🌴⑮🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑮⚔️


 🌴⑮🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑮⚔️

☰☲☷ آخری قسط ☷☲☰

مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اسکندریہ کی فتح 21 ہجری (42 – 641 ء)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
قسطاط کی فتح کے بعد عمرو نے چند روز تک یہاں قیام کیا۔ اور یہیں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ فسطاط فتح ہو چکا۔ اجازت ہو تو اسکندریہ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔ وہاں سے منظوری آئی، عمرو نے کوچ کا حکم دیا۔ اتفاق سے عمرو کے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلا بنا لیا تھا۔ خیمہ اکھاڑا جانے لگا تو عمرو کی نگاہ پڑی، حکم دیا کہ اس کو یہیں رہنے دو کہ ہمارے مہمان کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ چونکہ عربی میں خیمہ کو فسطاط کہتے ہیں اور عمرو نے اسکندریہ سے واپس آ کر اسی خیمہ کے قریب شہر بسایا، اس لئے خود شہر بھی فسطاط کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اور آج تک یہی نام لیا جاتا ہے۔ بہر حال 21 ہجری میں عمرو نے اسکندریہ کا رخ کیا۔ اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان میں رومیوں کی جو آبادیاں تھیں انہوں نے سد راہ ہونا چاہا۔ چنانچہ ایک جماعت عظیم سے جس میں ہزاروں قبطی بھی تھے ، فسطاط کی طرف بڑھے کہ مسلمانوں کو روک لیں۔ قام کریون نے دونوں حریفوں کا سامنا ہوا۔ مسلمانوں نے نہایت طیش میں آ کر جنگ کی اور بے شمار عیسائی مارے گئے۔ پھر کسی نے روک ٹوک کی جرات نہ کی اور عمرو نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا۔ مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا۔ لیکن رومیوں کے ڈر سے نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ درخواست کی کہ ایک مدت معین کے لیے صلح ہو جائے۔ عمرو نے انکار کیا۔ مقوقس نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے شہر کے تمام آدمیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر شہر پناہ کی فصیل پر مسلمانوں کے سامنے صف جما کر کھڑے ہوں، عورتیں بھی اس حکم میں داخل تھیں اور اس غرض سے کہ پہچانی نہ جا سکیں۔ انہوں نے شہر کی طرف منہ کر لیا تھا۔ عمرہ نے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن تم کو معلوم نہیں کہ ہم اب تک جو ملک فتح کئے کثرت فوج کے بل پر نہیں کئے۔ تمہارا بادشاہ ہرقل جس ساز و سامان سے ہمارے مقابلہ کو آیا تم کو معلوم ہے اور جو نتیجہ ہوا وہ بھی مخفی نہیں (فتوح البدان )۔ مقوقس نے کہا سچ ہے۔ “یہی عرب ہیں جنہوں نے ہمارے بادشاہ کو قسطنطنیہ پہنچا کر چھوڑا۔ ” اس پر رومی سردار نہایت غضبناک ہوئے۔ مقوقس کو بہت بُرا کہا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔
مقوقس کی مرضی چونکہ جنگ کی نہ تھی، اس لئے عمرو سے اقرار لے لیا تھا کہ ” چونکہ میں رومیوں سے الگ ہوں، اس وجہ سے میری قوم (یعنی قطبی) کو تمہارے ہاتھ سے ضرر نہ پہنچنے پائے۔ ” قبطیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس معرکے میں دونوں سے الگ رہے بلکہ مسلمانوں کو بہت کچھ مدد دی۔ فسطاط سے اسکندریہ تک فوج کے آگے آگے پلوں کی مرمت کرتے اور سڑکیں بناتے گئے۔ خود اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی رسد وغیرہ کا انتظام انہی کی بدولت ہو سکا۔ رومی کبھی کبھی قلعہ سے باہر نکل نکل کر لڑتے تھے۔ ایک دن سخت معرکہ ہوا۔ تیر و خدنگ سے گزر کر تلوار کی نوبت آئی۔ ایک رومی نے صف سے نکل کر کہا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہا میرے مقابلے کو آئے۔ مسلمہ بن مخلد نے گھوڑا بڑھایا۔ رومی نے ان کو زمین پر دے مارا۔ اور جھک کر تلوار مارنا چاہتا تھا کہ ایک سوار نے آ کر جان بچائی، عمرو کو اس پر اس قدر غصہ آیا کہ متانت ایک طرف مسلمہ کے رتبہ کا بھی خیال نہ کر کے کہ کہ “زنخوں کو میدان جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ ” مسلمہ کو نہایت ناگوار ہوا۔ لیکن مصلحت کے لحاظ سے کچھ نہ کہا۔ لڑائی کا زور اسی طرح قائم رہا۔ آخر مسلمانوں نے اس طرح دل توڑ کر حملہ کیا کہ رومیوں کو دباتے ہوئے قلعہ کے اندر گھس گئے۔ دیر تک قلعہ کے صحن میں معرکہ رہا۔ آخر میں رومیوں نے سنبھل کر ایک ساتھ حملہ کیا۔ اور مسلمانوں کو قلعہ سے باہر نکال کر دروازے بند کر دیئے۔ اتفاق یہ کہ عمرو بن العاص اور مسلمہ اور دو شخص اندر رہ گئے۔ رومیوں نے ان لوگوں کو زندہ گرفتار کرنا چاہا۔ لیکن ان لوگوں نے مردانہ وار جان دینی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقابلے کو نکلے ، اگر ہمارا آدمی مارا گیا تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے کہ قلعہ سے نکل جاؤ اور تمہارا آدمی مارا جائے تو تم سب ہتھیار ڈال دو گے۔
عمرو بن العاص نے نہایت خوشی سے منظور کیا۔ اور خود مقابلے کے لئے نکلنا چاہا۔ مسلمہ نے روکا کہ تم فوج کے سردار ہو۔ تم پر آنچ آئی تو انتظام میں خلل ہو گا۔ یہ کہہ کر گھوڑا بڑھایا۔ رومی بھی ہتھیار سنبھال چکا تھا۔ دیر تک وار ہوتے رہے۔ بالآخر مسلمہ نے ایک ہاتھ مارا کہ رومی وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ رومیوں کو معلوم نہ تھا کہ ان میں کوئی سردار ہے۔ انہوں نے اقرار کے موافق قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اور سب صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ عمرو نے مسلمہ سے اپنی پہلی گستاخی کی معافی مانگی اور انہوں نے نہایت صاف دلی سے معاف کر دیا۔
محاصرہ جس قدر طول کھینچتا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زیادہ پریشانی ہوتی تھی۔ چنانچہ عمرو کو خط لکھا کہ ” شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیسائیوں کی طرح عیش پرست بن گئے ہو۔ ورنہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی۔ جس دن میرا خط پہنچے تمام فوج کو جمع کر کے جہاد پر خطبہ دو اور پھر اس طرح حملہ کر کہ جن کو میں نے افسر کر کے بھیجا تھا فوج کے آگے ہوں اور تمام فوج ایک دفعہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ عمرو نے تمام فوج کو یکجا کر کے خطبہ پڑھا اور ایک پُر اثر تقریر کی کہ بجھے ہوئے جوش تازہ ہو گئے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جا برسوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہے تھے بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کے دیجیئے۔ خود سر سے عمامہ اتارا اور نیزہ پر لگا کر ان کو حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج اپ سپہ سالار ہیں۔ زبیر بن العوام اور مسلمہ بن مخلد کو فوج کا ہراول کیا۔ غرض اس سر و سامان سے قلعہ پر دھاوا ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں شہر فتح ہو گیا۔ عمرو نے اسی وقت معاویہ بن خدیج کو بلا کر کہا کہ جس قدر تیز جا سکو جاؤ۔ اور امیر المؤمنین کو مژدہ فتح سناؤ۔ معاویہ اونٹنی پر سوار ہوئے اور دو منزلہ سہ منزلہ کرتے ہوئے مدینہ پہنچے۔ چونکہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے ، بارگاہ خلافت میں جانے سے پہلے سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی ادھر آ نکلی اور ان کو مسافر کی ہیئت میں دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اسکندریہ سے۔ اس نے اسی وقت جا کر خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو امیر المؤمنین بلاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے ، خود چلنے کے لیے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ معاویہ پہنچ گئے۔ فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ اٹھ کر مسجد میں آئے اور منادی کرا دی الصلوۃ جامعہ سنتے ہی تمام مدینہ امڈ آیا۔ معاویہ نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کئے۔ وہاں سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے گھر پر گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لونڈی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے۔ وہ روٹی اور روغن زیتون لائی۔ مہمان کے آگے رکھا اور کہا کہ آنے کے ساتھ ہی میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے۔ انہوں نے کہا میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے ، شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا افسوس تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے۔ میں دن کو سوؤں گا تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔ (یہ تمام تفصیل مقرریزی سے لی گئی ہے۔ )
عمرو اسکندریہ کی فتح کے بعد قسطاط کو واپس گئے اور وہاں شہر بسانا چاہا۔ الگ الگ قطعے متعین کئے۔ اور داغ بیل ڈال کر عرب کی سادہ وضع کی عمارتیں تیار کرائیں۔ تفصیل اس کے دوسرے حصے میں آئے گی۔
اسکندریہ اور فسطاط کے بعد اگرچہ عمرو کا کوئی حریف نہیں رہا تھا۔ تاہم چونکہ مصر کے تمام اضلاع میں رومی پھیلے ہوئے تھے۔ ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کیں کہ آئندہ کسی خطرے کا احتمال نہ رہ جائے۔ چنانچہ خارجہ بن حذافہ العدوی فیوم، اشموتین، احمیم، بشر دوات، معید اور اس کے تمام مضافات میں چکر لگا آئے اور ہر جگہ لوگوں نے خوشی سے جزیہ دینا قبول کیا۔ اسی طرح عمیر بن وہب الجمحی نے تینس دمیاط، تونہ ، دمیرہ، شطا، وقبلہ، بنا، بوہیر کو مسخر کیا۔ عقبہ بن عامر الجھنی نے مصر کے تمام نشیبی حصے فتح کئے۔ (فتوح البلدان )۔
چونکہ ان لڑائیوں میں نہایت کثرت سے قبطی اور رومی گرفتار ہوئے تھے۔ عمرو نے دربار خلافت کو لکھا کہ ان کی نسبت کیا کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب لکھا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ورنہ جزیہ دینا ہو گا۔ جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے۔ عمرو نے تمام قیدی جو تعداد میں ہزاروں سے زیادہ تھے ، ایک جگہ جمع کئے ، عیسائی سرداروں کو طلب کیا۔ اور مسلمان و عیسائی الگ الگ ترتیب سے آمنے سامنے بیٹھے۔ بیچ میں قیدیوں کا گروہ تھا۔ فرمان خلافت پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے جو مسلمانوں میں رہ کر اسلام کے ذوق سے آشنا ہو گئے تھے ، اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تھا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور خوشی سے بچھے جاتے تھے۔ اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا غل پڑتا تھا۔ اور مسلمان اس قدر غمزدہ ہوتے تھے کہ بہت سوں کے آنسو نکل پرتے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور دونوں فریق اپنے اپنے حصہ رسدی کے موافق کامیاب آئے۔ (طبری – 283)۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت
(26 ذوالحجہ 23 ہجری – 644 عیسوی)
(کل مدت خلافت دس برس چھ مہینے چار دن)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لولو تھی، اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، تو کون سا پیشہ کرتا ہے ، بولا کہ “نجاری نقاشی، آہنگری” فرمایا کہ ” ان صنعتوں کے مقابلہ میں رقم کچھ بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔
دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز کو نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں درست ہو جاتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کراتے تھے۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کے لئے برھے۔ اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہً گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑا گیا، اور ساتھ ہی اس نے خود کُشی کر لی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگ گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ” میرا قاتل کون تھا۔ ” لوگوں نے کہا کہ ” فیروز” فرمایا کہ الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو۔ لوگوں کو خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں۔ غالباً شفا ہو جائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ اور دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔
چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ ” اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیے۔ “
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ ” عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے ، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ” اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن آج میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔ ” عبد اللہ واپس ائے۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے ؟ انہوں نے کہا کہ جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا ” یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔ “
اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے معاملہ پر مدتوں غور کیا تھا۔ اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔
مدت کے غور فکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بیساختہ آہ نکل گئی۔ کہ “افسوس بار گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔ ” تمام صحابہ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی، علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خوردہ کیریاں کیں، گو ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا لیکن ان میں اجئے کلام نہیں البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی عام تاریخوں میں منقول ہے۔ یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا لطیف المزاج بزرگ ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات مکالمہ کی صورت میں نقل کئے ہیں۔ ہم ان کو اس موقع پر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات کا راز سربستہ معلوم ہو جائے گا۔ مکالمہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس! علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شریک ہوئے ؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : تمہارے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچیرے بھائی ہو۔ پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : لیکن میں جانتا ہوں، تمہاری قوم تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آ جائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تم کو خلافت سے محروم کر دیا۔ لیکن خدا کی قسم یہ بات نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کو ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ مفید نہ ہوتا۔
دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفید ہے کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں کچھ نئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں :
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہارے نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا، لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہو جائے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : وہ کیا باتیں ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسداً ظلماً چھین لی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ لیکن حسداً تو اس میں تعجب کیا ہے۔ ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : افسوس خاندان بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہاشمی ہی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : اس تذکرے کو جانے دو۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : بہت مناسب۔ (دیکھو تاریخ طبری 8 تا 2771)
ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کر سکو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے۔اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارکس کس بتفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ (طبری 7)۔
غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ ” ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ “
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاوری کی اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ” جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے۔ مہاجرین، انصار، اعراب و اہل عرب جو اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے )۔ ” پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی، چنانچہ اہل ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے ” میں خلیفہ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ خدا کی ذمہ داری اور رسول اللہ کی ذمہ داری کی لحاظ رکھے۔ یعنی اہل ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ “
قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبد اللہ اپنے بیٹھے کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے۔ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم، فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں توکل قریش سے۔ لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (دیکھو کتاب المناقب باب قصۃ البیعہ والاتفاق علی عثمان) لیکن عمر بن شیبہ نے کتاب المدینہ میں بسند صحیح روایت کیا ہے کہ نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے ، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا۔ حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا۔ (دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 )۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا۔ لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا۔ جس کو امیر معاویہ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب رحمت کے بیچ میں واقع تھا۔ اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا، ایک مدت تک دار القضا کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ ” خلاصۃ الوفانی اخبار دار المصطفیٰ” میں یہ واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر – 129)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دن کے بعد رحلت فرما گئے۔ اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔ حضرت عبد الرحمٰن، حضرت علی، حضرت عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر میں اُتارا اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی