Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🌼 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع, سبق نمبر 02


 سورۃ بقرہ کے مضامین کا خلاصہ


رکوع نمبر ۴ کا خلاصہ:

 

ضرورتِ الہام حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت فرشتوں کا مکالمہ، عرضِ آدم، سجودِ ملائکہ، تکبّرِ ابلیس، خروج از جنّت وغیرہ امور اس رکوع کا حصہ ہیں۔ زمین پر اتارے جانے کے بعد عرصہ دراز تک آدم علیہ السلام روتے رہے، بارگاہِ قدسی میں توبہ کے لیے دعائیں کرتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں


رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ


والی دعا الہام فرمائی اور اس دعا پر ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اس سے الہام کی ضرورت پر روشنی پڑتی ہے اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب الہام حضرتِ آدم علیہ السلام جو کہ ابوالبشر ہیں، کے لیے ضروری تھا تو ان کی اولاد کے لیے بطریقِ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔


 رکوع نمبر ۵ کا خلاصہ: 

نئی ملہم من اللہ جماعت کی ضرورت بنی اسرائیل یہودیوں کو کہا جاتا ہے۔ اصل میں اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ عبرانی زبان میں ”اسراء“ کا معنی عبد اور ”ایل“ کا معنی اللہ ہے، تو اسرائیل کا معنی ہوا ”عبداللہ“ (اللہ کا بندہ)۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے اور انہیں یہودی بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یہودا تھا، اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے انہیں یہودی کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کی بڑی ناز برداریاں فرمائیں اور انہیں سلطنت اور حکومت عطا فرمائی۔ تقریباً ستر ہزار انبیاء ان میں بھیجے گئے، لیکن انہوں نے بعض انبیاء کو ناحق شہید کیا، بعض کو اذیتیں دیں۔ غرض یہ کہ یہ جماعت اپنی تمام ذمہ داریوں کو کماحقہٗ پورا کرنے میں ۸۰ فیصد ناکام رہی، جس کی وجہ سے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پیش آئی جو ان کی جگہ پر اچھے طریقے سے کام کر سکے، دین کو دنیا کی خاطر بیچتی نہ ہو، احکامِ خداوندی کی ۱۰۰ فیصد تعمیل کرنے والی ہو۔ چونکہ نبیِ آخر الزمان ﷺ کی بعثت ہو چکی تھی، اس لیے ان کی امت کو اُمّتِ محمدیّہ علیٰ صاحبہا السلام والتحیۃ کا اعزازی لقب دے کر "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ" کی نمایاں شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا تاکہ سسکتی ہوئی انسانیت، تڑپتی ہوئی کائنات اور ایک بیمار جسم جو جگہ جگہ سے گل سڑ گیا تھا، اس کے علاج اور دوا دارو کا انتظام ہو سکے۔

اور یہ جماعت ملہم من اللہ قرار پائی، جس کی ضرورت پر بقدرِ ضرورت رکوع نمبر ۴ میں گفتگو مذکور ہے۔


 رکوع نمبر ۶ کا خلاصہ: 

شہری و دیہی زندگی میں یہود کی ناکامی اس رکوع میں بھی یہودیوں کو قبولِ اسلام اور تصدیقِ نبی ﷺ کی دعوت دی جا رہی ہے اور اپنی نعمتوں کو جتا کر انہیں احسان فراموشی کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے۔

آپ غور فرمائیں! کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر کتنے احسانات کیے کہ عین حالتِ عذاب میں بھی ان پر من و سلویٰ جیسی نعمتوں کی بارش ہوتی رہی، لیکن ”مع عزت کسی کسی کو راس آتی ہے“ کے مصداق یہ قوم ذلت کی انتہائی پستیوں میں جا گری۔

چنانچہ اگلے رکوع میں یہ بات آ رہی ہے: وضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ۔

جب چاندی کو سکے کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے، اس وقت کہا جاتا ہے ”ضرب الدرہم“، پھر ظاہر ہے کہ اب اس چاندی پر وہ سکے والی کیفیت پختہ ہوگئی ہے۔ اسی طرح یہودیوں پر ذلت اور مسکنت والی کیفیت بھی ایسی پختہ ہوگئی ہے کہ وہ اب ان سے جدا نہیں ہو سکتی۔

بہرحال! اس قوم پر ہونے والے انعامات اور احوالِ قیامت کا ذکر کر کے انہیں صدقِ دل سے ایمان لانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔


اور یہ جو اس قوم پر ذلت اور مسکنت کی مہر لگائی گئی، وہ اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تھی، چنانچہ دیہاتی زندگی میں بھی یہ لوگ بری طرح ناکام ہوئے کہ بچھڑے کی پوجا پاٹ کرنے لگے، پھر تقریباً ستر ہزار اس جرم کی پاداش میں اپنے ہی رشتہ داروں کے ہاتھوں مقتول ہو کر سزا یاب ہوئے، اور شہری زندگی میں اس طرح کہ جب انہیں بیت المقدس میں داخلہ کا حکم ملا اور ان سے کہا گیا کہ مذکورہ بستی میں "حطّة" کہتے ہوئے داخل ہو جاؤ تو وہ خلافِ حکم اس بستی میں داخل ہوئے اور ”حطة“ کی بجائے ”حنطة“ کہنا شروع کر دیا، لیکن وہاں بھی وہ کامیاب زندگی نہ گزار سکے۔ اس لیے ان سے خلافتِ ارض چھین کر حضور اقدس ﷺ کی امت کو دے دی گئی۔


 رکوع نمبر ۷ کا خلاصہ: 

یہود کا مصری زندگی میں ناکام ہونا اس رکوع کے اندر بھی گزشتہ رکوع کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے کہ جیسے یہ یہود بدوی اور قروی زندگی میں ناکام ہوئے، اسی طرح شہری و مصری زندگی میں بھی بری طرح ناکام ہو گئے۔ اس لیے وہ اب خلافتِ الٰہیہ کے قابل نہیں رہے۔


 رکوع نمبر ۸ کا خلاصہ: 

یہود کے امراضِ ثلاثہ — تولّی، تعمّق، اور حیلہ سازی گزشتہ رکوعات میں یہود کا ہر قسم کے امتحان میں ناکام ہونا بالتفصیل بیان ہو چکا اور ان کی اس نالائقی کی وجہ سے ان پر ان تین بیماریوں نے مزید پختہ مہر لگا دی۔

چنانچہ یہود کے اندر احکامِ خداوندی سے تولّی اور اعراض کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا جس کے بار بار ظہور پر ایک مرتبہ ان پر طور پہاڑ کو مسلط کر دیا گیا تاکہ ان کو کچھ اپنے جنت کے ٹھیکیدار ہونے کے غرور کی حقیقت معلوم ہو جائے۔

پھر حیلہ سازی میں یہود آج تک مشہور ہیں اور اس رکوع میں ہفتہ والے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت پر ان کی حیلہ سازی کا ذکر ہے۔

اور تعمق اس قدر کہ ایک گائے کو ذبح کرنے میں اس قدر سوالات کیے کہ اگر کسی کی نیت ہو تو وہ اتنے سوال ہی نہ کرے کہ اس کی عمر کتنی ہو؟ رنگ کیسا ہو؟ کھیت میں جتی ہو یا نہیں؟ وغیرہ۔

ان تین امراض نے ان کی بدبختی اور شقاوت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔


 رکوع نمبر ۹ کا خلاصہ: 

یہود مسلمانوں کے مساوی رہ کر بھی کام نہیں کر سکتے

جب بھی دو جماعتیں باہم مل کر کوئی کام کرنا چاہیں تو اس میں عقلی طور پر تین صورتیں بنتی ہیں:

(1) ایک جماعت تابع ہو اور دوسری متبوع ہو۔

(2) دونوں باہم مساوی ہوں۔

(3) دوسری تابع ہو اور پہلی متبوع ہو۔


اب مسلمان اور یہودی دو قومیں ہیں۔ یہودیوں میں پہلی صورت بھی جاری نہیں ہو سکتی کہ یہود متبوع ہوں اور مسلمان تابع، کیونکہ اس سے قبل یہ بات بالتفصیل ثابت ہو چکی ہے کہ یہود میں متبوع بننے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔

اور دوسری صورت بھی جاری نہیں ہو سکتی کہ دونوں مساوی ہوں، کیونکہ اس رکوع میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیں یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ یہود ہماری بات مان کر اسلام میں داخل ہو کر ہماری مساوی ہو کر کام کریں گے۔

رہ گئی تیسری صورت تو وہ یہ کہ یہودی تابع ہوں اور مسلمان متبوع ہوں، تو وہ بھی جاری نہیں ہو سکتی کیونکہ یہود نے کہا تھا: ”قُلُوبُنَا غُلْفٌ“۔ لہٰذا یہود تابع بننے کے قابل بھی نہ رہے، اس لیے یہود ہر اعتبار سے بیکار ہیں۔

یہود کی عملی کمزوریاں:

پھر ان کی عملی کمزوری یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر تورات کے احکام میں تبدیلی کرنے پر بھی نہیں چوکتے، اپنے ہی ہاتھ سے لکھ کر اللہ اور رسول کی طرف منسوب کرنے میں انہیں کوئی بار محسوس نہیں ہوتا۔


 رکوع نمبر ۱۰ کا خلاصہ: یہود کی بداعمالیاں 

یہود کو اللہ کی عبادت کرنے اور احسان و سلوک کرنے کا حکم اور اپنے ہم مذہبوں اور ہموطنوں کو جلا وطن کرنے، ان کو تنگ کرنے سے روکا گیا تھا، لیکن یہ اس قدر بد عمل نکلے کہ بعض احکام پر عمل کیا اور بعض پر نہیں کیا، حالانکہ یہ ان احکامات پر عمل کرنے کا پختہ اقرار اور وعدہ کر چکے تھے اور اس پر اپنی شہادت بھی دے چکے تھے۔ اس سے بڑھ کر اور ان کی نااہلی کا کیا ثبوت ہوگا؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔//

🌸🌼🤲🌹♥️

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.