▄︻デ📢 تلفظ══━一
"آب از سرگذشت"
(Āb az sar guzasht) 🗣️🎙️
▄︻デ💡 معانی و مفہوم══━一
یہ محاورہ اس صورت حال کے لیے استعمال ہوتا ہے جب:
مصیبت، پریشانی، یا مشکل حد سے بڑھ جائے۔ 😰
حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ قابو سے باہر ہو جائیں۔
کوئی صورت حال ایسی ہو کہ اب اسے سنبھالنا یا واپس لوٹنا ناممکن ہو۔
🔹 سادہ الفاظ میں: جب پریشانی سر سے بلند ہو جائے اور کوئی حل نظر نہ آئے۔ 🌪️
▄︻デ🎯 موقع و محل══━۱
یہ محاورہ ان مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں:
کوئی شخص یا گروہ شدید مشکلات میں گھر جائے۔
حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ اب کوئی چارہ کار نہ بچے۔
کوئی فیصلہ یا غلطی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہو جائے۔
مثال:
"اس نے قرض پر قرض لیا، اور اب سود اتنا بڑھ گیا کہ آب از سرگذشت!" 💸
یا
"بارش اتنی ہوئی کہ گاؤں میں سیلاب آ گیا، اب تو آب از سرگذشت!" 🌧️
▄︻ده📜 تاریخ و واقعہ══━۱
یہ محاورہ فارسی زبان سے آیا ہے اور اردو میں بطور ضرب المثل رائج ہوا۔ لفظ "آب" (پانی) اور "از سرگذشت" (سر سے گزر جانا) سے مراد ایسی حالت ہے جہاں پانی سر سے بلند ہو جائے، یعنی ڈوبنے کی صورت حال۔ یہ علامتی طور پر ایسی مصیبت کو ظاہر کرتا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہو۔ فارسی ادب اور شاعری میں بھی اس طرح کے محاورے بکثرت ملتے ہیں، جو مشکل حالات کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔ یہ محاورہ اردو بول چال میں خاص طور پر اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی ناقابل برداشت مشکل کا سامنا کر رہا ہو۔ 🕰️📜
▄︻ده😂 پُر لطف قصہ══━۱
ایک دفعہ گاؤں کا چودھری اپنے دوستوں سے بڑھکیں مار رہا تھا کہ وہ دریا پار کر لے گا۔ 🏊♂️ اس نے ندی میں چھلانگ لگائی، لیکن پانی اتنا گہرا تھا کہ وہ ہانپنے لگا۔ دوستوں نے اسے بچایا اور ہنستے ہوئے کہا: "چودھری صاحب، یہ کیا؟ آب از سرگذشت ہو گیا!" چودھری شرم سے مسکراتے ہوئے بولا: "بھئی، اگلی بار پہلے پانی کی گہرائی چیک کروں گا!" 😂
کوئی تبصرے نہیں: