🌼 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع، سبق نمبر 12


 سورۃ الأنعام کا خلاصہ 


 اصلاحِ مجوس 

اس سے قبل سورۃ البقرہ میں یہود کو دعوتِ الی الکتاب دی گئی تھی، سورۃ آلِ عمران میں نصاریٰ کو دعوتِ الی التوحید کا پیغام سنایا گیا، سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں اصلاحِ عرب اور اصلاحِ معاشرہ پیشِ نظر تھی، اور سورۃ الأنعام میں اصلاحِ مجوس مقصود ہے، جس کے ضمن میں اور باتیں بھی آتی جائیں گی۔


رکوع نمبر ۱ کا خلاصہ: توحید، کتابُ اللہ اور رسالت کی دعوت

اس رکوع میں پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر کیا گیا، پھر کتابُ اللہ اور حضور ﷺ پر ان کے ذکر کردہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔

کفار کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ:

کتاب پوری کی پوری ایک ساتھ نازل کیوں نہیں ہوئی؟

رسول کوئی فرشتہ کیوں نہیں؟

انسان کیوں رسول بن کر آیا؟

ان کے یہ اعتراضات محض سطحی ہیں، جو یہ لوگ ماننے کے لیے نہیں بلکہ اعتراض برائے اعتراض کے طور پر کرتے ہیں۔


رکوع نمبر ۲ کا خلاصہ: توحید کا ایک جزوِ لازم

توحید کا ذکر اس سے قبل کے رکوع میں کیا گیا، اور اس توحید کے لیے ایک جذبے کی ضرورت ہے، جو جذبہ تمسّک بالکتاب اللہ سے حاصل ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے تو اپنی ذات پر رحمت لازم کر رکھی ہے، جو بندوں کے اوپر شفقت کے طور پر ہے، ورنہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جو قانونِ ابدی نازل فرمایا ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو، اور اس پر عمل پیرا ہو جاؤ — کامیاب ہو جاؤ گے۔


رکوع نمبر ۳ کا خلاصہ: کتابُ اللہ کی اتباع نہ کرنے کا نتیجہ

کتابُ اللہ کی اتباع ہر فرد پر لازم ہے۔ اگر اس کی اتباع ترک کر دی جائے تو پھر اس کا نتیجہ ابتلاءٌ فی الشرک نکلے گا، کیونکہ جب کتابُ اللہ کی اتباع نہ ہوگی تو تکذیب ہوگی، اور تکذیب ہی عین شرک و کفر ہے۔

لہٰذا کتابُ اللہ کی اتباع سے ہرگز منہ نہ موڑو۔ اگر ایسا کیا گیا تو پھر ان لوگوں کا حال کل قیامت کے دن اچھا نہیں ہوگا۔

یہ لوگ پچھتائیں گے اور تمنائیں کریں گے کہ:

کاش! ہمیں دنیا میں ایک مرتبہ لوٹا دیا جائے تو ہم نیک اعمال اختیار کریں گے، تقویٰ سے بھرپور زندگی گزاریں گے!

لیکن:


اب پچھتائے کیا ہوت،

جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔


ان کی یہ ندامت کسی کام نہ آئے گی، اور یہ جہنم کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔


رکوع نمبر ۴ کا خلاصہ: تکذیبِ رُسل انسان کی عادتِ مستمرہ ہے

عادتُ اللہ ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہر قوم میں انبیاء و رُسل بھیجے گئے، اور انسان کی عادت ہمیشہ سے ان انبیاء کی تکذیب کرنے کی رہی ہے۔

جب بھی کوئی نبی کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تو اس قوم کے وڈیروں اور جاگیرداروں نے اس کا مذاق ہی اڑایا۔

لیکن وہ انبیاء اس سے تنگ دل نہیں ہوئے، بلکہ صبر سے کام لیتے رہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت ان کے حق میں نازل ہوئی۔

اسی طرح حضور ﷺ کو بھی مسلسل اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں۔

آپ ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ بھی ان کی طرح صبر اختیار کریں۔

ان شاء اللہ! آپ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور نصرت نازل ہوگی۔


رکوع نمبر ۵ کا خلاصہ: تذکیر بِایّامِ اللہ سے دعوتِ الی التوحید

گزشتہ اُمم کے واقعات بیان کر کے ان پر عذاب کی کیفیت ظاہر کی جا رہی ہے کہ ہم نے گزشتہ اقوام و اُمم پر ایسے سخت عذاب بھیجے کہ وہ ان کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے۔

اس کی وجہ محض ان کی وہ ہٹ دھرمی تھی جو انہیں دعوتِ توحید کو قبول کرنے میں سدِّ سکندری بن گئی تھی۔

تم بھی ہوشیار رہو! اگر تم نے بھی یہی رویہ اختیار کیے رکھا اور دعوتِ توحید کو قبول کرنے سے انکار کیے رکھا تو تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جائے گا، اور عذابِ خداوندی سے بچانے والا تمہارے لیے کوئی نہ ہوگا۔


رکوع نمبر ۶ کا خلاصہ: حضور ﷺ کی محبت کے اصل مستحق

جو لوگ توحید کے متوالے اور شیدائی ہوں، خدا پرست ہوں، غیر اللہ کی عبادت سے دور رہتے ہوں — یہی لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ حضور ﷺ ان کو اپنا مصاحب بنائیں، تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ یہ لوگ عنداللہ معزز اور مقرب بندے شمار ہوں۔

لوگ ان کے اس تقربِ خداوندی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے بھننے لگیں گے۔

جلنے والے کا منہ کالا! تم ان سے کوئی سروکار نہ رکھنا — اپنا کام کیے جانا۔


رکوع نمبر ۷ کا خلاصہ: مخالفینِ توحید سے مقاطعہ

حضور ﷺ کو تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ علانیہ غیر اللہ کی پوجا سے براءت کا اعلان کر دیں، اور جو لوگ توحید کے مخالف ہوں اور آپ کے اس اعلانِ براءت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوں، ان لوگوں سے مکمل مقاطعہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔


رکوع نمبر ۸ کا خلاصہ: اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے

تمام انسانیت اللہ تعالیٰ کے مکمل قابو اور اختیار میں ہے۔

وہ ہر چیز پر قادر ہے، بلکہ قادرِ مطلق ہے۔

جب چاہے جس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

جب چاہے زندگی دے دے، اور جب چاہے موت کے فرشتے کو مسلط کر کے روح قبض کرلے، پھر جیسا چاہے فیصلہ کرے — اور اس فیصلے میں کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔

اس لیے کہ وہ کِراماً کاتبین کے لکھے ہوئے صحیفوں کی بنیاد پر ہوگا، اور پھر علمِ خداوندی ازلی ہے — اس میں ہر چیز موجود ہے۔

پس اللہ کی قدرت سے ڈرو اور اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ۔


رکوع نمبر ۹ کا خلاصہ: مسلکِ توحید میں اُسوۂ ابراہیمی

توحید کے پرستاروں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ سنا کر ان کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانے کے ستارہ، شمس و قمر کے پجاریوں کے سامنے ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے بعد ان سے اپنی براءت کا اعلان کیا اور فرمایا:

میں ان سب سے بیزار اور الگ تھلگ ہوں، ایک خدا کے سوا دوسرے معبودانِ باطلہ کی پوجا کر کے مشرک نہیں بن سکتا۔


رکوع نمبر ۱۰ کا خلاصہ: انبیاء علیہم السلام کا مسلک

توحید کے سلسلے میں جو مسلک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا، بعینہٖ وہی مسلک اس سے قبل حضرت نوح علیہ السلام کا تھا۔

پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں جتنے انبیاء علیہم السلام آئے — مثلاً حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہم السلام وغیرہ — ان کا بھی یہی مسلک تھا۔

اور یہی مسلک حضور ﷺ کا ہے۔

یہ تمام حضرات صراطِ مستقیم پر ہمیشہ گامزن رہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔//

🌼🤲♥️🌸🌹

Next
This is the most recent post.
قدیم تر اشاعت

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget