Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

آج کی بات: چُپ رہنے سے بڑا کوئی جواب نہیں


 آج کی بات

💬 "چُپ رہنے سے بڑا کوئی جواب نہیں، اور معاف کر دینے سے بڑا کوئی انتقام نہیں۔"

یہ جملہ صرف الفاظ کا خوبصورت امتزاج نہیں — یہ حکمت، صبر، اور روحانی طاقت کا اعلانِ حقیقت ہے۔ دنیا عام طور پر "جواب" کو زبان سے، اور "انتقام" کو طاقت سے جوڑتی ہے۔ لیکن اسلام اور حکمتِ قدیم دونوں کہتے ہیں: سچّی فتح وہ ہے جو خاموشی اور بخشش میں چھپی ہوتی ہے۔ 🌿🕊️


🔇 چُپ رہنا: سب سے طاقتور جواب

دنیا میں ہر شخص بولنا چاہتا ہے — ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ درست ہے، وہ زخمی ہوا ہے، وہ ظلم کا شکار ہے۔ لیکن چُپ رہنا؟ یہ تو وہ ہمت ہے جو صرف صبر والوں میں ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾
(سورۃ الفرقان: 63)
"اور جب انہیں جاہل لوگ بات کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: سلام!"

یعنی نہ جھگڑا، نہ گالی، نہ بحث — صرف ایک پرسکون "سلام" اور گزر جانا۔
یہی وہ اعلیٰ اخلاق ہے جو مومن کی پہچان ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"الصَّمْتُ حِكْمَةٌ، وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ"
"خاموشی حکمت ہے، اور اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔"

چُپ رہنا کمزگی نہیں — اختیار کی طاقت ہے۔
جب آپ جواب دینے کے باوجود نہیں دیتے، تو آپ نہ صرف اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں، بلکہ دوسرے کو بھی اپنی برتری کا احساس دلاتے ہیں — بغیر ایک لفظ کہے۔


🕊️ معاف کرنا: انتقام سے بڑی فتح

انتقام لینا آسان ہے۔
دل میں غصہ ہے، موقع ملا، اور آپ نے واپس کر دیا — "اب اسے پتہ چل گیا کہ میں کون ہوں!"
لیکن کیا اس سے دل کو سکون ملتا ہے؟ یا صرف زنجیر جاری رہتی ہے؟

اسلام کہتا ہے:

﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ﴾
(سورۃ النور: 22)
"اور معاف کر دیں اور درگزر کریں… کیا تم اللہ کی طرف سے معافی پسند نہیں کرتے؟"

معاف کرنا صرف دوسرے کے لیے نہیں — یہ آپ کے لیے آزادی ہے۔
غصہ دل میں رکھنا، انتقام کی خواہش — یہ سب آپ کو قیدی بنا دیتے ہیں۔
لیکن جب آپ معاف کر دیتے ہیں، تو آپ کا دل ہلکا ہو جاتا ہے، جیسے کوئی بوجھ اُترا ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"مَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا"
(صحیح مسلم: 2588)
"اللہ تعالیٰ کسی بندے کو معاف کرنے سے کچھ نہیں بڑھاتا مگر عزت۔"

یعنی معاف کرنے والا کمزور نہیں — وہ عزت والا ہوتا ہے۔
انتقام لینے والا دوسروں پر قابو پانا چاہتا ہے،
لیکن معاف کرنے والا اپنے نفس پر قابو پا چکا ہوتا ہے — اور یہی سب سے بڑی فتح ہے۔ 🏆


📜 تاریخ کی روشنی: حضور ﷺ کی مثال

فتح مکہ کے دن، جب حضور ﷺ نے اپنے دشمنوں — جنہوں نے آپ کو نکالا، آپ کے ساتھیوں کو قتل کیا، آپ کے گھر والوں کو ستایا — کو اپنے سامنے دیکھا، تو آپ ﷺ نے پوچھا:

"تمہیں میرے ساتھ کیا سلوک کا توقع ہے؟"
انہوں نے کہا: "آپ اچھے بھائی، اچھے بھتیجے ہیں۔"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"اذهبوا فأنتم الطلقاء"
"جانے دو، تم سب آزاد ہو!" 🕊️

کوئی سزا نہیں، کوئی انتقام نہیں — صرف بے پناہ بخشش۔
اور اسی دن، لاکھوں دلوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی۔
کیونکہ سچّی طاقت طاقت میں نہیں، رحمت میں ہوتی ہے۔


💡 عملی زندگی میں کیسے اپنائیں؟

  1. جب کوئی آپ کو چھیڑے، تو پہلے سانس لیں — پھر فیصلہ کریں: کیا جواب دینا ضروری ہے؟
  2. خاموشی کو کمزگی نہ سمجھیں — اسے اپنی روحانی طاقت کا اظہار سمجھیں۔
  3. معاف کرنا "ہار" نہیں، "اُچھا ہونا" ہے — جیسے درخت کاٹنے والے کو پھل دینا۔ 🌳🍎
  4. دعا کریں: "اللّٰهم اغفر لِی وَلِمَن ظَلَمَنِی" — "اے اللہ! میری اور اس کی مغفرت فرما جس نے مجھ پر ظلم کیا۔"

🌅 خاتمہ: خاموشی اور بخشش — اللہ کی صفات کا عکس

اللہ تعالیٰ الصبور، الغفور، الحليم ہیں — صبور، بخشنے والا، نہایت درگزر فرمانے والا۔
جب ہم چُپ رہتے ہیں، تو ہم الصبور کی صفت کو اپناتے ہیں۔
جب ہم معاف کرتے ہیں، تو ہم الغفور کی صفت کو جھلکاتے ہیں۔

🌟 "وہ شخص سب سے مضبوط ہے جو غصے میں اپنے نفس پر قابو رکھے۔"
(حدیث، صحیح بخاری)

اور یاد رکھیں:

چُپ رہنا = دل کی طاقت
معاف کرنا = روح کی آزادی

دنیا جوابوں کی تلاش میں ہے،
لیکن حقیقی جواب خاموشی میں چھپا ہے۔
دنیا انتقام کی تمنا کرتی ہے،
لیکن حقیقی فتح بخشش میں چھپی ہے۔

🤲 "اے اللہ! ہمیں وہ ہمت عطا فرما جو خاموشی میں چمکے، اور وہ دل عطا فرما جو بنا سوال کیے معاف کر دے۔"


کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.