادے میں چھپا کر ایک ایلچی کے کمرے تک پہنچایا گیا۔ ایلچی جو والئی موصل عزالدین کا فوجی مشیر تھا، پچاس سال سے اوپر کی عمر کا آدمی تھا ۔گزشتہ رات اُس نے اس قدر شراب پی لی تھی کہ بے ہوش ہوگیا تھا ، لیکن آج رات وہ اپنے کمرے میں آہستہ آہستہ پی رہا تھا ۔ وہ ایک رقاصہ کا انتظار بے تابی سے کر رہا تھا جس کے حُسن کے اُسے افسانے سنائے گئے تھے۔ اُس کا دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی سر سے پائوں تک سیاہ لبادے میں مستور اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ دروازہ بند ہوگیا۔ ایلچی اُس کی طرف لپکا اور اُس کا چہرہ بے نقاب ہونے سے پہلے ہی بڑے فحش الفاظ کہہ کر اس سے لپٹ گیا۔ وہ اپنی عمر کو بھی بھول گیا۔
سارہ نے اُس کے بازوئوں سے آزاد ہوکر سیاہ لبادے کو اُتار کر پرے پھینک دیا۔ اُس نے ایلچی کی طرف دیکھا تو حیرت سے اُس کامنہ کھل گیا۔ وہ پیچھے ہٹنے لگی حتیٰ کہ اس کی پیٹھ دیوار سے جالگی۔اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان ڈھانپ لیے۔ ایلچی نے سارہ کا چہرہ دیکھا تو اُسے ہچکی سی آئی اور اُس کے منہ سے سرگوشی نکلی…… '' سائرہ؟''
سارہ خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی جیسے اُس کی زبان بند ہوگئی ہو۔ ایلچی نے گھبرائی ہوئی اور حیرت زدہ آواز میں ایک بار پھر پوچھا۔ '' سائرہ؟ تم سائرہ ہو؟'' …… وہ کھسیانی ہی ہنسی ہنس کر بولا۔ '' نہیں مجھے غلطی لگی ہے ۔ تمہاری شکل میری ایک بیٹی سے بالکل ملتی جلتی ہے۔ اُس کا نام سائرہ ہے''۔
'' وہ سائرہ میں ہی ہوں جو آپ کی بیٹی ہے''۔ سارہ کی زبان اچانک کھل گئی۔ اُس نے نفرت سے دانت پیس کر کہا …… '' میں ہی آپ کی بیٹی ہوں۔ محلات میں دوسروں کی بیٹیوں کو نچانے والے کی بیٹی بھی ناچ سکتی ہے۔ میں ایک بے غیرت باپ کی بے غیرت بیٹی ہوں''۔
ایلچی لڑکھڑایا اور پلنگ پر گرپڑنے کے انداز سے بیٹھ گیا۔ اب اس کی زبان بند ہو گئی تھی ۔ سائرہ اسی کی بیٹی تھی۔ باپ بیٹی کو جدا ہوئے دو سال گزر گئے تھے۔
'' ایمان فروشوں کی بیٹیاں عصمت فروش ہوا کرتی ہیں ''۔ سارہ آگے بڑھی اور باپ کے سامنے رُ ک کر نفرت سے دانت پیسنے لگی۔ اُس نے کہا …… '' آج اپنی غیرت اور اپنی عزت کا انجام دیکھ ۔ تو اپنی بیٹھی کی عصمت کا گاہک ہے۔ تیری بیٹی تیری خوابگاہ میں رات گزارنے آئی ہے'' …… سارہ نے تیر کی تیزی سے ایک ہاتھ آگے کیا اور کہا …… '' لا، میری اُجرت نکال۔ میں رات تیرے ساتھ بسر کرنے آئی ہوں''۔
'' تو … تو … '' اُس کے باپ کی زبان لڑکھڑاکر ہکلانے لگی …… '' تو گھر سے بھاگ آئی تھی ۔ میں بے غیرت نہیں ہو ں تو بے غیرت ہے''۔

'' جو باپ اپنی جوان بیٹی کے سامنے بیٹی کی عمر کی لڑکیوں سے ساتھ بے حیائی کی حرکتیں کرتا ہے اور اپنی بیٹی جیسی لڑکیوں کو نچاتا اور شراب کے نشے میں بدمست ہوکر ان کے ساتھ بیٹی کے سامنے دست درازی کرتا ہے، اُس باپ کی بیٹی غیرت والی نہیں بن سکتی۔ وہ بھی رقاصہ اور طوائف بنتی ہے۔ اپ اُس کی شادی کردے تو وہ اپنے خاوند کو دھوکے دیتی اور درپردہ کئی خاوند بنائے رکھتی ہے۔ سن میرے باپ! تجھے تیرا ماضی اور اپنا حال بتاتی ہوں۔ میںنے تیرے گھر میں دمشق میں ہوش سنبھالا تو تجھے عورتوں سے درپردہ عیش کرتے دیکھا۔ نورالدین زنگی مر گئے تو تو الملک الصالح کے ساتھ حلب کو بھاگ گیا۔ تو مجھے اور میری ماں کو بھی ساتھ لے آیا۔ حلب میں تو شراب بھی پینے لگا۔ تب میں لڑکپن میں تھی ۔ تیرے پاس گورے چٹے صلیبی آنے لگے۔ انہوں نے تجھے دولت دی ۔ بڑی خوبصورت لڑکیاں دیں اور تو کھلے عام شراب پینے لگا۔ تیرے گھر میں شراب کی محفلیں جمنے لگیں۔ لڑکیاں ناچنے لگیں۔ صلیبیوں نے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو تُو خوش ہوا''……
'' پھر الملک الصالح مرگیا ۔ ترے پاس صلیبی پہلے سے زیادہ آنے لگے۔ تو پہلے سے زیادہ عیاش ہوگیا۔ عزالدین نے تجھے بہت بڑا عہدہ اور رُتبا دیا۔ میں تیری چہیتی رقاصہ لڑکیوں میں اُٹھنے بیٹھنے لگی ۔ اُن سے میں نے رقص سیکھا۔ تجھے پتہ چلا تو تُو خوش ہوا۔ صلیبیوں نے مجھے دیکھا تو انہوں نے تیرے سامنے مجھے اپنے سینوں سے لگایا۔ تو نے بُرا کیوں نہ منایا؟ صرف اس لیے کہ وہ میرے بدلے تجھے یورپ کی ایک لڑکی دے دیتے تھے تو تو نے اپنا ایمان بیچ ڈالا۔ صلاح الدین ایوبی کے خلاف سازشیں کیں۔ تیرا کردار ختم ہوگیا تو یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ اپنی بیٹی کو بھی تو نے اپنی راہ پر ڈال دیا ہے۔ پھر ایک صلیبی نے مجھے سبز باغ دکھائے اور میں تیرے گھر کو خیر بادکہہ کر اپنے خیالوں میں جنت کو روانہ ہوگئی ۔ مجھ سے یہ مت پوچھ کہ میڈ جس طرح آج تیری خواب گاہ میں آئی ہوں، اس طرح کتنی خواب گاہوں کی رونق بنی ہوں۔ اُس صلیبی نے مجھے محبت کا فریب دے کر مجھے بیچ ڈالا۔ میں تجھ جیسے بے شمار دولت مندوں کی تفریخ کا ذریعہ بن کر بیروت پہنچی ، جہاں مجھے شاہی رقاصہ کی حیثیت سے رکھ لیا گیا۔ آج اپنا باپ میری عصمت کا گاہک ہے''۔
ایلچی نے سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا ۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔
'' آج تو اپنے ایمان کی قیمت وصول کرنے آیا ہے''۔ سارہ نے حقارت آمیز لہجے میں کہا …… '' تو فلسطین اور قبلہ اوّل کا سودا کرنے آیا ہے۔ اپنی بیٹی کی قیمت دینے آیا ہے''۔ سارہ کی آاز بھرا گئی ۔ اُس نے کہا …… '' یہ میری زندگی کی آخری رت ہے۔ میں باپ کے گناہوں کی سزا بھگ کر اس دُنیا سے جارہی ہوں''۔
اُس کے باپ نے آہستہ آہستہ سر اُٹھایا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کے گالوں کو تر کر رہے تھے۔ اُس نے اُٹھ کر دیوار لٹکتی ہوئی تلوار اُتاری۔ نیام سے نکالی اور سارہ کے آگے کرکے کہا …… '' یہ لو۔ اپنے ہاتھوں مجھے ختم کردو۔ شاید میرے گناہوں کا کفارہ ادا ہوجائے''۔
سارہ نے اُس کے ہاتھ سے تلوار لے لی اور کہا …… '' آج رسول ۖ کی اُمت اس مقام پر آپہنچی ہے جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ میں تلوار دے کر یہ کہنے کی بجائے کہ جا بیٹی قبلہ اوّل کو اس تلوار سے آزاد اور آباد کر، یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اس تلوار سے قتل کرکے میرے گناہوں کا کفارہ ادا کردے''۔ اپنے باپ کی جذباتی حالت اور شرمساری کے آنسو دیکھ کر سارہ کا لہجہ بدل گیا۔ باپ کا احترام لوٹ آیا۔ اُس نے کہا …… '' مرکر ہی گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ زندہ رہو اور دشمن کو قتل کرو۔ میں آپ کو بتائوں؟

باپ نے شکست خوردگی کے انداز سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
'' شاہ بالڈون کے ساتھ آپ نے جو معاہدہ کیا ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کے لیے جو منصوبہ تیار اور طے کیا ہے ، وہ مجھے بتا دیں''۔ سار ہ نے کہا …… '' میں یہ سلطان تک پہنچا دوں گی۔ اس سے بڑی نیکی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے '' …… باپ خاموشی سے سن رہا تھا ۔ سارہ نے کہا …… '' ہم دونوں کی نجات اس میں ہے کہ ہم دونوں یہاں سے فرار ہو کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچ جائیں اور آپ اسے ساری بات اپنی زبانی سنا دیں''۔ میں تیار ہوں۔ باپ نے کہا …… '' لیکن ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے ؟''
''انتظام ہو جائے گا''۔ سارہ نے کہا
باپ نے بیٹی کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اس کے اپنے گناہوں نے اس سے ہتھیار ڈلوا لیے تھے۔
لڑکیوں کی کمانڈر عورت بہت خوش تھی کہ اُسے بڑا موٹا گاہک مل گیا ہے۔ وہ اطمینان سے سو گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ سارہ صبح واپس آئے گی مگر سارہ حسن الادریس کے کمرے میں تھی ۔ اُس نے جب حسن کو بتایا کہ اس کا گاہک اس باپ تھا تو حسن کو چکر آگیا تھا ۔ سارہ نے حسن کو بتایا کہ اُس کے باپ نے گھر کا ماحول کس قدر گناہ آلود بنا رکھا تھا اور وہ کس طرح انہی گناہوں کی شیدائی ہو کر ایک صلیبی کے ساتھ گھر سے بھاگی اور کس طرح اس مقام تک پہنچی ۔ سارہ نے اُسے بتایا کہ اُس کا باپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس جانے کو تیار ہے۔
'' میں نے تمہیں کہا تھا کہ تمہارا مقصد پاک ہے''۔ حسن نے کہا ……'' مجھے اُمید ہے کہ خدا تمہاری آبرو کی حفاظت کرے گا ۔ خدا نے میری اُمید پوری کردی ہے…… اب میں تمہارے باپ سے ملوں گا اور اُسے کہوں گا کہ تیار رہنا''۔
دن کو حسن سارہ کے باپ سے ملا۔ بچ بچ کر بات کی ۔ اس کی غیرت کو جھنجوڑا اور جب دیکھا کہ وہ بہت ہی نادم ہے تو حسن نے اُسے وہاں سے نکلنے کا سہل طریقہ بتایا۔ اس کے ساتھ ساری بات طے کرکے وہ سارہ سے اُس محفوظ جگہ ملا جہاں وہ کبھی کبھی ملا کرتے تھے۔ سارہ کے باپ نے اپنے میزبانوں سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اکیلے ذرا سیر کے لیے جانا چاہتا ہے۔ اُسے گھوڑا دے دیا گیا۔ وہ اپنے ساتھی ایلچی کو یہ بتا کر چلا گیا کہ شام تک لوٹ آئے گا۔ وہ شہر سے نکلا تو ایک جگہ حسن گھوڑے پر سوار اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔ ایک اور جگہ سارہ چھپی ہوئی تھی ۔ اُسے باپ نے اپنے گھوڑے پر سوار کرلیا اور وہ نصیبہ کی سمت روانہ ہوگئے۔
وہ بچ بچ اور چھپ چھپ کر چلتے رہے۔ بہت دُور نکل گئے توانہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے۔ سفر بہت لمباتھا جو انہوں نے ایک رات اور ایک دن میں طے کیا ۔ بیروت کے سراغ رسانوں کے لیے شاہ بالڈون قہر بنا ہوا تھا ۔ موصل کا ایک ایلچی لاپتہ ہوگیا تھا ۔ ایک شاہی رقاصہ جو شاہ بالڈون کو ذاتی طور پر اچھی لگتی تھی ، غائب تھی اور گلبرٹ جیکب نام کا ایک خصوصی باڈی گارڈ بھی لاپتہ تھا ۔ تینوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ لڑکیوں کی کمانڈر عورت کی زبان بند تھی ۔ وہ کسی کو بتانے سے ڈرتی تھی کہ اُس نے سارہ کو گمشدہ ایلچی کے کمرے میں بھیجا تھا۔ بیروت میں صرف ایک آدمی کو معلوم تھا کہ یہ تینوں کہا ں ہیں۔ اس آدمی کا نام حاتم تھا مگر حاتم گمنام سا فعل ساز تھا ۔ اُسے وہی لوگ جانتے تھے جو اُس سے گھوڑوں کو نعل لگوایا کرتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ غریب سا نعل ساز سلطان ایوبی کے اُس جاسوس گروہ کا لیڈر ہے جو بیروت کے اندر سر گرم ہے۔ سراغ رساہ اپنے قیافوں اور قیاس آرائیوں سے بائولے ہوئے جا رہے تھے۔
حسن الا دریس ، سارہ اور اس کا باپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ سلطان ایوبی عادت کے مطابق خیمے ٹہل رہا تھا ے سارہ کا باپ اُسے بتا چکا تھا کہ بالڈون کے ساتھ اُس نے کیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اُسی وقت اپنے سالاروں کو بلا لیا اور نقشہ سامنے رکھ کر انہیں بتانے لگا کہ صلیبیوں کا منصوبہ کیا ہے اور ان کے خلاف وہ کیا کاروائی کرنا چاہتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی