⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟝⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جن خزانوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی ہاتھ لگانے سے بھی گریز کرتا تھا ان تک اس کے اپنے ہی ایک جرنیل کے بھیجے ہوئے پچاس آدمی پہنچ گئے تھے مارکونی اسماعیل، قدومی اور ایک اور صلیبی شام کو پہنچے ان کے باقی ساتھی جو الگ الگ ٹولیوں میں روانہ ہوئے تھے اسی رات پہنچنا شروع ہوئے اور آدھی رات کے بعد پورے پچاس آدمی پہنچ گئے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے یہ جگہ ایسی تھی جس کے قریب سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا تھا جگہ ڈراؤنی ہونے کے علاوہ کسی راستے پر پڑتی ہی نہیں تھی یہ چونکہ سرحد سے دور تھی اس لیے سرحدی دستوں کی نظر میں بھی نہیں تھی مارکونی نے رات کو ہی سب کو اس خطے کے اندر پہنچا دیا تاکہ باہر سے کوئی دیکھ ہی نہ سکے اور انہیں مکمل آرام دینے کے لیے کہا کہ وہ جتنی دیر سو سکتے ہیں سوجائیں یہاں سے آگے پیدل جانا ہوگا اور یہ سفر جسم کے بجائے اعصاب کو زیادہ تھکائے گا مارکونی خود قدومی کے ساتھ اپنے خیمے میں چلا گیا وہ سب اس وقت جاگے جب سورج ان ٹیلوں کے اوپر آگیا جس کے دامن میں سب سوئے ہوئے تھے مارکونی نے انہیں بتایا کہ وہ کون کون سا سامان اوزار اور ہتھیار وغیرہ اپنے ساتھ لیں ان میں مضبوط رسے کدالیں اور موٹی موٹی سلاخیں تھیں اور ہتھیاروں میں تیروکمان اور تلواریں راستے کی مشکلات کے متعلق بھی اس نے سب کو بتا دیا اس دیوار کے متعلق بھی انہیں ذہنی طور پر تیار کردیا جس سے اس کا ایک ساتھی گر کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو گیا تھا
اس نے انہیں رونے کی آوازوں سے بھی خبردار کردیا جو اس علاقے میں سنائی دیتی تھیں اونٹوں کو ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا تھا ان کی دیکھ بھال کے لیے اس نے صرف ایک آدمی پیچھے رہنے دیا قدومی کو بھی وہ ساتھ نہیں لے جاسکتا تھا اسے توقع تھی کہ کہیں کوئی راستہ اندر جانے کے لیے مل ہی جائے گا اور وہ قدومی کو اس راستے سے لے جائے گا قدومی کی حفاظت کے لیے بھی ایک آدمی کی ضرورت تھی اس کے لیے صرف اسماعیل موزوں آدمی تھا۔مارکونی نے اسماعیل سے کہا تم قدومی کے لیے یہیں رہو گے لیکن یہ خیال رکھنا کہ تمہاری حیثیت اس لڑکی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اس کے آرام اور حفاظت کے تم ذمہ دار ہوگے میں بہت جلدی واپس آرہا ہوں تم دونوں کو ساتھ لے جاؤں گا وہ اپنی پارٹی کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ اس راستے سے وہ واقف ہوچکا تھا بے خوف وخطر چلتا گیا جوں جوں یہ آدمی آگے بڑھتے جارہے تھے ان پر خوف مسلط ہوتا جارہا تھا وہ صحراؤں سے پوری طرح واقف تھے مگر ایسا خطہ اور اس قسم کے پہاڑ انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور وہ جب اس جگہ پہنچے جہاں رونے کی آوازیں آتی تھیں تو سب بدک کر خلاؤں میں دیکھنے لگے بلاشک وشبہ عورتیں رو رہی تھیں ان آدمیوں میں دو تین ایسے بھی تھے جنہوں نے اس علاقے کے متعلق وہ تمام ڈراؤنی کہانیاں سن رکھی تھی جو بہت مدت سے مشہور تھیں انہوں نے اپنے صلیبی ساتھیوں کو بھی یہ کہانیاں سنا کر ڈرا دیا وہ سب ڈر کی گرفت میں پہلے ہی تھے لیکن انہیں جو انعام بتایا گیا تھا اس میں اتنی طاقت تھی جو ان کے خوف کو دبا رہی تھی اس کے علاوہ وہ صلیب کے تنخواہ دار ملازم بھی تھے اور مارکونی ان کا افسر تھا وہ انعام اور حکم کی پابندی کے تحت چلے جارہے تھے رونے کی آوازوں پر وہ بدکے تو مارکونی نے انہیں بتایا کہ یہ عورتیں یا عورتوں کی بدروحیں نہیں، یہ ہوا کی آوازیں ہیں مگر وہ ڈرتے رہے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر آگے ہی آگے بڑھتے گئے اس وقت سورج غروب ہورہا تھا جب وہ اس وسیع اور بے انتہا گہرے نشیب تک پہنچے جو انہیں قدرتی دیوار پر چل کر پار کرنا تھا مارکونی کو وہاں کچھ مشکل پیش آئی دیوار پر پاؤں رکھنے سے سب گھبراتے تھے مارکونی آگے آگے چلا وہ ایک بار اس خطرے سے گزر چکا تھا اس کے پیچھے دوسرے آدمی نے دیوار پر قدم رکھا اور پھر باقی بھی چل پڑے سورج اس جہنم میں ہی روپوش ہوگیا تھا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کھائی کی گہرائی نظر نہیں آتی تھی مارکونی دیوار عبور کرگیا اسے ایسی چیخ سنائی دی جو تہہ کی طرف جارہی تھی ذرا دیر بعد ایک اور ہیبت ناک چیخ سنائی دی یہ بھی دور نیچے جاکر ایک دھیمی سی دھمک میں خاموش ہوگئی ایسی پانچ چیخیں سنائی دیں یہ گروہ جب دیوار سے گزر کر کچھ آگے جا جمع ہوا تو اس میں پانچ آدمی نہیں تھے مارکونی نے انہیں بتایا کہ اس سے آگے کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے اور وہ منزل کے قریب آگئے ہیں اس نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ان کی واپسی اس راستے سے نہیں ہوگی بلکہ سیدھا اور آسان راستہ مل جائے گا رات بہت گہری ہوچکی تھی جب وہ اس جگہ پہنچے جس کے نیچے وسیع سرسبز خطہ تھا مارکونی نے تمام آدمیوں کو وہاں سے تھوڑی دور چھپا دیا دو آدمی اپنے ساتھ لیے اور باقی سب سے کہا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ کھا کر سوجائیں انہیں ضرورت کے وقت جگایا جائے گا مارکونی دو آدمیوں کو ساتھ لے کر اس جگہ کی دیکھ بھال کے لیے چلا گیا نیچے موت کا سکوت تھا کہیں ہلکی سی روشنی بھی نظر نہیں آتی تھی وہ اور زیادہ قریب جانے سے ڈرتا تھا اس نے حملہ صبح کے لیے ملتوی کردیا اور اپنے آدمیوں کے پاس واپس آگیا
قدومی اور اسماعیل اکیلے رہ گئے تھے قدومی ان ہنگامہ خیز محفلوں کی عادی تھی جن میں شراب اور دولت پانی کی طرح بہتی تھی مارکونی اسے اس ہولناک ویرانے میں لے آیا تھا اور اسے ایک آدمی کے ساتھ تنہا چھوڑ گیا تھا اسماعیل اسے جانتا تھا وہ اسماعیل سے واقف نہیں تھی اسماعیل جرم وگناہ کی دنیا کا انسان تھا اس کی شکل وصورت اتنی اچھی اور طبیعت اتنی شگفتہ تھی کہ قدومی نے اسے کوئی عام آدمی نہ سمجھا لیکن اسماعیل اس کے ساتھ بات کرنے سے گریز کررہا تھا شام کے وقت اس نے قدومی کو بھنا ہوا گوشت گرم کرکے دیا اور شراب بھی اس کے آگے رکھ کر کہا کہ کھانا کھا کر سوجانا کوئی ضرورت ہو تو خیمے سے بلا لینا وہ باہر نکل گیا قدومی نے کھانا کھالیا شراب بھی حسب عادت پی لی لیکن تنہائی اسے پریشان کرنے لگی اسے اپنے حسن اور نازو ادا پر چونکہ فخر تھا اس لیے اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا اس فخر میں تکبر اور غرور زیادہ تھا مگر اسماعیل نے اس کی طرف ایسی کوئی توجہ نہ دی جس کی قدومی کو توقع تھی
قدومی کو نیند نہیں آرہی تھی وہ اپنے خیمے سے نکلی اور اسماعیل کے خیمے میں چلی گئی وہ ابھی جاگ رہا تھا۔ قدومی کے لیے اس نے دیا جلا دیا اور پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے؟
قدومی نے کہا کہ اس کی طبیعت گھبرا رہی تھی وہ اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھا تم شاید مسلمان ہو تمہیں مذہب سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟
اسماعیل نے جواب دیا تمہاری دلچسپی انسانوں کے ساتھ ہے کسی کے مذہب کے ساتھ نہیں میرا نام اسماعیل ہے اور میرا کوئی مذہب نہیں رہا اوہ! قدومی نے مسکراہٹ اور حیرت سے کہا تو تم ہو اسماعیل احمر درویش کے خاص آدمی اس نے پوچھا یہ آدمی کون ہے؟
کہاں سے آیا ہے؟
وہ مارکونی کے متعلق پوچھ رہی تھی کہنے لگی اس نے اپنا نام سلیمان سکندر بتایا ہے لیکن یہ مسلمان معلوم نہیں ہوتا یہ مصری بھی نہیں اسماعیل نے کہا اور یہ سوڈانی بھی نہیں اور سلیمان سکندر اس کا نام نہیں پھر یہ کون ہے؟
قدومی نے پوچھا اس کا اصلی نام کیا ہے؟
میں اس نام نہیں بتا سکتا اسماعیل نے کہا یہ راز چھپائے رکھنے کے لیے مجھے معاوضہ ملتا ہے تمہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کون ہے تم منہ مانگی اجرت پر اس کی تفریح طبع کے لیے آئی ہو یہ تمہارا پیشہ ہے اس نے تمہیں خزانے میں سے کچھ حصہ دینے کا وعدہ کیا دیا ہوگا وہ تو میرا حق ہے قدومی نے کہا اس نے مجھے جو اجرت دی ہے وہ اس خطرناک بیابان میں ساتھ آنے کے لیے بہت ہی تھوڑی ہے میں تو خزانے میں سے حصہ لینے کے وعدے پر ساتھ آئی ہوں کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں وہ حصہ دے دے گا؟
اسماعیل نے پوچھا اور کیا تمہیں یقین ہے کہ اسے وہ خزانہ مل جائے گا جس کا حصہ وصول کرنے کے لیے تم آئی ہو؟
میں اتنی قیمتی لڑکی ہوں کہ لوگ مجھے خزانوں کے عوض خریدنا چاہتے ہیں قدومی نے غرور کے لہجے میں کہا یہ شخص تو میری قیمت ادا ہی نہیں کرسکتا میں ایسے امیر زادوں اور شہزادوں کو اپنا غلام بنا کے رکھا کرتی ہوں کب تک؟
اسماعیل نے مسکرا کر کہا زیادہ سے زیادہ دو سال اس کے بعد تمہاری قیمت اتنی گر جائے گی کہ تم گلیوں میں پاگلوں کی طرح دوڑتی پھرو گی تمہیں پوچھے گا کوئی نہیں، جن کے پاس خزانے ہیں انہیں اور ایک قدومی مل جائے گی تم جیسی کئی مل جائیں گی سنو قدومی! اتنا غرور نہ کرو کیوں نہ کروں؟
قدومی نے کہا یہ شخص جو اپنا نام سلیمان سکندر بتاتا ہے میرے طلسم میں ایسا گرفتار ہے کہ اس نے مجھے قسمیں کھا کر کہا تھا کہ وہ صرف میرے لیے خزانے کی تلاش میں جارہا ہے وہ مجھے سکندریہ لے جائے گا جہاں ہم سمندر کے کنارے محل بنائیں گے پھر میں رقاصہ نہیں رہوں گی کیا تمہیں اس میں کچھ شک ہے؟
شک نہیں مجھے یقین ہے کہ اس نے بہت بڑا جھوٹ بولا ہے اسماعیل نے کہا میں اپنی اجرت کے لیے اس کے ساتھ آیا ہوں احمر درویش کا کہنا میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے اس نے کہا کہ اس کے ساتھ جاؤ میں آگیا یہ میرا پیشہ ہے میں کرائے کا گناہ گار ہوں میں اجرت پر قتل بھی کیا کرتا ہوں مگر میں جھوٹ نہیں بولا کرتا میں کبھی پکڑا ہی نہیں گیا احمر درویش مجھے بچا لیتا ہے مجھ میں دوسری خوبی یا خرابی یہ ہے کہ میں عورت کا احترام کرتا ہوں مجھے معلوم نہیں میں ایسا کیوں کرتا ہوں عورت پردہ دار ہو یا عصمت فروش میں اس کی عزت کرتا ہوں میں عورت کو دھوکہ نہیں دے سکتا میں تمہیں بھی دھوکے میں نہیں رکھوں گا میں تمہیں یہ بتا دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ یہ خزانہ تمہارے لیے محل تعمیر کرنے کے لیے نہیں نکالا جا رہا یہ مصر کی جڑیں کاٹنے کے لیے استعمال ہوگا یہاں صلیبی حکومت قائم کی جائے گی مسجدوں کو گرجے بنایا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ خزانہ مصر سے باہر چلا جائے گا مجھے معلوم ہے تمہیں مصر کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں مجھے بھی نہیں ہم دونوں پیشہ ور ہیں گناہ ہمارا پیشہ ہے میں تمہیں صرف دو باتیں بتانا چاہتا تھا جو بتا چکا ہوں ایک بار پھر سن لو تمہارے حسن اور جوانی کی عمر بہت تھوڑی رہ گئی ہے دوسری بات یہ کہ تمہیں یہ شخص اپنے ساتھ تفریح اور عیاشی کے لیے لایا ہے اس کی نظر میں تم ایک طوائف ہو اگر اس نے تم پر کرم کیا تو ایک دو ہیرے تمہارے ہاتھ میں دے دے گا اور اگر اس نے کسی کے لیے محل تعمیر کیا بھی تو وہ کوئی نوخیز لڑکی ہوگی وہ تم نہیں ہوگی تمہارے چہرے پر مجھے بال جیسی باریک دو لکیریں نظر آرہی ہیں جو آج اچھی لگتی ہیں، تھوڑے ہی دنوں بعد یہ گہری ہوکر تمہاری قدر وقیمت ختم کردیں گی اسماعیل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جس میں طنز نہیں تھا دھوکہ اور فریب نہیں تھا۔ ایک اپنائیت سی تھی اور ایسی حقیقت جو قدومی نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس پر ڈورے ڈالے گا مگر اس نے اسے ذرا بھی اہمیت نہ دی اس کے بجائے اسے یہ تاثر دے دیا کہ اس کی اہمیت دو روز کی مہمان ہے قدومی تو اپنے حسن کی تعریفیں سننے کی عادی تھی اپنے آپ کو قلوقطرہ کا ثانی سمجھتی تھی۔ اسماعیل نے ایسا تاثر پیدا کیا جسے قدومی دھتکار نہ سکی اسماعیل کا انداز ہی ایسا تھا کہ اس کا پیدا کیا ہوا تاثر اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا رات گزرتی جارہی تھی اور قدومی کی آنکھوں سے نیند غائب ہوتی جارہی تھی وہ اسماعیل کے ساتھ باتوں میں رات گزارنا چاہتی تھی اس خواہش کو وہ دبا نہ سکی اسماعیل نے اسے مایوس نہ کیا رات کا آخری پہر تھا، جب قدومی کی آنکھ لگ گئی اس کی آنکھ کھلی تو وہ اسماعیل کے خیمے میں تھی اور اسماعیل خیمے سے باہر کمبل میں لپٹا سویا ہوا تھا قدومی نے اسے جگایا اور کہا میں نے خواب دیکھا ہے عجیب سا خواب تھا پوری طرح یاد نہیں رہا کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ سلیمان سکندر کے خزانے کی نسبت اسماعیل کی باتیں زیادہ قیمتی ہیں وہ ہنس پڑی اس کی ہنسی میں رقاصہ کا تضع نہیں ایک معصوم لڑکی کی سادگی تھی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج نکلنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی مارکونی اپنے آدمیوں کو اس سرسبز نشیب کے اوپر اپنی سکیم کے مطابق موزوں جگہوں پر چھپا چکا تھا صبح روشن ہوئی تو نیچے ننگے آدمی اور عورتیں نظر آنے لگیں مارکونی نے اپنے ایک دلیر اور نڈر آدمی کو نیچے جانے کے لیے تیار کر رکھا تھا اسی ڈھلان سے جس سے اس کا ایک ساتھی لڑھک کر نیچے گرا اور اس پراسرار قبیلے کی ضیافت بن گیا تھا مارکونی نے اپنے اس آدمی کو نیچے لڑھک جانے کو کہا وہ ڈھلان کے اوپر بیٹھا اور نیچے سرک گیا کچھ آگے جاکر وہ قلابازیاں کھانے لگا اور زمین پر جاپڑا وہ اٹھ کر چل پڑا تین چار ننگے آدم خوروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑنے کے لیے دوڑے وہ خوشی سے چلا رہے تھے وہ جب اس آدمی کے قریب آئے تو اوپر سے چار تیر نکلے اور ان کے سینوں میں اتر گئے ادھر سے دو اور ننگے مرد دوڑے آئے وہ بھی تیروں کا نشانہ بن گئے مارکونی نے اوپر ایک چٹان کے ساتھ رسہ بندھوا دیا تھا جسے اس نے ڈھلان سے نیچے پھینک کر اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے پکڑ کر سب ایک دوسرے کے پیچھے نیچے اتر جائیں۔سب نیچے چلے گئے مارکونی نے اوپر سے رسہ کھول کر نیچے پھینک دیا اور ڈھلان سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا گیا یہ سارا گروہ تلواریں نکال کر آگے کو دوڑ پڑا چند اور ننگے مرد سامنے آئے انہیں بھی کاٹ دیا گیا جو ذرا دور تھے، وہ الٹے پاؤں بھاگے نیچے سے سرسبز علاقے کے کئی ایک حصے تھے مارکونی نے دیکھا کہ بھاگنے والے ایک حصے میں چلے گئے تھے وہ ان کے پیچھے گیا اسے ان آدمیوں کا واویلا سنائی دے رہا تھا ان کی چیخ وپکار پر وہ ان کے تعاقب میں گیا اس کے باقی آدمی خون خرابہ کررہے تھے۔ وہ خود ان دو آدمیوں کے تعاقب میں رہا تھوڑی ہی دور اسے آدمی نظر آگئے وہ اب دو نہیں تین تھے وہ تینوں ایک چٹان پر چڑھ رہے تھے مارکونی نے ان کے پیچھے دوڑتے کچھ فاصلہ رکھا وہ تینوں چٹان کی دوسری طرف اتر گئے وہ بھی چٹان پر چڑھ گیا دوسری طرف اسے سیاہ پہاڑی کا دامن نظر آیا وہاں ایک غار کا دہانہ تھا جس میں جھک کر گزرا جاسکتا تھا مارکونی اس غار میں چلا گیا اس نے تلوار ہاتھ میں لے رکھی تھی اندر سے غار کھلتا جارہا تھا اسے اس میں کسی کے دوڑنے کی ہلکی ہلکی آہٹ سنائی دے رہی تھی وہ دوڑتا گیا یہ غار نہیں سرنگ تھی جو معلوم نہیں قدرتی تھی یا فرعون ریمینس نے مرنے سے پہلے بنوائی تھی سرنگ کے کئی موڑ تھے اور اندر گھپ اندھیرا اسے بولنے کی آوازیں سنائی دیں وہ دوڑتا گیا اور اسے دور سامنے روشنی کا ایک گولا نظر آیا اس میں اسے تین آدمی دوڑتے دکھائی دئیے وہ غار کا دوسرا دہانہ تھا وہ انہیں قتل نہیں کرنا چاہتا تھا اس کی سکیم کامیاب ہورہی تھی وہ تینوں غار سے نکل گئے وہ بھی غار سے نکل گیا تینوں میں ایک آدمی گر پڑا مارکونی نے جاکر دیکھا یہ وہی بوڑھا آدمی تھا جس نے اسے اس روز دیکھا تھا جس روز اس کا ساتھی نیچے گر پڑا اور آدم خوروں کے ہاتھوں میں مارا گیا تھا وہ بہت ہی بوڑھا تھا زیادہ دوڑ نہیں سکتا تھا غار سے باہر ریتلے اور پتھریلے ٹیلے اور چٹانیں تھیں ایک طرف سیاہ پہاڑ دور اوپر تک چلا گیا تھا مارکونی نے بوڑھے کو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے بھاگتے ہوئے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے اشاروں میں اسے سمجھایا کہ ان آدمیوں کو واپس بلاؤ بوڑھے نے انہیں پکارا وہ رکے تو انہیں اپنی طرف بلایا اس نے مارکونی کے ساتھ مصری زبان میں بات کرتے ہوئے کہا میں تمہاری زبان بولتا اور سمجھتا ہوں مجھے قتل کرکے تمہیں کچھ حاصل نہ ہوگا مارکونی بھی مصری زبان بولتا اور سمجھتا تھا اس نے بوڑھے سے کہا میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا تمہارے ان آدمیوں کو بھی قتل نہیں کروں گا مجھے باہر جانے کا راستہ بتا دو کیا تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو؟
بوڑھے نے پوچھا ہاں مارکونی نے جواب دیا میں تمہاری بادشاہی سے نکل جانا چاہتا ہوں بوڑھے نے اپنے آدمیوں سے کچھ کہا وہ دونوں بہت ہی ڈرے ہوئے تھے بوڑھے نے مارکونی سے کہا اس کے ساتھ جاؤ یہ تمہیں سیدھے راستے پر ڈال دیں گے بوڑھا ساتھ چل پڑا وہ ٹیلوں کے درمیان سے گزرے ایک ٹیلے کے اوپر گئے اور ایسی ہی کچھ بھول بھلیوں میں سے گزر کر وہ کھلے صحرا میں پہنچ گئے مارکونی نے دیکھا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہاں کوئی راستہ ہے جو اندر کی پراسرار دنیا میں لے جاتا ہے بوڑھے نے اسے کہا تم اب چلے جاؤ ورنہ خدا کا قہر تمہیں بھسم کردے گا مارکونی نے تینوں کو ساتھ لیا اور یہ کہہ کر اپنے ساتھ واپس لے گیا کہ وہ اپنے آدمیوں کو بھی باہر لائے گا مارکونی کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی جس سے وہ تینوں ڈر رہے تھے وہ اس کے ساتھ واپس چل پڑے مارکونی نے راستہ اور اس کے موڑ اچھی طرح دیکھ لیے وہ پھر غار کے دہانے میں داخل ہوئے اور اس میں گزرتے سرسبز دنیا میں پہنچ گئے۔ بوڑھا اسے اس جگہ لے گیا جہاں مارکونی کے ساتھی کو آگ پر بھون کر کھایا گیا تھا مارکونی کے ساتھی اسے ڈھونڈ رہے تھے کئی ایک ننگی لاشیں پڑی تھیں بچوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا بوڑھے نے یہ قتل عام شاید پہلے نہیں دیکھا تھا وہ رک گیا اور بڑے تحمل سے مارکونی سے پوچھا ان بے گناہوں کو کاٹ کر تم نے کیا پایا؟
اور تم ہمارے آدمی کو بھون کر کھا گئے تھے مارکونی نے پوچھا اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟
وہ گناہ گار دنیا کا انسان تھا بوڑھے نے کہا اس نے ہماری مقدس سلطنت میں آکر اسے ناپاک کردیا تھا تم لوگ یہاں کیوں رہتے ہو؟
مارکونی نے پوچھا فرعون ریمینس دوم کا مدفن کہاں ہے؟
میں ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں دوں گا بوڑھے نے جواب دیا مارکونی نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ان کی عورتوں کو لے آؤ اس نے حملے سے پہلے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی عورت کو قتل نہ کریں اور نہ چھیڑیں انہیں یرغمال کے طور پر پکڑ لیں مارکونی کے ساتھی دس گیارہ عورتوں کو سامنے لے آئے ان میں دو تین بوڑھی باقی جوان نوجوان اور تین کمسن بچیاں تھیں وہ مادر زاد ننگی تھیں ان کے رنگ گندمی اور صاف تھے شکل وصورت بھی سب کی اچھی تھی ان کے بال کمر تک گئے ہوئے تھے اور ان میں چمک تھی کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری عورتوں کو تمہارے سامنے بے عزت کرکے انہیں قتل کردیا جائے؟
مارکونی نے بوڑھے سے پوچھا کیا تم اس سے پہلے مجھے قتل نہیں کردو گے؟
بوڑھے نے پوچھا نہیں مارکونی نے جواب دیا سنو گناہ گار دنیا کے انسان بوڑھے نے کہا تمہاری عورتیں کپڑوں میں ڈھکی رہتی ہیں تم انہیں پردوں میں چھپا چھپا کر رکھتے ہو مگر وہ بے حیائی سے باز نہیں آتی تم عورت کی خاطر سلطنتیں قربان کردیتے ہو عورت کو نچاتے ہو اور انہیں گناہوں کا ذریعہ بناتے ہو ہماری عورتیں ننگی رہتی ہیں مگر بے حیائی نہیں کرتیں کوئی مرد کسی دوسرے مرد کی عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے تم نے میری دنیا کی عورتوں کو دیکھا ہے میں تو تمہاری نظر بھی برداشت نہیں کرسکتا تم خدائے مقدس ریمینس کے خزانے لوٹ لو میری بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالنا میں وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے ان پہاڑوں کا بھید بتا دو مارکونی نے کہا میں تمہاری عزت تمہارے حوالے کردوں گا ڈاکو کے وعدے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا بورڑھے کے ہونٹوں پر طنز کی مسکراہٹ آگئی اس نے کہا جس آدمی کے دل میں دولت کی لالچ ہوتی ہے اس کی آنکھ میں غیرت نہیں ہوتی اس زبان پر وعدے آتے ہیں اور اسی زبان سے ٹوٹ بھی جاتے ہیں تم اس دنیا کے انسان ہو جہاں دولت پر اپنی بیٹیاں قربان کی جاتی ہیں اور سنو میرے اجنبی دوست! تم مصری نہیں ہو تمہاری آنکھوں میں سمندر کی چمک ہے، نیل کے پانی کی نہیں تمہارے جسم سے مجھے سمندر پار کی بو آتی ہے میں ریمینس کے مدفن کی تلاش میں آیا ہوں مارکونی نے اسے غصے سے کہا مجھے وہ مدفن بتا دو میں بتا دوں گا بوڑھے نے کہا اس سے پہلے میں تمہیں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مدفن کے اندر جاکر تم زندہ باہر نہیں آسکو گے کیا تمہارے آدمی اندر چھپے ہوئے ہیں جو مجھے قتل کردیں گے؟
نہیں! بوڑھے نے جواب دیا تمہیں قتل کرنے کے لیے میرے پاس کوئی آدمی نہیں رہا تمہارے اپنے آدمی تمہیں قتل کریں گے تمہاری لاش یہاں سے کوئی نہیں لے جائے گا تم غیب دان ہو؟
مارکونی نے پوچھا آنے والے وقت کی خبر دے سکتے ہو؟
نہیں بوڑھے نے جواب دیا میں نے گزرا ہوا وقت دیکھا ہے جس نے گزرے ہوئے وقت کو عقل اور دل کی نظر سے دیکھا ہو وہ آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے موت تمہاری آنکھوں میں آکر بیٹھ گئی ہےمارکونی نے قہقہہ لگا کر کہا تم جنگلی ہو بڈھے! مجھے بتاؤ وہ مدفن کہاں ہے جس کی تلاش میں میں اتنی دور سے آیا ہوں تمہارے سامنے ہے بوڑھے نے کہا وہ اوپر آؤ مارکونی نے کچھ سوچا اور اپنے آدمیوں سے کہا ان عورتوں کو عزت سے رکھو اس بوڑھے کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہو اور اس کے ان دونوں آدمیوں کو بھی کچھ نہ کہنا ان کے ساتھ دوستی پیدا کرلو میں قدومی اور اسماعیل کو لینے جارہا ہوں وہ اسی راستے پر چل پڑا جو سرنگ میں سے گزر کر باہر جاتا تھا
مارکونی اس راستے سے باہر نکل گیا جو اسے بوڑھے نے دکھایا تھا اسے اس سمت کا اندازہ تھا جدھر سے وہ اس ہولناک علاقے میں داخل ہوا تھا وہ اس طرف چل پڑا اس نے کم وبیش دو میل سفر طے کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سے وہ اپنے گروہ کے ساتھ اندر گیا تھا وہ اپنے خیمے تک گیا اس نے اسماعیل اور قدومی کو ایک ہی خیمے میں اکٹھے بیٹھے دیکھا اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا حکم کے لہجے میں اسماعیل سے کہا میں نے تمہیں کہا تھا کہ اپنی حیثیت میں رہنا اس کے پاس بیٹھے تم کیا کررہے ہو؟
کیا میں اس ویرانے میں اکیلی بیٹھی رہتی؟
قدومی نے کہا میں نے خود اسے اپنے پاس بلایا ہے تمہیں میں اپنے ساتھ صرف اور صرف اپنے لیے لایا ہوں مارکونی نے غصے سے کہا میں تمہیں اپنی اجرت دے رہا ہوں میں تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا اپنے گھر میں اپنے پاس سو آدمیوں کو بلاؤ یہاں تم میری لونڈی ہو گزشتہ رات اسماعیل نے اس پر خلوص دل سے ایسا تاثر طاری کردیا تھا کہ اس کے دل میں مارکونی کے خلاف شک اور ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی اسے وہ اب اپنا ایک گاہک سمجھنے لگی تھی اب مارکونی نے اسے اپنی لونڈی کہہ دیا تو اس کے دل میں مارکونی کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ اس نے اچھے اور برے انسان میں فرق دیکھ لیا تھا۔ حالانکہ اسماعیل نے اسے بالکل نہیں کہا تھا کہ وہ اچھا آدمی ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ وہ کرائے کا گناہ گار اور اجرت لے کر قتل کرنے والا آدمی ہے قدومی مارکونی کو دھتکار نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ اپنی طے کی ہوئی اجرت پر آئی تھی جو وہ وصول کرکے گھر رکھ آئی تھی آگے خزانے کے کچھ حصے کا وعدہ تھا جو مشکوک نظر آتا تھا اس نے برداشت نہ کیا کہ مارکونی اسماعیل کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرے اسماعیل مارکونی کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا اس نے مارکونی کو بازو سے پکڑا اور ذرا پرے لے جاکر دھیمی سی آواز میں کہا احمر درویش نے تمہیں شاید میرے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا میرے متعلق تم کچھ بھی نہیں جانتے میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں تم میرے ملک اور میری قوم کی جڑیں کاٹنے آئے ہو میں اتنا بڑا گناہ گار ہوں کہ کرائے پر تمہارا ساتھ دے رہا ہوں میں تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرسکتا اپنی پوری اجرت لوں گا اور اگر خزانہ برآمد ہوگیا تو اپنا حصہ الگ وصول کروں گا تم ایسی باتیں احمر درویش کے ساتھ کرنا مارکونی نے اسے کمانڈروں کی طرح کہا یہاں تم میرے ماتحت ہو خزانہ جو نکلے گا وہ میری تحویل میں ہوگا میں اسے جہاں چاہوں لے جاؤں سنو سلیمان سکندر اسماعیل نے پہلے کی طرح دھیمی آواز اور ہلکے سے تبسم سے کہا میں جانتا ہوں تم مارکونی ہو سلیمان سکندر نہیں ہو۔میں ایک عادی مجرم ہوں میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہاری باتیں مجھے مجرم سے مصری مسلمان بنا دیں گی اور میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان قومی جذبے کا اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کی لاش میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو لاش بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ مجھے مجرم رہنے دو مارکونی نے محسوس کرلیا کہ یہ شخص بہت گہرا ہے اور پیچیدہ بھی اس لیے اس سے اس موقع پر دشمنی مول لینی اچھی نہیں اس نے اسماعیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور دوستوں کی طرح مسکرا کر کہا تم بلاوجہ کسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہو میں دراصل یہ نہیں چاہتا کہ یہ طوائف تمہارے یا میرے دماغ پر سوار ہوجائے یہ بہت چالاک عورت ہے یہ ہم دونوں میں غلط فہمی پیدا کرکے خزانے پر ہاتھ مارنا چاہتی ہے مجھے اپنا دشمن نہ سمجھو۔ احمر درویش نے تمہیں بتایا نہیں کہ اس نے تمہارے متعلق کیا سوچ رکھا ہے کیا تمہیں امید ہے کہ خزانہ مل جائے گا؟
مل گیا ہے مارکونی نے جواب دیا میں تم دونوں کو لینے آیا ہوں اسماعیل اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ قدومی بھی اسے دیکھتی رہی
اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار بڑے نمایاں تھے مارکونی نے اس آدمی کو آواز دی جسے وہ اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ گیا تھا اسے کہا کہ وہ اونٹوں کو ایک دوسرے کے پیچھے باندھ کر لے آئے خیمے بھی لپیٹ لیے گئے۔مارکونی انہیں وہاں لے گیا جہاں اس کے دوسرے آدمی تھے اور جہاں فرعون ریمینس کا خفیہ مدفن تھا قدومی نے ایسی سرسبز جگہ دیکھی تو بہت حیران ہوئی ایک اونچی پہاڑی کے دامن میں ننھی سی جھیل تھی پہاڑی کے نیچے سے پانی پھوٹتا تھا یہ قدرت کا کرشمہ تھا مارکونی ننگے قبیلے کے بوڑھے سردار کے پاس چلا گیا اسے مدفن کا سراغ لگانا تھا قدومی اسماعیل کے ساتھ ادھر ادھر ٹہلنے لگی اسے ایک چھوٹے سے بچے کی لاش پڑی دکھائی دی بچہ ننگا تھا اور اس کا جسم خون میں نہایا ہوا تھا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*