⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚 𝟝⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رونے کی آوازیں بدستور آرہی تھیں اور ان کے تیسرے ساتھی کی چیخوں کی گونج اس طرح بھٹک رہی تھی جیسے اوپر جاکر ان کے اوپر منڈلا رہی ہو دیوار کچھ چوڑی ہوگئی مارکونی نے گھوم کر اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اوپر کرلیا آگے وہ ذرا اطمینان سے چل سکتے تھے لیکن ہوا کے جھونکے اتنے تیز تھے کہ ان کے لیے توازن قائم رکھنا ذرا مشکل تھا وہ آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور دیوار ختم ہوگئی آگے زمین اور پہاڑیاں کچھ سخت تھیں دو چٹانوں کے درمیان تنگ سا راستہ تھا وہ اس میں داخل ہوگئے مارکونی کے ساتھی نے اس سے پوچھا جیفرے مرچکا ہوگا؟
اسے بچایا یا دیکھا نہیں جاسکتا؟
مارکونی نے اس کی طرف دیکھا آہ بھری اور نفی میں سر ہلایا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے کچھ کہے بغیر اپنے ساتھی کے کندھے پر تھپکی دی اور آگے چل پڑا یہ بھی ایک گلی سی تھی جو فراخ ہوتی جارہی تھی مارکونی نے اپنے ساتھی سے کہا ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں ایک ہی راستہ ملتا ہے ایک سے زیادہ راستے ہوں تو بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے
یہ گلی ختم ہوگئی آگے جگہ کشادہ ہوتے ہوتے بہت ہی کھل گئی اور زمین اوپر کو اٹھتی گئی ہوا ابھی تک تیز تھی مارکونی کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس ہیبت ناک علاقے میں کتنی دور اور اندر پہنچ گیا ہے اسے صرف یہ احساس رہ گیا تھا کہ دنیا سے اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ہے وہ صلیب کے نام پر دیوانہ ہوا جارہا تھا فرعون کا مدفن تلاش کرنے کا مقصد اس کے سامنے یہی تھا کہ اس سے نکلے ہوئے خزانوں سے مسلمانوں کو خرید کر انہیں سلطنت اسلامیہ کے ہی خلاف استعمال کیا جائے گا اور دنیا میں صلیب کی حکمرانی ہوگی وہ اپنے ڈرے ہوئے ساتھی کے ساتھ آگے بڑھتا گیا ہوا اسی طرف سے آرہی تھی پہاڑوں کی چوٹیاں دائیں بائیں کو ہٹ گئی تھیں اور سامنے آسمان نظر آرہا تھا مارکونی چڑھائی چڑھ رہا تھا رک گیا اور ہوا کو سونگھ کر بولا تم بھی سونگھو ہوا میں جو بو ہے وہ صحرا کی نہیں تمہارا دماغ جواب دے رہا ہے اس کے ساتھی نے کہا صحرا میں صحرا کی بو نہیں ہے تو اور کس کی ہے؟
تم اطالوی ہو شاید؟
شاید تمہیں اپنے گھر کی بو آرہی ہے
مارکونی کے چہرے پر کچھ اور تاثر تھا وہ ہوا کو سونگھ رہا تھا اس نے اپنے ساتھی سے کہا تم شاید ٹھیک کہتے ہو میرے دماغ پر صحرا کی صعوبت کا اثر ہوگیا ہے یہاں پانی نہیں ہوسکتا میں شاید خیالوں میں کھجوروں سبزے اور پانی کی بو سونگھ رہا ہوں میں اس بو سے اچھی طرح واقف ہوں یہ میرا تجربہ ہے مگر میرے سونگھنے کی حس مجھے دھوکہ دے رہی ہے اس جہنم میں پانی کی بوند بھی نہیں ہوسکتی
مارکونی! اس کے ساتھی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا میں بھی ایک بو سونگھ رہا ہوں موت کی بو مجھے موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے آؤ دوست! جدھر سے آئے ہیں ادھر ہی لوٹ چلیں اگر تم سمجھتے ہو کہ میں بزدل ہوں تو مجھے میدان جنگ میں بھیج دو ایک سو مسلمانوں کو کاٹنے سے پہلے نہیں مروں گا مارکونی زیادہ باتیں کرنے والا آدمی نہیں تھا اس نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر کہا ہم ایک سو نہیں ایک ہزار مسلمانوں کو کاٹیں گے اور مریں گے نہیں میرے ساتھ آؤ وہ ساتھی کو لے کر چڑھائی چڑھنے لگا چڑھائی زیادہ اونچی نہیں تھی زمین آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہی تھی سورج آگے نکل گیا تھا سائے لمبے ہوتے جارہے تھے ان دونوں کو تھکن نے چور کردیا تھا وہ آگے کو جھکے ہوئے بڑھتے گئے اور اوپر اٹھی ہوئی انتہائی بلندی تک پہنچ گئے ریت نے اس کی آنکھیں بھر دی تھیں مارکونی نے آنکھیں مل کر دیکھا آگے ڈھلان تھی اور چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں وہ ایک نیکری پر چڑھ گیا اس نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور بیٹھ گیا اس نے کہا تم اگر ریگستان سے اچھی طرح واقف ہو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سراب نظر آیا کرتے ہیں سامنے دیکھو اور بتاؤ کہ یہ سراب تو نہیں؟
اس کے ساتھی نے دیکھا آنکھیں بند کیں کھولیں اور غور سے دیکھا اس نے کہا یہ سراب نہیں ہوسکتا وہ واقعی سراب نہیں تھا انہیں کھجوروں کے کئی ایک درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں پتے ہرے تھے درخت نشیبی جگہ میں معلوم ہوتے تھے اور کچھ دور بھی تھے مارکونی ٹیکری سے آگے چلا گیا وہ اب دوڑ رہا تھا اس کا ساتھی اس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہاں عجیب وغریب شکلوں کی ٹیکریاں تھیں بعض ایسی جیسے کوئی انسان گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھا ہو کچھ بڑی تھیں کچھ چھوٹی مارکونی ان میں سے راستہ تلاش کرتا دوڑتا جارہا تھا سورج پہاڑیوں کی چوٹیوں کے قریب چلا گیا مارکونی کا سانس پھولنے لگا اس کا ساتھی قدم گھسیٹتا جارہا تھا مارکونی اچانک رک گیا اور آہستہ آہستہ یوں پیچھے ہٹنے لگا جیسے اس نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھ لی ہو اس کا ساتھی اس سے جاملا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا ان دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا انہیں ایک نشیب نظر آرہا تھا یہ کم وبیش ایک میل وسیع اور عریض تھا اس کے اردگرد مٹی اور ریت کی اونچی اونچی قدرتی دیواریں تھیں گہرائی کا یہ علاقہ سرسبز تھا کچھ اونچا نیچا بھی تھا وہاں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے صاف ظاہر تھا کہ وہاں پانی کی بہتات تھی ایسے جہنم میں ایسا سرسبز گوشہ فریب نگاہ نہیں تھا وہ اسی خطے کی بو تھی جو مارکونی نے سونگھی تھی مارکونی کو اس جگہ سے کچھ آگے ایسی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں جو ریت اور مٹی کی نہیں بلکہ پتھروں اور پتھریلی سلوں کی تھیں ان کا رنگ سیاہی مائل تھا اس جہنمی خطے کے باہر سے یہ پہاڑیاں نظر نہیں آتی تھیں اور اس سرسبز جگہ کا تو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا
مارکونی نے تیزی سے بیٹھ کر اپنے ساتھی کو بھی بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا انہیں ایک اور عجیب وغریب چیز نظر آگئی تھی یہ دو انسان تھے جو نشیب میں اسی طرف آرہے تھے وہ سر سے پاؤں تک ننگے تھے ان کے رنگ گہرے بادامی اور ان کے چہرے اچھے خاصے تھے کہیں سے ایک عورت نکلی وہ کسی اور طرف جارہی تھی وہ بھی سر سے پاؤں تک ننگی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے اور کمر تک لمبے تھے شکل وصورت سے یہ لوگ حبشی اور جنگی نہیں لگتے تھے
یہ بدروحیں ہیں مارکونی کے ساتھی نے کہا یہ انسان نہیں ہوسکتے مارکونی! سورج غروب ہونے والا ہے اٹھو پیچھے کو بھاگ چلیں رات کو یہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے
مارکونی انہیں بدروحیں سمجھتے ہوئے بھی کہہ رہا تھا کہ یہ انسان ہوسکتے ہیں وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں وہ ہوا میں اڑ نہیں رہے تھے زمین پر چل رہے تھے دور انہیں تین بچے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دوڑتے نظر آئے ان سب کی حرکتیں ایسی تھیں جن سے یقین ہوتا تھا کہ یہ انسان ہیں مارکونی پیٹ کے بل سرکتا آگے چلا گیا اس کا ساتھی بھی اس کے پہلو میں جالیٹا وہ جہاں لیٹ کر دیکھ رہے تھے وہاں کی دیوار عمودی نہیں کچھ ڈھلانی تھی اور ریت زیادہ تھی مارکونی کے ساتھی نے غالباً اور آگے ہونے کی کوشش کی یا جانے کیا ہوا وہ نیچے کو سرک گیا اور لڑھکتا ہوا نیچے جا پڑا وہاں سے اوپر آنا ممکن نہیں تھا مارکونی پیچھے کو سرک کر ایک ایسی ٹیکری کی اوٹ میں ہوگیا جہاں سے وہ نیچے دیکھ سکتا تھا یہ ڈھلان جہاں سے صلیبی گرا تھا تیس چالیس گز اونچی ہوگی مارکونی نے اپنے ساتھی کو اٹھتے دیکھا وہ ڈھلان پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا مارکونی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا
وہ دو ننگے آدمی جو اسی طرف آرہے تھے دوڑ پڑے مارکونی نے انہیں اوپر سے دیکھ لیا اس کے ساتھی نے نہ دیکھا مارکونی اسے آواز نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہاں کوئی اور انسان بھی ہے ان دو آدمیوں نے مارکونی کے ساتھی کو پیچھے سے دبوچ لیا اس کے پاس خنجر تھا اور ایک چھوٹی تلوار بھی مگر ہتھیار نکالنے کا موقع نہ ملا ان آدمیوں نے اسے نیچے گرا لیا وہ عورت جو کہیں جارہی تھی دوڑتی آئی ادھر سے بچے بھی آگئے انہوں نے اپنی زبان میں کسی کو پکارا معلوم نہیں کہاں سے دس بارہ آدمی سب ننگے تھے دوڑتے آئے ایک نے مارکونی کے ساتھی کی کمر سے تلوار نکال لی اسے گرا لیا گیا اور مارکونی نے دیکھا کہ تلوار سے اس کے ساتھی کی شہ رگ کاٹ دی سب آدمی ناچنے لگے وہ کچھ گا بھی رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے اتنے میں ایک ضعیف العمر انسان آگیا اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا اسے دیکھ کر سب ایک طرف ہٹ گئے
یہ بوڑھا بھی ننگا تھا اس کے عصا کے اوپر والے سرے پر دو سانپوں کے پھن بنے ہوئے تھے یہ فرعونوں کا امتیازی نشان ہوا کرتا تھا بوڑھے نے مارکونی کے ساتھی کے جسم کو ہاتھ لگایا وہ اب تڑپ نہیں رہا تھا مرچکا تھا بوڑھے نے ایک ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ کہا تمام ننگے انسان جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی سجدے میں گر پڑے بوڑھا ابھی تک کچھ بول رہا تھا اس نے ہاتھ پھر اوپر کیا اور سب سجدے سے سر اٹھا کر اٹھ کھڑے ہوئے بوڑھے کو ڈھلان کی طرف اشارے کرکے بتایا جارہا تھا کہ یہ آدمی ادھر سے نیچے آیا ہے بوڑھے کے اشارے پر وہ لوگ مارکونی کے ساتھی کی لاش کو اٹھا لے مارکونی کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ یہ پراسرار انسان اوپر آکر ہر طرف دیکھیں گے کہ نیچے گرنے والے کے ساتھی بھی اوپر ہوں گے وہ کچھ دیر وہیں سے نیچے دیکھتا رہا
پھر سورج غروب ہوگیا مارکونی نے موت کو قبول کرلیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ اس جگہ اور ان لوگوں کے بھید کو پانے کی کوشش کرے گا اس نے ایک ہاتھ میں خنجر اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی تلوار لے لی اور ادھر ادھر دیکھتا ایک اور سمت چل پڑا شام اندھیری ہوتی جارہی تھی وہ اوپر ہی اوپر سے اس طرف جارہا تھا جس طرف وہ اس کے ساتھی کو لے گئے تھے وہاں کوئی آہٹ اور کوئی آواز نہیں تھی ڈراؤنا سا سکوت تھا وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتا آگے ہی آگے چلتا گیا وہ نشیب کی گولائی کے ساتھ ساتھ جارہا تھا اسے دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دینے لگیں جب یہ آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ ناچنے اور گانے کا ترنم اور ہنگامہ تھا وہ ان آوازوں کی سمت گیا تو اسے ایک اور منظر نظر آیا بائیں طرف ایک اور وسیع نشیبی جگہ تھی کئی مشعلیں جل رہی تھیں وہاں بھی سبزہ تھا جہاں کم وبیش پچیس مرد عورتیں اور بچے آہستہ آہستہ ناچ اور گا رہے تھے ان کے درمیان بہت سی آگ جل رہی تھی اس کے ذرا اوپر ایک انسانی لاش سر اور پاؤں سے باندھ کر زمین کے متوازی لٹکائی ہوئی تھی اسے گھمایا جارہا تھا یہ مارکونی کا ساتھی تھا جسے بھونا جارہا تھا مارکونی یہ ہولناک منظر دیکھتا رہا اور اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بوڑھے نے اس کے ساتھی کے جسم سے گوشت کاٹ کر سب میں تقسیم کرنا شروع کردیا
مارکونی کے دل پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہاں سے ادھر کو واپس چل پڑا جدھر سے آیا تھا اسے راستہ یاد تھا وہ چوکنا ہوکر چلا جارہا تھا وہ اس دیوار پر پہنچا جو تصوروں سے زیادہ گہرے نشیب میں کھڑی تھی یہیں اس کا ایک ساتھی گرا تھا وہ جب دیوار کے درمیان اس جگہ پہنچا جہاں سے اس کا ساتھی گرا تھا اسے دور نیچے غرانے اور بھونکنے کی دبی دبی آوازیں سنائی دیں وہ سمجھ گیا کہ صحرائی لومڑیاں اس کے ساتھی کو کھا رہی ہیں اس کے دوسرے ساتھی کو تو انسان کھا گئے تھے اب ہوا تیز نہیں تھی وہ تاریکی میں سنبھل سنبھل کر چلتا اور سرکتا دیوار سے گزر گیا رات کے پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچا جہاں تین اونٹ بیٹھے تھے اس نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ اونٹوں کے ساتھ بندھا ہوا پانی پی لیتا وہ ایک اونٹ پر بیٹھا دو اونٹوں کو ساتھ لیا اور چل پڑا وہ اگلے دن کی شام تھی جب مارکونی ایک معزز مصری سودا گر کے روپ میں احمر درویش کے گھر میں داخل ہوا احمر نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تم اکیلے ہو وہ دونوں کہاں ہیں؟
مارکونی جواب دینے کے بجائے بیٹھ گیا اس کے تو ہوش ہی ٹھکانے معلوم نہیں ہوتے تھے اس نے احمر کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اسے ایک ایک لمحے لمحے اور ایک ایک قدم کی روئیداد سنائی احمر کو مارکونی کے دو ساتھیوں کے مرنے کا ذرہ بھر افسوس نہ ہوا اس نے جب سنا کہ ایک ساتھی کو ننگے آدم خوروں نے کھا لیا ہے تو اس نے خوشی سے اچھل کر پوچھا کیا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ان میں سے کسی کے بھی جسم پر کپڑا نہیں تھا؟
بوڑھے کے عصا پر دو سانپوں کے پھن تم نے دیکھے تھے؟
تم نے اچھی طرح دیکھا تھا کہ ان لوگوں نے ہمارے آدمی کا گوشت کھالیا تھا؟
میں خواب کی باتیں نہیں سنا رہا مارکونی نے جھنجھلا کر کہا مجھ پر جو بیتی ہے میں وہ سنا رہا ہوں میں نے یہ اپنی آنکھوں دیکھا ہے جو سنا رہا ہوں
فرعون بھی یہی سنا رہے ہیں جو تم نے سنایا ہے احمر درویش نے اٹھ کر مارکونی کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے مسرت کی شدت سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا تم نے بھید پالیا ہے مارکونی! یہی ہیں وہ لوگ جن کی مجھے تلاش تھی یہ قبیلہ سولہ صدیوں سے وہاں آباد ہے یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ زمانہ انہیں انسان کا گوشت کھانے پر مجبور کردے گا تم یہ تحریریں نہیں پڑھ سکتے میں نے پڑھ لی ہیں لکھا ہے کہ خزانوں کی حفاظت سانپ کیا کرتے ہیں لیکن میرے مدفن کی حفاظت انسان کریں گے جو صدیوں بعد سانپ اور درندے بن جائیں گے میرے مدفن کی حدود میں کوئی انسان داخل ہوگا اسے میرے محافظ کھا جایا کریں گے وقت اور زمانہ انہیں ننگا کردے گا لیکن میں نے جہاں اپنا دوسری دنیا کا گھر بنایا ہے وہ جگہ اس کی ستر پوشی کرے گی باہر کا کوئی مرد ان کی عورت پر نظر نہیں ڈال سکے گا جو نظر ڈالے گا وہ وہاں سے زندہ نہیں جاسکے گا میں زندہ واپس آگیا ہوں مارکونی نے کہا اس لیے کہ تم نیچے نہیں گئے احمر نے کہا تم نے جن سیاہ رنگ کے پتھریلے پہاڑوں کا ذکر کیا ہے وہ پہاڑ اپنے دامن میں کہیں ریمینس کی حنوط کی ہوئی لاش اور خزانے چھپائے ہوئے ہیں اور یہ ننگے لوگ؟
ان کے آباؤ اجداد اور ریمنس کے وقت سے وہاں پہرہ دے رہے ہیں اور پندرہ سولہ صدیاں گزر گئیں میں بتا نہیں سکتا کہ وہ زندہ کس طرح رہتے ہیں شاید درندوں کی طرح صحرا کے مسافروں کے شکار میں رہتے اور انہیں بھون کر کھا لیتے ہیں وہاں پانی کی افراط ہے کھجوروں کی کمی نہیں ان کا زندہ رہنا حیران کن نہیں وہ آج بھی فرعونوں کو خدا سمجھتے ہیں اگر ان کے عقیدے ٹوٹ چکے ہوتے تو وہ وہاں نہ ہوتے تم نے ان کے پاس کوئی ہتھیار دیکھے تھے؟
نہیں!
ان کی تعداد کا کچھ اندازہ رات کو جب اکٹھے تھے تو پچیس تھے
وہ اس سے زیادہ ہو بھی نہیں سکتے احمر درویش نے کہا
ہاں! مارکونی نے کہا میں نے ان کے پاس دو اونٹ بھی دیکھے تھے اونٹ زیادہ بھی ہوسکتے ہیں مگر میں نے صرف دو دیکھے تھے
پھر وہ باہر آتے ہوں گے احمر درویش نے کہا وہ باہر ضرور آتے ہوں گے مسافروں کو پکڑنے کے لیے انہیں باہر آنا ہی پڑتا ہوگا سنو مارکونی! غور سے سنو وہاں کوئی ایسا سیدھا راستہ ضرور ہے جس سے وہ باہر آتے اور اندر جاتے ہوں گے یہ پہاڑوں کا کوئی خفیہ راستہ ہوگا میں نے تمہیں جو راستہ بتایا تھا وہ آنے جانے کا ایسا راستہ نہیں جس سے بار بار آیا جایا جاسکے وہاں کوئی اور راستہ ہے جو ان ننگے آدم خوروں سے معلوم کیا جاسکتا ہے میں اس کی ترکیب سوچ چکا ہوں ترکیب یہ ہے کہ وہاں باقاعدہ حملہ کیا جائے ہوسکتا ہے ہمیں اس دیوار نما ٹیلے سے جس سے تمہارا ایک ساتھی گر کر مرا ہے اور آدمی گرا کر مارنے پڑیں لیکن یہ قربانی ضروری ہے بتاؤ پچیس تیس نہتے آدمیوں کو جن میں بچے اور عورتیں بھی ہیں مارنے کے لیے اور ان میں دو تین کو زندہ پکڑنے کے لیے تمہیں کتنے آدمی درکار ہیں؟
کم سے کم بتاؤ تم ان آدمیوں کے رہنما اور سربراہ ہوگے میں ترکیب سمجھ گیا ہوں مارکونی نے کہا ایک ترکیب میرے دماغ میں بھی آئی ہے ہم انہیں قتل کرسکتے ہیں دو تین کو زندہ پکڑ سکتے ہیں لیکن میں آپ کو یہ یقین نہیں دلا سکتا کہ وہ اس جگہ کے تمام بھید ہمیں بتا دیں گے اپنے قبیلے کو مرتا دیکھ کر وہ بھی مرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے لیکن بتائیں گے کچھ نہیں میں ایسی ترکیب کروں گا کہ ان میں سے ایک دو آدمی باہر کو بھاگ اٹھیں اور ان کا تعاقب کیا جائے راستہ معلوم ہوجائے گا
تم دانشمند ہو مارکونی! احمر درویش نے کہا بتاؤ کتنے آدمی ہوں؟
پچاس! مارکونی نے جواب دیا اور کہا زیادہ تر آدمی میرے منتخب کیے ہوئے ہوں گے میں انہیں تلاش کر لوں گا مگر مہم کے آغاز سے پہلے میں اپنی شرطیں پیش کرنا چاہتا ہوں
تمہیں منہ مانگا انعام ملے گا احمر نے کہا مجھے خزانے سے حصہ ملنا چاہیے مارکونی نے کہا اتنی خطرناک مہم میرے فرائض میں شامل نہیں میں جاسوس اور تخریب کار ہوں مجھے خزانے کی تلاش کے لیے نہیں بھیجا گیا یہ آپ کی ذاتی مہم ہے میں انعام نہیں منہ مانگا حصہ لوں گا اگر آپ کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو آپ کو ایک ریاست کی حکمرانی مل جائے گی میں جاسوس کا جاسوس رہوں گا یہ مہم اور یہ منصوبہ ذاتی نہیں احمر درویش نے کہا یہ مصر صلیب اور سوڈان کی حکمرانی کا منصوبہ ہے
مارکونی اپنے مطالبہ پر قائم رہا احمر مجبور ہوگیا اسے احساس تھا کہ مارکونی کے سوا ریمینس کے مدفن تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا اس کے مطالبے ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا مارکونی نے کہا معلوم نہیں مجھے کتنے دن صحرا میں رہنا پڑے میں ایسی سخت اور خشک خوراک پسند نہیں کروں گا مجھے دو تین اونٹ فالتو دئیے جائیں جو میں اور میرے ساتھی بھون کر کھا سکیں اور مجھے قدومی دی جائے
قدومی؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
احمر درویش نے حیرت سے کہا اتنی نازک اور ایسی اعلیٰ درجے کی رقاصہ کو تمہارے ساتھ ایسی خطرناک مہم میں روانہ کردوں؟
وہ جانے پر بھی راضی نہیں ہوگی اسے زیادہ معاوضہ پیش کریں وہ راضی ہوجائے گی مارکونی نے کہا میں اس کے لیے ایسا انتظام کروں گا کہ وہ محسوس ہی نہیں کرسکے گی کہ وہ صحرا میں ہے اور کسی خطرناک مہم میں شریک ہے میں اس کی قدر وقیمت سے واقف ہوں
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دولت مند تاجر اپنی چہیتی بیویوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے اپنی بیویوں میں سے کوئی پسند نہ ہو تو کسی من پسند طوائف یا رقاصہ کو منہ مانگا معاوضہ دے کر ہمسفر بنا لیتے تھے فوجوں کے کمانڈر بھی جنگ کے دوران اپنی بیویوں یا کرائے کی خوبصورت عورتوں کو ساتھ رکھا کرتے تھے اس دور میں خوبصورت اور جوان عورت کو سونے سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ صلیبیوں اور یہودیوں نے سلطنت اسلامی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے عورت کا استعمال کیا تھا
اچانک گرم ہوا کہ جھونکے تیز ہونے لگے ریت اڑنے لگی اور اس کے ساتھ عورتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دینے لگیں دو یا تین عورتیں اونچی آواز میں رو رہی تھیں مارکونی کے ساتھی گھبرا گئے
مارکونی نے کان کھڑے کیے ایک ساتھی نے کہا اس دوزخ میں کوئی عورت زندہ نہیں ہوسکتی یہ بدروحیں ہیں یہ کچھ بھی نہیں ہے مارکونی نے کہا بدروحیں بھی نہیں زندہ عورتیں بھی نہیں یہ ہوا کی پیدا کی ہوئی آوازیں ہیں اس علاقے میں بعض ٹیلوں میں لمبے لمبے سوراخ ہیں جو دونوں طرف کھلتے ہیں اور بعض چٹانوں کی شکل ایسی ہے کہ ان سے تیز ہوا کے جھونکے گزرتے ہیں تو اس قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جو تم سن رہے ہو نیچے اتنی گہری اور اتنی وسیع کھائی ہے اس پر یہ ننگے پہاڑ کھڑے ہیں یہ آوازوں میں گونج پیدا کرتے ہیں یہ گونج ہر طرف بھٹکتی رہتی ہے ڈرو نہیں
مگر اس کے ساتھیوں پر ایسا خوف طاری ہوگیا تھا جس پر وہ قابو نہیں پاسکتے تھے یہ آوازیں ہوا کی نہیں تھیں قریب ہی کہیں عورتیں یا بدروحیں رو رہی تھیں انہوں نے مارکونی کا پیش کیا ہوا فلسفہ تسلیم نہ کیا آوازیں ہی ایسی تھیں ہوا تیز ہوتی جارہی تھی ٹیلوں سے اور زمین سے ریت کے ہلکے ہلکے بادل اڑنے لگے تھے جن سے اب زیادہ دور تک نظر نہیں آسکتا تھا مارکونی نے اس قدرتی دیوار پر پہلا قدم رکھا جو اس بھیانک نشیب میں کھڑی تھی وہاں جگہ اتنی کچی تھی کہ ریت اور مٹی میں پاؤں دھنس گیا اس نے دوسرا پاؤں آگے رکھا اور نیچے دیکھا گہرائی دیکھ کر وہ سر سے پاؤں تک کانپ گیا اب اس گہرائی کی تہہ بالکل ہی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ ریت اڑ رہی تھی یوں لگتا تھا جیسے اس کی تہہ ہے ہی نہیں مارکونی چند قدم آگے چلا گیا وہاں اس کے دائیں یا بائیں کوئی ٹیلا نہیں تھا وہ تو جیسے ہوا میں کھڑا تھا ہوا کے تیز جھونکوں نے اس کے جسم کو دھکیل دھکیل کر اس کا توازن بگاڑ دیا رونے کی آوازیں اور بلند ہوگئیں اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا آرام آرام سے پاؤں جماتے آؤ نیچے بالکل نہ دیکھنا یہ تصور کرتے آنا کہ تم زمین پر چل رہے ہو اس کے دونوں ساتھیوں پر پہلے ہی خوف طاری تھا دیوار پر تین چار قدم آگے گئے تو ہوا کی تندی نے ان کے پاؤں اکھاڑ دئیے ان کے جسم ڈولنے لگے مارکونی ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا وہ وسط میں پہنچ گئے اور وہاں مارکنی نے دیکھا کہ دیوار ٹوٹی ہوئی ہے اور ذرا نیچے چلی گئی ہے وہاں چوڑائی اتنی کم تھی کہ کھڑے ہوکر چلا نہیں جاسکتا تھا مارکونی بیٹھ گیا اور گھوڑے کی سواری کی پوزیشن میں ٹانگیں ادھر ادھر کرکے آگے کو سرکنے لگا دیوار کی چوڑائی کم اور گول ہوتی جارہی تھی مارکونی نیچے کو سرک گیا اس کے پیچھے اس کا ایک ساتھی بھی آگے چلا گیا اچانک تیسرے ساتھی کی بے حد گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی مارکونی مجھے پکڑنا مگر اس تک کوئی نہ پہنچ سکا وہ ایک طرف لڑھک گیا تھا کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں جو دور ہی دور ہوتی گئیں پھر دھمک کی آواز آئی چیخیں بند ہوگئیں انجام ظاہر تھا مارکونی نے نیچے دیکھا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا گر کر مرنے والے کی چیخوں کی گونج ابھی تک اس دہشت ناک ویرانے میں بھٹک رہی تھی مجھے اپنے ساتھ رکھو مارکونی! دوسرے ساتھی نے کہا اس کی آواز کانپ رہی تھی میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتا
مارکونی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آگے بڑھنے لگا دیوار اوپر اٹھ رہی تھی مارکونی بیٹھے بیٹھے آگے بڑھتا گیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک وہ محاذ تھا جس پر نورالدین زنگی لڑ رہا تھا اس نے کرک کا قلعہ فتح کرکے وہاں کے اور مضافات کے علاقوں میں انتظامات مکمل کرلیے تھے اس کے گشتی دستے دور دور تک گشت کرتے تھے تاکہ صلیبی کسی طرف سے جوابی حملے کے لیے آئیں تو قبل از وقت اطلاع مل جائے ان دستوں کا تصادم صلیبی دستوں سے ہوتا رہتا تھا زنگی تمام انتظامات سلطان ایوبی کی فوج کے حوالے کرکے بغداد واپس جانے کی تیاریاں کرنا چاہتا تھا وہ سلطان ایوبی کے انتظار میں تھا مگر سلطان ایوبی دوسرے محاذ پر لڑ رہا تھا جو صلیبیوں اور ان کے پیدا کردہ غداروں نے مصر میں کھول رکھا تھا یہ محاذ زیادہ خطرناک تھا سلطان ایوبی اس زمین دوز محاذ پر لڑنے کی اہلیت رکھتا تھا وہ خوب مقابلہ کررہا تھا مگر اسے ابھی پتہ نہیں چلا تھا کہ ایک محاذ اور بھی کھل گیا ہے یہ تھا فرعونوں کے مدفنوں کی تلاش
شام کے کھانے کے بعد سلطان ایوبی اس کمرے میں گیا جہاں وہ اپنے سالاروں اور دیگر حکام کو اکٹھا کرکے احکامات اور ہدایات دیا کرتا تھا وہاں فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کے علاوہ علی بن سفیان اور غیاث بلبیس بھی تھے سلطان ایوبی کو اسی روز نورالدین زنگی کا ایک طویل تحریری پیغام ملا اس نے اس پیغام کے ضروری حصے کمانڈروں کو سنائے زنگی نے لکھا تھا عزیز صلاح الدین اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ سلامت رکھے اسلام کو تمہاری بہت ضرورت ہے کرک اور گردوپیش کے علاقے دشمن سے صاف ہوچکے ہیں گشتی دستے جاتے ہیں تو صلیبیوں کا کوئی دستہ کبھی ہمارے کسی دستے سے الجھ پڑتا ہے صلیبی مجھ پر یہ رعب ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ابھی یہیں ہیں تمہارے تیار کیے ہوئے چھاپہ مار دستے تعریف کے قابل ہیں یہ بہت دور تک چلے جاتے ہیں تم نے ان پر جو محنت کی ہے وہ اس کا صلہ دے رہے ہیں تمہارے جاسوس ان سے بھی دلیر اور عقل مند ہیں ان کی نظروں سے میں اتنی دور بیٹھا ہوا دشمن کی ہر ایک حرکت دیکھ رہا ہوں
تازہ اطلاع یہ ہے کہ صلیبی شاید جوابی حملہ نہ کریں وہ ہمیں انگیخت کررہے ہیں کہ ہم آگے جاکر ان پر حملہ کریں تم جانتے ہو کہ بیت المقدس جو ہماری منزل ہے اور قبلۂ اول جو ہمارا مقصود ہے کتنی دور ہے میں جانتا ہوں کہ تم ان فاصلوں سے اور ان مسافتوں سے گھبرانے والے انسان نہیں ہو لیکن فاصلے زیادہ نہیں دشواریاں اور رکاوٹیں زیادہ ہیں بیت المقدس تک ہمیں بہت سے قلعے سر کرنے ہوں گے ان میں چند ایک قلعے تو بہت مضبوط ہیں صلیبیوں نے قبلۂ اول کا دفاع دور دور کی قلعہ بندیوں کی صورت میں بہت مضبوط کررکھا ہے جاسوسوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ صلیبی اس کوشش میں ہیں کو یونانیوں بازنطینیوں اور اطالویوں کا بحری بیڑہ متحدہ ہوجائے اور مصر پر حملہ آور ہوکر شمالی علاقے میں فوجیں اتار دے تمہیں اس صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے پیش بندی کرلو تمہارے پاس دور مار آتشیں گولے پھینکنے والی منجنیقیں زیادہ ہونی چاہئیں میں یہ مشورہ دوں گا کہ شمالی علاقے کی زمین اجازت دے تو دشمن کے بحری بیڑے کو ساحل تک آنے دو وہاں مزاحمت نہ کرو دشمن کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردو کہ اس نے تمہیں بے خبری میں آن دبوچا ہے فوجیں اتر آئیں تو جہازوں پر آگ برساؤ اور صلیبی فوج کو اپنی پسند کے میدان میں گھسیٹ لاؤ
میں تمہاری مجبوریوں سے بے خبر نہیں ہوں تمہارے قاصد نے تمام حالات بتائے ہیں رب کعبہ کی قسم صلیبیوں کی ساری بادشاہیاں طوفان کی طرح آجائیں تو بھی امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں امت لہو دینا جانتی ہے یہ سرفروشوں کی امت ہے مگر ایمان فروشوں نے ہمیں زنجیریں ڈال رکھی ہیں تم قاہرہ میں قید ہوگئے ہو میں بغداد سے نہیں نکل سکتا عورت شراب اور زر و دولت نے ہماری صفوں میں شگاف کر ڈالے ہیں اگر ہمارے گھر میں سکون اور اعتماد ہوتا تو ہم دونوں صلیب کا مقابلہ کرتے مگر کفار نے ایسا طلسم پیدا کیا ہے کہ مسلمان بھی کافر ہوگئے ہیں یہ کافر مسلمان اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ ان کا دشمن ان کی بیٹیوں کی عصمت سے کھیل رہا ہے کرک کے مسلمان بہت بری حالت میں تھے صلیبیوں نے ان پر جو مظالم ڈھائے وہ سنو تو لہو کے آنسو روؤ میں اپنی قوم کے غداروں کو کیسے سمجھاؤں کہ دشمن کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے
تم نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تمہارے اپنے بھائی اور اچھے اچھے حاکم اور کمان دار تمہارے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں صلاح الدین ایوبی! افسوس اس پر نہیں کہ وہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ غدار ہوئے اور یہ بھی افسوسناک ہے کہ صلیبی خوش ہورہے ہوں گے کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان کے ہاتھوں قتل کرا رہے ہیں تم غداروں کو بخش نہیں سکتے غدار کی سزا قتل ہے میں تمہارا انتظار کررہا ہوں تم جب آؤ تو تمہارے ساتھ فوج زیادہ ہونی چاہیے صلیبی تمہیں قلعہ بندیوں میں لڑا کر تمہاری طاقت زائل کرنا چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بیت المقدس کے راستے میں ہی تم بے دست پا ہو جاؤ تم جب آؤ تو مصر کے اندرونی حالات کو پوری طرح قابو میں کرکے آنا سوڈانیوں کی طرف سے چوکنا رہنا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سامنے کچھ مالی مسائل بھی ہیں میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کروں گا بہتر ہے کہ اپنے مسائل خود ہی حل کرنے کی کوشش بھی کرو کہ قاہرہ سے جلدی نکل آؤ لیکن اندر اور باہر کے حالات دیکھ کر وہاں سے نکلنا اللہ تمہارا حامی ہے
صلاح الدین ایوبی نے مجلس کے حاضرین کو یہ پیغام پڑھ کر سنایا اور انہیں یہ امید افزا خبریں سنائیں کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے دیہاتی علاقے سے لوگ آنے لگے ہیں توہم پرستی کی جو مہم دشمن نے شروع کی تھی وہ ختم کردی گئی ہے لیکن کہیں کہیں اس کے اثرات باقی ہیں ایک فتور مسجدوں سے بھی اٹھا تھا اسے بھی دبا لیا گیا ہے تین چار اماموں نے انہیں توہمات کو جو صلیبیوں نے ہمارے مذہب میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا شروع کر دیا تھا انہوں نے اپنے آپ کو خدا کا ایلچی بنا لیا تھا ہمارے سامنے ایسے لوگ آئے ہیں جو کسی مصیبت کے وقت براہ راست خدا سے دعا مانگنے کے بجائے اماموں کو نذرانے دیتے رہے کہ وہ ان کے لیے دعا کریں یہ وہم پھیلا دیا گیا تھا کہ عام آدمی خدا سے کچھ نہیں مانگ سکتا نہ خدا اس کی سنتا ہے سلطان ایوبی نے کہا میں نے ان اماموں کو مسجدوں سے نکال دیا ہے اور مسجدیں ایسے اماموں کے حوالے کردی ہیں جن کے نظریات اور عقیدے قرآن کے عین مطابق ہیں وہ اب لوگوں کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ مسلمان کا خدا عالم اور بے علم کے لیے امیر اور غریب کے لیے حاکم اور رعایا کے لیے ایک جیسا ہے وہ ہر کسی کی دعا سنتا ہے اچھے عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا دیتا ہے میں اپنی قوم میں یہی قوت اور یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اور خدا کو سمجھنے کی کوشش کریں میرے دوستو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارا دشمن صرف میدان جنگ میں نہیں لڑ رہا وہ تمہارے دلوں میں نئے عقیدے ڈال رہا ہے یہودی اس مہم میں پیش پیش ہے یہودی اب کبھی تمہارے آمنے سامنے آکر نہیں لڑے گا وہ تمہارے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے اس عمل میں اتنی جلدی کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن وہ ناکام بھی نہیں ہوگا وہ وقت آئے گا جب خدا کی دھتکاری ہوئی یہ قوم مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ایسی چال چلے گی کہ اپنے مقصد کو پالے گئی اس کا خنجر سلطنت اسلامیہ کے سینے میں اتر جائے گا اگر اپنی تاریخ کو اس ذلت سے بچانا چاہتے ہو تو آج ہی پیش بندی کرلو اپنی قوم کے قریب جاؤ اپنے آپ کو حاکم اور قوم کو محکوم سمجھنا چھوڑ دو ان میں اتنا وقار پیدا کرو کہ یہ قومی وقار پر جانیں قربان کردیں سلطان ایوبی نے بتایا کہ صلیبیوں کے پاس عورت اور دولت ہے اور ہمارے ہاں ان دونوں کا لالچ موجود ہے ہمارے سامنے ایک مہم یہ بھی ہے کہ قوم کے دل سے عورت اور دولت کا لالچ نکال دیں اس کے لیے ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے امیر محترم! ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا ہمیں دولت کی ضرورت بھی ہے اخراجات پورے کرنے مشکل ہورہے ہیں ہمیں بعض کاموں میں مشکل پیش آتی ہے میں یہ مشکل آسان کردوں گا سلطان ایوبی نے کہا تمہیں یہ حقیقت ہمیشہ کے لیے قبول کرنی پڑے گی کہ مسلمانوں کے پاس دولت کی اور فوج کی کمی رہی ہے اور رہے گی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے پہلی جنگ تین سو تیرہ مجاہدین کی طاقت سے لڑی تھی اس کے بعد مسلمان جہاں بھی لڑے اسی تناسب سے لڑے مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی کبھی نہیں رہی دولت چند ایک افراد کے گھروں میں چلی گئی اب بھی ہماری قوم کا یہی حال ہے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے جو مالک مسلمان ہیں ان کے پاس دولت کے ڈھیر پڑے ہیں دولت کے ڈھیر یہاں بھی پڑے ہیں سالاراعظم غیاث بلبیس نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم ایک نئی مہم شروع کرسکتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ مصر خزانوں کی سرزمین ہے یہاں جو فرعون بھی مرا وہ اپنا تمام تر خزانہ اپنے ساتھ زمین کے نیچے لے گیا وہ خزانے کس کے تھے؟
یہ اس غریب مخلوق کی دولت تھی جسے بھوکا رکھ کر اس سے سجدے کرائے گئے اس دور کے انسان نے فرعون کو خدا صرف اس لیے کہا تھا کہ وہ انسان بھوکا تھا اس کی قسمت فرعونوں کے ہاتھ میں تھی اس کی زندگی اور موت بھی فرعونوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی انسانوں سے زمین کھدوا کر اور پہاڑ کٹوا کر فرعونوں نے اپنے زمین دوز مقبرے بنائے تو وہ ایسے جیسے ان کے محل تھے ان میں انہوں نے وہ دولت ڈھیر کرلی جو لوگوں کی تھی اگر آپ اجازت دیں تو ہم فرعونوں کے زمین دوز مقبروں اور مدفنوں کی تلاش شروع کردیں اور خزانے ملک اور قوم کی خاطر استعمال کریں غیاث بلبیس کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں یہی صحیح ہے امیر محترم! ہم نے اس سے پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا ہم اس مہم میں فوج کو استعمال کرسکتے ہیں شہری آبادی سے ایک لشکر جمع کیا جاسکتا ہے ہاں ہاں غیر فوجیوں کو استعمال کیا جائے اور انہیں اجرت دی جائے مجلس میں ہنگامہ سا بپا ہوگیا ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا اگر کوئی خاموش تھا تو وہ صلاح الدین ایوبی تھا مجلس میں بہت دیر بعد یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا امیر اور سالار اعظم خاموش ہے مجلس پر بھی خاموشی طاری ہوگئی سلطان ایوبی نے سب پر نگاہ ڈالی اور کہا میں اس مہم کی اجازت نہیں دے سکتا جس کی تجویز غیاث بلبیس نے پیش کی ہے مجلس پر سناٹا طاری ہوگیا کسی کی توقع نہیں تھی کہ سلطان ایوبی اس تجویز کو ٹھکرا دے گا اس نے کہا میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد تاریخ مجھے قبر چور اور مقبروں کا ڈاکو کہے تاریخ نے مجھے ذلیل کیا تو اس میں تمہاری بھی ذلت ہوگی آنے والی نسلیں کہیں گی کہ صلاح الدین ایوبی کے مشیر اور وزیر بھی قبر چور تھے صلیبی اس الزام کو خوب اچھالیں گے اور تمہاری قربانیوں اور جذبۂ اسلام کو ڈکیتی اور راہزنی کا نام دے کر تمہیں تمہاری ہی نسلوں میں رسوا کردیں گے اور تم ہی نہیں ہماری تاریخ ذلیل اور رسوا ہوجائے گی گستاخی معاف امیر محترم! علی بن سفیان نے کہا تھوڑے سے عرصے کے لیے مصر صلیبیوں کے قبضے میں آیا تھا انہوں نے سب سے پہلے یہاں کے خزانوں کی تلاش شروع کی تھی قاہرہ کے مضافات میں ہم نے جن کھنڈروں سے صلیبی تخریب کاروں اور فدائیوں کا ایک گروہ پکڑا تھا وہ کسی فرعون کا مدفن تھا وہاں سے وہ سب کچھ لے گئے تھے صلیبیوں کی حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہی ورنہ وہ یہاں کے تمام خزانے نکال کر لے جاتے محترم غیاث بلبیس نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ خزانے اگر کسی کی ملکیت ہیں تو وہ فرعون نہیں تھے
ان کے مالک اس وقت کے انسان تھے میں یہ مشورہ پیش کرنے کی جرأت ضرور کروں گا کہ یہ خزانے نکال کر آج کے انسان کی فلاح وبہبود اور وقار کے لیے استعمال کیے جائیں اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں سلطان ایوبی نے کہا کہ یہ خزانے تمہارے سامنے آئے تو تم بھی فرعون بن جاؤ گے انسان کو یہ جرأت کس نے دی تھی کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھے؟
دولت اور دولت کی ہوس نے انسان کو انسان کے آگے سجدہ کس نے کرایا تھا؟
مفلسی اور بھوک نے تم صلیبیوں کی بات کرتے ہو کہ انہوں نے فرعونوں کے ایک مدفن کو لوٹا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب پہلے فرعون کی لاش تمام تر خزانے کے ساتھ زمین میں دبائی گئی تھی قبر چوری اسی وقت شروع ہوگئی تھی انسان وحشیوں اور درندوں کی طرح پہلے فرعون کے مدفن پر ٹوٹ پڑے تھے ان کا دین اور ایمان صرف دولت بن گیا تھا پھر فرعون مر کر اپنے خزانے زمین میں لے جاتے رہے اور قبر چوری باقاعدہ پیشہ بن گئی اس کے بعد ہر فرعون نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مدفن کسی ایسی جگہ تیار کرایا کہ کوئی اسے کھول نہ سکے اور جب فرعونوں کا دور ختم ہوگیا تو مصر جس کے قبضے میں بھی آیا اس نے اس چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش شروع کردی میں جانتا ہوں کہ فرعونوں کے بہت سے مدفن ایسے ہیں جن کے متعلق کوئی جانتا ہی نہیں کہ کہاں ہیں وہ زمین دوز محل ہیں قیامت تک مصر کے حکمران اور حملہ آور ان مدفنوں کو ڈھونڈتے رہیں گے ان تمام حکومتوں کو زوال کیوں آیا؟
صرف اس لیے کہ ان کی توجہ خزانوں پر مرکوز ہوگئی تھی رعایا کو یہ تاثر دیا گیا کہ دولت ہے تو عزت ہے ہاتھ خالی ہے تو تم بھی اور تمہاری بیٹیاں بھی ان کی ہیں جن کے پاس دولت ہے میرے رفیقو! صلاح الدین ایوبی کو اس قطار میں کھڑا نہ کرو میں اپنی قوم کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ اصل دولت قومی وقار اور ایمان ہے لیکن یہ تاثر صرف اس صورت میں پیدا کیا جاسکتا ہے کہ میں خود اور تم سب جو حکومت کے ستون ہو دل سے دولت کا لالچ نکال دو ہم ان خزانوں کی تلاش ذاتی لالچ کے لیے نہیں کرنا چاہتے ایک کمانڈر نے کہا ہم قومی ضروریات کے پیش نظر یہ مہم شروع کرنا چاہتے ہیں
میں جانتا ہوں میرا انکار تم میں سے کسی کو پسند نہیں سلطان ایوبی نے کہا میری بات سمجھنے کے لیے تمہیں اپنے ذہن بالکل خالی کرنے ہوں گے میری عقل مجھے بتا رہی ہے کہ باہر سے آئی ہوئی دولت جو قومی ضروریات کے لیے آئی ہو حاکموں کے ایمان متزلزل کرتی ہے یہ دولت کی لعنت ہے اگر میرے پاس گھوڑا خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوگی تو میں فوج کے ساتھ پیدل بیت المقدس جاؤں گا گھوڑا خریدنے کے لیے مردوں کے کفن اتار کر نہیں بیچوں گا میرا مقصد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرانا ہے گھوڑا خریدنے کے لیے رقم کا حصول میرا مقصد نہیں تم جب خزانوں کی تلاش کرنے لگو گے تو قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے طور پر چوری چھپے مقبروں کو اکھاڑنے لگیں گے مصر میں ایسا ہوتا آیا ہے اور جب یہ خزانے تمہارے سامنے آئیں گے تو تم ایک دوسرے کے اگر دشمن نہ ہوئے تو ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے ضرور دیکھو گے جہاں خزانے آجاتے ہیں وہاں انسانی محبت ختم ہوجاتی ہے حقوق العباد کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے ان زروجواہرات نے انسان کو خدا بنایا تھا وہ عذاب کہاں ہیں؟
آسمانوں پر نہیں زمین کے نیچے ہے میرے رفیقو! میں ایک نئے جرم کی بنیاد نہیں ڈالنا چاہتا ان خزانوں سے بچو یہ خزانوں کے لالچ کا ہی کرشمہ ہے کہ تمہاری صفوں میں غدار بھی موجود ہیں تم دو غداروں کو قتل کرتے ہو تو چار اور پیدا ہوجاتے ہیں اپنی تقدیر اپنی تدبیر سے بناؤ تم مسلمان ہو اپنی قسمت کفار کے ہاتھوں میں نہ دو ورنہ سب غدار ہو جاؤ گے فرعون مرچکے ہیں انہیں زمین کی تہوں میں دبا رہنے دو آپ کے حکم کے بغیر ہم ایسی کوئی مہم شروع نہیں کریں گے کسی نے کہا غیاث! سلطان ایوبی نے غیاث بلبیس سے مسکرا کر پوچھا آج تمہیں ان پوشیدہ خزانوں کا خیال کیسے آگیا ہے؟
مجھے یہاں آئے چار سال ہوگئے ہیں اس سے پہلے یہ تجویز کیوں پیش نہ کی میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا امیر محترم! غیاث بلبیس نے کہا تقریباً دو مہینے ہوئے کتب خانے کے محرر نے مجھے بتایا تھا کہ پرانے کاغذات میں سے کچھ کاغذات گم ہو گئے ہیں میں نے ان کاغذات کی نوعیت اور اہمیت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایسے اہم نہیں تھے کہ تلاش ضروری سمجھی جائے یہ کچھ نقشے سے تھے اور فرعونوں کے وقتوں کی تحریریں تھیں بہت ہی بوسیدہ اور کرم خوردہ کاغذات اور کپڑے تھے محرر نے جب فرعونوں کا نام لیا تو مجھے خیال آیا کہ ان تحریروں اور نقشوں میں فرعونوں کے خفیہ مقبروں کے متعلق معلومات ہوسکتی ہیں میں نے وہ پلندے دیکھے جن میں سے کاغذات گم ہوئے تھے میں نے یہ سوچ کر زیادہ توجہ نہیں دی کہ ان تحریروں کو آج کون پڑھ اور سمجھ سکتا ہے تم نے صحیح نہیں سوچا غیاث بلبیس! سلطان ایوبی نے کہا مصر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان تحریروں اور اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں ان کاغذوں اور نقشوں کی چوری حیران کن نہیں یہ چوری خزانے کے کسی لالچی نے کی ہوگی ان کاغذوں کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں مجھے چور کے ساتھ دلچسپی ہے وہ کوئی تمہارا ہی رفیق نہ ہو اس چور کا سراغ لگاؤ مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ ان کاغذوں کی کچھ اہمیت ضرور ہے علی بن سفیان نے کہا میں محترم غیاث بلبیس کے ساتھ بات کرچکا ہوں بہت دنوں سے ہمارے مخبر اور شہر کے اندر کے جاسوس ہمیں کسی پراسرار سرگرمی کی اطلاع دے رہے ہیں قدومی یہاں کی ایک مشہور رقاصہ ہے جسے امیروں کی محفلوں کی شمع کہا جاتا ہے پانچ چھ دنوں سے غائب ہے ایک رقاصہ کا شہر سے غیر حاضر ہوجانا کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا کرتا لیکن قدومی کو میں نے خاص طور پر نظر میں رکھا ہوا ہے میرے مخبروں نے بتایا ہے کہ اس کے ہاں اجنبی اور مشکوک سے دو آدمی آتے رہے ہیں پھر قدومی کے گھر سے ایک روز ایک پردہ پوش عورت کو نکلتے دیکھا گیا وہ ایک اجنبی تاجر مسافر کے ساتھ جارہی تھی مجھے شک ہے کہ قدومی بھیس بدل کر نکل گئی ہے دوسرے مخبروں کی اطلاعوں سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ آدمی جنوب کی طرف مشکوک حالت میں جاتے دیکھے گئے ہیں ان سرگرمیوں سے مجھے شک ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ان گمشدہ کاغذات کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور یہ شبہ بھی ہے کہ یہ صلیبی تخریب کار ہوں گے جو کچھ بھی ہے ہم ان سرگرمیوں کا کھوج لگا رہے ہیں ضرور کھوج لگاؤ سلطان ایوبی نے کہا اور ان خزانوں کو اپنے ذہنوں سے اتار دو میں جانتا ہوں کہ قوم کی فلاح وبہبود کے لیے اور صلیبیوں سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے ہمیں مالی استحکام کی ضرورت ہے مگر میں کسی سے مدد نہیں مانگوں گا محترم نورالدین زنگی نے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے میں یہ امداد بھی قبول نہیں کروں گا مالی امداد سگے بھائی سے ملے تو بھی انسانی صلاحیتوں کے لیے محنت اور دیانت داری کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے پھر انسان خزانوں کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگتا ہے مصر کی زمین بانجھ نہیں ہوگئی محنت کرو کہ یہ زمین تمہیں ثمر دے قوم کو بتاؤ کہ حکومت پر اس کے حقوق کیا ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو رعایا سمجھنا چھوڑ دے اور قوم کو یہ بھی بتاؤ کہ اس کے فرائض کیا ہیں اگر قوم نے فرائض سے نگاہیں پھیر لیں تو حقوق پامال ہوجائیں گے تم جس زمین کی پاسبانی میں خون نہیں بہاؤ گے اور جس کے وقار کے لیے پسینہ نہیں بہاؤ گے وہ تمہارا حق کبھی ادا نہیں کرے گی پھر اس ملک کے حکمران باہر کے خزانوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے اور قوم افراد میں منتشر ہوکر کفار کی غلام ہوجائے گی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*