🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟏🌴
🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟏🌴
سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل تذکرہ
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
✍🏻 عبداللہ فارانی
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"آنحضرت ﷺ پر وحی آنے سے بھی تین سال پہلے سے میں اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھا کرتا تھا اور جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتے،میں اسی طرف چل پڑتا تھا ـ اسی زمانہ میں ہمیں معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے،اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے ـ یہ سن کر میں نے اپنے بھائی انیس سے کہا :
" تم اس شخص کے پاس جاؤ ،اس سے بات چیت کرو اور آکر مجھے اس بات چیت کے بارے میں بتاؤ "ـ
چنانچہ انیس نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی،جب وہ واپس آئے تو میں نے ان سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھاـ انہوں نے بتایا :
" اللہ کی قسم ! میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو اچھائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے تمھیں اسی شخص کے دین پر پایا ہے ـ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ـ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ نیکی اور بلند اخلاق کی تعلیم دیتا ہےـ"
میں نے پوچھا :
"لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟"
انیس نے بتایا:
"لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کاہن اور جادوگر ہے مگر اللٰہ کی قسم وہ شخص سچا ہے اور وہ لوگ جھوٹے ہیں ۔"
یہ تمام باتیں سن کر میں نے کہا:
"بس کافی ہے، میں خود جاکر ان سے ملتا ہوں ۔"
انیس نے فوراًکہا:
"ضرور جاکر ملو، مگر مکہ والوں سے بچ کر رہنا۔"
چنانچہ میں نے اپنے موزے پہنے، لاٹھی ہاتھ میں لی اور روانہ ہوگیا، جب میں مکہ پہنچا تو میں نے لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر کیا، جیسے میں اس شخص کو جانتا ہی نہیں اور اس کے بارے میں پوچھنا بھی پسند نہیں کرتا - میں ایک ماہ تک مسجد حرام میں ٹھہرا رہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کھانے کو کچھ نہیں تھا - اس کے باوجود میں زمزم کی برکت سے موٹا ہوگیا - میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں - مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا تھا - ایک رات جب حرم میں کوئی طواف کرنے والا نہیں تھا، اللّٰہ کے رسول ایک ساتھی(ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ وہاں آئے اور بیت اللٰہ کا طواف کرنے لگے - اس کے بعد آپ نے اور آپ کے ساتھی نے نماز پڑھی - جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں آپ کے نزدیک چلا گیا اور بولا:
"السلام علیک یا رسول اللّٰہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے رسول ہیں -"
میں نے محسوس کیا، حضورنبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے - پھر آپ نے مجھ سے پوچھا:
"تم کون ہو -"
میں نے جواب میں کہا:
’’جی میں غفار قبیلے کا ہوں ‘‘
آپ نے پوچھا:
’’یہاں کب سے آئے ہوئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:
تیس دن اور تیس راتوں سے یہاں ہوں ‘‘۔
آپ نے پوچھا:
تمہیں کھانا کون کھلاتا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی:
میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں ،اس کو پی پی کر میں موٹا ہو گیا ہوں ، یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں تک ختم ہو گئی ہیں اور مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا‘‘۔
آپ نے فرمایا‘
مبارک ہو ،یہ زمزم بہترین کھانا اور ہر بیماری کی دوا ہے‘‘۔
زمزم کے بارے میں احادیث میں آتا ہے، اگر تم آب زمزم کو اس نیت سے پیو کہ اللہ تعالی تمہیں اس کے ذریعے بیماریوں سے شفا عطا فرمائے تواللہ تعالی شفا عطا فرماتا ہے اوراگر اس نیت سے پیا جائے کہ اس کے ذریعے پیٹ بھر جائے اور بھوک نہ رہے تو آدمی شکم سیر ہو جاتا ہے اور اگر اس نیت سے پیا جائے کہ پیاس کا اثر باقی نہ رہے تو پیاس ختم ہو جاتی ہے۔اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جی بھر کر زمزم کا پانی پینا اپنے آپ کو نفاق سے دور کرنا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور منافقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ لوگ زمزم سے سیرابی حاصل نہیں کرتے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ۔۔۔کہا جاتا ہے ،ابوذر غفاری اسلام میں پیلے آدمی ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کو اسلامی سلام کے الفاظ کے مطابق سلام کیا ۔ ان سے پہلے کسی نے آپ ﷺ کو ان الفاظ میں سلام نہیں کیا تھا۔
اب ابو ذرؓ نے آپ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ اللہ تعالی کے معاملے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں گھبرائیں گے اور یہ کہ ہمیشہ حق اور سچی بات کہیں گے چاہے حق سننے والے کے لئے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔
یہ حضرت ابو ذرؓ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد ملک شام کے علاقے میں ہجرت کر گئے تھے۔پھر حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں انہیں شام سے واپس بلا لیا گیا اور پھر یہ ربذہ کے مقام پر آ کر رہنے لگے تھے۔ ربذہ کے مقام پر ہی ان کی وفات ہوئی تھی۔
ان کے ایمان لانے کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ آئے تو ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے ہوئی تھی اور حضرت علیؓ نے ہی ان کو آپ ﷺ سے ملوایا تھا۔
ابو ذر ؓ کہتے ہیں :
بیعت کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ ایک جگہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے ایک دروازہ کھولا ،ہم اندر داخل ہوئے،ابو بکر صدیقؓ نے ہمیں انگور پیش کیے۔ اس طرح یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں آنے کے بعد کھایا۔‘‘
اس کے بعد نبی ﷺ نے ان سے فرمایا:
اے ابو ذرؓ اس معاملے کو ابھی چھپائے رکھنا، اب تو تم اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انہیں بتاؤ تاکہ وہ لوگ میرے پاس آ سکیں ، پھر جب تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے خود اپنے معاملہ کا کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آ جانا۔‘‘
آپ ﷺ کی بات سن کر حضرت ابو ذر غفاریؓ بولے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی دے کر بھیجا، میں ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکار پکار کر اعلان کروں گا‘‘۔
حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں ’’میں ایمان لانے والے دیہاتی لوگوں میں سے پانچواں آدمی تھا‘‘۔غرض جس وقت قریش کے لوگ حرم میں جمع ہوئے، انہوں نے بلند آواز میں چلا کر کہا:
میں گواہی دیتا ہوں سوالے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالی کے رسول ہیں ‘‘۔
بلند آواز میں یہ اعلان سن کر قریشیوں نے کہا:
اس بددین کو پکڑ لو‘‘۔
انہوں نے حضرت ابو ذرؓ کے پکڑ لیا اور بے انتہا مارا۔ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں ،وہ لوگ ان پر چڑھ دوڑے۔ پوری قوت سے انہیں مارے لگے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت عباس ؓ درمیان میں آگئے۔ وہ ان پر جھک گئے اور قریشیوں سے کہا:
تمہارا برا ہو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے ان کا علاقہ تمہاری تجارت کا راستہ ہے۔‘‘
ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ غفار کے لوگ تمہارا راستہ بند کر دیں گے اس پر ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔
ابو ذر ؓ فرماتے ہیں اس کے بعد میں زم زمکے کنویں کے پاس آیا اپنے بدن سے خون دھویا اگلے دن میں نے پھر اعلان کیا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
انہوں نے پھر مجھے مارا ۔ اس روز بھی حضرت عباس ؓ ہی نے مجھے ان سے چھڑایا۔ پھر میں وہاں سے واپس ہوا اور اپنے بھائی انیس کے پاس آیا۔
انیس نے مجھ سے کہا
تم کیا کر آئے ہو
میں نے جواب دیا
مسلمان ہو گیا ہوں ، اور میں نے محمد ﷺ کی تصدیق کر دی ہے.
اس پر انیس نے کہا
میں بھی بتوں سے بیزار ہوں اور اسلام قبول کر چکا ہوں
اس کے بعد ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو وہ بولیں
مجھے پچھلے دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں ، اللہ کے رسول کی تصدیق کر چکی ہوں .
اس کے بعد ہم اپنی قوم غفار کے پاس آئے. ان سے بات کی، ان میں سے آدھے تو اسی وقت مسلمان ہو گئے. باقی لوگوں نے کہا، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں گے ہم اس وقت مسلمان ہوں گے چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ غفار کے باقی لوگ بھی مسلمان ہو گئے.
ان حضرات نے جو یہ کہا تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں گے، ہم اس وقت مسلمان ہوں گے تو ان کے یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا:
"میں نخلستان یعنی کھجوروں کے باغ کی سرزمین میں جاؤں گا، جو یثرب کے سوا کوئی نہیں ہے، تو کیا تم اپنی قوم کو یہ خبر پہنچادو گے - ممکن ہے، اس طرح تمہارے ذریعے اللّٰہ تعالٰی ان لوگوں کو فائدہ پہنچادے اور تمہیں ان کی وجہ سے اجر ملے۔"
اس کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ اسلم کے لوگ آئے - انہوں نے آپ سے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول! ہم بھی اسی بات پر مسلمان ہوتے ہیں جس پر ہمارے بھائی قبیلہ غفار کے لوگ مسلمان ہوئے ہیں -"
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا:
"اللّٰہ تعالٰی غفار کے لوگوں کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللّٰہ سلامت رکھے -"
یہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ ایک مرتبہ حج کے لیے مکہ گئے - طواف کے دوران کعبے کے پاس ٹھہر گئے - لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے - اس وقت انہوں نے لوگوں سے کہا:
"بھلا بتاؤ تو! تم میں سے کوئی سفر میں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کیا وہ سفر کا سامان ساتھ نہیں لیتا؟"
لوگوں نے کہا:
"بے شک! ساتھ لیتا ہے -"
تب آپ نے فرمایا:
"تو پھر یاد رکھو! قیامت کا سفر دنیا کے ہر سفر سے کہیں زیادہ لمبا ہے اور جس کا تم یہاں ارادہ کرتے ہو، اسی لیے اپنے ساتھ اس سفر کا وہ سامان لے لو جو تمہیں فائدہ پہنچائے -"
لوگوں نے پوچھا:
"ہمیں کیا چیز فائدہ پہنچائے گی؟"
حضرت ابوذر غفاری بولے:
"بلند مقصد کے لیے حج کرو، قیامت کے دن کا خیال کرکے ایسے دنوں میں روزے رکھو جو سخت گرمی کے دن ہوں گے اور قبرکی وحشت اور اندھیرے کا خیال کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں اٹھ کر نمازیں پڑھو -"
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ ایمان لائے - کہا جاتا ہے، دیہات کے لوگوں میں سے مسلمان ہونے والوں میں یہ تیسرے یا چوتھے آدمی تھے - ایک قول یہ ہے کہ پانچوے تھے-یہ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے -
ان کے اسلام لانے کا واقعہ یوں ہے کہ انہوں نے خواب میں جہنم کو دیکھا - اس کی آگ بہت خوفناک انداز میں بھڑک رہی تھی - یہ خود جہنم کےکنارے کھڑے تھے - خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ انہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے مگر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا دامن پکڑ کر انہیں دوزخ میں گرنے سے روک رہے ہیں - اسی وقت گھبراہٹ کے عالم میں ان کی آنکھ کھل گئی - انہوں نے فوراًکہا:
"میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خواب سچا ہے -"
ساتھ ہی انہیں یقین ہوگیا کہ جہنم سے انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی بچا سکتے ہیں - فوراً ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آئے - انہیں اپنا خواب سنایا - ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:
"اس خواب میں تمہاری بھلائی اور خیر پوشیدہ ہے، اللّٰہ کےرسول موجود ہیں ، ان کی پیروی کرو -"
چنانچہ حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ فوراً ہی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ سے پوچھا:
"اے محمد! آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں - "
آپ نے ارشاد فرمایا:
"میں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اللّٰہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، کوئی اس کے برابر کا نہیں اور یہ کہ محمد اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں اور تم جو یہ پتھروں کی عبادت کرتے ہو، اس کو چھوڑ دو - یہ پتھرنہ سنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں ، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں - "
یہ سنتے ہی حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ مسلمان ہوگئے - ان کے والد کا نام سعید بن عاص تھا - اسے بیٹے کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو آگ بگولہ ہوگیا - بیٹے کو کوڑے سے مارنا شروع کیا - یہاں تک کہ اتنے کوڑے مارے کہ کوڑا ٹوٹ گیا - پھر اس نے کہا:
"تو نے محمد کی پیروی کی، حالانکہ تو جانتا ہے، وہ پوری قوم کے خلاف جارہا ہے، وہ اپنی قوم کے معبودوں کو برا کہتا ہے -"
یہ سن کرحضرت خالدبن سعید رضی اللّٰہ عنہ بولے:
"اللہ کی قسم! وہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ، میں نے اس کو قبول کرلیا ہے -"
اس جواب پر وہ اورغضب ناک ہوا اور بولا:
"خداکی قسم! میں تیراکھانا پینابند کردوں گا -"
حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا:
"اگر آپ میرا کھانا پینا بند کردیں گے تو اللّٰہ تعالٰی مجھے روٹی دینے والا ہے -"
تنگ آکر سعید نے بیٹے کوگھر سے نکال دیا - ساتھ ہی اپنے باقی بیٹوں سے کہا:
"اگر تم میں سے کسی نے بھی اس سے بات چیت کی، میں اس کابھی یہی حشر کروں گا -"
حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ گھر سے نکل کر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے - اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ ہی رہنے لگے - باپ سے بالکل بے تعلق ہوگئے - یہاں تک کہ جب مسلمانوں نے کافروں کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی تو یہ ہجرت کرنے والوں میں سے پہلے آدمی تھے.
ایک مرتبہ ان کا باپ بیمار ہوا، اس وقت اس نے قسم کھائی، اگر خدا نے مجھے اس بیماری سے صحت دے دی تو میں مکہ میں کبھی محمد کے خدا کی عبادت نہیں ہونے دوں گا.
باپ کی یہ بات حضرت خالد بن سعيد ؓ تک پہنچی تو انہوں نے کہا
اے اللہ، اسے اس مرض سے کبھی نجات نہ دینا
چنانچہ ان کا باپ اسی مرض میں مر گیا... خالد بن سعيد ؓ پہلے آدمی ہیں ، جنہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی.
ان کے بعد ان کے بھائی عمرو بن سعید ؓ مسلمان ہو گئے. ان کے مسلمان ہونے کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے خواب میں ایک نور دیکھا... نور زمزم کے پاس سے نکلا، اور اس سے مدینے کے باغ تک روشن ہو گئے اور اتنے روشن ہوئے کہ ان میں مدینے کی تازہ کھجوریں نظر آنے لگیں . انہوں نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا تو ان سے کہا گیا. زمزم عبد المطلب کے خاندان کا کنواں ہے اور یہ نور بھی انہی میں سے ظاہر ہوگا. پھر جب ان کے بھائی خالد ؓ مسلمان ہو گئے تو انہیں خواب کی حقیقت نظر آنے لگی. چنانچہ یہ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے علاوہ سعید کی اولاد میں سے ریان اور حکم بھی مسلمان ہوئے. حکم کا نام نبی کریم ﷺ نے عبداللہ رکھا.
اسی طرح ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والوں میں حضرت صہیب ؓ بھی تھے، ان کا باپ ایران کے بادشاہ کسری کا گورنر تھا. ایک مرتبہ قیصر کی فوجوں نے اس کے علاقے پر حملہ کیا. اس لڑائی میں صہیب ؓ گرفتار ہو گئے. انہیں غلام بنا لیا گیا. اس وقت یہ بچے تھے، چنانچہ یہ غلامی کی حالت میں ہی روم میں پلے بڑھے وہیں جوان ہوئے. پھر عرب کے کچھ لوگوں نے انہیں خرید لیا اور فروخت کرنے کے لیے مکہ کے قریب عکاظ کے بازار میں لے آئے. اس بازار میں میلہ لگتا تھا اس میلے میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی. میلے سے ایک شخص عبداللہ بن جدعان نے خرید لیا. اس طرح یہ مکہ میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ کا ظہور ہو گیا، ان کے دل میں آئی کہ جا کر بات تو سنوں ... یہ سوچ کر گھر سے نکلے، راستے میں ان کی ملاقات عمار بن یاسر ؓ سے ہوئی. انہوں نے ان سے پوچھا.
صہیب کہاں جا رہے ہو
یہ فوراً بولے.
میں محمد کے پاس جا رہا ہوں تاکہ ان کی بات سنوں اور دیکھوں .... وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں ..
یہ سن کر عمار بن یاسر ؓ بولے.
میں بھی اسی ارادے سے گھر سے نکلا ہوں .
یہ سن کر صہیب ؓ بولے.
تب پھر اکٹھے ہی چلتے ہیں .
اب دونوں ایک ساتھ قدم اٹھانے لگے.
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>

کوئی تبصرے نہیں: