⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 6👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏⓿】デ۔══━一

میرے اس ساتھی سے بات کر جس نے تجھ سے کچھ پوچھا ہے ؟۔۔۔
شارینا نے ایک بار پھر تلوار کی نوک اسکے سینے میں چبھو کر کہا۔۔۔اسکے سوال کا صحیح جواب دے۔۔۔ابھی تیرے جسم سے جان نکل جائے گی۔ تو تیرے مردہ دل سے میری محبت بھی غائب ہوجائے گی ،فورا بول تیرا ارادہ کیا تھا؟ ۔۔۔
حدید!۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اس نے تمہیں قتل کروانا چاہا تھا، بری طرح ناکام رہا تمہارا حق ہے کہ اسے ختم کر دو۔
میں تم دونوں سے التجا کرتا ہوں کیلاش نے بھیکاریوں کے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے قتل کرنے کا گناہ اپنے سر کیوں لیتے ہو میں تو مر ہی رہا ہوں مجھے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دو زندگی ہوئی تو منزل پر پہنچ جاؤں گا جو مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔
یہی ہوگا کہ بھوکا پیاسا گھوڑے کی پیٹھ پر ہی مر جاؤں گا نہ میں گھوڑے سے اتر سکتا ہوں نہ چل سکتا ہوں اور اتر جاؤں بھی تو کسی کی مدد یا سہارے کے بغیر گھوڑے پر سوار نہیں ہوسکتا۔
حدید! ۔۔۔شارینا نے جھنجلا کر کہا۔۔۔ تم سوچ کیا رہے ہو؟
اسے تو میں ہی قتل کر دوں لیکن یہ تمہیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اس لیے تم ہی اسے قتل کرو۔
میری ایک بات شاید تمہیں اچھی نہ لگے شارینا! ۔۔۔حدید نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جو مجھے قتل کرنے آئے تھے انہیں تم نے قتل کردیا ہے ۔
میرا مذہب اس معذور شخص پر ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے جو اپنے آپ کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور صرف معذوری کی وجہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، دوسری بات یہ کہ اس تمام تر خطے میں میری اور اس کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں اسی لئے تمام علاقہ میدان جنگ ہے اگر یہ شخص مجھ سے لڑ رہا ہوتا اور میں اس کا مقابلہ کر رہا ہوتا تو میں قتل ہوجاتا یا اس سے نہ چھوڑتا لیکن یہاں معاملہ ذاتی ہو گیا ہے اس نے مجھے تمہاری خاطر قتل کرنا چاہا تھا۔
میں کسی اور مقصد کیلئے ایک عقیدہ دل میں بسائے میدان جنگ میں آیا تھا ۔
اس مقصد اور اس عقیدے کے سامنے اس جیسے معذور آدمی کا قتل گناہ کبیرہ ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور باقی رات کچھ اور آرام کرلیں صبح یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
شارینا نے کچھ کہا تو نہیں لیکن اس کاچہرہ بتاتا تھا کہ اسے حدید کا یہ فیصلہ منظور نہیں اس نے حدید کو گھور کر دیکھا ۔۔۔اسے گھوڑے پر بٹھا دیتے ہیں شارینا نے کہا۔۔۔ تم جاؤ اس کے گھوڑے پر زین ڈال کر گھوڑا یہاں لے آؤ کیلاش نے شارینا کا شکریہ ادا کیا اور بھکاریوں کی طرح دعائیں بھی دی۔
گھوڑے کچھ دور ایک درخت کے ساتھ بندھے ہوئے تھے یہ تین گھوڑے کیلاش اور اس کے دونوں سپاہیوں کے تھے۔
حدید جا کر ایک گھوڑے پر زین ڈالنے لگا اور پھر اس نے زین اچھی طرح کس کر باندھی اور گھوڑے کو کیلاش کے پاس لے آیا اس نے کیلاش کو دیکھا، وہ اب بیٹھا ہوا نہیں بلکہ ایک پہلو پر لیٹا ہوا تھا۔
شفّاف چاندنی میں حدید کو کیلاش کا خون بہتا نظر آیا تب اس نے دیکھا کہ اس کا سر جسم سے کچھ الگ پڑا تھا لیکن گردن پوری طرح کٹی نہیں تھی۔
حدید نے شارینا کی طرف دیکھا ۔
کیا اس لئے مجھے یہاں سے چلتا کیا تھا ؟۔۔۔حدید نے شارینا سے پوچھا۔
اصول اور قائدے وہاں چلا کرتے ہیں جہاں سامنا غیرت والے اور کردار والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ شارینا نے کہا۔۔۔تم اپنے مذہب کے پابند ہوں مجھ پر کوئی پابندی نہیں میں نے اس کی گردن کاٹ دی ہے میں نے اس کے ساتھ نیکی کی ہے کہ اسے قتل کردیا ہے اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اسے گھوڑے پر بٹھا دے تو تو یہ بھوک اور پیاس سے آہستہ آہستہ اور اذیت ناک موت مرتا اس کی سزا یہی ہونی چاہیے تھی ۔پھر اسے مارا کیوں؟ حدیث نے پوچھا؟ ۔۔۔
تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے حدید! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ اگر ہم اسے یہی زندہ چھوڑ جاتے یا اسے گھوڑے پر بٹھا کر رخصت کر دیتے تو یہ شخص ہمارے لئے بڑا خطرہ بن جاتا اسے لڑائی سے بھاگے ہوئے اپنے جیسے رومی فوجی مل سکتے تھے، یہ پہلا کام یہ کرتا کہ انہیں ہمارے پیچھے ڈال دیتا ۔
اسے قتل کر دینا ہی ٹھیک تھا دونوں اس جگہ گئے جہاں رومی سپاہیوں کی لاشیں پڑی تھیں انہوں نے وہ کمبل اٹھائے جن پر وہ سوئے تھے ،کچھ پرے جا کر کمبل بچھا کر لیٹ اور سو گئے صبح ابھی دھندلی تھی جب دونوں جاگ اٹھے اور کچھ کھا پی کر انہوں نے کیلاش اور اسکے سپاہیوں کے گھوڑے بھی اپنے پیچھے باندھ لئے اور چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر رہاء میں ہرقل کے شاہی خاندان کے اتنے زیادہ افراد میں صرف ایک عورت تھی جو شارینا کے لئے پریشان تھی وہ تھی اس کی ماں وہ روتی اور آہیں بھرتی تھی اسے اتنا یقین ضرور تھا کہ شارینا اغوا نہیں ہوئی اور قتل بھی نہیں ہوئی، وہ اپنی بیٹی کے خیالات اور جذبات کو سمجھتی تھی وہ یہ بھی سمجھ گئی کہ شارینا کو یہ مسلمان قیدی اچھا لگا ہوگا اور اس سے رہا کروا کے اس کے ساتھ چلی گئی ہے۔
لیکن شارینا زندہ بھی تھی تو ماں کو تو نہیں مل سکتی تھی۔
ہرقل شارینا کا اگر باپ نہیں تھا تو اس کے ماں کا خاوند تو تھا لیکن اس نے ایسی بے رخی کا مظاہرہ کیا تھا جیسے شارینا کے ساتھ اس کا کسی بھی قسم کا تعلق نہیں تھا۔
ویسے بھی شارینا کی ماں ہرقل کے کام کی نہیں رہی تھی وہ اپنی نوجوانی اور جوانی ہرقل پر قربان کر چکی تھی۔
اس وقت شارینا ہرقل کے دل یا ذہن میں داخل ہو نہیں سکتی تھی ،کیونکہ ہرقل کے اعصاب پر اور سوچوں پر شکست غالب آگئی تھی ،اور وہ سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ شکست کو اسی مرحلے پر کسی طرح روک لے اور پھر شکست کو فتح میں کس طرح تبدیل کرے، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
شارینا کی ماں جب اس کی گمشدگی کی اطلاع ہرقل کو دینے گئی تھی تو ہرقل نے اسے ٹالنے کے لیے بے رخی کی تھی اس نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے، کہ جانے والوں کا مجھے غم نہیں، میں آنے والوں کا انتظار کررہا ہوں، شارینا کی ماں یہ الفاظ سن کر ہرقل کے کمرے سے نکل گئی تھی۔
وہ کون تھے جن کے متعلق ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کا انتظار کررہا ہے۔
اس سوال کا جواب تاریخ میں موجود اور محفوظ ہے مؤرخوں نے ہرقل کی اس وقت کی بے تابیاں اور خیالوں کے قلابازیاں قلمبند کر لی تھی، اور کچھ سینہ بسینہ آج کے دور تک پہنچی۔
یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل کی اتنی کثیر فوج ہر میدان میں قلیل تعداد مجاہدین اسلام سے شکست کھاتی پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ پورا ملک شام خالی کر گئی۔ اور بحیرہ روم کے کناروں تک جا پہنچی ۔
کچھ بڑے قلعہ بند شہر رومیوں کے پاس تھے
ان میں قابل ذکر انطاکیہ، حلب، مرعش، بیروت ہیں۔ چند اور مقامات بھی تھے جو ابھی رومیوں کے ہاتھ میں تھے۔
ہرقل نے اپنی فوج ان مقامات پر تقسیم کردی اور حکم یہ دیا کہ اپنی فوج اکٹھی نہیں بلکہ بکھرے ہوئے ٹکڑوں کی صورت میں لڑے گی اس کی یہ چال جیسا کہ پہلے سنایا گیا ہے یہ تھی کہ اس کے مطابق مسلمانوں کا لشکر بھی بٹ جائے گا اور جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہیں اور زیادہ قلیل ہو جائے گا۔
اب وہ خود رہاء میں جا پہنچا تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ساری فوج کو ایک مقام پر اکٹھا کر لے اور پھر مسلمانوں کے لشکر کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر حملہ کرے۔ چال تو بڑی اچھی تھی لیکن اپنی فوج کو اکٹھا کرنا اس کے لیے دشوار ہو رہا تھا اس نے ان تمام مقامات پر پیغام بھیج دیا تھا کہ فوج رہاء میں آ کر اکٹھا ہوجائے۔
ابھی تک کوئی قاصد واپس نہیں آیا تھا یہ تھے وہ لوگ جن کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کے انتظار میں ہے، اس نے چال تو بڑی اچھی سوچی تھی لیکن وہ بھول گیا تھا کہ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار اور دیگر سالار بھی کچھ عقل رکھتے ہیں۔
اسے ابھی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ عرب کے سپہ سالاروں نے اس کی یہ چال پہلے ہی بیکار کردی ہے وہ اس طرح کے ہرقل نے اپنی فوج کو جن مقامات پر بکھیر دیا تھا مجاہدین اسلام کے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو اسی کے مطابق تقسیم کر کے ان مقامات کی طرف بھیج دیا تھا ہرقل کی یہ چال یہاں تک تو کامیاب ہوئی کہ مسلمانوں کا لشکر اس کی سوچ کے مطابق بکھر گیا تھا لیکن اسے ابھی یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے لشکر نے رومی فوج کو ان مقامات پر روک لیا ہے جہاں ہرقل نے اس کے ٹکڑے کر کے بھیجا تھا ۔ ہر مقام پر مسلمانوں نے رومی فوج کے راستے مسدود کردیئے۔
ان مقامات میں سب سے بڑا مقام انطاکیہ تھا ہرقل کو اپنے اس قلعہ بند شہر پر بڑا ہی ناز تھا ، ہونا بھی چاہیے تھا اس کا محل وقوع ہی ایسا تھا کہ اس کے مزید دفاع کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی پھر بھی اس شہر کے چاروں طرف چوڑی اور انتہائی مضبوط اور بلند دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں، تاریخ میں لکھا ہے کہ ان دیواروں کی بلندی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی تھی وہ پہاڑی علاقہ تھا اور شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ چاروں طرف پہاڑ تھے یوں لگتا تھا جیسے اس شہر کو پہاڑوں نے آغوش میں لے رکھا ہے۔ شہر تک پہنچنے کے لئے اس پہاڑی علاقے کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا تھا مختصر یہ کہ انطاکیہ شام کا انتہا درجے کا مستحکم اور ناقابل تسخیر شہر تھا ،یہی وجہ تھی کہ ہرقل کے جو فوجی دستے مجاہدین اسلام کے نعروں اور تلواروں سے بچ نکلتے تھے وہ انطاکیہ کا رخ کرلیتے تھے، جس کے متعلق انہیں پورا یقین تھا کہ اسے مسلمان کسی طور پر فتح نہیں کر سکیں گے۔
اس طرح انطاکیہ میں اس تعداد سے کہیں زیادہ فوج اکٹھا ہوگئی تھی جو عام حالات میں وہاں رکھی جاتی۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے ،ان کے دست راست خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔
ہم داستان تو کچھ اور سنا رہے ہیں لیکن تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے تو بے محل نہ ہوگا کہ ان کا تھوڑا سا ذکر ہو جائے۔
قیصر روم کی فوجوں کے قدم ملک شام سے خالد بن ولید نے اکھاڑے تھے، اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے، ابوعبیدہ خالد بن ولید کے ماتحت تھے لیکن رومی فوجوں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کی فوج شہر خالی کرتی پیچھے ہی پیچھے ہٹنے لگی تو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر خالد بن ولید کو ان کے ماتحت کر دیا۔
آج ہم احتساب، احتساب ،کے نعرے سنتے ہیں تو دھیان خلفائے راشدین کے دور کی طرف چلا جاتا ہے۔
جب احتساب کے اعلان نہیں کئے جاتے تھے نہ احتساب کے بیان دیئے جاتے تھے ، اس وقت کسی بڑے حاکم کا احتساب ہو چکتا اور اسے سزا دی جاتی تو قوم کو پتہ چلتا تھا اور سب اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مزید چوکس ہو جاتے تھے، اور نظم و نسق اور سزا و جزاء کی بڑی واضح مثال خالد بن ولید کی ہے ۔
مختصراً،، یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ خالد بن ولید نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا تھا ،اس کی اطلاع امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مل گئی انہوں نے اسی وقت قاصد بھیجا کہ خالد بن ولید کو باقاعدہ گرفتار کرکے مدینہ لایا جائے۔
وہ خالد بن ولید ہی تھے جن کی عسکری فہم و فراست اور بے مثال شجاعت کی بدولت آدھا ملک شام مجاہدین کے قبضے میں آ گیا تھا۔
اور رومی فوج یا کسی نہ کسی مقام پر جم کر لڑنے کے لیے یکجا اور منظم ہو رہی تھیں۔ جنگ ایسے عروج پر جا پہنچی تھی جہاں ذرا سی بھی کوتاہی یا کم فہمی سے پانسہ پلٹ سکتا تھا۔
جنگی امور کے غیر مسلم مبصر لکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں خالد بن ولید جیسے قابل جرنیل کو ذرا سی غلطی پر پیچھے بلا لینا بہت بڑی جنگی لغزش تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ قوم میں ڈسپلن قائم رکھنا چاہتے تھے، انہوں نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کرکے مدینہ بلا لیا اور ان کی جگہ ابو عبیدہ کو سپہ سالار بنا دیا ان کا موقف یہ تھا کہ آج ایک سپہ سالار نے خلاف دین حرکت کی ہے تو کل یہ بدعت نیچے کے درجوں تک آ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کی پھیلتی ہوئی سلطنت سکڑنے لگے گی۔
امیر المومنین نے خالد بن ولید سے کہا کہ تم وہ وقت بھول گئے ہو جب ہم لوگ بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کھاتے تھے اور آج تم نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا ہے۔ اور انعام اس وجہ سے دیا ہے کہ اس نے تمہاری مدح میں شعر کہے ہیں۔
خالد بن ولید نے اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے یہ رقم اپنی ذاتی جیب سے دی ہے۔ حضرت عمر نے کہا ۔۔۔کہ تم نے اگر اپنی جیب سے یہ رقم دی ہے تو یہ اسراف یعنی فضول خرچی ہے اور اگر تم نے یہ رقم مال غنیمت میں سے دی ہے تو یہ بد دیانتی ہے خالد بن ولید کے کردار کی عظمت دیکھئے کہ وہ اس قدر طاقت حاصل کرچکے تھے کہ واپس شام جاکر اپنے مفتوحہ علاقوں میں خودمختاری کا اعلان کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا سوچا ہی نہیں اور امیر المومنین نے انہیں معزولی کی جو سزا سنائی تھی وہ سرتسلیم خم کرکے قبول کرلی۔ امیرالمومنین کے حکم سے خالد بن ولید اپنے محاذ پر واپس چلے گئے مگر اب وہ اپنے لشکر کے سپہ سالار نہیں تھے بلکہ ابو عبیدہ کے صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے کہ وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں۔
غیر ملکی تاریخ نویسوں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کا اصل باعث یہی تھا کہ ان میں ڈسپلن تھا، اور دیانتداری تھی، وہ خدا کے نام پر لڑتے تھے، اور خدا کے دکھائے ہوئے راستے پر ہی چلتے تھے، سزا و جزا اور عدل و انصاف کے معاملے میں کسی کا درجہ نہیں دیکھا جاتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انطاکیہ میں رومی فوج کی تعداد بے انداز ہو گئی تھی۔ اور شہر کا دفاع بھی غیرمعمولی طور پر مستحکم تھا ۔
ادھر مجاہدین اسلام کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور جو تھی وہ بھی مسلسل پیش قدمی اور لڑائیوں کی وجہ سے تھکی ماندی تھی۔
ان احوال و کوائف میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید اور دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے فیصلہ کر لیا کہ انطاکیہ کو محاصرے میں لے لیں گے ۔
اور رومیوں کی اس فوج سے ہتھیار ڈلوائیں گے۔
بظاہر یہ ممکن نہیں تھا لیکن ابو عبیدہ نے اپنے لشکر کو اکٹھا کرکے کہا کہ اس زہریلے ناگ کو اگر ہم نے سستانے کی ذرا سی بھی مہلت دے دی تو یہ تازہ دم ہوکر ایسا جوابی حملہ کرے گا کہ اپنی پسپائی کو پیش قدمی میں بدل ڈالے گا۔
اسلام کے پاسبانو! ۔۔۔۔سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر سے کہا ۔۔۔یہ نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے اس سرزمین پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اللہ کے اس پاک خطے سے ناپاک لوگوں کو بے دخل کر دیں، اُدھر تمہارے بھائیوں نے آتش پرستوں کا صفایا کردیا ہے ۔اِدھر ہم نے ابھی اپنا فرض پورا نہیں کیا اپنے آپ سے پوچھو کیا اللہ کی بادشاہی اچھی ہے یا گنہگار انسانوں کے خاندان کی بادشاہی؟ ۔۔۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہم اللہ کی بادشاہی چاہتے ہیں۔ یہی ایک ذریعہ ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلاسکتا ہے ۔
یہ مت سوچو کہ یہ رومی عیسائی ہیں اس لئے یہ اہل کتاب ہیں ان لوگوں کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار ہیں مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے بالکل الٹ چلتے ہیں ۔ روم کا ایک شاہی خاندان ہے جو اللہ کے اس خطے کو اپنی بادشاہی میں شامل کیے ہوئے ہے۔
یہ اللہ کے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تم انہیں یہاں تک شکست پر شکست دیتے چلے آ رہے ہو ،مگر اب وہ ایسی پناہ میں پہنچ گئے ہیں جو بظاہر ناقابل تسخیر ہے میں تمہیں اتنی خطرناک جنگی مہم میں جانے کا حکم نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ مہم خون اور جانوں کے نذرانے مانگتی ہے ،آج تم یوں سمجھ لو اللہ تمہیں براہ راست حکم دے رہا ہے کہ ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دو جنہوں نے دین الہی کے دشمنوں کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔
ابو عبیدہ نے اپنے اس تاریخی خطاب میں اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔
مجاہدین اسلام کو ایسے جذباتی خطاب کی ضرورت کم ہی محسوس ہوا کرتی تھی۔
وہ ایمان کے پکے اور شمع رسالت کے صحیح معنوں میں پروانے تھے ۔
ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں تھا۔
مجاہدین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ اور جانیں قربان کر دیا کرتے تھے ۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نہیں تھے، آپ دنیا سے پردہ فرما گئے تھے، لیکن ان پر آپ کی غیر حاضری کا یہ اثر ہوا کہ وہ پہلے سے زیادہ دین دار ہو گئے ،اور اسلامی تعلیمات کی پابندی پہلے سے زیادہ تندہی سے کرنے لگے تھے۔
انطاکیہ پر حملے سے پہلے ابوعبیدہ اور خالد بن ولید نے ضروری سمجھا کہ مجاہدین کو بتا دیا جائے کہ اب ہم جو قلعہ سر کرنے جا رہے ہیں وہ ان قلعوں جیسا نہیں جو اب تک ہم سر کرتے آئے ہیں اب ہم پہاڑوں سے ٹکرانے جارہے ہیں۔
یہ وجہ تھی کہ مجاہدین اسلام کو یاد دلانا پڑا کہ اللہ کے حکم سے اللہ کی خوشنودی کے لیے لڑ رہے ہیں، اور اب اللہ کے دین کے لئے انہیں اور زیادہ قربانیاں دینی ہوں گی۔ مجاہدین زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔
اسی روز یا اس سے اگلے روز ابوعبیدہ اپنے خیمے میں بیٹھے سالاروں کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے تھے اور انطاکیہ کو محاصرے میں لینے کی اسکیم تیار ہو رہی تھی کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ اپنا ایک عہدے دار حدید بن مومن خزرج ، رومی فوج کی قید سے فرار ہو کر آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک رومی لڑکی ہے۔
دربان نے یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں رہاء سے آئے ہیں ۔
ابو عبیدہ نے دونوں کو فوراً اندر بلا لیا۔
حدید شارینا کے ساتھ خیمے میں داخل ہوا اور تمام سالاروں سے مصافحہ کیا۔
میری داستان سفر خاصی لمبی ہے حدید نے کہا۔۔۔ آپ کے پاس جب اتنی فرصت ہو گی مجھے بلا لیں، ابھی کچھ ضروری باتیں آپ کو بتانی ہے یہ سن لیں ، سپہ سالار ابوعبیدہ ہی نہیں تمام سالار جو وہاں موجود تھے حدید کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے، حدید چھاپے اور شب خون مارنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔اس کام کیلئے دلیری اور جسمانی پھرتی کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے لیکن حاضر دماغی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔
یہ سب خوبیاں حدید میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دشمن کے ٹھکانوں پر کسی نہ کسی طرح پہنچ کر وہاں سے جنگی نوعیت کی خبریں لے آنا حدید کا دوسرا کمال تھا۔
ان اوصاف کے بدولت حدید تمام سالاروں میں مقبول تھا۔
وہ قید ہونے والا مجاہد نہیں تھا لیکن شب خون ایسی غیرمعمولی دلیری سے مارتا تھا کہ دشمن کے پیٹ میں اتر جاتا تھا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایسے ہی ایک مہم میں وہ پکڑا گیا تھا رومی افسروں نے جب اس کے ساتھ باتیں کیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ تو بڑا قیمتی آدمی ہے اسے ہرقل تک پہنچایا گیا اور ہرقل اسے رہاء اپنے ساتھ لے گیا تھا کہ اسے کام کی باتیں معلوم کرے گا۔
ہرقل تو بڑا ہی ظالم قصائی تھا لیکن حدید اور اس جیسے تین اور مسلمان قیدیوں پر اس نے ذرا سا بھی تشدد نہ کیا۔
رکھا تو انہیں قید خانے میں ہی لیکن مہمانوں کی طرح، انہیں ہر طرح کی سہولت دی اور کھانا ویسا ہی دیا جاتا رہا جیسا مہمانوں کو دیا جاتا تھا ، یہ لڑکی کون ہے؟ ۔۔۔ابو عبیدہ نے پوچھا اور یہ تمہارے ساتھ کیوں آئی ہے؟ ۔۔۔
حدید نے تفصیلاً سنایا کہ ہرقل نے اسے کس طرح اپنے دربار میں بلایا کیا پوچھا اور اس نے یعنی حدید نے کیا کہا تھا اور پھر اس لڑکی نے اسے کس طرح رہا کروایا تھا۔
شارینا کو بجا طور پر شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا وہ ایک تو شاہی خاندان کی لڑکی تھی اور دوسرے بہت ہی خوبصورت تھی اور اس کا دوسرا حصہ یہ سامنے آیا کہ وہ بے حد دلیر اور عقل مند لڑکی تھی عین ممکن تھا کہ یہ تخریب کاری کے لئے آئی ہو۔
شارینا نے اپنے انہی خیالات جذبات اور احساسات کا اظہار کیا جو راستے میں حدید سے کر چکی تھی اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ شاہی خاندان کی لڑکی نہیں ہے اسے ایک قافلے سے اغوا کیا گیا تھا۔
ٹھہرو ذرا !۔۔۔سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو ؟۔۔۔کیا ہرقل رہاء میں ہے؟ ۔۔۔
ابو عبیدہ ان دونوں کی باتیں ایسے انہماک سے سن رہے تھے کہ انہوں نے پہلے توجہ ہی نہ دی کہ ہرقل رہاء میں ہے انہیں اچانک خیال آیا تو شارینا کو ٹوک کر چپ کرادیا اور ہرقل متعلق پوچھا، حدید نے انہیں واضح الفاظ میں بتایا کہ ہرقل وہیں ہے۔
ابو عبیدہ اور دوسرے سالار بھی یہ سن کر حیران ہوئے کہ ہرقل کو انطاکیہ میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ دور رہاء میں بیٹھا ہے۔
یہ سن کر سالاروں کو خوشی ہوئی کہ ہرقل انطاکیہ میں نہیں۔
تقریبا تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ ہرقل کو اپنی فوج کے ساتھ رہنا چاہیے تھا اور اس وقت اس کی فوج کا بیشتر حصہ انطاکیہ میں جمع ہو گیا تھا انطاکیہ ہی ایک مستحکم مقام تھا جہاں وہ مسلمانوں کا مقابلہ ایسے کارگر طریقے سے کر سکتا تھا کہ مسلمان انطاکیہ کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ختم نہ ہوتے تو اتنے کمزور ضرور ہو جاتے کہ مایوس ہوکر پسپائی کا راستہ اختیار کرتے پھر ہرقل ان کے تعاقب میں جاکر انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کردیتا مؤرخوں اور جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ ہرقل طاقتور بادشاہ اور بڑا ہی منجھا ہوا اور بڑا ہی تجربہ کار جرنیل تھا۔
وہ جدھر کا رخ کر لیتا ادھر فتح اس کے قدم چومتی تھی اور وہ ہر لڑائی میں فتح کی ہی توقع رکھتا تھا لیکن اہل اسلام نے اسے اتنی شکست دی کہ وہ ذہنی طور پر ماؤف سا ہو گیا ،انتہائی دشوار حالت میں مناسب اور موزوں فیصلہ کرلینا اس کا خصوصی کمال تھا لیکن اب اسے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کرے سوائے اس کے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو رہاء میں اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ابوعبیدہ خالد بن ولید اور دوسرے سالاروں کے لیے یہ خبر حوصلہ افزا تھی کہ ہرقل انطاکیہ میں نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انطاکیہ میں جو جرنیل تھے وہ اوسط درجہ عسکری قابلیت کے مالک تھے۔ ابو عبیدہ اور خالد بن ولید بڑے ہی دور اندیش سالار تھے اور ان کی نگاہیں بہت دور تک اور بڑی گہرائی تک دیکھ سکتی تھی ابو عبیدہ نے حدید سے پوچھا کہ ہرقل کی ذہنی اور جذباتی حالت کیسی ہے۔
یہ مجھ سے پوچھئے شارینا نے کہا۔۔۔ جس شخص نے اپنے ساتھ ایک شاہی نجومی اور ایک شاہی جوتشی رکھا ہوا ہے اور اپنے فیصلے ان کے زائچوں کے مطابق کرتا ہے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ،شارینا نے تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے کس طرح اپنے نجومی کو اپنے ہاتھوں قتل کردیا ہے، اور جوتشی نے اسے کھری کھری باتیں کہی تو سب حیران رہ گئے کہ ہرقل نے اس کی جان نہ لی،پھر اس نے حدید کو بلا کر پوچھا کہ اسے اس کی خامیاں اور مسلمانوں کی خوبیاں بتائے۔
شارینا نے یہ ساری باتیں سناکر کہا ۔
ذہنی لحاظ سے ہرقل کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں ۔اور وہ شکست کو قبول کر چکا ہے اور اب بے بسی کی حالت میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے شاید وہ کسی معجزے کی توقع رکھتا ہے۔
سپہ سالار ابوعبیدہ کے لیے ہرقل کی اس ذہنی حالت کی اطلاع بڑی قیمتی اور کارآمد تھی ۔
حدید اور شارینا کا اس وقت وہاں پہنچ جانا جب سپہ سالار انطاکیہ پر حملے کا پلان بنا رہے تھے۔
بظاہر اتفاقیہ بات تھی لیکن درحقیقت یہ اللہ کی مدد تھی کہ اس نے ان دونوں کو نہات ہی موزوں وقت پر ابو عبیدہ کے پاس بھیج دیا تھا۔
ابو عبیدہ نے شارینا کو یہ پتہ نہ چلنے دیا کہ انہیں اس پر کچھ شک ہے اس کے ساتھ ابوعبیدہ بڑی شفقت سے پیش آئے اور اسے بتایا کہ سالاروں کی اور کچھ مجاہدین کی بیویاں اور بہنیں و غیرہ لشکر کے ساتھ ہیں، اسے ان عورتوں کے ساتھ رہنا پڑے گا اسے یہ بھی بتایا کہ اس کی عزت کا اور ہر ضرورت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا، شارینا کو مستورات کے خیموں میں بھیج دیا گیا اور حدید کو ابو عبیدہ نے اپنے ساتھ ہی رکھا ان اطلاعات کے مطابق سپہ سالار ابوعبیدہ نے انطاکیہ پر حملے کے منصوبے پر نظرثانی شروع کردی اس وقت وہ انطاکیہ کے قریب ہی کہیں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔
سپہ سالار نے سالاروں کو بتایا کہ کل صبح انطاکیہ کی طرف پیش قدمی ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شب و روز گزرتے چلے جارہے تھے اور ہرقل کی بے چینی بڑھتی چلی جارہی تھی اسے جن کا انتظار تھا کہ وہ آئیں گے ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا وہ غصے سے باولا ہوا جا رہا تھا۔
سات آٹھ دن اور گزر گئے ہونگے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ انطاکیہ سے اس کا ایک جرنیل راستین آیا ہے۔
ہرقل اچھل کر اٹھا۔ یہ کہنے کے بجائے کہ اسے فوراً اندر بھیجو وہ خود دوڑتا باہر نکل گیا ،اس کے سامنے اس کا ایک جرنیل جس کا نام راستین تھا کھڑا تھا لیکن اس کی حالت ایسی ہو رہی تھی جیسے وہ کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہرقل کو دیکھ کر اس نے رومی انداز سے سلام کیا لیکن بڑی مشکل سے اس نے اپنا بازو اوپر اٹھائے۔
اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا جیسے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ بچا ہو، کیا تم زخمی ہو راستین۔۔۔ ہرقل اس تک پہنچ کر دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھے اور پوچھا۔۔۔
نہیں قیصر روم ۔۔۔راستین نے تھکی ماندی آواز میں جواب دیا۔۔۔ جسم پر کوئی زخم نہیں دل بری طرح زخمی ہے۔
ہرقل نے دربان کو حکم دیا کہ راستین کو سہارا دے اور اندر لے جا کر بٹھا دے وہاں محافظ دستے کی کچھ آدمی بھی موجود تھے سب دوڑے آئے اور راستین کو سہارا دینے لگے لیکن اس نے ان کے ہاتھ جھٹک ڈالے اور ہرقل کے کمرے کی طرف چل پڑا وہ یوں چل رہا تھا جیسے اس کے ٹخنوں کے ساتھ وزن بندھا ہوا ہو وہ سر جھکائے قدم گھسیٹتا کمرے میں گیا اور گرنے کے انداز سے بیٹھ گیا۔ ہرقل نے سب سے پہلے شراب پیش کی اور پھر دربان کو بلا کر کہا کہ کھانے کے لئے کچھ لے آئے ہرقل اسے چپ چاپ دیکھ رہا تھا، جیسے اس سے کچھ پوچھنے سے ڈر رہا ہو، یہ تو اس نے محسوس کر لیا تھا کہ راستین کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔
قیصر روم !،،،راستین نے شراب کے چند گھونٹ پی کر کہا۔۔۔ انطاکیہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
ہرقل کا ردعمل یہ تھا کہ وہ منہ کھولے کچھ دیر راستین کے منہ کو دیکھتا رہا پیشتر اس کے کہ آپ اس شکست کے ذمہ داری مجھ پر یا میرے ساتھی جرنیلوں پر عائد کریں میری پوری بات سن لیں۔ راستین نے کہا ۔۔۔میں ان مسلمانوں کی بہادری کا قائل ہو گیا ہوں ان کی تعداد ہماری نسبت بہت ہی تھوڑی تھی اور ہماری فوج اتنی زیادہ تھیں کہ میں صحیح گنتی نہیں بتا سکتا کیونکہ ہر طرف سے ہماری فوج بھاگ بھاگ کر انطاکیہ آرہے تھے میں مان نہیں سکتا کہ مسلمانوں کو معلوم نہ تھا کہ انطاکیہ میں اتنی زیادہ فوج ہے اور انطاکیہ کی دیوار دفاعی لحاظ سے اس قدر مضبوط شہر ہے کہ اسے کوئی بیرونی حملہ آور سر نہیں کرسکتا مسلمانوں کو تمام احوال و کوائف معلوم تھے پھر بھی وہ حملے کے لئے آ رہے تھے۔
کیا تم لوگوں نے میرے حکم پر عمل نہیں کیا تھا۔ ہرقل نے غصیلی آواز میں کہا ۔۔۔میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ مسلمان انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کریں تو انہیں انطاکیہ تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے اور فوج کو باہر نکال کر ان پر حملہ کر دیا جائے اور پھر پہاڑوں اور چٹانوں سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
ہاں قیصرروم !،،،راستین نے کہا۔۔۔ ہم نے آپ کے حکم پر ہی عمل کیا تھا جوں ہی ہمیں اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر انطاکیہ کی طرف آ رہا ہے تو ہم نے فوراً اپنی فوج کو تیار کیا اور اسے باہر لے آئے آپ کو معلوم ہے کہ پہاڑوں کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے ہم نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کرکے اس میدان میں کھڑا کردیا ۔ انطاکیہ کی طرف جانے کے لئے اسی میدان سے گزر کر جاتے ہیں اس کے اردگرد اونچی نیچی پہاڑیاں ہیں،
مسلمان جب ہمارے سامنے اس میدان میں آئے تو ہم بہت خوش ہوئے کہ ان کی تعداد اس سے بہت ہی تھوڑی تھی جو ہم سمجھ رہے تھے میرے ساتھی جرنیلوں نے کہا کہ عربی مسلمان جاہل لوگ ہیں انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ انطاکیہ میں ہم نے کتنی فوج اکٹھا کر رکھی ہے۔ میں ذاتی طور پر انہیں جاہل نہیں سمجھتا تھا لیکن یہ خوشی ہوئی کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر ہمارے سامنے آگئے ہیں ۔انہیں اسی میدان میں کچل دینا مشکل کام نہیں تھا۔
ہم نے یہ چال چلی کے درمیان والے دو دستوں کو حملے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اپنے دونوں پہلوؤں کے دستوں کو پیغام بھیجا کہ وہ دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کے پیچھے چلے جائیں اور انہیں گھیرے میں لے لیں لیکن مسلمان ہمارے دستوں کا حملہ برداشت نہ کر سکے اور وہ لڑتے لڑتے پیچھے ہی پیچھے ہٹتے گئے ہم نے ان پر دباؤ اور زیادہ کر دیا اور ان کا پیچھا نہ چھوڑا پہاڑوں کے اندر چلے گئے اور ہمارے دستے ان کے سر پر سوار رہے مسلمان دراصل بھاگنے کی کوشش میں تھے۔
جب ہمارے زیادہ سے زیادہ دستے پہاڑوں کے اندر چلے گئے تو ہم سمجھے کہ مسلمانوں نے ہمیں ایک جال میں پھانس لیا ہے جس سے ہم آسانی سے نکل نہیں سکیں گے انہوں نے چال یہ چلی تھی کہ تھوڑی تھوڑی نفری کے تین چار دستے ہمارے سامنے کیے اور پسپائی کا تاثر دیتے ہوئے وہ پیچھے ہٹے اور ہم نے زیادہ سے زیادہ فوج ان کے پیچھے پہاڑیوں میں بھیج دی اور نعرے لگوائے کہ ایک بھی مسلمان یہاں سے زندہ واپس نہ جائے۔ مسلمانوں نے پہاڑیوں کے ڈھلانوں پر اور گھنے درختوں پر تیر انداز اور پرچھیاں پھینکنے والے آدمی چڑھارکھے تھے۔
ہمارے آگے پسپا ہونے والے دستے تو ادھر ادھر ہو گئے لیکن ہم پر تیروں اور پرچھیوں کا جو مینہ برس پڑا اس نے ہماری فوج میں سے کسی خوش قسمت کو ہی باہر نکلنے دیا ہوگا۔
ہمارے کسی جرنیل نے گھبرا کر یہ احمقانہ کام کیا کہ باقی ماندہ فوج کو بھی مسلمانوں کے پیچھے پہاڑیوں کے اندر بھیج دیا ہم بڑی مشکل سے ان پہاڑیوں میں سے نکلے ہماری تنظیم اور ترتیب تباہ ہوچکی تھی اور سپاہی اپنے اپنے طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہم یہ لڑائی ہار چکے تھے لیکن ہم انطاکیہ ان مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی نہیں دینا چاہتے تھے ہم جتنے سپاہی اکٹھا کر سکے وہ کئے تعداد تو بہت ہی تھوڑی رہ گئی تھی، جانی نقصان بے پناہ ہوا اور شدید زخمیوں کی تعداد اور بھی زیادہ تھی بہرحال ہم جتنے صحیح اور سلامت سپاہی اکٹھا کر سکے انہیں لے کر انطاکیہ کی طرف چل پڑے جب ہم قلعے کے دروازے پر پہنچے تو تمام دروازے اندر سے بند تھے ۔ بہت شور شرابہ کیا کہ دروازے کھول دو لیکن دیواروں کے اوپر سے ہم پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی تب پتہ چلا کہ مسلمان شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور دروازے انہوں نے بند کئے ہیں۔
تو کیا انطاکیہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔۔۔ ہرقل نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔ اور راستین کے جواب کا انتظار کیے بغیر بولا۔۔۔ یہی تو ایک مضبوط قلعہ ہمارے پاس رہ گیا تھا یہ تمہاری نالائقی کا نتیجہ ہے تم سب بزدل ہو گئے ہو میرے دو ساتھی جرنیل مارے گئے ہیں اور تیسرا شدید زخمی ہوگیا ہے راستین نے کہا ۔۔۔میں جانتا تھا آپ شکست کا الزام ہمارے ہی منہ پر تھوپیں گے میں نے پہلے ہی عرض کی ہے کہ میری پوری بات سن لیں میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کا قہر اور عذاب مجھ پر کس طرح گرے گا لیکن میں شکست کی جو وجوہات ہیں وہ ضرور بتاؤں گا، آپ کے حکم سے ہم نے شہر سے باہر آکر مسلمانوں کو روکا ۔
آپ کہتے تھے کہ مسلمان انطاکیہ کا محاصرہ نہ کرسکیں۔
کیونکہ محاصرہ ہوگیا تو انطاکیہ کی ساری فوج اندر ہی بند ہوجائے گی اور نہ جانے محاصرے میں کتنا عرصہ گزر جائے۔
آپ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں اتنے مضبوط قلعے سے باہر آ کر لڑنا ہماری حماقت تھی اور اس کی ہمیں بڑی سخت سزا ملی ہے،،،،،،،،
قیصر روم! ۔۔۔ایک اور پہلو بھی ہے جسے ہم ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے اس کا تعلق شہری لوگوں کے ساتھ ہے آپ نے ان پر اس قدر زیادہ ٹیکس اور دیگر محصولات عائد کردئے تھے جو لوگوں کی برداشت سے باہر ہو گئے تھے، پھر آپ نے مذہب میں بھی دخل اندازی کی اتنا بڑا ملک ہماری سلطنت میں سے نکل گیا ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ کو اس کا کتنا زیادہ صدمہ ہوگا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کو ان وجوہات سے آگاہ اور خبردار کردوں جنہوں نے آج یہ روز بد دکھایا ہے ۔
ایک تو یہ ٹیکس وغیرہ تھے جن سے لوگوں میں یہ بات پھیلی کی بادشاہ اور اس کے جرنیل اور سارے کا سارا شاہی خاندان لوگوں کو بھوکا رکھ کر اپنی عیاشی کے اخراجات پورے کر رہا ہے، یہاں کے مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی دولت روم جا رہی ہے، اس کے ساتھ ہی میں نے خود دیکھا ہے کہ روم کے جو شہری یہاں بسلسلہ کاروبار یا سرکاری عمال بن کر آئے ہیں وہ اپنے آپ کو یہاں کے لوگوں کے بادشاہ سمجھتے ہیں۔
میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں ہرقل نے جھنجلا کر کہا ۔۔۔تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہیں شہریوں سے کوئی تعاون نہیں ملا، نہ کوئی مدد ملی ہے ، بات جلدی کرو لمبی لمبی باتوں کا وقت نہیں ہمیں سوچنا ہے اب کیا ہوگا اور ہم کیا کریں۔۔۔۔
صرف یہ بات نہیں کہ شہریوں سے ہمیں مدد نہ ملی راستین نے کہا۔۔۔ شہری ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اگر ہم محاصرے میں لڑتے تو یہ شہری باغی ہو کر شہر کے دروازے کھول دیتے ۔
میں تو شہر کے باہر ہی تھا اندر جانے کا موقع نہ ملا تو ادھر کا رخ کرلیا میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انطاکیہ کے لوگوں نے مسلمانوں کا استقبال پرتپاک سے کیا ہوگا، حالانکہ ان میں مسلمان کوئی بھی نہیں سب ہمارے ہم مذہب ہیں۔
مجھے صرف ایک اور موقع مل جانے دو ہرقل نے کہا ۔۔۔یہ لوگ ٹیکسوں کی اور شاہی خاندان کی عیاشیوں کی باتیں کرتے ہیں میں ان کی رگوں سے خون بھی نچوڑ لوں گا۔
شہنشاہ روم!.... راستین نے کہا۔۔۔اگر آپ آج میری رگوں میں سے بھی خون نچوڑ لیں اور مجھے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر باہر پھینک دیں تو بھی میں وہ بات کہنے سے گریز نہیں کرونگا جو کوئی آدمی اپنے بادشاہ کے منہ پر کہنے کی جرات نہیں کیا کرتا ۔
بادشاہوں کے حضور ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں تاکہ وہ خوش رہیں اور انعام و اکرام سے نوازتے رہیں، مجھ سے آپ خوش نہ ہوں ناراض ہو جائیں لیکن میں آپ کا ایک جرنیل ہوں آپ نے مجھے بڑی اونچی حیثیت بھی دی ہےاور اجرت بھی دل کھول کر دی ہے ۔
میرا فرض ہے سلطنت روم کی حفاظت اور پھیلاؤ لیکن میں شکست کھا کر آ گیا ہوں ۔میں اس میں اپنی ذاتی بے عزتی سمجھتا ہوں۔ مجھے آپ کی عظمت بھی عزیز ہے ۔میں نمک حرامی کروں گا اگر میں حقیقت پر پردہ ڈال کر آپ کو خوبصورت تصورات میں الجھادوں۔
کیا تم اصل بات فوراً نہیں کرسکتے۔۔۔؟؟
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget