فروری 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا جب شہر کے دو دروازے ایک پہلو سے اور دوسرے دو پہلو سے کھلے اور اندر سے لشکر بڑی ہی تیزی سے ان چاروں دروازے سے نکلنے لگے، ادھر پانچواں دروازہ کھلا اور یوکلس اپنے تقریبا ایک سو جانبازوں کے ساتھ شہر سے نکلا ، یہ دروازہ اسی نے کھلوایا تھا، انتھونیس نے صرف چار دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ حملے کے دوران دروازے کھلے رکھے جائیں۔
اب کے لشکر کے لڑنے کا انداز کچھ اور تھا دائیں بائیں حملہ کرنے کے بجائے سیدھے حملے کیے گئے مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار ہوگئے اور تصادم ہوا۔
مجاہدین کے لڑنے کا انداز یہ تھا کہ وہ مقابلہ تو کر رہے تھے لیکن دباؤ ڈالنے کے بجائے پیچھے ہٹتے جا رہے تھے ان قبائلیوں کو معلوم نہ تھا کہ خالد بن ولید کس قدر دانشمند سپہ سالار ہیں ،اور رہتی دنیا تک غیر قومیں بھی انکے حوالے دیا کریں گے۔
مجاہدین کا اس طرح آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا کہ دشمن کو یہ دھوکہ ہو کہ یہاں بھی بھاگ نکلیں گے مسلمانوں کی ایک خاص جنگی چال تھی جس سے انہوں نے بڑی بڑی جنگی طاقتوں کو شکست دی تھیں۔
انتھونیس اور روتاس بھی اسی دھوکے میں آگئے اور محسوس ہی نہ کر سکے کہ انکے لشکر قلعے سے خاصی دور نکل آئے ہیں ۔جہاں سے ان کے لیے واپسی محال ہوجائے گی۔
جب دونوں طرف سے قبائلی لشکر مسلمانوں سے لڑتے لڑتے شہر سے بہت دور نکل گئے تو شہر کے ساتھ والی ٹیکریوں اور پہاڑیوں میں سے گھوڑسوار مجاہدین کا ایک سیلاب نکلا یا وہ تیز تند طوفان تھا جو حیران کن رفتار سے شہر کی طرف آیا اور شہر کی دیوار اور قبائلی عیسائیوں کے لشکر کے درمیان حائل ہو گیا یہ وہ گھوڑسوار مجاہدین تھے جو محاصرے سے نکل گئے تھے اور انتھونیس اور شہر کے لوگوں کو یہ دھوکا ہوا تھا کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ گھوڑ سوار دستے واپس چلے جائیں گے وہ گئے کہیں بھی نہیں تھے۔
ٹیکریوں اور پہاڑیوں کے پیچھے جا کر چھپ گئے تھے۔ اور اپنے سپہ سالار کے اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔
انہیں بہت ہی دنوں بعد اشارہ ملا اور ان کے لیے جو حکم تھا ان کی تعمیل انہوں نے پوری خوش اسلوبی سے کی۔
ان میں سے کچھ شہر کے کھلے دروازوں میں سے اندر چلے گئے اور باقی قبائلی لشکروں پر ٹوٹ پڑے محاصرہ کرنے والے وہ مجاہدین جو لڑتے لڑتے پیچھے ہٹ رہے تھے، یکلخت رک گئے اور قبائلیوں پر ہلہ بول دیا ۔اب قبائلی لشکر دونوں طرف نرغے میں آگئے اور ادھر مجاہدین شہر میں بھی داخل ہو گئے تھے۔ شہر میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
مجاہدین تمام شہر میں گھوم گئے اور اعلان کرتے گئے کہ تمام آدمی گھر سے باہر نکل آئیں اور عورتیں گھروں کے اندر رہیں اگر کوئی مرد گھر کے اندر چھپا ہوا پایا گیا تو اسے قتل کردیا جائے گا، عورتیں بالکل نہ ڈریں ان کی طرف کوئی غلط نظر سے دیکھے گا بھی نہیں نہ کسی بوڑھے بچے یا مریض پر ہاتھ اٹھایا جائے گا نہ کوئی ضعیف العمر یا مریض آدمی گھر سے باہر آئے۔
صرف کہنے پر کون یقین کرتا لوگوں نے اپنی عورتوں اور خصوصا نوجوان لڑکیوں کو گھروں میں ادھر ادھر چھپا دیا اور خود باہر نکل آئے۔ عورتیں ڈر کے مارے باہر نہیں آئی تھیں نہ اپنے مکانوں کی چھتوں پر جاتی تھیں کہ دیکھتی کے باہر کیا ہو رہا ہے ہر گھر میں افراتفری تھی۔
اگر یہ فوج رومیوں یا ایرانیوں کی یا کسی اور غیر مسلم قوم کی ہوتی تو وہ گھروں پر ہلّہ بول دیتیں لوٹ مار کرتیں اور قتل عام بھی کوئی جوان عورت ان کے ہاتھ سے نہ بچتی لیکن مجاہدین نے لوگوں کے گھروں کی طرف دیکھا تک نہیں۔
شہر میں تمام آدمی باہر میدانوں میں اکٹھے ہو گئے شہر کے باہر قبائلی عیسائیوں کا قتل عام ہو رہا تھا وہ خالد بن ولید کے پھندے میں آ گئے تھے۔
یوکلس اپنے ایک سو جانبازوں کے ساتھ مسلمانوں کے سپہ سالار کو ڈھونڈ رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کا سپہ سالار بادشاہ نہیں ہوا کرتا جو میدان جنگ سے ذرا دور ایک جگہ کھڑے رہ کر حکم چلاتا ہے۔ خالد بن ولید جنگ کے دوران کسی ایک جگہ تو ٹھہرتے ہی نہیں تھے ، قاصد اور مجاہد ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ، یوکلس انہیں ڈھونڈتا ہی رہا کہ وہ بھی اپنے جانبازوں کے ساتھ مجاہدین کے گھیرے میں آ گیا اور نوجوانوں کا یہ دستہ کٹ کٹ کر گھوڑوں سے گرنے لگا، اور گھوڑے انہیں پاؤں تلے روندنے مسلنے لگے۔
دونوں رومی مارے گئے ہیں۔۔۔ کسی نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ انتھونیس بھی نہیں رہا، روتاس بھی قتل ہو گیا ہے ۔
یہ آواز کئی آوازوں میں بدل گئی اور تمام تر میدان جنگ میں یہ اطلاع پھیل گئی کہ قبائلیوں کے کمانڈر انتھونیس اور روتاس مارے گئے ہیں۔
قبائلی عیسائیوں کا جوش و خروش ایسا مانند پڑا جیسے جلتی مشعل اچانک بجھ گئی ہو۔ انہوں نے برچھیاں تلواریں اور کمانے پھینک دیں اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ ہم نہیں لڑیں گے ان میں جو گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں سے اتر آئے اور اس طرح جو مرنے سے بچ گئے تھے ہتھیار پھینک کر موت سے محفوظ ہو گئے۔
خالد بن ولید نے جنگ روک دی اور یہ حکم نہیں دیا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو قید میں ڈال دیا جائے بلکہ یہ اعلان کیا کہ جو قبائلی ہتھیار ڈال چکے ہیں وہ شہر کے اندر چلے جائیں لیکن اپنے گھروں میں نہ داخل ہوں اس حکم کے مطابق قبائلی سر جھکائے ہوئے دروازوں میں داخل ہونے لگے اور ایک میدان میں اکٹھا ہو گئے کچھ دیر بعد خالد بن ولید اور سالار عیاض بن غنم شہر کے صدر دروازے سے فاتحین کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے۔
یہ شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی فتح ہو گیا اور شام کی فتح پر مسلمانوں کی مہر ثبت ہو گئی ۔
خالد بن ولید اس جگہ گئے جہاں شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تھا ہتھیار ڈالنے والوں کو بھی وہیں لے گئے اور خالد بن ولید نے ان سے مختصر سا خطاب کیا۔
الجزیرہ کے لوگوں۔۔۔ خالد بن ولید نے کہا۔۔۔ ہم نے یہ شہر لڑ کر لیا ہے اور تم نے ہمیں جانی نقصان پہنچایا ہے تمہارے ساتھ ہمارا سلوک کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن میں اس راستے پر چلوں گا جو مجھے ہمارے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دکھایا ہے ۔ ہمارے دستور کے مطابق تم سب کو اسلام قبول کر لینا چاہیے اور پھر ہمارا حق ہے کہ تم سے تاوان بھی وصول کریں لیکن بنو تغلب نے ہتھیار ڈالے تھے تو ہمارے امیرالمومنین نے حکم بھیجا تھا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اس کے بجائے جزیہ وصول کیا جائے ۔
تم سب کو جزیہ دینا پڑے گا اور جزیہ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق وصول کیا جائے گا ۔ تم لوگ ہمارے خلاف لڑنے کے لئے رومیوں کے ساتھ جاملے تھے تمہیں اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے۔ کیا شہر کے کسی بھی گھر میں لوٹ مار ہوئی ہے؟ ۔۔۔کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے؟
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ سپہ سالار بہت سی آوازیں آئیں، جن کا مطلب یہ تھا کہ نہ لوٹ مار ہوئی ہے نہ کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے۔
اور نہ ہوگا ۔۔۔خالد بن ولید نے کہا ۔۔۔ہم تمہاری عزت و آبرو اور تمہارے جان و مال کے محافظ ہیں لیکن کسی نے ذرا سی بھی بدامنی یا غداری کی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حلب کے غیرمسلموں کے دلوں پر جو خوف بیٹھ گیا تھا وہ نکل گیا اور کئی ایک نے اسی روز اسلام قبول کر لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت باقی تھا مجاہدین اپنے زخمی ساتھیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔
ان کی خواتین زخمیوں کو پانی پلاتیں پھر رہی تھیں اور ان میں جو ذرا بھی چلنے کے قابل تھے انہیں سہارا دے کر وہاں پہنچا رہی تھی جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا۔
وہاں دو ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں ایک زخمیوں کا کراہنا اور دوسرا پانی، پانی، خدا کے واسطے ایک بوند پانی،،،،، شارینا بھی اسی کام میں مصروف تھی کہ وہ ایک زخمی کو دیکھ کر رک گئی اور حیرت زدگی کے عالم میں اس کے پاس بیٹھ گئی یہ ایک نوجوان زخمی تھا جس کے چہرے اور سر پر تو کوئی زخم نہ تھا لیکن اس کے تمام کپڑے لال سرخ ہو گئے تھے اور خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔
تم یوکلس تو نہیں ہو سکتے! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کے بیٹے کا یہاں کیا کام میں خواب تو نہیں دیکھ رہی!،
میں یوکلس ہی ہوں شارینا!۔۔۔زخموں سے نڈھال یوکلس نے کہا ۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر حیران ہورہا ہوں تم یہاں کیسے؟
یوکلس سے اچھی طرح بولا نہیں جارہا تھا وہ بولتا تھا تو اس کی آواز ڈوبنے لگتی تھی۔
چپ رہو یوکلس! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ یہ وقت کہانیاں سننے سنانے کا نہیں کہ تم یہاں کیسے آ گئے اور میں یہاں کس طرح آن پہنچی ہوں ۔یہ لو پانی پیئو اور میں تمھیں اٹھاکر مرہم پٹی کے لیے لے چلتی ہوں۔
نہیں شارینا! ۔۔۔یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا وقت پورا ہوچکا ہے معلوم نہیں میں اب تک زندہ کیسے ہوں مجھے یہیں آخری سانس لے لینے دو۔
یوکلس نے شارینا کا ایک ہاتھ پکڑ لیا ۔
یہ تو الگ بات ہے کہ یوکلس انتھونیس کا بیٹا تھا، لیکن سب اسے شاہ ہرقل کا بیٹا کہتے تھے کیونکہ وہ ہرقل کی ایک بیوی لیزا کا بیٹا تھا ۔شارینا بھی شاہ ہرقل کی بیٹی تھی اس لیے وہ اور یوکلس ایک دوسرے کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے۔
شارینا نے یوکلس سے کہا کہ وہ مجاہدین کو بلواتی ہے اور اسے وہاں سے اٹھا کر شہر میں لے چلی گی، لیکن یوکلس نے شارینا کا ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور زور زور سے سر ہلا کر کہنے لگا کہ وہ مرہم پٹی نہیں کروائے گا کیونکہ وہ بیکار ہو گی۔
ادھر دور دور تک بکھری ہوئی لاشوں میں نوجوان روزی یوکلس کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی، عورتوں کے لئے باہر نکلنے کی پابندی تھی لیکن وہ چھپتی چھپاتی کسی طرح گھر سے ہی نہیں بلکہ شہر سے نکل آئی اور اس کو ڈھونڈتی رہی تھی شاید اسے کسی نے بتا دیا تھا کہ یوکلس مارا گیا ہے یا بری طرح زخمی ہو گیا ہے۔
روزی پاگلوں کی طرح زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی پھر رہی تھی وہ کئی بار کسی نہ کسی لاش سے ٹھوکر کھا کر گری اور اٹھ کر پھر زخمیوں اور لاشوں کو دیکھنے لگتی آخر وہ وہاں تک جا پہنچی جہاں شارینا یوکلس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
یوکلس کو دیکھ کر وہ اس کے اوپر گری اور دیوانہ وار اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اٹھنے کی کوشش کرو یوکلس شارینا نے اپنا ایک بازو یوکلس کے کندھوں کے نیچے لے جاتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں تمہیں اٹھاکر لے جائیں گی۔
ہم اٹھالیں گے یوکلس روزی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ہی انتظار میں تھا روزی !۔۔۔یوکلس نے روزی سے کہا۔۔۔میری ماں سے کہنا ۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا آنکھیں پتھرا گئیں۔
روزی کے سینے سے ایک چیخ نکلی اور وہ لاش سے لپٹ گئی ، شارینا وہاں سے اٹھی اور ایک آہ لے کر وہاں سے چلی گئی ، اس نے روزی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کون ہے؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کیا وہ زمانہ تھا ،کیا وہ مسلمان اور کیا ان کا ایمان تھا ، آج کے پیمانوں سے ناپو تو لگتا ہے کہ حساب غلط ہو گیا ہے، اور یہ جو ہم اسلامی فتوحات کی تاریخی کہانیاں پڑھتے ہیں یہ افسانے ہیں۔
یہ تو انسانی فطرت کے مظاہر ہیں جو قدرت کے اٹل اصولوں کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ عمل اور ردعمل کا فلسفہ ہے کہ ردعمل عمل کے مطابق ہی ہوتا ہے ۔
انسان غلط سوچوں میں پڑجائے تو دماغ کا کمپیوٹر جو جواب دیتا ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے مسلمان ایمان سے دستبردار ہوجائے تو اس کی نگاہ میں کل کی حقیقت آج کا افسانہ بن جاتی ہے۔
وہ بھی مسلمان ہی تھے جو ایمان کو ہی اپنی متاع عزیز سمجھتے تھے اور ان کی نگاہوں میں اپنی جانوں کی کوئی اہمیت تھی ہی نہیں وہ ایمان کی طاقت ہی تھی کہ ان مسلمانوں نے اس دور کے دیوہیکل جنگی طاقتوں کو افسانہ بنا ڈالا تھا جیسے ان کی حقیقت تھی ہی نہیں۔
یہ فارس ایران اور روم کی طاقتیں تھیں جو آپس میں ٹکراتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے زمین وآسمان ہل رہے ہوں۔ کسریٰ (ایران) یعنی بادشاہ وقت کو لوگ خدا کا بیٹا مانتے تھے، جنگی طاقت ہو اور قدموں میں دنیا کا خزانہ پڑا ہوا ہو تو انسان اپنے آپ کو فرعونوں کی طرح خدا بھی سمجھ لیتا ہے ،کسریٰ تو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔
خدا کے اور خدا کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے شیدائی جب پیغام حق لے کر نکلے تو خدا کا بیٹا یزدگرد اپنے دارالحکومت مدائن تمام تر خزانے سمیت مسلمانوں کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گیا یہ ایران کا آخری کسریٰ تھا اس کی پوری سلطنت پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہنشاہیت کا خاتمہ ہو گیا۔
ہم فتح مصر کی جو داستان سنارہے ہیں اس کے ساتھ یزدگرد کے فرار اور انجام کا کوئی تعلق تو نہیں لیکن ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلام کی اصل روح پیش کرنے کے لئے یہ واقعہ مختصرا بیان کردیا جائے۔
یزدگرد ایران مجاہدین کے حوالے کرکے ترکستان جا کر پناہ گزین ہوا اور اس امید کو دل میں زندہ رکھا کہ ایک نہ ایک دن ایران میں مسلمانوں میں بغاوت کرانے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس موقع پر وہ ایران جا پہنچے گا اور اس کی سلطنت اسے واپس مل جائے گی اور کسی ایک بھی مسلمان کو وہاں سے زندہ نہیں نکلنے دے گا۔
برسوں بعد اسے یہ موقع مل گیا اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے خراسان میں بغاوت ہو گئی یزدگرد نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ترکستان سے مرو جا پہنچا اس نے مختلف سرداروں سے رابطہ کیا اور بغاوت کی آگ پر تیل چھڑکنے کی بہت کوشش کی لیکن مسلمانوں نے جلد ہی بغاوت پر قابو پالیا۔
یزدگرد نے کچھ لوگ اپنے گرد اکٹھا کر لیے تھے ۔وہ سب بھاگ نکلے یزدگرد مجبور ہو گیا کہ جہاں سے آیا تھا وہی بھاگ جائے لیکن اب اس کے لئے بھاگنا بھی آسان نہیں رہا تھا اس کے اپنے ایرانی اہلکار مسلمانوں کے جاسوس نکلے، سپہ سالار نے حکم دیا کہ یزدگرد کا سراغ لگایئں اور اسے گرفتار کر لیں۔
بھگوڑا سابق کسریٰ روپوش ہوتا پھر رہا تھا اور مجاہدین اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے آخر ایک روز وہ دریا کے کنارے ایک پن چکی کے کمرے میں جا چھپا چکی والے نے نشاندہی کردی اور اسے ڈھونڈنے والے وہاں جا پہنچے وہ عرب کے مسلمان یعنی مجاہدین نہیں تھے بلکہ خراسان کے باشندے تھے انہوں نے مسلمانوں کے سپہ سالار کا یہ حکم نظر انداز کردیا کہ یزدگرد کو گرفتار کرکے لایا جائے اس کے بجائے انہوں نے یزدگرد کو قتل کرکے لاش دریا میں پھینک دی۔
تاریخ میں ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ چکی والا یزگرد کو جانتا تو نہیں تھا لیکن اس کے شاہانہ لباس سے اور پھر چھپنے کے انداز سے یقین ہو گیا کہ یہ یزدگرد ہی ہوسکتا ہے جس کی گرفتاری کا اعلان ہوچکا ہے، چکی والے نے اپنا کمرہ باہر سے بند کر دیا اور مرو کے حاکم کے پاس جا پہنچا اسے بتایا کہ یزدگرد اس کے ہاں چھپا ہوا ہے، مرو کے حاکم نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ یزدگرد کا سر کاٹ کر اس کے پاس لایا جائے چکی والا یہ حکم سن کر دوڑا گیا اور خود ہی یزدگرد کا سر کاٹ ڈالا اور جب سالار آیا تو سر اس کے حوالے کر دیا اور لاش دریا میں پھینک دی۔
تاریخ میں یہ اختلاف موجود ہے کہ یزدگرد کو کس نے کس طرح قتل کیا لیکن اس روایت پر تمام مورخ متفق ہیں کہ یزدگرد کو چکی والے کمرے میں قتل کیا گیا اور اس کی لاش دریا میں پھینک دی گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کسریٰ ایران کی آتش پرست سلطنت یوں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئی، اور دوسری طرف قیصر روم جو جنگی طاقت اور مال و دولت کے لحاظ سے یقینا دیوہیکل تھا پناہ ڈھونڈ رہا تھا اسے شام سے جس طرح بے دخل کیا گیا تھا وہ سنایا جاچکا ہے، حلب ،شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی مجاہدین نے فتح کر لیا تو قیصر روم شاہ ہرقل کے ساتھ وہی بات بن گئی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
شام تو قلعوں کا ملک تھا اور بعض قلعے اس قدر مضبوط تھے کہ انھیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا لیکن کوئی بھی قلعہ ہرقل کو پناہ نہ دے سکا، اس کی فوج تو لڑتی اور پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی اور جب آدھا شام مجاہدین نے فتح کر لیا تو ہرقل نے اپنی فوج کو مجاہدین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لی اسے یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا ، وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
آخر اسے انطاکیہ ایک محفوظ مقام نظر آیا اور وہاں جا پناہ لی، لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ وہاں بھی جا پہنچے اور ہرقل کی محصور فوج بھاگ نکلی ، ہرقل وہاں سے بھی زندہ و سلامت نکل گیا اور اسے روہاء کا مقام نظر آیا یہاں کا قلعہ خاصا مضبوط تھا لیکن مجاہدین اسلام وہاں بھی جا گرجے اور ہرقل نکل بھاگا۔
حلب ایک آخری شامی قلعہ بند شہر رہ گیا تھا، مجاہدین نے وہ بھی لے لیا لیکن ہرقل حلب سے دور تھا اور اس نے اور دور بھاگ جانا بہتر سمجھا ،اس نے قسطنطنیہ جا دم لیا۔
قارئین کرام کی معلومات کے لیے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ ترکی کا ایک شہر تھا اور ہرقل کے زمانے میں ترکی پر رومیوں کی حکومت تھی۔ قسطنطنیہ کا ایک نام بزنطیہ تھا یہ نام اس وقت رکھا گیا تھا جب وہاں بازنطینی حکومت تھی ۔ ہرقل کے ایک بیٹے کا ذکر اس داستان میں آیا ہے جس کا نام قسطنطین تھا اس بیٹے کے ساتھ ہرقل کو اتنا پیار تھا کہ اس نے بزنطیہ کا نام تبدیل کرکے قسطنطنیہ رکھ دیا تھا ۔
موجودہ صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اتاترک مصطفی کمال پاشا کی حکومت بنی تو قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھ دیا گیا آج یہ استنبول ترکی کا ایک بڑا شہر ہے۔ نقشے پر انطاکیہ دیکھیں اور پھر استنبول دیکھیں۔ ہرقل انطاکیہ سے بھاگ کر استنبول پہنچا ۔ فاصلہ تقریبا 900 کلومیٹر ہے۔
اس وقت کی دوسری بڑی جنگی طاقت جسے ہم نے دیوہیکل کہا ہے شام سے ہمیشہ کے لئے نکل بھاگی ابھی سلطنت قائم تھی، ترکی اور مصر سلطنت میں شامل تھے اور قیصر روم کے پنجے اترے ہوئے تھے، پھر بھی یوں کہا جاسکتا ہے کہ بڑے ہی زہریلے سانپ کی کمر توڑ دی گئی تھی اور اب اس کا دم خم ختم ہو گیا تھا یہ تو پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ہرقل نے مصر سے جو کمک اپنے بیٹے قسطنطین کی زیرقیادت منگوائی تھی وہ آدھی کے قریب کٹ مری اور باقی واپس مصر کو بھاگ گئی تھی۔
یہاں ایک اور وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلے ذکر آیا ہے کہ ہرقل نے بزنطیہ خالی کر دینے کا حکم دیا تھا اور خود پہلے ہی نکل گیا تھا، لیکن تاریخ کے اگلے باب حتم و یقین کے ساتھ اس غلط فہمی کی تصحیح کرتے ہیں کہ اس نے بازنطیہ استنبول جا کر پناہ لی تھی اور انطاکیہ اور حلب کے فوجیوں اور شہریوں کو کہا تھا کہ وہ ان شہروں سے نکل جائیں اور اپنی حفاظت اور اپنے مسائل و امور کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل خوش قسمت تھا کہ مجاہدین اس کے تعاقب میں نہ چلے گئے وہ فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے تھے اور اسی جوش و خروش میں شام کی سرحد سے آگے نکل جانے کا بھی عزم کیے ہوئے تھے لیکن امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ شام کا آخری قلعہ بھی فتح کرلیا گیا گیا ہے اور رومی شام سے نکل گئے ہیں تو امیر المومنین نے پہلا حکم یہ دیا کہ مزید پیش قدمی نہ کی جائے اور جو علاقے فتح کرلئے گئے ہیں ان کے انتظامات اور انکا دفاع مستحکم کیا جائے ۔ایسی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ مفتوح آبادیوں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور کسی کو پریشان نہ کیا جائے یہ تو مسلمانوں کا کردار تھا کہ وہ مفتوح بستیوں کے لوگوں کو مفتوح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتے اور ان کی تمام ضروریات اپنے ذمے لے لیا کرتے تھے۔
پیش قدمی روک دینے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا اور یہ حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کا کرشمہ تھا ، یہ تو انہیں معلوم تھا کہ مجاہدین فتح کی مسرتوں سے سرشار ہیں ان میں جذبہ جہاد بھی اور شوق شہادت بھی ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ وہ آخر گوشت پوست کے انسان ہیں لوہے کے بنے ہوئے نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جسم جواب دے جائیں اور شام سے بھاگ جانے والے رومی کہیں قدم جماکر پلٹ آیا اور شکست کو فتح میں بدل لے۔
مجاہدین کی خوشیوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مجاہدین نے کس طرح خوشیاں منائیں ہونگی، سالاروں نے شکرانے کے نوافل باجماعت پڑھائے ہونگے۔ سپہ سالار ابوعبیدہ کو حلب کی فتح کی اطلاع ملی تو وہ حمص سے فورا وہاں پہنچے۔
تاریخ سے یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کونسی نماز کی امامت کی تھی یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز باجماعت پڑھائی اور اس کے بعد مجاہدین سے خطاب کیا ان کا یہ مختصر سا خطاب تاریخ کے دامن میں لفظ بہ لفظ موجود ہے۔
انہوں نے شام کی فتح کی مبارکباد کے بعد کہا۔
اللہ نے قرآن میں جس مدد کا وعدہ فرمایا ہے اس مدد کے صدقے ہم نے اپنا یہ فرض ادا کر دیا ہے کہ باطل کی ایک اور طاقت کو کچل کر اسلامی سلطنت کی سرحد اور وسیع کردی ہے ۔ اسلامی سلطنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہم اپنی بادشاہی نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ، یہ ساری زمین اللہ کی ہے ،روئے زمین پر صرف اللہ کا حکم چلے گا ،شہیدوں نے اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں، شہیدوں کو تو اللہ نے اپنے ہاں پناہ دے دی ہے، قربانی ان کی دیکھیں جو بازو یا ٹانگ یا بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور زندہ ہیں اور باقی عمر معذوری میں گزاریں گے۔ لیکن وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے اللہ نے ان کے بال بچوں کا اوران کے بوڑھے ماں باپ کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے ۔ شہیدوں اور معذور ہوجانے والوں کی بیوی بچوں اور لواحقین کو یہ زمین دی گئی جس زمین کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ اپنے آپ کو اس دنیا کی نظر سے نہ دیکھو تمہارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے، تم ہر روز قرآن پڑھتے ہو کیا تم نے پڑھا یا سنا نہیں کہ اللہ نے تمہیں بہترین امت کہا ہے۔ اور تمہیں اعزاز یہ بخشا ہے ، تو ان کی بھلائی کا کام کرتے ہو اور لوگوں کو برائی سے بچاتے ہو اس سے بڑی بھلائی اور کیا ہو گی کہ لوگوں کو ظالم بادشاہوں سے نجات دلائی جائے، اور انھیں باطل کی زنجیروں سے آزاد کر کے سیدھے راستے پر ڈالا جائے، اپنے آپ کو بے یار و مددگار نہ سمجھنا اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم اس داستان کو کچھ دن پیچھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جب حلب فتح ہو گیا تھا، مجاہدین شہر میں داخل ہوئے تھے اور داخل ہورہے تھے ،اور شہر کے ارد گرد قبائلی عیسائیوں کی لاشیں دور دور تک بکھری ہوئی تھی ، شہر کی عورتیں اور ان کے بچے شہر سے نکل گئے تھے اور اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کی آہ و بکا سے دل دہل رہے تھے۔
ایک عورت بڑی بلند ہی چیخ نما آواز میں کہتی پھر رہی تھی کہ ہمارے آدمیوں نے آخر کس کی لڑائی لڑی ہے۔۔۔ اور کس کی خاطر کٹ مرے ہیں۔
دونوں رومی جرنیلوں نے ہمارے آدمیوں کو گمراہ کیا تھا ۔۔۔یہ بھی ایک عورت کی آواز تھی جو کئی عورتوں کی آواز بن گئی ،ایک بڑی خوبصورت رومن آئی تھی۔۔۔ ایک اور آواز سنائی دی، وہ عورتوں کو بھی لڑانے کے لئے تیار کر رہی تھی ،وہ ہے کہاں ؟
کسی عورت نے پوچھا ۔۔۔زندہ نظر آجائے تو اسے بھی اسی طرح کاٹ دو جس طرح ہمارے آدمی کٹ گئے ہیں۔ یہ ایک اور عورت کی جلی کٹی آواز تھی۔
یہ رونا اب عورتوں کے لئے ہی تھا جن کے آدمی مارے گئے یا اتنے زخمی ہوگئے تھے کہ ان کے زندہ رہنے کی امید کچھ زیادہ نہیں تھی۔
بچے گلیوں میں روتے پھر رہے تھے عورتیں ہرقل کی بیوی لیزا کو کوس رہی تھیں۔
اسے عورتیں انتھونیس کی بیوی سمجھتی رہی تھیں، لیزا کو اس لڑائی کے ساتھ ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی ، یہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے خاوند شاہ ہرقل کو دھوکا دے کر رومی فوج کے جرنیل انتھونیس کے ساتھ قابل اعتراض مراسم قائم کر لیے تھے، اور اس کا ایک بیٹا پیدا کیا تھا، جس کا نام یوکلس تھا ۔
حلب میں آکر لیزا نے انتھونیس سے بے وفائی کی، اور روم کے فوجی افسر روتاس کے ساتھ ویسے ہی نازیبا تعلقات قائم کرلئے تھے، اور اس گناہ کی سزا اسے یوں ملی کہ ان دونوں نے تلواروں کے جو وار ایک دوسرے پر کئے تھے وہ لیزا پر پڑے اور دونوں تلوار اس کے جسم کے پار ہو گئی تھیں۔
لیزا یہی کچھ تھی اور یہی اس کا کردار تھا، لیکن عیسائی قبیلوں کی عورتیں اس کے پاس آجاتیں تو وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی اور کہتی تھی کہ اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کریں، اور خود بھی تیار ہو جائیں لڑائی کا جو نتیجہ نکلا وہ ان عورتوں نے دیکھ لیا اور اب وہ اپنے آدمیوں کا ماتم کر رہی تھیں۔
انہیں اب محسوس ہونے لگا کہ ان کے آدمیوں نے ایک بے مقصد لڑائی لڑی،۔
کسی نے بتایا ہے اس کا جرنیل خاوند مارا گیا ہے ۔۔۔ایک عورت ہر کسی کو بلند آواز سے بتاتی پھر رہی تھی ۔۔۔دوسرا رومی جرنیل بھی سنا ہے مارا گیا ہے اس کے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں۔
انتھونیس کی بیوی کو ڈھونڈو کہاں ہے۔۔۔ ایک معمر عورت نے کہا۔۔۔ مل جائے تو اسے خنجروں سے چھلنی کر دو۔
عورتیں شہر میں ایک جگہ اکٹھا ہوگئی تھیں کسی نے انہیں بتایا کہ لیزا اسی مکان میں مری پڑی ہے، جس میں رومی فوج کا دوسرا جرنیل یعنی روتاس رہتا تھا ۔ یہ سب عورتیں اس طرف دوڑ پڑیں مکان کا دروازہ کھلا تھا اندر جاکر سب نے دیکھا کہ صحن میں لیزا خون میں نہائی پڑھی تھی ، عورتوں نے اپنے اپنے الفاظ اور انداز میں نفرت اور حقارت کا اظہار کیا کسی نے کہا کہ اس لاش گھسیٹ کر باہر پھینک دو، ایک بولی کی لاش یہی پڑے رہنے دو اور مکان بند کر دو اسے یہی کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے۔
زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر شہر کے اندر لایا جارہا تھا ان کے لیے فوجی بارکیں موجود تھیں، اور کچھ لوگ اپنے زخمی عزیزوں کو اپنے گھروں کو لے جا رہے تھے، دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہوگئی تھی زخمی عیسائی، تھا یا مسلمان، مسلمانوں نے مرہم پٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ مجاہدین کی عورتیں اسی کام میں مصروف تھیں۔
شارینا بھی یہی کام کرتی پھر رہی تھی وہ ایک گلی میں سے گزری تو اس کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ اس مکان کے اندر رومی جرنیل کی بیوی کی لاش پڑی ہے ۔
شارینا مکان میں چلی گئی وہاں اب دو تین عورتیں رہ گئی تھیں۔
شارینا نے دیکھا تو حیران رہ گئی وہ تو لیزا کی لاش تھی، لیزا کو وہ بہت ہی اچھی طرح جانتی تھی، لیزا کے سامنے ہی وہ ہرقل کے محل میں پلی اور جوان ہوئی تھی، اس کی اپنی ماں بھی ہرقل کی بیوی تھی شارینا ایک تو یہ دیکھ کر حیرت زیادہ ہوئی کہ لیزا یہاں تک کس طرح پہنچی، حیرت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے قتل کس نے کیا مسلمان تو عورت پر ہاتھ اٹھانا گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔
شارینا نے جب یہ سنا تھا کہ دو رومی جرنیل بھی مارے گئے ہیں تو اس نے دونوں کی لاشیں دیکھی تھی ،وہ چونکہ شاہی خاندان کی لڑکی تھی اس لئے اپنی فوج کے تمام جرنیلوں کو جانتی تھی انتھونیس کی لاش دیکھ کر بھی وہ حیران ہوئی تھی، روتاس کو تو وہ اور ہی اچھی طرح جانتی تھی، روتاس کو حمص میں سپہ سالار ابوعبیدہ کے حکم سے نظر بند رکھا گیا اور شارینا اسے ملتی ملاتی رہتی تھی۔ جب اس نے لیزا کی لاش دیکھی تو اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ یہ عورت یہاں تک کس طرح اور کیوں آئی؟ ۔۔۔انتھونیس اور روتاس کے متعلق تو اس نے خود ہی سوچ لیا کہ حلب کے عیسائیوں کو ان دونوں نے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑایا ہے اور انتھونیس کو اس مقصد کے لئے ہرقل نے بھیجا ہوگا، لیکن ہرقل نے اپنی ایک بیوی کو کیوں بھیج دیا ۔
وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکی، جو دو تین عورتیں لاش کے پاس کھڑی تھی وہ بھی باہر چلی گئیں اور شارینا حیران و پریشان اکیلی وہاں کھڑی لاش کو دیکھتی رہی۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ شارینا کو ایک نسوانی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا سب جھوٹ بولتے ہیں۔
شارینا نے چونک کر دیکھا یہ وہی نوجوان اور خوبصورت لڑکی تھی جو اسے یوکلس کی لاش پر ملی تھی، یوکلس نے اسے روزی کے نام سے پکارا تھا ، اور اس کے فوراً بعد وہ مر گیا تھا ۔
شارینا اس لڑکی کو یوکلس کے پاس بیٹھے اور چیخ چیخ کر روتے چھوڑ آئی تھی۔
اس سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ وہ ہے کون؟ اب شاید روزی کو کسی نے بتایا ہوگا کہ یوکلس کی ماں کی لاش فلاں مکان میں پڑی ہے ،وہ دوڑی آئی اور لیزا کی لاش کو اس طرح چیھڑنے لگی جیسے اسے نیند سے جگا رہی ہو ، تم نہیں مر سکتی ماں روزی نے لیزا کی لاش کے سر کو ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔تم کہتی تھی کہ مجھے یوکلس کی دلہن بناؤ گی، اٹھو!،،،یوکلس کے پاس چلو ، وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
شارینا کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ جان گئی کہ یہ لڑکی یوکلس کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکی، اور اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔
شارینا نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھایا ،روزی !۔۔۔شارینا نے کہا ۔۔۔میں اسے اٹھا لوں گی یہ گہری نیند سوئی ہوئی ہے یہ تمہاری کیا لگتی ہے؟
یہ یوکلس کی ماں ہے۔۔۔ روزی نے جواب دیا یہ میری کچھ بھی نہیں لگتی لیکن میرا سب کچھ یہی ہے مجھے یوکلس کے ساتھ دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتی ہے اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے لیے تم جیسی ہی دلہن کی تلاش میں تھی۔
شارینا کو اس لڑکی پر ترس آنے لگا اور وہ سوچنے لگی کہ اسے کس طرح حقیقت میں لائے کہ یہ قبول کرلے کے یوکلس بھی مر چکا ہے، اور یوکلس کی ماں بھی مر گئی ہے۔
اور یہ دونوں اب کبھی اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔
لیکن روزی تصوراتی دنیا میں کھو گئی تھی۔ شارینا اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی لیکن یہ نہ کہا کہ یہ عورت جو صحن میں پڑی ہے زندہ نہیں۔
اتنے میں ایک اور عورت اس مکان میں آ گئی اور اس لڑکی کو اپنے بازوؤں میں لے لیا یہ عورت عمر اور شکل و صورت سے روزی کی ماں معلوم ہوتی تھی۔
وہ روزی سے کہنے لگی کہ وہ گھر چلے، لیکن روزی اس طرح جواب دے رہی تھی جیسے لیزا زندہ تھی، تم یہاں سے چلی جاؤ ماں! ۔۔۔روزی نے کہا۔۔۔ میں یوکلس کو بلانے جارہی ہوں وہ آ کر اپنی ماں کو اٹھائے گا۔ شارینا نے روزی کی ماں کو اشارہ کیا کہ وہ روزی کو ابھی آزاد چھوڑدے۔
شارینا روزی کی ماں کو ایک کمرے میں لے گئ اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ شارینا یہ تو سمجھ گئی تھی کہ یوکلس اور روزی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ لیکن شارینا کچھ اور بھی سننا چاہتی تھی ،وہ روزی کی ماں نے اسے سنا دیا روزی کی ماں نے اس کے اس خیال کی تائید کردی کے یوکلس اور روزی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔
یوکلس نے جو کچھ بھی روزی کو بتایا تھا وہ روزی اپنی ماں کو بتاتی رہتی تھی، یوں کہ روزی کو بتایا تھا کہ اس کا باپ شاہ ہرقل اور اسکا ایک بیٹا قسطنطین اسے قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہرقل قسطنطین کو اپنا جانشین مقرر کر رہا تھا ، یوکلس نے روزی کو بتایا تھا کہ کس طرح انتھونیس اسے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر فرار ہوا تھا ۔
یوکلس نے روزی کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ہرقل کا نہیں بلکہ انتھونیس کا بیٹا ہے ۔
روزی نے یہ ساری باتیں اپنی ماں کو بتا دی تھی اور اب ماں یہ ساری باتیں شارینا کو بتا رہی تھی۔
شارینا یہ سن کر ذرا سی بھی حیران نہ ہوئی کہ یوکلس کی ماں کا خاوند ہرقل تھا لیکن اس کا باپ ایک جرنیل تھا یہ تو بادشاہوں کے یہاں ایک معمول تھا ۔
روزی کی ماں نے شارینا کو یہ بھی بتایا کہ انتھونیس مسلمانوں کے خلاف لڑ کر اپنی سلطنت بنانا چاہتا تھا ،اسے وہ یسوع مسیح کی سلطنت کہتا تھا۔
روزی کی ماں اور شارینا کمرے میں باتیں کہہ سن رہی تھیں کہ باہر سے روزی کی چیخ نما آواز سنائی دی۔
یوکلس اور اس کی ماں کو ہرقل نے قتل کروایا ہے ۔۔۔روزی چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔۔۔ میں ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہوں۔ روزی کے دوڑ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، اور وہ مکان سے نکل گئی ۔
روزی کی ماں اس کے پیچھے دوڑتی نکل گئی، اور شارینا دل پر رنج و غم کا بوجھ لئے کمرے سے نکلی، لیزا کی لاش کو دیکھا اور مکان سے نکل گئی۔
باہر جاکر اس نے دیکھا کہ روزی شہر کے صدر دروازے کی طرف دوڑی جا رہی تھی اور اس کی ماں چلاتی جا رہی تھی ،اسے پکڑنا، اسے روکنا ، وہاں صورتحال ایسی بنی ہوئی تھی کہ کوئی بھی ماں بیٹی کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا ، وہاں تو یہ حال بنا ہوا تھا کہ کچھ لوگ لاشیں اٹھا کر لا رہے تھے، اور بعض لہولہان زخمیوں کو سہارا دے کر ان کے گھروں کو لے جا رہے تھے، فضا میں موت کی بو رچی بسی ہوئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو حکم دے دیا تھا کہ شام کی سرحد تک ہی محدود رہا جائے اور مزید پیش قدمی نہ کی جائے ،ابوعبیدہ اور خالد بن ولید جیسے جوشیلے اور تاریخ ساز سپہ سالاروں نے بھی امیر المومنین کا یہ حکم دانشمندانہ اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق سمجھا تھا ،انہیں احساس تھا کہ مفتوحہ علاقے وسیع و عریض ہیں اور ان کے نظم و نسق کو رواں اور پُر اثر کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ فتح کرتے چلے جاو آگے بڑھتے جاؤ اور مفتوحہ لوگوں کو فراموش کرتے جاؤ، وہ باغی بھی ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کو لوٹنے بھی لگتے ہیں۔
تمام سالار امیرالمومنین کے حکم کو پسند کر رہے تھے۔ لیکن ایک سالار ایسا تھا جس کے خون کا ابال ٹھنڈا ہو ہی نہیں رہا تھا، یہ تھے سالار عمروبن عاص ،شام کی فتح کے جشن میں تو وہ دل و جان سے شامل تھے شامل کیوں نہ ہوتے انہوں نے دن رات ایک کرکے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ فتح حاصل کی تھی لیکن وہاں بھی مطمئن نہیں تھے۔
جس وقت حلب میں سپہ سالار ابوعبیدہ پہنچے تھے اور انہوں نے مجاہدین سے خطاب کیا اس وقت عمرو بن عاص کسی اور شہر میں تھے وہ جہاں کہیں بھی تھے اپنی بے چینی اور اپنی بے قراری چھپا نہ سکے انہوں نے صاف الفاظ میں امیرالمومنین کے حکم کو غیر دانشمندانہ بھی کہہ دیا، کچھ دنوں بعد ان کی یہ بے چینی اور یہ احتجاجی باتیں سپہ سالار ابوعبیدہ تک پہنچ گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں اس کے پیچھے اسی لیے آیا تھا کہ یہ یہاں سے زندہ نہ نکل سکے عثمان صارم نے کہا اور امام کو اپنا خنجر دکھا کر کہنے لگا خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا خنجر صلیب پر روک لیا تھا یہ آدمی پاگل نہیں عیسائی اور یہودی بھی نہیں یہ مسلمان ہے صلاح الدین ایوبی کا پیغام لایا ہے اس نے بوڑھے امام کو سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا میں اس پیغام پر عمل کروں گا آج شام سے ہی بسم اللہ کر رہا ہوں لیکن ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے کیا آپ ہماری قیادت کریں گے؟  یہ سوچ لیں کہ صلیبی حکومت کو خبر مل گئی تو سب سے پہلے امیر کی گردن اڑائی جائے گی
کیا مسجد میں کھڑے ہوکر میں کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ میں قوم سے الگ رہوں گا؟ امام نے جواب دیا لیکن یہ فیصلہ قوم کرے گی کہ میں امیر  اور قائد بننے کے قابل ہوں یا نہیں میں خدا کے گھر میں کھڑا یہ عہد کرتا ہوں کہ میری دانش میرا مال میری اولاد اور میری جان اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور صلیب کو روبہ زوال کرنے کے لیے وقف ہوگئی ہے
میرے عزیز بیٹے صلاح الدین ایوبی کے پیغام کا ایک ایک لفظ ذہن میں بٹھا لو اس نے ٹھیک کہا ہے کہ نوجوان قوم اور مذہب کا مستقبل ہوتے ہیں، وہ اسے روشن بھی  کرسکتے ہیں اور وہ آوارہ ہوکر اسے تاریک بھی کرسکتے ہیں
جب کوئی نوجوان صلیبیوں اور یہودیوں کی بے حیائی کا دلدارہ ہوکر لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو وہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن بھی اس جیسے نوجوانوں کی بری نظر کا شکار ہو رہی ہے
یہ وہ مقام ہے جہاں قومیں تباہ ہوتی ہیں
میرے نوجوان بیٹے! خدا کے اس گھر میں عہد کرو کہ تم صلاح الدین ایوبی کے  پیغام پر عمل کرو گے
عثمان صارم نے گھر جاکر اپنی بہن النور کو  الگ بٹھا کر سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا النور! ہمارا مذہب اور  ہمارا قومی وقار تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہا ہے آج سے اپنے آپ کو پردہ نشین لڑکی سمجھنا چھوڑ دو مسلمان لڑکیوں تک یہ پیغام پہنچا کر انہیں اس  جہاد کے لیے تیار کرلو۔ میں تمہیں خنجر تیر کمان اور برچھی کا استعمال سکھا دوں گا احتیاط یہ کرنی ہے کہ کسی کو شک بھی نہ ہو کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں
میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوں النور نے کہا میں اور میری تمام سہیلیاں تو پہلے ہی سوچ رہی ہیں کہ ہم اپنی آزادی  اور اپنی قوم کے لیے کیا کرسکتی ہیں ہم تو مردوں کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہیں
عثمان صارم نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج  کے متعلق جتنی خبریں یہاں مشہور کی جاتی ہیں، وہ سب جھوٹی ہوتی ہیں تمام مسلمان گھرانوں میں جاکر عورتوں کو صحیح خبریں سناؤ عثمان صارم نے اسے صحیح خبریں سنائیں اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں میں غدار اور صلیبیوں میں مخبر بھی ہیں اس نے بہن کو ایسے تین چار گھرانے بتائے اور کہا کہ ان  عورتوں کو ہاتھ میں لو اور انہیں بتاؤ کہ ان کے آدمی غدار ہیں انہیں یہ بھی کہو کہ عیسائی اور یہودی لڑکیوں کے پیار سے بچو ان کا پیار محض دھوکہ ہے 
کیا میں رینی کو یہاں آنے سے روک دوں؟
عثمان صارم نے کہا وہ بہت تیز اور ہوشیار لڑکی ہے
رینی ایک نوجوان عیسائی لڑکی تھی عثمان صارم کے گھر سے تھوڑی ہی دور اس  کا گھر تھا اس کا باپ شہری انتظامیہ کے کسی اونچے عہدے پر فائز تھا لڑکی کا پورا نام رینی الیگزینڈر تھا وہ النور کی سہیلی بنی ہوئی تھی عثمان صارم کے ساتھ بھی اس نے گہرے مراسم پیدا کرلیے تھے اسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی تھی عثمان صارم ابھی اس کے قریب نہیں ہوا تھا یہ وجیہہ جوان سمجھتا تھا کہ یہ عیسائی لڑکی ہے اور یہاں جاسوسی کرنے آتی ہے اس نے رینی کو  کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیتا تھا تاکہ اسے شک نہ ہو اب جب اسے یہ ضرورت پیش آئی کہ رینی اس کے  گھر نہ آیا کرے تو رینی کو یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہوگیا کہ اب ہمارے گھر نہ آیا کرو مگر اسے روکنا ضروری تھا کیونکہ وہ گھر میں اپنی بہن کو جنگی  ٹرینگ دینا چاہتا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں اب کیا کیا راز آئیں گے اس نے سوچ سوچ کر یہ طریقہ پسند کیا کہ النور سے کہا کہ رینی جب کبھی آئے تم یہ کہہ کر باہر چلی جایا کرو کہ کسی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں اس طرح اسے ٹالتی رہو، وہ خود ہی آنا چھوڑ دے گی
کرک شہر کے لوگ اس  پاگل کی باتیں کررہے تھے جو مسلمانوں کی تباہی کی پیشن گوئی کرتا پھر رہا تھا
غیر مسلموں کو وہ بہت ہی اچھا لگا تھا سب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا سرکاری طور پر بھی اسے تلاش کیا جارہا تھا کیونکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کا جذبہ سرد کرنے کے لیے اس  پاگل کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ  کہاں چلا گیا ہے وہ اسی رات کہیں لاپتہ ہوگیا تھا دس بارہ روز اس کی تلاش ہوتی رہی صلیبی حکام نے شہر کے باہر بھی گھوڑ سوار دوڑا دیئے۔ انہیں توقع  تھی کہ وہ اس شہر سے کہیں دوسرے شہر جارہا ہوگا مگر وہ کسی کو نہ ملا اور دس بارہ دن گزر گئے
ان دس بارہ دنوں میں عثمان صارم نے النور اور  اس کی تین سہیلیوں کو ہتھیاروں کا استعمال سکھا دیا اس نے انہیں تیغ زنی بڑی محنت سے سکھائی اس کے علاوہ اس نے مسلمان نوجوانوں کو درپردہ سلطان ایوبی کا پیغام سنا کر زمین دوز محاذ پر جمع کرلیا ان نوجوانوں نے ان مسلمان کاریگروں کو تیار کرلیا جو برچھیاں اور تیرکمان وغیرہ بناتے تھے یہ سب صلیبیوں کے ملازم تھے وہ اپنے لیے کوئی ہتھیار نہیں بنا سکتے تھے مسلمانوں کو کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں تھی ان کاریگروں نے گھروں میں چوری چھپے ہتھیار بنانے شروع کر دیئے یہ بہت ہی خطرناک کام تھا۔ پکڑے جانے کی صورت میں صرف سزائے موت ہی نہیں تھی بلکہ مرنے سے پہلے صلیبی درندوں کی بھیانک اذیتیں تھیں وہاں کوئی مسلمان کوئی معمولی سے جرم میں یا محض شک میں پکڑا جاتا تو اس سے پوچھا جاتا تھا کہ مسلمان گھرانوں کے اندر کیا ہورہا ہے اور جاسوس کہاں ہیں اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کی روئی کی طرح  دھنائی شروع کردیتے تھے۔ کاریگر جو ہتھیار بناتے تھے وہ عثمان صارم جیسے نوجوان رات کو مختلف گھروں میں چھپا دیتے تھے دن کے وقت لڑکیاں برقعہ نما لبادوں میں خنجر اور تیرکمان چھپا کر مسلمانوں کے گھروں میں لے جاتی رہتی  تھی مگر ہتھیار بنانے اور گھروں میں پہنچانے کی رفتار بہت سست تھی
ادھر سلطان ایوبی کو ایک جاسوس نے اطلاع دے دی کہ کرک اور مضافات کے مسلمانوں تک اس کا پیغام پہنچ گیا ہے اور وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے زمین دوز محاذ بنا لیا ہے یہ اطلاع لانے والا بھی ایک ذہین اور نڈر جاسوس تھا اس نے بتایا کہ وہ جاسوس جس نے سلطان ایوبی کا پیغام عثمان صارم تک پہنچایا تھا پاگل کے روپ میں کامیاب رہا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی اس اطلاع پر بہت خوش تھا اس نے کہا جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی
اس کامیابی نے میرا حوصلہ بڑھا دیا ہے شعبہ جاسوسی کے نائب زاہدان نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں  مقبوضہ علاقے کے نوجوانوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنا بھڑکا سکتا ہوں کہ  وہ شعلے بن کر کرک اور یروشلم کو آگ لگا دیں گے اور اس آگ میں وہ خود بھی جل مریں گے 
سلطان ایوبی نے کہا میں نوجوانوں کو شعلے نہیں بنانا چاہتا میں ان کے سینوں میں ایمان کی چنگاری سلگانا چاہتا ہوں نوجوانوں کو بھڑکانا کوئی مشکل کام نہیں ان میں سے کوئی اشرفی کی چمک اور  لالچ سے تمہارے ہاتھ میں کھیلنے لگے گا اور زیادہ تعداد ان کی ہے جو  جذباتی الفاظ اور جوشیلے نعروں سے بھڑک اٹھتے ہیں پھر تم ان سے جو کچھ  کرانا چاہتے ہو کرالو انہیں آپس میں بھی لڑا سکتے ہو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ جاہل اور گنوار ہیں اور ان کا اپنا دماغ ہی نہیں اصل وجہ یہ ہے کہ  یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خون کا جوش کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے اس عمر میں ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور عمل صالح کی طرف بھی تم نوجوان  ذہن کو جو بھی تحریک اور اشتعال دے دو وہ اسی کا اثر قبول کرلے گا تمہارے  دشمن ہماری قوم کے ابھرتے ہوئے ذہن میں عیاشی اور جنسی لذت کے جراثیم ڈال رہے ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم انہیں جہاد کی طرف مائل کرکے دشمن کے  خلاف استعمال نہ کرسکیں تم یہ کوشش کرو کہ نوجوان بھڑکیں نہیں بلکہ سرد رہیں اور سوچیں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھیں کہ اپنے آپ کو جانو اپنے دشمن کو پہچانو ان کی سوچیں بدل دو ان میں قومیت کا احساس پیدا کرو یہ نوجوان قوم کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں انہیں بھڑکا کر جلنے سے بچاؤ انہیں مردانہ دانشمندی نہیں، دانائی یہ ہے کہ ان کے  ہاتھوں دشمن کو مرواؤ لیکن دشمن کا تصور واضح کرو کوئی مسلمان مجھے برا بھلا کہے تو وہ نہ اسلام کا دشمن ہے نہ غدار ہے، وہ میرا دشمن ہے میں اسے قانون کا سہارا لے کر سزا نہیں دوں گا جو اسلام در سلطنت اسلامیہ کے تحفظ  کے لیے بنایا گیا ہے ملت کا قانون ملت کے امیر کے ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتا غداری کی سزا اسے دی جاتی ہے جو ملک اور قوم کی جڑیں کاٹے اور دین کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرے خواہ حکمران خود ہی اس کا مجرم ہو وہ غدار ہے اور سزا کا مستحق

اس صورت میں جبکہ وہاں نوجوان تیار ہوگئے ہیں ہم انہیں کس طرح استعمال کریں زاہدان نے پوچھا انہیں جوش میں نہ آنے دو سلطان ایوبی نے جواب دیا ان کی سوچیں بیدار کرو وہاں کے حالات کے مطابق وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے وہ جذبات کے غلبے کے تحت نہ سوچیں وہاں اور زیادہ ذہین جاسوس بھیجو  اور یہ یاد رکھو زاہدان کہ دشمن ہمیں نہیں ہمارے نوجوان بچوں کا کردار بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے یا ہمارے ان حاکموں کا جن کے ذہن بچوں کی طرح خام  ہیں کسی بھی قوم کو جنگ کے بغیر شکست دینا چاہو تو اس کے نوجوانوں کو ذہنی عیاشی میں ڈال دو یہ قوم اس حد تک تمہاری غلام ہوجائے گی کہ اپنی مستورات  تمہارے حوالے کرکے اس پر فخر کرے گی صلیبی اور یہودی ہماری قوم کو اسی  سطح پر لانے کی کوشش کررہے ہیں سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا  ہو۔ اس نے زاہدان سے کہا میں نے کسی سے کہا تھا کہ کرک کے ان مسلمانوں تک جو ہتھیار بنا رہے ہیں، آتش گیر مادہ پہنچا دو یا انہیں بتا دو کہ یہ کس طرح بنتا اور استعمال ہوتا ہے
وہ انہیں بتا دیا گیا ہے زاہدان نے جواب دیا اطلاع ملی ہے کہ مسلمانوں نے یہ مادہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے کرک میں ایسے حالات فوراً ہی پیدا ہوگئے جن میں وہاں کے  نوجوانوں کو خود ہی سوچنا اور عمل کرنا پڑا مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں نے قافلے لوٹنے کا بھی سلسلہ شروع کر رکھا تھا قافلے اتنے عام نہیں تھے
تاجر  اور دیگر سفر کرنے والے اکٹھے ہوتے رہتے تھے
ان کی تعداد ڈیڑھ دو سو ہوجاتی تو قافلے کی صورت میں چلتے تھے یہ ایک حفاظتی اقدام ہوتا تھا قافلے کے ساتھ لڑنے والے مسلح افراد بھی ہوتے تھے گھوڑوں اور اونٹوں کی افراط ہوتی تھی تاجروں کا بے شمار مال اور دولت ہوتی تھی قافلے میں چند ایک کنبے بھی ہوتے تھے یہ لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ صلیبی استبداد میں آئے ہوئے مسلمان اکثر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کی حکمرانی کے علاقوں میں  جاتے رہتے تھے اتنے بڑے قافلے کو چند ایک ڈاکو نہیں لوٹ سکتے تھے قافلے والے مقابلہ کرتے تھے صلیبیوں نے یہ کام اپنی فوج کے سپرد کیا تھا انہیں اگر کسی قافلے کی اطلاع مل جاتی تو اپنی فوج کے ایک دو دستوں کو صحرائی لوگوں کے بھیس میں بھیج کر اسے لوٹ لیتے تھے قافلوں میں صرف مسلمان ہوتے  تھے یہ جرم ان صلیبی بادشاہوں نے بھی کرایا اور لوٹے ہوئے مال سے حصہ وصول کیا جنہیں آج تاریخ میں صلیبی جنگوں کا ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے
اس جرم میں مسلمان امراء بھی شامل تھے وہ چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے حکمران تھے ان کے پاس فوج بھی تھی لٹے ہوئے قافلوں کے دوچار آدمی فریاد لے کر ان حکمرانوں کے دربار میں جاتے تھے تو ان کی سنوائی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان حکمرانوں کو بھی صلیبی لڑکیوں شراب اور تھوڑے سے سونے کی صورت  میں حصہ دیا کرتے تھے
اگر یہ حکمران چاہتے تو صلیبی ڈاکوؤں کا قلع قمع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صلیبی ڈاکوؤں کو ایسی کھلی چھٹی دے رکھی تھی  کہ یہ ڈاکو ان کی ریاستوں کے اندر بھی آکر لوٹ مار کر جاتے تھے صلیبیوں نے انہیں اندھا کرکے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ ان کی ریاستوں کے سرحدی علاقے ہڑپ کرتے گئے انہوں نے بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مسلسل ڈاکوؤں سے پریشان کرکے جزیہ بھی وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح سلطنت اسلامیہ سکڑتی چلی جا رہی تھی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ان مسلمان ریاستوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے ان حکمرانوں کو وہ صلیبیوں سے زیادہ  خطرناک سمجھتے تھے ایک بار نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو ایک  پیغام بھیجا تھا جس میں کئی اور باتوں کے علاوہ ان چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے متعلق لکھا تھا ان مسلمان حکمرانوں نے اپنی عیش وعشرت کے  لیے اپنی ریاستیں صلیبیوں کے پاس گروی رکھ دی ہیں وہ کفار سے تحفے اور  زروجواہرات اور اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکیاں لیتے اور اسلام کا نام ڈبوتے  جارہے ہیں یہ مسلمان کفار سے زیادہ ناپاک اور خطرناک ہیں۔ وہ بادشاہی کے نشے میں بدمست ہیں اور صلیبی ان کی جڑوں میں داخل ہوگئے ہیں صلیبیوں کو شکست دینے سے پہلے ضروری ہوگیا ہے کہ ان مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں سلطنت اسلامیہ میں مدغم کیا جائے اور خلافت بغداد کے تحت لایا جائے اس کے بغیر اسلام کا تحفظ ممکن نہیں
ان خطروں کے باوجود کبھی کبھی کوئی بہت بڑا قافلہ صحرا میں جاتا نظر آجاتا تھا کرک سے چند میل دور سے  ایک قافلہ گزر رہا تھا اس میں ایک سو سے زیادہ اونٹ تھے بہت سے گھوڑے بھی تھے قافلے میں تاجروں کا مال تھا اور چند ایک کنبے تھے ایک کنبہ ایسا بھی تھا جس میں دو جوان لڑکیاں تھیں یہ بہنیں تھیں قافلہ حسب معمول مسلمانوں کا تھا کرک کے علاقے سے قافلہ گزر رہا تھا تو صلیبیوں کو پتہ چل  گیا انہوں نے اپنی فوج کا ایک دستہ بھیج دیا جس نے دن دہاڑے قافلے پر جا حملہ کیا۔ قافلے کے گھوڑ سواروں نے مقابلہ تو بہت کیا مگر صلیبیوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں ریت خون سے لال ہوگئی صلیبیوں نے بچوں تک کو کاٹ ڈالا پندرہ سولہ جواں سال مسلمان رہ گئے انہیں قیدی بنا لیا گیا دونوں  لڑکیوں کو پکڑ لیا اونٹوں اور گھوڑوں کو مال واسباب سمیت کرک لے گئے
یہ قافلہ جب کرک میں داخل ہوا تو آگے آگے قیدی تھے ان کے پیچھے دو گھوڑوں  پر دو لڑکیاں سوار تھیں جن کا لباس بتاتا تھا کہ مسلمان ہیں ان کے پیچھے صلیبی تھے جن کے چہروں پر نقاب تھے اور ان کے پیچھے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار تھی لڑکیاں رو رہی تھیں۔ کرک کے شہری تماشا دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے، وہ تالیاں پیٹتے اور قہقہے لگاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لٹا ہوا یہ قافلہ مسلمانوں کا ہے اور قیدی بھی مسلمان ہیں ان قیدیوں میں ایک جواں سال قیدی آفاق نام کا تھا دونوں مغویہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں آفاق زخمی بھی تھا اس کی پیشانی اور کندھے سے خون بہہ رہا تھا وہ لٹے ہوئے قافلے کے آگے آگے شہر میں داخل ہوا تو تماشائیوں کو دیکھ کر اس نے بلند آواز سے کہا کرک کے مسلمانو! ہمارا تماشا دیکھ رہے ہو؟ 
ڈوب مرو ان لڑکیوں کو دیکھو، یہ میری نہیں تمہاری بہنیں ہیں یہ مسلمان ہیں
ایک صلیبی نے پیچھے سے اس کی گردن پر گھونسہ مارا وہ منہ کے بل گرا اس کے ہاتھ رسیوں سے پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے ایک قیدی نے اسے اٹھایا تو  آفاق پھر چلایا کرک کے مسلمانو! یہ تمہاری بیٹیاں ہیں اسے دو تین  نقاب پوشوں نے پیٹنا شروع کر دیا اس کی بہنیں چیخ چیخ کر رو رہی تھیں اور فریادیں کرتی تھیں خدا کے لیے ہمارے بھائی کو نہ مارو ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، اسے نہ مارو ایک بہن چلا رہی تھی
آفاق خاموش ہو جاؤ تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے
 مگر آفاق چپ نہیں ہورہا تھا تماشائیوں میں مسلمان بھی تھے جو اپنا خون پی رہے تھے مگر بے بس تھے
ان کی غیرت ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتی جارہی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے ان  میں نوجوان مسلمان بھی تھے اور ان میں عثمان صارم بھی تھا اس نے اپنے  نوجوان دوستوں کی طرف دیکھا۔ سب کی آنکھیں لال تھیں اور دل زور زور سے دھڑک رہے تھے
عثمان صارم تھوڑی دور تک اس قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا آگے ایک غریب سا موچی بیٹھا تھا جو لوگوں کے جوتے مرمت کیا کرتا تھا اسے کسی مسلمان نے اپنی گھر کی ڈیوڑھی میں سونے کی جگہ دے رکھی تھی
دن بھر وہ باہر بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا تھا بدقسمت قافلہ اس کے سامنے سے بھی گزرا اس نے بھی آفاق کی للکار اور لڑکیوں کی آہ وزاری سنی آفاق کے چہرے کو خون سے لال دیکھا اس پر صلیبیوں کا ظلم ہوتا بھی دیکھا لیکن اس طرح دیکھا جیسے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا اس موچی کو نہ کبھی کسی نے مسجد میں جاتے دیکھا تھا نہ گرجے میں وہ یہودیوں کی عبادت گاہ میں بھی کبھی نہیں  گیا تھا اس کی طرف وہی توجہ دیتا تھا جسے جوتا مرمت کرانا ہوتا تھا اسے  کبھی کسی نے بولتے نہیں سنا تھا، وہ خلق کا راندہ ہوا انسان تھا جسے  صلیبیوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسلامیوں کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا
عثمان صارم چلتے چلتے اس موچی کے قریب سے گزرنے لگا  تو رک گیا قیدی آگے نکل گئے تھے اونٹ جارہے تھے جب آخری اونٹ گزر گیا تو عثمان صارم نے دونوں جوتے اتار کر موچی کے آگے رکھ دیئے اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ موچی کسی کا جوتا مرمت کر رہا تھا اس نے عثمان صارم کو سر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں عثمان نے ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی میں کہا ان دونوں لڑکیوں کو آج رات آزاد کرانا ہے
جانتے ہو یہ لڑکیاں رات کو کہاں ہوں گی؟
موچی نے سر اٹھائے بغیر اتنی دھیمی آواز میں پوچھا کہ عثمان صارم کے سوا کوئی اور نہیں سن سکتا تھا
جانتا ہوں عثمان صارم نے جواب دیا صلیبی بادشاہوں کے پاس ہوں گی لیکن ہم میں سے کسی نے بھی وہ جگہ اندر سے نہیں دیکھی میں نے دیکھی ہے موچی نے اپنے کام میں مگن رہ کر کہا وہاں سے لڑکیوں کو نکالنا ممکن نہیں
تم کس مرض کی دوا ہو؟
عثمان صارم نے ایسے لہجے میں کہا جس میں جذبات کا لرزہ اور غصہ تھا کہنے لگا ہماری رہنمائی کرو اگر ہم لڑکیوں تک پہنچ  گئے اور پکڑے گئے تو لڑکیوں کی گردنیں کاٹ دیں گے انہیں صلیبیوں کے پاس  نہیں رہنے دیں گے
کتنے جوانوں کی قربانی دے سکتے ہو؟
موچی نے پوچھا
جتنے جوان مانگو گے
کل رات
آج رات عثمان صارم نے دبدبے سے کہا آج ہی رات برجیس! آج ہی رات
امام کے پاس پہنچو موچی نے کہا
کتنے جوان؟
برجیس موچی نے سوچ کر کہا آٹھ ہتھیار سن لو خنجر
برجیس موچی نے سوچ کر کہا آٹھ ہتھیار سن لو خنجر آتش گیر مادہ
عثمان صارم نے اپنے جوتے پہنے اور چلا گیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ عثمان صارم نے راستے میں اپنے سات دوستوں کو گھروں سے بلا کر انہیں امام کے گھر پہنچنے کو کہا اور خود امام کے گھر  چلا گیا یہ اسی مسجد کا امام تھا جس میں عثمان صارم کی ملاقات ''پاگل'' سے  ہوئی تھی عثمان نے ہی امام کو اپنی زمین دوز جماعت کی امامت پیش کی تھی جسے جماعت کے ہر فرد نے قبول کرلیا تھا یہ لوگ کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے اور لائحہ عمل تیار کرتے تھے اب ان دو مغویہ لڑکیوں کا مسئلہ سامنے آگیا تو عثمان صارم نے ان کی رہائی کا ارادہ کرلیا جو دراصل خودکشی کا  ارادہ تھا وہ موچی کے کہنے کے مطابق امام کے گھر چلا گیا امام بے چینی سے  اپنی ڈیوڑھی میں ٹہل رہا تھا عثمان صارم کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا عثمان! تم نے اس قیدی کی للکار سنی تھی؟ 
معلوم ہوتا تھا وہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں
میں اسی للکار پر لبیک کہنے آیا ہوں محترم امام! عثمان صارم نے کہا برجیس آرہا ہے اور میرے سات دوست بھی آرہے ہیں
تم کیا کرو گے؟
امام نے پوچھا تم کر ہی کیا سکو گے؟
میں جانتا ہوں کہ ہماری بے شمار لڑکیاں کافروں کے قبضے میں ہیں مگر ان دو لڑکیوں نے مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے اس نے منہ اوپر کرکے گہری آہ بھری اور کہا یاخدا مجھے صرف ایک رات کے لیے جوان کردے یا آج ہی رات میری جان لے لے اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ان لڑکیوں کی آہ وزاری مجھے سنائی دیتی رہے گی اور میں پاگل ہو جاؤں گا
ہمیں اپنی دانش کی روشنی دکھائیں عثمان صارم نے کہا مجھے امید ہے کہ ہم آپ کو ایک رات سے زیادہ بے چین نہیں رہنے دیں گے
عثمان صارم کے دو ساتھی اندر آئے امام نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا آج یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میری دانش جواب دے گئی ہے مجھے اس طرح بے قابو نہیں ہونا چاہیے لیکن کوئی غیرت کو للکارے تو جذبے  بھڑک اٹھتے ہیں جنہیں مطمئن کرنے کے لیے جوان ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن میرے بچو! میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں مجھ میں اب برداشت کی قوت نہیں رہی تم جو کچھ کرنے کا ارادہ کرو سنبھل کر کرنا
ایک ایک کرکے سات نوجوان  جمع ہوگئے اور ان کے فوراً بعد موچی آگیا  اس نے بوری اٹھا رکھی تھی جس میں پرانے جوتے اور اوزار تھے اس نے بوری پھینکی اور کمر سیدھی کی وہ ہنس  پڑا وہ جب سیدھا کھڑا ہوا تو کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ وہ موچی ہے جو دنیا کی گہما گہمی سے رشتہ توڑے ہوئے راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا ہے اس وقت جب وہ امام کے گھر میں تھا اور دروازہ بند ہوچکا تھا وہ موچی نہیں برجیس تھا علی بن سفیان کے محکمہ جاسوسی کے ایک خفیہ شعبے کا تجربہ کار اور نہایت عقل مند جاسوس اس نے امام سے کہا یہ لڑکے آج ہی ان دونوں لڑکیوں کو صلیبیوں کی قید سے آزاد کرانے پر تلے ہوئے ہیں اس کام میں صرف پکڑے جانے کا یا ناکامی کا ہی خطرہ نہیں بلکہ یقینی موت کا خطرہ ہے 
ہم یہ خطرہ قبول کرتے ہیں محترم برجیس! ایک نوجوان نے کہا… ''آپ اس فن کے استاد ہیں، ہماری رہنمائی کریں اگر عقل کی بات سنیں تو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں برجیس نے کہا صلیبیوں کے پاس بہت سی مسلمان لڑکیاں ہیں ان میں سے بعض کو انہوں نے بچپن میں قافلوں اور گھروں سے اغوا کیا تھا اور انہیں اپنی تعلیم وتربیت دے کر ہمارے خلاف جاسوسی اور تمہاری کردار کشی کے لیے استعمال کر رہے ہیں تم لوگ ایک ایک لڑکی کو تو آزاد نہیں کراسکتے اگر تم سب میرے فن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو میں کہوں گا کہ دو لڑکیوں کی خاطر تم جیسے آٹھ جوان قربان کر دینا عقل مندی نہیں بردباری اور تحمل ضروری ہے
میں تحمل کو کس طرح قبول کرسکتا ہوں؟
عثمان صارم نے بھڑک کر کہا
میری طرح برجیس نے کہا کیا میں پیشے کا موچی ہوں؟ 
میں جب مصر میں  ہوتا ہوں تو میری سواری کے لیے عربی گھوڑا تیار رہتا ہے اور میرے گھر میں دو ملازم ہیں مگر یہاں تین مہینوں سے راستے میں بیٹھا لوگوں کے غلیظ جوتے مرمت کرتا رہتا ہوں میں تمہیں دو لڑکیوں کی آزادی کے لیے پورے کرک اور اس سے آگے کے بہت وسیع علاقے کو آزاد کرانے کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں برداشت کرو انتظار کرو
عثمان صارم اور اس کے ساتوں دوست برداشت  کی حدوں سے نکل چکے تھے ان کی باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ ان میں انتظار کی بھی ہمت نہیں رہی وہ کسی کی رہنمائی کے بغیر ہی اس جگہ پر حملہ کرنے کو تیار تھے جہاں توقع تھی کہ لڑکیاں ہوں گی انہوں نے امام کی بھی باتیں سننے سے انکار کردیا
آخر برجیس نے انہیں بتایا کہ اس کے دو جاسوس اس  جگہ معمولی ملازم ہیں جہاں صلیبی حکمران رات کو اکٹھے ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں یہ دونوں جاسوس عیسائیوں کے بھیس میں شوبک کی فتح کے بعد وہاں سے بھاگنے والے عیسائیوں کے ساتھ آئے تھے انہیں یہاں نوکری مل گئی تھی اور  وہ کامیاب جاسوسی کررہے تھے تم سب نے وہ عمارت دیکھی ہے جہاں وہ صلیبی حکمران جو ہماری فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانیہ اٹلی فرانس اور جرمنی وغیرہ سے آئے ہوئے ہیں رہتے ہیں اس عمارت میں ایک بڑا کمرہ ہے جہاں وہ شام کے بعد اکٹھے ہوتے شراب پیتے اور ناچتے ہیں ان کی تفریح کے لیے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں وہ آدھی رات تک وہاں ادھم مچاتے رہتے ہیں تم نے دیکھا ہے کہ وہ جگہ ذرا بلندی پر ہے جہاں سے پورا شہر نظر آتا ہے وہاں فوج کا پہرہ بھی ہوتا ہے اس عمارت تک پہنچنا ممکن نہیں کوئی عام آدمی بلکہ  کوئی خاص شہری بھی اس عمارت کے قریب نہیں جاسکت میں یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ یہ دو لڑکیاں کہاں ہوں گی مگر ان تک رسائی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہماری فوج باہر سے ابھی حملہ کردے اس صورت میں تمام حکمران اور فوجی حکام اس  عمارت سے چلے جائیں گے اور حملہ روکنے میں لگ جائیں گے مگر آج رات حملہ نہیں ہوسکتا یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صلاح الدین ایوبی کب حملہ کریں گے
ضرورت حملے کی ہے امام نے برجیس سے وضاحت چاہی دوسرے  لفظوں میں ضرورت یہ ہے کہ اس عمارت میں جو لوگ ہیں وہ وہاں سے چلے جائیں اور لڑکیاں وہیں رہ جائیں اس صورت میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس عمارت میں داخل ہوکر لڑکیوں کو اٹھا لائیں
جی ہاں! برجیس  نے اپنے تجربے کی بناء پر خود اعتمادی سے کہا اگر شہر کے اندر کوئی بڑا ہی شدید اور خطرناک قسم کا ہنگامہ ہوجائے کہیں آگ لگ جائے اور آگ جنگی سازو سامان کو لگے تو شاید حکمران اور دیگر لوگ وہاں سے نکل کر موقع واردات پر چلے جائیں برجیس گہری سوچ میں کھوگیا اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو باری باری دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا ہاں میرے مجاہدو! اگر  ایک جگہ آگ لگا سکتے ہو تو لڑکیوں کی رہائی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے
جلدی بتاؤ محترم! عثمان صارم نے بے صبر ہوکر پوچھا کہاں آگ لگانی ہے کہو تو سارے شہر کو آگ لگادیں
تم سب نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں صلیبیوں کی فوج کے گھوڑے بندھے رہتے  ہیں؟
برجیس نے کہا وہاں اس وقت کم وبیش چھ سو گھوڑے ایک جگہ بندھے  ہوئے ہیں باقی مختلف جگہوں پر ہیں ان کے قریب اتنی ہی تعداد میں اونٹوں کی بندھی ہوئی ہے ان سے ذرا ہی پرے گھوڑوں کے خشک گھاس کے پہاڑ کھڑے ہیں
اس سے تھوڑا ہٹ کر فوج کے خیموں کے ڈھیر پڑے ہیں وہاں گھوڑا گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور ایسا سامان بے شمار پڑا ہے جسے فوراً آگ لگ سکتی ہے مگر اس کے اردگرد سنتری گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سے رات کے وقت کسی کو گزرنے کی  اجازت نہیں اگر تم اس گھاس اور خیموں کے انباروں کو آگ لگا سکو تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ صلیبی حکمران ساری دنیا کو بھول کر وہاں پہنچ جائیں گے گھاس کپڑے اور لکڑی کے شعلے آسمان تک جائیں گے سارے شہر پر خوف طاری ہوجائے گا آگ لگانے کے ساتھ ہی اگر تم زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کو کھول دو تو وہ ڈر کر ایسا بھاگیں گے کہ لوگوں کو کچلتے پھریں گے مگر سوچنا یہ ہے کہ  آگ کون لگائے گا؟ 
گھوڑے کون کھولے گا؟ 
اور آگ لگانے کے لیے وہاں پہنچا کس  طرح جائے گا؟
فرض کرلو آگ لگ گئی ایک نوجوان نے کہا 
اس عمارت میں تم میرے بغیر نہیں جاسکو گے وہاں میرے دو ساتھی موجود ہیں وہ  مجھے بتا دیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں مگر یہ بھی سوچ لو کہ لڑکیوں کو اٹھا لائیں گے تو انہیں کہیں چھپانا بھی ہوگا اور اس کے بعد کرک کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی صلیبی یقین ہی نہیں کریں گے کہ یہ مسلمان کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتا ہےبرجیس نے کہا
مسلمان پہلے کتنے کچھ آرام میں ہیں؟ امام  نے کہا میں مشورہ دیتا ہوں کہ ہم یہ کام کر گزریں صلیبیوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ مسلمان کتنا ہی مجبور اور بے بس کیوں نہ ہو وہ غلام نہیں رہ سکتا اور اس کا وار جگر چاک کردیا کرتا ہے
برجیس تو تھا ہی کمانڈو قسم کا جاسوس وہ کئی راز معلوم کرکے سلطان ایوبی تک پہنچا چکا تھا لیکن اسے اس قسم کی تخریب کاری کا کوئی موقع نہیں ملا تھا وہ ایسی شدید کارروائی کو ضروری سمجھتا تھا تاکہ صلیبیوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمان کیا کرسکتا ہے اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے کی دو کڑیاں بہت نازک تھیں ایک یہ کہ آگ  لگانے کے لیے تین چار لڑکیاں جائیں وہ سنتری سے کسی اعلیٰ فوجی حاکم کا پتہ پوچھیں اور سنتری کو مار ڈالیں برجیس نے لڑکیوں کو بھیجنے کی اس لیے سوچی تھی کہ عورت خصوصاً نوجوان لڑکی جو تاثر پیدا کرسکتی ہے وہ کوئی  مرد نہیں کرسکتا مرد شک پیدا کرسکتا ہے دوسرا خطرناک مرحلہ یہ آیا کہ کتنے نوجوان صلیبی حکمرانوں کی عمارت پر حملہ آور ہوں برجیس اور امام نے متفقہ طور پر کہا کہ زیادہ نہ ہوں یہی آٹھ ہوں تو بہتر ہے کیونکہ زیادہ ہجوم نظر آسکتا ہے اور کسی نہ کسی کے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوگا
پھر یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی دلیر لڑکیاں کہاں سے ملیں گی عثمان صارم نے کہا کہ ایک اس کی بہن النور ہوگی ایک اور نوجوان نے کہا کہ دوسری اس کی  بہن ہوگی باقی چھ نوجوانوں میں کسی کی بہن نہیں تھی امید ظاہر کی گئی کہ یہ دو لڑکیاں اپنی اپنی ایک سہیلی کو ساتھ لے لیں گی برجیس نے ان لڑکیوں کو ان کا کام سمجھانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی سورج غروب ہوگیا تھا۔ امام  مسجد ایک طرف چلا گیا باقی سب ایک ایک کرکے باہر نکلے سب سے آخر میں برجیس باہر نکلا وہ پھر وہی موچی تھا جسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے  اردگرد کیا ہورہا ہے وہ جھکا جھکا اس طرح مری ہوئی چال چلا جارہا تھا جیسے  ساری دنیا کے رنج وغم کا بوجھ اس کے کندھوں پر گر پڑا ہو
عثمان صارم اپنے گھر سے ابھی کچھ دور تھا کہ اسے رینی الیگزینڈر مل گئی وہ عثمان کی بہن النور کی گہری سہیلی بنی ہوئی تھی دونوں بہن بھائی چاہتے  تھے کہ وہ ان کے گھر نہ آیا کرے لیکن عثمان صارم اسے اچانک گھر آنے سے روک  کر کسی شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا رینی اس کے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش  کیا کرتی تھی جس سے عثمان کو یہ خیال بھی آتا تھا کہ وہ اس کا کردار خراب  کرکے اس کا قومی جذبہ مارنا چاہتی ہے اس شام رینی راستے میں مل گئی اس نے  مسکرا کر دیکھا اور رکنا نہ چاہا مگر رینی رک گئی اور اس کا راستہ روک  لیا عثمان صارم کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ایک عیسائی  لڑکی کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کرتا پکڑا گیا تو سزا پائے گا وہ جانتا  تھا کہ صلیبی اور یہودی انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کی ایک لڑکی مشتبہ مسلمان نوجوان کو اپنا گرویدہ بنا رہی ہے وہ بھی رک گیا اور بولا میں ذرا جلدی میں ہوں رینی تمہیں کوئی جلدی نہیں عثمان! رینی نے دوستانہ لہجے میں کہا کیا تم اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا سکو گے؟
میں تم سے پیچھا چھڑانے کی تو نہیں سوچ رہا جھوٹ نہ بولو عثمان! رینی نے مسکرا کر کہا میں تمہارے گھر سے آرہی ہوں تمہاری بہن نے مجھے صاف کہہ دیا ہے کہ یہاں اب کم آیا کرو عثمان ناراض ہوتا ہے کیوں عثمان! یہ بات تم نے خود کیوں نہ کہہ دی؟
عثمان صارم کی ذہنی حالت کچھ اور تھی وہ جلدی میں تھا اور اس کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے وہ ٹالنے کے لیے کوئی موزوں جواب نہ سوچ سکا اس کے منہ سے  وہی بات نکل گئی جو اس کے دل میں تھی اس نے کہا رینی! معلوم نہیں میں خود کیوں نہ تمہیں کہہ سکا کہ ہمارے گھر نہ آیا کرو اب سن لو۔ ہماری آپس  میں کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو ہم قومی لحاظ سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں تم  ذاتی محبت کی بات کرو گی مگر میں قومی محبت کا قائل ہوں جو صلیب اور قرآن مجید میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی یہ میرا وطن ہے تمہاری قوم یہاں کیا کر رہی ہے؟
جب تک تمہاری قوم کے آخری آدمی کا بھی وجود یہاں رہے گا ہم ایک  دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے میرے دل میں جو کچھ تھا وہ تمہیں بتا دیا  ہے اور میرے دل میں جو کچھ ہے وہ بھی سن لو رینی نے کہا میرے دل سے تمہاری محبت نہ صلیب نکال سکتی ہے نہ قرآن مجید میں جب تک  تمہیں دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا تمہیں مسکراتا دیکھتی ہوں تو میری روح بھی مسکرا اٹھتی ہے سن لو عثمان اگر تم نے مجھے اپنے گھر آنے سے روکا تو ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا
تم مجھے دھمکی دے سکتی ہو تم حکمران قوم کی لڑکی ہو نا عثمان صارم نے تحمل سے کہا اگر میرے دماغ میں حکمرانی کا نشہ ہوتا تو تم یہاں نہ کھڑے ہوتے قید خانے میں گل سڑ رہے ہوتے رینی نے کہا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ مجھے تمہارے متعلق کچھ معلوم نہیں؟ 
کہو تو تمہاری زمین دوز کارروائیوں کی تفصیل سنا دوں
کہو تو تمہارے گھر سے وہ سارے خنجر تیروکمان اور آتش گیر مادہ برآمد کرادوں جو تم نے اپنے گھر میں میری قوم اور میری حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے چھپا رکھا ہے اور جو تمہیں گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں النور کو تم تیغ زنی سکھا رہے ہو اور تمہارے ساتھ جو دوست ہمارے خلاف کام کررہے ہیں ان میں سے کئی ایک کو جانتی ہوں لیکن عثمان تم نہیں جانتے کہ تمہارے اور قید خانے کے درمیان میرا وجود حائل ہے تم جانتے ہوکہ میرا باپ کون ہے اور وہ کیا نہیں جانتا اور کیا نہیں کرسکتا وہ پانچ مرتبہ گھر میں بتا چکا ہے کہ عثمان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے میں نے پانچوں مرتبہ باپ سے منت کرکے کہا ہے کہ عثمان کی بہن میری بڑی پیاری سہیلی ہے اور اس کا باپ ایک ٹانگ سے معذور ہے دو تین بار میرے باپ نے مجھے ڈانٹ کر کہا ہے کہ  میں تم لوگوں کے ساتھ تعلق توڑ دوں مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان اس  قابل نہیں کہ ان کے ساتھ ا تنی زیادہ محبت اور مروت کی جائے لیکن میں ماں باپ کی اکیلی اولاد ہوں وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget