🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑⓿】デ۔══━一
یہ صورتحال ایسی تھی جو ہرقل کا دل توڑ رہی تھی ،لیکن آدمی بہرحال حوصلے والا تھا اس نے اطمینان سے اس صورتحال کا اور اپنی جنگی طاقت کا جائزہ لیا تو اس کا حوصلہ پھر سے قائم ہونے لگا، اس کے مشیروں نے بھی اس سے کہا کہ اپنی آدھی فوج مارے جانے سے اور شام ہاتھ نکل جانے سے روم کی شہنشاہی کے لیے اتنا نقصان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے، ابھی مصر ان کے پاس تھا اور مصر میں بے شمار فوج تھی، مشیروں نے اس سے کہا کہ وہ مصر سے فوج منگوائے اور تیاری کرکے مسلمانوں پر جوابی حملہ کیا جائے۔
ہرقل کی اس وقت کی ذہنی کیفیت کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے ، بزنطیہ میں پہنچ کر جب اسے یہ محفوظ پناہ گاہ مل گئی اور کچھ آرام اور سکون بھی مل گیا تو اسے مشیروں کے مشورے بڑے ہی اچھے لگے اس نے اسی وقت قاصد مصر اس پیغام کے ساتھ بھیج دیے کہ کم و بیش چالیس ہزار نفری کی فوج فوراً روانہ کر دی جائے ۔
ادھر اس کے پاس ایک مدد اور آگئی جو اس کے لیے بالکل خلاف توقع تھی اس کا حوصلہ پہلے کی طرح مضبوط ہوگیا۔۔۔۔۔
یہ مدد اس طرح آئی کہ ایک روز اسے اطلاع دی گئی کہ عراق اور شام کے مختلف قبائل کے بیس پچیس سردار ان سے ملنے آئے ہیں۔ یہ سب جنگجو قبائل تھے ان سرداروں کے ساتھ بیس پچیس نہایت حسین و جمیل معصوم صورت نو جوان لڑکیاں تھیں، جو ان سرداروں کے اپنے ہی خاندانوں میں سے تھیں۔
ہرقل نے ان سب کو اندر بلا لیا۔
ان سرداروں کے ساتھ ایک معمر سفید ریش بزرگ تھا جو شکل و صورت اور لباس سے دانشمند اور مذہبی پیشوا لگتا تھا۔
ان قبائل کے متعلق تھوڑی سی معلومات بے محل نہیں ہوگی۔
عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں اور کچھ دوسرے علاقوں میں بھی جو جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان میں بڑے قبائل بنی عمر، بنو غسان، بنی تغلب ،بنی آیاد، اور بنی مزام ،اور بنی عدوان تھے ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قبائل تھے یوں کہہ لیں کہ ان علاقوں کی آبادی قبائل کی صورت میں بٹی ہوئی تھی۔
یہ جو قبائلی سردار ہرقل کے پاس گئے تھے یہ سب غیر مسلم تھے کچھ فارس کہ یعنی عراق اور ایران کے آتش پرست تھے اور باقی سب عیسائی تھے۔
کیا تم یہ لڑکیاں میرے لیے تحفہ لائے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا تم مجھے فاتح سمجھ کر آئے ہو۔۔۔ اس وقت میری ضرورت کچھ اور ہے۔۔۔ مجھے یہ حسین و جمیل لڑکیاں نہیں چاہیے، اس وقت مجھے ایسے جوانمردوں کی ضرورت ہے جو میرے بازو مضبوط کریں اور میں عرب کے ان بدوؤں کو یہاں سے دھکیل کر وہیں پہنچا دو جہاں سے یہ آئے ہیں۔
ہم آپ کے بازو ہی مضبوط کرنے آئے ہیں۔۔۔ بوڑھے سردار نے کہا ۔۔۔یہ لڑکیاں ہم تحفے کے طور نہیں لائے ہماری اپنی بیٹیاں ہیں انہیں ہم آپ کے پاس صرف یہ دکھانے کے لئے لائے ہیں کہ یہ ہے ہماری عزت اور آبرو جو جنگوں میں محفوظ نہیں رہی، ہم ان معصوم بچیوں اور ان جیسی ہزاروں بچیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے کے لئے آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں۔
آپ ہماری مدد کریں اور ہم آپ کی مدد کریں گے، آپ کو جن جوان مردوں کی ضرورت ہے وہ ہم آپ کو ہزارہا کی تعداد میں دے دیں گے۔
میری مدد کا تمہیں اب خیال کیوں آیا ہے؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب فارس کی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی جا رہی تھی اور ادھر میری فوج بکھر کر پیچھے ہٹ رہی تھی۔
یہ واقعہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ بیان کیا جا سکے کہ ہرقل کے اقتدار کی شمع آخری بار کس طرح بھڑکی اور جب بجھ گئی تو وہ شام سے مصر تک کیوں اور کس طرح پہنچا ۔
ہم ان طویل تفصیلات کو یوں مختصر کرتے ہیں کہ اس معمر قبائلی سردار نے ہرقل کو بتایا کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کے خلاف لشکر کشی کی اور ادھر شام پر بھی انہوں نے حملہ کیا تو ان دونوں جنگوں میں ان قبائلیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ان کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جو فوجوں کے گھوڑے اونٹ اور بیل وغیرہ کھا گئے۔
اس بوڑھے سردار نے یہ بھی بتایا کہ خود اپنے فوجیوں نے ان کی لڑکیاں اٹھا لیں یا انہیں خراب کرکے چلے گئے۔
کیا مسلمانوں نے تمہاری لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کیا تھا ؟۔۔۔ہرقل نے پوچھا۔
نہیں؟!۔۔۔قبائلی سردار نے جواب دیا ۔۔۔مسلمان جب کسی بستی یا کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ گھروں کو نہیں لوٹتے نہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ بعض لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر لے جاتے ہیں، لیکن ہم ان عربوں کو جانتے ہیں وہ بغیر شادی کے کسی عورت کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کرتے۔
لیکن شہنشاہ روم! ۔۔۔اگر ایک بھی مسلمان ہماری ایک بھی لڑکی کو ساتھ لے جائے اور اسے اپنی بیوی بنا لے تو بھی ہم اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔
اسی لیے ہم یہ لڑکیاں آپ کے سامنے لائے ہیں کہ یہ پھول مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں اور اپنا بھی کوئی فوجی انہیں اپنا مال نہ سمجھے۔
اس بزرگ سردار نے ہرقل کو بتایا کہ وہ آتش پرست ہے اور ان عیسائی قبائلی سرداروں کے ساتھ آیا ہے ۔
مذہب کوئی بھی ہو عزت ہر کسی کی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ بات دراصل یہ تھی جو اس سردار نے ہرقل کو بتائی کہ مجاہدین اسلام نے ان کی کچھ بڑی بڑی بستیاں اور قصبے تباہ وبرباد کر دیے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے مجاہدین کے خلاف اپنی فوجوں کو بھرپور مدد دی اور مجاہدین کو دھوکے دیے تھے۔
یہ سب قبائلی سردار ہرقل کو یہ کہنے آئے تھے کہ اب مسلمانوں نے ملک شام بھی فتح کرلیا ہے ،اور وہ کچھ اور بستیاں اجاڑ دیں گے اس لیے وہ ہرقل کو قبائلیوں کی پوری فوج دینا چاہتے ہیں۔
اے روم کے شہنشاہ !۔۔۔اس معمر سردار نے کہا ۔۔۔میری عمر دیکھیں، زمانے کے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہیں، میں آپ کے چہرے پر مایوسی اور تذبذب دیکھ رہا ہوں اپنے آپ کو شکست خوردہ نہ سمجھیں، آج شکست ہوئی ہے تو کل فتح بھی ہو سکتی ہے، مصر سے مزید فوج منگوائیں اور ہم آپ کو اپنی فوج دینگے ۔
ایک بات شاید آپ کو معلوم نہ ہو وہ یہ کہ یہ عربی مسلمان سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے بہت ڈرتے ہیں ہم ان میں یہ مشہور کر دیں گے کہ سمندر سے فوج آرہی ہے۔
یہ بوڑھا قبائلی سردار ٹھیک کہہ رہا تھا دو تین اور مستند مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان سمندر میں نہیں اترے تھے ان کا کوئی بحری بیڑا نہیں تھا، نہ انھیں بحری جنگ کی سوجھ بوجھ تھی، وہ صحرائی لوگ تھے اور نہ جانے کیوں سمندر سے کچھ ڈرتے تھے، اس کے بعد تو مسلمانوں نے سمندری جنگوں میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی بحری طاقت ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔
ہرقل نے جب ان قبائلیوں کی یہ پیشکش سنی تو اس نے انہیں پہلی بات یہ بتائی کہ مصر سے اس کی فوج آرہی ہے، اور قبائلی فوراً اس کے پاس مسلح ہوکر پہنچ جائیں۔
یہ سردار جب جانے لگے تو ہرقل نے یا اس کے شاہی خاندان کے کسی اور فرد نے یا کسی مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ اتنی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو سفر پر واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ہرقل کے محل میں ہی رہنے دیا جائے جہاں یہ بالکل محفوظ رہیں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام کے تمام سالار مفتوحہ شہروں اور علاقوں کے انتظامات میں مصروف تھے۔ فتح کے بعد ایسے مسائل اور ایسی افراتفری پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی طرف فوری توجہ بہت ضروری ہو جاتی ہے ۔
ابھی یہ خطرہ بھی باقی تھا کہ کہیں بغاوت بھی ہوسکتی ہے رومی فوجی کہیں کہیں چھپے ہوئے بھی تھے، سالار ادھر مصروف تھے اس لئے انہیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ ہرقل پھر فوج اکٹھی کررہا ہے اور مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے مزید فوج آرہی ہے۔
اور غیرمسلم قبائل ایک فوج کی صورت میں منظم ہوکر ہرقل تک بزنطیہ میں پہنچ رہے ہیں۔
ہرقل ایک بار پھر ذہنی اور جسمانی طور پر بیدار ہو گیا تھا ۔
کچھ دنوں بعد مصر سے چلی ہوئی فوج بحری جہازوں کے ذریعے ساحل سے آلگی، ہرقل نے اپنے آدمی وہاں بھیج رکھے تھے وہ فوج کو ایک ایسے مقام تک لے گئے جو ہرقل نے انہیں بتایا تھا۔
یہ مقام اس وقت کے ایک مشہور شہر حمص کے قریب تھا قبائلیوں کے جو لشکر آ رہے تھے انھیں بھی ہرقل اسی مقام کی طرف بھیج رہا تھا ۔
اس ساری فوج کا کمانڈر ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا ،تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ بیٹا ایسے جوش اور بھڑکے ہوئے جذبے سے آیا تھا کہ اپنے باپ کی شکست کا انتقام لے گا اور اس شکست کو فتح میں بدلے گا۔
مصر سے آئی ہوئی ہرقل کی فوج اور قبائلی لشکر ایسے انداز سے اور ایسی تربیت میں حمص کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے کہ حمص جیسا بڑا اور اہم شہر محاصرے میں آگیا لیکن یہ محاصرہ قریب نہیں تھا بلکہ اتنی دور تھا کہ مسلمانوں کو اس کا پتہ ہی نہ چل سکا علاقہ پہاڑی تھا اور کچھ جنگلات بھی تھے جن سے رومیوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے آپ کو چھپائے رکھا ۔
ابھی قبائلیوں کے اور لشکر نے آنا تھا اس لئے یہ لوگ محاصرہ تنگ نہیں کر رہے تھے۔
مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ حمص میں ہی تھے اور یہی مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر بھی تھا دوسرے سالار دوسرے شہروں میں مصروف تھے ابو عبیدہ نے اپنے جاسوس باہر بھیجنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کیونکہ رومیوں کی طرف سے حملے کا خطرہ ختم ہوگیا تھا، ہرقل کے متعلق معلوم ہوگیا تھا کہ وہ بزنطیہ میں ہے اور وہاں سے بھی نکل جائے گا۔
ایک روز ابوعبیدہ کو کسی طرح معلوم ہوا کہ رومی ایک بار پھر منظم ہوکر حمص کے قریب آرہے ہیں، یا آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی بلکہ اڑتی اڑتی سنی گئی تھی۔
ابو عبیدہ نے حدید کو بلایا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حدید جاسوسی اور شب خون مارنے میں خصوصی مہارت اور جرات رکھتا تھا۔
حدید جس کا پورا نام حدید بن مؤمن خزرج تھا، حکم ملتے ہی اپنے سالار کے پاس پہنچا سپہ سالار ابوعبیدہ نے اسے کہا کہ وہ ہم سے دور دور جا کر دیکھے کہ رومی فوج کہیں موجود ہے، سپہ سالار نے اسے وہ ساری خبریں سنائیں جو انہوں نے سنی تھی حدید یہ حکم لے کر چلا گیا ، اور ایک عام سا کسان کا بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے مشن پر نکل پڑا۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب حدید اور شارینا سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس پہنچے تھے تو ان کی ساری بات سن کر سپہ سالار نے شارینا کو عورتوں کے حوالے کر دیا تھا یہ عورتیں سالاروں کی بیویاں، مجاہدین کی بیویاں، اور بہنیں وغیرہ تھی، جو ان کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھی شارینا حدید کی محبت میں گرفتار تھی لیکن جب سے حدید اسے یہاں لایا تھا وہ حدید کو دیکھ بھی نہیں سکی تھی۔ یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ حدید اور شارینا کی شادی کرا دی جائے گی، لیکن جنگ کی صورتحال ابھی اجازت نہیں دے رہی تھی، شارینا حدید کو دیکھنے کو بھی ترس رہی تھی۔
حدید جب گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا تو شارینا نے اسے دور سے دیکھ لیا وہ عرب کی مسلمان لڑکی ہوتی تو یوں نہ کرتی لیکن وہ آزاد خیال اور شاہی خاندان کی لڑکی تھی ،اور اس کے علاوہ حدید کی محبت میں تڑپتی رہتی تھی ۔
وہ حدید کی طرف اٹھ دوڑی اور اسے پکارنے لگی ،حدید نے گھوم کر دیکھا تو گھوڑا روک دیا ۔
شارینا دوڑتی اس تک پہنچی اور پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
وہاں ایسی بات نہیں تھی کہ انہیں یوں الگ اکٹھے کھڑے دیکھ کر کوئی اعتراض کرتا وہ اخلاق اور کردار کا زمانہ تھا عورت اور نوجوان لڑکیاں بھی میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کو اٹھاتی سہارا دے کر پیچھے لاتیں اور انہیں پانی پلاتیں تھیں، بعض لڑکیاں رات رات بھر ایک زخمی کے پاس بیٹھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتیں تھیں، حدید اور شارینا کے متعلق تو سب کو معلوم تھا کہ یہ دونوں کہاں سے اور کیسے آئے ہیں۔
حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اپنے کام سے جارہا ہے اور وہ واپس چلی جائے، لیکن شارینا نے گلے شکوے شروع کر دیے کہ وہ اسے ملتا نہیں اور کبھی اس نے آکر اسے دیکھا بھی نہیں، حدید نے اسے بتایا کہ وہ صبح شام مصروف رہتا ہے۔ لیکن اتنی سی بات سے شارینا کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، تسلی نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی اس نے شاہی محل میں جنم لیا پلی بڑھی، اور شاہی ماحول میں جوان ہوئی تھی، اور وہ اس کے بالکل الٹ ماحول میں آ گئی تھی۔
دوسری وجہ یہ کہ حدید بن مومن اسے اتنا اچھا لگا تھا کہ دیوانہ وار اسے چاہنے لگی تھی، اور کئی کئی دن اسے حدید نظر نہیں آتا تھا۔
اب اسے حدید نظر آگیا تو اس کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے بتائے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ حدید ایک خفیہ مشن پر جارہا تھا جو وہ شارینا کو نہیں بتانا چاہتا تھا، لیکن شارینا گھوڑے کے آگے ہو کر لگام پکڑ لی اور بچوں جیسی ضد کرنے لگیں کہ وہ اسے بتائے وہ کہاں جا رہا ہے۔
حدید کو بھی آخر اس وقت اس سے محبت تھی وہ اس کی اتنی پیاری ضد سے متاثر ہو گیا اور اسے بتایا کہ وہ اپنے سپہ سالار کے ایک شک کے مطابق کچھ دور دیکھنے جا رہا ہے کہ واقعی رومی فوج قریب آگئی ہے؟ ۔۔۔یا یہ ایک افواہ تھی جو سپہ سالار کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔
شارینا نے اب یہ ضد شروع کردی کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گی حدید کو یہ منظور نہ تھا نہ ہی مناسب تھا کہ وہ اسے ساتھ لے جاتا، شارینا فہم و فراست رکھنے والی لڑکی تھی اس نے کہا کہ رومی کہیں نظر آ بھی گئے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکے گا کیونکہ وہ اب ایسے لباس میں ہے کہ اسے کسی معمولی سے گھرانے کی لڑکی سمجھا جائے گا ،اور کسی نے پوچھ ہی لیا کہ تم دونوں کون ہو تو وہ کہے گی کہ میں اس کی بیوی ہوں۔
حدید نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مان رہی تھی حدید گھوڑے سے اترا شارینا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑے پیار سے سمجھایا کہ وہ واپس چلی جائے اور اس کے فرائض میں مخل نہ ہو، بڑی تگ و دو کے بعد حدید نے شارینا کو راضی کر لیا کہ وہ واپس چلی جائے۔
شارینا وہاں سے آہستہ آہستہ نہ چلی بلکہ دوڑ پڑی، حدید نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ چلی گئی ہے ،وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے کو چل پڑا شارینا اس پر بھی پیار اور محبت کے جذبات طاری کر گئی تھی لیکن وہ اسلام کا مجاہد تھا جذبات کے غلبے سے نکل آیا ،اور آگے ہی آگے بڑھتا گیا وہ گھوڑا دوڑا نہیں رہا تھا گھوڑا معمول کی چال چل رہا تھا ۔
وہ زیادہ دور نہیں تھا کہ اسے کسی گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اس وقت وہ ایک چٹان کی اوٹ میں تھا کوئی سوار گھوڑاسرپٹ دوڑاتا آ رہا تھا ۔حدید کو خیال آیا کہ سپہ سالار نے ہی کسی سوار کو پیغام دے کر اس کے پیچھے بھیجا ہوگا وہاں کسی دشمن کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
حدید نے گھوڑے کا رخ موڑا اور چٹان کی اوٹ سے نکل کر سامنے آگیا کہ دیکھے کہ یہ کون آ رہا ہے، گھوڑا قریب آ گیا تھا سوار نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا سوار نے قریب آکر گھوڑا روکا تو حدید نے دیکھا کہ یہ تو شارینا ہے ۔
وہ پریشان ہوگیا اور شارینا سے کہا کہ وہ واپس چلی جائے۔
شارینا نے کہا کہ واپس جانے کے لئے نہیں آئی، اور اسے پوری امید ہے کہ وہ حدید کے لیے مددگار ثابت ہوگی، حدید یہ تو دیکھی چکا تھا کہ یہ لڑکی کس قدر دلیر ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے، وہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی ہوتی تو صرف محبت کی طلب گار ہوتی تو حدید اسے اپنے ساتھ نہ لے جاتا اس نے سوچ کر یہی بہتر سمجھا کہ شارینا کو ساتھ لے جائے۔
اب دونوں پہلو بہ پہلو چل رہے تھے حدید نے یہ دیکھ لیا تھا کہ شارینا نے ایسا لباس پہن رکھا ہے جس نے سر اور چہرے کو اس طرح چھپا رکھا ہے کہ قریب آکر ہی کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عورت ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ علاقہ میرے لیے نیا اور ان دیکھا نہیں ہے، شارینا نے کہا۔۔۔ میں یہاں اپنے آپ کو اجنبی نہیں سمجھتی ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے اور میں چند مرتبہ یہاں سیر سپاٹے کے لئے آئی ہوں آگے ایک ندی آئے گی، یہ جگہ بہت ہی خوبصورت ہے، گھوڑوں کو اس ندی سے پانی پلائیں گے اور کچھ دیر سستا بھی لیں گے۔
وہ تو ایک روح پرور سبزہ زار تھا زمین نشیب و فراز والی تھی خوشنما جھاڑیاں اور سبز گھاس سے لدی پھندی ٹیکریاں بھی تھیں، دونوں چلتے گئے اور جب ایک ٹیکری سے گھومے تو آگے چھوٹی سی ندی آگئی شارینا کے کہنے پر حدید نے گھوڑا روک لیا اور دونوں گھوڑے سے اترے اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا، وہ فوراً ندی کے کنارے چلے گئے اور پانی پینے لگے ،شارینا نے اپنے سر سے کپڑا کھولا اور چہرہ بھی ننگا کر دیا وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا یہ خطرہ تو تھا ہی نہیں کہ کوئی رومی ادھر آ نکلے گا ان کے خیال کے مطابق دور دور تک کسی رومی کا نام و نشان اور سراغ نہ تھا۔
جہاں وہ اترے تھے اس سے چند ہی قدم دور سے ندی مڑتی تھی اور وہاں ایک ٹیکری بھی تھی، اور اس طرف ندی ٹیکری کے پیچھے ہوجاتی تھی، وہ دونوں بیٹھ گئے لیکن اس وقت ان پر رومانی کیفیت طاری نہیں تھی بلکہ وہ اپنے مشن کی باتیں کر رہے تھے، اور شارینا حدید کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ اس کا ساتھ مردوں کی طرح دے گی اور کہیں بھی اس پر ایسابوجھ یا اس کے کندھے پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالے گی جیسی عام عورتیں اپنے مردوں کے لیے بن جایا کرتی ہیں۔
وہ اپنی باتوں میں مگن تھے کہ انہیں کسی اور کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی جو ٹیکری کی اوٹ سے اس کی طرف بڑھتی آرہی تھی ،آواز اور قریب آئی تو دونوں چپ ہو گئے اور شارینہ نے حدید کے کان میں سرگوشی کی کہ یہ تو رومی زبان میں باتیں کرتے آرہے ہیں،،،،، شارینا نہتی نہیں تھی، وہ تلوار اور ایک خنجر سے مسلح ہو کر آئی تھی، اور حدید تو تھا ہی مسلح اس کے پاس بھی تلوار تھی اور ایک خنجر۔
آواز جب سر پر آ پہنچی تو دونوں اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ٹیکری کے اوٹ سے تین آدمی اچانک سامنے آگئے، حدید کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگی کہ یہ تینوں رومی فوجی ہیں۔ حالانکہ وہ فوجی وردی میں نہیں تھے بلکہ حدید کی طرح انہوں نے عام قسم کے لباس پہن رکھے تھے جیسا لباس اس خطے کے عام لوگ پہنا کرتے تھے ،ان میں ایک گورے چٹے رنگ کا جوان سال آدمی تھا جس کی آنکھیں کچھ نیلی اور کچھ سبز سی تھی اس نے جب شارینا کو دیکھا تو چوک کر ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ میں تمہارا نام نہیں جانتی شارینا نے اس گورے چٹے آدمی سے کہا۔۔۔ اتنا یاد ہے کہ تم شاہ ہرقل کے محافظ دستے کے کمانڈر رہ چکے ہو۔
ہاں !،،،شہزادی شارینا اس آدمی نے کہا ۔۔۔میرا نام روتاس ہے اور میں شاہی محل کے محافظ دستے کا کمانڈر رہ چکا ہوں ۔
پہلے یہ بتائیں کہ آپ یہاں کیسے؟ ۔۔۔اس نے حدید کی طرف دیکھ کر پوچھا اور یہ کون ہے؟
یہ مسلمان ہے شارینا نے کہا اور میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رہاء سے باہر نکلی تو مسلمانوں نے مجھے اغوا کر لیا تھا اور اپنے ہاں لے گئے تھے، وہاں میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں ہوا ،یہ اسلئے نہیں ہوا کہ مجھے کسی سالار کی بیوی بننا تھا، اور مسلمان دشمن کے عورتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو ہماری فوج کیا کرتی ہے، بہرحال میں تھی تو ان کی قیدی لیکن اس آدمی نے مجھ پر رحم کیا اور قید سے آزاد کرا دیا۔
میں تمہیں پوری کہانی نہیں سنا رہی تم بھی جوان ہو اور جوانی کے جذبات سے واقف ہو ، یہ میری محبت میں ایسا مبتلا ہوا کہ اپنا مذہب چھوڑنے پر تیار ہو گیا اب موقع ملا ہے اور ہم دونوں وہاں سے فرار ہو آئے ہیں معلوم نہیں تھا کہ میں اسے کہاں لے جاؤں اچھا ہوا تم مل گئے، اب تم بتا سکو گے کہ اپنی فوج کہاں ہے، میں اسے وہاں لے جا کر عیسائی بناؤں گی ،اور یہ خواہش اس نے خود ظاہر کی ہے،
حدید چپ رہا اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شارینا اس رومی افسر سے کیا کہہ رہی ہے، شارینا ملک شام کی زبان بول اور سمجھ سکتی تھی، اس نے اس زبان میں یعنی عربی زبان میں حدید کو بتایا کہ اس نے اس جواں سال رومی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے ۔
روتاس نے شارینا سے کہا اسے معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ اغوا ہوگئی تھی بہر حال اس نے خوشی کا اظہار کیا کہ شارینا صرف یہ کہ مسلمان کی قید سے فرار ہو کر آ گئی ہے بلکہ ایک مسلمان کو عیسائی کر کے ساتھ لے جا رہی ہے، روتاس کے ساتھ جو دو آدمی تھے وہ رومی فوج کے سپاہی تھے۔
شارینا نے انہیں وہیں بٹھا لیا اور روتاس سے پوچھا کہ ہرقل کہاں ہے؟ ۔۔۔اور اپنی فوج کہاں ہے؟
روتاس شارینا سے اسی لئے بھی متاثر تھا بلکہ مرعوب تھا کہ وہ شہزادی تھی، اس نے شارینا کو بتانا شروع کردیا کہ ہرقل کہاں ہے اور اب اپنی فوج اور قبائلی لشکر یہاں ان پہاڑیوں کے پیچھے اکٹھا کر لئے ہیں، اور حمص کو محاصرے میں لے کر یہ شہر فتح کرلیا جائے گا۔
شارینا نے یہ ساری بات حدید کو اس کی زبان میں بتائی اور کچھ اشارہ بھی دے دیا۔
باتیں کرتے کرتے روتاس نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ اس بھیس میں حمص جا رہا ہے کہ وہ یہ اندازہ کر سکے کہ حمص کے اندر مسلمانوں کی فوج کتنی کچھ ہے، اور یہ قلعہ بند شہر کس طرح لیا جاسکتا ہے، اور کیا حمص والوں کو کہیں سے کمک پہنچ سکتی ہے یا نہیں۔
شارینا اس طرح اٹھی جیسے بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی ہو اور ٹانگیں سیدھی کرنا چاہتی ہو، باتیں کرتے کرتے وہ ان رومیوں کے پیچھے ہوگئی، جونہی روتاس نے نظریں ہٹائیں شارینا نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور ایک سپاہی کی گردن پر ایسا بھرپور وار کیا کہ اس کی گردن آدھی سے زیادہ کٹ گئی، روتاس نے یہ دیکھا تو کچھ نہ سمجھ سکا اتنی دیر میں شارینا نے تلوار دوسرے سپاہی کے پہلو میں اس طرح اتار دی جس طرح پرچھی ماری جاتی ہے۔
تب روتاس بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کا ایک ہاتھ اس کی تلوار کے دستے پر گیا لیکن حدید کی تلوار کی نوک اس کے سینے کے ساتھ لگ چکی تھی اور شارینا نے اسے کہا تھا کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے گا اگر وہ مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرے ۔
شارینا کی تلوار کی نوک روتاس کے ایک پہلو کے ساتھ لگ گئی تھی اس نے اپنا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے سے ہٹا لیا۔
حدید نے شارینا سے وہ کپڑا لے لیا جو اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپیٹا تھا اس کپڑے سے حدید نے روتاس کے ہاتھ اس کے پیٹ پیچھے باندھ دیئے اور پھر حدید اور شارینا نے اسے اٹھاکر حدید کے گھوڑے پر بیٹھا دیا۔ حدید اس کے پیچھے بیٹھا اور شارینا اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور دونوں وہاں سے واپس چل پڑے۔
یہ کوئی عجیب اتفاق نہ تھا کہ شارینا کے ساتھ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پہلے پیش آ چکا تھا اس کی فوج کے ایک افسر نے اسے راستے میں دیکھ لیا تھا اور اس افسر نے حدید کو اس وقت اپنے دو سپاہیوں سے قتل کروانے کی کوشش کی تھی، جب حدید اور شارینا ایک چشمے کے کنارے سوئے ہوئے تھے، اب پھر رومی فوج کا ایک افسر دو سپاہیوں کے ساتھ اسے مل گیا یہ اتفاق اس وجہ سے عجیب نہ تھا کہ اس ماحول میں اور اس صورتحال میں جب رومی فوج وہاں موجود تھی ایسا ہی واقعہ پیش آسکتا تھا کہ کوئی رومی اسکو پہچان لیتا اور اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔
روتاس کو حدید اور شارینا حمص لے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اس وقت ابوعبیدہ کو ایک اور ذریعے سے اتنا پتہ چل چکا تھا کہ کچھ قبائل لشکروں کی صورت میں منظم ہو کر کہیں جا رہے ہیں، لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں اور کیوں جا رہے ہیں ؟
سپہ سالار نے اس طرف بھی جاسوس بھیج دیے تھے اور اپنے ان سالاروں کو جو ملک شام میں بکھرے ہوئے تھے پیغام بھیج دیے تھے کہ یہ دیکھیں کہ عیسائی اور آتش پرست قبائل کہاں جارہے ہیں اور ان کی ظاہری اور درپردہ سرگرمیاں کیا ہے؟
یہ ایک قدرتی مدد تھی کہ شارینا حدید کے ساتھ چل پڑی تھی حدید بھی کوئی ایسا اناڑی نہ تھا وہ شارینا کے بغیر ہی کچھ دیکھ آتا اور کوئی خبر لے آتا ،لیکن روتاس کو ساتھ لے آنے سے ہی صورتحال کا علم ہو گیا۔
روتاس سے کہا گیا کہ وہ ہرقل کے صحیح عزائم اور اس کا منصوبہ پوری طرح بیان کر دے تو اس کی جان بخشی ہو جائے گی، اور اسے جنگ کے بعد غلام بنانے کے بجائے آزاد کر دیا جائے گا ۔
جان کسے عزیز نہیں ہوتی، روتاس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ اس کا بادشاہ ہرقل شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور اس کی فوج میں کوئی دم خم نہیں رہا، روتاس نے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہرقل اور تمام قبائل کا سارے کا سارا پلان سنا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رومی فوج اور قبائلی لشکر حمص کو محاصرے میں لے چکے ہیں اور کچھ قبائلی لشکر پہنچ جائیں گے تو حمص پر بڑا ہی زبردست حملہ ہوگا۔
طبری، بلاذری، اور جوزی، نے خاص طور پر یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں اس طرح ڈالا ہے کہ رومی فوج اور قبائلی لشکروں کی نفری پچاس ہزار سے زیادہ تھی، اور حمص میں جو مجاہدین موجود تھے ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی، وہ لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ابوعبیدہ جیسے سالار کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا ان کے لیے سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ باقی سب سالار خالد بن ولید ،شرجیل بن حسنہ، عمرو بن عاص، رضی اللہ عنھم جیسے تاریخ ساز سالار ان سے بہت دور تھے ہر ایک کی ذمہ داری میں وسیع علاقہ تھا جسے وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔
ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا جو ان کے ساتھ حمص میں تھے انہیں اس صورتحال سے اور آنے والی آفت سے آگاہ کیا اور پھر تیز رفتار قاصد کو پیغام لکھ کر مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا اس میں انھوں نے لکھا کہ وہ حمص میں کس خطرے میں گھر گئے ہیں۔
ایک تو انہیں ہدایت اور احکام دیے جائیں اور جس قدر کمک مل سکتی ہے بلاتاخیر بھیج دی جائے۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہرقل حمص پر قبضہ کر لے گا اور مسلمانوں کے لئے قدم جمانا ناممکن نہیں تو بڑا ہی دشوار ضرور ہو جائے گا، اس سوال کا جواب اس وقت کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا کہ حمص کو اتنی تیزی سے مدد مل سکے گی یا نہیں؟
جس تیزی سے رومی اور قبائلی لشکر حمص کی طرف بڑھ رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حمص ہی نہیں وہاں تو پورے کا پورا ملک شام ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تھا، رومی فوج کے پکڑے ہوئے افسر روتاس نے بتایا تھا کہ اس وقت تک رومی فوج اور غیرمسلم قبائل کے لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کے قبائل کے آدمی ابھی تک اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے آ رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جیسی مضبوط اعصاب والی شخصیت کے چہرے پر تشویش کا تاثر آگیا تھا تشویش تو ہونی ہی تھی ان کے پاس تھا ہی کیا مجاہدین کی کل تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔
جس وقت سپہ سالار ابوعبیدہ روتاس سے سن رہے تھے کہ ہرقل کا پلان کیا ہے اس وقت انھوں نے شارینا کو باہر بھیج دیا تھا ۔
شارینا نے اپنا کام کر دیا تھا اور یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن جنگی امور اور مسائل میں جن کا تعلق صرف مردوں یعنی سالاروں کی سطح کے مردوں کے ساتھ تھا ایک عورت کی موجودگی ضروری بھی نہیں تھی اور مناسب بھی نہیں۔
ابو عبیدہ نے روتاس کی ساری بات سن کر اپنے دو تین محافظوں کو بلایا اور کہا کہ روتاس کو قید خانے میں بند کر دیا جائے، تو اس نے احتجاج کے لہجے میں کہا کہ اس نے ہر راز بتا دیا اور میرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ مجھے آزاد کر دیا جائے گا تو پھر قید خانے میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
ہم دل سے تمہاری قدر کرتے ہیں ابو عبیدہ نے کہا ۔۔۔ہم تمہیں جنگی قیدی سمجھ کر قید خانے میں نہیں ڈال رہے جونہی جنگ ختم ہو گی ہم تمہیں پوری عزت اور احترام سے آزاد اور رخصت کریں گے۔
ابو عبیدہ نے محافظوں کو اشارہ کیا محافظ روتاس کو اپنے ساتھ لے کر باہر نکل آئے۔ حدید بھی ان کے ساتھ آگیا اور شارینا کے پاس رک گیا ،اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ شارینا نے روتاس کے متعلق پوچھا۔۔۔ قید خانے میں، قید خانے میں کیوں؟،،، شارینا نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر بولی انہیں روک لو حدید!
سپہ سالار کے حکم میں دخل اندازی نہ کرو شارینا حدید نے کہا۔۔۔ تمہاری عقل ان تک نہیں پہنچ سکتی۔
میں سپہ سالار سے ملنا چاہتی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔تم بھی ساتھ آؤ مجھ میں سپہ سالار جیسی عقل تو نہیں ہو گی لیکن میری عقل میں ایک بات آ گئی ہے ۔
حدید کی کوئی اور بات سنے بغیر شارینا اندر چلی گئی حدید بھی اس کے پیچھے چلا گیا کہ نہ جانے کیسی باتیں کہہ گزرے جو سپہ سالار کو اچھی نہ لگے۔
سالار محترم!،،،، شارینا نے اندر جاتے ہی کہا۔۔۔ میں آپ کے فیصلوں اور احکام میں دخل اندازی نہیں کر رہی صرف یہ پوچھنے کی معافی چاہتی ہوں کہ اس رومی افسر کو آپ قید خانے میں کیوں قید کر رہے ہیں ؟اسے تو آپ نے آزادی کا وعدہ دیا تھا۔
میری عزیز بچی!،،،، سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔اگر یہ کارنامہ تمہارا نہ ہوتا تو میں تمہیں اس سوال کا جواب نہ دیتا میں تمہارے جذبے کی دلی طور پر تعریف کرتا ہوں لیکن تم ابھی کم عمر ہو اس لئے نہیں سمجھ سکتی کہ جذبے کی لگام عقل کے ہاتھ میں نہ ہو تو جذبہ نقصان بھی دے جایا کرتا ہے۔ تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ مجھ سے پوچھو کہ میں اسے قید خانے میں کیوں بند کر رہا ہوں اگر اسے ابھی آزاد کردیا تو یہ سیدھا ہرقل کے پاس پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا اور اس نے یہ راز اگل دیا ہے اس کی اس اطلاع پر ہرقل فوراً اپنا حملے اور محاصرے کا منصوبہ تبدیل کردے گا، ہوسکتا ہے وہ ہم سب کو نظر انداز کر دے اور کسی اور شہر کو جاکر محاصرے میں لے لے جو ہمارے قبضے میں آ چکا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے ہمیں غلط خبر دی ہو یہ اطلاع مجھے پہلے ہی ملی ہیں کہ ہم سے دور پہاڑی علاقے میں ہرقل کی فوج اور قبائل کا لشکر اس طرح اکٹھا ہوگیا ہے کہ حمص محاصرے میں ہے، بے شک فاصلہ زیادہ ہے لیکن اس فوج اور لشکر نے اسی حالت میں پیش قدمی کی تو حمص بالکل ہی محاصرے میں آجائے گا، اور ہمیں قلعہ بند ہو کر لڑنا پڑے گا، اور ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کمک ہم تک نہیں پہنچ سکے گی ،میں اپنے وعدے پر قائم ہوں یہ محاصرہ توڑ دینے اور رومی فوج کو پسپا کرنے کے فوراً بعد روتاس کو آزاد کر دیا جائے گا۔
میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں محترم سپہ سالار۔۔۔ شارینا نے کہا ۔۔۔آپ کے سامنے میری حیثیت کچھ بھی نہیں پھر بھی آپ نے میری بات تحمل سے سنی ہے اور جواب دیا ہے ،رومیوں کے ہاں کوئی چھوٹا آدمی اپنے سالار کے سامنے اونچی سانس بھی نہیں لے سکتا ان میں ہرقل سے ایسی بات کرنے کی جرات ہی نہیں حالانکہ وہ میرا باپ ہے باپ سے پہلے وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور پھر افواج کا سالار سمجھتا ہے۔
شارینا بیٹی!،،، ابو عبیدہ نے کہا میں اس وقت مصروف بھی ہو اور کچھ پریشان بھی اگر تمہیں کوئی خاص بات کہنی ہے تو وہ کہو اپنی تعریف سننے کا ہمارے ہاں رواج بھی نہیں اور میرے پاس وقت بھی نہیں تم مجھے خراج تحسین پیش نہ کرو خراج تحسین کی حقدار تم خود ہو جس نے بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔
میں خاص بات ہی کرنا چاہتی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ اس رومی افسر روتاس کو قید خانے میں رکھنے کے بجائے کسی بڑے اچھے کمرے میں رکھیں باہر پہرہ کھڑا کروا دیں تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ یہ قیدی ہے پھر مجھے اجازت دیں کہ میں اس سے ملتی رہوں، مجھے امید ہے کہ اس کے سینے سے کچھ اور کام کی باتیں نکلوا سکوں گی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے حدید کی طرف دیکھا اور دو تین سالاروں کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھے ابو عبیدہ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔
خدا کی قسم اس لڑکی نے عقل و دانش کی بات کی ہے سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔اور کیا تم سب نے محسوس نہیں کیا کہ میں کتنا پریشان ہوں اور میرا ذہن کہاں الٹ گیا ہے میرا دماغ حاضر ہوتا تو یہ بات میں خود سوچ لیتا، شارینا روتاس کو قید خانے کے بجائے نہایت اچھے رہائشی کمرے میں رکھا جائے گا اور اسے یہ احساس دلایا جائے گا کہ وہ قیدی نہیں ہمارا مہمان ہے۔
اور اس خوش اخلاقی کا میں اس پر ایسا تاثر پیدا کر دوں گی کہ یہ اسلام قبول کرلے گا شارینا نے کہا ۔۔۔لیکن میرا اولین مقصد یہ ہو گا کہ اس سے کچھ اور راز حاصل کر لوں حدید میرے ساتھ ہوگا لیکن میں روتاس سے اکیلے ملا کروں گی۔
ابو عبیدہ نے اسی وقت دربان کو بلا کر حکم دیا کہ اس رومی کو قید خانے میں نہ لے جایا جائے اسے مہمان کے طور پر کہیں اور رکھا جائے گا۔ سپہ سالار نے اس کے مطابق حکم دے دیا کہ انتظام مکمل کیا جائے اور اس کے کمرے کے سامنے ہر وقت دن رات پہرہ کھڑا رہے۔
ابو عبیدہ، خالد بن ولید، سعد بن ابی وقاص، اور عمر بن عاص، رضی اللہ عنھم پائے کے سپہ سالار تھے۔ خالد بن ولید کی معزولی کے بعد امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لشکر کی کمان ابو عبیدہ کو ہی دی تھی، انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ جو مشورہ شارینا نے دیا تھا یہ خود ہی ان کے ذہن میں آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ آیا وجہ یہ تھی کہ انہیں حمص ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا اس پریشانی نے ان کے ہوش و حواس کو بھی مجروح کر دیا تھا کہ کمک پہلے پہنچتی ہے یا ہرقل کا لشکر۔ یہ انکے بس میں تھا ہی نہیں کہ کمک رومی لشکر سے پہلے پہنچ جائے۔
وہ کچھ اور سوچنے کے قابل رہے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک کے بجائے اکٹھے دو قاصد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیے تھے۔
انہوں نے قاصدوں کو بڑی سختی سے ہدایت دی تھی کہ وہ سوئیں گے تو گھوڑوں کی پیٹ پر سوئیں گے اور کھائیں گے بھی تو چلتے گھوڑوں پر کھائیں گے، ایک ہدایت یہ بھی دی کہ دو قاصد اس لیے بھیج رہے ہیں کہ راستے میں ایک کو کچھ ہوجائے اور وہ اتنا بیمار ہوجائے کہ موت نظر آنے لگے تو دوسرا قاصد اس کے لئے رکے نہیں اکیلا ہی چلا جائے۔
ابو عبیدہ کے الفاظ یہ تھے کہ اڑ کر مدینہ پہنچو۔
اس دور کے قاصد ایسے نہیں تھے کہ پیغام لے کر چلتے تو اپنی مرضی کی رفتار سے جاتے اور خوش ہوتے کہ چلو میدان جنگ سے تو کچھ دنوں کی چھٹیاں ملی وہ قاصد بھی مجاہد تھے ان کا بھی جذبہ تھا اور اپنے اس فرض پر جان قربان کر دینا ان کا ایمان تھا ، پیغام رسانی کا انتظام بڑا اچھا تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم کر دی گئیں تھیں جہاں تازہ دم اور نہایت تندرست گھوڑے موجود رہتے تھے ،قاصد ہرچوکی پر تھکا ہوا گھوڑا چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑا لے کر آگے چلے جاتے تھے، جب صحرا شروع ہو جاتا تھا تو صحرائی چوکیوں میں اونٹ بھی رکھے جاتے تھے کیونکہ ریگستان میں اونٹ گھوڑے سے زیادہ تیز دوڑتا ہے اور پانی کی حاجت محسوس نہیں کرتا۔
یہ قاصدوں کے صوابدید پر ہوتا تھا کہ انہیں گھوڑے کے بجائے اونٹ پر آگے جانا چاہیے۔
یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ حمص سے مدینہ کم و بیش بارہ سو کلومیٹر دور اور راستہ زیادہ تر صحرائی تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel