2012
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA

 


امریکی فوجیوں کی طرف سے قرآنی اوراق کی توہین پر پورا عالم اسلام خاص طور پر اسلامیان پاکستان سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ اچانک بم دھماکے ، عبادت گاہوں پر خودکش حملے اور لسانی اور گروہی تعصب پر مبنی قاتلانہ کاروائیوں کے نتیجہ میں پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور احتجاج کا رخ امریکہ سے ہٹ کر مخالف تنظیموں اور شخصیات کی طرف پھر گیا اور امریکیوں نے چین اور سکھ کا سانس لیا ۔کہا یہ جارہا ہے کہ اسلام آباد میں دینی مدارس کے کامیاب اور پر وقار کنونشن نے پاکستان میں امریکی ایجنٹوں کی نیند یں اڑادی تھیں اور امریکی عسکری اداروں کے مسلمان قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ طرز عمل خاص طور پر مذہبی تشدد جسکا بڑا مظہر قرآنی اوراق کو گندگی اور غلاظت میں پھینکنے کے واقعہ کی شکل میں سامنے آیا، اس کے خلاف برپا ہونے والی احتجاجی تحریک سے امریکیوں نے عالم اسلام میں اپنے بارے میں پائی جانے والی شدید نفرت کو دیکھکر کامیابی سے اسکا رخ تبدیل کردیا ہے ۔ پاکستانی عوام اور لیڈر باہم دست وگریباں ہوگئے ہیں اور انتظامی ادارے تحقیقات میں مصروف ہوگئے ہیں اور اپنے آہنی ہاتھ حرکت میں لاکر مزعومہ ملزمین کی گرفتاری کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں ۔ حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات شیخ رشید صاحب نے خبر دی ہے کہ ’’ تحقیقات صحیح رخ پر جارہی ہیں اور ہم ملزموں کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘ جبکہ اس سے بھی اہم خبر یہ ہے کہ’’ بری امام کے سانحہ کی تحقیقات کیلئے F . B .I   کی خدمات حاصل کرلی گئیں ہیں ‘‘۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایف بی آئی وہیں پر تحقیقات کیلئے پہنچتی ہے جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں یہاں کن مفادات کے حصول کیلئے ایف بی آئی کے ہاتھی نے قدم رکھا ہے اس بات میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضیاء شہید کے طیارہ کے حادثہ کی تحقیقات میں بھی ایف بی آئی شریک تھی اور پھر میر مصحف علی کے طیارہ کے حادثہ کی تحقیقات میں یہی ادارہ شریک تھا یہ قومی فوجی اور سرکاری نوعیت کے اہم ترین واقعات تھے جن کے بارے میں آج تک قوم کو تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے اور شب فراق کے طول کی طرح یہ بھی طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ امریکی حکومت کو دباؤ سے نکالنے کیلئے یہ واقعات برپا ہوئے اور اسکے پیچھے سی آئی اے کا پاکستانی دستانوں میں چھپا ہوا ہاتھ صاف طور پر نظر آنے لگا ہے وزیر اطلاعات کے بیان سے بھی واضح ہے کہ تحقیقات کیلئے امریکی سی آئی اے نے جو رخ دیا ہے ہم کامیابی کیساتھ اس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحقیقات کا مطلب مجرموں کو بے نقاب کرنا نہیں ہوتا بلکہ مخالفین کے گرد گھیرا تنک کرنا اور بے گناہوں کے گلے میں پھندا لگانا ہوتاہے اور مجرموں کو آٹے میں سے بال کی طرح نکال کر عدالتی اور قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوتاہے ۔ اسکی دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔ ایک دہشت گردانہ کاروائی میں چند علماء شہید کردئے گئے تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوگئی شواہد کی روشنی میں ملزمان تک پنہچنا کوئی ناممکن نہیں تھا ۔مگر پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی   کا اصرار تھا کہ فلاں تنظیم کیساتھ آپکے اختلافات ہیں اور وہ ’’ القاعدہ ‘‘ کے ساتھ منسلک ہے لہذا یہ القاعدہ کی کاروائی ہوسکتی ہے ۔ شہداء کے ورثا ء پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ پریس کانفرنس میں پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر القاعدہ پر یہ الزام عائد کرنے پر کسی نہ کسی طرح آمادہ ہوجائیں ۔
ایک دوسرے مقام پر دھماکہ ہوا جس میں تقریبا ایک درجن شہداء اور پانچ درجن کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے لاکھوں روپے کی املاک ضائع ہوئیں ۔ جائے وقوعہ پر ایک لاوارث لاش معمہ بن گئی ۔ شواہد وقرآئن اسبات کی نشاندہی کررہے  تھے کہ دھماکہ کے وقت دہشت گرد خود بھی اسکی لپیٹ میں آگیا مگر قانون نافذ کرنے والے اداروںنے نہایت پھرتی اور چابکدستی سے نہ صرف اس لاش کے وارث تلاش کرلئے بلکہ اسے بھی نہایت صفائی کے ساتھ بری کرکے پوسٹ مارٹم کے بہانے لاش غائب کردی ۔ وہ شخص جائے وقوعہ سے کم از کم تیس کلومیٹر کے فاصلہ پر kpt   کا ملازم اور کم ازکم بیس کلومیٹر کے فاصلہ کا رہائشی تھا ۔ مذہبی تعصب رکھنے والا اور دہشت گرد تنظیم کا رکن تھا ۔ اسکے تعصب کا یہ عالم تھاکہ مذکورہ ادارہ کے ملازمین نے بتایاکہ مسلکی تعصب کی بناء پروہ ادارہ کی کنٹین میں چائے کی ایک پیالی پینے کا روادار نہ تھا ۔ وہ جائے وقوعہ پرکیسے پہنچا ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کہانی سنئیے : یہ شخص ’ بابا ‘ کے پا س تعویذ لینے گیا تھا واپسی پر گزرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ! اور بابا کا آستانہ اور جائے وقوعہ میں مشرق ومغرب کا بْعد پایا جاتاتھا مگر قانون نافذ کرنے والوں کا اصرار تھا کہ ہم تحقیقات کرچکے ہیں ۔ یہ شخص اس واقعہ میں ملوث نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ تحقیقاتی کمیٹی بننے سے پہلے ہی طے پاچکا تھا ۔ اب ایس ایس پی صاحب کی زیرنگرانی تین پولیس افسروں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا انہوں نے شہداء اور زخمیوں کے لواحقین سے رابطہ کرکے اپنی تحقیقات کے پھول کچھ اس طرح نچھاور کئے :
’’عام لوگوں کو چونکہ اس قسم کے واقعات کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا تو وہ ایک آدھ آپشن پر ہی غور کرتے ہیں اور کسی ایک تنظیم یا شخصیت پر ان کی سوئی اٹکی رہتی ہے مگر ہمارے سامنے روزمرہ بہت سے پیچیدہ کیس آتے رہتے ہیں اس لئے ہمارے ذہن بہت وسیع ہوتے ہیں اور ہم بیک وقت بہت سے امکانات  Options  پیش نظر رکھ کر غور کرتے ہیں ۔ اسمیں ساٹھ، ستر فیصد امکانات مخالف مذہبی فرقے کے بھی ہوسکتے ہیں مگر وہ لوگ پبلک مقامات کو نشانہ نہیں بناتے ۔ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور یہ کاروائی پبلک مقام پر ہوئی اور کاروائی کا یہ اسٹائل ’’ القاعدہ ‘‘ کا ہے لہذا معلوم ایسا ہوتاہے کہ القاعدہ والوں نے مخالفین کو کوئی پیغام دینے کیلئے یہ دہشت گردانہ کاروائی کی ہے‘‘ ۔
اصل بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص امریکہ مخالف قوتوں کو کچلنے کا ٹارگٹ حکمرانوں کو دیا گیا ہے ۔’’ مراعات ‘‘اور ’’ چمک ‘‘ سے متاثر ہوکر بھی اگر کوئی لیڈر یا عالم دین اپنے مزاحمتی کردار سے دستبردار نہ ہو تو گولیوں سے چھلنی کرکے اس سے چھٹکا را بھی حاصل کرلیا جائے اور دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بھی بنا دیا جائے ۔ اور مخالف مذہبی گروپ کی عبادت گاہ پر حملہ کی پلاننگ سی آئی اے کی زیر نگرانی اسطرح کی جائے کہ علاقائی ، لسانی یا مذہبی رنگ ابھر کر سامنے آئے اور اسکی آڑ میں پھر امریکہ مخالف اداروں یا افراد کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بناکر مزعومہ مقاصد حاصل کئے جائیں یہی وجہ ہے کہ ایک اقلیتی فرقہ کی شخصیت یا عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والے فورا گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ امریکی لابی سے تعلق رکھنے والوں پر حملہ آوربھی بہت جلدی گرفتار ہوجاتے ہیں اور صدر صاحب پر حملہ کو دوسال گزرنے کے باوجود اب تک گرفتاریاں جاری ہیں ۔ اور ہر گرفتار یا پولیس مقابلہ میں مارا جانے والا ’’ ماسٹر مائنڈ ‘‘ سے کم نہیں ہوتا مگر اسلام آباد سے لیکر کراچی تک علماء کرام اور مفتیان عظام کے قاتل نامعلوم ہی رہے اور ایک مکھی بھی گرفتار نہ ہوئی اور تحقیقات صحیح رخ پر جاری ہیں اور اگر کہین غلط رخ پر چل نکلیں توF B I    والے آکر اسے صحیح رخ پر ڈالدیتے ہیں ۔ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزہ پر نتیجۃً خربوزہ ہی ذبح ہوتاہے ۔ 

تحریر: مفتی عتیق الرحمن  صاحب   



مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ  ۔۔۔۔۔ایک تابندہ ستارہ  
تحریر: ابن مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ  
دین اسلام اللہ تعالیٰ کاوہ آخری پیام ہےجوپورے عالم کی ہدایت اورپوری انسانیت کی اصلاح وفلاح ونجات کےلئے آیاہے حضرت محمدﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جن کے دائرہ نبوت کوہرزمان ومکان پرمحیط اورابدالاباد تک دوام بخشاگیاہے رسول کریم ﷺنے اس کارِرسالت کی ادائیگی اوردین کی دعوت کوعام کرنے کیلئے جن فرائض نبوت سے نوازاہے ان کاتذکرہ قرآن کریم میں کئی مقامات پرکیاگیاہے حضورﷺنے اللہ تعالیٰ کے اس آخری پیام کوپہنچانے کاپوراپوراحق ادافرمایااورعالم کوہدایت سے بقعئہ نوربنادیااورامّت کونیابتہََ یہ فرائض سونپ کرتشریف لے گئے اورہرزمانے میں نسلاََبعدنسل امّت ان فرائض کوادکرتی رہی اورقرون اولی سے لیکرابتک دین کی سرسبزی واشاعت انہیں فرائض کی بجاآوری کیلئے جہدوجہادسے باقی وقائم رہی اسی سرفروش جماعت کے ایک حدی خواں میرے والدماجدشہیدؒ  بھی تھے ۔
ان کی پیشانی علم ،وتقویٰ ،زہدوقناعت ،خلوص وللہیت،تعلق مع اللہ ،محبت الٰہی ،خشیت الٰہی ،حبّ اللہ کے نورسے چمکتی تھی وہ سنت کے کمال ِاتباع کے ساتھ متّصف اورحبّ نبویﷺمیں ڈوبے ہوئے ،دین کی محبت وحفاظت کے نشے میں سرشاراورکفروضلالت ،الحادومعصیت کے ہرزرہ سے بیزارتھے وہ اسلام کے دفاع میں جان کی بازی لگانے اورجہادوقتال فی سبیل اللہ کےلئے عملی میدان میں جانے کیلئے بیتاب رہتے تھے وہ دنیاوی جاہ ومنصب ،مال ودولت ،عز ت وشہرت ،نام ونمود ،ذاتی آرام وآرائش سے کنارہ کش اوراللہ کی رضاکے جذبہ میں مگن ان صلٰوتی ونسکی ومَحیایَ ٰومَمَاتِی لِّلہ رَبِّ العَالَمِین کاپیکرتھے اگران کےظاہری اعمال وکردار احکام الہٰی اورسنّت نبوی ﷺمزین تھے توان کاسینہ علوم نبوت سے معموراوران کادل معرفت الٰہیہ حبّ الہٰی اورحبّ نبویﷺ سے منورتھاگویاان کےظاہری اورباطنی ا عمال سیرت طیبہ کے انوارکےآئینہ دارتھےاورمنہاج نبّوت پراستقامت ان کاامتیاز تھاوہ ظاہروباطن کے جامع علم وعمل کے پیکر،مدرسیّت وخانقاہیّت کی یکجائی کے مظہر،معقولات ومنقولات کے بیک وقت بحرذخار،رات کو عابدشب زندہ دار،د ن کودفاع حق میں تیغ آب دار،تدریس کے علوم کے وقت ان سے یعلمہم الکتاب والحکمۃ کی جلوہ ریزیاں نمایاں اورتربیت نفوس کے وقت ویزکیہم  کی نورافزئیاں پھوٹتی تھیں گویاں وہ بیک وقت کمالات دینی کامجمع البحارتھے ،
تاریخ پیدائش:
6جون 1949ء کو صوبہ سندھ کے مشہور علاقے مورو کے مضافات ’’گوٹھ عبداللہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کا نام محمد الیاس مدنی رکھا جس کی نسبت غالباً عالمگیر تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی طرف ہے جبکہ آپؒ کے والد محترم نے آپؒ کا نام ہندوستان کے عظیم عالم دین مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے نام پر عتیق الرحمن رکھا بعد میں یہی نام مشہور ہوا اور محمد الیاس مدنی پسِ منظر میں چلا گیا۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے صاحبزادے جو صاحب طرز ادیب بھی ہیں ایک مرتبہ پاکستان کے دورے کے موقع پر حضرت والد صاحبؒ سے ملے اور کہا جب میں نے سنا کہ میرے والد محترم کے بعد ایک اور مفتی عتیق الرحمن بھی دینی خدمات میں معروف ہوئے ہیں تو دل میں آپؒ سے ملاقات کا شوق جاگزیں ہوا۔ جب والد صاحبؒ نے انہیں بتایا کہ میرا نام آپ کے والد محترم ہی کے نام پر رکھا گیا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔
خاندانی پس منظر:
حضرت دادا جان رحمۃ اللہ علیہ تقسیم ہند سے پہلے جالندھر میں تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہاں سے پنجاب کے علاقے چشتیاں تشریف لائے۔ پھر وہاں سے سندھ میں مورو ضلع نوابشاہ کی طرف ہجرت کی جہاں والد صاحب کی پیدائش ہوئی۔ دادا جانؒ پیشہ کے اعتبار سے کھیتی باڑی کیا کرتے تھے مگر قرآن کی خدمت کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے حفظ کی کلاس بھی پڑھاتے تھے۔ حضرت دادا جانؒ جیّدعالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اور اپنے نام کے ساتھ ’’خادم‘‘ تخلص لگاتے تھے ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا:
تمنا ہے یہی خادم کبھی یہ آس پوری ہو
شروع الحمد سے ہو کر کبھی والناس پوری ہو
حضرت دادا جانؒ حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے زمانے میں خیر المدارس میں بھی مدرس رہے تھے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ نوابشاہ میں رہے۔ پھر سکھر تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا۔ 
حضرت دادا جانؒ کے انتقال کے وقت حضرت والد صاحب شہیدؒ کی عمر سترہ سال تھی۔ جبکہ دادی جان کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا جب آپ کی عمر صرف چھ سال تھی۔
بھائیوں میں والد صاحبؒ کے علاوہ تین بھائی اور ہیں جو الحمدللہ حیات ہیں۔ سب سے بڑے بھائی مولانا حافظ عبدالشکور صاحب،ان کے بعد منجھلے بھائی حافط محمد یونس صاحب، اور ان کے بعد مولانا پروفیسر عبدالرحمن مجاہد صاحب ہیں آخر میں حضرت والد صاحبؒ تھے۔ بھائیوں کے علاوہ دو بہنیں بھی ہیں۔
تعلیم و تدریس:
والد صاحبؒ نے حفظ قرآن حضرت دادا جانؒ کے پاس شروع کیا اور تکمیل بڑے تایا مولانا عبدالشکور صاحب کے پاس ہوئی۔ اس کے بعد اسکول کی تعلیم شروع فرمائی۔ 1971ء میں انٹر پاس کیا۔ اور پھر تبلیغی جماعت میں چار مہینے لگائے۔ اسی دوران تبلیغی جماعت کے امیر بھائی عبدالوہاب صاحب کے مشورے سے دینی تعلیم شروع فرمائی۔ حضرت والد صاحبؒ اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ میں جس زمانے میں مدرسہ عربیہ رائیونڈ میں پڑھتا تھا تو اس وقت کچھ اسباق پڑھایا بھی کرتا تھا اس زمانے میں مبلغ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہم کالج سے نئے نئے مدرسہ کی طرف پڑھنے کیلئے آئے تھے اور میں انکی کلاس میں پڑھانے جاتا تھا۔ابتدائی درجات مدرسہ عربیہ رائیونڈ ہی میں پڑھے۔ مشکوۃ کے سال اوکاڑہ میں حضرت مولانا عبدالحنان صاحب تاجکیؒ کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوا تھا جب رائیونڈ کے بزرگوں سے مشورہ کیا تو وہ ناراض ہوگئے۔ لیکن والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ میں پھر بھی وہاں چلا گیا، وہاں جاکر داخلہ لیا اور مشکوٰۃ شریف کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس زمانے میں مولانا عبدالحنان تاجکیؒ کے ساتھ مولانا عبدالقدیمؒ اور مولانا عبدالقدیرؒ بھی تھے۔ والد صاحبؒ ذہین اور پڑھنے کے شوق کی وجہ سے سب استادوں کے منظور نظر بن گئے۔
جامعہ انوریہ اوکاڑہ کے ابتدائی دنوں کا واقعہ اکثر بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ مولانا عبدالقدیم صاحبؒ کے پہلو میں نمازِ عصر پڑھنے کا موقع ملا۔ سلام پھیرنے کے بعد تسبیحات فاطمہ میں مشغول ہوگئے میں نے دیکھا کہ استاذ محترم عام طریقہ سے شمار نہیں کررہے تھے بلکہ کبھی انگلیوں کو بند کرتے تو کبھی کھولتے، مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی یہ ’’عقدانامل‘‘ انگلیوں پر شمار کرنے کا مسنون طریقہ ہے جسکی مجھے ایک عرصہ سے تلاش تھی۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میں نے جب دینی تعلیم کی ابتدا کی تھی تو تیسیرالمنطق میں دلالت وضعیہ غیرلفظیہ کی مثال میں ’’عقود‘‘ کا لفظ پڑھا تھا جو سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اسی روز سے میں اس تلاش میں تھا کہ کسی طرح اس کی تفصیل معلوم کرسکوں۔ چنانچہ آج استاذ محترم کے تسبیحات شمار کرنے کے انداز نے میرے دل کے نہاں خانے کی اس الجھن کو پھر تازہ کردیا اور میں کن انکھیوں سے استاذ محترم کی انگلیوں کی نقل وحرکت کو بغور دیکھتا رہا جسے غالباً وہ بھی بھانپ چکے تھے۔ دعا کے بعد تمام نمازی یکے بعد دیگرے مسجد سے نکلنے لگے۔ مدرسہ کے طلبا بھی جاچکے تھے مگر میں حضرت کے پہلو میں گومگوں کی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔
’’تم جاتے کیوں نہیں…؟‘‘ حضرت کی توجہ اور سوال نے میرے لئے بولنے کا راستہ کھول دیا ’’میں عقدانامل سیکھنا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ استاذ صاحبؒ نے فرمایا میرے نصف صدی کے دورِ تدریس میں آج تک کسی طالب علم نے یہ سوال نہیں کیا! تمہیں کس طرح اسکا خیال آیا…؟ حضرت کے انداز سے شکوہ اور آمادگی عیاں تھی ’’میں سالِ اوّل سے اس بارے میں الجھن کا شکار ہوں۔اساتذہ کرام یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ یہ شمار کرنے کا ایک مشکل طریقہ ہے۔ آج آپ کو دیکھ کر مجھے موقع ملا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ ضرور میری رہنمائی فرمائیں گے‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور امید بھری نظروں سے حضرت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ایسا بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو بہت آسان ہے اور نبیﷺ کی سنت بھی کبھی مشکل ہوا کرتی ہے…؟ ’’دیکھو…! اسکا طریقہ یہ ہے‘‘اور پھر ایسے دلنشین پیرائے میں حضرت نے سمجھایا کہ میں تیسرے دن ہی تسبیحات کو مسنون طریقہ پر شمار کرنے لگا۔
حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ سے بیعت بھی فرمائی اور بعد میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ دورہ حدیث کے سال میں اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے لیے کراچی میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون تشریف لائے۔ یہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ کا آخری سال تھا 1977؁ء میں دورہ حدیث سے سند فراغت حاصل کی۔ پھر اپنے اساتذہ خصوصاً حضرت مولانا یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا ادریس میرٹھیؒ کے مشورے اور دعائوں سے ٹنڈو آدم کے تبلیغی مرکز و مدرسہ مدینۃ العلوم میں تدریس کا آغاز فرمایا۔ اسی دوران دل میں افتا کا داعیہ پیدا ہوا اور عظیم محقق اور فلسفہ شاہ ولی اللہ کے امین حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحبؒ سے نہ صرف مقدمہ شامی اور رسم عقود المفتی کا درس حاصل کرنا شروع فرمایا بلکہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی نگرانی میں فتاویٰ جات کی مشق بھی کی اور مدینۃ العلوم میں باقاعدہ دارالافتا قائم کر کے حضرت ہی کی نگرانی میں مسائل کے جواب لکھنے شروع فرما دئیے۔ ان فتاویٰ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ حضرت والد شہیدؒ کی علمی پیاس نے آپؒکو تدریس کے منصب سے اٹھا کر الجامعۃ الاسلامیہ المدینۃ المنورہ (مدینہ یونیورسٹی)پہنچا دیا۔ اور 1981ء سے 1985ء تک وہاں رہ کر علوم تفسیر و قرأت کی تکمیل کی اور ڈاکٹریٹ کی سند لے کر پاکستان تشریف لے آئے۔ اور دوبارہ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
 والد صاحب وہاں کے ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ اس وقت وہاں مدرسہ کی جگہ جنگل تھا۔ نہ کوئی استاذ نہ کوئی شاگرد والد صاحب نے بڑے ہی مشکل حالات میں محض اﷲ تعالیٰ کے بھروسے اور اپنے اساتذہ کرام کے حکم سے وہاں پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں ایک طالب علم ملا۔ جسکا نام بن یامین تھا۔
وہاں پر تنخواہ صرف تین سوروپے تھی۔ آپ نے محنت شروع کی اور آپکی شبانہ روز محنت ولگن سے یہ معمولی سا بے نام مدرسہ ترقی کی منازل طے کرکے جامعہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ جب والد صاحبؒ نے اس مدرسے کو چھوڑا تو وہاں درجہ حفظ کی دس کلاسز اور درجہ سابعہ تک کتب کی تعلیم دی جارہی تھی۔ ٹنڈوآدم چھوڑنے سے ایک سال قبل وہاں کی ایک مسجد جس کا نام ’’پٹھان مسجد‘‘تھااس پر بریلویوں کے قبضہ گروپ ونگ نے ناجائز قبضہ کرلیا۔ حضرت والد صاحبؒ کب یہ برداشت کرنے والے تھے…؟ آپؒ نے مدرسہ کے طلبا اور مسلکِ حق کے افراد کو لیکر مسجد کا قبضہ چھڑایا۔ بدعتیوں نے مزارات کا پیسہ کھلا کر تھانے میں والد صاحبؒ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ پولیس نے چھاپے مارنے شروع کردئیے پر والد صاحبؒ انکے ہاتھ نہ لگے۔ اسوقت ٹنڈوآدم کا ڈی سی متعصب قسم کا شیعہ اور والد صاحبؒ کا سخت مخالف تھا جس نے موقع پاتے ہی سخت آرڈر جاری کردئیے اور اس کیس میں خصوصی دلچسپی لینا شروع کردی۔ اتفاق سے ٹنڈوآدم کا ایک سابق وزیر والد صاحبؒ کا معتقد تھا اس کو جب معاملے کی اطلاع ملی تو فوراً والد صاحبؒ سے ملا اور شہر کی انتظامیہ کے درمیان ثالث بنتے ہوئے کیس کو کافی حد تک ٹھنڈا کروا دیا مگر ڈی سی قانون کا ناجائز سہارا لیکر اپنی انا پر اڑا رہا۔ اﷲ کا نظام بھی عجیب ہے یہاں اس نے آرڈر جاری کیے اور وہاں فرشتے اسکی موت کے فرمان پر دستخط کرچکے تھے۔ ہوا یوں کہ یہ کسی کام سے اپنی گاڑی میں کراچی نکلا اور راستے میں ا یسا بھیانک ایکسیڈنٹ ہوگیا کہ باوجود تلاش کے اس کی لاش کے اعضا مکمل نہ ہوسکے۔ بہرحال اس تمام معاملے سے ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ مدرسہ کا مہتمم پیٹ کا پجاری اور بزدل ترین انسان ہے جسے مسلک کے تحفظ اور علما کے تقدس سے کوئی سروکار نہیں چونکہ والد صاحبؒ انتہائی خوددار اور دین ومسلک پر جاں نثار تھے اس لیے اس جگہ سے آپکا دل اٹھ گیا اور اہل علاقہ کے لاکھ اصرار کے باوجود آپؒ استعفیٰ دیکر کراچی تشریف لے آئے اور حضرت لدھیانوی شہید ؒکے حکم سے جامع مسجد شادمان ٹاؤن میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ پھر آپ نے یہاں درس قرآن شروع فرمایا تو چہار دانگ عالم میں اسکا شہرہ ہوگیا او رلوگ دور دور سے درس سننے آنے لگے۔ جسکی وجہ سے کچھ اپنوں اور کچھ مودودی خیالات کے حامل لٹیروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے کیونکہ آپکے درس سے انکے مکروہ چہرے عیاں اور اسلام کے نام پر دھوکہ دینے والی ’’جماعتِ بے ایمانی‘‘ کی کارستانیاں نہاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ انہوں نے والد صاحبؒ کے خلاف بے وجہ محاذ کھول دیا۔ مسجد کے چندے پر پلنے والی کمیٹی کے چند ارکان کو لیکر والد صاحبؒ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’آپ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں اس لیے اپنا بندوبست کہیں اور کرلیں‘‘ والد صاحبؒ نے انہیں سمجھایا کہ فرقہ واریت اور حق خودارادیت میں زمین وآسمان کا فرق ہے تم ثابت کردو کہ میں فرقہ واریت پھیلا رہا ہوں تو میں آج ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں اور اگر تم حق بات کے اظہار کو فرقہ واریت سمجھتے ہو تو میں یہ ’’جرم‘‘ کرتا رہوں گا مجھے کسی کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں۔ والد صاحبؒ کی مدلل بات سے انکے منہ لٹک گئے فوراً پینترا بدل کر بولے ’’اجی آپ نے ہمیں اپنی اسناد تو دکھلائی ہی نہیں ہم  آپ کو عالم کیسے مانیں…؟‘‘ والد صاحبؒ نے کہا بحمدﷲ میرے پاس تمام اسناد موجود ہیں میں انہیں نکالتا ہوں تم مجھے پڑھ کر سناؤ اگر ایسا نہ کرسکے تو میں دس دس جوتے تمہارے سروں پر ماروں گا۔ وہ لاجواب ہوکر چلے گئے۔ مگر چین سے بیٹھنے والے کہاں تھے…؟ دھمکیوں اور اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔ جب والد صاحبؒ درسِ قرآن کیلئے بیٹھتے تو رخنہ اندازی شروع ہوجاتی۔ ان میں ایسے بدباطن وخبیث النفس لوگ بھی تھے جو قرآن کو اٹھا کر ایک طرف پھینکنے سے بھی نہ چوکتے۔ ہماری آنکھوںمیں آج سے چودہ سوسال پہلے کا نقشہ گھوم گیا جب آنحضرت ﷺ اپنی زبان مبارک سے تلاوت فرمارہے ہوتے تو عرب کے تمام مشرک جمع ہوکر کہتے کہ ’’خدارا…! جو کچھ تمہیں چاہئے لے لو۔ قرآن کے ذریعے ہماری دل آزاری نہ کرو بلکہ کوئی اور قرآن لے آؤ‘‘۔
بہرکیف ایک لسانی تنظیم کے چند غنڈے انکے ساتھ مل گئے اور طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ تاریخ نے بھی عجیب منظر دیکھا کہ دو پیدائشی حریف آج قرآن کی صدا کو روکنے کیلئے سیروشکر ہوگئے تھے اور پھر ان میں سے ایک فریق تو وہ تھا جو ’’تفہیم قرآن‘‘ بغل میں دابے کالجز ویونیورسٹیز کے طلبا کو بیوقوف بنایا کرتا تھا۔ جب معاملہ بہت زیادہ گھمبیر ہوگیا تو حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید، ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہید، مفتی عبدالسمیع شہید، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید، مفتی جمیل خان شہید رحمہم اﷲ اور مفتی محمد نعیم، مولانا حلیم الرحمن قریشی، مولانا احمدمدنی، قاری عثمان، مولانا فیض محمد نقشبندی اور دیگر جید علمائے کرام اس حق میں تھے کہ چند ایک بے دینوں کیوجہ سے درس قرآن کو نہ چھوڑا جائے چنانچہ اس سلسلے میں ڈی سی آفس میں فریقین کے مابین علما کی کمیٹی بنائی گئی اور چار ایسے غیر متنازع علمائے کرام (مولانا اسد تھانوی، مولانا عبدالحلیم قریشی، مولانا آصف قاسمی اور مولانا ہارون مطیع اﷲ) کا انتخاب ہوا جو اس تمام معاملے کی چھان بین کرکے فیصلہ کرنے کے مجاز قرار پائے۔ مگر جس طرح ہر دور میں اہل حق کو ہمیشہ اپنوں نے ہی زک پہنچائی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ آصف قاسمی صاحب رقم سے بھرے بریف کیس کو دیکھ کر فیصلہ دینے سے مکر گئے۔ والد صاحب نے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر درس قرآن دوبارہ شروع کردیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے قریب عرصہ اس کشمکش میں گزر گیا۔ آخرکار جب پانی سر سے گزر گیا اور ہمیں کرائے کے غنڈوں کیوجہ سے کسی بڑے حادثے کے اشارے ملنے لگے، یہ دین دشمن ٹولہ ہمارے گھر کا محاصرہ گیر ہوگیا اور بات بجلی، پانی، گیس وفون کے کنکشن منقطع کرنے تک جاپہنچی تو والد بزرگوارؒ کسی بڑے تصادم سے گریز کرتے ہوئے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر جناب مفتی محمد نعیم کی درخواست پر جامعہ بنوریہ عالمیہ تشریف لے آئے اور تادم شہادت یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
 قبل ازیں 1980ء کے وسط میں آپؒ نے پاک و ہند میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سال لگایا تھا۔ اساتذہ کرام کی تربیت اور راہ خدا میں ایک سال لگانے کی وجہ سے آپؒ پر عمل اور تقویٰ کا رنگ اس قدر غالب آچکا تھا اور فقہ حنفی کی محبت اس طرح رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کا تقلید سے آزاد اور فقہ حنفی سے بیزار کر دینے والا ماحول بھی آپؒ کے نظریات و عقائد اور ظاہر و باطن میں ذرا تبدیلی نہ لا سکا۔ بلکہ دوران تعلیم آپ کی شہرت ’’وکیل احناف‘‘ کی حیثیت سے ہوگئی اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ آپؒ نے اپنے قوت حافظہ، مضبوط استدلال اور موثر اندازِ تکلم سے اپنے اساتذہ کو بھی فقہ حنفی کی جامعیت وہمہ گیریت کا قائل بنا دیا آپؒ اکثر ان واقعات کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اپنے مسلک و مذہب اور نظریہ و عقیدہ پر اس طرح ڈٹ جائو کہ پھر کوئی قوت بھی تمہیں اس سے نہ ہٹا سکے۔
1989ء میں ایک مرتبہ پھر حضرت والد صاحب شہیدؒ یورپ کے ممالک اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں ایمان و ایقان اور تقویٰ و انابت کی دعوت لے کر گئے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سال لگایا۔ اس دوران تقریباً سو کے قریب افراد نے آپؒ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔
وعظ و خطابت:
حضرت والد صاحب شہیدؒ کو مالک لم یزل نے خطابت کا ملکہ ابتدا سے ہی ودیعت کر رکھا تھا۔ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ترقی ہوئی بلکہ سوز دل اور فکر باطن کی وجہ سے اس کی اثر پذیری میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ آپؒ کا بیان مختلف، مؤثروبلیغ خطبوں اور دھیمے انداز سے شروع ہوتا  پھر آہستہ آہستہ اس میں جذبات کا عنصر شامل ہوتا چلا جاتا تھا۔
حضرت والد صاحب شہیدؒ خطیب ایشیا مولانا ضیاء القاسمیؒ اور شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ صاحب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ آپؒ انتہائی سادگی و بے باکی سے حق بات اس موثر انداز میں بیان کر جاتے تھے کہ سامعین کے کانوں کے راستے سے وہ بات دل میں جاں گزیں ہو جاتی اور اسپر مستزاد آپؒ کا والہانہ انداز سامعین میں عمل کی تحریک پیدا کرتا تھا۔
آپؒ اپنے بیان کو برمحل آیات قرآنیہ، احادیث طیبہ، ضرب الامثال و واقعات اور اردو، عربی، فارسی اشعار سے مزین کرتے تھے۔ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے وقت کے اندر رہ کر ما فی الضمیر کے اظہار کا خصوصی ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔ آپؒ سامعین کی علمی استعداد، طلب اور موقع کی مناسبت سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ جب آپؒ بولنا شروع فرماتے تو ایک سماں سا بندھ جاتا اور یہ محسوس ہوتا کہ الفاظ و مطالب آپؒ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ برجستہ گوئی آپؒ کا خاص وصف تھا۔ عملی طور پر مناظر ہونے کی وجہ سے ہر فورم پر آپؒ اپنے طرز استدلال اور قوت دلائل سے چھا جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی اجلاسوں، مقتدر دینی حلقوں کی میٹنگوں اور عوامی اجتماعات کے آپ فاتح سمجھے جاتے تھے۔
تحریروتصنیف:
حضرت والد صاحب شہیدؒ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کے میدان کے بھی شناور تھے۔ آپؒ کو اگرچہ ضخیم کتابوں کی تصنیف کا موقع نہ مل سکا تاہم آپؒ نے روزے، قربانی، تراویح اور زکوٰۃ وغیرہ پر مختصر اور مفید کتابچوں کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل میں کالم و مضامین لکھے ۔ روزنامہ اسلام میں ’’مقابل ہے آئینہ‘‘ کے عنوان سے آپؒ کے مستقل کالم شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ آپؒ نے بے شمار مقالات، کتب پر تقاریظ اور علمی مقدمات بھی لکھے ہیں۔ ماہنامہ ’’البنوریہ اور  ہفت روزہ اخبار المدارس‘‘ میں بھی بڑی تعداد میں آپؒ کے تبصرے اور مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپؒ کی ذات بابرکات میں مدبر و مفکر، مقرر و خطیب، اور قلم کاروا دیب کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور کسی ایک صفت کو ترجیح دے کر آپؒ کو اس کی طرف منسوب کرنا نسبتاً آسان نہیں آپؒ کا اکثر وقت مطالعہ کتب میں صرف ہوتا تھا۔ یہ اسی کثرت مطالعہ کا نتیجہ تھا کہ ہر موضوع پر آپؒ کی گرفت کافی مضبوط ہوتی تھی۔ تاریخ اسلام آپؒ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ آپؒ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں تاریخ کی روشنی میں دوست و دشمن کو پہنچاننا چاہیے۔ یوں تو آپؒ نے مختلف دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دئیے لیکن جامعہ بنوریہ سے آپؒ کو قلبی تعلق تھا۔ آپؒ نو سال سے جامعہ بنوریہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس دوران کتب حدیث وقفہ کے علاوہ مختلف اوقات میں تخصص فی الفقہ اور تخصص فی التفسیر اور تجوید کے شعبہ جات بھی آپؒ کی نگرانی میں رہے۔ طالبات کو تخصص کی تعلیم دینے کا آغاز بھی آپؒ کی زیر نگرانی ہوا۔ گونا گوں مصروفیات کے باوجود آپ تفہیم حدیث کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہن سازی بھی کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے اکابر اسلاف کے کارنامے اور واقعات اور اپنے مشاہدات و تاثرات بڑے دلنشین انداز میں سنا کر طلبہ میں ذوق و عمل اور جدوجہد کا داعیہ پیدا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے:
’’کالج کے زمانے کی بات ہے۔ بزم طلبہ نے ایک ڈرامہ اسٹیج کرنیکا پروگرام بنایا اور مجھ سے کہا کہ آپ ’’ناصح‘‘ کا کردار ادا کریں۔ عام طور پر ڈرامے جن مقاصد کیلئے پیش کئے جاتے ہیں انہوں نے ان کے منفی پہلو کو اتنا غالب کردیا ہے کہ صحت مند معاشرہ میں یہ لفظ بدنام ہوکر رہ گیا ہے اور پھر وہ ڈرامہ بھی مخلوط تھا میں نے معذرت کرلی کہ میں ڈرامہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ اس میں کسی کردار کو اپنے لئے پسند کروں!؟ مجھے سمجھایا گیا کہ آپ کو اس میں کچھ نہیں کرنا ہوگا بس جب وقت آئے گا تو ’’ناصح‘‘ کے چند بول بول کر آپ فارغ ہوجائیں گے۔ پہلے یا بعد میں یا ڈرامہ پیش کرنے کے دوران دوسرے کرداروں کے ساتھ آپ کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ میں نے سختی سے انکار کردیا کہ میں ’’ڈرامہ کا کردار ’’جیسا گھٹیا لفظ اختیار کرکے ’’نصیحت‘‘ جیسے پاکیزہ اور انبیائے کرام علیہم السلام والے عمل کو بازاری جنس نہیں بنانا چاہتا‘‘۔
 آپؒ علما و طلبہ اور عوام و خواص میں یکساں مقبول تھے۔ آپؒ کے اخلاق ایسے تھے کہ پہلی ہی ملاقات میں ہر شخص گھل مل جاتا تھا۔ طلبا تو بلا جھجک آپؒ سے اپنے ہر طرح کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ لیا کرتے تھے۔آپؒ کو خوابوں کی تعبیر بتلانے پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپؒ ایک رقیق القلب اور مخلص انسان تھے اکثر و بیشتر امت مسلمہ کی زبوں حالی پر متفکر رہاکرتے تھے۔ کسی مخصوص جماعت سے منسلک نہیں تھے۔ لیکن سب کی سرپرستی فرماتے تھے اور سب کو دعائوں میں یاد رکھتے تھے۔ عالمی استعمار ہو یا امریکی وحشیت و بربریت، حکومتی خرمستیاں ہوں یا تنظیمی بے اعتدالیاں سب پر حقیقت پسندانہ تنقید کرتے اور اصلاح احوال کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ فرقہ واریت کی اصطلاح کے غلط استعمال پر اکثر اظہار خیال کرتے تھے۔ شہادت سے چند روز قبل اسلام آباد کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اسی حوالے سے مفید اور قابل عمل تجاویز بھی دی تھیں۔ باطل نظریات کا علمی تعاقب مثبت اور موثر انداز میں کیا کرتے تھے۔ مصلحت پسندی اور کتمان حق کو جرم عظیم تصور کرتے اور اس کو امت مسلمہ کے لیے مضر و مہلک قرار دیتے تھے۔ آپؒ تبلیغ و جہاد کا حسین مرقع تھے۔ اہل حق کے باہمی اختلافات کو نقصان دہ سمجھتے اور حتی الوسع باہمی اتحاد و یگانگت کے لیے کوشاں رہتے۔
مشہور اساتذہ کرام!
آپؒ نے علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ادریس کاندھلویؒ، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانا فضل محمد سواتیؒ، مولانا معاذ الرحمنؒ، مولانا بدیع الزماںؒ، مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ، مولانا مفتی احمدالرحمنؒ، مولانا عبدالحنان تاجکیؒ مولانا عبدالقدیمؒ مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ مولانا جمشید علی شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ رائے ونڈ اور مولانا احسان الحق دامت برکاتہم العالیہ سے مختلف اوقات میں فیض حاصل کیا۔
اجازت حدیث:
حضرت والد صاحبؒ کو حضرت مولانا یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا قاری طیب قاسمیؒ، مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ، حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے حدیث کی اجازت حاصل تھی۔
بیعت و خلافت :
حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ سے بیعت و خلافت ملی اس کے بعد حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے تجدید بیعت فرمائی۔
واقعہ شہادت:
14جمادی الاوّل 1426ھ بمطابق 23 جون 2005ء بروز جمعرات بعد نماز عشا مدینہ مسجد برنس روڈ سے درس قرآن دے کر واپس تشریف لا رہے تھے کہ مسجد کے قریب ہی پہلے سے گھات لگائے اسلام دشمن قوتوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ جس کے نتیجے میں حضرت والد صاحبؒ موقع پر ہی شہید ہوگئے اور آپ کے رفیق خاص بھائی ارشاد شدید زخمی ہوگئے جو اگلے روز زخموں کی تاب نہ لاکر اﷲ تعالیٰ سے جاملے اور میرا کمسن بھائی عمار عتیق زخمی ہوگیا۔


وہ گاڑی جس میں حملے کے وقت حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید سوار تھے




یہ خون سے لت پت وہ لباس ہے جو حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید نے حملے کے وقت پہن رکھا تھا جس سے آج بھی خوشبو آتی ہے



حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید کے جنازے کا ایک منظر



حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید کی آخری آرام گار کا ایک منظر

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

گذشتہ چند سالوں سے یو۔ٹرن (U.TURN ) کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا ہے ۔ خصوصاً جب سے ہمارے جنرل صاحب نے ایک منتخب وزیراعظم کو انتہائی پیار ومحبت کے ساتھ بندوق کی نالی دکھا کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے اس وقت سے اس کے استعمال میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت کی ہر پالیسی میں یو ٹرن لینے کامطالبہ کیا جارہا ہے ۔

یو۔ٹرن رجعت قہقری یا الٹے قدموں واپس لوٹنے کو کہتے ہیں ۔ آپ جس سمت روانہ ہو ں اسکی مخالف سمت میں لوٹ جانا یوٹرن کہلاتاہے ۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ نصف صدی سے کچھ زیادہ عرصہ آپ جس رخ پر سفر کرتے رہے آج اس کے مخالف رخ پر سفر کرنے کیلئے آپ کو مجبور کیا جارہا ہے ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ قومیں اپنا سفر اگلی منزل کی طرف جاری رکھتی ہیں اور ہم جہاں سے چلے تھے ہمارے محافظ بندوق کی نالی پر ہمیں وہیں واپس لیجانے پر اصرار کررہے ہیں ۔

پاکستانی قوم کے حالات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسکی بنیاد ہی یوٹرن پر رکھی گئی تھی ۔ ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ نظریاتی بنیادوں پر ایک اسلامی مملکت کی تشکیل دیجارہی ہے جہاں کتاب وسنت کا دوردورہ ہوگا اسلامی نظام رائج ہوگا اور نوزائیدہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا پوری دنیا میں تحفظ کریگی مگر ہوا یہ کہ روزِاول سے ملک کو استعماری گماشتوں کے حوالہ کرکے فوج کی تعمیر وتشکیل انگریز ی خطوط پر کی گئی اور جنرل گریسی کی کمان میں ملکی پالیسیوں پر فوج کی گرفت مضبوط کرکے پاکستان کا نظام مملکت اس انداز پر چلایا گیا کہ نصف سے زیادہ زمانہ ایوان اقتدار بھاری بھر کم بوٹوں کی دھمک سے گونجتارہا اور آج بھی گونج رہا ہے جبکہ تقریباً نصف سے کچھ کم زمانہ سیاستدانوں کے پس منظر میں رہ کر فوج گل کھلاتی رہی ۔اور جب بھی کبھی قوم اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے لگی فوج نے غیر محسوس انداز میں اسے یوٹرن دیدیا ۔

فوج کا کام ملکی سرحدوں کا تحفظ ہوتاہے مگر یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ قائد اعظم کے فرمان کو پس پشت ڈالکر جنرل گریسی نے کشمیر ی مسلمانوں کی مدد سے صاف انکار کردیا ۔ پھر لیاقت علی خان کے دور میں یہی صورتحال دہرائی گئی ۔ پھر ایوب خان کے دور میں جیتی ہوئی جنگ ہار کر سیاہ تاریخ رقم کی گئی ۔ مشرقی محاذ پر جو کچھ ہوا وہ بھی کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔

اس لئے اس بات سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ہم پہلے دن سے ہی یوٹرن کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر ابتک یہ پالیسی صیغہء راز میں رکھی جاتی تھی اور ایوان اقتدار کے باسی اپنے اندر یہ کہنے کی جراء ت نہیں پاتے تھے کہ ملکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے ۔ مگر اب ہمارے پالیسی ساز ادارے اتنا ہوم ورک کرچکے ہیں کہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے خاکی وردی کی آڑ میں ہمیں یوٹرن کی نوید سنا سکیں ۔ آج سے دوسال قبل ہم نے جو یوٹرن لیا تھا اس کے اثرات اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جنہیں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتاہے :
۱۔ افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ۔
۲۔ معذوراور مفلوس الحال مسلمانوں کی فوج ظفر موج ۔
۳۔ افغانستان ،ایران وانڈیا کی جیلوں میں ہزاروں مسلمان قیدی جن میں پاکستانیوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی اذیتناک عقوبتوں سے دوچار ہے ۔
۴۔سرزمین شہداء پر قائم ہونیوالی طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ جسے دنیا کے مسلمان اپنے خوابوں کی تعبیر اور عالم اسلام کے دکھوں کا مداوا سمجھنے لگے تھے ۔
۵۔ سرزمین افغانستان پر قائم ہونیوالی پہلی پاکستان دوست حکومت کا خاتمہ ۔
۶۔سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلی ہوئی پاکستان کی شمال مغربی سرحد وں تک بھارت کی رسائی اور اسکے نتیجہ میں دشمن کے دونوں جبڑوں کے درمیان پورے ملک کا آجانا ۔
 ۷۔ افغان فوج کے ساتھ شمال سرحدوںپر پاک فوج کی باقاعدہ جھڑپیں ۔
۸۔افغانستان میں پاکستانی مفادات خاص طور پرپاکستانی سفارت خانوں پر حملے۔
۹ ۔افغانستان وایران سے متصل صوبہ بلوچستان میں بدامنی کی لہر اور اسکے نتیجہ میں ملکی تاریخ کی بدترین قتل وغارت گری  ۔
۱۰۔ صوبہ سرحد میں امریکی فوج کی زیر نگرانی اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کیلئے آپریشن ۔
۱۱۔پاکستانی قوم کو بیرون ملک اور اندرون ملک چھاپوں اور چیکنگ کی ذلت آمیز کاروائیوں کا سامنا ۔
۱۲۔ پاکستانی قوم کا اربوں ڈالر کا نقصان جسے امریکہ کے محتاط اندازہ لگانے والے اداروں نے دس ارب ڈالر سے زیادہ بتایا ہے ۔

اب امریکی بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ہم نے بغیر کسی ثبوت کے افغانستان پر چڑھائی کی اور ہمارے جنرل صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ جنگی جہازوں کی گھن گرج ۔آہن وآتش کی بارش اور لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر ہم نے جو امن کے گیت گائے تھے وہ صحیح نہیں تھے ۔ برلن کی پریس کانفرنس میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ افغانستان میں اتحاد یوں کی پالیسی غلط تھی اور یہ بھی اعتراف کیاہے کہ حامد کرزئی کے نام خط میں اس پالیسی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے ۔

 ایک درد مند اور محب وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ ملکی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرکے پوری قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے والے کیا امریکی قومی پرندے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا جان بوجھ کر دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنی قوم کو سوئے مقتل لیجارہے ہیں ۔

تحریر: مفتی عتیق الرحمن (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) استاذ جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی


چاہے آپ اسے کھاتے ہوں،پیتے ہوںیا پھرلگاتےہوں،آملہ (جسے بھارتی کرودا بھی کہا جاتاہے) آپ کی جلد، بال اور صحت کے لئے انتہائی فائدہ مند ہے۔ گوسو بیری (آملہ) کا رس کسی بھی قدرتی مصنوعات کی طرح عمر کوبڑھنے نہیں دیتا جبکہ اس کا پیسٹ آپ کے بالوں کے لئے حیرت انگیز کام کرسکتا ہے۔

سنسکرت میں اصل لفظ آ ملک ہے، اس سے ماخوذ اردو میں آملہ مستعمل ہے۔ یہ ایک قسم کا کسیلا اور ترش پھل ہے جو رنگ میں انگور سے مشابہ اور جسامت میں آلوچے کے برابر ہوتا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ آملے کا کھایا اور بزرگوں کا کہا بعد میں پتا چلتا ہے یعنی ان دونوں میں جو فوائد پوشیدہ ہیں وہ آگے چل کر سامنے آتے ہیں۔آملہ میں قوت و توانائی کا خزانہ موجودہے۔ جو لوگ آملہ کا خوردنی استعمال کرتے ہیں وہ صحت کے ساتھ لمبی عمر پاتے ہیں۔ آملہ کا پھل گول شکل کا ہوتا ہے، گودا سخت اور موٹا ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس میں موجود وٹامن سی کی مقدار دنیا کے سبھی پھلوں سے زیادہ ہے۔ یہ وٹامن بہت جلد انسانی بدن میں جذب ہوکر صحت، قوت مدافعت بڑھانے اور درازی عمر میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

بالوں کی نشوونما

بالوں کی نشوونماکیلئے صدیوں سے آملہ کااستعمال رائج ہے، اس میں موجود کیلشیم بالوں کومضبوط اوررنگ کو سیاہ کرتا ہے، ا س کیلئے سوکھے آملوں کاپانی ابال کر بالوں کی جڑوں میں لگایاجاسکتا ہے جس سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہو تی ہیں ۔ آملوں کو پیس کر پانی میں بھگونے اورپھر اس پانی سے سردھونے سے بالوں کی سیاہی قائم رہتی ہے اور بال گرنے رک جاتے ہیں۔

جِلد کا رکھے خیال

آملہ کا استعمال جلد کے لئے بھی مفید رہتا ہے، یہ جلد کے داغوں کا خاتمہ کرتا ہے ،اس کے علاوہ جلد کی جلن دور کرنےمیں معاون ہوتاہے۔قدرتی طور پر خون صاف کرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے آملہ جلد پر دانوں اور کیل مہاسوں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتاہے۔اس کا پیسٹ آپ کے چہرے کے کیل مہاسوںیعنی پمپلز کو دورکرتاہے ۔ پمپلز سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئےپیسٹ کو 15سے20 منٹ کے لئےچہرے پر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ پمپلز کے نشانات کا علاج کرنے میں بھی مؤثر ہے اور جِلدکی معمول کی رنگت کو بحال کرنے میں مدد کرتاہے۔

اس کے علاوہ جلد کی جھریوں کا خاتمہ کرتا ہے، جلد کو شاداب اور چمکدار بناتا ہے۔اگر چہرے کو روزانہ آملے کے پانی سے دھویا جائے تویہ کیل مہاسوں اور دانوں سے پاک ہوکر پُر رونق ہوجاتا ہے۔

صاف و شفاف رنگت

آملہ میں اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی، آپ کی جِلد کی چمک بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ پھل آپ کی جِلد کوستواں اور مضبوط بنانےکے ساتھ ملائم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ آملہ پاؤڈر لیں، اسے گرم پانی میں ملا کر پیسٹ بنائیں ۔ اس پیسٹ کوچہرے پر ملیں اور پھر 3 سے 5 منٹ بعد دھولیں۔ مزید فائدہ حاصل کرنے کیلئے اس میں ہلدی ملالیں ۔ آملہ کے جوس میں ذراسا شہد ملا کر پینے سے آپ کو اپنی رنگت پہلے سے بہتر کرنے اور چہرے کو دمکانے میں مدد ملے گی۔

جِلد پر آملہ لگانے سے یہ ایک قدرتی ‘سن بلاک’ کا کام کرتا ہے اور جلد پر ایک تہہ بن جاتی ہے جو الٹرا وائلیٹ ریز سے بھی بچاتی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے آملہ کو باہر جانے سے 20 سے 30 منٹ پہلے لگالیں۔

غذائی فوائد

آملے کی زبردست قدروقیمت اس کے بڑے جزو، وٹامن سی کی وجہ سے ہے۔ مزید برآں اس میں کیلشیم فاسفورس، فولاد اور وٹامن بی بھی ملتے ہیں۔ آملہ کواستعمال کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے نمک کے ساتھ کچا کھایا جائے۔ یوں اس میں موجود وٹامن سی اور فولاد کم سے کم ضائع ہوتا ہے۔ آملہ کے دانے بطور سبزی بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ عموماً دوا کے کام زیادہ آتا ہے۔ آملہ میں موجودخاص قسم کاکیمیائی مادہ ہڈیوں کی نشوونما میں مدد کرتاہے۔ آملہ کومربہ، اچار اور سلاد کی طرح کھایاجاسکتا ہے جبکہ جگرکے مریض بھی ا س کواستعمال کرسکتے ہیں کیونکہ وٹامن سی اورپروٹین میٹابولزم میں اہم کام سرانجام دیتے ہیں۔ ا س لیے یہ جگر اورمعدے کو فعال کرنے اوروزن گھٹانے میں مددکرتا ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget