2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیر سے  دودِ سپند آیا

مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا

تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا

عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی
خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا

شاعر: مرزا غالب



نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا 
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا 

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ 
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا 

جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے 
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا 

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے 
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا 

بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا 
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا 

آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ 
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا 

شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے 
دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا 

لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل 
نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا 

خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع 
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا 

وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ 
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا 

شاعر: مرزا غالب


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللّٰہ کے پانچ سو سپاہی گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتاؤں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں
صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے 
کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جانا تھا انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا مگر وہاں انسان موجود تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایا تھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مار تھے اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلا گیا قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟

وہ حبشی تھا چھاپہ مار عربی بول رہا تھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا جس سے شک ہوتا تھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہو کر آگے بڑھے یک لخت جنگل آگیا آگے پہاڑی تھی چاند اوپر اُٹھتا آرہا تھا لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کر رکھا تھا وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے 

اندر کے علاقے میں جہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیا گیا تھا اور ہی سرگرمی تھی پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھا تھا اور قالین پر بھول بکھرے ہوئے تھے اس کے قریب آگ جل رہی تھی چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیاگیا تھا
وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ان کا لباس دودو چوڑے پتے تھے اور باقی جسم برہنہ چار حبشی تھے  جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی میں انگوک کی ماں ہوں تم انگوک کے باپ ہو میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے میرا خون انہیں پلادو میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو میرے قریب آؤ پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا 
انگوک غالباً اس قبیلے کا نام تھا ایک عربی لڑکی کو نشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنا دیا تھا وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی پروہت آخری رسوم پوری کر رہا تھا
بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں چاند سر پر آگیا تھا انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی وہ بھی دیوتاؤں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا 
وہ ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی حبشی بدکا اور اس طرف آیا وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُتر گیا چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔

اُمِ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور منہ سے اُتر آیا اُمِ عرارہ اس کے ساتھ تھی اسے وہ قالین پر لے گیا مرد اور لڑکیاں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوا رہی ہوں میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا اور وہ تلوار اُٹھا لی جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا

ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا رُک گیا اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکا ہوا تھا شفاف چاندنی چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنا رکھا تھا لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتا رہا تھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں چھاپہ مار دُور تھے اور بلندی پر بھی تھے وہاں سے تیر خطا جانے کا خطرہ تھا مگر وہ جس پہاڑی پر تھے اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی بلکہ سیدھی دیوار تھی جس سے اُترنا ناممکن تھا وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جا رہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑا ہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچا نہیں سکیں گے انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی انہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مجھ رہتے ہیں
دائیں طرف ڈھلان تھی لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر وہ ڈھلان اُترنے لگے ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑ رہی تھی حبشی ابھی شک میں تھا آخری چھاپہ مار نے کمان میں تیر ڈالا رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا اور وہ لڑھکتا ہوا نیچے آ رہا چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا
پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کر دو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کر دیا یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں ایسا طلسم طاری ہوا جارہا تھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ یہ انسانوں کی نہیں دیوتاؤں کی سر زمین ہے پروہت تلوار کو اوپر لے گیا اب تو ایک دو سانسوں کی دیر تھی تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا اس کا تلوار والا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گرا تھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں مرد کسی کو آواز دینے لگے تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرا دیا لڑکیاں جدھر منہ آیا دوڑ پڑیں اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی
چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے چبوترے پر چڑھے اور اُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کر رہی تھی ایک جانباز نے اپنا کرتا اُتار کر اسے پہنا دیا اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے چھاپہ مار بکھر گئے ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کر دیا ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑ دیا تیر دُور اوپر جا کر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتار کی وجہ سے دب گیا تھا رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر آیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ان کے کمان دار ساتھ تھے پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے  تماشائی میلے میں شراب جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتاؤں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے 
چھاپہ مار نے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلا دیا تھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے کمان داروں نے وہاں کا جائزہ لیا پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میں جا پہنچے وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں وہ اُٹھالیں اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا احکام کے مطابق فوج کو وہیں رہنا تھا لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے لڑکیوں کے بیوپاری بھی جا رہے تھے صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں میلے کے قریب جو گاؤں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کر رہے تھے جسے رات قربان کیا گیا تھا اس قبیلے کے لوگ جو دُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے پہاڑی جگہ سے دور کھڑے دیوتاؤں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا
وہ دیوتاؤں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا
دیوتاؤں کے مسکن پر سکوت طاری تھا اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاں سے دیوتاؤں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا دن گزرتا گیا قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے دِن گزر گیا سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا
طبیب کو بلا لاؤ سلطان ایوبی نے کہا لڑکی پر نشے کا اثر ہے 
اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی میں انگوک کی ماں ہوں تم کون ہو؟ 
تم دیوتا نہیں ہو میرا شوہر کہاں ہے میرا سر کاٹو اور دیوتا کو دے دو مجھے میرے بیٹوں پر قربان کر دو وہ بولے جا رہی تھی 
مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہو رہی تھی 
اس کا سر ڈول رہا تھا
طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ذرا سی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اسے لٹا دیا گیا اور وہ گہری نیند سوگئی سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملا ہے اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہاؤالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سوسوار لے جائیں ضروری سامان لے جائیں اور اس بُت کو مسمار کر دیں  مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑ نہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا

شداد نے اپنی ڈائری میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہاں موجود تھا سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ان کے پاس برچھیاں تلواریں اور کمانیں تھیں ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کر دیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانوں میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں خطرہ خون ریز لڑائی کا تھا میں الناصر کے ساتھ اندر گیا بُت کو دیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا جو فرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی
دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی 
جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلا گیا تھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی 
جگہ خوف ناک تھی ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے
میں نے سپاہیوں سے کہا حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو یہ بھوکے ہیں وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں مگرمچھوں کی تعداد کا اندازہ نہیں پوری فوج تھی لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے پھر پروہت کی لاش آئی اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں کمر کے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھا ہوا تھا میں نے اور الناصر نے منہ پھیر لیے سپاہیوں ںسے کہاکہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑوں میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کا حال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے عورت اپنی ہو کسی اور کی ہو کافر ہو اسلام اسے بیٹی کہتا ہے ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعونوں کو خدا مانتی ہیں ان کا قبیلہ انسان کو خدا مانتا ہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➒⓿】デ۔══━一

سپہ سالار ابوعبیدہ نے حمص میں اپنا ہیڈکوارٹر جس مکان میں بنایا تھا اور ساتھ ہی رہائش رکھی تھی وہ کوئی معمولی اور عام سا مکان نہیں تھا ،یہ علاقہ بلکہ پورا شام کبھی ایرانیوں اور کبھی رومیوں کے قبضے میں رہا ہے۔ دو بادشاہ تھے اس لیے انہوں نے ہر جگہ اپنے لئے محل تعمیر کرا رکھے تھے۔ رومی فوج کے اس افسر کو جس کا نام روتاس تھا اس محل کے ہی ایک کونے والے کمرے میں رکھا گیا ۔
اس کمرے کے اندرونی زیب و زیبائش، پلنگ، اور دیگر فرنیچر وغیرہ شاہانہ تھے کمرے کے باہر ایک پہرے دار کھڑا کردیا گیا تھا، اور روتاس کو کھانا بھی اچھا دیا جانے لگا ،اگر وہ قید خانے میں قید کیا جاتا تو اسے بڑی گندی کوٹھری میں رکھا جاتا اور نہایت گھٹیا کھانا دیا جاتا۔
اگلے روز شارینا اسکے کمرے میں گئی اس نے کمرے کی ہر ایک چیز دیکھی پھر پلنگ اور بستر کو اچھی طرح دیکھا جیسے کمرے کا معائنہ کر رہی ہو۔
اپنے آپ کو قیدی نہ سمجھنا شارینا نے کہا ۔۔۔تم یہاں مہمان ہو کوئی تکلیف تو نہیں؟ میرا خیال ہے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں؟ کیا تم خدا کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ تمہیں قید خانے میں نہیں بھیجا گیا.
تمہارے سپہ سالار نے مجھے آزاد کر دینے کا وعدہ کیا تھا روتاس نے کہا۔۔۔ پہرہ کھڑا کردینے کا مطلب ہے کہ میں قیدی ہوں۔
تم فوج کے افسر ہو شارینا نے کہا۔۔۔ اگر تمہارے پاس تمہارے دشمن کا کوئی آدمی تمہاری ہی طرح تمہارے پاس لایا جائے اور وہ ایسے ہی راز اگل دے جیسے تم نے اگلے ہیں تو کیا تم اسے فوراً آزاد کر دو گے کہ وہ اپنی فوج میں جا کر بتائے کہ وہ راز اگل آیا ہے اور اپنی جنگی منصوبے تبدیل کر دو۔
روتاس نے سرجھکا لیا جیسے اسے شارینا کاجواب ٹھیک لگا ہو، میں تمھارے پاس آتی رہوں گی شارینا نے کہا۔۔۔ ہم دونوں رومی ہیں یہ ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتی۔
لیکن اب تو تم مسلمان ہو روتاس نے کہا ۔۔۔تم نے عملاً ثابت کردیا ہے کہ مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہو کیا یہ بتانا پسند کرو گی کہ تم یہاں پہنچی کیسے تھی؟ اور پھر تم ایک مسلمان کے ساتھ کہا جا رہی تھی کہ میں تمہارے سامنے آگیا.
تمہاری حیرت کو میں سمجھتی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ تم سوچتے ہو گے کہ میں شہنشاہ ہرقل کی بیٹی ایک معمولی سے عرب مسلمان کے ساتھ کیوں چلی آئی یہ شخص جو میرے ساتھ تھا اس کا نام حدید بن مومن خزرج ہے اپنی فوج میں اس کا عہدہ معمولی سا ہے ہمارا جنگی قیدی تھا مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے رہا کیا اور اس کے ساتھ آ گئی
شارینا نے روتاس کو حدید اور اپنے فرار کا واقعہ سنایا لیکن ایسے لہجے اور انداز سے سنایا جیسے اسے اپنا یہ اقدام پوری طرح اچھا نہ لگا ہو ، روتاس نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں خوش ہے یا کوئی کمی محسوس کر رہی ہے؟
میں یہاں اسلام قبول کرنے نہیں آئی تھی شارینا نے جھوٹ بولا، مجھے اپنے باپ کے خلاف بھی کوئی شکایت نہیں تھی شاید میں پیار کی تشنگی محسوس کرتی تھی اور میری عمر ایسی ہے کہ عقل پر جذبات غالب آ جاتے ہیں معلوم نہیں یہ شخص حدید مجھے کیوں اتنا اچھا لگتا ہے جیسے اس کے ہاتھ میں کوئی طلسم ہے جو مجھ پر بڑے ہی خوبصورت آسیب کی طرح طاری ہوجاتا ہے مجھے اسلام سے نہیں حدید سے محبت ہے میں تمہارے دو سپاہیوں کو مار کر تمہیں زندہ یہاں لے نہ آتی تو تم حدید کو مار ڈالتے۔
تمہیں یہاں حدید کو خوش کرنے کے لئے لائی تھی حدید کے سپہ سالار اس پر بہت خوش ہیں، سچ پوچھو تو یہ لوگ مجھے اچھے نہیں لگے میں تو شہزادی تھی اور کہاں اس جنگل میں خیمےمیں پڑی رہتی ہوں اور زمین پر سوتی ہوں یہ لوگ بہت ہی سادہ بلکہ پسماندہ ہیں آج تمہیں یہاں دیکھ کر اور تمہارے پاس بیٹھ کر مجھے دلی تسکین محسوس ہورہی ہے یہ خیال رکھنا کہ مجھے اپنا دشمن نہ سمجھنا۔میں تمہارے لئے جو کچھ بھی کر سکتی تھی کر دیا ہے ۔
تمہیں قید خانے میں نہیں جانے دیا اور یہ کمرہ تمہیں دلوایا ہے۔
اگر مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور یہ یہاں سے بھاگ نکلے تو پھر تم کیا کرو گی روتاس نے پوچھا۔
میں تم سے امید رکھوں گی کہ میرے راز کو دل میں دفن کر دو گے شارینا نے کہا ۔۔۔میں اس کوشش میں ہوں کے حدید کو اپنے ساتھ لے جاؤں اور اسے اسلام سے نکال کر اپنے مذہب میں لے لوں، اگر مسلمان یہاں سے پسپا ہوئے تو پھر میں حدید کو ساتھ لے کر واپس آ جاؤں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز شارینا پھر روتاس کے کمرے میں گئی وہ تو جیسے شارینا ہی کے انتظار میں تھا ،پہلے روز شارینا نے اس پر ایسا تاثر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اگلی ملاقات کا انتظار بڑی بے تابی سے کرنے لگا وہ کوئی بوڑھا آدمی نہیں تھا، شارینا کی باتوں سے زیادہ تو وہ اس لڑکی کے حسن و جوانی سے متاثر ہوا تھا شارینا کا وہ مشکور بھی تھا کہ اس نے اسے قید خانے کی کال کوٹھری سے بچا کر اس امیرانہ کمرے میں رکھا تھا اب شارینا اس کے کمرے میں گئی تو پہلے سے زیادہ دلچسپی سے اس سے پوچھا کہ اسے کوئی تکلیف یا بے آرامی تو نہیں ہوئی؟
نہیں روتاس نے کہا۔۔۔ تم نے اگر میرے پاس آنا چھوڑ دیا تو مجھے بہت تکلیف ہو گی،
میں رومی فوج کے حملے کا انتظار کر رہی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ معلوم نہیں ہرقل کس انتظار میں ہے یہ تو بڑا ہی موزوں وقت ہے کہ حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے شہر کے اندر فوج بہت ہی تھوڑی ہے یہ لوگ زیادہ دن مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
ہو جائے گا روتاس نے بے پروائی سے کہا۔۔۔ یہ بادشاہوں کے اور جرنیلوں کے معاملات ہیں تم جو تھوڑا سا وقت میرے ساتھ گزارنے آئی ہو اسے میں خاک و خون کی باتیں کرکے بے مزا نہیں کرنا چاہتا، ہرقل جب مناسب سمجھے گا فوج کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دے گا کوئی اور بات کرو۔
شارینا نے محسوس کرلیا کہ روتاس اسے کوئی اور جنگی معاملے کی بات بتانے سے گریز کر رہا ہے ، اس کا انداز ایک تو ٹالنے والا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ شارینا جیسی حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ شگفتہ اور رومانی باتیں کرنا چاہتا تھا ، شارینا نے اس کے ساتھ ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں شروع کر دیں ، میری ایک ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے روتاس نے کہا ۔۔۔میں شراب کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہوں تم جانتی ہو کہ ہم لوگ پانی کی طرح شراب پیتے ہیں لیکن یہاں ایک قطرہ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔
تم شاید نہیں جانتے شارینا کہا ۔۔۔مسلمان شراب نہیں پیتے یہی نہیں کہ یہ شراب نہیں پیتے بلکہ اسے گناہ سمجھتے ہیں اور شراب پینے والے کو سزا دیتے ہیں۔
شارینا بڑی ذہین اور فہم و فراست والی لڑکی تھی روتاس نے شراب کا نام لیا تو شارینا کو یاد آیا کہ اس کی قوم تو اتنی شرابی ہے کہ پانی نہ ملے تو نہ سہی شراب ضرور مل جائے۔ شارینا نے سوچا کہ یہ روتاس کی ایسی کمزوری ہے جسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اس کے اندر سے سارے راز نکالے جاسکتے ہیں ، یہی سوچ کر شارینا نے شراب ہی کی بات چلنے دی اور ایسی باتیں شروع کر دی کہ روتاس شراب کی طلب پہلے سے زیادہ محسوس کرنے لگا اب تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بری طرح نشے سے ٹوٹا ہوا ہے، کچھ کرو شارینا روتاس نے کہا ۔۔۔اس شہر میں عیسائی بھی رہتے ہونگے اور وہ شراب تو ضرور ہی پیتے ہونگے کسی طرح کسی عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم کے گھر سے شراب لا دو۔
لا تو دوں شارینا نے کہا۔۔۔ لیکن میں پکڑی گئی تو مجھے یہ لوگ سزا دیں گے میں اپنے آپ کو اس خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔
اب تو روتاس نے شارینا کی منت سماجت شروع کر دی آخر شارینا نے کہا۔۔۔ کہ وہ پوری کوشش کرے گی اور اسے شراب لا دے گی لیکن ہر روز نہیں لا سکے گی اگر لاسکی بھی تو اسے نہیں دے گی کیونکہ پہرے دار ہر وقت دروازے کے باہر موجود رہتا ہے اس نے شراب کی بو سونگھ لی تو سیدھا اندر آئے گا اور دونوں کو شراب خوری کے جرم میں سپہ سالار کے آگے کھڑا کر دے گا پھر سپہ سالار کوڑوں کی سزا دے گا جو شاید ہی کوئی برداشت کر سکتا ہو۔
کچھ وقت روتاس کے ساتھ گزار کر شارینا وہاں سے نکلی اور حدید سے ملی، حدید سے کہا کہ وہ کسی طرح شراب کا انتظام کردیے حدید یہ سمجھا کہ شارینا ایک رومی کو خوش کرنا چاہتی ہے حدید نے اسے بتایا کہ شراب خوری جرم ہے اور اس کی کیا سزا ھے۔
یہ میں یہاں کی عورتوں سے سن چکی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔روتاس سے میں نے ابھی کچھ پوچھنا ہے لیکن وہ ٹال مٹول کررہا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ اور کچھ نہیں بتانا چاہتا آج اس نے شراب مانگی ہے اور وہ بری طرح سے ٹوٹا ہوا ہے میں چاہتی ہوں کہ اسے تھوڑی سی یا جتنی بھی مل جائے پلا کر اسے کچھ اور باتیں معلوم کروں۔
روتاس نے ٹھیک کہا تھا کہ حمص میں عیسائی بھی آباد ہیں بت پرست بھی ہیں اور شاید ایک دو گھر آتش پرستوں کے بھی ہوں، ان لوگوں کے یہاں شراب ہو گی ایک اور بات یاد آ گئی حدید نے کہا ۔۔۔روتاس سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ حمص میں ہرقل کے جاسوس موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو بتائیے کہ وہ کون ہے، میں شراب کا بندوبست کر لونگا۔
حدید کے لیے یہ کام مشکل نہیں تھا اس نے دو تین غیر مسلم گھروں سے کچھ شراب اکٹھا کر لی اور چھوٹے مشکیزے میں ڈال کر مشکیزا شارینا کے حوالے کر دیا اس کے ساتھ ہی حدید نے شارینا کو بتایا کہ وہ سپہ سالار سے اجازت لے لے گا کہ روتاس سے مزید راز اگلوانے کے لیے اسے شراب پلانا ضروری ھے ،اس کی اجازت دے دی جائے،
حدید نے سپہ سالار سے یہ اجازت بھی لے لی اور طے یہ پایا کے روتاس کو نہ بتایا جائے کہ شراب نوشی کی اجازت لے لی گئی ہے بلکہ اسے اس تاثر میں رکھا جائے کہ اسے چوری چھپے شراب پلائی جارہی ہے پہرے داروں کو بھی کہہ دیا گیا کہ انہیں کمرے سے شراب کی بو آئے تو اسے نظرانداز کردیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز شارینا شراب کا یہ چھوٹا سا مشکیزہ ایک چادر میں لپیٹ کر روتاس کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ اس نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے اور اب وہ بچ بچا کر پی لے۔
روتاس نے شارینا سے مشکیزہ اس طرح لیا جیسے اس سے چھینا ہو، شارینا نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا روتاس نے شراب گلاس میں ڈال کر پینی شروع کردی اور شارینا سے کہا کہ وہ بھی لے، لیکن اس لڑکی نے انکار کردیا
شراب اپنے سامنے دیکھ کر میں بڑی مشکل سے اپنے آپ پر جبر کر رہی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔لیکن میں مجبور ہوں اگر ایک گھونٹ بھی پی کر حدید کے پاس گئی یا کسی کے پاس سے بھی گزری وہ مجھے پکڑ لے گا اور پھر یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ یہ لڑکی کون ہے اور کس کی بیٹی ہے اور یہ کتنی اہم ہے وہ مجھے سپہ سالار کے یہاں پیش کر دیں گے اور سپہ سالار ایسی سزا دے گا جو میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔
اس دوران روتاس پیتا ہی چلا گیا اور اب اس نے جو باتیں کیں اس میں ہلکی ہلکی لڑکھڑاہٹ تھی وہ نارمل حالت میں رہا ہی نہیں تھا۔
میں واپس جانا چاہتی ہوں شارینا نے کہا یہاں کی پابندیاں دیکھو کہ شراب بھی نہیں پینے دیتے معلوم نہیں شاہ ہرقل کب حملہ کرے گا، حمص سے مسلمان بھاگے تو میں یہاں ہی رہوں گی تم مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ حملے میں اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ میں تو سوچتی ہوں کہ مجھے موقع ملے تو میں ہرقل کے پاس پہنچ جاؤں اور اسے کہو کہ یہی وقت ہے حملے کا ، اگر ادھر ادھر سے کمک آ گئی تو پھر رومیوں کے لئے حمص فتح کرنا ممکن نہیں رہے گا۔اس کی کچھ وجوہات ہیں روتاس نے کہا۔۔۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاہ ہرقل بہت ہی محتاط ہوگیا ہے ،وہ خود کتنا ہی جرات اور ہمت والا کیوں نہ ہو لڑنا تو فوج نے ہے ساری فوج پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہو گئی ہے۔
وہ تو ہونی ہی تھی شارینا نے کہا ۔۔۔مسلمانوں نے ہرمیدان میں ہماری فوج کو بہت بری شکست دی ہے اور پورے کا پورا ملک فتح کرلیا ہے ادھر ایرانیوں کو اسی طرح مسلمان شکست دیتے دیتے ان کے ملک سے ہی باہر لے گئے ہیں وہ خبریں بھی ہماری فوج تک پہنچتی رہتی ہیں۔
حیرت اور دہشت کی وجہ اور ہے روتاس نے کہا ۔۔۔حیرت اس پر کے مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی ہے اور دہشت اس وجہ سے کہ اتنی تھوڑی تعداد میں انہوں نے اتنی بڑی اور طاقتور فوج کو شکست دے دی ہے۔
ہماری فوج میں مسلمانوں کے متعلق عجیب و غریب اور پر اسرار کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں ہمارے سپاہی یقین کی حد تک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبضے میں جنات ہیں۔
ہماری فوج نے تو ایرانیوں جیسی طاقتور فوج کو بھی شکست دی ہے شاہ ہرقل زخمی شیر کی طرح آخری حملہ تو ضرور کرے گا ،اور اس نے فوج اور قبائل کا لشکر آگے بھیج بھی دیا ہے لیکن اب وہ قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔
جزیرہ کے ان قبائل کا لشکر تو تازہ دم ہے شارینا نے کہا ۔۔۔کیا یہ مدد شاہ ہرقل کے لئے کافی نہیں؟
کافی تو ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان قبائل کے متعلق شاہ ہرقل اور زیادہ محتاط ہے یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ ان قبائلیوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا شاہ ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور ان سے چھوٹے افسروں سے کہہ دیا ہے کہ یہ قبائل اپنے گھروں اپنے بیوی بچوں اور اپنے جان و مال کی حفاظت کے خاطر اکٹھا ہوئے ہیں ان میں کوئی قومی جذبہ نہیں نہ ان کی اپنی کوئی بادشاہی نہیں ہے جس کی خاطر یہ لڑنا چاہیں گے۔
ان قبائل کے سرداروں نے صاف کہا ہے کہ مسلمان ان کے گھر تباہ کر دیں گے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھا لے جائیں گے یہ لوگ صرف تحفظ چاہتے ہیں جو اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے مل گیا تو رومیوں کے خلاف ہو جائیں گے۔
پھر ان لوگوں میں ایک خامی اور بھی ہے یہ فرداً فرداً لڑاکے اور شہسوار ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی، لیکن فوج کی تنظیم اور ترتیب میں لڑنا کوئی اور ہی بات ہے پہلے تو انہیں یہ سیکھنا ہے کہ فوج کی ترتیب میں کس طرح لڑا جاتا ہے اگر انہیں اسی طرح میدان میں لے آئے تو یہ فوج کی طرح نہیں بلکہ ایک ہجوم کی طرح لڑیں گے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قبائلی دیکھیں گے کہ رومی فوج لڑتی ہے یا بھاگتی ہے، اگر ہماری فوج جم کر نہ لڑی تو سب سے پہلے یہ قبائلی بھاگیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ مسلمانوں سے جا ملیں، اگر آج انہیں معلوم ہو جائے کہ رومیوں کی نسبت مسلمان ان کے ہمدرد ہیں تو یہ رومیوں سے منہ موڑ جائیں گے۔
*روتاس کبھی ہرقل کے محافظ دستے کا کمانڈر ہوا کرتا تھا اور اب وہ جاسوسی کے نظام کا کمانڈر تھا اور اپنے دو آدمیوں کے ساتھ حمص کی طرف دیکھنے آ رہا تھا کہ مسلمانوں کا دفاعی انتظام کیسا ہے، اور کیا قلعے کے باہر بھی کوئی فوج ہے، جاسوسی کے شعبے میں ہونے کی وجہ سے وہ ہرقل کی سطح کی باتیں بھی جانتا تھا لیکن وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکا کہ شارینا اس کے سینے سے راز اگلوا رہی ہے، اس کامیابی میں شارینا کی ذہانت تو کام کر رہی تھی لیکن اصل کام شراب نے دکھایا تھا۔*
*روتاس پیتا اور بہکتا چلا گیا اور جب اس کا دماغ بالکل ہی ماؤف ہو گیا تو شارینا وہاں سے آ گئی اور حدید کو بتایا کہ اس نے کیا کچھ معلوم کیا ہے ،حدید شارینا کو سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس لے گیا اور شارینا نے وہی باتیں پھر دہرا دی۔*
*ابو عبیدہ نے اسی وقت جاسوسی کے نظام کے سربراہ کو بلایا اور اسے بتایا کہ رومیوں کے ہاں کیا ہو رہا ہے اور اس صورتحال سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔*
*وہ میں بتاتا ہوں سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ انتہائی عقلمند آدمی بھی جو اپنے آپ کو وہاں مختلف عیسائی قبیلوں کے فرد ظاہر کریں اور بتائیں کہ وہ قبائل کے لشکر میں شامل ہونے آئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔*
*فوری طور پر دس بارہ مجاہدین منتخب کرکے تیار کئے گئے انہیں دشمن کے علاقے میں جانے کا اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل جانے کا تجربہ خاصا تھا اور انھیں ٹریننگ بھی ایسی ہی دی گئی تھی، ان میں سرفہرست حدید تھا، ان کا کام یہ تھا کہ رومی فوج کے ساتھ جو غیر مسلم قبائل جا ملے ہیں ان میں شامل ہو جائیں اور انہیں رومیوں کے خلاف گمراہ کریں۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک قاصد خالد بن ولید کی طرف دوڑا دیا کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے حمص پہنچ جائیں۔*
*میرے عزیز رفیقوں!،،،، ابو عبیدہ نے اپنے سالاروں سے کہا تم سب نے سن لیا ہے کہ اس رومی فوج کے افسر روتاس نے ہرقل کی فوج اور عیسائی قبائلیوں کے متعلق کیا باتیں بتائی ہیں، اور ہرقل کس تذبذب میں پڑا ہوا ہے لیکن اس سے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارا دشمن اپنے ہاں کی صورتحال اپنے موافق کرکے حملہ کرے گا،*
*ہم یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی وقت حمص محاصرے میں آجائے گا۔*
*اور ہمارے پاس نفری اتنی تھوڑی ہے کہ ہم یہ محاصرہ توڑ نہیں سکیں گے میں نے قبائلیوں میں شامل ہونے کے لیے بڑے ذہین اور اپنے کام میں ماہر مجاہدین کو روانہ کر دیا ہے ۔*
*مدینہ کو بھیجے ہوئے قاصد آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے۔*
*اپنی دفاعی تیاریاں مکمل رکھو، اور خود بھی دعا کرو اور مجاہدین سے کہو وہ بھی اللہ کے حضور دعا کرتے رہیں کہ کمک جلدی پہنچ جائے اور اگر نہ پہنچ سکے تو اللہ ہماری مدد کرے۔*
*سپہ سالار ابوعبیدہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ راتوں کو جیسے سوتے بھی نہ ہوں ایسا تو وہ دن اور رات میں دو تین مرتبہ ضرور کرتے کہ قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگتے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اتنی جلدی کمک نہیں پہنچ سکتی، دن گزرتے جا رہے تھے اس وقت خالد بن ولید شام کی مفتوحہ شہر قنسرین میں تھے ،حمص کا قاصد ان تک پہنچا اور انہیں بتایا کہ حمص کس طرح خطرے میں آ گیا ہے ۔*
اور سپہ سالار اس وقت کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں، خالد بن ولید اسی وقت کمان اپنے نائب سالار کے حوالے کرکے حمص کو روانہ ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو اپنے سامنے دیکھا تو انہوں نے دلی سکون محسوس کیا وہ تو اپنے آپ کو تنہا اور کچھ حد تک بے بس سمجھنے لگے تھے، خالد بن ولید بہت ہی تیز رفتاری سے آئے تھے وہ خود بھی آرام کرنے کے قائل نہیں تھے نہ ابوعبیدہ نے کہا کہ ذرا سستالو پھر بات کریں گے۔
ابو عبیدہ نے انہیں بتایا کہ حمص کی طرف کتنا بڑا خطرہ بڑھا چلا آرہا ہے اور حمص میں اس لشکر کے مقابلے میں بہت تھوڑی نفری ہے ،ابوعبیدہ نے اس دوران جو اقدام کئے تھے وہ تفصیل سے خالد بن ولید کو بتائی۔
میں نے جو سوچا ہے وہ یوں ہے ۔۔۔۔ابو عبیدہ نے کہا۔۔۔ انطاکیہ، حماۃ، حلب ،اور قریب کی تمام چھاؤنیوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری حمص میں اکٹھی کر لی جائے اور محصور ہو کر لڑا جائے۔
محصور ہو کر نہیں،، ۔۔۔خالد بن ولید نے مشورہ دیا۔۔۔ ہم قلعے سے باہر دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ کوئی نیا دشمن نہیں۔ اسے ہم بڑی دور سے دھکیلتے چلے آ رہے ہیں اور شام کی آخری سرحد تک پہنچا چکے ہیں ۔اسکی چالوں کو اور اس کی فوج کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں ہم اس میدان میں بھی اسے شکست دے دیں گے۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کا یہ مشورہ قبول نہ کیا ،وہاں حمص کے دو تین سالار بھی موجود تھے انہوں نے اپنے سالار ابوعبیدہ کی اس تجویز سے بھی اختلاف کیا کہ دوسری جگہوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری یہاں بلا لی جائے اور انہوں نے خالد بن ولید کے مشورے سے بھی اختلاف کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ دشمن کو پہلے پتہ چل جائے کہ حمص کو مضبوط کرنے کے لئے دوسری جگہوں سے نفری اکٹھا کر لی گئی ہے تو دشمن ان میں سے کسی اور جگہ پر حملہ کرکے قبضہ کر سکتا ہے اور اس طرح دوسری بڑی چھاؤنیوں پر بھی ہلا بول کر کامیاب ہو سکتا ہے ،ان سالاروں نے کہا کہ کسی شہر اور قبضے کو کمزور نہ کیا جائے اور صرف مدینہ کی کمک کا ہی انتظار کیا جائے اگر کمک آنے سے پہلے روم میں پہنچ گئے تو پھر انھیں حالت میں لڑیں گے اور اللہ سے دعا کریں گے کہ ہمارے صبر اور استقامت کا اجر عطا فرمائے۔
وہ دین ایمان والے تھے اللہ کے راہ میں باطل کے خلاف وطن سے بے وطن ہوئے اور اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے تھے، ان کے دلوں میں ہوس ملک گیری نہیں تھی اور وہ اپنی بادشاہی قائم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نہیں نکلے تھے انہوں نے تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیا اور جو نہتے تھے ان کے دل انہوں نے اخلاق سے موہ لئے تھے، جن شہروں کو انہوں نے فتح کیا انہوں نے وہاں کے لوگوں سے جزیہ تو وصول کیا لیکن ہرقل جیسے بادشاہوں نے ان پر جو ظالمانہ محصولات عائد کر رکھے تھے ، وہ اتنے کم کر دیے کہ جس کی جتنی حیثیت اور استطاعت تھی اس سے اسی کے مطابق محصولات وصول کیے جاتے تھے ، وہاں کے غیر مسلم مسلمانوں سے بہت ہی خوش اور مطمئن تھے، اور نظر یوں آتا تھا کہ مشکل کے وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے لیکن اسلام کے سالار ان پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
اسلام کے لیے اولین مجاہدین اللہ سے مدد مانگتے تھے دعائیں کرتے تھے لیکن صرف دعاؤں پر ہی بھروسہ نہیں کرتے تھے وہ قرآن کے اس فرمان سے بڑی اچھی طرح آگاہ تھے کہ تم عملاً جتنی کوشش کرو گے اللہ تمہیں اتنا ہی دے گا ۔
انہوں نے کبھی معجزے کی توقع نہیں رکھی تھی، انہوں نے اپنی جانیں دے کر اسلام کو زندہ رکھا اپنا خون بہا کر شمع رسالت کو بجھنے نہ دیا اور اس طرح اللہ کا پیغام حق دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو واپس قنسرین بھیج دیا تھا کہ وہاں کا دفاع ان کی غیر حاضری میں کمزور نہ ہوجائے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید ابو عبیدہ سے رخصت ہوئے تو ان کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ اپنے سالار کو اس مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑنا نہ چاہتے ہوں۔
ابن جراح! ۔۔۔خالد بن ولید نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔ میری ضرورت پیش آ گئی تو ایسا قاصد بھیجنا جو اڑتا ہوا مجھ تک پہنچے ،اور میں اس سے زیادہ تیز رفتاری سے پہنچوں گا ،خالد بن ولید ابو عبیدہ سے گلے ملے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اللہ حافظ کہہ کر روانہ ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں قاصد مدینہ پہنچ گئے اس وقت وہ اونٹوں پر سوار تھے اور اونٹ دوڑتے آ رہے تھے وہ اکیلے نہیں تھے مدینہ کے کئی آدمی اور لڑکے ان کے ساتھ ساتھ دور سے آ رہے تھے ، یہ تو مدینہ کا معمول بنا ہوا تھا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور کسی نہ کسی وجہ سے محاذ پر نہیں گئے تھے وہ قاصد کے منتظر رہتے تھے بعض تو شہر سے کچھ آگے چلے جاتے اور جب کوئی قاصد آتا تو اس کے ساتھ ساتھ دوڑ پڑتے اور پوچھتے تھے کیا خبر لائے ہو ،قاصد لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اور کم از کم الفاظ میں ان کو خبر سنا دیتے تھے۔
اس وقت مجاہدین اسلام بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے تھے دونوں دشمن باطل کی بڑی ہی زبردست جنگی قوت سمجھے جاتے تھے، اور یہ غلط نہیں تھا کہ ان کے مقابلے میں کوئی آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک آتش پرست ایرانی، اور دوسرے رومی، ان محاذوں سے کسی بھی وقت کوئی بہت ہی بری خبر آ سکتی تھی۔
اور اکثر توقع یہی ہوتی تھی کہ بری خبر آئے گی، لیکن مجاہدین کے ساتھ ضعیف العمر بوڑھوں ، معصوم بچوں، اور معذوروں کی دعائیں تھیں جو محاذوں پر جانے کے قابل نہیں تھے اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاوں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔
مدینہ کی گلیوں میں شور بپا ہوگیاقاصد آئے ہیں دو قاصد آئے ہیں یہ شور و غل امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنی کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ بڑی تیزی سے اٹھے اور قاصدوں کے استقبال کے لیے باہر آگئے، اور اس طرف دوڑ پڑے جدھر سے قاصد آ رہے تھے قاصدوں نے ان کے قریب آ کر اونٹ روکے اور اونٹوں کو بٹھا کر اترنے کے بجائے اونٹوں سے کود آئے۔
اچھی خبر لائے ہو؟ ۔۔۔حضرت عمر نے پوچھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
خبر بری بھی نہیں۔۔۔ ایک قاصد نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ کمک جلدی پہنچ جائے گی تو خبر اچھی بھی ہو جائے گی۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔دوسرے قاصد نے کہا۔۔۔ ہم کہیں سے پسپا نہیں ہوئے ۔چلیے بیٹھ کر پیغام سناتے ہیں ،گھر میں داخل ہو کر حضرت عمر نے قاصدوں کو بٹھایا اور ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا اور پھر کہا ۔۔۔کہ اب بتاؤ ایک قاصد بولنے لگا اس نے پوری تفصیل سے بتایا کہ حمص کس خطرے میں آ گیا ہے، اور رومی فوج کے ساتھ الجزیرہ کے غیر مسلم قبائل کا لشکر بھی شامل ہو گیا ہے،
خدا کی قسم! ۔۔۔امیرالمومنین نے ساری تفصیلات سن کر کہا مجھے میری ذات سے اشارے مل رہے تھے کہ ایسی صورت پیدا ہو ہی جائے گی میں اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کیوں نہ کروں جس نے مجھے اتنی فہم و فراست عطا کی ہے کہ اس کا دفاعی انتظام پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔
امیرالمومنین نے جس دفاعی انتظام کی طرف اشارہ کیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر ایک دو مؤرخ ہی کرتے ہیں تو ہم ان کے نام لے کر حوالے دیتے ہیں لیکن صرف مسلمان مؤرخین نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم یورپی مؤرخوں نے بھی حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کو خراج تحسین پیش کیا ہے، کہ ہر محاذ کے ہر گوشے تک کمک پہنچانے کے انتظامات انہوں نے تیار رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑا انتظام یہ تھا کہ انہوں نے بصرہ اور کوفہ کو اس طرح آباد کیا تھا کہ ان دونوں جگہوں کو بہت بڑی چھاونی بنا دیا اور کسی غیر مسلم کو وہاں آباد نہیں ہونے دیا تھا تاکہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے کہ یہاں کیا کچھ موجود ہے۔
اس کے علاوہ سات اور شہر کے جن میں سے ہر شہر میں امیرالمؤمنین نے چار چار ہزار سوار مجاہدین ہنگامی حالت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔
ان کے لئے حکم تھا کے اس طرح ہر وقت کیل کانٹے سے لیس ہوکر تیار رہیں کہ جو نہی کہیں سے کمک طلب کی جائے تو قریبی شہر سے چار ہزار سوار یا اس سے کم فوراً روانہ ہو جائیں اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر وہاں تک پہنچے جہاں ان کی ضرورت ہو۔
امیرالمومنین نے اسی وقت ایک قاصد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیا اور یہ پیغام دیا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر یہ پیغام ملتے ہی حمص بھیج دو اور وہاں ابوعبیدہ سبھی دشمن میں گھرگئے ہیں اور کمک پہنچنے تک نہ جانے وہاں کیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔
اس وقت سعد بن ابی وقاص مدائن میں تھے اور زرتشت کے پجاری وہاں سے بھاگ گئے تھے اور اس طرح کسریٰ ایران کو شکست فاش دے دی گئی تھی اور عراق مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔
قعقاع بن عمرو اس وقت کوفہ میں تھے، سعد بن ابی وقاص نے امیرالمومنین کا پیغام ملتے ہی ایک قاصد کوفہ بھیج دیا۔
قعقاع پیغام ملتے ہی چار ہزار سوار لے کر یوں کوفہ سے حمص کو نکلے جس طرح اچانک طوفان اور بگولے اٹھا کرتے ہیں۔
ان کے لیے حکم تھا کہ کم سے کم پڑاؤ کرکے تیز سے تیز حمص پہنچنا ہے۔
اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ان کے مشیر بیٹھے ہوئے تھے۔
اور امیرالمومنین جو کچھ بھی سوچتے ان سے مشورہ لیتے تھے۔
یہ صورت حال امیرالمؤمنین حضرت عمر کے تدبر اور دور اندیشی کی بڑی سخت آزمائش تھی۔ وہ پسپائی اور شکست کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے۔ یہ تو جذباتی کیفیت تھی۔ حقیقت یہ انہیں نظر آرہی تھی کہ حمص سے پاؤں اکھڑے تو پھر نہ جانے کہاں تک مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران سے فوج نکال کر بھیجی جائے اور کسرا ایران پھر اٹھ کھڑا ہو، اور عراق کے مختلف علاقوں پر پھر قبضہ کرلے۔
میرے بھائیوں! ۔۔۔۔امیرالمومنین نے اپنے مشیروں سے کہا۔۔۔ خدا کی قسم یہ ساری سازش الجزیرہ کے قبائل کی ہے ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے وہ نہیں چاہتے کہ اسلام اس علاقے تک پہنچے انہوں نے ہرقل کو اکسایا اور کم و بیش تیس ہزار کا لشکر اسے دیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو ملک شام سے بے دخل کردیا جائے،،،،،
جہاں تک میں جانتا ہوں ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ کہیں بھی ہمارے مجاہدین پر جوابی حملہ کرے گا اس کی اس فوج کی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے جو شام میں لڑی تھی اس کی فوج کی بیشتر نفری ماری گئی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں تو اتنی زخمی ہے اور اگر کچھ نفری جسمانی لحاظ سے صحیح اور سلامت ہے تو اس میں لڑنے والا جذبہ بجھ چکا ہے ۔
اسے مصر سے جو فوج ملی ہے اس نے ہرقل کے نیم مردہ ارادوں میں کچھ جان ڈال دی ہوگی اور اس برے وقت میں یہ قبائلی اس کے پاس جا پہنچے اور اتنا بڑا لشکر اسے دے کر اس میں پھر غرور اور تکبر پیدا کردیا ہوگا۔
*تم جانتے ہو کہ قبائلیوں کا علاقہ جنگ سے محفوظ رہا ہے ان کی تین بستیوں نے ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمن کا ساتھ دیا تھا لیکن دشمن پھر بھی شکست کھا کر پسپا ہوا اور ہم نے ان تینوں بستیوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کی باقی تمام بستیاں محفوظ رہی۔*
*کیا تم کوئی طریقہ سوچ سکتے ہو کہ ان قبائلیوں کو رومیوں سے الگ کیا جائے۔*
*ان کی بستیوں پر یلغار کی جائے ایک مشیر نے کہا ۔۔۔انہوں نے ابھی جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا سوائے ان تین بستیوں کے ۔۔۔ان پر آفت نازل ہوگی تو وہ تیس ہزار قبائلی جو بزنطیہ ہرقل کے پاس چلے گئے ہیں بھاگم بھاگ واپس اپنی بستیوں کو جائیں گے۔*
*خدا کی قسم !۔۔۔امیرالمومنین نے کہا ۔۔۔ہماری سوچیں ایک جیسی ہیں اور جب خیالات میں ہم آہنگی ہو تو پھر اس دیوار کو کوئی نہیں توڑ سکتا ان قبائلیوں کی بستیوں پر حملے ہونگے تو وہ واپس آئیں گے ہی لیکن ہرقل ان کا ساتھ نہیں دے گا۔*
*اس صورت میں ابوعبیدہ تھوڑی سی کمک کے ساتھ ہرقل پر چڑھ دوڑے گا اور پھر ہرقل کے لئے یہی راہ نجات رہ جائے گی کہ وہ بحری جہازوں میں فوج کو لاد کر مصر کو روانہ ہوجائے۔*
*یہ بھی یاد رکھو کہ شام اب ہمارا ملک ہے اس ملک کے جو لوگ ہمارے دشمن کے پاس اس نیت سے گئے ہیں کہ وہ ہم پر جوابی حملہ کرے اور یہ لوگ اس کی مدد کریں گے تو یہ بغاوت ہے یہ لوگ باغی ہیں ،غدار ہیں ،اور ان کے دماغوں کو ٹھکانے پر لانا ہمارا حق بھی ہے فرض بھی۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*امیرالمومنین کے پاس پورا ریکارڈ تھا کہ کونسا سالار کہاں ہے اور اس کے پاس کتنے دستے ہیں اور اسے ایک محاذ سے فارغ کرکے کسی دوسرے محاذ کو بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں؟*
*بلاذری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کی تفصیلات اور اعداد و شمار اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے، اور کبھی اس قسم کی باتیں کرنے لگتے تھے جیسے انہیں وہ محاذ سامنے نظر آ رہا ہو، اور امیرالمومنین اس کا آنکھوں دیکھا حال سنا رہے ہوں، یہیں سے کچھ ایسی روایت نے جنم لیا جن میں کچھ حقیقی ہے اور کچھ بنائی گئی تھی۔-*
*ان روایات سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دشمن کی شکست اور اپنی فتح کا اس قدر خیال ہوتا تھا کہ ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اپنے آپ کو محاذ پر تصور کرتے تھے ،ایک اور تاریخ نویس طبری نے لکھا ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کے پیغام کے مطابق مختلف احکامات دے رہے تھے اور اقدام کر رہے تھے یوں لگتا تھا جیسے وہ مدینہ میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ محاذوں کے قریب کسی ایسی بلندی پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں سے انہیں تمام محاذ نظر آ رہے ہوں اور اس کے مطابق احکام دے رہے ہوں۔*
*حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق و ایران کے محاذ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ایک اور پیغام لکھوایا ۔*
*اس میں انہوں نے یہ حکم دیا کہ سالار سہیل بن عدی اور عبداللہ بن غسان کو چار چار ہزار سوار دے کر الجزیرہ میں ان قبائلی علاقوں میں بھیج دیں جنہوں نے ہرقل کو اپنے تیس ہزار آدمی حمص پر حملہ کرنے کیلئے دیئے ہیں۔*
*ان دونوں سالاروں کے لئے امیر المومنین نے یہ ذمہ داریاں لکھی کہ سہیل بن عدی کو زقہ بھیجا جائے ،اور عبداللہ بن غسان کو نعین کے علاقے میں روانہ کیا جائے ۔*
*دونوں سالار ان قبائل کے بستیوں پر حملہ کریں۔*
*اگر وہ مقابلہ کریں تو لڑیں، اگر ہتھیار ڈال دے تو انہیں جنگی قیدی بنا لیں، اور اگر وہ زیادہ مقابلہ کریں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو ان کی بستیوں کو تباہ کردیا جائے۔*
*امیرالمومنین نے یہ بھی لکھوایا کہ جب یہ دونوں سالار ان علاقوں سے جو انہیں دیے گئے ہیں باغیوں کو صاف کردیں تو سہیل بن عدی حران اور عبداللہ بن غسان رہاء چلے جائیں۔*
*حضرت عمر نے مزید حکم یوں لکھوایا کہ سالار ولید بن عتبہ الجزیرہ کے ان غیر مسلم عربوں کے علاقے میں جاکر حملہ کریں جہاں دو قبیلے بنو ربیعہ اور بنو تنوخ رہتے ہیں،،،،*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل کا اپنا ایک جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا جس سے اس کے ذاتی حلقے کے افراد بھی ناواقف تھے ،یہ نظام اتنا خفیہ تھا کہ اس کا اپنا بیٹا قسطنطین بھی اس کے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔
دوسرے تیسرے روز ایک مخبر جو فوج کا ہی کوئی عہدیدار ہوتا تھا ہرقل کے پاس جا کر پوری رپورٹ دیتا تھا۔
ایسا ہی ایک جاسوس ہرقل کے ہاں گیا ہرقل کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوتا اور خواہ وہ سویا ہوا ہی ہوتا اس کا حکم تھا کہ ایسا کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ ایک ضروری بات بتانے آیا ہے تو اسے فورا اطلاع دی جائے اگر وہ سویا ہوا ہے تو اسے جگا لیا جائے ۔
یہ جاسوس گیا تو ہرقل نے اسے فورا بلا لیا اور اپنے خاص کمرے میں بیٹھا کر دروازہ بند کر لیا۔
تم جانتے ہو میں کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں ہرقل نے کہا۔۔۔ بتاؤ کیا خبر لائے ہو۔
ان قبائلیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ جاسوس نے کہا۔۔۔ ان میں بدلی سی پائی جاتی ہے ان کی لڑکی کا واقعہ ادنیٰ سے ادنیٰ قبائل تک پہنچ گیا ہے۔ ان لوگوں کا ایک رد عمل یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قسطنطین کو وہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اس کا نام آتا ہے تو ان لوگوں کے چہروں پر خفگی اور ناپسندیدگی کے تاثر آجاتے ہیں۔
تمہاری اپنی رائے کیا ہے۔۔۔ ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اگر میں حکم دے دوں کہ حمص کی طرف پیش قدمی کرکے حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ محاصرہ طول نہ پکڑے تو کیا یہ قبائلی دل و جان سے لڑیں گے۔
انہوں نے ایک شرط اپنے سامنے رکھ لی ہے ۔جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ رومی فوج لڑے گی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے اور اگر وہ فوج جوش اور جذبے سے نہ لڑی تو تمام قبائل کے لوگ یہاں سے چلے جائیں گے۔
شہنشاہ معظم!،،،، اصل بات یہ ہے کہ آپ اس ملک کی خاطر لڑے ہیں لیکن یہ قبائلی صرف اپنا اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال و اموال کا تحفظ چاہتے ہیں۔
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑⓿】デ۔══━一

 یہ صورتحال ایسی تھی جو ہرقل کا دل توڑ رہی تھی ،لیکن آدمی بہرحال حوصلے والا تھا اس نے اطمینان سے اس صورتحال کا اور اپنی جنگی طاقت کا جائزہ لیا تو اس کا حوصلہ پھر سے قائم ہونے لگا، اس کے مشیروں نے بھی اس سے کہا کہ اپنی آدھی فوج مارے جانے سے اور شام ہاتھ نکل جانے سے روم کی شہنشاہی کے لیے اتنا نقصان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے، ابھی مصر ان کے پاس تھا اور مصر میں بے شمار فوج تھی، مشیروں نے اس سے کہا کہ وہ مصر سے فوج منگوائے اور تیاری کرکے مسلمانوں پر جوابی حملہ کیا جائے۔
ہرقل کی اس وقت کی ذہنی کیفیت کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے ، بزنطیہ میں پہنچ کر جب اسے یہ محفوظ پناہ گاہ مل گئی اور کچھ آرام اور سکون بھی مل گیا تو اسے مشیروں کے مشورے بڑے ہی اچھے لگے اس نے اسی وقت قاصد مصر اس پیغام کے ساتھ بھیج دیے کہ کم و بیش چالیس ہزار نفری کی فوج فوراً روانہ کر دی جائے ۔
ادھر اس کے پاس ایک مدد اور آگئی جو اس کے لیے بالکل خلاف توقع تھی اس کا حوصلہ پہلے کی طرح مضبوط ہوگیا۔۔۔۔۔
یہ مدد اس طرح آئی کہ ایک روز اسے اطلاع دی گئی کہ عراق اور شام کے مختلف قبائل کے بیس پچیس سردار ان سے ملنے آئے ہیں۔ یہ سب جنگجو قبائل تھے ان سرداروں کے ساتھ بیس پچیس نہایت حسین و جمیل معصوم صورت نو جوان لڑکیاں تھیں، جو ان سرداروں کے اپنے ہی خاندانوں میں سے تھیں۔
ہرقل نے ان سب کو اندر بلا لیا۔
ان سرداروں کے ساتھ ایک معمر سفید ریش بزرگ تھا جو شکل و صورت اور لباس سے دانشمند اور مذہبی پیشوا لگتا تھا۔
ان قبائل کے متعلق تھوڑی سی معلومات بے محل نہیں ہوگی۔
عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں اور کچھ دوسرے علاقوں میں بھی جو جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان میں بڑے قبائل بنی عمر، بنو غسان، بنی تغلب ،بنی آیاد، اور بنی مزام ،اور بنی عدوان تھے ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قبائل تھے یوں کہہ لیں کہ ان علاقوں کی آبادی قبائل کی صورت میں بٹی ہوئی تھی۔
یہ جو قبائلی سردار ہرقل کے پاس گئے تھے یہ سب غیر مسلم تھے کچھ فارس کہ یعنی عراق اور ایران کے آتش پرست تھے اور باقی سب عیسائی تھے۔
کیا تم یہ لڑکیاں میرے لیے تحفہ لائے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا تم مجھے فاتح سمجھ کر آئے ہو۔۔۔ اس وقت میری ضرورت کچھ اور ہے۔۔۔ مجھے یہ حسین و جمیل لڑکیاں نہیں چاہیے، اس وقت مجھے ایسے جوانمردوں کی ضرورت ہے جو میرے بازو مضبوط کریں اور میں عرب کے ان بدوؤں کو یہاں سے دھکیل کر وہیں پہنچا دو جہاں سے یہ آئے ہیں۔
ہم آپ کے بازو ہی مضبوط کرنے آئے ہیں۔۔۔ بوڑھے سردار نے کہا ۔۔۔یہ لڑکیاں ہم تحفے کے طور نہیں لائے ہماری اپنی بیٹیاں ہیں انہیں ہم آپ کے پاس صرف یہ دکھانے کے لئے لائے ہیں کہ یہ ہے ہماری عزت اور آبرو جو جنگوں میں محفوظ نہیں رہی، ہم ان معصوم بچیوں اور ان جیسی ہزاروں بچیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے کے لئے آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں۔
آپ ہماری مدد کریں اور ہم آپ کی مدد کریں گے، آپ کو جن جوان مردوں کی ضرورت ہے وہ ہم آپ کو ہزارہا کی تعداد میں دے دیں گے۔
میری مدد کا تمہیں اب خیال کیوں آیا ہے؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب فارس کی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی جا رہی تھی اور ادھر میری فوج بکھر کر پیچھے ہٹ رہی تھی۔
یہ واقعہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ بیان کیا جا سکے کہ ہرقل کے اقتدار کی شمع آخری بار کس طرح بھڑکی اور جب بجھ گئی تو وہ شام سے مصر تک کیوں اور کس طرح پہنچا ۔
ہم ان طویل تفصیلات کو یوں مختصر کرتے ہیں کہ اس معمر قبائلی سردار نے ہرقل کو بتایا کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کے خلاف لشکر کشی کی اور ادھر شام پر بھی انہوں نے حملہ کیا تو ان دونوں جنگوں میں ان قبائلیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ان کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جو فوجوں کے گھوڑے اونٹ اور بیل وغیرہ کھا گئے۔
اس بوڑھے سردار نے یہ بھی بتایا کہ خود اپنے فوجیوں نے ان کی لڑکیاں اٹھا لیں یا انہیں خراب کرکے چلے گئے۔
کیا مسلمانوں نے تمہاری لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کیا تھا ؟۔۔۔ہرقل نے پوچھا۔
نہیں؟!۔۔۔قبائلی سردار نے جواب دیا ۔۔۔مسلمان جب کسی بستی یا کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ گھروں کو نہیں لوٹتے نہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ بعض لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر لے جاتے ہیں، لیکن ہم ان عربوں کو جانتے ہیں وہ بغیر شادی کے کسی عورت کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کرتے۔
لیکن شہنشاہ روم! ۔۔۔اگر ایک بھی مسلمان ہماری ایک بھی لڑکی کو ساتھ لے جائے اور اسے اپنی بیوی بنا لے تو بھی ہم اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔
اسی لیے ہم یہ لڑکیاں آپ کے سامنے لائے ہیں کہ یہ پھول مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں اور اپنا بھی کوئی فوجی انہیں اپنا مال نہ سمجھے۔
اس بزرگ سردار نے ہرقل کو بتایا کہ وہ آتش پرست ہے اور ان عیسائی قبائلی سرداروں کے ساتھ آیا ہے ۔
مذہب کوئی بھی ہو عزت ہر کسی کی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ بات دراصل یہ تھی جو اس سردار نے ہرقل کو بتائی کہ مجاہدین اسلام نے ان کی کچھ بڑی بڑی بستیاں اور قصبے تباہ وبرباد کر دیے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے مجاہدین کے خلاف اپنی فوجوں کو بھرپور مدد دی اور مجاہدین کو دھوکے دیے تھے۔
یہ سب قبائلی سردار ہرقل کو یہ کہنے آئے تھے کہ اب مسلمانوں نے ملک شام بھی فتح کرلیا ہے ،اور وہ کچھ اور بستیاں اجاڑ دیں گے اس لیے وہ ہرقل کو قبائلیوں کی پوری فوج دینا چاہتے ہیں۔
اے روم کے شہنشاہ !۔۔۔اس معمر سردار نے کہا ۔۔۔میری عمر دیکھیں، زمانے کے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہیں، میں آپ کے چہرے پر مایوسی اور تذبذب دیکھ رہا ہوں اپنے آپ کو شکست خوردہ نہ سمجھیں، آج شکست ہوئی ہے تو کل فتح بھی ہو سکتی ہے، مصر سے مزید فوج منگوائیں اور ہم آپ کو اپنی فوج دینگے ۔
ایک بات شاید آپ کو معلوم نہ ہو وہ یہ کہ یہ عربی مسلمان سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے بہت ڈرتے ہیں ہم ان میں یہ مشہور کر دیں گے کہ سمندر سے فوج آرہی ہے۔
یہ بوڑھا قبائلی سردار ٹھیک کہہ رہا تھا دو تین اور مستند مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان سمندر میں نہیں اترے تھے ان کا کوئی بحری بیڑا نہیں تھا، نہ انھیں بحری جنگ کی سوجھ بوجھ تھی، وہ صحرائی لوگ تھے اور نہ جانے کیوں سمندر سے کچھ ڈرتے تھے، اس کے بعد تو مسلمانوں نے سمندری جنگوں میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی بحری طاقت ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔
ہرقل نے جب ان قبائلیوں کی یہ پیشکش سنی تو اس نے انہیں پہلی بات یہ بتائی کہ مصر سے اس کی فوج آرہی ہے، اور قبائلی فوراً اس کے پاس مسلح ہوکر پہنچ جائیں۔
یہ سردار جب جانے لگے تو ہرقل نے یا اس کے شاہی خاندان کے کسی اور فرد نے یا کسی مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ اتنی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو سفر پر واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ہرقل کے محل میں ہی رہنے دیا جائے جہاں یہ بالکل محفوظ رہیں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام کے تمام سالار مفتوحہ شہروں اور علاقوں کے انتظامات میں مصروف تھے۔ فتح کے بعد ایسے مسائل اور ایسی افراتفری پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی طرف فوری توجہ بہت ضروری ہو جاتی ہے ۔
ابھی یہ خطرہ بھی باقی تھا کہ کہیں بغاوت بھی ہوسکتی ہے رومی فوجی کہیں کہیں چھپے ہوئے بھی تھے، سالار ادھر مصروف تھے اس لئے انہیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ ہرقل پھر فوج اکٹھی کررہا ہے اور مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے مزید فوج آرہی ہے۔
اور غیرمسلم قبائل ایک فوج کی صورت میں منظم ہوکر ہرقل تک بزنطیہ میں پہنچ رہے ہیں۔
ہرقل ایک بار پھر ذہنی اور جسمانی طور پر بیدار ہو گیا تھا ۔
کچھ دنوں بعد مصر سے چلی ہوئی فوج بحری جہازوں کے ذریعے ساحل سے آلگی، ہرقل نے اپنے آدمی وہاں بھیج رکھے تھے وہ فوج کو ایک ایسے مقام تک لے گئے جو ہرقل نے انہیں بتایا تھا۔
یہ مقام اس وقت کے ایک مشہور شہر حمص کے قریب تھا قبائلیوں کے جو لشکر آ رہے تھے انھیں بھی ہرقل اسی مقام کی طرف بھیج رہا تھا ۔
اس ساری فوج کا کمانڈر ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا ،تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ بیٹا ایسے جوش اور بھڑکے ہوئے جذبے سے آیا تھا کہ اپنے باپ کی شکست کا انتقام لے گا اور اس شکست کو فتح میں بدلے گا۔
مصر سے آئی ہوئی ہرقل کی فوج اور قبائلی لشکر ایسے انداز سے اور ایسی تربیت میں حمص کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے کہ حمص جیسا بڑا اور اہم شہر محاصرے میں آگیا لیکن یہ محاصرہ قریب نہیں تھا بلکہ اتنی دور تھا کہ مسلمانوں کو اس کا پتہ ہی نہ چل سکا علاقہ پہاڑی تھا اور کچھ جنگلات بھی تھے جن سے رومیوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے آپ کو چھپائے رکھا ۔
ابھی قبائلیوں کے اور لشکر نے آنا تھا اس لئے یہ لوگ محاصرہ تنگ نہیں کر رہے تھے۔
مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ حمص میں ہی تھے اور یہی مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر بھی تھا دوسرے سالار دوسرے شہروں میں مصروف تھے ابو عبیدہ نے اپنے جاسوس باہر بھیجنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کیونکہ رومیوں کی طرف سے حملے کا خطرہ ختم ہوگیا تھا، ہرقل کے متعلق معلوم ہوگیا تھا کہ وہ بزنطیہ میں ہے اور وہاں سے بھی نکل جائے گا۔
ایک روز ابوعبیدہ کو کسی طرح معلوم ہوا کہ رومی ایک بار پھر منظم ہوکر حمص کے قریب آرہے ہیں، یا آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی بلکہ اڑتی اڑتی سنی گئی تھی۔
ابو عبیدہ نے حدید کو بلایا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حدید جاسوسی اور شب خون مارنے میں خصوصی مہارت اور جرات رکھتا تھا۔
حدید جس کا پورا نام حدید بن مؤمن خزرج تھا، حکم ملتے ہی اپنے سالار کے پاس پہنچا سپہ سالار ابوعبیدہ نے اسے کہا کہ وہ ہم سے دور دور جا کر دیکھے کہ رومی فوج کہیں موجود ہے، سپہ سالار نے اسے وہ ساری خبریں سنائیں جو انہوں نے سنی تھی حدید یہ حکم لے کر چلا گیا ، اور ایک عام سا کسان کا بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے مشن پر نکل پڑا۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب حدید اور شارینا سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس پہنچے تھے تو ان کی ساری بات سن کر سپہ سالار نے شارینا کو عورتوں کے حوالے کر دیا تھا یہ عورتیں سالاروں کی بیویاں، مجاہدین کی بیویاں، اور بہنیں وغیرہ تھی، جو ان کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھی شارینا حدید کی محبت میں گرفتار تھی لیکن جب سے حدید اسے یہاں لایا تھا وہ حدید کو دیکھ بھی نہیں سکی تھی۔ یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ حدید اور شارینا کی شادی کرا دی جائے گی، لیکن جنگ کی صورتحال ابھی اجازت نہیں دے رہی تھی، شارینا حدید کو دیکھنے کو بھی ترس رہی تھی۔
حدید جب گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا تو شارینا نے اسے دور سے دیکھ لیا وہ عرب کی مسلمان لڑکی ہوتی تو یوں نہ کرتی لیکن وہ آزاد خیال اور شاہی خاندان کی لڑکی تھی ،اور اس کے علاوہ حدید کی محبت میں تڑپتی رہتی تھی ۔
وہ حدید کی طرف اٹھ دوڑی اور اسے پکارنے لگی ،حدید نے گھوم کر دیکھا تو گھوڑا روک دیا ۔
شارینا دوڑتی اس تک پہنچی اور پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
وہاں ایسی بات نہیں تھی کہ انہیں یوں الگ اکٹھے کھڑے دیکھ کر کوئی اعتراض کرتا وہ اخلاق اور کردار کا زمانہ تھا عورت اور نوجوان لڑکیاں بھی میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کو اٹھاتی سہارا دے کر پیچھے لاتیں اور انہیں پانی پلاتیں تھیں، بعض لڑکیاں رات رات بھر ایک زخمی کے پاس بیٹھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتیں تھیں، حدید اور شارینا کے متعلق تو سب کو معلوم تھا کہ یہ دونوں کہاں سے اور کیسے آئے ہیں۔
حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اپنے کام سے جارہا ہے اور وہ واپس چلی جائے، لیکن شارینا نے گلے شکوے شروع کر دیے کہ وہ اسے ملتا نہیں اور کبھی اس نے آکر اسے دیکھا بھی نہیں، حدید نے اسے بتایا کہ وہ صبح شام مصروف رہتا ہے۔ لیکن اتنی سی بات سے شارینا کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، تسلی نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی اس نے شاہی محل میں جنم لیا پلی بڑھی، اور شاہی ماحول میں جوان ہوئی تھی، اور وہ اس کے بالکل الٹ ماحول میں آ گئی تھی۔
دوسری وجہ یہ کہ حدید بن مومن اسے اتنا اچھا لگا تھا کہ دیوانہ وار اسے چاہنے لگی تھی، اور کئی کئی دن اسے حدید نظر نہیں آتا تھا۔
اب اسے حدید نظر آگیا تو اس کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے بتائے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ حدید ایک خفیہ مشن پر جارہا تھا جو وہ شارینا کو نہیں بتانا چاہتا تھا، لیکن شارینا گھوڑے کے آگے ہو کر لگام پکڑ لی اور بچوں جیسی ضد کرنے لگیں کہ وہ اسے بتائے وہ کہاں جا رہا ہے۔
حدید کو بھی آخر اس وقت اس سے محبت تھی وہ اس کی اتنی پیاری ضد سے متاثر ہو گیا اور اسے بتایا کہ وہ اپنے سپہ سالار کے ایک شک کے مطابق کچھ دور دیکھنے جا رہا ہے کہ واقعی رومی فوج قریب آگئی ہے؟ ۔۔۔یا یہ ایک افواہ تھی جو سپہ سالار کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔
شارینا نے اب یہ ضد شروع کردی کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گی حدید کو یہ منظور نہ تھا نہ ہی مناسب تھا کہ وہ اسے ساتھ لے جاتا، شارینا فہم و فراست رکھنے والی لڑکی تھی اس نے کہا کہ رومی کہیں نظر آ بھی گئے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکے گا کیونکہ وہ اب ایسے لباس میں ہے کہ اسے کسی معمولی سے گھرانے کی لڑکی سمجھا جائے گا ،اور کسی نے پوچھ ہی لیا کہ تم دونوں کون ہو تو وہ کہے گی کہ میں اس کی بیوی ہوں۔
حدید نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مان رہی تھی حدید گھوڑے سے اترا شارینا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑے پیار سے سمجھایا کہ وہ واپس چلی جائے اور اس کے فرائض میں مخل نہ ہو، بڑی تگ و دو کے بعد حدید نے شارینا کو راضی کر لیا کہ وہ واپس چلی جائے۔
شارینا وہاں سے آہستہ آہستہ نہ چلی بلکہ دوڑ پڑی، حدید نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ چلی گئی ہے ،وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے کو چل پڑا شارینا اس پر بھی پیار اور محبت کے جذبات طاری کر گئی تھی لیکن وہ اسلام کا مجاہد تھا جذبات کے غلبے سے نکل آیا ،اور آگے ہی آگے بڑھتا گیا وہ گھوڑا دوڑا نہیں رہا تھا گھوڑا معمول کی چال چل رہا تھا ۔
وہ زیادہ دور نہیں تھا کہ اسے کسی گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اس وقت وہ ایک چٹان کی اوٹ میں تھا کوئی سوار گھوڑاسرپٹ دوڑاتا آ رہا تھا ۔حدید کو خیال آیا کہ سپہ سالار نے ہی کسی سوار کو پیغام دے کر اس کے پیچھے بھیجا ہوگا وہاں کسی دشمن کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
حدید نے گھوڑے کا رخ موڑا اور چٹان کی اوٹ سے نکل کر سامنے آگیا کہ دیکھے کہ یہ کون آ رہا ہے، گھوڑا قریب آ گیا تھا سوار نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا سوار نے قریب آکر گھوڑا روکا تو حدید نے دیکھا کہ یہ تو شارینا ہے ۔
وہ پریشان ہوگیا اور شارینا سے کہا کہ وہ واپس چلی جائے۔
شارینا نے کہا کہ واپس جانے کے لئے نہیں آئی، اور اسے پوری امید ہے کہ وہ حدید کے لیے مددگار ثابت ہوگی، حدید یہ تو دیکھی چکا تھا کہ یہ لڑکی کس قدر دلیر ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے، وہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی ہوتی تو صرف محبت کی طلب گار ہوتی تو حدید اسے اپنے ساتھ نہ لے جاتا اس نے سوچ کر یہی بہتر سمجھا کہ شارینا کو ساتھ لے جائے۔
اب دونوں پہلو بہ پہلو چل رہے تھے حدید نے یہ دیکھ لیا تھا کہ شارینا نے ایسا لباس پہن رکھا ہے جس نے سر اور چہرے کو اس طرح چھپا رکھا ہے کہ قریب آکر ہی کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عورت ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ علاقہ میرے لیے نیا اور ان دیکھا نہیں ہے، شارینا نے کہا۔۔۔ میں یہاں اپنے آپ کو اجنبی نہیں سمجھتی ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے اور میں چند مرتبہ یہاں سیر سپاٹے کے لئے آئی ہوں آگے ایک ندی آئے گی، یہ جگہ بہت ہی خوبصورت ہے، گھوڑوں کو اس ندی سے پانی پلائیں گے اور کچھ دیر سستا بھی لیں گے۔
وہ تو ایک روح پرور سبزہ زار تھا زمین نشیب و فراز والی تھی خوشنما جھاڑیاں اور سبز گھاس سے لدی پھندی ٹیکریاں بھی تھیں، دونوں چلتے گئے اور جب ایک ٹیکری سے گھومے تو آگے چھوٹی سی ندی آگئی شارینا کے کہنے پر حدید نے گھوڑا روک لیا اور دونوں گھوڑے سے اترے اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا، وہ فوراً ندی کے کنارے چلے گئے اور پانی پینے لگے ،شارینا نے اپنے سر سے کپڑا کھولا اور چہرہ بھی ننگا کر دیا وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا یہ خطرہ تو تھا ہی نہیں کہ کوئی رومی ادھر آ نکلے گا ان کے خیال کے مطابق دور دور تک کسی رومی کا نام و نشان اور سراغ نہ تھا۔
جہاں وہ اترے تھے اس سے چند ہی قدم دور سے ندی مڑتی تھی اور وہاں ایک ٹیکری بھی تھی، اور اس طرف ندی ٹیکری کے پیچھے ہوجاتی تھی، وہ دونوں بیٹھ گئے لیکن اس وقت ان پر رومانی کیفیت طاری نہیں تھی بلکہ وہ اپنے مشن کی باتیں کر رہے تھے، اور شارینا حدید کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ اس کا ساتھ مردوں کی طرح دے گی اور کہیں بھی اس پر ایسابوجھ یا اس کے کندھے پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالے گی جیسی عام عورتیں اپنے مردوں کے لیے بن جایا کرتی ہیں۔
وہ اپنی باتوں میں مگن تھے کہ انہیں کسی اور کی باتوں کی آواز سنائی دینے لگی جو ٹیکری کی اوٹ سے اس کی طرف بڑھتی آرہی تھی ،آواز اور قریب آئی تو دونوں چپ ہو گئے اور شارینہ نے حدید کے کان میں سرگوشی کی کہ یہ تو رومی زبان میں باتیں کرتے آرہے ہیں،،،،، شارینا نہتی نہیں تھی، وہ تلوار اور ایک خنجر سے مسلح ہو کر آئی تھی، اور حدید تو تھا ہی مسلح اس کے پاس بھی تلوار تھی اور ایک خنجر۔
آواز جب سر پر آ پہنچی تو دونوں اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ٹیکری کے اوٹ سے تین آدمی اچانک سامنے آگئے، حدید کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگی کہ یہ تینوں رومی فوجی ہیں۔ حالانکہ وہ فوجی وردی میں نہیں تھے بلکہ حدید کی طرح انہوں نے عام قسم کے لباس پہن رکھے تھے جیسا لباس اس خطے کے عام لوگ پہنا کرتے تھے ،ان میں ایک گورے چٹے رنگ کا جوان سال آدمی تھا جس کی آنکھیں کچھ نیلی اور کچھ سبز سی تھی اس نے جب شارینا کو دیکھا تو چوک کر ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ میں تمہارا نام نہیں جانتی شارینا نے اس گورے چٹے آدمی سے کہا۔۔۔ اتنا یاد ہے کہ تم شاہ ہرقل کے محافظ دستے کے کمانڈر رہ چکے ہو۔
ہاں !،،،شہزادی شارینا اس آدمی نے کہا ۔۔۔میرا نام روتاس ہے اور میں شاہی محل کے محافظ دستے کا کمانڈر رہ چکا ہوں ۔
پہلے یہ بتائیں کہ آپ یہاں کیسے؟ ۔۔۔اس نے حدید کی طرف دیکھ کر پوچھا اور یہ کون ہے؟
یہ مسلمان ہے شارینا نے کہا اور میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رہاء سے باہر نکلی تو مسلمانوں نے مجھے اغوا کر لیا تھا اور اپنے ہاں لے گئے تھے، وہاں میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں ہوا ،یہ اسلئے نہیں ہوا کہ مجھے کسی سالار کی بیوی بننا تھا، اور مسلمان دشمن کے عورتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو ہماری فوج کیا کرتی ہے، بہرحال میں تھی تو ان کی قیدی لیکن اس آدمی نے مجھ پر رحم کیا اور قید سے آزاد کرا دیا۔
میں تمہیں پوری کہانی نہیں سنا رہی تم بھی جوان ہو اور جوانی کے جذبات سے واقف ہو ، یہ میری محبت میں ایسا مبتلا ہوا کہ اپنا مذہب چھوڑنے پر تیار ہو گیا اب موقع ملا ہے اور ہم دونوں وہاں سے فرار ہو آئے ہیں معلوم نہیں تھا کہ میں اسے کہاں لے جاؤں اچھا ہوا تم مل گئے، اب تم بتا سکو گے کہ اپنی فوج کہاں ہے، میں اسے وہاں لے جا کر عیسائی بناؤں گی ،اور یہ خواہش اس نے خود ظاہر کی ہے،
حدید چپ رہا اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شارینا اس رومی افسر سے کیا کہہ رہی ہے، شارینا ملک شام کی زبان بول اور سمجھ سکتی تھی، اس نے اس زبان میں یعنی عربی زبان میں حدید کو بتایا کہ اس نے اس جواں سال رومی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے ۔
روتاس نے شارینا سے کہا اسے معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ اغوا ہوگئی تھی بہر حال اس نے خوشی کا اظہار کیا کہ شارینا صرف یہ کہ مسلمان کی قید سے فرار ہو کر آ گئی ہے بلکہ ایک مسلمان کو عیسائی کر کے ساتھ لے جا رہی ہے، روتاس کے ساتھ جو دو آدمی تھے وہ رومی فوج کے سپاہی تھے۔
شارینا نے انہیں وہیں بٹھا لیا اور روتاس سے پوچھا کہ ہرقل کہاں ہے؟ ۔۔۔اور اپنی فوج کہاں ہے؟
روتاس شارینا سے اسی لئے بھی متاثر تھا بلکہ مرعوب تھا کہ وہ شہزادی تھی، اس نے شارینا کو بتانا شروع کردیا کہ ہرقل کہاں ہے اور اب اپنی فوج اور قبائلی لشکر یہاں ان پہاڑیوں کے پیچھے اکٹھا کر لئے ہیں، اور حمص کو محاصرے میں لے کر یہ شہر فتح کرلیا جائے گا۔
شارینا نے یہ ساری بات حدید کو اس کی زبان میں بتائی اور کچھ اشارہ بھی دے دیا۔
باتیں کرتے کرتے روتاس نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ اس بھیس میں حمص جا رہا ہے کہ وہ یہ اندازہ کر سکے کہ حمص کے اندر مسلمانوں کی فوج کتنی کچھ ہے، اور یہ قلعہ بند شہر کس طرح لیا جاسکتا ہے، اور کیا حمص والوں کو کہیں سے کمک پہنچ سکتی ہے یا نہیں۔
شارینا اس طرح اٹھی جیسے بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی ہو اور ٹانگیں سیدھی کرنا چاہتی ہو، باتیں کرتے کرتے وہ ان رومیوں کے پیچھے ہوگئی، جونہی روتاس نے نظریں ہٹائیں شارینا نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور ایک سپاہی کی گردن پر ایسا بھرپور وار کیا کہ اس کی گردن آدھی سے زیادہ کٹ گئی، روتاس نے یہ دیکھا تو کچھ نہ سمجھ سکا اتنی دیر میں شارینا نے تلوار دوسرے سپاہی کے پہلو میں اس طرح اتار دی جس طرح پرچھی ماری جاتی ہے۔
تب روتاس بڑی تیزی سے اٹھا اور اس کا ایک ہاتھ اس کی تلوار کے دستے پر گیا لیکن حدید کی تلوار کی نوک اس کے سینے کے ساتھ لگ چکی تھی اور شارینا نے اسے کہا تھا کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے گا اگر وہ مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرے ۔
شارینا کی تلوار کی نوک روتاس کے ایک پہلو کے ساتھ لگ گئی تھی اس نے اپنا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے سے ہٹا لیا۔
حدید نے شارینا سے وہ کپڑا لے لیا جو اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپیٹا تھا اس کپڑے سے حدید نے روتاس کے ہاتھ اس کے پیٹ پیچھے باندھ دیئے اور پھر حدید اور شارینا نے اسے اٹھاکر حدید کے گھوڑے پر بیٹھا دیا۔ حدید اس کے پیچھے بیٹھا اور شارینا اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور دونوں وہاں سے واپس چل پڑے۔
یہ کوئی عجیب اتفاق نہ تھا کہ شارینا کے ساتھ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پہلے پیش آ چکا تھا اس کی فوج کے ایک افسر نے اسے راستے میں دیکھ لیا تھا اور اس افسر نے حدید کو اس وقت اپنے دو سپاہیوں سے قتل کروانے کی کوشش کی تھی، جب حدید اور شارینا ایک چشمے کے کنارے سوئے ہوئے تھے، اب پھر رومی فوج کا ایک افسر دو سپاہیوں کے ساتھ اسے مل گیا یہ اتفاق اس وجہ سے عجیب نہ تھا کہ اس ماحول میں اور اس صورتحال میں جب رومی فوج وہاں موجود تھی ایسا ہی واقعہ پیش آسکتا تھا کہ کوئی رومی اسکو پہچان لیتا اور اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔
روتاس کو حدید اور شارینا حمص لے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اس وقت ابوعبیدہ کو ایک اور ذریعے سے اتنا پتہ چل چکا تھا کہ کچھ قبائل لشکروں کی صورت میں منظم ہو کر کہیں جا رہے ہیں، لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں اور کیوں جا رہے ہیں ؟
سپہ سالار نے اس طرف بھی جاسوس بھیج دیے تھے اور اپنے ان سالاروں کو جو ملک شام میں بکھرے ہوئے تھے پیغام بھیج دیے تھے کہ یہ دیکھیں کہ عیسائی اور آتش پرست قبائل کہاں جارہے ہیں اور ان کی ظاہری اور درپردہ سرگرمیاں کیا ہے؟
یہ ایک قدرتی مدد تھی کہ شارینا حدید کے ساتھ چل پڑی تھی حدید بھی کوئی ایسا اناڑی نہ تھا وہ شارینا کے بغیر ہی کچھ دیکھ آتا اور کوئی خبر لے آتا ،لیکن روتاس کو ساتھ لے آنے سے ہی صورتحال کا علم ہو گیا۔
روتاس سے کہا گیا کہ وہ ہرقل کے صحیح عزائم اور اس کا منصوبہ پوری طرح بیان کر دے تو اس کی جان بخشی ہو جائے گی، اور اسے جنگ کے بعد غلام بنانے کے بجائے آزاد کر دیا جائے گا ۔
جان کسے عزیز نہیں ہوتی، روتاس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ اس کا بادشاہ ہرقل شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور اس کی فوج میں کوئی دم خم نہیں رہا، روتاس نے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہرقل اور تمام قبائل کا سارے کا سارا پلان سنا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رومی فوج اور قبائلی لشکر حمص کو محاصرے میں لے چکے ہیں اور کچھ قبائلی لشکر پہنچ جائیں گے تو حمص پر بڑا ہی زبردست حملہ ہوگا۔
طبری، بلاذری، اور جوزی، نے خاص طور پر یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں اس طرح ڈالا ہے کہ رومی فوج اور قبائلی لشکروں کی نفری پچاس ہزار سے زیادہ تھی، اور حمص میں جو مجاہدین موجود تھے ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی، وہ لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ابوعبیدہ جیسے سالار کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا ان کے لیے سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ باقی سب سالار خالد بن ولید ،شرجیل بن حسنہ، عمرو بن عاص، رضی اللہ عنھم جیسے تاریخ ساز سالار ان سے بہت دور تھے ہر ایک کی ذمہ داری میں وسیع علاقہ تھا جسے وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔
ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا جو ان کے ساتھ حمص میں تھے انہیں اس صورتحال سے اور آنے والی آفت سے آگاہ کیا اور پھر تیز رفتار قاصد کو پیغام لکھ کر مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا اس میں انھوں نے لکھا کہ وہ حمص میں کس خطرے میں گھر گئے ہیں۔
ایک تو انہیں ہدایت اور احکام دیے جائیں اور جس قدر کمک مل سکتی ہے بلاتاخیر بھیج دی جائے۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہرقل حمص پر قبضہ کر لے گا اور مسلمانوں کے لئے قدم جمانا ناممکن نہیں تو بڑا ہی دشوار ضرور ہو جائے گا، اس سوال کا جواب اس وقت کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا کہ حمص کو اتنی تیزی سے مدد مل سکے گی یا نہیں؟
جس تیزی سے رومی اور قبائلی لشکر حمص کی طرف بڑھ رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حمص ہی نہیں وہاں تو پورے کا پورا ملک شام ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تھا، رومی فوج کے پکڑے ہوئے افسر روتاس نے بتایا تھا کہ اس وقت تک رومی فوج اور غیرمسلم قبائل کے لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کے قبائل کے آدمی ابھی تک اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے آ رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جیسی مضبوط اعصاب والی شخصیت کے چہرے پر تشویش کا تاثر آگیا تھا تشویش تو ہونی ہی تھی ان کے پاس تھا ہی کیا مجاہدین کی کل تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔
جس وقت سپہ سالار ابوعبیدہ روتاس سے سن رہے تھے کہ ہرقل کا پلان کیا ہے اس وقت انھوں نے شارینا کو باہر بھیج دیا تھا ۔
شارینا نے اپنا کام کر دیا تھا اور یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن جنگی امور اور مسائل میں جن کا تعلق صرف مردوں یعنی سالاروں کی سطح کے مردوں کے ساتھ تھا ایک عورت کی موجودگی ضروری بھی نہیں تھی اور مناسب بھی نہیں۔
ابو عبیدہ نے روتاس کی ساری بات سن کر اپنے دو تین محافظوں کو بلایا اور کہا کہ روتاس کو قید خانے میں بند کر دیا جائے، تو اس نے احتجاج کے لہجے میں کہا کہ اس نے ہر راز بتا دیا اور میرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ مجھے آزاد کر دیا جائے گا تو پھر قید خانے میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
ہم دل سے تمہاری قدر کرتے ہیں ابو عبیدہ نے کہا ۔۔۔ہم تمہیں جنگی قیدی سمجھ کر قید خانے میں نہیں ڈال رہے جونہی جنگ ختم ہو گی ہم تمہیں پوری عزت اور احترام سے آزاد اور رخصت کریں گے۔
ابو عبیدہ نے محافظوں کو اشارہ کیا محافظ روتاس کو اپنے ساتھ لے کر باہر نکل آئے۔ حدید بھی ان کے ساتھ آگیا اور شارینا کے پاس رک گیا ،اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ شارینا نے روتاس کے متعلق پوچھا۔۔۔ قید خانے میں، قید خانے میں کیوں؟،،، شارینا نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر بولی انہیں روک لو حدید! 
سپہ سالار کے حکم میں دخل اندازی نہ کرو شارینا حدید نے کہا۔۔۔ تمہاری عقل ان تک نہیں پہنچ سکتی۔
میں سپہ سالار سے ملنا چاہتی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔تم بھی ساتھ آؤ مجھ میں سپہ سالار جیسی عقل تو نہیں ہو گی لیکن میری عقل میں ایک بات آ گئی ہے ۔
حدید کی کوئی اور بات سنے بغیر شارینا اندر چلی گئی حدید بھی اس کے پیچھے چلا گیا کہ نہ جانے کیسی باتیں کہہ گزرے جو سپہ سالار کو اچھی نہ لگے۔
سالار محترم!،،،، شارینا نے اندر جاتے ہی کہا۔۔۔ میں آپ کے فیصلوں اور احکام میں دخل اندازی نہیں کر رہی صرف یہ پوچھنے کی معافی چاہتی ہوں کہ اس رومی افسر کو آپ قید خانے میں کیوں قید کر رہے ہیں ؟اسے تو آپ نے آزادی کا وعدہ دیا تھا۔
میری عزیز بچی!،،،، سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔اگر یہ کارنامہ تمہارا نہ ہوتا تو میں تمہیں اس سوال کا جواب نہ دیتا میں تمہارے جذبے کی دلی طور پر تعریف کرتا ہوں لیکن تم ابھی کم عمر ہو اس لئے نہیں سمجھ سکتی کہ جذبے کی لگام عقل کے ہاتھ میں نہ ہو تو جذبہ نقصان بھی دے جایا کرتا ہے۔ تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ مجھ سے پوچھو کہ میں اسے قید خانے میں کیوں بند کر رہا ہوں اگر اسے ابھی آزاد کردیا تو یہ سیدھا ہرقل کے پاس پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا اور اس نے یہ راز اگل دیا ہے اس کی اس اطلاع پر ہرقل فوراً اپنا حملے اور محاصرے کا منصوبہ تبدیل کردے گا، ہوسکتا ہے وہ ہم سب کو نظر انداز کر دے اور کسی اور شہر کو جاکر محاصرے میں لے لے جو ہمارے قبضے میں آ چکا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے ہمیں غلط خبر دی ہو یہ اطلاع مجھے پہلے ہی ملی ہیں کہ ہم سے دور پہاڑی علاقے میں ہرقل کی فوج اور قبائل کا لشکر اس طرح اکٹھا ہوگیا ہے کہ حمص محاصرے میں ہے، بے شک فاصلہ زیادہ ہے لیکن اس فوج اور لشکر نے اسی حالت میں پیش قدمی کی تو حمص بالکل ہی محاصرے میں آجائے گا، اور ہمیں قلعہ بند ہو کر لڑنا پڑے گا، اور ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کمک ہم تک نہیں پہنچ سکے گی ،میں اپنے وعدے پر قائم ہوں یہ محاصرہ توڑ دینے اور رومی فوج کو پسپا کرنے کے فوراً بعد روتاس کو آزاد کر دیا جائے گا۔
میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں محترم سپہ سالار۔۔۔ شارینا نے کہا ۔۔۔آپ کے سامنے میری حیثیت کچھ بھی نہیں پھر بھی آپ نے میری بات تحمل سے سنی ہے اور جواب دیا ہے ،رومیوں کے ہاں کوئی چھوٹا آدمی اپنے سالار کے سامنے اونچی سانس بھی نہیں لے سکتا ان میں ہرقل سے ایسی بات کرنے کی جرات ہی نہیں حالانکہ وہ میرا باپ ہے باپ سے پہلے وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور پھر افواج کا سالار سمجھتا ہے۔
شارینا بیٹی!،،، ابو عبیدہ نے کہا میں اس وقت مصروف بھی ہو اور کچھ پریشان بھی اگر تمہیں کوئی خاص بات کہنی ہے تو وہ کہو اپنی تعریف سننے کا ہمارے ہاں رواج بھی نہیں اور میرے پاس وقت بھی نہیں تم مجھے خراج تحسین پیش نہ کرو خراج تحسین کی حقدار تم خود ہو جس نے بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔
میں خاص بات ہی کرنا چاہتی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ اس رومی افسر روتاس کو قید خانے میں رکھنے کے بجائے کسی بڑے اچھے کمرے میں رکھیں باہر پہرہ کھڑا کروا دیں تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ یہ قیدی ہے پھر مجھے اجازت دیں کہ میں اس سے ملتی رہوں، مجھے امید ہے کہ اس کے سینے سے کچھ اور کام کی باتیں نکلوا سکوں گی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے حدید کی طرف دیکھا اور دو تین سالاروں کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھے ابو عبیدہ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔
خدا کی قسم اس لڑکی نے عقل و دانش کی بات کی ہے سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔اور کیا تم سب نے محسوس نہیں کیا کہ میں کتنا پریشان ہوں اور میرا ذہن کہاں الٹ گیا ہے میرا دماغ حاضر ہوتا تو یہ بات میں خود سوچ لیتا، شارینا روتاس کو قید خانے کے بجائے نہایت اچھے رہائشی کمرے میں رکھا جائے گا اور اسے یہ احساس دلایا جائے گا کہ وہ قیدی نہیں ہمارا مہمان ہے۔
اور اس خوش اخلاقی کا میں اس پر ایسا تاثر پیدا کر دوں گی کہ یہ اسلام قبول کرلے گا شارینا نے کہا ۔۔۔لیکن میرا اولین مقصد یہ ہو گا کہ اس سے کچھ اور راز حاصل کر لوں حدید میرے ساتھ ہوگا لیکن میں روتاس سے اکیلے ملا کروں گی۔
ابو عبیدہ نے اسی وقت دربان کو بلا کر حکم دیا کہ اس رومی کو قید خانے میں نہ لے جایا جائے اسے مہمان کے طور پر کہیں اور رکھا جائے گا۔ سپہ سالار نے اس کے مطابق حکم دے دیا کہ انتظام مکمل کیا جائے اور اس کے کمرے کے سامنے ہر وقت دن رات پہرہ کھڑا رہے۔
ابو عبیدہ، خالد بن ولید، سعد بن ابی وقاص، اور عمر بن عاص، رضی اللہ عنھم پائے کے سپہ سالار تھے۔ خالد بن ولید کی معزولی کے بعد امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لشکر کی کمان ابو عبیدہ کو ہی دی تھی، انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ جو مشورہ شارینا نے دیا تھا یہ خود ہی ان کے ذہن میں آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ آیا وجہ یہ تھی کہ انہیں حمص ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا اس پریشانی نے ان کے ہوش و حواس کو بھی مجروح کر دیا تھا کہ کمک پہلے پہنچتی ہے یا ہرقل کا لشکر۔ یہ انکے بس میں تھا ہی نہیں کہ کمک رومی لشکر سے پہلے پہنچ جائے۔
وہ کچھ اور سوچنے کے قابل رہے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک کے بجائے اکٹھے دو قاصد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیے تھے۔
انہوں نے قاصدوں کو بڑی سختی سے ہدایت دی تھی کہ وہ سوئیں گے تو گھوڑوں کی پیٹ پر سوئیں گے اور کھائیں گے بھی تو چلتے گھوڑوں پر کھائیں گے، ایک ہدایت یہ بھی دی کہ دو قاصد اس لیے بھیج رہے ہیں کہ راستے میں ایک کو کچھ ہوجائے اور وہ اتنا بیمار ہوجائے کہ موت نظر آنے لگے تو دوسرا قاصد اس کے لئے رکے نہیں اکیلا ہی چلا جائے۔
ابو عبیدہ کے الفاظ یہ تھے کہ اڑ کر مدینہ پہنچو۔
اس دور کے قاصد ایسے نہیں تھے کہ پیغام لے کر چلتے تو اپنی مرضی کی رفتار سے جاتے اور خوش ہوتے کہ چلو میدان جنگ سے تو کچھ دنوں کی چھٹیاں ملی وہ قاصد بھی مجاہد تھے ان کا بھی جذبہ تھا اور اپنے اس فرض پر جان قربان کر دینا ان کا ایمان تھا ، پیغام رسانی کا انتظام بڑا اچھا تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم کر دی گئیں تھیں جہاں تازہ دم اور نہایت تندرست گھوڑے موجود رہتے تھے ،قاصد ہرچوکی پر تھکا ہوا گھوڑا چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑا لے کر آگے چلے جاتے تھے، جب صحرا شروع ہو جاتا تھا تو صحرائی چوکیوں میں اونٹ بھی رکھے جاتے تھے کیونکہ ریگستان میں اونٹ گھوڑے سے زیادہ تیز دوڑتا ہے اور پانی کی حاجت محسوس نہیں کرتا۔
یہ قاصدوں کے صوابدید پر ہوتا تھا کہ انہیں گھوڑے کے بجائے اونٹ پر آگے جانا چاہیے۔
یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ حمص سے مدینہ کم و بیش بارہ سو کلومیٹر دور اور راستہ زیادہ تر صحرائی تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget