مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ ۔۔۔۔۔ایک تابندہ ستارہ



مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ  ۔۔۔۔۔ایک تابندہ ستارہ  
تحریر: ابن مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ  
دین اسلام اللہ تعالیٰ کاوہ آخری پیام ہےجوپورے عالم کی ہدایت اورپوری انسانیت کی اصلاح وفلاح ونجات کےلئے آیاہے حضرت محمدﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جن کے دائرہ نبوت کوہرزمان ومکان پرمحیط اورابدالاباد تک دوام بخشاگیاہے رسول کریم ﷺنے اس کارِرسالت کی ادائیگی اوردین کی دعوت کوعام کرنے کیلئے جن فرائض نبوت سے نوازاہے ان کاتذکرہ قرآن کریم میں کئی مقامات پرکیاگیاہے حضورﷺنے اللہ تعالیٰ کے اس آخری پیام کوپہنچانے کاپوراپوراحق ادافرمایااورعالم کوہدایت سے بقعئہ نوربنادیااورامّت کونیابتہََ یہ فرائض سونپ کرتشریف لے گئے اورہرزمانے میں نسلاََبعدنسل امّت ان فرائض کوادکرتی رہی اورقرون اولی سے لیکرابتک دین کی سرسبزی واشاعت انہیں فرائض کی بجاآوری کیلئے جہدوجہادسے باقی وقائم رہی اسی سرفروش جماعت کے ایک حدی خواں میرے والدماجدشہیدؒ  بھی تھے ۔
ان کی پیشانی علم ،وتقویٰ ،زہدوقناعت ،خلوص وللہیت،تعلق مع اللہ ،محبت الٰہی ،خشیت الٰہی ،حبّ اللہ کے نورسے چمکتی تھی وہ سنت کے کمال ِاتباع کے ساتھ متّصف اورحبّ نبویﷺمیں ڈوبے ہوئے ،دین کی محبت وحفاظت کے نشے میں سرشاراورکفروضلالت ،الحادومعصیت کے ہرزرہ سے بیزارتھے وہ اسلام کے دفاع میں جان کی بازی لگانے اورجہادوقتال فی سبیل اللہ کےلئے عملی میدان میں جانے کیلئے بیتاب رہتے تھے وہ دنیاوی جاہ ومنصب ،مال ودولت ،عز ت وشہرت ،نام ونمود ،ذاتی آرام وآرائش سے کنارہ کش اوراللہ کی رضاکے جذبہ میں مگن ان صلٰوتی ونسکی ومَحیایَ ٰومَمَاتِی لِّلہ رَبِّ العَالَمِین کاپیکرتھے اگران کےظاہری اعمال وکردار احکام الہٰی اورسنّت نبوی ﷺمزین تھے توان کاسینہ علوم نبوت سے معموراوران کادل معرفت الٰہیہ حبّ الہٰی اورحبّ نبویﷺ سے منورتھاگویاان کےظاہری اورباطنی ا عمال سیرت طیبہ کے انوارکےآئینہ دارتھےاورمنہاج نبّوت پراستقامت ان کاامتیاز تھاوہ ظاہروباطن کے جامع علم وعمل کے پیکر،مدرسیّت وخانقاہیّت کی یکجائی کے مظہر،معقولات ومنقولات کے بیک وقت بحرذخار،رات کو عابدشب زندہ دار،د ن کودفاع حق میں تیغ آب دار،تدریس کے علوم کے وقت ان سے یعلمہم الکتاب والحکمۃ کی جلوہ ریزیاں نمایاں اورتربیت نفوس کے وقت ویزکیہم  کی نورافزئیاں پھوٹتی تھیں گویاں وہ بیک وقت کمالات دینی کامجمع البحارتھے ،
تاریخ پیدائش:
6جون 1949ء کو صوبہ سندھ کے مشہور علاقے مورو کے مضافات ’’گوٹھ عبداللہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کا نام محمد الیاس مدنی رکھا جس کی نسبت غالباً عالمگیر تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی طرف ہے جبکہ آپؒ کے والد محترم نے آپؒ کا نام ہندوستان کے عظیم عالم دین مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے نام پر عتیق الرحمن رکھا بعد میں یہی نام مشہور ہوا اور محمد الیاس مدنی پسِ منظر میں چلا گیا۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے صاحبزادے جو صاحب طرز ادیب بھی ہیں ایک مرتبہ پاکستان کے دورے کے موقع پر حضرت والد صاحبؒ سے ملے اور کہا جب میں نے سنا کہ میرے والد محترم کے بعد ایک اور مفتی عتیق الرحمن بھی دینی خدمات میں معروف ہوئے ہیں تو دل میں آپؒ سے ملاقات کا شوق جاگزیں ہوا۔ جب والد صاحبؒ نے انہیں بتایا کہ میرا نام آپ کے والد محترم ہی کے نام پر رکھا گیا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔
خاندانی پس منظر:
حضرت دادا جان رحمۃ اللہ علیہ تقسیم ہند سے پہلے جالندھر میں تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہاں سے پنجاب کے علاقے چشتیاں تشریف لائے۔ پھر وہاں سے سندھ میں مورو ضلع نوابشاہ کی طرف ہجرت کی جہاں والد صاحب کی پیدائش ہوئی۔ دادا جانؒ پیشہ کے اعتبار سے کھیتی باڑی کیا کرتے تھے مگر قرآن کی خدمت کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے حفظ کی کلاس بھی پڑھاتے تھے۔ حضرت دادا جانؒ جیّدعالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اور اپنے نام کے ساتھ ’’خادم‘‘ تخلص لگاتے تھے ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا:
تمنا ہے یہی خادم کبھی یہ آس پوری ہو
شروع الحمد سے ہو کر کبھی والناس پوری ہو
حضرت دادا جانؒ حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے زمانے میں خیر المدارس میں بھی مدرس رہے تھے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ نوابشاہ میں رہے۔ پھر سکھر تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا۔ 
حضرت دادا جانؒ کے انتقال کے وقت حضرت والد صاحب شہیدؒ کی عمر سترہ سال تھی۔ جبکہ دادی جان کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا جب آپ کی عمر صرف چھ سال تھی۔
بھائیوں میں والد صاحبؒ کے علاوہ تین بھائی اور ہیں جو الحمدللہ حیات ہیں۔ سب سے بڑے بھائی مولانا حافظ عبدالشکور صاحب،ان کے بعد منجھلے بھائی حافط محمد یونس صاحب، اور ان کے بعد مولانا پروفیسر عبدالرحمن مجاہد صاحب ہیں آخر میں حضرت والد صاحبؒ تھے۔ بھائیوں کے علاوہ دو بہنیں بھی ہیں۔
تعلیم و تدریس:
والد صاحبؒ نے حفظ قرآن حضرت دادا جانؒ کے پاس شروع کیا اور تکمیل بڑے تایا مولانا عبدالشکور صاحب کے پاس ہوئی۔ اس کے بعد اسکول کی تعلیم شروع فرمائی۔ 1971ء میں انٹر پاس کیا۔ اور پھر تبلیغی جماعت میں چار مہینے لگائے۔ اسی دوران تبلیغی جماعت کے امیر بھائی عبدالوہاب صاحب کے مشورے سے دینی تعلیم شروع فرمائی۔ حضرت والد صاحبؒ اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ میں جس زمانے میں مدرسہ عربیہ رائیونڈ میں پڑھتا تھا تو اس وقت کچھ اسباق پڑھایا بھی کرتا تھا اس زمانے میں مبلغ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہم کالج سے نئے نئے مدرسہ کی طرف پڑھنے کیلئے آئے تھے اور میں انکی کلاس میں پڑھانے جاتا تھا۔ابتدائی درجات مدرسہ عربیہ رائیونڈ ہی میں پڑھے۔ مشکوۃ کے سال اوکاڑہ میں حضرت مولانا عبدالحنان صاحب تاجکیؒ کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوا تھا جب رائیونڈ کے بزرگوں سے مشورہ کیا تو وہ ناراض ہوگئے۔ لیکن والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ میں پھر بھی وہاں چلا گیا، وہاں جاکر داخلہ لیا اور مشکوٰۃ شریف کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس زمانے میں مولانا عبدالحنان تاجکیؒ کے ساتھ مولانا عبدالقدیمؒ اور مولانا عبدالقدیرؒ بھی تھے۔ والد صاحبؒ ذہین اور پڑھنے کے شوق کی وجہ سے سب استادوں کے منظور نظر بن گئے۔
جامعہ انوریہ اوکاڑہ کے ابتدائی دنوں کا واقعہ اکثر بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ مولانا عبدالقدیم صاحبؒ کے پہلو میں نمازِ عصر پڑھنے کا موقع ملا۔ سلام پھیرنے کے بعد تسبیحات فاطمہ میں مشغول ہوگئے میں نے دیکھا کہ استاذ محترم عام طریقہ سے شمار نہیں کررہے تھے بلکہ کبھی انگلیوں کو بند کرتے تو کبھی کھولتے، مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی یہ ’’عقدانامل‘‘ انگلیوں پر شمار کرنے کا مسنون طریقہ ہے جسکی مجھے ایک عرصہ سے تلاش تھی۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میں نے جب دینی تعلیم کی ابتدا کی تھی تو تیسیرالمنطق میں دلالت وضعیہ غیرلفظیہ کی مثال میں ’’عقود‘‘ کا لفظ پڑھا تھا جو سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اسی روز سے میں اس تلاش میں تھا کہ کسی طرح اس کی تفصیل معلوم کرسکوں۔ چنانچہ آج استاذ محترم کے تسبیحات شمار کرنے کے انداز نے میرے دل کے نہاں خانے کی اس الجھن کو پھر تازہ کردیا اور میں کن انکھیوں سے استاذ محترم کی انگلیوں کی نقل وحرکت کو بغور دیکھتا رہا جسے غالباً وہ بھی بھانپ چکے تھے۔ دعا کے بعد تمام نمازی یکے بعد دیگرے مسجد سے نکلنے لگے۔ مدرسہ کے طلبا بھی جاچکے تھے مگر میں حضرت کے پہلو میں گومگوں کی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔
’’تم جاتے کیوں نہیں…؟‘‘ حضرت کی توجہ اور سوال نے میرے لئے بولنے کا راستہ کھول دیا ’’میں عقدانامل سیکھنا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ استاذ صاحبؒ نے فرمایا میرے نصف صدی کے دورِ تدریس میں آج تک کسی طالب علم نے یہ سوال نہیں کیا! تمہیں کس طرح اسکا خیال آیا…؟ حضرت کے انداز سے شکوہ اور آمادگی عیاں تھی ’’میں سالِ اوّل سے اس بارے میں الجھن کا شکار ہوں۔اساتذہ کرام یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ یہ شمار کرنے کا ایک مشکل طریقہ ہے۔ آج آپ کو دیکھ کر مجھے موقع ملا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ ضرور میری رہنمائی فرمائیں گے‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور امید بھری نظروں سے حضرت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ایسا بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو بہت آسان ہے اور نبیﷺ کی سنت بھی کبھی مشکل ہوا کرتی ہے…؟ ’’دیکھو…! اسکا طریقہ یہ ہے‘‘اور پھر ایسے دلنشین پیرائے میں حضرت نے سمجھایا کہ میں تیسرے دن ہی تسبیحات کو مسنون طریقہ پر شمار کرنے لگا۔
حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ سے بیعت بھی فرمائی اور بعد میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ دورہ حدیث کے سال میں اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے لیے کراچی میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون تشریف لائے۔ یہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ کا آخری سال تھا 1977؁ء میں دورہ حدیث سے سند فراغت حاصل کی۔ پھر اپنے اساتذہ خصوصاً حضرت مولانا یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا ادریس میرٹھیؒ کے مشورے اور دعائوں سے ٹنڈو آدم کے تبلیغی مرکز و مدرسہ مدینۃ العلوم میں تدریس کا آغاز فرمایا۔ اسی دوران دل میں افتا کا داعیہ پیدا ہوا اور عظیم محقق اور فلسفہ شاہ ولی اللہ کے امین حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحبؒ سے نہ صرف مقدمہ شامی اور رسم عقود المفتی کا درس حاصل کرنا شروع فرمایا بلکہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی نگرانی میں فتاویٰ جات کی مشق بھی کی اور مدینۃ العلوم میں باقاعدہ دارالافتا قائم کر کے حضرت ہی کی نگرانی میں مسائل کے جواب لکھنے شروع فرما دئیے۔ ان فتاویٰ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ حضرت والد شہیدؒ کی علمی پیاس نے آپؒکو تدریس کے منصب سے اٹھا کر الجامعۃ الاسلامیہ المدینۃ المنورہ (مدینہ یونیورسٹی)پہنچا دیا۔ اور 1981ء سے 1985ء تک وہاں رہ کر علوم تفسیر و قرأت کی تکمیل کی اور ڈاکٹریٹ کی سند لے کر پاکستان تشریف لے آئے۔ اور دوبارہ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
 والد صاحب وہاں کے ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ اس وقت وہاں مدرسہ کی جگہ جنگل تھا۔ نہ کوئی استاذ نہ کوئی شاگرد والد صاحب نے بڑے ہی مشکل حالات میں محض اﷲ تعالیٰ کے بھروسے اور اپنے اساتذہ کرام کے حکم سے وہاں پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں ایک طالب علم ملا۔ جسکا نام بن یامین تھا۔
وہاں پر تنخواہ صرف تین سوروپے تھی۔ آپ نے محنت شروع کی اور آپکی شبانہ روز محنت ولگن سے یہ معمولی سا بے نام مدرسہ ترقی کی منازل طے کرکے جامعہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ جب والد صاحبؒ نے اس مدرسے کو چھوڑا تو وہاں درجہ حفظ کی دس کلاسز اور درجہ سابعہ تک کتب کی تعلیم دی جارہی تھی۔ ٹنڈوآدم چھوڑنے سے ایک سال قبل وہاں کی ایک مسجد جس کا نام ’’پٹھان مسجد‘‘تھااس پر بریلویوں کے قبضہ گروپ ونگ نے ناجائز قبضہ کرلیا۔ حضرت والد صاحبؒ کب یہ برداشت کرنے والے تھے…؟ آپؒ نے مدرسہ کے طلبا اور مسلکِ حق کے افراد کو لیکر مسجد کا قبضہ چھڑایا۔ بدعتیوں نے مزارات کا پیسہ کھلا کر تھانے میں والد صاحبؒ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ پولیس نے چھاپے مارنے شروع کردئیے پر والد صاحبؒ انکے ہاتھ نہ لگے۔ اسوقت ٹنڈوآدم کا ڈی سی متعصب قسم کا شیعہ اور والد صاحبؒ کا سخت مخالف تھا جس نے موقع پاتے ہی سخت آرڈر جاری کردئیے اور اس کیس میں خصوصی دلچسپی لینا شروع کردی۔ اتفاق سے ٹنڈوآدم کا ایک سابق وزیر والد صاحبؒ کا معتقد تھا اس کو جب معاملے کی اطلاع ملی تو فوراً والد صاحبؒ سے ملا اور شہر کی انتظامیہ کے درمیان ثالث بنتے ہوئے کیس کو کافی حد تک ٹھنڈا کروا دیا مگر ڈی سی قانون کا ناجائز سہارا لیکر اپنی انا پر اڑا رہا۔ اﷲ کا نظام بھی عجیب ہے یہاں اس نے آرڈر جاری کیے اور وہاں فرشتے اسکی موت کے فرمان پر دستخط کرچکے تھے۔ ہوا یوں کہ یہ کسی کام سے اپنی گاڑی میں کراچی نکلا اور راستے میں ا یسا بھیانک ایکسیڈنٹ ہوگیا کہ باوجود تلاش کے اس کی لاش کے اعضا مکمل نہ ہوسکے۔ بہرحال اس تمام معاملے سے ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ مدرسہ کا مہتمم پیٹ کا پجاری اور بزدل ترین انسان ہے جسے مسلک کے تحفظ اور علما کے تقدس سے کوئی سروکار نہیں چونکہ والد صاحبؒ انتہائی خوددار اور دین ومسلک پر جاں نثار تھے اس لیے اس جگہ سے آپکا دل اٹھ گیا اور اہل علاقہ کے لاکھ اصرار کے باوجود آپؒ استعفیٰ دیکر کراچی تشریف لے آئے اور حضرت لدھیانوی شہید ؒکے حکم سے جامع مسجد شادمان ٹاؤن میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ پھر آپ نے یہاں درس قرآن شروع فرمایا تو چہار دانگ عالم میں اسکا شہرہ ہوگیا او رلوگ دور دور سے درس سننے آنے لگے۔ جسکی وجہ سے کچھ اپنوں اور کچھ مودودی خیالات کے حامل لٹیروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے کیونکہ آپکے درس سے انکے مکروہ چہرے عیاں اور اسلام کے نام پر دھوکہ دینے والی ’’جماعتِ بے ایمانی‘‘ کی کارستانیاں نہاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ انہوں نے والد صاحبؒ کے خلاف بے وجہ محاذ کھول دیا۔ مسجد کے چندے پر پلنے والی کمیٹی کے چند ارکان کو لیکر والد صاحبؒ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’آپ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں اس لیے اپنا بندوبست کہیں اور کرلیں‘‘ والد صاحبؒ نے انہیں سمجھایا کہ فرقہ واریت اور حق خودارادیت میں زمین وآسمان کا فرق ہے تم ثابت کردو کہ میں فرقہ واریت پھیلا رہا ہوں تو میں آج ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں اور اگر تم حق بات کے اظہار کو فرقہ واریت سمجھتے ہو تو میں یہ ’’جرم‘‘ کرتا رہوں گا مجھے کسی کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں۔ والد صاحبؒ کی مدلل بات سے انکے منہ لٹک گئے فوراً پینترا بدل کر بولے ’’اجی آپ نے ہمیں اپنی اسناد تو دکھلائی ہی نہیں ہم  آپ کو عالم کیسے مانیں…؟‘‘ والد صاحبؒ نے کہا بحمدﷲ میرے پاس تمام اسناد موجود ہیں میں انہیں نکالتا ہوں تم مجھے پڑھ کر سناؤ اگر ایسا نہ کرسکے تو میں دس دس جوتے تمہارے سروں پر ماروں گا۔ وہ لاجواب ہوکر چلے گئے۔ مگر چین سے بیٹھنے والے کہاں تھے…؟ دھمکیوں اور اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔ جب والد صاحبؒ درسِ قرآن کیلئے بیٹھتے تو رخنہ اندازی شروع ہوجاتی۔ ان میں ایسے بدباطن وخبیث النفس لوگ بھی تھے جو قرآن کو اٹھا کر ایک طرف پھینکنے سے بھی نہ چوکتے۔ ہماری آنکھوںمیں آج سے چودہ سوسال پہلے کا نقشہ گھوم گیا جب آنحضرت ﷺ اپنی زبان مبارک سے تلاوت فرمارہے ہوتے تو عرب کے تمام مشرک جمع ہوکر کہتے کہ ’’خدارا…! جو کچھ تمہیں چاہئے لے لو۔ قرآن کے ذریعے ہماری دل آزاری نہ کرو بلکہ کوئی اور قرآن لے آؤ‘‘۔
بہرکیف ایک لسانی تنظیم کے چند غنڈے انکے ساتھ مل گئے اور طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ تاریخ نے بھی عجیب منظر دیکھا کہ دو پیدائشی حریف آج قرآن کی صدا کو روکنے کیلئے سیروشکر ہوگئے تھے اور پھر ان میں سے ایک فریق تو وہ تھا جو ’’تفہیم قرآن‘‘ بغل میں دابے کالجز ویونیورسٹیز کے طلبا کو بیوقوف بنایا کرتا تھا۔ جب معاملہ بہت زیادہ گھمبیر ہوگیا تو حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید، ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہید، مفتی عبدالسمیع شہید، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید، مفتی جمیل خان شہید رحمہم اﷲ اور مفتی محمد نعیم، مولانا حلیم الرحمن قریشی، مولانا احمدمدنی، قاری عثمان، مولانا فیض محمد نقشبندی اور دیگر جید علمائے کرام اس حق میں تھے کہ چند ایک بے دینوں کیوجہ سے درس قرآن کو نہ چھوڑا جائے چنانچہ اس سلسلے میں ڈی سی آفس میں فریقین کے مابین علما کی کمیٹی بنائی گئی اور چار ایسے غیر متنازع علمائے کرام (مولانا اسد تھانوی، مولانا عبدالحلیم قریشی، مولانا آصف قاسمی اور مولانا ہارون مطیع اﷲ) کا انتخاب ہوا جو اس تمام معاملے کی چھان بین کرکے فیصلہ کرنے کے مجاز قرار پائے۔ مگر جس طرح ہر دور میں اہل حق کو ہمیشہ اپنوں نے ہی زک پہنچائی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ آصف قاسمی صاحب رقم سے بھرے بریف کیس کو دیکھ کر فیصلہ دینے سے مکر گئے۔ والد صاحب نے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر درس قرآن دوبارہ شروع کردیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے قریب عرصہ اس کشمکش میں گزر گیا۔ آخرکار جب پانی سر سے گزر گیا اور ہمیں کرائے کے غنڈوں کیوجہ سے کسی بڑے حادثے کے اشارے ملنے لگے، یہ دین دشمن ٹولہ ہمارے گھر کا محاصرہ گیر ہوگیا اور بات بجلی، پانی، گیس وفون کے کنکشن منقطع کرنے تک جاپہنچی تو والد بزرگوارؒ کسی بڑے تصادم سے گریز کرتے ہوئے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر جناب مفتی محمد نعیم کی درخواست پر جامعہ بنوریہ عالمیہ تشریف لے آئے اور تادم شہادت یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
 قبل ازیں 1980ء کے وسط میں آپؒ نے پاک و ہند میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سال لگایا تھا۔ اساتذہ کرام کی تربیت اور راہ خدا میں ایک سال لگانے کی وجہ سے آپؒ پر عمل اور تقویٰ کا رنگ اس قدر غالب آچکا تھا اور فقہ حنفی کی محبت اس طرح رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کا تقلید سے آزاد اور فقہ حنفی سے بیزار کر دینے والا ماحول بھی آپؒ کے نظریات و عقائد اور ظاہر و باطن میں ذرا تبدیلی نہ لا سکا۔ بلکہ دوران تعلیم آپ کی شہرت ’’وکیل احناف‘‘ کی حیثیت سے ہوگئی اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ آپؒ نے اپنے قوت حافظہ، مضبوط استدلال اور موثر اندازِ تکلم سے اپنے اساتذہ کو بھی فقہ حنفی کی جامعیت وہمہ گیریت کا قائل بنا دیا آپؒ اکثر ان واقعات کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اپنے مسلک و مذہب اور نظریہ و عقیدہ پر اس طرح ڈٹ جائو کہ پھر کوئی قوت بھی تمہیں اس سے نہ ہٹا سکے۔
1989ء میں ایک مرتبہ پھر حضرت والد صاحب شہیدؒ یورپ کے ممالک اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں ایمان و ایقان اور تقویٰ و انابت کی دعوت لے کر گئے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سال لگایا۔ اس دوران تقریباً سو کے قریب افراد نے آپؒ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔
وعظ و خطابت:
حضرت والد صاحب شہیدؒ کو مالک لم یزل نے خطابت کا ملکہ ابتدا سے ہی ودیعت کر رکھا تھا۔ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ترقی ہوئی بلکہ سوز دل اور فکر باطن کی وجہ سے اس کی اثر پذیری میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ آپؒ کا بیان مختلف، مؤثروبلیغ خطبوں اور دھیمے انداز سے شروع ہوتا  پھر آہستہ آہستہ اس میں جذبات کا عنصر شامل ہوتا چلا جاتا تھا۔
حضرت والد صاحب شہیدؒ خطیب ایشیا مولانا ضیاء القاسمیؒ اور شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ صاحب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ آپؒ انتہائی سادگی و بے باکی سے حق بات اس موثر انداز میں بیان کر جاتے تھے کہ سامعین کے کانوں کے راستے سے وہ بات دل میں جاں گزیں ہو جاتی اور اسپر مستزاد آپؒ کا والہانہ انداز سامعین میں عمل کی تحریک پیدا کرتا تھا۔
آپؒ اپنے بیان کو برمحل آیات قرآنیہ، احادیث طیبہ، ضرب الامثال و واقعات اور اردو، عربی، فارسی اشعار سے مزین کرتے تھے۔ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے وقت کے اندر رہ کر ما فی الضمیر کے اظہار کا خصوصی ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔ آپؒ سامعین کی علمی استعداد، طلب اور موقع کی مناسبت سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ جب آپؒ بولنا شروع فرماتے تو ایک سماں سا بندھ جاتا اور یہ محسوس ہوتا کہ الفاظ و مطالب آپؒ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ برجستہ گوئی آپؒ کا خاص وصف تھا۔ عملی طور پر مناظر ہونے کی وجہ سے ہر فورم پر آپؒ اپنے طرز استدلال اور قوت دلائل سے چھا جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی اجلاسوں، مقتدر دینی حلقوں کی میٹنگوں اور عوامی اجتماعات کے آپ فاتح سمجھے جاتے تھے۔
تحریروتصنیف:
حضرت والد صاحب شہیدؒ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کے میدان کے بھی شناور تھے۔ آپؒ کو اگرچہ ضخیم کتابوں کی تصنیف کا موقع نہ مل سکا تاہم آپؒ نے روزے، قربانی، تراویح اور زکوٰۃ وغیرہ پر مختصر اور مفید کتابچوں کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل میں کالم و مضامین لکھے ۔ روزنامہ اسلام میں ’’مقابل ہے آئینہ‘‘ کے عنوان سے آپؒ کے مستقل کالم شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ آپؒ نے بے شمار مقالات، کتب پر تقاریظ اور علمی مقدمات بھی لکھے ہیں۔ ماہنامہ ’’البنوریہ اور  ہفت روزہ اخبار المدارس‘‘ میں بھی بڑی تعداد میں آپؒ کے تبصرے اور مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپؒ کی ذات بابرکات میں مدبر و مفکر، مقرر و خطیب، اور قلم کاروا دیب کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور کسی ایک صفت کو ترجیح دے کر آپؒ کو اس کی طرف منسوب کرنا نسبتاً آسان نہیں آپؒ کا اکثر وقت مطالعہ کتب میں صرف ہوتا تھا۔ یہ اسی کثرت مطالعہ کا نتیجہ تھا کہ ہر موضوع پر آپؒ کی گرفت کافی مضبوط ہوتی تھی۔ تاریخ اسلام آپؒ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ آپؒ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں تاریخ کی روشنی میں دوست و دشمن کو پہنچاننا چاہیے۔ یوں تو آپؒ نے مختلف دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دئیے لیکن جامعہ بنوریہ سے آپؒ کو قلبی تعلق تھا۔ آپؒ نو سال سے جامعہ بنوریہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس دوران کتب حدیث وقفہ کے علاوہ مختلف اوقات میں تخصص فی الفقہ اور تخصص فی التفسیر اور تجوید کے شعبہ جات بھی آپؒ کی نگرانی میں رہے۔ طالبات کو تخصص کی تعلیم دینے کا آغاز بھی آپؒ کی زیر نگرانی ہوا۔ گونا گوں مصروفیات کے باوجود آپ تفہیم حدیث کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہن سازی بھی کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے اکابر اسلاف کے کارنامے اور واقعات اور اپنے مشاہدات و تاثرات بڑے دلنشین انداز میں سنا کر طلبہ میں ذوق و عمل اور جدوجہد کا داعیہ پیدا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے:
’’کالج کے زمانے کی بات ہے۔ بزم طلبہ نے ایک ڈرامہ اسٹیج کرنیکا پروگرام بنایا اور مجھ سے کہا کہ آپ ’’ناصح‘‘ کا کردار ادا کریں۔ عام طور پر ڈرامے جن مقاصد کیلئے پیش کئے جاتے ہیں انہوں نے ان کے منفی پہلو کو اتنا غالب کردیا ہے کہ صحت مند معاشرہ میں یہ لفظ بدنام ہوکر رہ گیا ہے اور پھر وہ ڈرامہ بھی مخلوط تھا میں نے معذرت کرلی کہ میں ڈرامہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ اس میں کسی کردار کو اپنے لئے پسند کروں!؟ مجھے سمجھایا گیا کہ آپ کو اس میں کچھ نہیں کرنا ہوگا بس جب وقت آئے گا تو ’’ناصح‘‘ کے چند بول بول کر آپ فارغ ہوجائیں گے۔ پہلے یا بعد میں یا ڈرامہ پیش کرنے کے دوران دوسرے کرداروں کے ساتھ آپ کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ میں نے سختی سے انکار کردیا کہ میں ’’ڈرامہ کا کردار ’’جیسا گھٹیا لفظ اختیار کرکے ’’نصیحت‘‘ جیسے پاکیزہ اور انبیائے کرام علیہم السلام والے عمل کو بازاری جنس نہیں بنانا چاہتا‘‘۔
 آپؒ علما و طلبہ اور عوام و خواص میں یکساں مقبول تھے۔ آپؒ کے اخلاق ایسے تھے کہ پہلی ہی ملاقات میں ہر شخص گھل مل جاتا تھا۔ طلبا تو بلا جھجک آپؒ سے اپنے ہر طرح کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ لیا کرتے تھے۔آپؒ کو خوابوں کی تعبیر بتلانے پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپؒ ایک رقیق القلب اور مخلص انسان تھے اکثر و بیشتر امت مسلمہ کی زبوں حالی پر متفکر رہاکرتے تھے۔ کسی مخصوص جماعت سے منسلک نہیں تھے۔ لیکن سب کی سرپرستی فرماتے تھے اور سب کو دعائوں میں یاد رکھتے تھے۔ عالمی استعمار ہو یا امریکی وحشیت و بربریت، حکومتی خرمستیاں ہوں یا تنظیمی بے اعتدالیاں سب پر حقیقت پسندانہ تنقید کرتے اور اصلاح احوال کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ فرقہ واریت کی اصطلاح کے غلط استعمال پر اکثر اظہار خیال کرتے تھے۔ شہادت سے چند روز قبل اسلام آباد کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اسی حوالے سے مفید اور قابل عمل تجاویز بھی دی تھیں۔ باطل نظریات کا علمی تعاقب مثبت اور موثر انداز میں کیا کرتے تھے۔ مصلحت پسندی اور کتمان حق کو جرم عظیم تصور کرتے اور اس کو امت مسلمہ کے لیے مضر و مہلک قرار دیتے تھے۔ آپؒ تبلیغ و جہاد کا حسین مرقع تھے۔ اہل حق کے باہمی اختلافات کو نقصان دہ سمجھتے اور حتی الوسع باہمی اتحاد و یگانگت کے لیے کوشاں رہتے۔
مشہور اساتذہ کرام!
آپؒ نے علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ادریس کاندھلویؒ، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانا فضل محمد سواتیؒ، مولانا معاذ الرحمنؒ، مولانا بدیع الزماںؒ، مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ، مولانا مفتی احمدالرحمنؒ، مولانا عبدالحنان تاجکیؒ مولانا عبدالقدیمؒ مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ مولانا جمشید علی شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ رائے ونڈ اور مولانا احسان الحق دامت برکاتہم العالیہ سے مختلف اوقات میں فیض حاصل کیا۔
اجازت حدیث:
حضرت والد صاحبؒ کو حضرت مولانا یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا قاری طیب قاسمیؒ، مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ، حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے حدیث کی اجازت حاصل تھی۔
بیعت و خلافت :
حضرت مولانا عبدالحنان تاجکیؒ سے بیعت و خلافت ملی اس کے بعد حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے تجدید بیعت فرمائی۔
واقعہ شہادت:
14جمادی الاوّل 1426ھ بمطابق 23 جون 2005ء بروز جمعرات بعد نماز عشا مدینہ مسجد برنس روڈ سے درس قرآن دے کر واپس تشریف لا رہے تھے کہ مسجد کے قریب ہی پہلے سے گھات لگائے اسلام دشمن قوتوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ جس کے نتیجے میں حضرت والد صاحبؒ موقع پر ہی شہید ہوگئے اور آپ کے رفیق خاص بھائی ارشاد شدید زخمی ہوگئے جو اگلے روز زخموں کی تاب نہ لاکر اﷲ تعالیٰ سے جاملے اور میرا کمسن بھائی عمار عتیق زخمی ہوگیا۔


وہ گاڑی جس میں حملے کے وقت حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید سوار تھے




یہ خون سے لت پت وہ لباس ہے جو حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید نے حملے کے وقت پہن رکھا تھا جس سے آج بھی خوشبو آتی ہے



حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید کے جنازے کا ایک منظر



حضرت مفتی عتیق الرحمٰن شہید کی آخری آرام گار کا ایک منظر

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی