⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 7👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➐⓿】デ۔══━一

کیا تم اصل بات فوراً نہیں کرسکتے؟ ۔۔۔ہرقل نے قہر بھری آواز میں کہا۔۔۔اصل بات سن لیں۔۔۔ راستین نے کہا۔۔۔۔ دشمن کو اس لئے برا نہ کہو کہ وہ دشمن ہے دشمن نے ہم پر فتح حاصل کی ہے اور اس کی پیش قدمی اور ہماری پسپائی جاری ہے دیکھو اور غور کرو کے دشمن میں وہ کون سی طاقت ہے اور ہم اس طاقت سے محروم کیوں ہو گئے ہیں ۔۔۔ہم لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑ لینے کے ارادے باندھ دیتے ہیں، مگر ہمارا دشمن اپنے ساتھ ایک نظریہ اور ایک عقیدہ لایا ہے جو لوگوں کی رگوں میں خون ڈالتا ہے ، نچوڑتا نہیں ، ہمارے دشمن کا عقیدہ انسان کو انسانیت کا مقام دینا ہے۔
تو کیا ہم بھی اسلام قبول کر لیں؟ ۔۔۔ہرقل نے طنز بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ کیا تم اسلام کو عیسائیت سے افضل سمجھتے ہو؟ ۔۔
سلطنت روم کے بادشاہ! ۔۔۔راستین نے کہا۔۔۔ یہاں سوال یہ نہیں کہ افضل اسلام ہے یا عیسائیت ،اصل سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو انسانیت کو پوری تکریم اور تعظیم دیتا ہے۔ اس وقت صرف مسلمان ہیں جو انسان کو وہ انسان سمجھتے ہیں، جو خدا نے پیدا کیا تھا۔ عملاً یوں ہوا کہ شام کے ایک شہر سے لوگ اگلے شہر پہنچتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی اطاعت فوراً قبول کر لینا کیونکہ وہ انسان کو انسانیت کے پورے حقوق دیتے ہیں اور وہ رومیوں جیسے بادشاہ نہیں ،لوگ یہ بھی مشہور کرتے ہیں اور یہ ہے بھی صحیح کے مسلمان فوج جس بستی اور شہر کو فتح کرتی ہیں وہاں لوٹ مار نہیں کرتی نہ وہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھاتی ہے۔
قیصر روم !۔۔۔مسلمانوں نے ہر اس بستی میں لوگوں کے ساتھ ایسا ہی باعزت سلوک کیا اور لوگوں نے انہیں دل و جان سے قبول کیا، ہم جہاں جاتے ہیں سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کے گھروں سے دولت اور خوبصورت لڑکیاں سمیٹتے ہیں اور کچھ شاہی محل میں پہنچاتے اور کچھ اپنی ملکیت میں رکھ لیتے ہیں ۔
انطاکیہ میں میرے مخبر مجھے بتاتے رہتے تھے کہ یہاں کے لوگ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے انتظار میں ہیں۔ ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل نے اپنے ایک ہارے ہوئے محاذ سے بھاگے ہوئے جرنیل کی پوری بات سن تو لی لیکن اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار نہ کیا، اس پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات، اور اٹھنا، کمرے میں ٹہلنا، پھر بیٹھ جانا ،اور پھر اٹھ کر ٹہلنے لگنا ،ایسی علامت تھی جو اس بے چینی اور بے قراری کا پتہ دیتی تھی، جو اس کے اندر بپا تھی اس سے توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کی عظمت اور افادیت پر غور کرے گا اور اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کرے گا۔
چوں کہ یہ داستان فتح مصر کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ہم انطاکیہ کی فتح کا مزید ذکر نہیں کریں گے۔
البتہ اتنی سی بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ انطاکیہ کی فتح اسلام کے نظریے اور دین کے اصولوں کی فتح تھی۔
سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے شہریوں پر جزیہ عائد کردیا اور باقی تمام ٹیکس اور محصولات ختم کردیئے شہر میں بعض لوگ کٹر عیسائی تھے انہوں نے روم کی بادشاہی کو تو قبول کیا ہی نہیں تھا ،انہوں نے درپردہ لوگوں کو اکسانا شروع کردیا کہ وہ مسلمان فاتحین کو جزیہ نہ دیں اور خود مختار ہو جائیں ،کچھ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے اور جزیہ دینے سے انکار کردیا ابوعبیدہ کے حکم سے ایسے لوگوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔
مسلمان فاتحین کے سامنے صرف یہ کام نہیں تھا کہ وہ مفتوحہ شہروں کا نظم و نسق درست کرنے بیٹھ جاتے ۔
سالاروں کے سامنے اصل کام یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی رومی فوج کو کہیں بھی اکٹھا نہ ہونے دیا جائے ۔
جاسوسوں نے اطلاع دی کہ انطاکیہ سے بھاگی ہوئی رومی فوج حلب کے مقام پر اکٹھا ہو رہی ہے ابو عبیدہ نے کچھ لشکر اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہوگئے، خالد بن ولید کو انھوں نے ایک اور سمت بھیج دیا جہاں رومی فوج تازہ دم ہونے کے لیے رک گئی تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابوعبیدہ حلب پہنچے تو انطاکیہ سے ایک قاصد یہ پیغام لے کر ان تک پہنچا کہ انطاکیہ کے لوگوں نے نافرمانی شروع کردی ہے اور صورت بغاوت والی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
ابو عبیدہ نے ایک نائب سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ بغاوت پر قابو پائے لیکن یہ احتیاط کریں کہ کسی پر بلا وجہ اور غیر ضروری تشدد اور زیادتی نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہ نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھیجا جس میں انہوں نے ایک تو انطاکیہ کی فتح کی خوشخبری سنائ اور ساتھ یہ اطلاع دی کہ انطاکیہ کے لوگوں نے جزیہ کے معاملے میں بغاوت کردی ہے۔
امیرالمومنین نے یہ پیغام ملتے ہی جواب بھیجا جس میں انھوں نے لکھا کہ لوگوں کو ہر وہ سہولت دو جو ان کا حق ہے، اگر کچھ لوگوں کے وظیفے مقرر کیے ہیں تو وہ انہیں بروقت ادا کیے جائیں، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شہر میں مجاہدین کے دو تین دستے موجود رہیں اور وہ نظم ونسق برقرار رکھیں، تا کہ لوگوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی فوج ہے ہی نہیں کہ وہ مفتوحہ آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔
تدبر اور ہوشمندی سے اس بغاوت پر قابو پالیا گیا بغاوت تو کچھ اور علاقوں میں بھی ہوئی تھی ان سب پر قابو پالیا گیا تھا۔
ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جا رہے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہرقل کس انجام کو پہنچا اور اسے اس انجام تک کس طرح پہنچایا گیا۔ پھر ہم یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہرقل کی اس چال کو اس طرح بے کار کیا کہ اس نے اپنی فوج کو مختلف مقامات پر تقسیم کردیا تھا ۔ اسے توقع تھی کہ مسلمان بھی اس کے مطابق تقسیم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو اللہ کی مدد اور رہنمائی حاصل تھی۔ ورنہ اتنی قلیل تعداد کو اتنے زیادہ حصوں میں بانٹ دینا مسلمانوں کے لئے بڑا ہی تباہ کن اقدام ہوتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل کا جرنیل راستین اسے انطاکیہ کی صحیح صورت حال بتا کر اور شکست کی وجوہات واضح کرکے پھر محاذ پر چلا گیا تھا. ہرقل اب دوسرے مقامات سے آنے والے قاصدوں کا انتظار کرنے لگا، لیکن کہیں سے کوئی قاصد نہیں آ رہا تھا ۔اس کی زندگی اب سراپا انتظار بن کے رہ گئی تھی، یہ تمام مقامات سرحدی تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ روم کی فوج تمام تر شام سے نکل گئی ہے اور اب سرحد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
معروف تاریخ دان الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرقل مایوسیوں میں ڈوب گیا تھا ،اور اپنے مشیروں اور مصاحبوں کے ساتھ جو باتیں کرتا تھا ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا تھا کہ اس کی شہنشاہی کا ستارہ جو شام پر چمکتا ہی رہتا تھا ٹوٹ کر شام کے افق میں ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔
آخر ایک روز حلب سے اس کی فوج کا ایک افسر آیا جو کچھ زخمی بھی تھا، اس نے ہرقل کو ایسی ہی کہانی سنائی جیسی راستین انطاکیہ کی سنا چکا تھا۔ اس نے سنایا کہ اب بچی کچھی فوج ادھر ادھر سے حلب آ رہی تھی کہ مسلمانوں کا مختصر سا لشکر آن پہنچا ، رومیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری تھی کہ وہ جم کر لڑ ہی نہ سکے۔
وہاں کے لوگوں کا رویہ کیا تھا؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ؟۔۔۔ہمارے حق میں اچھا نہیں تھا اس افسر نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ بعض لوگوں نے مسلمانوں کی کسی نہ کسی طرح مدد بھی کی تھی ہمارے خلاف وہ مخبری تو ضرور ہی کرتے رہے۔کیا اس کی کوئی وجہ بتا سکتے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔
‏راستین جرنیل تھا اس لیے اس نے ہرقل کو بڑے صاف الفاظ میں جرات کے ساتھ وجہ بتا دی تھی، لیکن یہ رومی معمولی سا افسر تھا اس لیے اس نے سچ بولنے کی جرات نہیں کی، ہرقل نے پھر اپنا سوال دہرایا تو افسر بے چین سا ہو گیا اور ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ ہرقل نے اسے کہا کہ وہ ڈرے جھجکے بغیر وجہ بتا دیے تاکہ آئندہ ایسی وجہ پیدا نہ ہونے دی جائے۔
شہنشاہ معظم! ۔۔۔افسر آخر بولا۔۔۔ ہماری شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں لڑنے، زخمی ہونے اور اپنی جان قربان کرنے والا افسر اتنی جرات نہیں رکھتا کہ اپنے شہنشاہ کے آگے سچ بول سکے ،آپ نے مجھے سچ بولنے کا حکم دیا ہے میں چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں لوگ کہتے ہیں ،ہمیں بادشاہ کی نہیں بندے کی حکمرانی چاہیے ،ہم نے سنا ہے مسلمان ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں کسی کی بادشاہی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی بلکہ وہ خود کسی بندے کو حکمران بنا لیتے ہیں اور رعایا کا پیٹ کاٹتے نہیں بلکہ پیٹ بھرتے ہیں۔
ہرقل نے سر جھکالیا جیسے وہ بات کی تہ تک پہنچ گیا ہو، ہرقل سر جھکا لینے والا بادشاہ نہیں تھا اب جو اس کا سر جھکتا تھا اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے شکست تسلیم کرلی ہے۔
ایک دو دن ہی اور گزرے تھے کہ ایک اورمقام مرعش سے ایک رومی قاصد آ گیا۔
ہرقل نے اپنی فوج کا کچھ حصہ اس قلعہ بند اور بڑے مضبوط مقام پر بھیج دیا تھا قاصد نے بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آیا اور مرعش کو محاصرے میں لینے لگا، لیکن وہاں کے جرنیل نے فوج کو حکم دیا کہ یہ بہت ہی کم تعداد لشکر ہے، اسے محاصرہ نہ کرنے دیا جائے ،بلکہ باہر نکل کر اسے گھیرے میں لے کر ختم کیا جائے، اس حکم کے تحت فوج باہر نکلی تو مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے بھی ہٹنے لگے اور دائیں بائیں پھیلنے بھی لگے پھر یوں ہوا کہ اس لشکر کو گھیرے میں لینے کے بجائے لشکر نے اپنے دونوں پہلو پھیلا کر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور جو مسلمان رومی فوج کے عقب میں چلے گئے تھے وہ قلعے میں داخل ہوگئے۔
قاصد نے بتایا کہ رومی فوج پیچھے ہٹنے لگی تو قلعے کے دیواروں سے اس پر تیر اور برچھیاں برسنے لگی، نفسا نفسی کا عالم طاری ہوا کہ رومی نہ باہر لڑنے کے قابل رہے نہ قلعے میں داخل ہو سکے جانی نقصان بےانداز ہوا ،اور زخمیوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی، اور وہی زندہ رہے جو اس معرکے سے نکل گئے تھے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور رومی فوج کی جو نفری وہاں موجود تھی اسے تباہ وبرباد کردیا۔
اس کے بعد رہاء میں ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ بیروت پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔
اور اس تمام سرحدی علاقے سے مسلمانوں نے رومی فوج کو بے دخل کردیا ہے۔
اس سرحدی علاقے میں شام کے دفاع کیلئے کئی ایک قلعے بنائے گئے تھے ان سب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
یہ تھے یزید بن ابی سفیان جو اس وقت دمشق میں تھے سپہ سالار ابوعبیدہ کا حکم پہنچا تو وہ دمشق سے نکلے اور بیروت جاپہنچے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہ کارنامے معجزوں سے کم نہ تھے بیروت اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ ہوجانے کا مطلب یہ تھا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کوئی مدد اور کوئی کمک نہیں مل سکتی تھی ۔
اس وقت مصر پر رومیوں کی ہی حکومت تھی ہرقل مصر سے کمک منگوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے راستے مسدود کردیئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل بڑا کایاں اور منجھا ہوا جرنیل تھا، لیکن اس نے مسلمانوں کے لشکر کو بکھیرنے کے لئے جو چال چلی تھی اس سے مسلمان سالاروں نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کی فوج کو خون میں نہلا کر بچ جانے والے رومیوں کو تتربتر کردیا ۔ ہرقل اللہ کے اس قانون سے واقف نہیں تھا کہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ذلت میں پھینک دیتا ہے، لیکن اللہ کسی کو بلاوجہ عزت اور کسی کو ویسے ہی ذلت نہیں دے دیا کرتا، اس کی کچھ شرائط بھی اللہ نے مقرر کی ہے اللہ انہیں ہی چاہتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
ہرقل نے اپنے مشیروں اور مصاحبوں کو بلایا اور انہیں صورتحال بتا کر کہا کہ وہ مشورہ دیں کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو کہاں یکجا کیا جائے، اور کیا فوج یکجا ہو جائے تو یہ لڑنے کے قابل ہوگی؟
ایک مشیر فوراً بول اٹھا اس نے سب سے پہلے ہرقل کی مداح سرائی کی پھر مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور پھر اس قسم کے الفاظ کہے کہ روم کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اٹھو!،،،، ہرقل نے اس مشیر سے کہا۔۔۔ باہر نکل جاؤ پھر مجھے کہیں نظر نہ آنا۔
ہرقل دوسرے مشیروں سے مخاطب ہوا مجھے صحیح مشورہ چاہیے صورتحال تم سب کے سامنے ہے۔
مشیروں اور مصاحبوں پر خاموشی طاری ہوگئی جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ تھے، یا مر ہی گئے تھے، ہرقل انہیں دیکھتا رہا سب کو غالبا توقع تھی کہ ہرقل گرج کر بولے گا اور حکم دے گا کہ اسے صحیح مشورہ دیا جائے ان میں سے کوئی بھی سچ بات کہنے کی جرات نہیں رکھتا تھا ،غالبا ہرقل نے محسوس کرلیا کہ یہ لوگ کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہیں اسے شاید یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کو مدح سرائی اور خوشامد کا عادی اس نے خود بنایا ہے اس کے سامنے بڑی ہی تلخ اور اذیت ناک حقییقت آ گئی تھی جو اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ سچ کا سامنا کریں۔
ہم اب کہیں بھی نہیں لڑسکتے۔۔۔ ہرقل نے خود ہی فیصلہ سنا کر مشیروں کو ذہنی اذیت سے نکالا۔۔۔ ایک ہی صورت رہ گئی ہے وہ یہ کہ ہم شام سے نکل جائیں اور مصر جا کر فوج کو منظم اور تیار کریں اور پھر شام پر حملہ آور ہوں۔
ہم پہلے اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔۔۔ ایک بوڑھے مشیر نے کہا ۔۔۔ایرانیوں نے ہم سے صرف شام ہی نہیں مصر بھی چھین لیا تھا آپ اس وقت بادشاہ نہیں تھے خود مختار نہیں تھے لیکن آپ نے بادشاہ کو بے اختیار کر کے سلطنت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے فوج کو تیار کیا، اور جب مصر اور شام پر حملہ کیا تو ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر دونوں ملکوں سے نکال دیا تھا۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ملک شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے، مصر تو ہمارے پاس ہے فیصلہ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے نکل چلیں۔
اس کے بعد تمام مشیر باری باری بولنے لگے اور سب نے اسی فیصلے کی تائید کی کہ شام سے نکل جانا چاہیے اگر ہم اس توقع پر فوج کو لڑاتے رہے کہ مسلمانوں کو ایک زوردار حملے سے پسپا کر دیں گے تو حاصل کچھ بھی نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جو فوج بچ گئی ہے وہ بھی کٹ جائے گی۔
ہرقل نے حکم جاری کر دیا کہ وہ قسطنطنیہ جانا چاہتا ہے ،اور جتنی جلدی ہوسکے روانگی کی تیاری شروع کر دی جائیں، اس وقت قسطنطنیہ بھی رومیوں کی سلطنت کا ایک بڑا شہر تھا، اور جنگ سے محفوظ ۔
ہرقل کو اب وہی پناہ گاہ نظر آئی تھی اس کے کوچ کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی۔
ہرقل تو اس دور کی سب سے بڑی اور ہیبت ناک جنگی طاقت کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ تھا۔
اس کے غرور اور تکبر نے اور انسانوں پر اس کے ظلم و تشدد نے اسے یہ روز عبرت دکھایا۔ جب اس کی ہیبت ناک جنگی طاقت ڈرے سہمے ہوئے سپاہیوں کی صورت میں بکھر گئی تھی،
اس کے نامور جرنیل مارے گئے تھے، ہر طرف اور ہر جگہ اس کے فوجیوں کی گلتی سڑتی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں، اور زخمی فوجی اپنے آپ کو گھسیٹتے تھے، اس فوج کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ مجسم حسرت و یاس بنے اس منزل کو روانہ ہو رہا تھا جسے وہ سب سے زیادہ محفوظ پناہ سمجھتا تھا لیکن یقین نہیں تھا کہ اس منزل تک خیریت سے پہنچ بھی سکے گا یا نہیں؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ میں صرف وہ واقعات ملتے ہیں جو عینی شاہدوں کے حوالے سے کبھی قلمبند کئے گئے تھے، ان واقعات میں انسان چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور روئے زمین پر اچھی بری حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔
کسی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ فلاں صورتحال میں فلاں کے دل میں کیا تھا اور اس کے اندر کا کیسے طوفان بپا ہو رہے تھے ،کسی نے لکھا بھی تو یہ قیاس آرائی تھی یا قافیہ شناسی ۔
ہرقل کے متعلق متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ مایوسی اور نامرادی میں ڈوب گیا تھا، اور اس قدر بے چین اور بے قرار رہنے لگا تھا کہ اس کے لیے کوئی معمولی سا فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا ۔
وہ فتوحات کا عادی ہو گیا تھا اور اس وہم میں مبتلا کے کوئی اسے شکست دے ہی نہیں سکتا اس خوش فہمی نے اسے رعایا کے لئے فرعون بنا دیا تھا۔
ہم تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی ۔اسے اپنا ایک بڑا ہی نامور جرنیل تذارق یاد آیا ہوگا یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے۔ مجاہدین اسلام کے دو عظیم سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھما، کی قیادت میں زرتشت کے پجاری ایرانیوں کے خلاف ایران میں برسر پیکار تھے ،آتش پرست ایرانی پسپا ہوتے چلے جارہے تھے، شام سلطنت روم میں شامل تھا اور حکومت ہرقل کی تھی۔
اس وقت تک ہرقل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی لٹیرے کہا کرتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ شام کی سرحدوں سے باہر رہیں ورنہ نیست و نابود کر دیے جائیں گے اپنا ایک بڑا زبردست کثیر تعداد لشکر یرموک کے مقام پر بھیج دیا، اور مسلمانوں کو للکارا اس لشکر کا جرنیل تاریخ کا ایک مشہور جنگجو تذارق تھا۔ ہرقل کو توقع تھی کہ وہ ایک ہی معرکے میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ لیکن اس معرکے کا انجام یوں ہوا کہ تذارق مارا گیا ،اس کا تقریبا آدھا لشکر کٹ مرا، اور جو تعداد بچ گئی وہ بندہ بندہ ہوکر بکھری اور دہشت زدگی کے عالم میں واپس پہنچی۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ تذارق کے بعد ہرقل کو خود آگے بڑھنا چاہیے تھا تاکہ مسلمانوں پر اس کا دبدبہ قائم ہوجاتا لیکن وہ اس لیے باہر ہی نہ نکلا کہ اسے بھی شکست ہوگی اور اس کا وقار یرموک کی زمین میں ہی دفن ہو جائے گا ۔
اب جبکہ وہ شکست خوردگی کی حالت میں قسطنطنیہ جا رہا تھا اسے یرموک کا معرکہ یاد آیا ہوگا اور وہ پچھتایا بھی ہوگا کہ اس نے عبرت حاصل نہ کی اور مسلمانوں کو کمزور ہی سمجھتا رہا۔
پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط یاد آیا ہوگا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اس واقعے کا مختصر سا پس منظر یوں ہے کہ جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے، ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا ایرانیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی (فرضی) قبر سے صلیب اعظم اٹھا کر لے گئے تھے۔
ہرقل نے شاہ فوکاس کا تختہ الٹا خود شاہ روم ،یا قیصر روم بنا، اور ایرانیوں کو شکست دے کر ان سے صلیب اعظم واپس لے لی تھی، وہ صلیب اعظم واپس حضرت عیسی علیہ السلام کی مفروضہ قبر پر رکھنے بیت المقدس جارہا تھا رسول اکرم صلی اللہ وسلم نے اس کے نام ایک خط بھیجا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
یہ خط ایک صحابی احیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ لے جارہے تھے۔
ہرقل انہیں بیت المقدس کے راستے میں ملا۔
انہوں نے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کو دے دیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے۔
آج جب شکست خوردہ ہرقل مسلمانوں کے قہر و عتاب سے بھاگا ہوا شام کی سرحد سے نکل رہا تھا، اسے یقینا مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خط یاد آیا ہوگا، اور یہ بھی اس نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا، وحیہ بن خلیفہ کلبی پر پھبتیاں کسی تھیں۔ اور پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے کہے تھے، اور خط آپ کے ان صحابی کے منہ پر دے مارا تھا اور بڑی بے ہودگی سے انہیں رخصت کیا تھا۔
عین ممکن ہے اب ہرقل دل ہی دل میں پچھتایا ہوگا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتا تو آج وہ بھی فاتحین میں شامل ہوتا، اور اس ذلت و رسوائی تک نہ پہنچتا ۔
تاریخ میں ہرقل کی اس وقت کی کیفیت اتنی سی ہی لکھی ملتی ہے ،کہ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا ،سر جھکا ہوا ،اور کندھے سکڑے ہوئے تھے۔
اس کے دل کو اس خیال نے بھلایا ہوگا کہ ابھی پورے کے پورے مصر اس کے قبضے میں ہے اور وہاں جاکر فوج کو تیار کرے گا اور پھر شام پر حملہ کر کے مسلمانوں سے انتقام لے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل کا قافلہ کوئی چند ایک افراد کا قافلہ نہیں تھا ،جو قسطنطنیہ جا رہا تھا ،مصر اور شام کی بے انداز حسین ترین لڑکیوں کا حرم بھی ساتھ تھا محافظ دستہ بھی تھا اور رہاء میں جو تھوڑی سی فوج موجود تھی وہ بھی ساتھ جا رہی تھی۔
یہ قافلہ پہاڑیوں کے اندر اندر عام راستے سے ہٹ کر جا رہا تھا ۔یہ ایک احتیاط تھی جو اس لئے کی گئی تھی کہ راستے میں مسلمانوں کا کوئی دستہ دیکھ نہ سکے۔
ہرقل لڑائی سے کترا رہا تھا اس نے ایک حفاظتی تدبیر اور بھی اختیار کی تھی وہ یہ کہ عام قسم کے مسافروں اور غریب سے لوگوں کے بھیس میں چند آدمی بہت آگے بھیج دیے تھے ان کے ذمّے کام یہ تھا کہ جہاں کہیں دور یا قریب مسلمانوں کا کوئی دستہ نظر آئے تو فوراً پیچھے آکر اطلاع دیں تاکہ راستہ بدل لیا جائے۔
راستے میں ایسا ایک خطرہ آہی گیا مسلمانوں کے تین چار سوار دستے مرعش سے ایک اور مقام دلوک کی طرف جاتے نظر آئے، اس وقت ہرقل ایک مشہور مقام شمشاط کے قریب پہنچ چکا تھا ۔
اور اس کا ارادہ وہیں رات گزارنے کا تھا۔
اس کے جاسوس جو بہت آگے جا رہے تھے ان میں سے ایک سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اور ہرقل کو اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سوار دستے شمشاط کی طرف آرہے ہیں ۔
ہرقل نے فورا کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے قافلے کو قریبی پہاڑیوں کے اندر لے گیا اور سفر نہ صرف جاری رکھا بلکہ رفتار تیز تر کردی۔
وہ خوش قسمت تھا کہ اس وقت وہاں سے کھسک گیا اور پہاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔
وہ جو سوار دستے دیکھے گئے تھے ان کے سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے وہ ان دستوں کے ساتھ دلوک جا رہے تھے کیونکہ اس مقام سے اطلاع ملی تھی کہ رومی فوج کی کچھ نفری اور وہاں کے لوگ باغی ہوتے جارہے ہیں۔
تاریخ کے مطابق خالد بن ولید نے فوراً وہاں پہنچ کر بغاوت کو اٹھنے سے پہلے کچل ڈالا۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار کو معلوم نہ ہوسکا کہ ایک بڑا ہی موٹا شکار ان کی نظروں سے ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
مشہور مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے کئی ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہرقل جب اس پہاڑی خطے سے آگے نکلا تو ایک بلند مقام پر پہنچ کر اس نے پیچھے دیکھا اسے چھوٹی بڑی بستیاں نظر آئیں اور افق تک پھیلا ہوا ملک شام بھی نظر آیا۔
اس نے آہ لی اور کہا ۔۔۔آخری سلام اے سرزمین شام،،،،، اب کوئی رومی بے دھڑک تیری زمین پر قدم رکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔۔۔۔ الوداع سرزمین شام !،،،،
ہرقل کے لیے قسطنطنیہ کا راستہ محفوظ نہیں رہا تھا اس نے شام کی سرحد سے کچھ دور غیر معروف سے ایک مقام بزنطیہ کا رخ کرلیا۔
المقریزی نے ہرقل کی اس وقت کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ہر قل بزنطیہ میں اس طرح داخل ہوا جیسے اپنے جنازے کے ساتھ اپنی آخری رسوم ادا کرنے آیا ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمع بجھنے کو آتی ہے تو کچھ دیر ٹمٹماتی ہے اور پھر آخری بار اس کی لو بڑھتی اور بجھ جاتی ہے۔
ہرقل کی شمع شماد ٹمٹما رہی تھی اور کوئی دم کو بجھنے کو تھی ،اس شمع میں اس کا خون جل رہا تھا ،اس کی رعونت جل رہی تھی، اور اس کا وہ غرور اور تکبر جل رہا تھا جو اسے اپنی جنگی اور ذاتی طاقت پر ہوا تھا ،ملک شام اس کی شہنشاہیت سے نکل گیا تھا لیکن کچھ سرحدی علاقوں پر ابھی مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ ہرقل کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔
کیا ہرقل نے عبرت حاصل کی تھی؟ ۔۔۔تاریخ میں سوال کا جواب نہیں ملتا انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ ایک بار طاقت کا زعم، رعونت، غرور، اور تکبر دماغ پر قبضہ کرلیں تو پھر انسان ذرا مشکل سے ہی عبرت حاصل کرتا ہے۔
تاریخ ہمیں وہ وقت یاد دلاتی ہے جب مسلمانوں نے ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالی عنہ، اور عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ، کی قیادت میں ملک شام پر لشکر کشی کی تھی مجاہدین اسلام نے دمشق فتح کر لیا تھا ۔
ہرقل اسوقت انطاکیہ میں تھا۔یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس نے اور اس کے جرنیلوں وغیرہ نے مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی قزاق کہا تھا ، ہرقل نے دمشق کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے فوج بھیجی تھی لیکن اس فوجی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمانوں نے دمشق فتح کر لیا تھا۔
اب جب کہ ہرقل شکست خوردگی کے عالم میں بزنطیہ جا پہنچا تھا اور اس کی امیدوں کے چراغ ٹمٹما رہے تھے اس سے کچھ عرصہ پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے شام میں پہلی فتح حاصل کی تھی کہ دمشق پر قبضہ کر لیا تھا، ہرقل نے خود انطاکیہ سے نکلنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی اسے یقین تھا کہ عرب کے بدو اس کی اتنی بڑی جنگی قوت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
ہرقل کی بھیجی ہوئی کمک پہنچ گئی تو رومی لشکر کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار ہو گئی جس میں گھوڑ سوار دستے زیادہ تھے، یہ فوج دمشق سے کچھ دور بیسان کے مقام پر جمع ہوگئی جہاں وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔
ہم یہاں ان لڑائیوں کی تفصیل پیش نہیں کریں گے رومیوں کے غرور اور تکبر کا ایک واقعہ سناتے ہیں۔
دمشق جیسا بڑا شہر دے کر بھی رومی جرنیل مسلمانوں کو صحرائی قزاق اور لٹیرے سمجھ رہے تھے، اس رومی فوج کا کمانڈر سکار نام کا ایک تجربہ کار جرنیل تھا جس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔
وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا اور پانی کی اتنی افراط کے کئی ایک چھوٹی بڑی ندیاں بہتی تھیں جرنیل سکار کے حکم سے ندیوں کے کنارے توڑ دیے گئے جس سے تمام علاقوں میں پانی پھیل گیا اس نے یہ اقدام مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی رکاوٹ اور دشواری پیدا کرنے کے لیے کیا تھا۔
مجاہدین اسلام نے ہر طرف پھیلتا ہوا پانی دیکھا تو انہوں نے بڑی بلند آواز سے قہقہے لگائے، اور رومیوں کو کچھ طنزیہ کلمے بھی کہیں مجاہدین نے ذرا سی بھی گھبراہٹ یا پریشانی کا اظہار نہ کیا ۔
اور لڑائی کی تیاریاں کرتے رہے، مسلمانوں کے حوصلے اور عزم کی پختگی اور ان کی یہ بے نیازی دیکھ کر رومی فوج متاثر بھی ہوئی اور مرعوب بھی۔
رومی جرنیل سکار نے اس کے باوجود مسلمانوں کو کمزور اور کم تر سمجھا اور ایک ایلچی بھیجا کہ وہ اپنا کوئی نمائندہ بھیجیں جس کے ذریعے صلح اور امن کی بات کی جا سکے ۔
سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی کو اپنا ایلچی بناکر رومیوں کے پاس بھیجا۔
علامہ شبلی نعمانی طبری اور بلاذری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ بن جبل گھوڑے پر سوار ہوکر رومیوں کے کیمپ میں گئے تو انہیں سکار کے خیمے تک لے جایا گیا وہ گھوڑے سے اترے اور سکار کے ایک محافظ نے ان کا گھوڑا پکڑ لیا اور کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ معاذ بزرگ صحابی تھے ان کی عمر اور رتبے کو دیکھتے ہوئے رومی سپاہی ان کا احترام کر رہے تھے۔
معاذ خیمے میں داخل ہونے لگے تو وہیں رک گئے، یہ تھا تو خیمہ لیکن اندر سے یوں لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کا خاص کمرہ ہو، ایسی ایسی قیمتی سجاوٹ کے یہ میدان جنگ کا خیمہ لگتا ہی نہیں تھا، جس چیز نے معاذ کو حیران اور پریشان کیا وہ خیمے کے اندر بچھا ہوا قالین تھا اس قدر قیمتی اور ایسا عمدہ اور نفیس کہ معاذ اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کررہے تھے۔
رومی جرنیل سکار نے انہیں آگے آکر بیٹھنے کو کہا ،وہاں سبھی لوگ اور سکار بھی فرش پر یعنی فرش پر بچھے ہوئے قالینوں پر بیٹھے تھے۔
معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس قالین پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ، ان کے درمیان جو باتیں ہو رہی تھیں وہ ایک ترجمان کے ذریعے ہوری تھیں سکار چونکہ اس خطے کی زبان نہیں بولتا تھا نہ سمجھتا تھا۔
آپ اس قالین پر بیٹھ سکتے ہیں سکار نے کہا۔۔۔ اس پر صرف غلاموں کو پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں۔
میں مسلمان ہوکر اس قالین پر نہیں بیٹھونگا معاذ نے کہا۔۔۔ اس قالین سے مجھے غریب رعایا کے خون کی بو آ رہی ہے یہ قالین غریب مزدوروں اور کسانوں کا حق چھین کر تیار کیا گیا ہے ۔
قالین خیمے جتنا لمبا چوڑا نہیں تھا، زمین ننگی بھی تھی ، معاذ رضی اللہ عنہ زمین پر یعنی خیمے کی فرش پر بیٹھ گئے۔
ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے تھے سکار نے کہا۔۔۔ اگر آپ کو اپنی عزت کا خود ہی خیال نہیں تو یہ ایک مجبوری ہے۔
علامہ شبلی نعمانی مؤرخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ آگیا اور وہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے، یعنی پوری طرح نہ اٹھے، اپنے اس جرنیل کے دماغ میں میری یہ بات ڈال دو معاذ نے ترجمان سے کہا ۔۔۔اسے کہو کہ تم قالین پر بیٹھنے کو عزت سمجھتے ہو تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ہمارے یہاں عزت کا تصور کچھ اور ہے اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو میں ہوں ہی غلام لیکن اپنے اللہ کا۔
معاذ رضی اللہ تعالی عنہ پھر بیٹھ گئے لیکن رومی جرنیل اور اس کے ان افسروں کو جو وہاں موجود تھے حیرت زدہ کردیا، آپ کے اس لشکر میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی ہے جرنیل سکار نے پوچھا؟ ۔۔۔۔معاذؓ بولے !،،، اللہ ہی کافی ہے کہ میں کسی سے بدتر نہیں ہوں۔
سب حاضرین محفل خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے، معاذ نے یہ بات ایسے دانشمندانہ اور پراعتماد انداز سے کہی تھی کہ سب متاثر ہوئے لیکن وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے کوئی اثر قبول کیا ہے ۔
ان کی نگاہیں ان سب پر گھوم گئیں اور کسی نے کوئی اور بات نہ کی، ان سے کہو کوئی بات کریں۔۔۔ معاذ نے ترجمان سے کہا۔۔۔ اگر انہیں کچھ نہیں کہنا تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ ترجمان نے جب رومی زبان میں اپنے جرنیل کو بتایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے تو وہ بولا۔
ہم آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں جرنیل سکار نے کہا۔۔۔ ملک حبشہ آپ کے قریب ہے دوسرے ملک بھی ہیں پھر آپ نے ادھر کا رخ کیوں کیا ہے؟ ۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے، ہماری فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہے کیا آپ یہ سوچ کر ادھر آئے ہیں کہ ہمیں شکست دے دیں گے؟.... ناممکن! "
ہم یہ درخواست لے کر آئے ہیں جو دراصل اللہ کا پیغام ہے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ۔۔۔اسلام قبول کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے ہم جیسی عبادت کریں، شراب اور خنزیر کا گوشت چھوڑ دیں، کہ یہ دونوں چیزیں حرام ہیں اور ہر طرح کے حرام کاری اور شاہانہ عیش و عشرت چھوڑ دیں۔
اگر ہم آپ کی یہ درخواست قبول نہ کرے تو۔۔۔ سکار نے رعونت بھرے لہجے میں پوچھا۔
تو پھر جزیہ دیں،، ۔۔۔معاذ نے جواب دیا۔۔۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر فیصلہ تلوار کرے گی اگر آپ کی تعداد ستاروں کے برابر ہے تو ہمیں اللہ کے اس فرمان پر بھروسہ ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے ایک بڑی اور طاقتور جماعت پر فتح یاب ہوئی ہے آپ کو اپنے پر بڑا ناز اور فخر ہے ،لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ بادشاہ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور آپ سب کی جان مال اور آبرو اس کے اختیار میں ہے، لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ اپنے آپ کو ہم سب کے برابر سمجھتے ہیں وہ بھی کوئی جرم کرے گا تو ایک عام آدمی جیسی سزا پائے گا۔
یہ رومی جرنیل دراصل یہ چاہتا تھا کہ مسلمان کسی بھی قسم کی کوئی خیرات وصول کرلیں اور یہاں سے واپس چلے جائیں اس نے ملک شام کا ایک ضلع اور کچھ اتنا ہی حصہ اردن کا پیش کیا اور کہا۔۔۔ کہ مسلمان یہ زمین لے لیں اور واپس چلے جائیں ۔
معاذ اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید بات چیت سے انکار کردیا اور واپس چلے آئے۔
یہ رومی جرنیل ابھی تک یہ توقع رکھتا تھا کہ یہ غریب سے مسلمان جن کا اتنے بڑے رتبہ والا آدمی قالین پر بیٹھنے سے جھجھکتا ہے، کچھ لے کر واپس جانے پر رضامند ہو جائیں گے ،اس نے اپنا ایک ایلچی مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی ان کی طرف بھیجا جسے یہ پیغام دیا کہ سپہ سالار
رومی ایلچی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیں۔
ابو عبیدہ نے اجازت دے دی اور اسی روز سکار کا بھیجا ہوا ایک ایلچی ابوعبیدہ کے پاس آ گیا۔
طبری اور بلاذری کے حوالوں سے واقعات تاریخ کے دامن میں یوں محفوظ ہیں کہ رومی ایلچی کو غالبا یہ توقع تھی کہ اسلامی لشکر کا سپہ سالار تو جاہ وجلال والا آدمی ہوگا اور اس کی کچھ تو شان وشوکت دوسروں سے الگ ہوگی، ایلچی ابو عبیدہ کے پاس آیا تو اس وقت سپہ سالار زمین پر بیٹھے ایک تیر کو ہاتھ میں لئے دیکھ رہے تھے ،رومی ایلچی نے کسی سے پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ ان آدمیوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ تو وہ حیران ہو کر ان کی طرف دیکھتا ہی رہا پھر ان کے قریب آیا۔
کیا تمہی اس لشکر کے سپہ سالار اور سردار ہو ؟۔۔۔ایلچی نے کچھ رعونت کا سا مظاہرہ کیا۔
ہاں میں ہی ہوں۔۔۔ ابو عبیدہ نے بڑے آرام سے جواب دیا ۔۔۔پھر میری ایک بات سن لو رومی ایلچی نے افسرانہ جلال سے کہا۔۔۔ ہم تمہاری تمام فوج کو سونے کی دو دو اشرفیاں فی آدمی دیں گے اور تم یہاں سے واپس چلے جاؤ۔
معلوم نہیں اس وقت اشرفیاں تھیں یا نہیں اس رومی کا مطلب دراصل یہ تھا کہ سونے کے دو دو ٹکڑے ہر مجاہد کو دیے جائیں گے اور وہ واپس چلے جائیں۔
کوئی اور بات کرنی ہے تم نے؟
ابو عبیدہ نے پوچھا۔۔۔ نہیں۔
پھر تم چلے جاؤ ابو عبیدہ نے کہا۔
ایلچی بڑا ہی برہم ہو کر چلا گیا۔
ابو عبیدہ نے اسی وقت ایک پیغام امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا جس میں یہ سارا واقعہ لکھا ،فاصلہ بہت زیادہ تھا تیز رفتار قاصدوں کا انتظام کیا گیا تھا ،چار پانچ دنوں بعد قاصد امیر المومنین کا پیغام لے کر آگیا ۔
امیرالمومنین نے لکھا تھا کہ اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہو اور اللہ تمہارا یار و مددگار ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ ہرقل جسے رعایا اور اس کے جرنیل بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ سمجھتے تھے، اور وہ ہرقل جس کی فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر تھی ،اس حال میں پہنچی کہ آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر فوج سپاہی سپاہی ہو کر بکھر گئی تھی، اور آدھی سے زیادہ فوج ہلاک ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوچکی تھی، اور ملک شام پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا تھا، آسمان کے ستارے ٹوٹ پھوٹ کر زمین کے ذروں میں مل کر خاک ہو گئے تھے۔
ادھر جنگ قادسیہ کے بعد کسریٰ ایران بڑی بری طرح شکست کھا کر بھاگا اور اپنا دارالحکومت بےبہا خزانوں سمیت مسلمانوں کے لئے چھوڑ کر کہیں روپوش ہوگیا تھا، ایران اور عراق مجاہدین اسلام کی جھولی میں آ پڑے اور ادھر شام مسلمانوں کے قدموں میں آ گیا، یہ صورتحال ایسی تھی جو ہرقل کا دل توڑ رہی تھی ،
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget