امریکی فوجیوں کی طرف سے قرآنی اوراق کی توہین پر پورا عالم اسلام خاص طور پر اسلامیان پاکستان سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ اچانک بم دھماکے ، عبادت گاہوں پر خودکش حملے اور لسانی اور گروہی تعصب پر مبنی قاتلانہ کاروائیوں کے نتیجہ میں پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور احتجاج کا رخ امریکہ سے ہٹ کر مخالف تنظیموں اور شخصیات کی طرف پھر گیا اور امریکیوں نے چین اور سکھ کا سانس لیا ۔کہا یہ جارہا ہے کہ اسلام آباد میں دینی مدارس کے کامیاب اور پر وقار کنونشن نے پاکستان میں امریکی ایجنٹوں کی نیند یں اڑادی تھیں اور امریکی عسکری اداروں کے مسلمان قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ طرز عمل خاص طور پر مذہبی تشدد جسکا بڑا مظہر قرآنی اوراق کو گندگی اور غلاظت میں پھینکنے کے واقعہ کی شکل میں سامنے آیا، اس کے خلاف برپا ہونے والی احتجاجی تحریک سے امریکیوں نے عالم اسلام میں اپنے بارے میں پائی جانے والی شدید نفرت کو دیکھکر کامیابی سے اسکا رخ تبدیل کردیا ہے ۔ پاکستانی عوام اور لیڈر باہم دست وگریباں ہوگئے ہیں اور انتظامی ادارے تحقیقات میں مصروف ہوگئے ہیں اور اپنے آہنی ہاتھ حرکت میں لاکر مزعومہ ملزمین کی گرفتاری کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں ۔ حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات شیخ رشید صاحب نے خبر دی ہے کہ ’’ تحقیقات صحیح رخ پر جارہی ہیں اور ہم ملزموں کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘ جبکہ اس سے بھی اہم خبر یہ ہے کہ’’ بری امام کے سانحہ کی تحقیقات کیلئے F . B .I کی خدمات حاصل کرلی گئیں ہیں ‘‘۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایف بی آئی وہیں پر تحقیقات کیلئے پہنچتی ہے جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں یہاں کن مفادات کے حصول کیلئے ایف بی آئی کے ہاتھی نے قدم رکھا ہے اس بات میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضیاء شہید کے طیارہ کے حادثہ کی تحقیقات میں بھی ایف بی آئی شریک تھی اور پھر میر مصحف علی کے طیارہ کے حادثہ کی تحقیقات میں یہی ادارہ شریک تھا یہ قومی فوجی اور سرکاری نوعیت کے اہم ترین واقعات تھے جن کے بارے میں آج تک قوم کو تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے اور شب فراق کے طول کی طرح یہ بھی طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ امریکی حکومت کو دباؤ سے نکالنے کیلئے یہ واقعات برپا ہوئے اور اسکے پیچھے سی آئی اے کا پاکستانی دستانوں میں چھپا ہوا ہاتھ صاف طور پر نظر آنے لگا ہے وزیر اطلاعات کے بیان سے بھی واضح ہے کہ تحقیقات کیلئے امریکی سی آئی اے نے جو رخ دیا ہے ہم کامیابی کیساتھ اس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحقیقات کا مطلب مجرموں کو بے نقاب کرنا نہیں ہوتا بلکہ مخالفین کے گرد گھیرا تنک کرنا اور بے گناہوں کے گلے میں پھندا لگانا ہوتاہے اور مجرموں کو آٹے میں سے بال کی طرح نکال کر عدالتی اور قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوتاہے ۔ اسکی دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔ ایک دہشت گردانہ کاروائی میں چند علماء شہید کردئے گئے تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوگئی شواہد کی روشنی میں ملزمان تک پنہچنا کوئی ناممکن نہیں تھا ۔مگر پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کا اصرار تھا کہ فلاں تنظیم کیساتھ آپکے اختلافات ہیں اور وہ ’’ القاعدہ ‘‘ کے ساتھ منسلک ہے لہذا یہ القاعدہ کی کاروائی ہوسکتی ہے ۔ شہداء کے ورثا ء پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ پریس کانفرنس میں پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر القاعدہ پر یہ الزام عائد کرنے پر کسی نہ کسی طرح آمادہ ہوجائیں ۔
ایک دوسرے مقام پر دھماکہ ہوا جس میں تقریبا ایک درجن شہداء اور پانچ درجن کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے لاکھوں روپے کی املاک ضائع ہوئیں ۔ جائے وقوعہ پر ایک لاوارث لاش معمہ بن گئی ۔ شواہد وقرآئن اسبات کی نشاندہی کررہے تھے کہ دھماکہ کے وقت دہشت گرد خود بھی اسکی لپیٹ میں آگیا مگر قانون نافذ کرنے والے اداروںنے نہایت پھرتی اور چابکدستی سے نہ صرف اس لاش کے وارث تلاش کرلئے بلکہ اسے بھی نہایت صفائی کے ساتھ بری کرکے پوسٹ مارٹم کے بہانے لاش غائب کردی ۔ وہ شخص جائے وقوعہ سے کم از کم تیس کلومیٹر کے فاصلہ پر kpt کا ملازم اور کم ازکم بیس کلومیٹر کے فاصلہ کا رہائشی تھا ۔ مذہبی تعصب رکھنے والا اور دہشت گرد تنظیم کا رکن تھا ۔ اسکے تعصب کا یہ عالم تھاکہ مذکورہ ادارہ کے ملازمین نے بتایاکہ مسلکی تعصب کی بناء پروہ ادارہ کی کنٹین میں چائے کی ایک پیالی پینے کا روادار نہ تھا ۔ وہ جائے وقوعہ پرکیسے پہنچا ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کہانی سنئیے : یہ شخص ’ بابا ‘ کے پا س تعویذ لینے گیا تھا واپسی پر گزرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ! اور بابا کا آستانہ اور جائے وقوعہ میں مشرق ومغرب کا بْعد پایا جاتاتھا مگر قانون نافذ کرنے والوں کا اصرار تھا کہ ہم تحقیقات کرچکے ہیں ۔ یہ شخص اس واقعہ میں ملوث نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ تحقیقاتی کمیٹی بننے سے پہلے ہی طے پاچکا تھا ۔ اب ایس ایس پی صاحب کی زیرنگرانی تین پولیس افسروں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا انہوں نے شہداء اور زخمیوں کے لواحقین سے رابطہ کرکے اپنی تحقیقات کے پھول کچھ اس طرح نچھاور کئے :
’’عام لوگوں کو چونکہ اس قسم کے واقعات کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا تو وہ ایک آدھ آپشن پر ہی غور کرتے ہیں اور کسی ایک تنظیم یا شخصیت پر ان کی سوئی اٹکی رہتی ہے مگر ہمارے سامنے روزمرہ بہت سے پیچیدہ کیس آتے رہتے ہیں اس لئے ہمارے ذہن بہت وسیع ہوتے ہیں اور ہم بیک وقت بہت سے امکانات Options پیش نظر رکھ کر غور کرتے ہیں ۔ اسمیں ساٹھ، ستر فیصد امکانات مخالف مذہبی فرقے کے بھی ہوسکتے ہیں مگر وہ لوگ پبلک مقامات کو نشانہ نہیں بناتے ۔ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور یہ کاروائی پبلک مقام پر ہوئی اور کاروائی کا یہ اسٹائل ’’ القاعدہ ‘‘ کا ہے لہذا معلوم ایسا ہوتاہے کہ القاعدہ والوں نے مخالفین کو کوئی پیغام دینے کیلئے یہ دہشت گردانہ کاروائی کی ہے‘‘ ۔
اصل بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص امریکہ مخالف قوتوں کو کچلنے کا ٹارگٹ حکمرانوں کو دیا گیا ہے ۔’’ مراعات ‘‘اور ’’ چمک ‘‘ سے متاثر ہوکر بھی اگر کوئی لیڈر یا عالم دین اپنے مزاحمتی کردار سے دستبردار نہ ہو تو گولیوں سے چھلنی کرکے اس سے چھٹکا را بھی حاصل کرلیا جائے اور دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بھی بنا دیا جائے ۔ اور مخالف مذہبی گروپ کی عبادت گاہ پر حملہ کی پلاننگ سی آئی اے کی زیر نگرانی اسطرح کی جائے کہ علاقائی ، لسانی یا مذہبی رنگ ابھر کر سامنے آئے اور اسکی آڑ میں پھر امریکہ مخالف اداروں یا افراد کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بناکر مزعومہ مقاصد حاصل کئے جائیں یہی وجہ ہے کہ ایک اقلیتی فرقہ کی شخصیت یا عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والے فورا گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ امریکی لابی سے تعلق رکھنے والوں پر حملہ آوربھی بہت جلدی گرفتار ہوجاتے ہیں اور صدر صاحب پر حملہ کو دوسال گزرنے کے باوجود اب تک گرفتاریاں جاری ہیں ۔ اور ہر گرفتار یا پولیس مقابلہ میں مارا جانے والا ’’ ماسٹر مائنڈ ‘‘ سے کم نہیں ہوتا مگر اسلام آباد سے لیکر کراچی تک علماء کرام اور مفتیان عظام کے قاتل نامعلوم ہی رہے اور ایک مکھی بھی گرفتار نہ ہوئی اور تحقیقات صحیح رخ پر جاری ہیں اور اگر کہین غلط رخ پر چل نکلیں توF B I والے آکر اسے صحیح رخ پر ڈالدیتے ہیں ۔ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزہ پر نتیجۃً خربوزہ ہی ذبح ہوتاہے ۔
تحریر: مفتی عتیق الرحمن صاحب