🕌⭐🌴 تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
# جن کو اللہ نے تخت کا سردار بنا کر بٹھا دیا ہے ان کی مرضی کے بغیر جنت نہیں ملتی۔ جنت میں داخلے کا ٹکٹ بھی تو وہ جنت کے سردار دیں گے۔جنت جنت سب کرتے ہیں مگر جنت کے سرداروں سے سلام دعا اور شناسائی ہی نہیں ...محبت ہی نہیں....اسی لیئے جنت میں داخلے کے لیئے جنت کے مالکوں سے آشنائی اور سلام دعا اور محبت کا رشتہ بناؤ توجنت کے وارثوں اور سرداروں کے وسیلے سے جنت میں داخلہ آسان ہوجائے گا۔
اللہ سے آشنائی اور جنت میں داخلہ ان سے آشنائی کے بغیر نہیں مل سکتا۔
# دین بھی حسینؓ اور دین کی پناہ بھی حسینؓ ہیں۔ وہ دین کو بچا کر اپنی پناہ میں لے کر آئے... وہ چھلنی ہو گئے...کٹ گئے ۔عام دنیاداروں کی نظر میں یہ بربادیاں ہیں لیکن در حقیقت وہ کلمہ حق کو بچانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
یعنی اللہ کے اس حکم پر سرِ تسلیم خم کر دیا کہ وہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔
اس کے حکم کو ماننا... اور سر تسلیم خم کرنا... اور ماننا... اور ماننا... اور چپ کر کے خشک آنکھوں سے سب کو رخصت کرنا ...یہی صبر ورضا ہے... اسلامیت یہی ہے... اللہ کے راستہ پر سر تسلیم خم کر دینا کہ وہ سر سجدے میں چلا جائے اور کہا جائے کہ جیسے تیری رضا !....
# دین کی کشتی کو بھنور سے نکال کے لانے والے حضرت امام حسین ؓتھے۔
اس کا مطلب ہے کہ کہیں تو پھنسی پڑی تھی تو ہی حضرت امام حسین ؓنکال کر لائے اور پھنسی بھی ایسی جگہ تھی کہ نہ اللہ کا نام باقی رہنا تھا اور نہ ہی رسولﷺ کی بات رہنی تھی ۔مگر انہوں نے گھرانا لٹا کر دین کو پناہ دی اور کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے۔ حضرت امام حسین ؓدیتے رہے اور ....دیتے رہے ۔ اوریہ کتنی بڑی بات ہے کہ بچے سے لے کر بڑے تک دوست باپ ، بھتیجے ، بھانجے بیٹے ، کزن، خادم ایک ایک کر کے دیتے رہے اور آخر میں خود گئے ہیں۔
یہ نہیں کہ خود پہلے کٹے اور بعد میں سب گئے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے دل پر نہ گزرتی ناں.... اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت علی اکبر کی لاش کو اٹھا کر لائے تو جاتے ہوئے حضرت امام حسین ؓکے بال کالے تھے لیکن جب آپ خیموں کے پاس اٹھا کر لائے تو حضرت امام حسین ؓکے سر کے بال سفید ہو گئے تھے۔
# اس معرکہ کربلا میں ہر عمر کا.. ہر رشتہ کے درد کا احساس موجود ہے۔
وہاں خیموں کا ..بھوک پیاس کا ..کپڑوں کا رہائش کا.. ہر طرح کا معاملہ پیش آیا۔ بی بیوں کا اپنے بھائیوں کے لیے ،خاوندوں کے لیے تڑپنا اور پھر بھی پردے میں رہنا ....اور ان کی سسکیاں بھی بند ہونا.... تو اس لیئے کہ حضتر امام حسین ؓنے فرمایا کہ خیموں سے باہر کسی بی بی کی آواز نہ آئے۔
تب ہی تو کہتے ہیں کہ قرآن حسین کا ہے۔
شریعت حسینؓ کی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلط ہے۔
کوئی کہہ کے دیکھے کہ...” دین است حسین دین پناہ است حسین “...نہ کہو۔ چپ ہیں سب کے سب مہریں لگ گئی ہیں ہر ایک زبان پر۔ باقی ہر بات پر اختلاف ہے کہ وضو ایسے کرو اور ویسے نہ کرو اور ہاتھ چھوڑ کر اور ہاتھ باندھ کر نماز کے بارے میں اختلاف ہوں تو ہوں ۔مگر اس پرکوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکتا۔
ہر ایک اس پر متفق ہے کیونکہ دین کو پناہ دینے والے ہی حسینؓ ہیں۔ ان کے سوا کہیں پناہ نہیں۔
# کسی انسان کا قلب کتنا چل رہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس کا اندر کتنا اس کو صحیح اور غلط کا بتا رہا ہے۔ جتنا اس کا اندر اس کو برائی سے روک رہا اور اچھائی کی طرف راغب کر رہا ہے اس کا ا ندر اتنا ہی چل رہا ہے۔
ایسے ہی لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔ ان کی قبریں بھی ہمیشہ کے لیے زندہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے دل حق بات کے لیے چل پڑے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارا دل اندر سے گواہی دیتا ہے۔ جو حسینی ہے ان کے سامنے خود اپنا دل آکے کھڑا ہو جاتا ہے جب بھی وہ کچھ غلط کر نے لگیں۔ اور جن کے دل مردہ ہو جاتے ہیں وہ غلط کر بھی رہے ہوں تو ان کو اند رسے روک ٹوک نہیں ہوتی ۔
اگر ضمیر جاگا ہو تو وہ کہتا ہے کہ رک جا.... منع ہو جا ۔مگر جب اند ر کسی بات پر نہیں روکتا تو یہ یزید یت ہے۔ حق کے لیے .....حق بات کو نہ کہنا ....یا حق کے لیے کھڑے نہ ہونا .....اندر کی یزید یت ہے۔ اور ہمارا کام صرف اندر کے اس احساس کوہی جگانا ہے۔ اس لیے ہی تو ہمیں کسی کے مرد عورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں صرف دلوں سے فرق پڑتا ہے۔ ہمیں محبت بھی دلوں سے ہے ۔
اور جگانا بھی دلوں کو ہے۔ کسی سے محبت بھی ہے تو اس کے حسینی دل کی خوبصورتی کی وجہ سے۔ حق کی پکار سننے والا حسینی ہو تو وہ ہمیں پیارا ہے۔ جس کے اندر یزیدیت ہومگر اندر صاف نہ ہو وہ کہتا رہے حسین حسین .... تو وہ تو ہمارا نہیں ہے۔ ہمارا وہ ہے جس کا دل حسینی ہے۔اور حسینی وہ ہے کہ حق بات پر جس کا دل سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ مگر ایسے دل بہت کم ہوتے ہیں۔
ہزاروں عالموں ، تعلیم یافتہ، پڑھے لکھوں میں آج بھی اُس وقت کی طرح آٹے میں نمک کے برابر صرف72 ہی حق پر کھڑے رہنے وا لے ہوتے ہیں۔ اپنی مرضیاں چھوڑ کر اپنی خواہش چھوڑ کر صرف حق پر کھڑے ہونے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ اور حق کیا ہے؟ اللہ... کائنات میں حق صرف اللہ ہے۔ اس کا ہر حکم ہر بات حق ہے۔ سو حق پرکھڑے ہو جاؤ۔ اور حق پر ہم تب ہی کھڑے ہوسکتے ہیں جب اندر قوت ایمانی ہو۔
اللہ پر یقین ہو تو حق بات کر سکتے ہیں۔ آج ہم میں قوت ایمانی نہیں ہے۔ اللہ پر یقین نہیں ہے۔ اس لیے ہم گھبرا جاتے ہیں کہ اب کیا ہو گا کیونکہ ہمارا اندر مضبوط نہیں ہے۔ ہمارے اندر اللہ پر یقین مضبوط نہیں ہے۔ وہ جو چند قافلے والے تھے۔ وہ چلے تو جیسی بھی مشکلیں آئیں اللہ کے بھروسے پر سہہ گئے اور ہم ایک ذرا سی مصیبت آنے پر پریشان ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ ہمیں سامنے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا ہمیں اللہ پر یقین بھی نہیں ہوتا۔ مگر ان لوگوں کو تو اللہ نظر آرہا ہوتا ہے ان کو توبن دیکھے اللہ پر، بن دیکھی جنتوں پر اور اس اللہ کی بن دیکھی حکمتوں پر یقین ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں وہ اللہ پر یقین کے سہارے ہی آگے بڑھنے والے تھے۔ہم ایسے یقین سے محروم ہیں اسی لیے گھبرا جاتے ہیں ۔ وہی تو اسلام کو دوبارہ زندہ کر کے کھڑا کر دینے والے ہیں۔
# اگر دیکھا جائے تو پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے اپنی اولاد کی قربانی دے کر امت کی بخشش کے لیئے شفاعت مانگی اور جاتے ہوئے بھی ذمہ داری لگا دی کہ پھر بعد میں انہی کے کندھوں پرہی بھارر ہے کہ انھوں نے شریعت اور قرآن کو اسی طرح سے آگے پہنچانا ہے ۔ لیکن لوگ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں۔
وہ صرف کلمہ نماز، روزہ سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی پہنچ اندر خانے تک نہیں ہے۔ ساری امت اندر خانے تک نہیں پہنچ سکتی۔ جیسے اگر آپ کے گھر کوئی آئے تو ہر کوئی آپ کے کمرے تک تو نہیں جاتا۔ کوئی گلی تک، کوئی دروازے تک ،کوئی سیڑھیوں تک اور کوئی ڈرائینگ روم تک آتا ہے مگر کوئی چند ہی ہیں جو اندر گھر میں آپ کے کمرے تک آتے ہیں۔ یہ بھی ا ندر خانے کی باتیں ہیں اور یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جس پر اندر خانے والوں کی نظر ہو۔
ورنہ سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ اوریہ سمجھ آجانا بہت بڑی عطا ہے کہ آل کا معنی کیا ہے... اور آل اصل میں ہے کیا ...اور وہ آج تک کیا کررہی ہے۔ وہ سب ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لوگ آل پاک اور آل پاک کی قربانی کو نہیں سمجھ سکتے۔
# لوگ حسینؓ کا نام نہیں لے سکتے کیونکہ وہ سمجھ نہیں سکتے کہ یہ گہرے راز ہیں۔ یہ وہ خزانے کے نقشے ہیں جو الماریوں میں پڑے ہوتے ہیں۔
یہ نام خزانے کا نقشہ ہے۔ اور جیسے کسی نقشے میں نشان بنے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی جاننے ولا آتا ہے جسے پتا ہوتا ہے کہ نقشے میں موجود نشانوں کا مطلب کیا ہے اور ان کو کیسے جوڑنے سے دروازہ کھلے گا۔ایسا ہی خزانہ یہ بھی ہے-یہ ایسے ہی راز ہیں۔ اور اگر ہم بھی ان کا نام لے پا رہے ہیں تو اس لیے کہ اللہ کے کرم اور اس کی مہربانی سے وہ نقشے جو ڑ کر ان کا راز کھول دیاگیا۔
اور اندر وہ احساس دے دیا گیا۔اگرآپ کے دلوں کو درد کا احساس دے دیا ہے اور آپ کا دل اس درد کے احساس کو محسوس کرتا ہے تو یہ کرم کی انتہا ہے۔ ہم پہ کرم کی نظر ہے عنایت ہے کہ اپنوں کی محبت کے بیج بوئے۔ اور یہ باتیں سب کو بتانے کی نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ درد ہے اور جو کوئی جتنا اپنا آپ دیتا جا رہا ہے اور درد میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اس کے اندر کو کسی پل قرار نہیں۔
وہ ان کی اس محبت کو پانے کی خاطر اور اس محبت کے احساس جو چند لمحوں کے لیے اس کے دل پر اترتے ہیں کہ امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؓنے امت کے لیے پیارے آقائے دوجہاںﷺ کو دیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے اتنا کچھ کر دیاکہ جس کی مثال رہتی دنیا تک دوبارہ ملنا ممکن نہیں ، انہی کے حق کے مشن کی سر بلندی کے لیئے اپنے آپ کو مارنے پر اپنا آپ لگا دینے پر تل جاتا ہے۔
تبھی یہ احساس اندر اترتے ہیں کہ اپنا ذاتی طور پر سر قلم توکروا دیتے ہیں مگر پورا کنبہ کوہانے/کٹوانے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ اور کوئی ...بھی کوئی نہیں ہے جو یہ کر سکے۔ دوردور تک کوئی نہیں ہے۔
# قافلہ کربلا والے جو تکالیف، مصائب ،سختیاں اور بھوک پیاس یہاں برداشت کر گئے۔ اگر ہم ان کے درد کے احساس میں ان زخموں پر مرہم لگانا چاہتے ہیں تو ہمارا یہاں باطل کے ساتھ لڑنا اور حق پر کھڑے رہنا ان کی اس وقت کی تکلیف کی شدت کو کم کرتاہو گا۔
ہمارا ہر طرح کی تنگی میں باطل کے ساتھ لڑنا اور سب کچھ برداشت کرکے تلخیاں جھیل کے پھر بھی حق پر کھڑے رہنا ان کے زخموں پر مرہم کا کام دیتا ہے۔ اس لیے ہم میں سے جو چاہے کہ ان زخموں کے لیے مرہم بنے تو وہ لمحہ لمحہ حق پر کھڑا رہ کے حق کی قوت سے باطل کا مقابلہ کرے یہی حق کی راہ کا سفر ہے۔ اور یہ سفر نوکیلے پتھروں پر چلنے کا سفر ہے جس پر زہریلے کانٹے بھی ہوں جن کا درد اند ر تک اترتا چلا جاتا ہے ۔
جو کوئی اس نوکیلے راستے پر چلتا ہوا حق کی راہ پر آگے بڑھتا ہے وہ درا صل اس کرب و بلا جیسی راہ سے کانٹے چن رہا ہوتاہے ۔ باطل کے ساتھ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر نبرد آزمائی کرنا ان کے راستہ کے نوکیلے کانٹے ہٹانا ہے۔
# حق کی راہ پر لڑتے رہنے کی وجہ سے ہی تنگی اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر لڑنا چھوڑ دیں ہتھیار ڈالدیں تو آزمائش بھی نہیں آئے گی۔
اگر لڑتے رہے اور اندر سے قوتِ ایمانی کے بل پر مقابلہ جاری رکھا تو کسی بھی طرح کی آزمائش میں نہ صرف ایک نئی طاقت اور قوت ایمانی کے اضافہ کا احساس ہو گا بلکہ ایک ولولہ جوش اور عزم اندر پیدا ہو گا جو باطل سے لڑوائے گا۔ اس لیے جب بھی ایسی صورتحال ہو کہ آزمائش کا سامنا ہو تو وہاں حق کی قوت کو اپنے اندر محسوس کر کے اللہ کے احساس کو تھامے ہوئے ہر لمحہ اس سے مدد مانگتے رہنا ہماری کشتی کو کنارے جا لگاتا ہے۔
ہمیشہ دعا کرو کہ ہمیں بھی وہ طاقت نصیب ہو جائے کہ ہم وفا کر سکیں اور ہماری تا قیامت آنے والی نسلیں اور ان نسلوں میں ایک ایک بچہ ان سے وفا کرنے والا اور ان پر جان نثار کرنے والا ہو۔ ہمیں ایسی نسل کی بھی چاہت نہیں جو قطر ہ قطرہ ان پر جان لٹانے والی نہ ہو۔ ہماری نسلوں میں بچہ بچہ ان پر تن من دھن لٹا دینے والا ہو۔(آمین)
# مانگنے والو!... اگر مانگنا ہے تومانگ لو یہی دعا کہ اس دل میں کرب و بلا کا درد اتر جائے۔
بس محسوس کرو وہ درد اور کیا مانگنا ہے۔
انہی کا درد... انہی کی محبتیں ...انہی کی نسبتیں مانگو...یہاں اور کچھ بھی نہیں ہے... نہ دنیا میں نہ آخرت میں... تو مانگ لو انہی کی راہ میں قدم مانگ لو۔
ان کے ہی قدموں میں موت مانگ لو... انہی کی غلامی مانگ لو..اگر یہ مل گیا تو سمجھو سب کچھ مل گیا ..اور مانگنے کو کچھ نہیں بچتا... اگر ان کے قدموں میں بھی جگہ مل گئی تو پھر سمجھو سب کچھ تمہارا ہے ...سب اپنے دل سے مانگ لو...سب کچھ انہی کے پاس ہے اور کچھ بھی کہیں بھی نہیں ہے۔
ہم عاشقوں کے لیے ہماراکل جہاں ہی رسول ﷺ و آلِ رسول ﷺ ہے۔ ہم ان کو سلام پیش کرتے نہ تھکیں۔ ان پر سلام پیش کرنے کی اجازت مل جائے تو اپنے لیے بہت احسان سمجھیں۔ اگر یہ اجازت مل گئی تو سمجھ لیناکہ یہ احسان کر کے انھوں نے ہمارے سروں پہ یہ تاج رکھ دیا ورنہ ہم کس کھاتے میں ہیں۔
# ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا اور کبھی نہ بھولنا…!!!
محشر صرف انہی ہستیوں کا ہے ۔
انہی کی گرفت میں ہے۔ یہ بات کبھی نہ بھولنا ۔
اللہ نے اتنا لٹایا ہے اپنے ان پیاروں پر کہ کوئی حد نہیں چھوڑی یہاں تک کہ جنت کی سرداریاں بھی انہی کے حوالے کر دیں۔
اللہ نے اتنا لٹایا کہ پھر فرماتا ہے اب جو کچھ بھی لینا ہے میرے انہی پیاروں سے لو۔ غلامی لینی ہے... نجات لینی ہے... جنت لینی ہے... انہی سے لو کیونکہ جو کچھ بھی ملنا ہے انہی سے ملنا ہے... اور کہاں سر ٹکرا تے پھر رہے ہو۔
کہیں بھی جاؤ گے توکہیں بھی کچھ نہیں ہے... اور نہ ملے گا۔ بس پتھر ہیں... زمین ہے اور وہ کیا دیں گے۔ اللہ تو پنجتن پاک کا ہے اور اللہ تو اور کہیں سے بھی نہیں ملتا۔ تم زمینوں پر ماتھے گھساتے ہو ...زمین کیا دے گی... زمین تو مقروض ہے آلِ نبیﷺ کی... وہ کیا دے سکتی ہے۔ اس پر سجدہ کرنے سے کیا ملے گا۔ ادھرصرف زمین پر ماتھے ٹکائے ہوئے سجدے ہمیں کچھ نہیں دے سکتے۔
جب تک اہل بیت کی محبت کی شمع نورِایمانی کی صورت دل میں روشن نہ ہو۔نورِایمانی سے خالی دل لیئے زمین پر ماتھے رگڑ کر کچھ نہیں ملتا۔بیچاری زمین تو خود شرم سے منہ چھپاتی پھر رہی ہے کہ آلِ نبیﷺ نے اپنے خون سے دین کا نصاب زمینِ کربلا پر لکھ دیا اور اسی لیئے زمین مقروض ہے ...پانی منہ چھپاتا پھر رہا ہے... اب تک اس کو کہیں بھی پناہ نہیں ملتی... اگر ہم کوئی پناہ چاہتے ہیں تو دین ہماری پناہ گاہ ہے ...اور دین تو پھر ہے ہی انہی کی پناہ میں....آج ہم تک جو دینِ حق پہنچا تو وہ انہی کی پناہوں میں پہنچا.... تو ہماری پناہ تو خود انہی کی پناہ میں ہے... پناہ اور کہیں نہیں مل سکتی۔
پناہ کہیں اور نہیں ہے ...اور ہم انہی سے بھاگتے ہیں۔افسوس!.....ہماری نادانی....!
اس لیئے یاد رکھنا...!
اگر حق کی پہچان پانا چاہتے ہو....اگر اللہ کے نورِایمانی سے دل منور کرنے ہیں.... اگر دینِ اسلام پر عمل پیرا رہنا ہے اور اگراخروی نجات کی راہ پانی ہے.... جنت پانی ہے... تو خود کو اللہ کے انہی پیاروں کی محبت کی پناہ گاہوں میں دے دو۔
آشنائے حق رہو
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::ختم شُد:::::::::::::::>
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں