🌴①🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌①⚔️


🌴①🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌①⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
تمہید – تاریخ کا عنصر
تمدن کے زمانے میں جو علوم و فنون پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتا ہے۔ اور پھر ایک خاص نام یا لقب سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً استدلال اور اثبات مدعا کے طریقے ہمیشہ سے موجود تھے۔ اور عام و خاص سب ان سے کام لیتے تھے۔ لیکن جب ارسطو نے ان جزئیات کو ایک خاص وضع سے ترتیب دیا تو اس کا نام منطق ہو گیا اور وہ ایک مستقل فن بن گیا۔ تاریخ و تذکرہ بھی اسی قسم کا فن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانوں کا کوئی گروہ موجود تھا، تاریخ و تذکرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔ کیونکہ فخر و ترجیح کے موقعوں پر لوگ اپنے اسلاف کے کارنامے خواہ مخواہ بیان کرتے تھے۔ تفریح اور گرمی صحبت کے لیے مجالس میں پچھلی لڑائیوں اور معرکوں کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا۔ باپ دادا کی تقلید کے لیے پرانی عادات و رسوم کی یادگاریں خواہ مخواہ قائم رکھی جاتی تھیں۔ اور یہی چیزیں تاریخ و تذکرہ کا سرمایہ ہیں۔ اس بناء پر عرب، عجم، تاتار، ہندی، افغانی، مصری، یونانی، غرض دنیا کی تمام قومیں فن تاریخ کی قابلیت میں ہمسری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
عرب کی خصوصیت
لیکن اس عموم میں عرب کو ایک خصوصیت خاص حاصل تھی۔ عرب میں خاص خاص باتیں ایسی پائی جاتی تھیں جن کو تاریخی سلسلے سے تعلق تھا۔ اور جو اور قوموں میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً انساب کا چرچا جس کی یہ کیفیت تھی کہ بچہ بچہ اپنے آبا و اجداد کے نام اور ان کے رشتے ناطے دس دس بارہ بارہ پشتوں تک محفوظ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانوں سے گزر کر گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب نامے محفوظ رکھے جاتے تھے۔ یالیام العرب جس کی بدولت ” عکاظ ” کے سالانہ میلے میں قومی کارناموں کی روایتیں، سلسلہ بسلسلہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں تک پہنچ جاتی تھیں یا شاعری جس کا یہ حال تھا کہ اونٹ چرانے والے بدو جن کو لکھنے پڑھنے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی زبان آوری کے سامنے تمام عالم ہیچ سمجھتے تھے۔ اور درحقیقت جس سادگی اور اصلیت کے ساتھ وہ واقعات اور جذبات کی تصویر کھینچ سکتے تھے دنیا میں کسی قوم کو یہ بات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔
عرب میں تاریخ کی ابتداء
اس بناء پر عرب میں جب تمدن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے تاریخی تصنیفات وجود میں آئیں۔ اسلام سے بہت پہلے بادشاہ جبرۃ نے تاریخی واقعات قلمبند کرائے اور وہ مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابن ہشام نے کتاب الجیجان میں تصریح کی ہے کہ میں نے ان تالیفات سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام کے عہد میں زبانی روایتوں کا ذخیرہ ابتداء ہی میں پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ تالیف و تصنیف کا سلسلہ عموماً ایک مدت کے بعد قائم ہوا۔ اس لئے کوئی خاص کتاب اس فن میں نہیں لکھی گئی۔ لیکن جب تالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی تاریخ کے فن میں تھی۔
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ المتوفی 60 ہجری کے زمانے میں عبیدہ بن شربہ ایک شخص تھا جس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا اور اس کو عرب و عجم کے اکثر معرکے یاد تھے ، امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صنعاء سے بلایا اور کاتب اور محرر متعین کئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا جائے قلم بند کرتے جائیں۔ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفبرست میں اس کی متعدد تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک کتاب کا نام کتاب الملوک والاخبار الماضیین لکھا ہے ، غالباً یہ وہی کتاب ہے جس کا مسودہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ عبیدہ کے بعد عوانہ بن الحکم المتوفی 47 ھ کا نام ذکر کرنے کے قابل ہے۔ جو اخبار و انساب کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے عام تاریخ کے علاوہ خاص بنو امیہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی۔ 117 ہجری میں ہشام بن عبد الملک کے حکم سے عجم کی نہایت مفصل تاریخ کا ترجمہ پہلوی سے عربی میں کیا گیا۔ اور یہ پہلی کتا ب تھی جو غیر زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئی۔
سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سب سے پہلی تصنیف
143 ہجری میں جب تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی 151 ہجری نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرۃ نبوی پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ (مغازی محمد اسحاق کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ کوپریلی استنبول میں موجود ہے۔ )
ہمارے مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ المتوفی 141 ہجری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مغازی قلم بند کئے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اور صحابہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لئے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ (مغازی موسیٰ بن عقبہ 1904 عیسوی میں یورپ میں چھپ چکی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کے لئے تہذیب التہذیب و مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھو)۔
اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑے نامور مؤرخ پیدا ہوئے۔ جن میں ابو محتف کلبی اور واقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً واقدی نے افواج اسلام، قریش کے پیشے ، قبائل عرب کے مناظرات، جاہلیت اور اسلام کے احکام کا توارد، ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے ، رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری تک ایک دفتر بے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدا تھا۔
اس دور میں بے شمار مؤرخ گزرے ہیں۔ ان میں جن لوگوں نے بالتخصیص آنحضرت صلی اللہ علی و سلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حالات میں کتابیں لکھیں، ان کی مختصر فہرست یہ ہے :
قدیم__تاریخیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
مدنی (حجم بن عبد الرحمٰن، المتوفی 170 ھ
تصنیف
غزوات نبوی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
نصر بن مزاخم کوفی
تصنیف
کتاب الجمل یعنی حضرت علی رضی اللہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ کی لڑائی کا حال
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
سیف بن عمر الاسدی (سیف بن عمر کوفی خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں فوت ہوا (تہذیب التہذیب جلد 4 )
تصنیف
کتاب الفتوح الکبیر
کیفیت
نہایت مشہور مؤرخ ہے.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
معمر بن راشد کوفی (معمر بن راشد کوفی 134 ھ (تہذیب التہذیب جلد 5 )
تصنیف
کتاب المغازی
کیفیت
امام بخاری کے استاذ الاستاذ تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
ابو البحر وہب بن وہب
تصنیف
کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم و کتاب فضائل الانصار
کیفیت
200 ھ میں انتقال کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
عبد اللہ بن سعد زیری المتوری 380 ہجری
تصنیف
فتوحات خالد بن ولید رضی اللہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
ابو الحسن علی بن محمد بن عبد اللہ المدائنی، المتوفی 324 ھ
تصنیف
اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء کے حالات میں کثرت سے کتابیں لکھیں اور نئے عنوان اختیار کئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
احمد بن حارث خزاز
تصنیف
کتاب المغازی، اسماء الخلفاء و کتابہم
کیفیت
مدائنی کا شاگرد تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
عبد الرحمٰن بن عبدہ
تصنیف
مناقب قریش
کیفیت
نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نام مصنف
عمر بن شبہ، المتوفی 262 ھ
تصنیف
کتاب امراء الکوفہ، کتاب امراء البصرۃ
کیفیت
مشہور مؤرخ تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قدماء کی جو تصنیفات آج موجود ہیں اگرچہ یہ تصنیفات آج ناپید ہیں۔ لیکن اور کتابیں جو اسی زمانے میں یا اس کے بعد قریب تر زمانے میں لکھی گئیں، ان میں ان تصنیفات کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم ان کے نام ان کے مصنفین کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ المتولد 213 ہجری ولمتوفی 276 ہجری یہ نہایت نامور اور مستند مصنف ہے۔ محدثین بھی اس کے اعتماد اور اعتبار کے قائل ہیں۔ تاریخ میں اس کی مشہور کتاب ” معارف ” ہے۔ جو مصر وغیرہ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر ہے ، لیکن اس میں ایسی مفید معلومات ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ملتیں۔
احمد بن داؤد ابو حنیفہ دینوی المتوفی 281 ہجری یہ بھی مشہور مصنف ہے۔ تاریخ میں اس کی کتاب کا نام “الاخبار الطوال” ہے۔ اس میں خلیفہ معتصم باللہ تک کے حالات ہیں۔ خلفاء راشدین کی فتوحات میں سے عجم کی فتح کو تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کتاب پورے یورپ میں بہ مقام لیڈن 1885 عیسوی میں چھپی ہے۔
محمد بن سعد کاتب الواقدی، المتوفی 230 ہجری نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ ہے ، اگرچہ اس کا استاد واقدی ضعیف الروایہ ہے۔ لیکن خود اس کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ اس نے ایک کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین اور تبع تابعین کے حالات میں نہایت بسط و تفصیل سے دس بارہ (طبقات ابن سعد کامل 8 جلدوں میں پہلے 1907 عیسوی میں لیڈن میں طبع ہوئی پھر اس کے بعد 1958 عیسوی میں بیروت میں طبع ہوئی ہے۔ ) جلدوں میں لکھی ہے۔ اور تمام واقعات کو محدثانہ طور پر بہ سند صحیح لکھا ہے۔ یہ کتاب طبقات ابن سعد کے نام سے مشہور ہے۔ میں نے اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ اب جرمنی میں بڑے اہتمام سے چھپ رہی ہے۔
احمد بن ابی یعقوب واضح کاتب عباسی – یہ تیسری صدی ہجری کا مؤرخ ہے۔ مجھ کو اس کے حالات رجال کی کتابوں میں نہیں ملے۔ لیکن اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف ہے ، چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا۔ اس لیے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم پہنچا سکا ہے۔ اس کی کتاب جو ” تاریخ یعقوبی” کے نام سے مشہور ہے ، یورپ میں بہ مقام لیڈن 1883 عیسوی میں چھاپی گئی ہے۔
احمد بن یحییٰ البلاذری المتوفی 279 ہجری ابن سعد کا شاگرد اور المتوکل باللہ عباسی کا درباری تھا۔ اس کی وسعت نظر اور صحت روایت محدثین کے گروہ میں بھی مسلم ہے۔ تاریخ و رجال میں اس کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ فتوح البلدان و انساب الاشراف، پہلی کتاب کا یہ طرز ہے کہ بلاد اسلامیہ میں سے ہر ہر صوبہ یا ضلع کے نام سے الگ الگ عنوان قائم کئے ہیں۔ اور ان کے متعلق ابتدائے فتح سے اپنے عہد تک کے حالات لکھے ہیں۔ دوسری کتاب تذکرے کے طور پر ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بھی ہیں۔ “فتوح البلدان ” یورپ میں تہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔ اور ” انساب الاشراف ” کا قلمی نسخہ قسطنطنیہ میں نظر سے گزرا ہے۔ (یہ کتاب تقریباً اجزا میں 1883 عیسوی میں یروشلم میں چھپ چکی ہے۔ )
ابو جعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی 310 ہجری یہ حدیث و فقہ میں بھی امام مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ ائمہ اربعہ کے ساتھ لوگوں نے ان کو مجتہدین کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ تاریخ میں انہوں نے نہایت مفصل اور بسیط کتاب لکھی ہے جو 13 ضخیم جلدوں میں ہے اور یورپ میں بہ مقام لیڈن نہایت صحت اور اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔
ابو الحسن علی بن حسین مسعودی المتوفی 386 ہجری فن تاریخ کا امام ہے۔ اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مؤرخ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دنیا کی اور قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کی تمام تاریخی کتابیں ملتیں تو کسی اور تصنیف کی حاجت نہ ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ قوم کی بد مذاقی سے اکثر تصانیف ناپید ہو گئیں، یورپ نے بڑی تلاش سے دو کتابیں مہیا کیں، ایک ” مروج الذہب” اور دوسری کتاب الاشراف والتنبیہ (یہ مکتبہ العصریہ بغداد سے 1938 عیسوی میں شائع ہوئی۔ )۔ ” مروج الذہب” مصر میں بھی چھپ گئی ہے۔ یہ تصنیفات جس زمانے کی ہیں وہ قدماء کا دور کہلاتا ہے۔
متاخرین کا دور
پانچویں صدی کے آغاز سے متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو فن تاریخ کے تنزل کا پہلا قدم ہے۔ متاخرین میں اگرچہ بیشمار مؤرخ گزرے جن میں سے ابن اثیر، سمعانی ذہبی ابو الغداء، نویری اور سیوطی وغیرہ نے نہایت شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ من حیث الفن کوئی احسان نہیں کیا۔
قدماء کی خصوصیتیں
متاخرین نے قدماء کی جو خصوصیات تھیں، کھو دیں اور خود کوئی نئی بات پیدا نہیں کی۔ مثلاً قدماء کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ہر تصنیف نئی معلومات پر مشتمل ہوتی تھی۔ متاخرین نے یہ طرز اختیار کیا کہ کوئی قدیم تصنیف سامنے رکھ لی اور بغیر اس کے کہ اس پر کچھ اضافہ کر سکیں تغیر اور اختصار کے ساتھ اس کا قالب بدل دیا۔ تاریخ ابن الاثیر کو علامہ ابن خلکان نے من خیار التواریخ کہا ہے اور حقیقت میں اس کی قبولیت عام نے تصحیفیں ناپید کر دیں۔ زمانہ کا اشتراک ہے ایک بات بھی اس میں طبری سے زیادہ نہیں مل سکتی، اسی طرح ابن الاثیر کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تصنیف کا مدار صرف ابن الاثیر پر رکھا۔ وھلم جراً اس سے بڑھ کر یہ کہ متاخرین نے قدماء کی کتابوں کا جو اختصار کیا۔ اس طرح کیا کہ جہاں جو بات چھوڑ دی وہی اس تمام واقعہ کی روح تھی۔ چنانچہ ہماری کتاب کے دوسرے حصے میں اس کی بہت مثالیں آئیں گی۔
قدماء میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام واقعات کو حدیث کی طرح بسند متصل نقل کرتے تھے ، متاخرین نے یہ التزام بالکل چھوڑ دیا۔ ایک اور خصوصیت قدماء میں یہ تھی کہ وہ اگرچہ کسی عہد کی معاشرت و تمدن پر جدا عنوان نہیں قائم کرتے تھے۔ لیکن ضمناً ان جزئیات کو لکھ جاتے تھے جن سے تمدن و معاشرت کا کچھ کچھ پتہ چلتا تھا۔ متاخرین نے یہ خصوصیت بھی قائم نہ رکھی۔
لیکن اس عام نکتہ چینی میں ابن خلدون کا نام شامل نہیں ہے۔ اس نے فلسفۂ تاریخ کا فن ایجاد کیا۔ اور اس پر نہ صرف متاخرین بلکہ مسلمانوں کی کل قوم ناز کر سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد علامہ مقریزی بھی نکتہ چینی کی بجائے مدح و ستائش کا مستحق ہے۔
بحر حال الفاروق کی تالیف کے لیے جو سرمایہ کام آ سکتا تھا وہ یہی قدماء کی تصنیفات تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ و تذکرے کے فن نے جو آج ترقی کی ہے۔ اس کے لحاظ سے یہ بے بہا خزانے بھی چنداں کارآمد نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ فن تاریخ کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے۔
تاریخ کی تعریف
تاریخ کی تعریف ایک بڑے مصنف نے یہ کی ہے کہ فطرت کے واقعات نے انسان کے حالات میں جو تغیرات پیدا کئے ہیں اور انسان نے عالم فطرت پر جو اثر ڈالا ہے ، ان دونوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے۔ ایک اور حکیم نے یہ تعریف کی ہے ان حالات اور واقعات کا پتہ لگانا جن سے یہ دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیونکر بطور نتیجہ کے پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی چونکہ یہ مسلم ہے کہ آج دنیا میں جو تمدن، معاشرت، خیالات اور مذاہب موجود ہیں، سب گزشتہ واقعات کے نتائج ہیں جو خواہ مخواہ ان سے پیدا ہونے چاہیے تھے۔ اس لئے ان گزشتہ واقعات کا پتہ لگانا اور ان کو اس طرح ترتیب دیان جس سے ظاہر ہو کہ موجودہ واقعہ گزشتہ واقعات سے کیونکر پیدا ہوا۔ اسی کا نام تاریخ ہے۔
تاریخ کے لیے کیا کیا چیزیں لازم ہیں
ان تعریفات کی بناء پر تاریخ کے لئے دو باتیں لازم ہیں۔
ایک یہ کہ جس عہد کا حال لکھا جائے اس زمانے کے ہر قسم کے واقعات قلم بند کئے جائیں، یعنی تمدن، معاشرت، اخلاق، عادات، مذہب ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ تمام واقعات میں سبب اور مسبب کا سلسلہ تلاش کیا جائے۔
قدیم تاریخوں کے نقص اور ان کے اسباب
قدیم تاریخوں میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، رعایا کے اخلاق و عادات اور تمدن و معاشرت کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں آتا، فرمانروائے وقت کے حالات ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں بھی فتوحات اور خانہ جنگیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نقص اسلامی تاریخوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ایشیائی تاریخوں کا یہی انداز تھا اور ایسا ہونا مقتضائے انصاف تھا، ایشیا میں ہمیشہ شخصی سلطنتوں کو رواج رہا۔ اور فرمانروائے وقت کی عظمت و اقتدار کے آگے تمام چیزیں ہیچ ہوتی تھیں اس کا لازمی اثر یہ تھا کہ تاریخ کے صفحوں میں شاہی عظمت و جلال کے سوا اور کسی چیز کا ذکر نہیں آیا۔ اور چونکہ اس زمانے میں قانون اور قاعدہ جو کچھ تھا،بادشاہ کی زبان تھی۔ اس لیے سلطنت کے اصول اور آئین کا بیان کرنا بے فائدہ تھا۔
واقعات میں سلسلہ اسباب پر توجہ نہ کرنے کا بڑا سبب یہ ہوا کہ فن تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو فلسفہ اور عقلیات سے آشنا نہ تھے۔ اس لیے فلسفہ تاریخ کے اصول و نتائج پر ان کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیر میں روایات کا پلہ ہمیشہ درایت سے بھاری رہا۔ بلکہ انصاف یہ ہے کہ درایت سے جس قدر کام لیا گیا نہ لیے جانے کے برابر تھا۔ آخر میں ابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی اور اس کے اصول و آئین منضبط کئے ، لیکن اس کو صرف اس قدر فرصت ملی کہ اپنی تاریخ میں ان اصولوں سے کام لے سکتا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں علمی تنزل کا ایسا سلسلہ قائم رہا کہ کسی نے پھر اس طرف خیال بھی نہ کیا۔
ایک بڑا سبب جس کی وجہ سے تاریخ کا فن نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام قوموں میں ناتمام رہا۔ یہ ہے کہ تاریخ میں جو واقعات مذکور ہوتے ہیں ان کو مختلف فنون سے رابطہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑائی کے واقعات فن حرب سے ، انتظامی امور قانون سے ، اخلاقی تذکرے علم اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤرخ اگر ان تمام امور کا ماہر ہو تو واقعات کو علمی حیثیت سے دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کی نظر اسی قسم کی سرسری اور سطحی ہو گی۔ جیسی کہ ایک عامی کی ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی عمدہ عمارت پر ایک ایسے واقعہ نگار انشاء پرداز کا گزر ہو جو انجینئری کے فن سے ناواقف ہے تو گو وہ اس عمارت کا بیان ایسے دلکش پیرایہ میں کر دے گا جس سے عمارت کی رفعت اور وسعت اور ظاہری حسن و خوبی کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ لیکن اگر اس میں خاص انجینئری کے علمی اصول اور اس کی باریکیاں ڈھونڈی جائیں تو نہ مل سکیں گی۔ یہی سبب ہے کہ تاریخوں میں حالات جنگ کے ہزاروں صفحے پڑھ کر بھی فن جنگ کے اصول پر کوئی معتدبہ اطلاع نہیں حاصل ہوتی۔
انتظامی امور کے ذکر میں قانونی حیثیت کا اسی وجہ سے پتہ نہیں لگتا کہ مؤرخین خود قانون دان نہ تھے ، اگر خوش قسمتی سے تاریخ کا فن ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہوتا۔ جو تاریخ کے ساتھ فن جنگ، اصول قانون، اصول سیاست اور علم اخلاق سے بھی آشنا ہوتے تو آج یہ فن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہوتا۔
یہ بحث اس لحاظ سے تھی کہ قدیم تاریخوں میں تمام ضروری واقعات مذکور نہیں ہوتے۔ اور جس قدر ہوتے ہیں ان میں اسباب و علل کا سلسلہ نہیں ملتا، لیکن ان کے علاوہ ایک اور ضروری بحث ہے ، وہ یہ کہ جو واقعات مذکور ہیں خود ان کی صحت پر کہاں تک اعتبار ہو سکتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی