🌸 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع, سبق نمبر 04


 سورۃ بقرہ کے مضامین کا خلاصہ 



رکوع نمبر ٢٠ کا خلاصہ: تدبیر منزل کے پانچ مسئلوں میں سے پہلا مسئلہ ، کسب رزق تدبیر منزل کو ہم پانچ مسائل میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر مسئلہ پر رکوع کے 

اعتبار سے بحث کریں گے۔

(1) کسب رزق

(۲) صرف کرنے کے اصول

(۳) نظام فوجداری

(۴) نظام دیوانی

(۵) اشاعت تعلیم اور اصلاح معاملات


اس رکوع میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے اور اپنی رحمت سے کسب حلال کیلئے خزانے کھول دیئے ہیں ، انسان کو چاہئے کہ ان میں کام کر کے اپنی گزر بسر کا سامان پیدا کرے، ظاہر ہے کہ ہر کام میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں پیش آتی ہیں اگر کسب حلال میں کوئی رکاوٹ پیش آئے تو کسی غیر اللہ کے آگے سر نہ جھکانا اسی خدا سے مانگنا جس نے تمہیں پیدا کیا۔


رکوع نمبر ٢١ کا خلاصہ: معاشرتی و خاندانی نظام کے اصول

اس رکوع میں خاندان اور معاشرتی زندگی کے نظم و ضبط کو بیان کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ انسانی زندگی کا استحکام عدل، ذمہ داری اور باہمی حقوق کے احترام پر قائم ہے۔

نکاح، طلاق، عدت، رضاعت، اور مالی ذمہ داریوں میں اللہ کے حدود کی پابندی لازم قرار دی گئی ہے۔

یہ رکوع بتاتا ہے کہ اسلامی معاشرہ عورت، مرد، والدین اور اولاد — سب کے حقوق کے توازن سے مضبوط ہوتا ہے۔

جو شخص ان اصولوں پر قائم رہے، وہ اللہ کی رحمت کا اہل بنتا ہے۔


 رکوع نمبر ۲۲ کا خلاصہ : نظام فوجداری اور نظام دیوانی کے اصول 

نظام حکومت کے دو صیغے ہیں، فوجداری اور دیوانی ، فوجداری نظام کا ابتدائی دومینے اور سلسلہ گھر سے شروع ہوتا ہے مثلاً اگر گھر میں لڑائی ہو جائے تو اس قضیے کا فیصلہ کس طرحکیا جائے؟ سو گھر کا بڑا آدمی اس طرح فیصلہ کرے کہ گھر میں سیاست اسلامیہ کا مادہ پیدا ہو سکے، پھر جس طرح مالدار کیلئے وصیت میں انصاف کا خیال رکھنا لازمی ہے، اسی طرحمال کے ہر معاملہ میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا بھی لوازم انسانیت میں سے ہے اس کا خیال رکھنا نظام دیوانی کے زمرے میں آکر لازم قرار پاتا ہے۔


رکوع نمبر ۲۳ کا خلاصہ: اشاعت تعلیم اور اصلاح معاملات

ماہ رمضان میں تین چیزیں بظاہر مقصود نظر آتی ہیں۔

(1) گھروں میں مذہبی تعلیم پھیلانا۔

(۲) قانون و روح مذہب کا پابند بنانا۔

(۳) انتظام قائم کرنا۔ مسلمانوں کا نصاب تعلیم قرآن ہے، زمانہ تعلیم رمضان ہے اور طریقہ تعلیم صلوۃ التراویح ہے۔

اور ایک اہم عبادت اعتکاف ہے جو کسی بھی محلہ والوں پر سنت علی الکفایہ کے طور پر ضروری ہے۔ اصلاح معاملات کے سلسلے میں یہ بات بطور قاعدہ کلیہ کے ملحوظ رہے کہ کسی کا مال ناحق نہ کھایا جائے۔ اور روح تعلیم دعا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” الدعا مخ العبادة"


رکوع نمبر ۲۴ کا خلاصہ: ملک گیری

اس رکوع کے اندر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ملک گیری کے رہنما اصول بتائے ہیں اور وہ یہ کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کا فوجی ہے اور فوجی ہر وقت اپنے افسر کے حکم کا منتظر رہتا ہے، مسلمانوں کو بھی ہر وقت جہاد کیلئے تیار رہنا چاہئے اور جب جہاد شروع ہو تو بھی یہاں تک لڑو کہ اللہ کا حکم اور اس کا دین نافذ ہو جائے لیکن لڑنے میں اس قدر بے قاعدہ نہ ہو جانا کہ اشہر حرم کی عظمت و حرمت اور اس کے تقدس کو پامال کر دو، اس کا خیال رکھنا، البتہ اگر کفار اشہر حرم میں قتال کرنا شروع کریں تو پھر تمہیں بھی جوابی کاروائی کی اجازت ہے۔ پھر آگے حج کا حکم دیا جا رہا ہے کیونکہ جن اوصاف کی ضرورت جہاد و قتال میں پیش آتی ہے ان کی مشق مسلمانوں کو حج میں کرائی جاتی ہے اس لئے اس کے بعد حج کا تذکرہ کیا گیا ہے۔


رکوع نمبر ۲۵ کا خلاصہ: اقسام الحجاج

سفرحج میں اخلاق کی اصلاح منظور ہے اس لئے اس میں کسی قسم کا جھگڑا وغیرہ میں ہونا چاہئے اور روحانیت اور حالا اخلاق کا ادراہ ساتھ اد کر کوئی نہیں ہونا چاہئے اور اصلاح روحانیت اور حفاظت اخلاق کا زاد راہ ساتھ لاؤ تا کہ کوئی بد اخلاقی نہ ہو اور تعلق باللہ میں خلل نہ ہو، اس موقع پر حجاج کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہو جاتی ہیں۔ 

(1) جن کو محض دنیا کی طلب اور خواہش ہوگی۔

(۲)جن کو اللہ کی رضا مطلوب ہوگی لیکن انہیں اگر تبعا دنیاوی فلاح بھی حاصل ہو جائے تو وہ اس پر بھی خوش ہو جاتے ہیں۔


رکوع نمبر ۲۶ کا خلاصہ: تمہید قتال کے بعد اعادہ حکم قتال

رکوع نمبر ۲۴ میں جو قتال کی ترغیب مسلمانوں کو دی گئی تھی گویا وہ ایک تمہید تھی اب اس رکوع کے اندر قتال کا حکم دوبارہ دیا جا رہا ہے اور مسلمانوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہارے اوپر تکالیف کا آنا از بس ضروری ہے اس کے بغیر دخول جنت کا گمان بھی نہ کرنا اگر چہ قتال و جہاد کا حکم تم پر بہت شاق اور بھاری ہے لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے که انسان ایک چیز کو اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہے حالانکہ وہ اس کے حق میں مصر ہوتی ہے، اور ایک چیز کو مصر سمجھتا ہے حالانکہ وہ چیز اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے جیسے جہاد کہ اس کو لوگوں میں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس کو اپنے حق میں مصر سمجھتے ہیں حالانکہ اسی میں ان کی بہتری پنہاں ہے جو ان کو آئندہ چل کر معلوم ہوگی۔


رکوع نمبر ۲۷ کا خلاصہ: مسائل متفرقہ متعلقہ قتال

اس رکوع میں قتال و جہاد کے متفرق مسائل بیان کئے جارہے ہیں مثلاً یہ کہ جہاد کا حکم عارضی نہیں بلکہ دائی ہے " كما في الحديث، الْجِهَادُ مَاضٍ مُذْ بَعَثَنِي الله إِلى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الدَّجَّالَ اگر کوئی شخص حکم قتال کو سن کر اسلام ہی سے انحراف کرلے تو یہ اللہ کا باغی ہے اور باغی ہر حکومت کے نزدیک واجب القتل ہوتا ہے، نیز یہ کہ جہاد میں مال و زر خرچ کرنے کی ضرورت بھی پیش آئے گی لیکن اس میں حلال روزی استعمال کی جائے جوا اور سود کی کمائی لگانا جائز نہیں پھر یہ کہ اگر جنگ میں مسلمان شہید ہو جائیں اور ان کی یتیم اولاد زندہ ہو تو ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے اور خود اس بات کا خیال رکھو کہ کسی مشرکہ عورت کے حسن و جمال سے مرعوب ہو کر اس پر فریفتہ نہ ہو جانا کہ اس سے نکاح کی رغبت تمہارے دل میں پیدا ہو جائے۔


رکوع نمبر ۲۸ تا ۳۱ کا خلاصہ: مسائل ملک داری

حاکم ایسے احکام جاری کرے جن کا مستقبل میں اچھا اثر ہو اور وہ تقویٰ سے باہر نہ ہوں، اور اگر ایسا حکم دیا کہ جس کے مضر نتائج سامنے آئیں تو اس حکم کو واپس لے لے خواہ قسم سے بھی اس کی توثیق کر چکا ہو اور اگر وہ یمین لغو ہو تو اس میں کفارہ اور مواخذہ بھی نہیں اور اگر حاکم اور اس کی رعایا میں کشیدگی پیدا ہو جائے تو حاکم کو معزول کرنے سے قبل چار مہینے کی مہلت دی جائے تا کہ وہ اپنے معاملہ میں خوب غور وفکر کرلے اور اپنی اصلاح کرلے۔


اگر وہ استعفاء دیدے تو پھر اس کے ساتھ برا سلوک نہ کیا جائے ، اگر تین مرتبہ اس کو حاکم بنایا گیا اور تینوں مرتبہ استعفاء کی نوبت پیش آگئی تو اس علاقے کا اس کو دوبارہ حاکم نہیں بنانا چاہئے البتہ اگر وہ دوسرے علاقے کا حاکم بن کر یہاں آئے تو دوسری بات ہے، اور اگر اس کے جاتے ہوئے دوسرا حاکم آئے تو اس کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے ، اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور نماز قائم کرنے کی طرف خصوصی توجہ کرے۔


رکوع نمبر ۳۲ کا خلاصہ: قانون ملک گیری اور ملک داری کے بعد اقدام عمل

جب جہاد و قتال کیلئے نکلنے لگو تو موت کے خیال کو بھی دل میں نہ لانا، موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اپنے خون پسینے کی کمائی بھی شامل کر لینا اور ایک امیر کا انتخاب بھی لازمی ہے لیکن وہ دنیا داروں کے طریقے کے مطابق دولت مندی کے معیار پر قائم نہ ہو بلکہ ذی علم اور جسیم ہو کہ مد مقابل سے مرعوب نہ ہو سکے اگر یہ کام کر لئے تو پھر ملک و اهل ملک پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول لازما ہوگا ( انشاء اللہ )


 رکوع نمبر ۳۳ کا خلاصہ: ضرورت خلافت 

امیر اپنے تقرر کے بعد فوج کا امتحان لے اور اس میں سے فرمانبردار اور نا فرمان کو الگ کرے پھر فرمانبرداروں کو لیکر اللہ کے باغیوں سے جنگ کرے تو اللہ تعالیٰ

اس کی ضرور مدد کریں گے خواہ وہ لوگ تعداد کے اعتبار سے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔


 رکوع نمبر ۳۴، ۳۵ کا خلاصہ: فرائض خلیفہ 

جب زمین میں اللہ کی خلافت قائم ہو جائے تو پھر خلیفہ کا فرض یہ ہے کہ اپنی اور اپنے ماتحتوں کی جان مال اور حفاظت توحید میں لگا رہے ہاں ! کسی کو اس کا مذہب زیک کرنے پر جبر نہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کی نشر و اشاعت کا اہتمام کرے جن سے عقیدہ توحید کی تائید اور اس کو تقویت پہنچتی ہو۔


 رکوع نمبر ۳۶، ۳۷ کا خلاصہ: معاونین خلافت کے فرائض اور شرائط انفاق فی سبیل اللہ 

معاونین خلافت کی دو قسمیں ہیں ۔ 1۔ اہل علم ، ۲۔ اہل دولت ۔ اس رکوع میں اہل دولت کے فرائض بیان کئے جا رہے ہیں کہ وہ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کریں پانچ شرطوں کے ساتھ جن میں سے تین انسان کے اندر ہونی چاہئیں اور دو نہیں ہونی چاہئیں۔


(1) اللہ کے راستے میں دے کر احسان نہ جتائیں۔

(۲) جس کو دیا گیا ہے اس کو تکلیف نہ دیں۔

(۳) رضاء خداوندی کیلئے مال خرچ کریں۔

(۴) دل کی خوشی سے خرچ کریں۔

(۵) عمدہ چیز خرچ کریں اور اہل علم کیلئے بھی یہی پانچ شرائط ہیں جن کے مطابق وہ اپنے علم کو پھیلائیں۔


رکوع نمبر ۳۸ کا خلاصہ : سود خوری کی ممانعت

سود خوری کا انجام نہ قیامت میں اچھا ہوگا اور نہ وہ اس دنیا کی لذتیں پوری طرح اٹھا سکے گا اور اس پر مزید سزا یہ کہ اللہ کی لعنت میں گرفتار رہے گا اس لئے سود سے باز آ جانا چاہئے ، اور جو لوگ باز نہیں آتے وہ اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کر رہے ہیں، جس میں یقینا وہ نا کام ہوں گے اس لئے ان کو اپنے حق میں سوچنا چاہئے۔


 رکوع نمبر ۳۹ کا خلاصہ: قانون دین 

ربوا کو اس قدر شدت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا کہ اس کے برابر پورے قرآن میں کہیں ایسی شدت نہیں آئی۔ اصل میں رہوا کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ لوگ وقت پر قرض ادا نہیں کیا کرتے تھے اس لئے اس رکوع کے اندر قرض وقت پر ادا کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔


 رکوع نمبر ۴۰ کا خلاصہ: شوری خلافت کا اللہ سے تعلق 

اس خلافت کو چلانے والے اصحاب کا اللہ سے ایسا تعلق ہو کہ ان میں کے ہر شخص کا اس کے بھیجے ہوئے ہر پیغمبر پر ایمان ہو، محاسبہ نفس میں کوشاں رہتا ہو اور ہر وقت عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور میں دعائیں کرتا رہتا ہوتا کہ زمین میں فتنہ فساد نہ ہو اور اللہ کی حکومت قائم ہو۔

 "آج الحمدللہ سورة البقرہ کی 40 رکوعات کا خلاصہ مکمل ہوا، کل ان شاء اللہ سورة آل عمران شروع کرینگے۔" 

جاری ہے ۔۔۔۔//

🌼🌹🌸♥️🤲

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget