⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 15👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➎➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محاصرے کی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مجاہدین نے فلیتے والے تیر شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیے تھے، لیکن دیواروں کے اوپر سے تیر آبادی کے اندر تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ،ایک بلند جگہ مل گئی تھی جس پر چڑھ کر تیر انداز تیر پھینکتے تھے، اور بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے فلیتے والے تیر اندر پھینکنے لگے لوگوں کے مکان دیوار سے دور تھے اس لئے یہ تیر بے اثر ثابت ہو رہے تھے۔
درختوں پر چڑھ کر تیر پھینکنے والے مجاہدین میں سے ایک نے ایک روز دیوار کے اندر خیمے دیکھ لئے جو دوسری طرف تھے اس طرف دیوار کے قریب نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بلند جگہ ،یہ دیکھ لیا گیا کہ خیمے اس طرف کی دیوار تک چلے گئے تھے، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مختلف قبیلوں کے عیسائی پناہ گزینوں کے روپ میں داخل ہوتے رہے تھے اور وہ ہتھیار چھپا کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے لئے ایک میدان میں خیمے لگانے پڑے یہ انتظام ان مسلمانوں کا تھا جو شہر کا انتظام اور دیگر سرکاری امور چلاتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی جن میں قبائلیوں کے پورے پورے کنبے رہائش پذیر ہوگئے۔
خیموں کو دیکھنے والے مجاہد نے یہ بات سالاروں تک پہنچا دی اور انھیں بتایا کہ اس طرف سے اگر تیر پھینکے جائیں تو دیوار کے اوپر سے ہوتے ہوئے یہ تیر خیموں کے اوپر گریں گے۔
خالد بن ولید اور عیاض بن غنم خود اس درخت تک گئے جس پر چڑھ کر اس مجاہد نے خیمے دیکھے تھے ،دونوں سالاروں نے کچھ اور اوپر چڑھ کر خیمے دیکھے، وہاں سے خیموں کے صرف اوپر کے حصے نظر آتے تھے کیونکہ درمیان میں شہر کے مکان حائل تھے۔
خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے پرمسرت لہجے میں عیاض بن غنم سے کہا ۔۔۔ہم شہر میں دہشت پھیلا سکتے ہیں اگر ہم شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھو ہم نے آدھی فتح حاصل کر لی۔
سپہ سالار عیاض بن غنم نے کہا ۔۔۔اللہ کے فضل و کرم سے آخر فتح ہماری ہوگی۔ شہر میں کوئی فوج نہیں شہریوں کا ہجوم ہے میرے دفاع میں ہی ایک ترکیب آتی ہے کہ ان لوگوں کو یہ دھوکا دیا جائے کہ ہم محاصرہ اٹھا رہے ہیں، لیکن محاصرہ فوراً نہ اٹھایا جائے سواروں کے ایک دو دستے یہاں سے ہٹا دیئے جائیں پھر اپنی سرگرمیاں بھی روک دی جائیں تاکہ شہر کے لوگ یہ سمجھ لیں کہ ہم محاصرے کی کامیابی سے مایوس ہو گئے ہیں۔
سالار عیاض بن غنم نے یہ بات درخت سے اتر کر کہی تھی، خالد بن ولید گھوڑے پر سوار ہوتے ہوتے رک گئے اور پاؤں رکاب سے نکال کر اس کی طرف دیکھنے لگے ان کے چہرے پر ایسا تاثر آگیا تھا جیسے انھیں یہ مشورہ اچھا لگا ہو۔
خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے عیاض کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔ تم نے مجھے ایک روشنی دکھا دی ہے، آؤ کہیں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ ہم انہیں یہ دھوکہ کس طرح دے سکتے ہیں۔
خالد بن ولید نے ایک کارروائی یہ کی کے درختوں سے اور بلند جگہ سے تیر اندازوں کو ہٹا لیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے ،وہ جب شہر کی اس طرف پہنچے جس طرف خیمے تھے تو انہوں نے تیر اندازوں کو بتایا کہ اب وہ فلیتہ والے تیر کس طرح پھینکیں۔
آگ والے ان تیروں کی کمی نہیں تھی، تیر اندازوں کو دیوار سے اتنی دور کر دیا گیا جہاں تک دیوار سے آنے والے تیر ان تک نہیں پہنچ سکتے تھے، فلیتے والے تیر آگئے اور تیر اندازوں نے کمانوں میں ڈال ڈال کر یہ تیر پھینکنے شروع کر دیئے، دو گھوڑ سوار تیر اندازوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا کہ کسی بڑے کے حکم کے بغیر گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور دیوار کے قریب جا کر دوڑتے گھوڑوں سے تیر اندر پھینکے شہریوں نے دیوار پر سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ ے بھی کی لیکن اللہ نے انہیں محفوظ رکھا انہوں نے گھوڑے کہیں روکے نہیں تھے۔
ان کی دیکھا دیکھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک یا دو گھوڑسوار تیرانداز اپنے گھوڑے دوڑاتے اور دوڑتے گھوڑوں سے اندر تیر پھینک جاتے تھے ۔
دیوار سے جو تیراندازی ہو رہی تھی وہ اور تیز اور شدیدتر ہوگئی ،اس میں سے بچ نکلنا بہت ھی مشکل تھا تین چار گھوڑسوار تیروں کا نشانہ بن گئے تو عیاض بن غنم نے باقی گھوڑ سواروں کو روک دیا کہ وہ اتنا خطرہ مول نہ لیں۔
کسی اور گھوڑسوار تیرانداز کو دیوار کے قریب جانے کی ضرورت ہی نہ رہی کیونکہ دیوار پر جو عیسائی تیر انداز تیر پھینک رہے تھے ان میں سے کسی نے بڑی بلند آواز سے کہا کہ خیموں کو آگ لگ گئی ہے اس کی اس گھبرائی ہوئی پکار کی تصدیق دھوئیں نے کر دی ،جو دیوار کی اوٹ سے اوپر اٹھ آیا تھا اور اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا جا رہا تھا، یہ دھواں بڑی تیزی سے پھیلتا اور گھنا ہوتا جا رہا تھا ،ان خیموں میں رہنے والوں کی چیخ وپکار باہر بھی سنائی دینے لگی۔
خیمے بہت ہی زیادہ تھے اور ایک دوسرے کے بالکل قریب قریب لگے ہوئے تھے ایک جلتا ہوا خیمہ دائیں بائیں والے خیمے کو جلا رہا تھا اور آگ بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی ، مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلتے ہوئے خیموں میں سے نکلنے والوں میں سے اکثر کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی، کئی ایک تو نکل بھی نہ سکے اور زندہ جل گئے ،دیوار پر جو عیسائی کھڑے تیر اور پرچھیاں پھینک رہے تھے وہ ایسے گھبرائے کہ وہاں سے دوڑ پڑے اور خیموں کی آگ بجھانے کے لئے نیچے اترے ،دیوار کا خاصا حصہ خالی ہو گیا۔ مجاہدین دو رسے لے کر دیوار تک پہنچے اور کماندیں دیوار پر پھینکیں۔ کمندیں بالکل صحیح جگہوں پر پہنچ کر اٹک گئ تو مجاہدین رسوں پر چڑھنے لگے لیکن دائیں اور بائیں سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی پیچھے والے بہت سے مجاہدین دوڑتے ہوئے آگے گئے اور دیوار والے تیر اندازوں پر تیر چلانے شروع کردیئے بہت سے عیسائی تیرانداز تیروں کا نشانہ بنے اور دو تین دیوار کے باہر بھی گرے لیکن وہ اپنا کام کر چکے تھے وہ یہ کہ رسوں پر چڑھنے والے مجاہدین کے جسموں میں کئی کئی تیر اتر گئے تھے اور وہ رسوں سے نیچے آ پڑے تھے دلیری اور جذبہ شہادت کا یہ مظاہرہ بھی کامیاب نہ ہوسکا لیکن اس مظاہرے نے مجاہدین میں نئی روح پھونک دی۔ کئی مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے کے وہ رسوں سے اوپر چڑھ جائیں گے لیکن ایک تو انہیں سالاروں نے روک دیا ،اور دوسرے یہ کہ اوپر جہاں رسے اٹک گئے تھے وہاں سے قبائلیوں نے رسے اتار پھینکے۔
شہر کے اندر کا شوروغل بتا رہا تھا کہ جلتے ہوئے خیموں نے اندر کیسی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔وہ افراتفری پیدا ہوچکی تھی جو خالد بن ولید پیدا کرنا چاہتے تھے انہوں نے اپنے تیر اندازوں کو پیچھے ہٹا لیا اور جو سوار دیوار کی طرف کچھ آگے بڑھ گئے تھے انھیں بھی واپس بلا لیا۔
رات کے وقت مجاہدین کی ٹولیاں ایک دو دروازوں تک پہنچ جاتی تھیں اور کلہاڑیوں سے دروازے توڑنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن اوپر سے تیر بھی آتے اور پرچھیاں بھی آتی تھیں، دشمن نے اوپر سے ان پر جلتی ہوئی مشعلے بھی پھینکی تھیں جن سے دو تین مجاہد کپڑوں کو آگ لگ جانے سے جھلس گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خالد بن ولید نے ایک روز تقریبا ایک ہزار سواروں کا دستہ محاصرے سے نکال کر پیچھے بھیج دیا ان سواروں کے جانے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ واپس جارہے ہوں، یہ تھے وہ ایک ہزار گھوڑسوار مجاہدین جنہیں روتاس نے دیوار پر کھڑے محاصرے سے جاتے دیکھا اور بڑی خوشی سے لیزا کو بھی بتایا تھا کہ شاید مسلمان محاصرے سے مایوس ہو کر اپنا لشکر آہستہ آہستہ واپس بھیج رہے ہیں۔
خالد بن ولید نے ایک چال یہ بھی چلی کے تمام سرگرمیاں اور قلعہ سر کرنے کی کاروائیاں بالکل ہی بند کردی مجاہدین نے تو شجاعت اور شہادت کے مظاہرے اس حد تک کیے تھے کہ چند ایک مجاہدین کلہاڑی لیے تیروں کی بوچھاڑوں میں کسی ایک دروازے تک جا پہنچتے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اوپر سے ان پر تیر بھی آتے تھے اور برچھیاں بھی اس طرح کئ ایک مجاہدین شدید زخمی ہوئے اور شہید بھی۔
خالد بن ولید نے محاصرے کی ایک طرف سے ایک ہزار سوار کا ایک اور دستہ پیچھے بھیج دیا جو پہلے رخصت ہونے والے دستے کے راستے پر گیا اور ٹیکریوں کی اوٹ میں ہوتا پہاڑی کے پیچھے چلا گیا اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا تھا کہ اس دستے کو بھی واپس بھیج دیا گیا ہے ۔
خالد بن ولید اور عیاض بن غنم گھوڑوں پر سوار شہر کے ارد گرد گھومتے پھرتے تو نظر آتے تھے لیکن باقی لشکر کا انداز یہ تھا کہ مجاہدین زیادہ تر خیموں کے اندر رہتے یا کچھ دیر کے لیے بعض مجاہدین باہر آتے اور پھر خیموں میں چلے جاتے یا پیچھے جا کر درختوں کے نیچے بیٹھ جاتے تھے۔
قلعے کے اندر انتھونیس تو بہت ہی خوش تھا اور اس پر فتح کا تاثر طاری رہنے لگا تھا ،لیکن آرام سے وہ پھر بھی کہیں بیٹھتا نہیں تھا وہ قبیلوں کے سرداروں کو اکٹھا کرکے انہیں ہدایت دیتا یا دیوار پر جاکر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا اور کبھی نیچے آکر لوگوں کو اکٹھا کرکے انہیں فتح کی خوشخبری سناتا اور انہیں بتاتا تھا کہ ابھی لڑائی ختم نہیں ہوئی اور ان مسلمانوں کو بھگانا نہیں بلکہ اس لشکر کو لاشوں میں بدل دینا ہے اور پھر جو زندہ رہیں گے انہیں قیدی بنا کر قلعے میں جانوروں کی طرح رکھنا ہے۔-
انتھونیس پر تو جنونی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور وہ تو جیسے لیزا کو اور دنیا کی ہر دلچسپی کو ذہن سے ہی نکال بیٹھا تھا ،لیزا نے اب اسے یہ کہنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ گھر نہیں آتا اور آتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اپنا ذہن اور دل باہر ہی چھوڑ آیا ہو، انتھونیس کے بجائے روتاس لیزا کے ہاں چلا جاتا تھا اور کبھی لیزا اس کے یہاں جا پہنچتی تھی۔
یو کلیس پر تو ایسی جذباتیت غالب آ گئی تھی کہ وہ ماں سے جیسے لا تعلق ہی ہو گیا تھا اور اسے کھانے پینے کا بھی ہوش اور احساس نہیں رہتا تھا۔
اس داستان کو ہم کچھ دن پیچھے اس مقام پر لے چلتے ہیں جہاں مسلمانوں کے پھینکے ہوئے فلیتے والے تیروں نے اندر خیموں کی بستی کو آگ لگا دی تھی خیموں میں رہنے والوں کا قیامت خیز شور و غل باہر بھی سنائی دے رہا تھا لیکن شہر کے اندر جو قیامت برپا ہوگئی تھی وہ مجاہدین کو نظر نہیں آرہی تھی خیموں کی یہ وسیع عریض بستی شعلوں میں بدل گئی تھی۔
عورتیں بچے اور وہ لوگ جو بروقت نکل نہ سکے زندہ جل رہے تھے شہر کے لوگ گھروں سے نکل آئے اور کنویں سے پانی نکال نکال کر خیموں پر پھینکنے لگے لیکن آگ سے ان خیموں کو جو ابھی بچے ہوئے تھے بچانا ممکن نظر نہیں آرہا تھا، شہر کے لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اتنی اونچی جانے والے شعلوں کی دہشت معمولی نہیں ہوا کرتی جسے انسان برداشت کرلیتے۔
کچھ خیمے بچا تو لیے گئے لیکن وہاں خیموں کو نہیں بلکہ انسانوں کو بچانا تھا، وہی بچ سکے جو بروقت نکل گئے تھے شہر کے لوگوں پر خوف و ہراس تو طاری تھا ہی لیکن کچھ ایسی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھی کہ محاصرہ توڑ دو یا شہر مسلمانوں کے حوالے کر دو یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ آج خیمے جلے ہیں کل ہمارے گھر بھی جلیں گے۔
انتھونیس روتاس اور یوکلس بھی وہاں موجود تھے اور لوگوں کی طرح بھاگ دوڑ کر آگ پر قابو پانے کی کوشش میں بری طرح مصروف تھے، انہوں نے بھی لوگوں کے احتجاجی نعرے سنے اور محسوس کرلیا کہ لوگ محاصرے سے تنگ آگئے ہیں۔
انتھونیس نے بڑی بلند آواز میں لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ اپنی قومی وقار اور آزادی کے لئے ایسی قربانیاں دینی ہی پڑتی ہے ان مسلمانوں کو دیکھو کتنی دور سے آئے ہیں مسلسل لڑ رہے ہیں اور اب اتنا زیادہ نقصان اٹھا کر بھی محاصرہ نہیں اٹھانا چاہتے۔
میں تمہیں یہ بھی بتادوں انتھونیس نے کہا۔۔۔ مسلمان محاصرے کی کامیابی سے مایوس ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے دستے واپس بھیج دیئے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ خود ہی محاصرہ اٹھا کر واپس چلے جائیں گے۔ ایسی باتیں زبان پر مت لاؤ کہ شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔
انتھونیس نے شہر کے لوگوں کو اکسایا اور بھڑکایا اور پھر اس کے اشارے پر یوکلس گھوڑے پر سوار ہو گیا تھا کہ سب لوگ اسے دیکھ سکے۔
اے اہل صلیب! ۔۔۔یوکلسس نے بڑی ہی بلند آواز سے لوگوں کو خطاب کیا میری عمر دیکھو کیا یہ ہنسنے کھیلنے کی عمر نہیں؟ میرا ایک بازو بھی نہیں پھر بھی تم مجھے دیکھتے رہتے ہو کے آرام اور چین کی نیند اور کھانے پینے کو بھول گیا ہوں، تم دیکھو گے کہ میں کس طرح ایک بازو سے لڑتا ہوں ،میں تمہارا بچہ ہوں اور تمہاری عزت اور آبرو کی خاطر شاہی زندگی چھوڑ کر آیا ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس اور یوکلس نے لوگوں سے خطاب اس وقت کیا تھا جب خیموں کی آگ پر تقریباً قابو پالیا گیا تھا، لیکن ابھی لاشیں باہر نہیں لائی گئی تھیں لوگوں کا حوصلہ قائم ہو گیا تھا، اور ان کا احتجاج بھی ختم ہو گیا، انتھونیس اور یوکلس کے بولنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگوں نے اس کا اثر قبول کیا۔
شہر میں خوف و ہراس نہ ہونے کے برابر رہ گیا لوگوں نے پہلے سے زیادہ جوش اور جذبے سے آگ پر قابو پانا شروع کردیا۔
سورج غروب ہونے تک آگ پر قابو پایا جا چکا تھا اور جو لوگ جلتے خیموں میں سے بچ نکلے تھے وہ اپنی بیوی بچوں اور دیگر افراد کو جلے ہوئے خیموں میں ڈھونڈنے لگے یہ کام رات بھر جاری رہا لوگ لاشیں اٹھا اٹھا کر ایک جگہ زمین پر رکھتے رہے ،سب لاشیں اکٹھی ہوئی تو شہر کے لوگ پھر خیموں کی جلی ہوئی بستی کے اردگرد اکٹھے ہوگئے ان کے سامنے ایسا منظر تھا جس نے انھیں سرتا پا ہلا کر رکھ دیا جلے ہوئے خیموں سے ذرا ہٹ کر بے شمار لاشیں پہلو بہ پہلو زمین پر رکھی ہوئی تھی، ان میں جوان آدمیوں کی لاشیں بھی تھی، بوڑھوں کی ،عورتوں اور بچوں کی لاشیں بھی تھیں، یہ سب کل کی آگ میں زندہ جل گئے تھے اور کوئی ایک بھی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی، بعض لاشیں تو ایسی تھی جیسے بڑی موٹی موٹی لکڑیاں جلی ہوئی ہوں، بے شمار لاشیں قابل شناخت نہیں تھی۔
کل تو انتھونیس اور یوکلس نے لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال دیا اور ان کے حوصلوں میں نئی روح پھونک دی تھی ،لیکن اب لوگوں نے یہ جلی ہوئی لاشوں کی لمبی قطار اور پھر لاشوں کی حالت دیکھی تو وہ بھول ہی گئے کہ کل انہیں انتھونیس اور یوکلس نے کیا کہا تھا۔
عورتیں روتی چیختی چلاتیں اور بین کرتی اپنے بچوں کی لاشوں کو شناخت کر رہی تھیں لیکن وہاں تمام بچے ایک ہی جیسے ہو گئے تھے۔ خیموں میں رہنے والے اپنے عزیزوں رشتے داروں کو تلاش کررہے تھے ہر کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
کہاں ہے ہمارا رومی جرنیل؟ ۔۔۔ایک آدمی نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا ۔۔۔بچے جلے ہیں تو ہمارے جلے ہیں مال اسباب جلا ہے تو ہمارا جلا ہے، قلعے سے نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
اس شخص کی تائید میں کچھ اور آوازیں اٹھیں اور فوراً بعد یوں لگتا تھا جیسے ہر کوئی بول رہا ہوں اور ہر کسی کا یہی ایک مطالبہ ہو کے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اس کے ساتھ ہی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں کہ رومی جرنیل کو بلاؤ۔
انتھونیس کو اطلاع ملی تو وہ روتاس کو ساتھ لے کر دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اسے دیکھ کر لوگوں نے احتجاجی نعرے لگانے شروع کر دیئے کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ رومی جرنیل یہاں بادشاہ بننے آیا ہے۔
انتھونیس نے جب لوگوں کو اس قدر غم غصے میں دیکھا تو بڑی مشکل سے لوگوں کو خاموش کرایا اس نے کہا کہ محاصرہ خود ہی اٹھ جائے گا ۔
ہم اور انتظار نہیں کر سکتے ۔۔۔ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم سب باہر نکل کر لڑیں گے۔
انتھونیس آخر جرنیل تھا اور روتاس بھی فوجی افسر تھا وہ بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ محصور ہوکر کس صورتحال میں باہر نکل کر حملہ کیا جاتا ہے لیکن لوگ اپنے مطالبے سے ہٹ ہی نہیں رہے تھے انتھونیس اور روتاس نے انہیں باری باری سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔
اے رومی جرنیل! ۔۔۔۔ایک معمر آدمی نے کہا۔۔۔ ہم مسلمانوں سے دشمنی رکھنا ہی نہیں چاہتے، تم باہر نکل کر محاصرہ توڑنے کی کوشش نہیں کرو گے تو ہم خود دروازے کھول دیں گے۔
تم جاہل اور احمق ہو! ۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ تم دروازے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے لئے کھولو گے مسلمان شہر میں آئیں گے تو سب سے پہلے تمہیں اسلام قبول کرنے کا حکم دیں گے ،تمہیں اپنے مذہب سے ہی نہیں بلکہ اپنی خوبصورت بیٹیوں اور جوان بیویوں سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا ، تم ایک قوم کی صورت میں زندہ رہ ہی نہیں سکو گے۔
اے اہل صلیب! ۔۔۔روتاس بڑی بلند آواز سے بولا۔۔۔ تم جن مسلمانوں کے لئے دروازہ کھولنا چاہتے ہو اور پھر تم جن مسلمانوں کی اطاعت قبول کرو گے ان کی یہ دردندگی بھی دیکھ لو جو جلی ہوئی لاشوں کی صورت میں تمہارے سامنے موجود ہے انہوں نے تمہارے دودھ پیتے بچے بھی جلا ڈالے ہیں ، ہتھیار ڈال دیے تو وہ ہر اس عیسائی کو قتل کردیں گے جو ان کا مذہب قبول نہیں کرے گا۔
بھیڑوں میں ایک بوڑھے نے آگے آکر کہا۔۔۔ جہاں لڑائی ہوتی ہے وہاں بچے بھی مارے جاتے ہیں کیا تم بھول گئے ہو کے رومی اور ایرانی فوج جدھر بھی گئی قتل عام کرتی گئی انہوں نے معصوم بچوں کو اپنے ہاتھوں قتل کیا نوجوان لڑکیوں اور کمسن بچیوں کو بھی بے آبرو کر کے مار ڈالا یا اپنے ساتھ لے گئے مسلمانوں کو ہم نے خود اپنا دشمن بنایا ہے پھر ہمارے لوگ رومیوں کی مدد کو چل پڑے اور رومی لڑنے کی بجائے بھاگ گئے، مسلمان ہمیں اپنا دشمن کیوں نہ سمجھیں؟
اس بات پر لوگوں نے شور و غل برپا کردیا جس میں یہی ایک مطالبہ سنائی دے رہا تھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرکے محاصرہ توڑا جائے شوروغوغا میں ایک اور آدمی آگے بڑھا اور اس نے ایک اور بات پیش کردی ،ایک مصیبت اور آرہی ہے اس آدمی نے کہا ۔۔۔شہر میں اناج کم ہوتا جا رہا ہے تھوڑے ہی دنوں تک قحط پڑ جائے گا مویشیوں اور گھوڑوں کے لیے چارہ نہیں مل رہا کھیت قلعے کے باہر ہے جہاں سے ہرا چارہ نہیں لایا جاسکتا ، مویشی انسانوں سے پہلے مریں گے ایسے تڑپ تڑپ کر مر جانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اپنے مذہب اور اپنی آزادی کے خاطر ابھی لڑیں اور جانیں قربان کردیں۔
انتھونیس اور روتاس کے دماغوں میں صرف لڑائی اور محاصرہ سمایا ہوا تھا یہ دونوں رومی اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ فتح ان کی ہوگی مگر انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ لڑائی کے کچھ پہلو اور بھی ہوتے ہیں اور کچھ تقاضے بھی جن شہروں میں فوج رکھی جاتی تھی وہاں خوراک اور رسد کا اتنا زیادہ ذخیرہ رکھا جاتا تھا جو عموماً ایک سال سے زیادہ عرصے کے لئے کافی ہوتا تھا حلب میں کوئی فوج نہیں تھی شہریوں نے ذخیرے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ مسلمانوں نے بھی وہاں فوج نہیں رکھی تھی اس لئے اناج کا ذخیرہ بھی نہیں رکھا گیا اب شہریوں کو پتہ چلا کہ شہر میں اناج بڑی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور مویشیوں کے لئے ہرا چارہ بھی نہیں مل رہا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس نے انتھونیس اور روتاس پر خاموشی طاری کر دی اور انھیں کوئی ایسی بات نہ سوجھی جس سے وہ لوگوں کے دل پر جا سکتے ،اور انہیں جھوٹی تسلیاں دے کر ان کا حوصلہ قائم رکھ سکتے۔ انتھونیس نے اسی وقت قبیلوں کے سرداروں کو بلایا اور الگ لے جا کر بٹھایا اور خوراک کی صورتحال ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ اب ہمیں یہ محاصرہ باہر نکل کر توڑنا ہی پڑے گا اگر ہم نے انتظار کیا کہ محاصرہ خود ہی واپس چلا جائے گا تو شہر کے لوگ فاقہ کشی کے ڈر سے خود ہی دروازے کھول دیں گے، اور اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سرداروں نے متفقہ طور پر فیصلہ کر دیا کہ محاصرے پر حملہ کیا جائے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، انتھونیس نے سرداروں سے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کو اکٹھا کریں جو لڑنے کے قابل ہیں تاکہ انہیں ضروری ہدایات دی جا سکے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حلب کے اس محاصرے کے متعلق مورخوں نے جو تفصیلات لکھی ہیں ان کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خالد بن ولید دشمن کی نفسیات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش میں تھے وہ اب نفسیاتی داؤ پیچ کی جنگ لڑنے کے فکر میں تھے انہیں یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جو دو دستے محاصرے سے ہٹائے گئے ہیں اس کاروائی کا شہر کے اندر ردعمل کیا ہے، انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ شہر میں اناج کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے۔
اپنے ساتھی عیاض بن غنم کے ساتھ صلح مشورہ کرکے خالد بن ولید نے شہر کے ایک پہلو سے محاصرہ اٹھا ہی دیا اور اس طرف کے دستوں کو واپس بھیج دیا ۔
اس روز انتھونیس روتاس اور قبیلوں کے سردار دیوار پر کھڑے خالد بن ولید کی یہ کارروائی دیکھ رہے تھے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اس طرف سے محاصرہ اٹھ ہی گیا ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
ہم مزید انتظار نہیں کریں گے انتھونیس نے اپنا فیصلہ سنایا کل صبح اس طرف کے دونوں دروازہ کھول کر باہر نکلیں گے اور ان مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیں گے۔
اگلی صبح ابھی طلوع ہوئی ہی تھی کہ شہر کے دو دروازے کھلے اور شہر کے لوگ پرچھیاں اور تلواریں لیے اس طرح دوڑتے باہر نکلے جیسے سیلابی دریا کا بند یا کنارہ ٹوٹ گیا ہو ان میں گھوڑ سوار بھی تھے، مسلمان ایسی حالت میں تھے جیسے وہ ایسا شدید اور تیز حملہ روک ہی نہیں سکیں گے ، نہ انہیں حملہ روکنے کی تیاری کی مہلت ہی ملے گی، لیکن مسلمان سالاروں نے مجاہدین کو ہر وقت تیار رہنے کا حکم دے رکھا تھا اور ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ وہ اس طرح چلے اور درختوں کے نیچے جا کر لیٹیں جیسے ان پر تھکن اور مایوسیوں کی چٹانیں آ پڑی ہو۔
انتھونیس نے حملے کی اسکیم دانشمندی سے تیار کی تھی یوں نہ کیا کہ ایک طرف حملہ کرتا اس طرح اس کے لشکر پر پیچھے سے مجاہدین حملہ کردیتے اس نے شہریوں کو بتا دیا تھا کہ دروازے سے نکلتے ہی دو حصوں میں بٹ جائیں اور حملہ دائیں اور بائیں کریں تاکہ انکے عقب محفوظ رہیں، ایک حصے کا کمانڈر انتھونیس خود تھا اور دوسرے حصے کا کمانڈر روتاس کے پاس تھی یوکلس روتاس کے ساتھ تھا۔
بظاہر ڈھیلے ڈھالے اور تھکے تھکے سے مجاہدین جب اٹھے اور مقابلے پر آئیں تو حملہ آواروں کو یقینا محسوس ہوا ہوگا کہ وہ بڑی سخت چٹانوں سے جا ٹکرائے ہیں ،مجاہدین نے بہادری سے اس اچانک حملے کا مقابلہ کیا
خالد بن ولید کی دوسری اسکیم یہ تھی کہ کبھی بھی اندر سے حملہ آجائے تو حملہ آوروں کے پیچھے سے کھلے دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے لیکن یہ اسکیم کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ انتھونیس نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دائیں بائیں کو کر دیا تھا۔
گھمسان کی لڑائی میں انتھونیس اور روتاس نے اپنے لشکر کو ایک تربیت یافتہ فوج کی طرح لڑانے کی کوشش کی لیکن وہ فوج نہیں تھی وہ لڑنے والوں کا ہجوم تھا جو ایک ہی بات سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہے ہوا یہ کہ قبائلی خود ہی قتل ہونے لگے مجاہدین کی اکثریت گھوڑ سوار تھی۔
انتھونیس جان گیا کہ مسلمان دروازوں کی طرف آنا چاہتے ہیں لیکن اس نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اس کا لشکر مسلمانوں کو روک نہیں سکے گا اس صورتحال پر اس نے اس طرح قابو پایا کہ اپنے لشکر کو واپس شہر میں آ جانے کا حکم دیا اس کا حکم چل نہیں رہا تھا اس نے سرداروں سے کہا کہ اپنے اپنے آدمیوں کو واپس شہر میں دھکیلو۔
یہ سرداروں کا ہی کام تھا کہ وہ اپنے آدمیوں کو لڑائی میں سے نکالنے اور واپس شہر میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔
مجاہدین نے ان کا تعاقب کیا انہیں امید تھی کہ وہ حملہ آوروں کے پیچھے پیچھے شہر میں داخل ہو جائیں گے لیکن دروازے بند ہوگئے اندر والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ان کے چند سو آدمی باہر ہی رہ گئے تھے ان آدمیوں نے مقابلہ جاری رکھا چونکہ وہ دیوار کے قریب تھے اس لئے دیوار پر کھڑے تیراندازوں اور برچھی بازوں نے مجاہدین پر تیروں کا مینہ برسا دیا اور برچھیاں بھی پھیکی اس سے مجاہدین کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور دشمن کے بہت سے آدمی جو باہر رہ گئے تھے بچ نکلے ان کے لیے دروازہ کھلا اور وہ اندر چلے گئے۔
دیوار پر کھڑے قبائلیوں نے باہر کا منظر دیکھا دور دور تک لاشیں بکھر گئی تھی ، اور شدید زخمی اٹھ کر چلنے کی کوشش کررہے تھے، اس منظر سے قبائلی عیسائیوں کا حوصلہ اور زیادہ بڑھ گیا اور وہ اعلانیہ کہنے لگے کہ وہ ایسا ہی ایک اور حملہ پھر کریں گے۔
انتھونیس نے سب کو فیصلہ سنا دیا کہ ایسا حملہ بلکہ اس سے زیادہ زور دار حملہ ایک بار پھر کیا جائے گا۔
شہر کی عورتیں اپنے بیٹوں بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی وہ اس ہجوم پر ٹوٹ پڑی تھی جو لڑ کر واپس آیا تھا۔
ان میں ایک لیزا بھی تھی جو پاگلوں کی طرح یو کلس یوکلس پکارتی پھر رہی تھی، اسے اپنا بیٹا نظر نہیں آ رہا تھا ، یوکلس بھی اس حملے میں شامل تھا، لیزا دوڑتی ہوئی دیوار پر جا چڑھی تو دور سے اسے اپنا اکلوتا بیٹا نظر آگیا وہ روتاس کے پاس کھڑا تھا، لیزا یوں دوڑ کر یوکلس سے جا لگی جیسے چیل اوپر سے آکر چوزے کو پنجوں میں دبوچ کر اوپر لے جاتی ہے، لیزا نے بیٹے کو اوپر سے نیچے تک اور ہر طرف سے دیکھا کہ یہ زخمی تو نہیں ! یوکلس نے اسے حوصلہ دیا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور وہ اس کے لئے ایسی دیوانگی کا اظہار نہ کیا کریں۔
یوکلس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والی ایک نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکی روزی بھی تھی جو کسی سے پوچھتی ہی نہیں تھی کہ یوکلس واپس آگیا ہے یا نہیں یا وہ کہاں ہے؟ یہ وہی عیسائی لڑکی تھی جسے یوکلس نے قسطنطین سے بچایا تھا ۔یہ لڑکی اسے حلب میں ملی اور پھر ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی۔
روزی بھی دیوار پر چلی گئی اور دور سے یوکلس کو لیزا کے بازوؤں میں دیکھ لیا وہ دوڑ پڑی اور اس تک پہنچی۔
ان لوگوں میں حجاب تو تھا ہی نہیں ۔
یوکلس نے روزی کو دیکھا تو ماں کے بازو سے نکل کر روزی کو اپنے ایک بازو میں جکڑ کر سینے سے لگا لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر سے باہر مجاہدین اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے زخمیوں کو اٹھانے کا کام عورتوں کے سپرد تھا یہ عورتیں مجاہدین کی بیویاں ،بہنیں، اور بیٹیاں تھیں، جو مجاہدین کے ساتھ رہتی تھیں ان کی رہائش کا انتظام محاصرے سے دور پیچھے خیموں میں کیا گیا تھا ،ان میں شارینا بھی تھی جو ہرقل کی بیٹی تھی اور اب ایک مجاہد حدید بن مومن خزرج کی بیوی تھی، وہ دوسری عورتوں کے ساتھ زخمیوں کو پانی پلا رہی تھی اور انھیں اٹھا اٹھا کر پیچھے مرہم پٹی کے لیے بھی لے جا رہی تھی۔
مجاہدین کا جانی نقصان ہوا تھا لیکن اتنا نہیں کہ محاصرے کی تقویت پر اثرانداز ہوتا، زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی لیکن یہ بھی محاصرے کو کمزور نہیں کر سکتی تھی، خالد بن ولید نے شہر کی دوسری طرف سے چند سو گھوڑ سواروں کو ہٹا کر اس طرف کر دیا جہاں سے انھوں نے اٹھایا تھا اس کے سوا انہوں نے کوئی اور سر گرمی نہ دکھائی یعنی قلعے پر حملے کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور مجاہدین کو پہلے کی طرح کا رویہ اختیار کرنے کو کہا۔
یہ بتانا ممکن نہیں کہ محاصرہ کتنا عرصہ رہا اس سلسلے میں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک نے تو یہ عرصہ سات سال لکھا ہے جو کسی پہلو قابل قبول نہیں ۔
مختلف مؤرخوں کی تحریروں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ محاصرہ چند مہینے رہا تھا پھر کسی تاریخ میں ایسی تفصیلات نہیں ملتیں کہ خالد بن ولید نے ان قبائلی عیسائیوں کو اور کیا کیا دھوکے دیے تھے کہ وہ اسی دفاعی کارروائی پر آگئے جو خالد بن ولید چاہتے تھے۔
دونوں فریقوں کو کچھ دنوں کی مہلت درکار تھی تاکہ معمولی زخمی ٹھیک ہو جائیں۔ انتھونیس اور روتاس اگلے حملے کا پلان بناتے رہے قبیلوں کے سردار ان کے ساتھ رہتے تھے ہر حکم ہر بات ان سرداروں کے ذریعے شہریوں تک پہنچتی تھی اب تو نو عمر لڑکے بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اور عورتوں نے بھی کہا تھا کہ ان کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی لڑیں گی۔
مسلمانوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ نماز کی امامت سپہ سالار کرتا تھا ، خالد بن ولید فجر کی نماز کے بعد ہی مختصر الفاظ میں مجاہدین کو ان کے فرائض یاد دلایا کرتے تھے اور ایک بات اکثر کہا کرتے ۔۔۔اللہ کی سلطنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جہاد اللہ کے نام پر ہوتا ہے اور اس کا اجر اللہ ہی دیتا ہے۔۔۔ پھر کبھی کبھی وہ یہ بات بھی کہا کرتے تھے۔۔۔ دعا عمل کے بغیر اور عمل دعا کے بغیر اس پودے جیسا ہے جسے اگا تو لیا لیکن پانی دینا بھول گئے۔
خالد بن ولید مجاہدین کو براہ راست جو احکام دینا چاہتے تھے وہ فجر کی نماز اور دعا کے بعد دیا کرتے تھے انہوں نے مجاہدین کو تیار کر رکھا تھا کہ اندر سے دوسرا حملہ آئے گا اس کا انہیں اس طرح یقین ہو گیا تھا کہ جو قبائلی عیسائی زخمی ہو کر گرے اور پھر شہر میں واپس نہیں جا سکے تھے ،ان سے معلوم کر لیا گیا تھا کہ شہر میں اناج کی اتنی قلت پیدا ہو گئی ہے کہ کچھ ہی دنوں تک صورت قحط والی بن جائے گی۔
ان زخمیوں سے یہ بھی معلوم کرلیا گیا تھا کہ شہر کے لوگ جلدی سے جلدی محاصرہ توڑنا چاہتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لینے کے حق میں ہیں۔ اندر کی صورتحال معلوم ہوجانے سے خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کے لئے داؤ پیچ سوچنا اور فیصلے کرنا آسان ہوگیا۔
قلعے کے اندر بھی اگلی دفاعی کارروائی کے متعلق فیصلے ہو رہے تھے، انتھونیس اور روتاس نے دو روز بعد علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، بہت سے معمولی زخمی ٹھیک ہو چکے تھے اور پہلے سے زیادہ شہری حملے میں شریک ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ انتھونیس کا عزم ہی یہ تھا کہ یہ حملہ فیصلہ کن ہوگا اندر کے لشکر کو اب دو کے بجائے چار دروازوں سے نکلنا تھا یعنی حملہ شہر کے دونوں پہلوؤں سے کیا جائے گا۔
یوکلس نے انتھونیس اور روتاس کو بتائے بغیر اپنا ایک جاں باز گروہ تیار کر لیا تھا جس میں اس جیسے نوجوان شامل ہوئے تھے اور وہ سب گھوڑ سوار تھے انہوں نے طے کر لیا تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار پر حملہ کریں گے، اور اسے زندہ یا مردہ شہر کے اندر لائیں گے ، یہ بھی طے کیا گیا کہ وہ کہیں اور نہیں لڑیں گے صرف اس جگہ پہنچیں گے جہاں سپہ سالار ہوگا، وہ جانتے تھے کہ سپہ سالار محافظوں کے حصار میں ہو گا اور انھیں بڑی ہی خونریز لڑائی لڑنی پڑے گی۔
حملے کی صبح میں ایک دن رہ گیا تھا اور ایک رات ، یوکلس اپنی ماں سے رخصت ہوکر چلا گیا اس نے صرف ماں کو بتایا تھا کہ ایک جاں باز گروہ تیار کیا ہے جس کا انتھونیس اور روتاس کو علم نہیں اور اس کا یہ گروہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو زندہ یا مردہ اپنے ساتھ لائے گا ،اس نے ماں سے کہا تھا کہ اب وہ اپنے گروہ میں جارہا ہے اور واپس گھر حملہ کے بعد ہی آسکے گا ،ماں نے اسے پیار اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔
انتھونیس بہت مصروف تھا کبھی دیوار پر چلا جاتا اور مسلمانوں کے لشکر کو دیکھتا اور پھر دوڑا نیچے چلا جاتا اور قبائلی سرداروں سے مل کر انہیں پہلے کہی ہوئی باتیں ایک بار پھر کہتا ایک جنون اور ایک خبط تھا جو اس کے دماغ پر سوار ہو گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دن کا پچھلا پہر تھا انتھونیس کو روتاس کی ضرورت محسوس ہوئی کسی اور کو بھیجنے کے بجائے وہ خود اس کی تلاش میں چل پڑا اس کا خیال تھا کہ اسی کی طرح باہر بھاگتا دوڑتا پھر رہا ہو گا ،لیکن وہ اسے نہ ملا۔ آخر وہ روتاس کے گھر کو چل دیا وہ اکیلے رہتا تھا اس لئے انتھونیس بغیر اطلاع اندر چلا گیا
صحن میں جا کر اس نے روتاس کو آواز دی ایک کمرے میں سے روتاس کی آواز سنائی دی کہ وہ کپڑے بدل کر آتا ہے انتھونیس اس خیال سے اس کے کمرے کی طرف چل پڑا کہ وہ اکیلا ہوگا دروازہ بند تھا لیکن کواڑوں پر ہاتھ رکھا تو کواڑ کھل گئے، انتھونیس نے کمرے میں جو منظر دیکھا اس سے اس کا خون کھول اٹھا اور دماغ کو چڑھ گیا، لیزا بھی اس کمرے میں موجود تھی اور بڑی تیزی سے کپڑے پہن رہی تھی۔ کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ اس سے پہلے وہ برہنہ تھی ۔ روتاس بھی بڑی ہی تیزی سے کپڑے پہن رہا تھا انتھونیس محاصرے کو اور اگلے دن کے حملے کو بھول ہی گیا اور اس نے تلوار نکال لی۔
تلوار لے لو !۔۔۔انتھونیس نے روتاس کو للکارا صحن میں آ جاؤ پھر جو زندہ رہے گا یہ عورت اس کی ہوگی۔
یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ بعض تنازعات کے فیصلے تلوار کیا کرتی تھی، روتاس نے فوراً چیلنج قبول کرلیا اور تلوار لے کر صحن میں نکل آیا وہ بھی آخر رومی تھا اور اس کا کردار ان کے کلچر کے عین مطابق تھا۔
انتھونیس اور روتاس کی تلوار ٹکرانے لگیں اتنے میں لیزا نے کپڑے پہن لئے۔ اور وہ دوڑتی صحن میں آئی اس نے دونوں دوستوں کو دیکھا جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے، دونوں ایک دوسرے پر وار کرنے کے لئے پیچھے ہٹے دونوں کے یہ پینترے ایسے تھے جیسے دونوں کو یقین تھا کہ وہ دشمن کو مار لیں گے وہ تلواریں برچھی کی طرح سیدھی کر کے ایک دوسرے کو مارنے آگے بڑھے تو لیزا دوڑ کر ان کے درمیان آ گئی اور انہیں روک جانے کو کہا لیکن دونوں بڑی تیزی سے آگے بڑھے تھے اور فاصلہ کچھ تھا ہی نہیں اس لئے وہ روک نہ سکے اور ہوا یہ کہ ایک کی تلوار برچھی کی طرح لیزا کے پیٹ میں اتر گئی اور دوسرے کی تلوار لیزا کے پیٹ کے اندر دور چلی گئی۔
دونوں نے تلوار کھینچ لی لیکن وار اتنے بھرپور تھے کہ لیزہ زندہ رہ سکتی ہیں نہیں تھی وہ گری اور ایک پہلو کی طرف لوٹ گئی دونوں نے اسے دیکھا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا انتھونیس پیچھے ہٹا جیسے وہ روتاس پر ایک اور حملہ کرے گا۔
ٹھہر جاؤ انتھونیس! ۔۔۔روتاس نے اپنی تلوار بڑی زور سے صحن میں پھینکی ۔
تلوار کچے صحن میں اتر کر وہیں کھڑی رہی اور ہلتی رہی ۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم دونوں ایک عورت کے پیچھے اپنی حیثیت بھول بیٹھے ہیں۔ کیا ہم نے یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنے کا عزم نہیں کیا تھا ؟۔۔۔اگر مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تو کر دو لیکن اپنے عزم کو نہ بھولنا یہ جو مر گئی ہے ایک بدکار عورت تھی، ہمیں ایک عورت کی خاطر ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔
انتھونیس نے بھی تلوار نیام میں ڈال لی اور روتاس کی تلوار صحن سے اکھاڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور اسے باہر چلنے کو کہا۔
باہر نکل کر انتھونیس نے روتاس سے کہا کہ جو ہوا ہے وہ دل سے اتار دے اور بھول جائے، ہمیں فتح حاصل ہوجائے عورتوں کی کمی نہیں۔
یوکلس اپنے جانباز گروہ میں چلا گیا تھا ۔وہ ماں کو کہہ گیا تھا کہ حملے کے بعد ہی واپس آسکے گا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس کی ماں روتاس کے گھر میں مری پڑی ہے۔ انتھونیس اور روتاس یوں آپس میں پہلے کی طرح شیروشکر ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget