⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟘 𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس خبر نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو حیران نہ کیا کہ حلب اور موصل کے حکمرانوں، عمادالدین اور عزالدین نے صلیبیوں کے ساتھ اس کے خلاف در پردہ گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ یہ تو جیسے اس دور میں رسم بن گئی تھی کہ چھوٹے بڑے مسلمان امراء صلیبیوں کے ساتھ درپردہ دوستانہ گانٹھنے لگے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سلطان ایوبی ان سب کو ایک خلافت کے تحت لاکر انہیں ایک متحد قوم بنانا چاہتا تھا مگر یہ امراء اپنی الگ الگ ریاستیں برقرار رکھ کر ان کے حکمران بنے رہنے کو اپنا مقصد بنائے ہوئے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ ان کا یہ مقصد صلیبیوں کی دوستی سے پورا ہوسکتا ہے۔
آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ ان سب میں اہم حکمران عزالدین اور عمادالدین تھے۔ ان کی ریاستیں، حلب اور موصل، محل وقوع، وسعت، دفاعی استحکام وغیرہ کے لحاظ سے جنگی اہمیت کی حامل تھیں۔ صلیبی اس کوشش میں تھے کہ مسلمانوں کے یہ دونوں مقام ان کے قبضے میں آجائیں یا یہ سلطان ایوبی کے قبضے میں نہ چلے جائیں، کیونکہ ان پر سلطان ایوبی کا قبضہ ہوجانے سے افواج اور رسد وغیرہ کے لیے دو ایسے اڈے مل جاتے تھے جہاں سے وہ آسانی سے بیت المقدس پر فوج کشی کرسکتا تھا۔
''رب کعبہ کی قسم! میں حلب اور موصل پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا''۔ سلطان ایوبی نے متعدد بار کہا تھا… ''میں کسی مسلمان ریاست میں سے اپنی فوجیں گزارنا بھی پسند نہیں کروں گا۔ میرا مدعا یہ ہے کہ یہ امراء یہ حکمران صلیبیوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔ خلافت بغداد کے وفادار ہوجائیں جو قرآن کا حکم ہے۔ میں انہیں اپنے زیرزنگین نہیں کروں گا۔ میں خلیفہ نہیں ہوں، میں تو خود خلیفہ کا پیروکار اور خادم ہوں''۔
خلافت کے تحت آجانے سے ان لوگوں کو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ان کی عیاشیاں بند ہوجائیں گی اور صلیبیوں کی طرف سے انہیں لڑکیوں اور شراب کے جو تحفے ملتے تھے، وہ بند ہوجائیں گے۔ وہ حکومت، دنیا کی جھوٹی شان وشوکت اور عیش وعشرت کے عادی ہوگئے تھے۔ ان کی نظروں میں سلطنت اسلامیہ کی کوئی وقعت نہیں رہی تھی۔
١١٨٣ء کے اوائل میں سلطان صلاح الدین ایوبی نصیبہ کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ یہاں سے اسے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کرنی تھی مگر اسے مسلمان امراء کی نیت میں فتور نظر آرہا تھا۔ وہ اب یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ حلب اور موصل کے والیان کی درپردہ سرگرمیاں کیا ہیں اور صلیبی کیا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
اسے اپنے جاسوس حسن الادریس نے بیروت سے آکر پوری اطلاع دے دی۔ اس جاسوس نے دوسرا کا رنامہ یہ کر دکھایا کہ عزالدین کے ایک فوجی مشیر اور اس کی بیٹی جو گھر سے بھاگ کر بیروت میں صلیبیوں کے پاس رقاصہ تھی، اپنے ساتھ لے آیا۔ حسن الادریس سلطان ایوبی کے پاس آیا اور بتایا کہ عزالدین نے بیروت دو ایلچی صلیبیوں کے پاس جنگی امداد کے لیے بھیجے ہیں۔ سلطان اس اطلاع پر حیران ہوا، البتہ یہ اطلاع اس کے لیے اہم تھی۔ اس نے اسی وقت سالاروں کو بلا لیا اور نقشہ سامنے رکھ کر انہیں بتایا کہ صلیبیوں کا منصوبہ کیا ہے۔
عزالدین کا جو ایلچی بیروت صلیبیوں سے مدد لینے گیا تھا، اس کا نام احتشام الدین تھا۔ اب سلطان ایوبی کے پاس اس کی حیثیت ایک قیدی کی تھی لیکن سلطان ایوبی نے احترام سے اسے اپنے سالاروں کے ساتھ بٹھایا۔ احتشام الدین کو تقریباً ہر ایک سالار جانتا تھا۔ کوئی اسے حقارت سے گھور رہا تھا اور کسی کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے کہ وہ ان کے درمیان بیٹھا ہے اور قید ہے۔ سلطان ایوبی نے حسن الادریس کی رپورٹ سن لی تھی۔
''مجھے امید ہے کہ ہمارا دوست احتشام الدین آپ کو خود ہی بتائے گا کہ عزالدین اور عماد الدین کی نیت کیا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں احتشام الدین پر الزام عائد نہیں کرتا کہ یہ ہمارے خلاف لڑنے کے لیے صلیبیوں سے جنگی امداد لینے گیا تھا۔ اسے والئی موصل عزالدین نے بھیجا تھا۔ یہ عزالدین کا ملازم ہے''۔
''سلطان محترم!'' ایک سالار نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ آپ مجھے یہ کہنے سے نہیں روکیں گے کہ احتشام الدین اپنے حکمران کا معمولی سا ملازم نہیں۔ یہ اس کا فوجی مشیر ہے۔ یہ سالار ہے۔ اسے اپنے حکمران کو ایسا مشورہ نہیں دینا چاہیے تھا کہ صلیبیوں سے مدد حاصل کی جائے''۔
''مجھے حکم دیا گیا تھا''۔ احتشام الدین نے جواب دیا… ''اگر میں حکم عدولی کرتا تو''…
''تو آپ کو جلاد کے حوالے کردیا جاتا''… ایک نائب سالار نے کہا… ''آپ نے موت کے ڈر سے اپنے بادشاہ کا ایسا حکم مانا جو آپ کی اپنی قوم اور اپنے مذہب کی ذلت کا باعث ہے۔ کیا ہم اپنے گھروں سے دور، اپنی اولاد سے بے خبر، اپنے آپ سے بے نیاز یہاں اپنی عمریں لمبی کرنے بیٹھے ہیں؟ ایک مدت سے ہم ان چٹانوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور رات اس پتھریلی زمین پر سوتے ہیں۔ جبکہ آپ حلب کے محل میں شہزادوں جیسی زندگی بسر کررہے ہیں۔ آپ شراب پیتے ہیں، ناچنے والی حسین یہودی، صلیبی اور مسلمان لڑکیاں آپ کا دل بہلاتی ہیں اور آپ نرم بستر پر سوتے ہیں، جن پر مخمل کے پلنگ پوش بچھے ہیں۔ ہم یہاں مرنے آئے ہیں۔ ہمارے رفیقوں کی لاشیں جانے کہاں کہاں گم ہوگئی ہیں۔ ہمارے سپاہیوں کی ہڈیاں سارے علاقے میں بکھر گئی ہیں۔ تم کسی شہید کی کوئی ہڈی دیکھو گے تو کہو گے یہ کسی جانور کی ہڈی ہے۔ عیش وعشرت نے تمہاری نظروں میں شہیدوں کو شراب میں ڈبو دیا ہے۔ دوست اور دشمن کو ایک کردیا ہے، ہم مرنے آئے ہیں تو تمہیں جینے کا کیا حق ہے؟''
''احترام!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''احتشام الدین نے میرے پاس آکر گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے اگر اسے طعنے دینے ہوتے تو میں بھی دے سکتا تھا''۔
''سلطان ذی شان!'' ایک اور سالار نے کہا۔
''خدا کے لیے مجھے صرف سلطان کہو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مجھے شان وشوکت سے دور رہنے دو، مجھے بادشاہ بنانے کی کوشش نہ کرو۔ میں سپاہی ہوں، مجھے سپاہی رہنے دو… کہو تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''
''میں احتشام الدین کو اور اپنے ان تمام ہتھیار بند بھائیوں کو جو یہاں موجود ہیں، یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو سالار اپنے حکمران کا اتنا غلام ہوجاتا کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کا غلط حکم بھی مان لیتا ہے، وہ اپنی قوم کی عزت کا قاتل ہوتا ہے۔ قوم کی عزت کے محافظ ہم ہیں، سلطنت کا بادشاہ یا سلطان نہیں قوم ہوتی ہے۔ آج ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں، یہ سپاہی کا دور ہے، یہ جہاد کا دور ہے۔ اگر خلیفہ اور سلطان سلطنت کا کاروبار دیانتداری سے نہیں چلائیں گے تو اللہ کے سپاہیوں پر بھی سلطان بننے کا نشہ طاری ہوجائے گا تو لا الہ الا اللہ کی لاشوں پر گرجوں کے گھنٹے بجیں گے''۔
''اسلام پر جو بھی دور آئے گا وہ اللہ کے سپاہی کا دور ہوگا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''جب تک اسلام زندہ ہے، کفار اسلام کے دشمن ہی رہیں گے۔ آج ہمارے سالاروں کے دلوں میں جاہ وحشمت کی جو خواہش پیدا ہوگئی ہے، وہ کسی بھی وقت اسلام کو لے ڈوبے گی۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ اسلام زندہ رہے گا مگر اس شیر کی طرح زندہ رہے گا جسے سدھا لیا گیا ہو اور اسے فراموش کرادیا گیا ہو کہ وہ بادشاہ ہے۔ یہ شیر بکریوں سے بھی ڈرتا رہے گا۔ مسلمان کفار کی انگلیوں پر ناچیں گے۔ اللہ کا سپاہی موجود ہوگا مگر اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہوگی۔ اگر تلوار ہوگی تو وہ کسی صلیبی کی دی ہوئی ہوگی جسے وہ نیام سے باہر نکالنے کے لیے صلیبی سے اجازت لے گا''۔ سلطان ایوبی بولتے بولتے چپ ہوگیا۔ اس نے نظریں گھما کر سب کو دیکھا اور بولا… ''میں بھی باتوں میں الجھ گیا ہوں۔ میرے رفیقو! ہمیں کام کرنا ہے۔ اگر ہم اس بحث میں پڑ گئے کہ یہ گناہ کس کا ہے اور وہ خطا کس کی ہے اور کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے تو ہم صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے… احتشام الدین تمہیں بتائے گا کہ حلب اور موصل کے حکمرانوں نے صلیبیوں کے ساتھ کیا طے کیا ہے اور ہمیں کس قسم کے دشمن سے کس قسم کی لڑائی لڑنی پڑے گی''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
احتشام الدین اٹھا اور سب کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ سب کو نظریں گھما کر دیکھا اور بولا… ''میرے دوستو! میں تمہاری نظروں میں حقارت اور قہر دیکھ رہا ہوں۔ تمہیں حق پہنچتا ہے کہ میرے لیے سزائے موت تجویز کرو، مگر میں تمہارے لیے عبرت کا سامان ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں نے والئی موصل عزالدین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا ایمان فروخت کیا اور اس کا ایلچی بن کر بیروت گیا اور صلیبیوں سے مدد مانگی، مگر یہ بھی درست ہے کہ جس طلسم نے میری عقل اور میرے ایمان کو اپنے قبضے میں لیا، اس سے تم میں سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔
کیا تم میں سے سالار اور حاکم غداری کا جرم کرتے نہیں پکڑے گئے؟ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن پر سلطان کو اتنا اعتماد تھا جتنا انہیں اپنی ذات پر ہے مگر وہ ایمان فروش نکلے۔ میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی فطرت میں ایک ایسی کمزوری ہے جو انسان کو عیش وعشرت میں ڈال دیتی ہے اور جہاں کے روز وشب میں حکومت اور معاشرے میں گناہ کی ترغیب دینے والی باتیں ہوں، وہاں زاہد بھی عیش پسند اور گناہ گار بن جاتے ہیں۔ ہر کوئی امیر اور سلطان بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ ہر کسی کی ذات کا قلعہ مسمار ہوجاتا ہے''…
''اگر تم مجھے گناہ گار سمجھتے ہو تو میری تلوار سے میرا سرتن سے جدا کردو، اگر مجھے توبہ کا موقع دیتے ہو تو میں عظمت اسلام کی پاسبانی اور سلطنت اسلامیہ کی توسیع کے لیے تمہاری بہت مدد کرسکتا ہوں''۔
''صلیبی شاید تم سے آمنے سامنے کی ٹکر نہیں لیں گے''۔ احتشام الدین نے کہا… ''انہوں نے ہمیں ہماری اپنی تلواروں سے مروانے کا انتظام کرلیا ہے۔ انہیں اپنی فوجیں مروانے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے کے لیے انہیں مدد اور شہ دے رہے ہیں۔ یہ چھوٹی بڑی مسلمان امارتیں اور ریاستیں جو دراصل خلافت بغداد کے صوبے ہیں، سب در پردہ صلیبیوں کے غلام بن گئے ہیں تاکہ خودمختار رہیں۔ا پنے مرکز سے کٹ کر خودمختاری اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے کہ دشمن کی مدد لو اور اپنے بھائی کو دشمن کہو۔ خانہ جنگی میں صرف ایک فریق سچا اور محبت وطن ہوتا ہے۔ دوسرا فریق دشمن کا دوست ہوتا ہے۔ دشمن اسے خلوص سے مدد نہیں دیتا بلکہ اپنے فائدہ اور اپنے عزائم کی تسکین کے لیے مدد دیتا ہے''…
''صلیبی ہمارے مخالف دھڑے کو مدد دے رہے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ موصل کو اپنے چھاپہ مار دستوں کا اڈا بنا رہے ہیں۔ وہ کچھ عرصے تک چھاپوں اور شب خونوں کی جنگ لڑیں گے۔ رفتہ رفتہ وہ حلب کو اور دیگر تمام مسلمان ریاستوں کو اپنے اڈے بنا لیں گے جو آپ کے خلاف استعمال ہوں گے۔ میں جب بیروت میں تھا تو مجھے پتہ چلا تھا کہ صلیبی موصل سے کچھ دور پہاڑی علاقے میں بے شمار اسلحہ اور سامان چھپا کر رکھیں گے۔ اس میں آتش گیر مادہ بہت زیادہ ہوگا۔ اسے وہ اپنے چھاپہ ماروں کے لیے استعمال کریں گے اور بعد میں کھلی جنگ میں بھی۔ وہ کھلی جنگ اسی صورت میں لڑیں گے جب بہت سی مسلمان امارتوں میں اپنے اڈے بنا کر مستحکم کر چکے ہوں گے۔ میں ابھی یہ معلوم نہیں کرسکا کہ وہ اسلحہ اور آتش گیر مادہ کس مقام پر رکھیں گے۔ یہ معلوم کرنا آپ کے جاسوسوں کا کام ہے''۔
سلطان ایوبی نے سالاروں کو بھیج دیا، سوائے حسن بن عبداللہ کے جو جاسوسی اور سراغ رسانی کے محکمے کا سربراہ تھا اور سالار صارم مصری کو بھی سلطان ایوبی نے اپنے پاس روک لیا۔ یہ چھاپہ مار دستوں کا سالار تھا۔
''میرا قیاس صحیح نکلا ہے''۔ سلطان ایوبی نے ان دونوں سے کہا… ''مجھے معلوم تھا کہ صلیبی موصل اور حلب کو در پردہ طریقوں سے اپنے اڈے بنانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے مسلمان بھائی ان کے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ تم نے احتشام الدین کی زبانی سن لیا ہے کہ بالڈون اور دوسرے صلیبی موصل سے کچھ دور کہیں جنگی سامان اور آتش گیر سیال کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کررہے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ جس طرح ہمیں رسد کے ذخیرے کی ضرورت ہے، اسی طرح صلیبیوں کو بھی ضرورت ہے۔ ہم میں سے جس کا ذخیرہ ختم یا تباہ ہوگیا وہ آدھی جنگ ہار جائے گا۔ ہمارے کچھ دستے ٹولیوں میں تقسیم ہوکر موصل اور حلب کے درمیان بیٹھے ہیں۔ انہیں میں نے عزالدین اور عمادالدین کا آپس کا رابطہ توڑنے کے لیے بٹھایا ہے۔ اب بیروت اور ان دونوں جگہوں کے راستے روکنے ہیں۔ یہ مہم ذرا مشکل اور خطرناک ہوگی کیونکہ چھاپہ ماروں کو اپنے مستقر سے دور جانا ہوگا''۔
''یہ مجھے دیکھنا ہے کہ یہ مہم مشکل ہے یا آسان''۔ صارم مصری نے کہا… ''اور یہ میرا فرض ہے کہ مشکل کو آسان کروں۔ آپ حکم دیں''۔
''کوئی قافلہ نظر آئے، اسے روک لو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تلاشی لو، مزاحمت ہو تو پورا معرکہ لڑو۔ کوشش کرو کہ قیدی زیادہ ہوں''۔ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا… ''اور حسن! تم مجھے یہ کام کرکے دکھائو کہ معلوم کرو کہ صلیبی اسلحہ اور آتش گیر سیال کا ذخیرہ کہاں جمع کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے، وہ ذخیرہ کر بھی چکے ہوں۔ اگر تم جگہ معلوم کرسکو تو میں اس کی تباہی کا انتظام کردوں گا''۔
''یہ انتظام انشاء اللہ میرا ہوگا''۔ صارم مصری نے کہا۔
''یہ ذہن میں رکھو کہ کچھ عرصے تک ہماری جنگ آنکھ مچولی جیسی ہوگی''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''صلیبی کھلی جنگ لڑنے کے بجائے شب خونوں اور تخریب کاری کی جنگ لڑیں گے۔ وہ شاید مجھے مشتعل کرنے کی کوشش کریں گے کہ میں ان پر کھلا حملہ کروں۔ میں ایسی حماقت نہیں کروں گا، ہم کئی جگہوں پر گھات لگائیں گے۔ میں سب سے پہلے اپنے ان امراء کو ساتھ ملائوں گا جو صلیبیوں کے دوست بنتے جارہے ہیں۔ میں ان سے تعاون کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ میں اب تلوار کی نوک پر ان سے تعاون لوں گا۔ میں ان میں سے کسی کا بھی خون بہانے سے دریغ نہیں کروں گا۔ یہ برائے نام مسلمان ہیں۔ مسلمان کے خلاف کافر کے ساتھ دوستی کرنے والا مسلمان بھی کافر ہوتا ہے۔ مجھے اب پروا نہیں کہ تاریخ مجھے کیا کہے گی۔ اگر مجھے آج کوئی کہے کہ آنے والی نسلیں مجھے اپنے بھائیوں کا قاتل اور خانہ جنگی کا مجرم کہیں گی تو بھی میں اپنے ارادوں سے باز نہیں آئوں گا۔ میں تاریخ اور آنے والی نسلوں کے آگے نہیں، خدا کے آگے جواب دہ ہوں۔ خدا کے سوا نیت کو اور کوئی نہیں جانتا۔ میرے اور فلسطین کے درمیان اگر میرے بیٹے حائل ہوں گے تو میں انہیں بھی قتل کردوں گا۔ اگر ہم نے آج قبلہ اول کو صلیبیوں سے آزاد نہ کرایا تو ہمارے بعد صلیبی اور یہودی خانہ کعبہ پر بھی قابض ہوجائیں گے۔ مجھے اپنے امراء اور حکمرانوں کے تیور اور طور طریقے بتا رہے ہیں کہ وہ بادشاہ بنیں گے اور ان کی اولاد بھی بادشاہ ہوگی اور یہ لوگ فلسطین کو یہودیوں کے تسلط میں دے دیں گے۔ تلوار کے سوا میرے پاس اب کوئی علاج نہیں رہا''۔
''ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں''۔ صارم مصری نے کہا… ''اگر آپ میری رائے لیں تو میں یہی کہوں گا کہ مرکز سے خودمختاری یا نیم خودمختاری مانگنے والوں کو غداری کی سزا ملنی چاہیے''۔
''اور میں انہیں سزا دوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔
''سلطان صلاح الدین ایوبی نے صارم مصری اور حسن بن عبداللہ کو جنگی نوعیت کی ہدایات دے کر رخصت کردیا''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ دونوں چلے گئے تو سلطان ایوبی ایک اور مسئلے پر غور کرنے لگا۔ اس نے جب بیروت سے محاصرہ اٹھایا تھا اور وہ نصیبہ کے مقام پر آکر خیمہ زن ہوگیا تھا، اس سے کچھ عرصے پہلے اسے بحیرۂ قلزم کے مشرقی علاقے کے متعلق یہ اطلاعیں ملی تھیں کہ صلیبی فوجی دستے اسے علاقے میں قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ صلیبی صرف مسلمان قافلوں کو لوٹتے تھے۔ مال ودولت کے علاوہ اونٹ اور گھوڑے لے جاتے اور کمسن اور نوجوان لڑکیوں کو بھی اٹھا لے جاتے تھے۔ زیادہ تر راہزنی ان دنوں ہوتی تھی جن دنوںمصر کے حاجیوں کے قافلے جاتے اور آتے تھے۔ ان ڈاکوئوں کو فوجی پیمانے پر ہی روکا جاسکتا تھا لیکن سلطان ایوبی کے پاس اتنی فوج نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس کے دماغ میں فلسطین اور وہ مسلمان امراء سوار تھے جو صلیبیوں کے ساتھ درپردہ صلح اور مدد کے معاہدے کررہے تھے۔ اس لیے سلطان ایوبی ادھر توجہ نہیں دے سکا تھا۔
آپ پڑھ چکے ہیں کہ بیروت کے محاصرے میں سلطان ایوبی نے بحری بیڑہ بھی استعمال کیا تھا جس کا امیر البحر حسام الدین لولو تھا۔ محاصرہ ابتداء میں ہی ناکام ہوگیا تو سلطان ایوبی نے حسام الدین کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ بیڑہ سکندریہ لے جائے۔ اس کے فوراً بعد قاہرہ سے سلطان ایوبی کو پیغام ملا کہ صلیبیوں نے قافلوں کو لوٹنا باقاعدہ پیشہ بنا لیا ہے اور اب کوئی قافلہ منزل تک پہنچتا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی نے قاہرہ کو جواب دینے کے بجائے سکندریہ امیر البحر حسام الدین کو حکم بھیجا کہ وہ اپنے بیڑے کے اس حصے کی جاکر کمان لے لے جو بحیرۂ قلزم میں ہے۔
سلطان ایوبی کا حکم یہ تھا… ''بحیرۂ قلزم میں تمہارا مقابلہ دشمن کے بحری بیڑے سے نہیں ہوگا بلکہ تم خشکی پر گھات لگا کر ان ڈاکوئوں کو پکڑو گے جو مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ ڈاکو صلیبی فوجی ہیں جو باقاعدہ منصوبے اور اوپر والوں کے احکام کے تحت لوٹ مار کررہے ہیں۔ یہ صحرا میں نہیں رہتے۔ سمندر کے کنارے رہتے ہیں۔ تم فوج کا ایک منتخب دستہ لے جائو اور سمندر میں گھومتے پھرتے رہو،۔ جہاں تمہیں ڈاکوئوں کا شبہ ہو وہاں سپاہیوں کو کشتیوں سے اتار کر خشکی پر بھیجو اور ڈاکوئوں کا خاتمہ کرو۔ میرے اگلے حکم تک تم قلزم میں ہی رہو گے''۔
حسام الدین حکم ملتے ہی بحیرۂ قلزم میں چلا گیا۔ اس دور میں بحیرۂ روم اور قلزم کو ملانے کے لیے نہر سویز نہیں تھی۔ بحیرۂ قلزم میں سلطان ایوبی نے چند ایک جنگی جہاز اور کشتیاں رکھی ہوئی تھی۔ اگر آپ مشرق وسطیٰ کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو بحیرۂ قلزم اور اس کے اوپر خلیج سویز نظر آئے گی۔ اس سمندر کے مغربی کنارے پر مصر اور مشرقی کنارے پر سعودی عرب ہے۔ شمال میں صحرائے سینائی اور خلیج عقبہ ہے۔ بعض قافلے جو مصر سے حج کے لیے جاتے تھے وہ اونٹوں اور گھوڑوں سمیت کشتیوں کے ذریعے خلیج سویز عبور کرتے تھے۔ اکثر قافلے خشکی پر ہی جاتے تھے اور بحیرۂ قلزم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے تھے۔ کیونکہ سمندر کے قریب گرمی میں کمی رہتی تھی۔
حسام الدین نے وہاں جاتے ہی ساحل کے ساتھ ساتھ خشکی پر چھاپے مارنے شروع کردیئے اور چند ایک ڈاکوئوں کو پکڑ کر وہیں قتل کردیا لیکن اسے ان میں صلیبی افواج کا کوئی ایک بھی سپاہی نہ ملا۔
حسام الدین کو ایک روز اطلاع ملی کہ مصر سے ایک بہت بڑا قافلہ حجاز کے لیے روانہ ہوگیا ہے۔ اس وقت قافلے کو صحرائے عرب میں ہونا چاہیے تھا۔ حسام الدین نے تین چار سپاہیوں کو خانہ بدوشوں کے لباس میں گشت کے لیے بھیجا مگر انہیں کہیں قافلہ نظر نہ آیا۔ یہ ایک بدقسمت قافلہ تھا جو ساحل سے دور دور جارہا تھا۔ ایک رات قافلے نے ایک جگہ قیام کیا۔ اس میں تاجر بھی تھے اور حجاج بھی۔ کئی ایک پورے پورے کنبوں کے ساتھ لیے جارہے تھے۔ ان میں بچے بھی تھے، بوڑھے بھی اور چند ایک کمسن اور نوجوان لڑکیاں بھی تھیں۔ اونٹوں اور گھوڑوں کی تعداد خاصی تھی اور افراد کم وبیش چھ سو تھے۔ یہ سب کھا پی کر سوگئے تھے۔
قافلہ سحر کی تاریکی میں جاگا۔ کسی نے اذان دی۔ سب نے تیمم کرکے باجماعت نماز پڑھی اور جب روانگی کی تیاری ہونے لگی تو کہیں سے بلند للکار سنائی دی… ''سامان مت باندھو۔ سب ایک طرفے کھڑے ہوجائو۔ کسی نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو وہ زندہ نہیں رہے گا''۔
قافلے میں کئی ایک گھبرائی ہوئی آوازیں سنائی دیں… ''ڈاکو، ڈاکو''۔
صبح کی روشنی صاف ہوگئی۔ قافلے والوں نے دیکھا۔ ان کے اردگرد صحرائی لباس میں ملبوس سینکڑوں آدمی کھڑے تھے۔ ان میں بعض گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کے ہاتھوں میں برچھیاں اور بعض کے پاس تلواریں تھیں۔ ان کے سر اور چہرے صافوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ قافلے کی تعداد زیادہ تھی، اس لیے یہ عارضی قیام گاہ وسیع تھی۔ ڈاکوئوں نے گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ قافلے والے مسلمان تھے۔ خاموشی سے ہتھیار ڈال دینا ان کا اصول نہیں تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ قافلوں پر حملے ہوا کرتے ہیں، اس لیے وہ مسلح تھے اور لڑنے کے لیے تیار تھے۔
''عورتوں اور بچوں کو درمیان میں ایک جگہ کرلو''۔ کسی نے آہستہ سے کہا اور یہ ہدایت کانوں کان بکھرے ہوئے قافلے تک پہنچ گئی۔
عورتیں اور بچے قیام گاہ کے وسط کو جانے لگے۔ ڈاکو آگے بڑھنے لگے، قافلے میں سے تلواریں نکل آئی۔ کچھ برچھیاں بھی تھیں۔ ڈاکوئوں نے ہلہ بول دیا۔ اس کے بعد گھوڑوں کے دوڑنے کا، للکار کا اور تلواریں ٹکرانے کا شور تھا جس میں عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دیتیں اور شور میں ڈوب جاتی تھیں۔ ڈاکوئوں میں سے زیادہ تر گھوڑوں پر سوار تھے، اس لیے پلہ انہی کا بھاری تھا اور وہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوجی تھے۔ قافلے والے بھی جم کر مقابلہ کررہے تھے اور نعرے بھی لگا رہے تھے۔ ایک آواز بار بار سنائی دیتی تھی… ''لڑکیوں کو درمیان میں رکھنا… لڑکیوں کو الگ نہ ہونے دینا''۔
ایک لڑکی کی بلند آواز سنائی دی… ''ہمارا غم نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں''۔
قافلے والوں کو اگر گھوڑوں پر سوار ہونے کا موقع مل جاتا تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتے، مگر ان کے گھوڑے ابھی زینوں کے بغیر بندھے ہوئے تھے۔ وہ صلیبیوں کے گھوڑوں تلے روندے جارہے تھے۔ ان میں بے بعض گر بھی رہے تھے۔ زیادہ تر نقصان قافلے والوں کا ہورہا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عورتوں اور بچوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ وہ گھوم پھر کر نہیں لڑ سکتے تھے۔ معرکہ پھیلتا بھی جارہا تھا۔ قافلے میں سات آٹھ جوان لڑکیاں تھیں۔ ان میں سکندریہ کی رہنے والی ایک رقاصہ بھی تھی جس کا نام رعدی تھا۔ وہ اپنے پیشے سے اسی عمر میں متنفر ہوگئی اور حج کے لیے جارہی تھی۔ اس کے ساتھ وہ آدمی تھا جس سے اسے محبت ہوگئی تھی۔ وہ اسی کے سہارے اپنے آقائوں سے بھاگ آئی تھی۔ انہوں نے ابھی شادی نہیں کی تھی۔ دونوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ مکہ معظمہ جاکر شادی اور پھر حج کریں گے۔
رعدی رقاصہ تھی، اس لیے اس کا جسم پھرتیلا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اس آدمی کے ساتھ رہی جس کے ساتھ وہ حج کو جارہی تھی۔ اس آدمی کے پاس تلوار نہیں تھی جو اس زمانے میں لوگ لباس کا حصہ سمجھ کر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس کے بجائے اس کے پاس خنجر تھا۔ اس نے رعدی کو اپنے ساتھ رکھا اور اس کا چہرہ اور سر اس طرح کپڑے میں لپیٹ دیا کہ پتہ نہ چلے کہ یہ لڑکی ہے۔ اس آدمی نے ایک ڈاکو کو جو گھوڑے پر سوار نہیں تھا، پیچھے سے پیٹھ پر خنجر مارا۔ خنجر اتنا گہرا اترا کہ فوراً باہر نکل نہ سکا۔ ڈاکو نے گھوم کر اس آدمی کے پہلو میں برچھی کی طرح تلوار گھونپ دی، پھر دونوں گر پڑے۔
اس ڈاکو کی پیٹھ کے ساتھ تیروں سے بھری ہوئی ترکش بندھی ہوئی تھی اور اس کے کندھے اور گردن میں کمان بھی لٹک رہی تھی۔ رعدی نے اس کی کمان اور ترکش اتارلی۔ یہ تینوں قیام گاہ کے کنارے پر تھے۔ قریب ہی کچھ سامان پڑا تھا جس میں خیمے بھی تھے۔ رعدی سامان اور خیموں کے ڈھیر میں چھپ گئی۔ صلیبی ڈاکوئوں کے گھوڑے دوڑتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرتے تھے، رعدی کی کمان سے تیر نکلتا اور گھوڑ سوار اوندھا ہوجاتا۔ اس طرح اس نے کچھ سواروں کو گرا لیا اور اس کے بعض تیر گھوڑوں کو لگے جو بے قابو ہوکر اور زیادہ تباہی مچانے لگے۔
رعدی کو کوئی بھی نہ دیکھ سکا مگر اس نے ایک سوار پر تیر چلایا جو سوا ر کے بجائے گھوڑے کی گردن میں اتر گیا۔ گھوڑا بے قابو ہوکر گھوما اور دور کا چکر کاٹ کر سامان اور خیموں کے اسی ڈھیر پر آگیا جس میں رعدی چھپی ہوئی تھی۔ گھوڑا سامان کے ساتھ ٹکرایا اور ڈھیر پر گر پڑا۔ سوار دور جاپڑا۔ ڈھیر سے ایک چیخ سنائی دی۔ گھوڑا رعدی کے اوپر گرا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس کی گردن میں تیر اترا ہوا تھا۔ وہ فوراً اٹھا اور اندھا دھند بھاگ گیا۔ سوار اٹھا تو اسے لپٹے ہوئے خیموں میں ایک سر نظر آیا جو کسی عورت کا تھا۔ سوار نے خیمے ہٹا کر دیکھا، اسے ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی نظر آئی۔ وہ اٹھنے کے قابل نہیں تھی اور وہ بے ہوش بھی نہیں تھی۔ صلیبی نے اسے اٹھایا تو وہ کراہنے لگی۔
دو روز بعد حسام الدین ایک بحری جہاز میں اپنے کیبن میں بیٹھا ہوا تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔ بری فوج کے دستے کا کمانڈر دروازہ کھول کر اندر آیا۔ اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جس کا چہرہ اترا ہوا اور لاش کی طرح سفید تھا۔
''صلیبی ڈاکوئوں نے بہت بڑے قافلے کو لوٹ لیا ہے''۔ دستے کے کمانڈر نے حسام الدین سے کہا… ''یہ آدمی ان کی قید سے بھاگ آیا ہے، باقی اس نے سن لیں''۔
اس آدمی نے تفصیل سے بتایا کہ قافلے پر کس طرح حملہ ہوا تھا… ''ہم نے بہت مقابلہ کیا لیکن ہمارے گھوڑے زینوں کے بغیر ابھی بندھے ہوئے تھے، ورنہ ہم گھوڑ سواروں کو کامیاب نہ ہونے دیتے۔ قافلے کے تھوڑے سے آدمی زندہ ہیں جو ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب تک انہیں قتل کیا جا چکا ہوگا۔ میں بھی انہی قیدیوں میں تھا۔ ہم تو مرد تھے، شرمناک صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ پانچ جوان لڑکیاں اور دس کمسن لڑکیاں ان کے قبضے میں ہیں۔ قافلے میں بڑا قیمتی سامان تھا۔ نقدی ہر ایک کے پاس تھی۔ نوے گھوڑے اور تقریباً ڈیڑھ سو اونٹ ہیں''۔
''وہ اب کہاں ہیں؟''
''وہاں ڈرائونے ڈرائونے سے سیدھے کھڑے ٹیلے ہیں''۔ اس نے جواب دیا… ''ٹیلوں میں ڈاکوئوں نے کمروں جیسے غار بنا رکھے ہیں۔ ان کے پاس پانی کا ذخیرہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا مستقل اڈا ہے۔ ویرانے میں ہوتے ہوئے یہ جگہ ویران نہیں لگتی''۔ اس نے جو جگہ بتائی وہ سمندر سے بیس میل دور تھی۔ اس نے کہا… ''کچھ ڈاکو بھی ہماری تلواروں اور برچھیوں سے مرے ہیں لیکن زیادہ نقصان ہمارا ہوا ہے۔ ہم جو زندہ رہ گئے ہیں، انہیں وہ اپنے ساتھ لے آئے۔ شام تک وہ ہمارے تمام اونٹ، گھوڑے اور سارا سامان اٹھا کر اپنے ٹیلوں والے اڈے پر لے آئے۔ رات کو انہوں نے شراب پی اور ہمارا سامان کھول کھول کر دیکھنے لگے۔ ان کا ایک سردار بھی ہے۔ لڑکیاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں۔ میں نے پھر لڑکیوں کو نہیں دیکھا۔ وہ ہم سے سامان اٹھوا کر ایک وسیع غار میں رکھوا رہے تھے، بہت سی مشعلیں جل رہی تھیں۔ میرے زیادہ تر ساتھی زخمی تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان میں سے کسی نے بتایا کہ اگر خیریت سے نکل جائو تو سمندر تک پہنچنے کی کوشش کرنا، وہاں اپنی فوج کی گشتی کشتی مل جائے گی۔ اس میں اپنے عسکری ہوں گے۔ انہیں بتانا کہ ہم پر کیا مصیبت ٹوٹی ہے''…
''مجھے یاد آگیا کہ ہم مصر کی سرحد سے نکل رہے تھے تو وہاں اپنے عسکری ملے تھے۔ انہوں نے ہمیں کہا تھا کہ راستے میں کوئی مشکل پیش آجائے تو ساحل پر چلے جانا، وہاں سے تمہیں فوج کی مدد مل جائے گی… ڈاکو شراب میں بدمست ہوئے جارہے تھے۔ ہم سامان اٹھا اٹھا کر غار میں رکھ رہے تھے۔ مجھے اندھیرے میں بھاگنے کا موقع مل گیا۔ ان ٹیلوں میں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا۔ دوبار میں گھوم پھر کر وہیں پہنچ گیا جہاں سے بھاگا تھا۔ میں نے اللہ کو یاد کیا اور قرآن کی جو آیات یاد تھیں، وہ پڑھنے لگا اور آدھی رات کے بعد ٹیلوں کی گلیوں سے نکل آیا۔ سمندر کی سمت کا خیال نہ رہا۔ میں اندھا دھند چلتا رہا اور صبح ہونے تک اتنی دور آگیا جہاں ڈاکو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ سارا دن اللہ کو یاد کرتا رہا۔ پانی کا یہ چھوٹا مشکیزہ ساتھ تھا۔ تھوڑی سی کھجوریں بھی تھیں۔ انہوں نے مجھے زندہ رکھا''…
''تھکن سے چلا نہ گیا تو دوپہر کے وقت ایک ریتلے ٹیلے کے دامن میں گر پڑا۔ ٹیلے کے سائے میں نیند آگئی۔ سورج غروب ہوا تو آکھ کھلی۔ ستارے روشن ہوئے تو سمت کا اندازہ ہوا، بہت دیر بعد ہوا میں سمندر کی بو محسوس ہونے لگی۔ میں ہوا کے مخالف چلتا چلا آیا اور شاید سحر کا وقت تھا جب میں ساحل پر آگیا اور جسم نے جواب دے دیا۔ میں گرا ور نہ جانے بے ہوش ہوگیا یا سوگیا۔ کسی نے مجھے جگایا۔ سورج بہت اوپر آگیا تھا۔ مجھے جگانے والا کوئی عسکری تھا۔ ساحل کے ساتھ مجھے ایک کشتی نظر آئی۔ اس میں بھی عسکری تھے۔ وہ سب میرے پاس آئے، میں نے انہیں یہی قصہ سنایا جو آپ کو سنا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے کشتی میں بٹھا لیا، کھلایا پلایا اور مجھے یہاں لے آئے۔ یہاں ان (کمانڈر) کے حوالے کردیا۔ یہ مجھے آپ کے پاس لے آئے''۔
''ہماری رہنمائی کے لیے تم ہمارے ساتھ چلو گے''۔ حسام الدین نے کہا… ''لیکن تمہاری حالت ایسی بری ہے کہ فوراً ہمارے ساتھ نہیں چل سکو گے۔ تھکن نے تمہیں لاش بنا دیا ہے''۔
''میں فوراً آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں''۔ اس آدمی نے کہا… ''میں آرام کس طرح کرسکتا ہوں، جب مسلمان لڑکیاں ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں، اگر اس سفر میں مجھے تھکن سے مرنا ہے تو میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے قرآن کی آیات نے اس جہنم سے نکالا ہے، مجھ پر قرآن کا فرض عائد ہوتا ہے کہ ان معصوم بچیوں کو ظالموں کے چنگل سے چھڑائوں۔ میں اس فرض پر جان دینا چاہتا ہوں''۔
''ڈاکوئوں کی تعداد کتنی ہے؟''
''پانچ سو سے زیادہ ہوگی''۔ اس نے جواب دیا۔
''پانچ سو آدمی کافی ہوں گے؟'' حسام الدین نے بری دستے کے کمانڈر سے پوچھا… ''مجھے ساتھ ہونا چاہیے''۔
''کافی ہوں گے''۔ کمانڈر نے جواب دیا… ''ان میں کم از کم ایک سو سوار اور باقی پیادے ہوں گے۔ ہمیں چھاپہ مارنا ہے، اس لیے ہدف تک خاموشی برقرار رکھنی ہوگی۔ گھوڑے جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی شور کا خطرہ ہوگا۔ اس شخص سے اس جگہ کی مزید تفصیل پوچھ لیتے ہیں اور ابھی روانہ ہوجائیں گے۔ یہ چونکہ بھٹکتا اور گرتا پڑتا آیا ہے، اس لیے اتنی دیر سے پہنچا ہے۔ میں نے سمت کا اندازہ کرلیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم شام کے چلے آدھی رات کے قریب ہدف پر پہنچ جائیں گے''۔
''چھوٹی منجنیقیں ساتھ لے لینا''۔ حسام الدین نے کہا… ''ہانڈیاں (آتش گیر سیال والی) اور فلیتے والے تیر بھی ساتھ ہوں… اور اسے شام تک مکمل آرام کرنے دو… سب کو بتا دینا کہ مقابلہ ڈاکوئوں سے نہیں، صلیب کے تجربہ کار فوجیوں کے ساتھ ہے''۔
بری فوج کا کمانڈر اس آدمی کو اپنے ساتھ لے گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صحرا کا وہ خطہ جہاں صلیبی ڈاکوئو ںنے اپنا اڈا بنا رکھا تھا، قلعے سے کم نہ تھا بلکہ اس لحاظ سے قلعے سے زیادہ مضبوط اور ناقابل تسخیر تھا کہ وہاں ٹیلوں نے بھول بھلیوں جیسی گلیاں بنا رکھی تھیں، جو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مڑ جاتیں یا شاخوں میں تقسیم ہوجاتی تھیں۔ اس خطے کے درمیان ایک وسیع میدان تھا۔ اس کے اردگرد ٹیلوں میں صلیبیوں نے اونچے اور لمبے چوڑے کمرے کھود رکھے تھے۔ اونٹوں اور گھوڑوں کے رہنے کی جگہ الگ تھی۔ حسام الدین کا بری فوج کا دستہ پوری خاموشی سے آدھی رات سے پہلے اس خطے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ صلیبیوں نے پکڑے جانے کا خطرہ غالباً کبھی بھی نہیں محسوس کیا تھا، ورنہ وہ ادھر ادھر پہرے کا انتظام کرتے۔
حسام الدین نے گھوڑوں کو پیچھے رکھا تاکہ ان کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہ پہنچے۔ دستے کا کمانڈر چار سپاہیوں کو ساتھ لے کر ٹیلوں کی ایک گلی میں چلا گیا۔ گھومتا مڑتا بہت آگے گیا تو اسے گھوڑوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ گھوڑوں کی ان رات کی آوازوں سے واقف تھا۔ ایک جگہ وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گیا۔ وہ شب خون کا ماہر تھا اور اسے چھپے ہوئے ہدف پر پہنچنے کا تجربہ تھا۔ وہ ٹیلے کے اوپر گیا۔ اوپر چڑھائی تھی، وہاں سے اترنا پڑا، پھر ایک اور بلندی پر چڑھا۔ اسے آدمیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو ہلڑ بازی کی طرح تھیں۔ وہاں سے بھی اسے اترنا پڑا۔ وہ ایک گلی میں جارہا تھا کہ قریب ہی اسے کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور سب اپنے ہتھیار تان کر ٹیلے کے ساتھ ہوگئے۔ آگے موڑ تھا۔
دو آدمی باتیں کرتے موڑ مڑے، وہ شراب پئے ہوئے تھے جو ان کے لہجے سے ظاہر تھا۔ سپاہیوں سے دوچارقدم آگے گئے تو پیچھے سے سپاہیوں نے تلوار ان کے پہلوئوں سے لگا دیں۔ کمانڈر نے ان کی زبان میں جو فلسطینی، عربی اور عبرانی کی آمیزش تھی کہا کہ آواز نکالی تو مارے جائو گے۔ انہیں وہاں سے دور لے گئے۔ انہوں نے جان کے خوف سے بتا دیا کہ ان کے ساتھی کہاں ہیں اور ان تک کون سا راستہ جاتا ہے۔ مسلمان کمانڈر، ان میں سے ایک کو اپنے ساتھ بلندی پر لے گیا جہاں سے وہ میدان نظر آتا تھا۔ جہاں اس کے ساتھی جشن منا رہے تھے۔ کمانڈر نے اوپر سے دیکھا اور وہ حیران رہ گیا۔ اس بے رحم صحرامیں جو جہنم سے کم نہ تھا، ان صلیبیوں نے جنت کا منظر بنا رکھا تھا، جہاں مسافر پیاسے مرجاتے تھے، وہاں یہ لوگ شراب پی رہے تھے۔ ان میں سے کچھ ادھر ادھر بے سدھ پڑے تھے۔ بعض ٹولیوں میں بیٹھے گا رہے تھے یا ہلڑ بازی میں مصروف تھے۔ ایک جگہ ایک لڑکی ناچ رہی تھی۔ مشعلیں اس طرح جل رہی تھیں کہ ان کے ڈنڈے عمومی ٹیلوں میں گاڑے ہوئے تھے۔
''بہت سے اندر ہیں''… صلیبی قیدی نے کمانڈر کو بتایا… ''وہ شراب پی کربے ہوش پڑے ہوں گے، ایسا جشن صرف اس وقت منایا جاتا ہے جب کوئی بہت بڑا قافلہ لوٹا جاتا ہے۔ تین چار راتیں جشن منایا جاتا ہے''۔
''تعداد کتنی ہے؟''
''چھ سو کے قریب ہوگی''… اس نے جواب دیا… ''کمانڈر ایک نائٹ ہے، وہ اس وقت لڑکیوں کے درمیان بدمست پڑا ہوگا''
کمانڈر نے بلندی سے میدان کا جائزہ لیا۔ اسے مشعلوں کی روشنی میں جو کچھ نظر آرہا تھا۔ وہ اس نے دیکھ لیا۔ جو نظر نہیں آتا تھا وہ اسے صلیبی قیدی نے بتا دیا۔ وہ ایسے راستے معلوم کررہا تھا جن کی ناکہ بندی کی جاسکے۔ اس نے اپنے قیدی کو ساتھ لیا اور وہاں سے اتر آیا۔ دوسرے قیدی اور اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لے کر وہ حسام الدین کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ کس قسم کی کارروائی کرنی چاہیے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میدان میں مشعلوں کی روشنی میں ہلڑ بازی کرنے والے صلیبیوں کی تعداد کم ہوگئی تھی۔ اب ان میں سے چند ایک ہی جاگ رہے تھے۔ حسام الدین نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ڈاکوئوں کو زندہ باہر لانا۔ کمانڈر نے اس پر اعتراض کیا اور کہا… ''میں ان سے انتقام لینا چاہتا ہوں۔ میں ان کی لاشیں یہیں گلنے سڑنے کے لیے اور صحرائی لومڑیوں کے لیے پڑی رہنے دوں گا۔ آپ انہیں زندہ قیدی بنا کر ان کے حکمران کے ساتھ کوئی سودا کرنا چاہتے ہیں''۔
''نہیں''… حسام الدین نے کہا… ''مجھے بھی انتقام لینا ہے۔ مجھے اپنے ان مسلمان قیدیوں کے خون کا انتقام لینا ہے۔ جنہیں صلیب کے ایک جنگجو بادشاہ ارناط نے عکرہ لے جا کر قتل کیا تھا۔ جنگی قیدیوں کو قتل نہیں کیا جاتا مگر ارناط نے ہمارے تمام قیدیوں کو پہلے بھوکا رکھا۔ ان سے مشقت کرائی پھر انہیں قطار میں کھڑا کرکے قتل کیا تھا۔ اس واقعہ کو سات سال گزر گئے ہیں۔ میں اسے ساری عمر نہیں بھول سکتا۔ آج انتقام کا موقع ملا ہے۔ میں یہ نہیں سننا چاہتا کہ یہ صلیبی ڈاکو ہمارے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ انہیں زندہ لائو لیکن میں انہیں زندہ نہیں رہنے دوں گا۔ میں انہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح صلیبیوں نے ہمارے قیدی قتل کیے تھے''۔
حسام الدین کے سپاہی تین راستوں سے میدان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے جلتی ہوئی مشعلوں سے اپنی مشعلیں جلائیں۔ جو صلیبی جاگ رہے تھے، انہوں نے نشے کی حالت میں گالیاں دیں۔ وہ لڑنے کی حالت میں نہیں تھے۔ حملہ آور سپاہیوں نے انہیں زندہ پکڑنے کے بجائے تلواروں سے ختم کردیا، جو سوئے ہوئے تھے وہ شوروغل سے جاگ اٹھے۔ بیشتر اس کے کہ وہ سمجھ پاتے کہ یہ کیا ہورہا ہے، وہ برچھیوں کی انیوں پر دھر لیے گئے۔ انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہ ملی۔ غار نما کمروں میں سے چند ایک برچھیاں اور تلواریں لے کر نکلے لیکن کچھ مارے گئے، باقی ہتھیار پھینک کر الگ کھڑے ہوگئے۔ ان کا نائٹ اس حالت میں مدہوش پڑا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا۔ وہ گالیاں بکنے لگا۔ مسلمان سپاہیوں کو وہ اپنے سپاہی سمجھ رہا تھا۔ اس کے کمرے سے تین مسلمان لڑکیاں برآمد ہوئیں۔
دوسرے کمروں سے بھی چند ایک لڑکیاں نکلیں۔ یہ سب مسلمان تھیں۔ ان کی حالت بہت بری تھی۔ وہ مسلمان سپاہیوں کو شاید ڈاکوئوں کا کوئی دوسرا گروہ سمجھ رہی تھیں، اسی لیے وہ دہشت سے دبکی ہوئی تھیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ یہ مسلمان سپاہی ہیں تو لڑکیاں پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگی۔ وہ روتی تھیں اور کبھی صلیبیوں کو دانت پیس پیس کر گالیاں دیتیں اور کبھی مسلمان سپاہیوں کو کوسنے لگتیں۔ انہوں نے انہیں بے خیرت اور بزدل کہا ور ان میں سے بعض بار بار کہتی تھیں… ''اگر تم مسلمان ہو تو ان کافروں کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم تمہاری بہنیں اور بیٹیاں نہیں؟ کیا ہماری عصمتیں تمہاری بیٹیوں کی عصمتوں جیسی نہیں؟''
اس وقت حسام الدین اور بری دستے کا کمانڈر کمروں کی تلاشی لے رہے تھے۔ باہر اب کوئی لڑائی نہیں ہورہی تھی۔ صلیبیوں کو ایک جگہ بٹھا دیا۔ ان کے گرد مسلح سپاہی کھڑے تھے، جن میں بہت سے سپاہیوں نے کمانوں میں تیر ڈال رکھے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح جب صلیبیوں کا نشہ اترا تو وہ سمندر کے کنارے بیٹھے تھے۔ لڑکیوں کو حسام الدین نے اپنے بحری جہاز میں رکھا۔ قیدیوں کی تعداد کم وبیش پانچ سو تھی۔ باقی مارے گئے تھے۔ انہوں نے ٹیلوں کے اندر جو سامان اور رقم جمع کررکھی تھی، وہ قیدیوں سے اٹھوا کر ساحل پر لائی گئی۔ ان قیدیوں کے کمانڈر سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان سے یہ انکشاف ہوا کہ یہ ایک مشہور صلیبی بادشاہ رینالڈڈی شائتون کی فوج کا دستہ تھا۔ مسلمان قافلوں کو لوٹنے کے لیے اتنی نفری کا ایک دستہ یہاں موجود رہتا تھا۔ کچھ عرصے بعد دوسرا دستہ بھیج دیا جاتا تھا۔ سامان جو لوٹا جاتا، اس میں سے کچھ حصہ سپاہیوں کو ملتا اور باقی سب اپنے بادشاہ کو بھیج دیا جاتا تھا۔ اونٹ اور گھوڑے بھی سرکاری ملکیت میں چلے جاتے تھے۔
لڑکیوں کے متعلق یہ احکام تھے کہ کمسن بچیاں جو غیرمعمولی طور پر خوبصورت ہوتی تھیں، وہ صلیبیوں کے ہیڈکوارٹروں میں بھیج دی جاتی تھیں جہاں انہیں ٹریننگ دے کر جوانی کی عمر میں جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کے علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔ جوان لڑکیوں میں کوئی بہت ہی خوبصورت ہو تو اسے بھی ہیڈکوارٹروں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ باقی لڑکیوں کو یہ صلیبی سپاہی اور کمانڈر اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔
''اس قافلے کے ساتھ بھی بچیاں ہوں گی''… حسام الدین نے پوچھا۔
''بارہ چودہ تھیں''… صلیبی کمانڈر نے بتایا… ''صرف ایک بھیجی گئی ہے''۔
''اور باقی؟''
''قتل ہوچکی ہیں''۔
''اور قافلے کے جن آدمیوں کو ساتھ لائے تھے؟''
''انہیں سامان اٹھانے کے لیے لائے تھے، پھر انہیں قتل کردیا تھا''۔
اس نے جوان لڑکیوں کے متعلق بتایا کہ ان میں ایک رقاصہ تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا جسم، حسن اور اس کا رقص ہماری اس ضرورت کے مطابق تھا جس کے لیے ہم لڑکیاں حاصل کرتے ہیں۔ اس رقاصہ کو اسی شام بھیج دیا گیا تھا۔ فوراً بھیجنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ایسی قیمتی اور دلکش لڑکی کو سپاہیوں میں رکھنا خطرناک ہوتا ہے۔ کوئی بھی سپاہی اسے آزادی کا جھانسہ دے کر بھگا لے جاسکتا ہے۔
''انہوں نے اس قافلے کو قتل کیا ہے جو حج کو جارہا تھا''… حسام الدین نے کمانڈر سے کہا… ''قافلہ حجاز تک نہ پہنچ سکا۔ ان بدنصیبوں کے بجائے میں ان کے قاتلوں کو حجاز بھیجوں گا اور وہاں انہیں قتل کرائوں گا''۔
حسام الدین تمام قیدیوں کو اس جگہ لے گیا جہاں انہوں نے انہوں نے قافلے کو لوٹا اور قتل عام کیا تھا، وہاں لومڑیوں، بھیڑیوں اور گیڈروں کی کھائی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ حسام الدین نے قیدیوں سے قبریں کھدوائیں۔ اس نے سب کی نماز جنازہ پڑھائی اور سب کو دفن کردیا۔ اس نے قاہرہ سے حکم لیے بغیر ان تمام قیدیوں کو ایک ہی بحری جہاز میں ٹھونسا اور جدہ کی طرف لے گیا، وہاں انہیں اتارا اور اس پیغام کے ساتھ حجاز روانہ کردیا کہ انہیں منیٰ کے میدان میں قتل کردیا جائے۔ پیغام میں اس نے تفصیل سے لکھا کہ ان کا جرم کیا ہے۔
یورپی مؤرخوں نے صلیبی سپاہیوں اور ان کے کمانڈر کے قتل کو بہت اچھالا اور غلط رنگ میں پیش کیا ہے۔ انہیں انہوں نے جنگی قیدی کہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سی جنگ کے جنگی قیدی تھے۔ وہ کسی قلعے میں نہیں تھے۔ مسلمان مؤرخوں نے اصل واقعہ لکھا ہے۔ ان کی تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ امیر البحر حسام الدین لولو کا قافلہ تھا جس سے سلطان صلاح الدین ایوبی بالکل بے خبر تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس صلیبی ڈاکو دستے کے کمانڈر نے جس رقاصہ کے متعلق بتایا تھا کہ اسے اسی شام یہاں سے بھیج دیا گیا تھا۔ وہ رعدی تھی۔ اس کے کہنے کے مطابق اسے اتنی جلدی اس لیے بھیج دیا گیا تھا کہ گھوڑے کے نیچے آکر اس کی حالت اچھی نہیں تھی۔ کمانڈر نے اس ڈر سے اسے بھیج دیا کہاس پر یہ الزام عائد نہ ہوسکے کہ اس رقاصہ کو اس کے تشدد نے اس حالت تک پہنچایا ہے۔ یہ کمانڈر جس وقت حسام الدین کو اپنا بیان دے رہا تھا، اس وقت رقاصہ رعدی چار صلیبی سپاہیوں کے ساتھ وہاں سے بہت دور پہنچ چکی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھی۔ اس کی حالت بہت بہتر ہوگئی تھی۔ راستے میں اس نے سپاہیوں سے کئی بار کہا تھا کہ وہ اسے قاہرہ لے چلیں جہاں وہ انہیں بے شمار رقم دے گی مگر سپاہی نہ مانے۔ آخر ایک سپاہی نے اسے کہا… ''تم دیکھ رہی ہو کہ ہم تمہیں شہزادیوں کی طرح ساتھ لے جارہے ہیں، تم اتنی زیاہ خوبصورت ہو اور تمہارے جسم میں ایسا جادو ہے کہ جسے اشارہ کرو، وہ تمہارے قدموں میں جان دے دے گا لیکن ہم تمہارے جسم سے چار قدم دور رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تم ہمارے پاس امانت ہو اور یہ امانت ہمارے بادشاہ کی ہے جو صلیب کا بادشاہ ہے۔ اگر تمہارا کہا مان لیں یا تمہیں اپنی ملکیت سمجھ لیں تو ہمیں نہ بادشاہ بخشے گا، نہ صلیب''۔
''ہماری منزل کہا ہے؟''… رعدی نے پوچھا۔
''بہت دور''… اسے جواب ملا… ''سفر کٹھن ہے اور لمبا بھی۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اس علاقے میں سے بھی گزرنا پڑے گا جو مسلمانوں کے قبضے میں ہے''۔
رعدی کو یہ چار صلیبی واقعی شہزادیوں کی طرح لے جارہے تھے۔ ''تم کسی بڑے حاکم کی بیٹی معلوم ہوتی ہو یا کسی دولت مند تاجر کی بیٹی۔ تم اپنے خاندان کے ساتھ حج کو جارہی تھی؟''… ایک صلیبی نے پوچھا۔
''تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ میں رقاصہ ہوں؟''… رعدی نے جواب دیا… ''میرا کوئی باپ نہیں، کوئی بھائی نہیں، میری ماں اسمٰعیلیہ میں مشہور رقاصہ اور مغنیہ ہے۔ مجھے بالکل علم نہیں کہ میں اس کے کس چاہنے والی کی بیٹی ہوں۔ ماں نے بچپن میں ہی مجھے رقص کی تربیت دینی شروع کردی تھی، مجھے رقص اور گانا اچھا لگتا تھا۔ میں سولہ سترہ سال کی ہوئی تو ماں نے مجھے ایک بہت امیر آدمی کے گھر بھیجا۔ وہ بوڑھا آدمی تھا، شراب پئے ہوئے تھا، بوڑھے نے مجھے کہا کہ وہ میری محبت میں دیوانہ ہوا جارہا ہے۔ مجھے اس بوڑھے سے نفرت ہوگئی، مجھے یہ احساس ہوا کہ میرا باپ نہیں ہے، اس بوڑھے کو دیکھ کر مجھے اپنے باپ کا خیال آگیا تھا۔ اس بوڑھے نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر ایسی ذلیل حرکتیں کیں کہ مجھے پتہ چل گیا کہ یہ میرا باپ نہیں، نہ اس کے دل میں میری محبت ہے، یہ میرا گاہک ہے''…
''میں وہاں سے اکیلی بھاگ گئی۔ ماں کو بتایا تو اس نے مجھے سمجھایا کہ یہ ہمارا پیشہ ہے، میں نہ مانی۔ ماں نے مجھے مارا پیٹا، میں نے کہا کہ میں ناچوں گی، گائوں گی لیکن کسی کے گھر نہیں جائوں گی۔ ماں نے میری شرط مان لی۔ جن کے پاس دولت تھی، وہ ہمارے گھر آنے لگے۔ میں چونکہ کسی کے گھر نہیں جاتی تھیں، اس لیے میری قیمت چڑھ گئی۔ تین سال گزر گئے اور اس دوران میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی میرے حسن اور میرے رقص کے بجائے میرے ساتھ محبت کرے جس میں عیاشی اور بدمعاشی کا دخل نہ ہو۔ آخر ایک آدمی مجھے مل گیا۔ وہ دوبار میرے ہاں آیا تھا۔ وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔ مجھ سے سات آٹھ سال بڑا تھا۔ میری اور اس کی ملاقاتیں بہر ہونے لگیں۔ میں بگھی میں سیر کے بہانے چلی جاتی اور وہ وہاں موجود ہوتا''…
''وہ تو شہزادہ تھا، شراب پیتا تھا، میں نے ایک شام اسے کہا کہ شراب چھوڑ دو۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ وہ آئندہ شراب نہیں پئے گا۔ اس نے وعدہ پورا کر دکھایا۔ ایک روز اس نے مجھے کہا کہ ناچنا چھوڑ دو، میں نے قسم کھا کر کہا کہ میں اس پیشے پر لعنت بھیجوں گی لیکن جب تک اس گھر میں ہوں، یہ ممکن نہیں۔ اس نے کہا کہ میں عیاش باپ کا عیاش بیٹا ہوں، میرے باپ کے حرم میں تم سے چھوٹی عمر کی بھی لڑکیاں ہیں۔میں اس گھر میں رہ کر نیک نہیں بن سکتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں ناچنے والی ماں کی ناچنے والی بیٹی ہوں۔ تمہیں اپنے باپ کی عیاشی خراب کررہی ہے اور مجھے اپنی ماں کا پیشہ خراب کررہا ہے۔ آئو کہیں دور چلے چلیں اور میاں بیوی کی طرح پاک زندگی بسر کریں۔ وہ مان گیا''…
''وہ مسلمان تھا، میرا کوئی مذہب نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا باپ مسلمان تھا، عیسائی یا یہودی تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے مسلمان سمجھو اور بتائو کہ مذہب کیا ہے۔ مجھے محبت دو، مجھے پاک زندگی دو، اس نے بہت سوچا ور بولا کہ پاک ہونا ہے تو حجاز چلو۔ میں نے حجاز کی بہت باتیں سنی تھیں۔ مجھے ایسے گانے بہت پسند آتے تھے جن میں حجاز اور حجاز کے قافلوں کا ذکر ہوتا۔ میں ایک گانا اکیلے میں بھی گنگنایا کرتی تھی… ''چلے قافلے حجاز کے''… اس نے حجاز کا نام لے کر میری آرزو کو شعلہ بنا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تیار ہوں۔ ہمت کرو، میری آرزو پوری کردو۔ اس نے پوچھا۔ تم جانتی ہو کہ میں تمہیں حجاز کیوں لے جارہا ہوں؟ میں نے کہا کہ وہ بہت خوبصورت سرزمین ہے۔ اس نے کہا کہ صرف خوبصورت نہیں، وہ پاک سرزمین ہے، وہاں خانہ کعبہ ہے، وہاں آب زمزم ہے اور وہا ںجو جاتا ہے اس کی روح پاک ہوجاتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہاں ہم حج کعبہ کریں گے اور پاک ہوکر شادی کریں گے پھر وہیں رہیں گے''…
''میں اس وقت کو بھول نہیں سکتی جب وہ میرے ساتھ یہ باتیں بچوں کی طرح کررہا تھا اور میں جیسے اس کی آنکھوں میں اتر کر اس کی روح میں سما گئی تھی۔ میری ذات فنا ہوگئی تھی، میرا وجود اس کے وجود میں تحلیل ہوگیا تھا اور میں نے اسے کہا تھا کہ کل چلنا ہے تو ابھی چلو۔ اس نے کہا کہ قافلے جاتے رہتے ہیں، میں معلوم کرلوں گا… پھر ایک شام اس نے کہا کہ آج رات یہیں آجانا۔ قافلہ روانہ ہوگیا ہے۔ ہم اس سے جاملیں گے۔ میں نے اسے کہا کہ میں گھر چلی گئی تو رات کو کوئی آنے نہیں دے گا۔ ابھی لے چلو۔ اس نے کہا آجائو۔ میں نے بگھی والے کو کچھ نہ بتایا۔ شام گہری ہوگئی تھی۔ چھپ کر اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے مجھے ایک کھنڈر میں چھپا دیا اور چلا گیا۔ وہ کچھ دیر بعد دو گھوڑے لیکر آگیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا، دوسرا گھوڑا خالی تھا۔ دونوں کے ساتھ پانی اور کھانے کا سامان بندھا تھا''…
''ہم اگلی شام قالے سے جاملے اور رات وہاں جاپہنچے جہاں تم نے میرے خواب میری محبت کے لہو میں غرق کر دئیے۔ وہ مارا گیا میں پکڑی گئی۔ حجاز کا قافلہ لوٹا گیا اور خانہ کعبہ سے دور ہی اللہ کے حضور چلا گیا… خدا نے میرے گناہ بخشے نہیں، میرے ماتھے کی قسمت میں کعبہ کا سجدہ نہیں لکھا تھا۔ میرا وجود ناپاک تھا جو اللہ کو پسند نہیں تھا کہ اس کے کعبے تک پہنچے''۔
''تم مذہب میں پناہ لینا چاہتی ہو تو ہمارے مذہب کو قریب سے دیکھنا''… ایک سپاہی نے کہا۔۔
''تم نے میرا ایک پاک تصور ریزہ ریزہ کردیا ہے''… رعدی نے کہا… ''کیا تمہارے مذہب نے یہ حکم دیا ہے جس کی تم نے تعمیل کی ہے؟ جو تصور لے کر نکلی تھی وہ ایسا بھیانک تو نہیں تھا؟''
''یہ ہمارا مذہب نہیں''… سپاہی نے کہا… ''یہ ان انسانوں کا حکم تھا جن کے ہم ملازم ہیں''۔
''تم سے تو میں اچھی ہوں جس کے قدموں میں شہزادے زروجواہرات کے ساتھ اپنا سر بھی رکھتے تھے''… رعدی نے کہا… ''مگر میں صحرائوں کی خاک چھاننے نکل آئی… حکم وہ مانو جو اپنی روح سے نکلے۔ میں اس کے مذہب کی مرید ہوں جس نے مجھے پاک محبت دی اور پاکیزہ تصور دیا۔ اس سے میں سمجھی کہ اس کا مذہب بھی پاک ہوگا۔ وہ مجھے میرے تصوروں کی سرزمین حجاز کی طرف لے جارہا تھا۔ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟''
''ہم انسانوں کے حکم کے پابند ہیں''… سپاہی نے کہا۔
''میں خدا کے حکم کی پابند ہوں''… رعدی نے کہا۔
''خدا نے تمہیں دھتکار دیا ہے''… ایک اور سپاہی بولا… ''تم اس وقت ہماری پابند ہو۔ ہم جہاں تمہیں لے جارہے ہیں وہاں سوچنا کہ خدا کو راضی کس طرح کیا جائے۔ کوئی نیکی کرنا، شاید خدا تمہیں بخش دے''۔
''میں جانتی ہوں، تم مجھے کہاں لے جارہے ہو اور کیوں لے جارہے ہو''… رعدی نے کہا… ''میرا وجود سراپا گناہ ہوگیا اور میں کوئی نیکی نہیں کرسکوں گی''۔
''تم کوئی نیکی سوچ بھی نہیں سکتی''… ایک سپاہی نے کہا… ''تم گناہ کی پیداوار ہو۔ گناہوں میں تم نے پرورش پائی ہے۔ ایک گناہ گار کے ساتھ گھر سے بھاگ کر جارہی تھی… تم نیکی کیا کرو گی؟''
''ان بے گناہوں کے خون کا انتقام لوں گی جنہیں تم نے قتل کیا ہے''… رعدی نے دانت پیس کر کہا۔
چاروں سپاہیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور ایک نے کہا… ''ہم پر تمہارا احترام فرض ہے۔ ہمیں حکم ہی ایسا ملا ہے، ورنہ تم ایسے الفاظ دوبارہ زبان سے نہ نکالتی''۔
رعدی انہیں دیکھتی رہی اور اس کے دل میں نفرت گہری ہوتی گئی۔
موصل میں ایک درویش کی شہرت آناً فاناً پھیل گئی۔ وہ ایک ضعیف العمر انسان تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ کسی خوش نصیب انسان کے ساتھ ہی بات کرتا ہے اور وہ جس کی بات کرتا ہے، اس کی ہر مراد پوری ہوجاتی ہے۔ کسی نے اسے شہر کی دیواروں کے باہر ایک جھونپڑہ دے دیا تھا۔ اس کی کرامات سارے شہر میں مشہور ہوگئیں۔ لوگ اس کے جھونپڑے کے گرد ہجوم کیے رکھتے۔ وہ ذرا سی دیر کے لیے باہر آتا، بازو اوپر کرکے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتا، ہجوم پر خاموشی طاری ہوجاتی۔ وہ اشاروں میں انہیں تسلی دیتا اور جھونپڑے میں چلا جاتا۔ اس کے ساتھ چار پانچ خوبرو آدمی تھے جن کے چہرے سفید اور گلابی تھے اور وہ سر سے پائوں تک سبز لبادوں میں ملبوس تھے۔
پھر یہ مشہور ہوگیا کہ درویش موصل والوں کے لیے خوشخبری لایا ہے۔ شہر میں اجنبی سے کچھ لوگ نظر آتے تھے، وہ لوگوں کو درویش کے متعلق کچھ ایسی باتیں سناتے تھے جو ہر کسی کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ ہر کسی کو اپنی اپنی مراد پوری ہوتی نظر آتی تھی۔ چند دنوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ درویش امام مہدی ہے۔ بعض اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، پھر ایک روز لوگوں نے دیکھا کہ درویش والئی موصل عزالدین کی بگھی پر محل کو جارہا تھا۔ عزالدین کے محافظوں نے اس کا استقبال کیا اور وہ محل میں چلا گیا۔ کئی گھنٹوں بعد وہاں سے نکلا اور شاہی بگھی پر چلا گیا۔ لوگ جب اس کے جھونپڑے کو گئے تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ درویش کو بگھی کہیں دور لے گئی تھی۔ شام کو بگھی واپس آئی۔ اس میں بگھی بان اور دو محافظ تھے، لوگوں نے بگھی روک لی اور محافظوں سے پوچھا کہ درویش کہاں چلا گیا ہے۔
''ہمیں کچھ علم نہیں، وہ کہاں ہے؟''… ایک محافظ نے لوگوں کو بتایا… ''اس نے پہاڑیوں کے قریب بگھی رکوالی اور ہمیں کہا کہ تم چلے جائو۔ ہم نے اس کے ساتھ ایک آدمی سے پوچھا کہ درویش کہاں جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان پہاڑیوں میں سے کسی کی چوٹی پر بیٹھے گا۔ اسے افق سے ایک نشانی نظر آئے گی۔ درویش پہاڑی کی چوڑی سے اتر آئے گا اور والئی موصل کو بتائے گا کہ وہ کیا کرے، پھر موصل کی فوج جدھر جائے گی، ادھر پہاڑ اسے راستہ دے دیں گے۔ صحرا سرسبز ہوجائیں گے، دشمن کی فوجیں اندھی ہوجائیں گی اور والئی موصل جہاں تک پہنچ سکے گا وہاں تک اس کی حکمرانی ہوگی۔ صلاح الدین ایوبی عزالدین کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔ صلیبی اس کے غلام ہوجائیں گے اور موصل کے لوگ آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں گے۔ سونے چاندی میں کھیلیں گے… ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے گا''۔
موصل کے کچھ دور کوہستانی علاقہ تھا، وہاں کوئی آبادی نہیں تھی، جہاں کہیں پہاڑوں میں گھرا ہوا میدان تھا، وہاں دو چار جھونپڑے نظر آتے تھے۔ علاقہ ہرابھرا تھا، گڈریئے مویشی لے کر وہاں جاتے تھے۔ ایک روز گڈریوں کو ادھر جانے سے روک دیا گیا۔ لوگوں کو دور سے گزرنے کی اجازت تھی۔ موصل کی فوج کے سنتری گشت کررہے تھے۔ ان کے ساتھ باہر کے اجنبی لوگ بھی تھے۔ کوہستان کا ایک وسیع علاقہ تھا جس کے قریب جانے سے لوگوں کو منع کردیا گیا۔ ان پابندیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خطہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس کے متعلق عجیب وغریب باتیں سننے میں آنے لگیں۔ یہ تو ایک دن میں ہر کسی کی زبان پر چڑھ گیا کہ درویش کو آسمان سے ایک نشانی نظر آئے گی پھر آدھی دنیا پر موصل والوں کی بادشاہی ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صرف ایک چار دیواری تھی جس کے اندر چار آدمی بیٹھے کچھ اور قسم کی باتیں کررہے تھے۔ ان میں ایک حسن الادریس بھی تھا۔ پچھلی قسط میں آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ حسن الادریس سلطان ایوبی کا جاسوس تھا جو بیروت سے نہایت قیمتی خبر لایا تھا اور اس خبر کے ساتھ والئی موصل عزالدین کے ایلچی احتشام الدین اور اس کی رقاصہ بیٹی سائرہ کو بھی سلطان ایوبی کے پاس لے آیا تھا۔ یہ ایک بے مثال کامیابی تھی۔ اسلام کی تاریخ پر اس جاسوس نے بہت بڑا احسان کیا تھا۔ احتشام الدین نے سلطان ایوبی کو بتایا تھا کہ صلیبی موصل کے قریب پہاڑیوں کی کھوہ میں اسلحہ اور آتش گیر سیال اور رسد کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کریں گے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کوہستان کو اپنی فوج کا اڈہ بنائیں گے۔ موصل کو تو وہ اپنے چھاپہ ماروں کا اڈہ بنا رہے تھے۔ اس حقیقت کو سلطان ایوبی اور سالار سمجھ سکتے تھے کہ جس فوج کا اڈہ اور رسد قریب ہو، وہ آدھی جنگ جیت لیتی ہے۔ صلیبی فوج کو یہ تلخ تجربہ ہوچکا تھا کہ انہوں نے جب کبھی پیش قدمی کی یا حملہ کیا، سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں نے عقب میں جاکر ان کی رسد تباہ کردی یا رسد اور فوج کے درمیان حائل ہوکر رسد روک لی۔ آگے سلطان ایوبی نے یہ انتظام کررکھا ہوتا تھا کہ پانی جہاں کہیں ہوتا تھا، وہاں قبضہ کرلیتا تھا۔ جہاں کہیں گھاس اور چارہ ہوتا وہاں بھی وہ قبضہ کرلیتا یا گھاس وغیرہ کٹوا لیتا یا تباہ کردیتا تاکہ صلیبیوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کو چارہ نہ مل سکے، اس کے علاوہ وہ بلندیوں پر اپنے تیر اندازوں کی ٹولیاں بٹھا دیتا تھا۔
آپ پڑھ چکے ہیں کہ سلطان ایوبی نے اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ سے کہا تھا کہ وہ معلوم کرے کہ صلیبی کس مقام پر ذخیرہ کررہے ہیں، اس نے چھاپہ مار دستوں کے سالار صارم مصری سے کہا تھا کہ جب ذخیرے کا مقام معلوم ہوجائے تو اسے تباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ سلطان ایوبی کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی اب مکمل تیاری کرکے کھلی جنگ لڑیں گے۔ اس سے پہلے وہ صلیبی علاقوں پر حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسے جب احتشام الدین کی زبانی صلیبیوں کے عزائم کی اطلاع ملی تو اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ صلیبیوں کو کہیں بھی قدم نہ جمانے دئیے جائیں۔ اس نے ایک حکم یہ دیا کہ معلوم کرو کہ صلیبی کوہستان میں کہاں ذخیرہ جمع کررہے ہیں اور دوسرا حکم یہ دیا کہ سنجار کی طرف پیش قدمی کرو اور قلعے کو محاصرے میں لے لو۔ سنجار موصل سے کچھ دور ایک اہم قلعہ اور جنگی اہمیت کا ایک قصبہ تھا۔ اس کا امیر شرف الدین بن قطب الدین تھا۔ سنجار کو اپنے قبضے میں لینے کا اقدام سلطان ایوبی کے اس منصوبے کی کڑی تھی جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اب کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگے گا بلکہ تلوار کی نوک پر تعاون حاصل کرے گا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے مسلمان امراء خودمختار حکمران رہنا چاہتے ہیں، اس لیے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کررہے ہیں۔ سنجار کے امیر شرف الدین کے متعلق سلطان ایوبی کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ والئی موصل عزالدین کا دوست ہے اور اس دوستی کی بنیاد یہی ہے کہ سلطان ایوبی کے خلاف محاذ مضبوط کیا جائے۔
حسن بن عبداللہ نے اپنے جاسوسوں کا جائزہ لیا۔ موصل میں اس کے جاسوس موجود تھے لیکن وہ محسوس کررہا تھا کہ کسی زیادہ ذہین اور جرأت مند جاسوس کو ان کے پاس بھیجا جائے کیونکہ اسے خیال تھا کہ صلیبیوں کا ذخیرہ معلوم کرنا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ حسن الادریس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ حسن بن عبداللہ اسے نہیں بھیجنا چاہتا تھا کیونکہ وہ لمبے عرصے تک بیروت رہا تھا، اس لیے اسے پہچانا جاسکتا تھا۔ حسن الادریس بھیس اور اپنا لب ولہجہ بدلنے کا ماہر تھا۔ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا کہ وہ اگر بیروت چلا جائے تو ایسا بہروپ دھارے گا کہ جو اسے پہچانتے ہیں، وہ بھی نہیں پہچان سکیں گے۔ موصل میں تو اسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ آخر اسی کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ور سلطان ایوبی نے خود اسے کچھ ہدایات دیں۔
''میرے عزیز دوست!''… سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر حسن الادریس سے کہا۔ ''تاریخ میں نام سلطان ایوبی کاآئے گا۔ شکست کھائوں گا تو تاریخ مجھے شرمسار کرے گی اور فتح حاصل کرکے مروں گا لوگ میری قبر پر پھول چڑھائیں گے اور آنے والی نسلیں مجھے خراج تحسین پیش کریں گی۔ یہ بہت بڑی بے انصافی ہوگی۔ فتح کا سہرا تمہارے سر ہوگا، تمہارے ان ساتھیوں کے سر ہوگا جو دشمن کے اندر جاکر خبر لاتے اور میری فتح کا باعث بنتے ہیں۔ خدا اس حقیقت کو دیکھ رہا ہے، تمہارے سر پر سہرا خدا اپنے ہاتھوں باندھے گا۔ میں شکست کھائوں گا تو یہ میری اپنی غلطی ہوگی کہ میں نے تمہاری اطلاع کے مطابق عمل نہ کیا اور میں فتح حاصل کروں گا تو یہ تمہاری فتح ہوگی کیونکہ میری آنکھیں اور میرے کان تم ہو۔ میری روح تمہاری قبر پر پھول چڑھاتی رہے گی۔ عظیم تم ہو اور تمہارے جاسوس ساتھی۔ میری کوئی عظمت نہیں، میں پوری فوج لے کر سنجار جارہا ہوں۔ تم اکیلے جارہے ہو۔ میں جو فتح پوری فوج کے ساتھ حاصل کروں گا، وہ تم اکیلے کرلو گے۔ جائو میرے دوست! خدا حافظ''۔
جب حسن الادریس ایک غریب مسافر کے بھیس میں ایک اونٹ پر سوار ہوکر نصیبہ کی خیمہ گاہ سے نکلا، اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا۔ وہ دور نکل گیا تو اسے بے شمار گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دینے لگے۔ وہ رک گیا۔ اسے معلوم تھا یہ گھوڑے کس کے ہیں، یہ صلاح الدین ایوبی سنجار کو محاصرے میں لینے جارہا تھا۔ اس نے نصیبہ سے اپنا کیمپ اکھاڑ انہیں تھا۔ اپنا ہیڈکوارٹر اور کچھ عملہ وہیں رہنے دیا ور اپنے محفوظہ (ریزروٹروپس) کو بھی تیاری کی حالت میں نصیبہ چھوڑ گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*