یوُ۔ٹرن کی پالیسی۔۔۔ نتائج اور ثمرات

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

گذشتہ چند سالوں سے یو۔ٹرن (U.TURN ) کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا ہے ۔ خصوصاً جب سے ہمارے جنرل صاحب نے ایک منتخب وزیراعظم کو انتہائی پیار ومحبت کے ساتھ بندوق کی نالی دکھا کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے اس وقت سے اس کے استعمال میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت کی ہر پالیسی میں یو ٹرن لینے کامطالبہ کیا جارہا ہے ۔

یو۔ٹرن رجعت قہقری یا الٹے قدموں واپس لوٹنے کو کہتے ہیں ۔ آپ جس سمت روانہ ہو ں اسکی مخالف سمت میں لوٹ جانا یوٹرن کہلاتاہے ۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ نصف صدی سے کچھ زیادہ عرصہ آپ جس رخ پر سفر کرتے رہے آج اس کے مخالف رخ پر سفر کرنے کیلئے آپ کو مجبور کیا جارہا ہے ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ قومیں اپنا سفر اگلی منزل کی طرف جاری رکھتی ہیں اور ہم جہاں سے چلے تھے ہمارے محافظ بندوق کی نالی پر ہمیں وہیں واپس لیجانے پر اصرار کررہے ہیں ۔

پاکستانی قوم کے حالات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسکی بنیاد ہی یوٹرن پر رکھی گئی تھی ۔ ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ نظریاتی بنیادوں پر ایک اسلامی مملکت کی تشکیل دیجارہی ہے جہاں کتاب وسنت کا دوردورہ ہوگا اسلامی نظام رائج ہوگا اور نوزائیدہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا پوری دنیا میں تحفظ کریگی مگر ہوا یہ کہ روزِاول سے ملک کو استعماری گماشتوں کے حوالہ کرکے فوج کی تعمیر وتشکیل انگریز ی خطوط پر کی گئی اور جنرل گریسی کی کمان میں ملکی پالیسیوں پر فوج کی گرفت مضبوط کرکے پاکستان کا نظام مملکت اس انداز پر چلایا گیا کہ نصف سے زیادہ زمانہ ایوان اقتدار بھاری بھر کم بوٹوں کی دھمک سے گونجتارہا اور آج بھی گونج رہا ہے جبکہ تقریباً نصف سے کچھ کم زمانہ سیاستدانوں کے پس منظر میں رہ کر فوج گل کھلاتی رہی ۔اور جب بھی کبھی قوم اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے لگی فوج نے غیر محسوس انداز میں اسے یوٹرن دیدیا ۔

فوج کا کام ملکی سرحدوں کا تحفظ ہوتاہے مگر یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ قائد اعظم کے فرمان کو پس پشت ڈالکر جنرل گریسی نے کشمیر ی مسلمانوں کی مدد سے صاف انکار کردیا ۔ پھر لیاقت علی خان کے دور میں یہی صورتحال دہرائی گئی ۔ پھر ایوب خان کے دور میں جیتی ہوئی جنگ ہار کر سیاہ تاریخ رقم کی گئی ۔ مشرقی محاذ پر جو کچھ ہوا وہ بھی کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔

اس لئے اس بات سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ہم پہلے دن سے ہی یوٹرن کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر ابتک یہ پالیسی صیغہء راز میں رکھی جاتی تھی اور ایوان اقتدار کے باسی اپنے اندر یہ کہنے کی جراء ت نہیں پاتے تھے کہ ملکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے ۔ مگر اب ہمارے پالیسی ساز ادارے اتنا ہوم ورک کرچکے ہیں کہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے خاکی وردی کی آڑ میں ہمیں یوٹرن کی نوید سنا سکیں ۔ آج سے دوسال قبل ہم نے جو یوٹرن لیا تھا اس کے اثرات اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جنہیں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتاہے :
۱۔ افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ۔
۲۔ معذوراور مفلوس الحال مسلمانوں کی فوج ظفر موج ۔
۳۔ افغانستان ،ایران وانڈیا کی جیلوں میں ہزاروں مسلمان قیدی جن میں پاکستانیوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی اذیتناک عقوبتوں سے دوچار ہے ۔
۴۔سرزمین شہداء پر قائم ہونیوالی طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ جسے دنیا کے مسلمان اپنے خوابوں کی تعبیر اور عالم اسلام کے دکھوں کا مداوا سمجھنے لگے تھے ۔
۵۔ سرزمین افغانستان پر قائم ہونیوالی پہلی پاکستان دوست حکومت کا خاتمہ ۔
۶۔سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلی ہوئی پاکستان کی شمال مغربی سرحد وں تک بھارت کی رسائی اور اسکے نتیجہ میں دشمن کے دونوں جبڑوں کے درمیان پورے ملک کا آجانا ۔
 ۷۔ افغان فوج کے ساتھ شمال سرحدوںپر پاک فوج کی باقاعدہ جھڑپیں ۔
۸۔افغانستان میں پاکستانی مفادات خاص طور پرپاکستانی سفارت خانوں پر حملے۔
۹ ۔افغانستان وایران سے متصل صوبہ بلوچستان میں بدامنی کی لہر اور اسکے نتیجہ میں ملکی تاریخ کی بدترین قتل وغارت گری  ۔
۱۰۔ صوبہ سرحد میں امریکی فوج کی زیر نگرانی اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کیلئے آپریشن ۔
۱۱۔پاکستانی قوم کو بیرون ملک اور اندرون ملک چھاپوں اور چیکنگ کی ذلت آمیز کاروائیوں کا سامنا ۔
۱۲۔ پاکستانی قوم کا اربوں ڈالر کا نقصان جسے امریکہ کے محتاط اندازہ لگانے والے اداروں نے دس ارب ڈالر سے زیادہ بتایا ہے ۔

اب امریکی بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ہم نے بغیر کسی ثبوت کے افغانستان پر چڑھائی کی اور ہمارے جنرل صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ جنگی جہازوں کی گھن گرج ۔آہن وآتش کی بارش اور لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر ہم نے جو امن کے گیت گائے تھے وہ صحیح نہیں تھے ۔ برلن کی پریس کانفرنس میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ افغانستان میں اتحاد یوں کی پالیسی غلط تھی اور یہ بھی اعتراف کیاہے کہ حامد کرزئی کے نام خط میں اس پالیسی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے ۔

 ایک درد مند اور محب وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ ملکی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرکے پوری قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے والے کیا امریکی قومی پرندے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا جان بوجھ کر دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنی قوم کو سوئے مقتل لیجارہے ہیں ۔

تحریر: مفتی عتیق الرحمن (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) استاذ جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی