🌴②🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌②⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
واقعات کی صحت کا معیار
واقعات کے جانچنے کے صرف دو طریقے ہیں۔
روایت و درایت – روایت سے یہ مراد ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جائے اس شخص کے ذریعے سے بیان کیا جائے جو خود اس واقعہ میں موجود تھا۔ اس سے لے کر اخیر راوی تک روایت کا سلسلہ بہ سند متصل بیان کیا جائے۔ اس کے ساتھ تمام راویوں کی نسبت تحقیق کیا جائے کہ وہ صحیح الراویہ اور ضابطہ تھے یا نہیں۔
درایت سے یہ مراد کہ اصول عقلی سے واقعہ کی تنقید جائے۔
روایت
اس امر پر مسلمان بے شبہ فخر کر سکتے ہیں کہ روایت کے فن کے ساتھ انہوں نے جس قدر اعتنا کیا کسی قوم نے کبھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ہر قسم کی روایتوں میں مسلسل سند کی جستجو کی اور راویوں کے حالات اس تفحص اور تلاش سے بہم پہنچائے کہ اس کو ایک مستقل فن بنا دیا جو فن رجال کے نام سے مشہور ہے۔ یہ توجہ اور اہتمام اگرچہ اصل میں احادیث نبوی کے لئے شروع ہوا تھا۔ لیکن فن تاریخ بھی اس فیض سے محروم نہ رہا۔ طبری، فتوح البلدان، طبقات ابن سعد وغیرہ میں تمام واقعات بسند متصل مذکور ہیں۔ یورپ نے فن تاریخ کو آج کمال درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ لیکن اس خاص امر میں وہ مسلمان مؤرخوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کو واقعہ نگار کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ جرح و تعدیل کے نام سے بھی آشنا نہیں۔
درایت
درایت کے اصول بھی اگرچہ موجود تھے۔ چنانچہ ابن حزم، ابن القیم، خطابی ابن عبد البر (ابن عبد البر قرطبی المتوفی 463 ھ) نے متعدد روایتوں کی تنقید میں ان اصولوں سے کام لیا ہے۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ اس فن کو جس قدر ترقی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ اور تاریخ میں تو اس سے بالکل کام نہیں لیا گیا۔ البتہ علامہ ابن خلدون نے جو آٹھویں صدی ہجری میں گزرا ہے ، جب فلسفۂ تاریخ کی بنیاد ڈالی تو درایت کے اصول نہایت نکتہ سنجی اور باریک بینی کے ساتھ مرتب کئے۔ چنانچہ اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتا ہے :
ان الاخبار اذا اعتمد فیھا علی مجرد النقل لم تحکم اصول العادۃ و قواعد السیاسۃ و طبیعۃ العمر ان و الا حوال فی الاجتماع الانسانی و لا قیس الغائب منھا بالشاھدو الحاضر بالذاھب فیھا لم یؤمن فیھا من العثور۔
“خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کر لیا جائے اور عادات کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضا کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر پر، اور حال کو گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہو گی۔ “
علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لئے صرف راویوں کی جرح و تعدیل سے بحث نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر واقعہ کا ہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بیکار ہے۔ علامہ موصوف نے یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ موقعوں میں امکان سے امکان عقلی مراد نہیں بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونا مراد ہے۔
اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ جو نقص قدیم تاریخوں کے متعلق بیان کئے گئے ان کی آج کہاں تک تلافی کی جا سکتی ہے۔ یعنی ہم اپنی کتاب (الفاروق) میں کس حد تک اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ امر بالکل صحیح ہے کہ جو کتابیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں مستقل حیثیت سے لکھی گئی ہیں ان میں ہر قسم کے ضروری واقعات نہیں ملتے۔ لیکن اور قسم کے تصنیفوں سے ایک حد تک اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً ” الاحکام السلطانیہ” لابن الوردی مقدمہ ابن خلدون و کتاب الخراج سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق حکومت اور آئین انتظام کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوقیع سے خاص صیغۂ قضا کے متعلق ان کا طریق معلوم ہوتا ہے۔ کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری و محاسن الوسائل الی الاخبار الاوائل میں ان کی اولیات کی تفصیل ہے۔ عقد الفرید و کتاب البیان والمتبیین للجاحظ میں ان کے خطبے منقول ہیں۔ کتاب العمدۃ لابن رشیق القیر دانی سے ان کا شاعرانہ مذاق معلوم ہوتا ہے۔ میدائنی ” کتاب الامثال ” میں ان کے حکیمانہ مقولے نقل کئے ہیں۔ ابن جوزی نے ” سیرۃ العمرین ” میں ان کے اخلاق و عادات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں ان کے فقہ اور اجتہاد پر اس مجتہدانہ طریقے سے بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ (ان تصنیفات میں سے کتاب الاوائل اور کتاب العمدۃ کا قلمی نسخہ میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ سیرۃ العمرین، اخبار القضاۃ اور محاسن الوسائل کے نسخے قسطنطنیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں اور میں نے ان سے ضروری عبارتیں نقل کر لی تھیں۔ باقی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ اور میرے پاس موجود ہیں)۔
یہ تمام تصنیفات میرے پیش نظر ہیں اور میں نے ان سے فائدہ اُٹھایا ہے ریاض الضرۃ للمحب الطبری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اسی کتاب کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے۔ لیکن اس میں نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں۔ اس لیے میں نے دانستہ اس سے احتراز کیا۔
واقعات کی تحقیق و تنقید کے لیے درایت کے اصول سے بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ درایت کا فن ایک مستقل فن بن گیا ہے۔ اور اس کے اصول و قاعدے نہایت خوبی سے منضبط ہو گئے ہیں۔ ان میں سے جو اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں حسب ذیل ہیں۔
(۱) واقعہ مذکور اصول عادت کی رو سے ممکن ہے یا نہیں؟
(۲) اس زمانے میں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟
(۳) واقعہ اگر کسی حد تک غیر معمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یا نہیں؟
(۴) اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ ظاہر کرتا ہے اس میں اس کی قیاس و رائے کا کس قدر حصہ شامل ہے ؟
(۵) راوی نے واقعہ کو جس صورت میں ظاہر کیا وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اس کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا۔ اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظر میں نہ آ سکیں۔
(۶) اس بات کا اندازہ کہ زمانے کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقہ ادا نے روایت میں کیا کیا اور کس کس قسم کے تغیرات پیدا کر دیئے ہیں۔
ان اصولوں کی صحت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اور ان کے ذریعے سے بہت سے مخفی راز معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثلاً آج جس قدر تاریخیں متداول ہیں، ان میں غیر قوموں کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نہایت سخت احکام منقول ہیں۔ لیکن جب اس بات پر لحاظ کیا جائے کہ یہ اس زمانے کی تصحیحیں ہیں جب اسلامی گروہ میں تعصب کا مذاق پیدا ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ قدیم زمانہ کی تصنیفات پر نظر ڈالی جائے جن میں اس قسم کے واقعات بالکل نہیں یا بہت کم ہیں۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر تعصب آتا گیا اسی قدر روایتیں خود بخود تعصب کے سانچے میں ڈھلتی گئی ہیں۔
اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے
تمام تاریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا تھا کہ عیسائی کسی وقت اور کبھی ناقوس نہ بجانے پائیں۔ لیکن قدیم کتابوں (کتاب الخراج طبری وغیرہ) میں اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے یہ روایت اس قید کے ساتھ منقول ہے کی جس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہوں اس وقت عیسائی ناقوس نہ بجائیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا تھا کہ قبیلہ تغلب کے عیسائی اپنے بچوں کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ لیکن یہی روایت ” تاریخ طبری” میں ان الفاظ سے مذکور ہے کہ ” جو لوگ اسلام قبول کر چکے ہوں ان کے بچوں کو زبردستی اصطباغ نہ دیا جائے۔ “
یا مثلاً بہت سی تاریخوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحقیر و تذلیل کے لیے عیسائیوں کو خاص لباس پر مجبور کیا تھا۔ لیکن زیادہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عیسائیوں کو ایک خاص لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تحقیر کا خیال راوی کا قیاس ہے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث آگے آئے گی۔
یا مثلاً وہ روایتیں جو تاریخی ہونے کے ساتھ مذہبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت صاف محسوس ہوتی ہے کہ جس قدر ان میں تنقید ہوتی گئی ہے اسی قدر مشتبہ اور مشکوک باتیں کم ہوتی گئی ہیں۔ فدک، قرطاس، سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات ابن عساکر، ابن سعد، بیہقی، مسلم، بخاری سب نے نقل کئے ہیں۔ لیکن جس قدر ان بزرگوں کے اصول اور شدت احتیاط میں فرق مراتب ہے۔ اسی نسبت سے روایتوں میں مشتبہ اور نزاع انگیز الفاظ کم ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ خود مسلم و بخاری میں فرق مراتب کا یہ اثر موجود ہے۔ چنانچہ اس کا بیان ایک مناسب موقع پر تفصیل سے آئے گا۔
ان ہی اصول عقلی کی بناء پر مختلف قسم کے واقعات میں صحت و اعتبار کے مدارج بھی مختلف قائم کرنے ہوں گے۔ مثلاً یہ مسلم ہے کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے واقعات سو برس کے بعد تحریر میں آئے اور اس بنا پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ معرکوں اور لڑائیوں کی نہایت جزئی تفصیلیں مثلاً صف آرائی کی کیفیت فریقین کے سوال و جواب، ایک ایک بہادر کی معرکہ آرائی، پہلوانوں کے داؤ پیچ اس قسم کی جزئیات کی تفصیل کا رتبہ یقین تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن انتظامی امور اور قواعد حکومت چونکہ مدت تک محسوس صورت میں موجود رہے۔ اس لیے ان کی نسبت جو واقعات منقول ہیں وہ بے شبہ یقین کے لائق ہیں۔ اکبر نے ہندوستان میں جو آئین اور قاعدے جاری کئے۔ ایک ایک بچہ ان سے واقف ہے۔ اور انکی نسبت شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لئے قطعی روایتیں موجود ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے۔ اور اکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبے اور حکمت آمیز مقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ تر پر اثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں۔ کیونکہ ایک فصیح مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جاتے ہیں اور ان کا مدت تک چرچا رہتا ہے۔ جن میں کوئی خاص قدرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔
جو واقعات اس زمانے کے مذاق کے لحاظ سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکر آ جاتا ہے ، ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مؤرخین رزم بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں ہیں۔ باایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں عدالت، پولیس، بندوبست، مردم شماری وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتا ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدر قلمبند ہوا اس سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زہد و تقشف، سخت مزاجی اور سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں۔ اور بے شبہ اور صحابہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیں خیال کرنا چاہیے۔ جو حلیۃ الاولیاء ابن عساکر، کنز العمال، ریاض النضرۃ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں۔ اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لئے خود بخود ان میں مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اور معتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور ” ریاض الضرہ” و ابن عساکر و حلیۃ الاولیاء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔
اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضروری ہے۔ آج کل کی اعلیٰ درجہ کی تاریخیں جنہوں نے قبول عام حاصل کیا ہے۔ فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں۔ اور اس طرز سے بڑھ کر اور کوئی طرز مقبول عام نہیں ہو سکتا۔ لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میں جو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کی فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کسی حصہ زمین کا نقشہ کھنچے تو نہایت دریدہ ریزی کے ساتھ اس کی ہیئت، شکل، سمت، جہت، اطراف، اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس ے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میں کوئی خاص اعجوبگی ہے۔ اور جن سے انسان کی قوت مضحکہ پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً رستم و سہراب کی داستان کو ایک مؤرخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کی تمام جزئیات بیان کر دے گا۔ لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس طرح ادا کرے گا کہ سہراب کی مظلومی و بیکسی اور رستم کی ندامت و حسرت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور واقعہ کے دیگر جزئیات باوجود سامنے ہونے کے نظر نہ آئیں۔
مؤرخ کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ سارا واقعہ نگاری کی حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یورپ میں آج کل جو بڑا مؤرخ گزرا ہے اور جو طرز حال کا موجود ہے رینگی ہے ، اس کی تعریف ایک پروفیسر نے ان الفاظ میں کی ہے۔
” اس نے تاریخ میں شاعری سے کام نہیں لیا۔ وہ نہ ملک کا ہمدرد بنا نہ مذہب اور قوم کا طرفدار ہوا۔ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں مطلق پتہ نہیں لگتا کہ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور اس کی ذاتی اعتقاد کیا ہے۔ “
یہ امر بھی جتا دینا ضروری ہے کہ اگرچہ میں نے واقعات میں اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس باب میں یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز کیا ہے۔ اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کے لیے اکثر جگہ قیاس سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے مؤرخ کو اجتہاد اور قیاس سے چارہ نہیں۔ لیکن یہ اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کر دے کہ کوئی شخص دونوں کو الگ کرنا چاہے تو نہ کر سکے۔
اہل یورپ کا عام طرز یہ ہے کہ وہ واقعہ کو اپنے اجتہاد کے موافق کرنے کے لئے ایسی ترتیب اور انداز سے لکھتے ہیں کہ وہ واقعہ بالکل ان کے اجتہاد کے قالب میں ڈھل جاتا ہے اور کوئی شخص قیاس اور اجتہاد کو واقعہ سے الگ نہیں کر سکتا۔
اس کتاب کی ترتیب اور اصول تحریر کے متعلق چند امور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔
(۱) بعض واقعات مختلف حیثیتیں رکھتے ہیں اور مختلف عنوانوں کے تحت آ سکتے ہیں۔ اس لئے اس قسم کے واقعات کتاب میں مکرر آ گئے ہیں اور ایسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جس خاص عنوان کے نیچے وہ واقعہ لکھا گیا ہے وہاں اس عنوان کی حیثیت زیادہ تر دکھائی گئی ہے
(۲) کتابوں کا حوالہ زیادہ تر انہیں واقعات میں دیا گیا ہے جو کسی حیثیت سے قابل تحقیق تھے اور کوئی خاص خصوصیت رکھتے تھے۔
(۳) جو کتابیں روایت کی حیثیت سے کم رتبہ مثلاً ازالتہ الخفاء و ریاض النضرۃ وغیرہ ان کا جہاں حوالہ دیا ہے اس بناء پر دیا ہے کہ خاص روایت کی تصدیق اور معتبر کتابوں سے کر لی گئی ہے۔ غرض کئی برس کی سعی و محنت اور تلاش و تحقیق کا جو نتیجہ ہے وہ قوم کے سامنے ہے۔
من کہ یک چند زدم مہر خموشی برلب
کس چہ داند کہ دریں پردہ چہ سودا کردم
پیکرے تازہ کہ خواہم بہ عزیزاں بنمود
لختے ازذوق خودش نیز تماشا کردم
محفل ازبادۂ دوشینہ نیاسودہ ہنوذ
بادۂ تندتر از دوش بہ مینا کردم
باز خواہم کہ دمم درتن اندیشہ رداں
من کہ دریوزۂ فیض ازدم عیسیٰ کردم
ہم نشیں نکتہ حکمت ز شریعت می جست
لختے از نسخہ روح القدس املا کردم
شاہد راز کہ کس پردہ ز رویش نگرفت
گرہ ازبند قبایش بہ فسوں وا کردم!
بشکہ ہر بار گہر بار گذشتم زیں راہ
دست معنی ہمہ پر لولوے لالہ کردم
حضرت عمر: نام و نسب – سن رشد و تربیت
سلسلہ نسب یہ ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔
اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہویں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقدار تھے۔ ان ہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا، اور ان کے انتساب سے دس جدا نامور قبیلے بن گئے۔ یعنی ہاشم، امیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سمح، حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لئے دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چھتر بھی ان پر سایہ فگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلاؤ سے ان لوگوں کے کاروبار کے مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے۔ اور ہر صیغے کا اہتمام جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی نگرانی، حجاج کی خبر گیری، سفارت، شیوخ قبائل کا انتخاب، فصل مقدمات، مجلس شورا وغیرہ وغیرہ، (عدی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد اعلیٰ تھے ) اس صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے۔ یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے۔ (یہ تمام تفصیل عقد الفرید باب فضائل عرب میں ہے )۔ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں ثالث بھی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیسوں میں سے کسی کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اور پایہ شناس ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طور ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کئے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فضاحت اور زور تقریر کا جوہر بھی درکار ہوتا، یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد امجد
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کو نہایت قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے عالی رتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جد امجد عبد المطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ اور اس وقت کی طرف مخاطب ہو کر یہ جملے کہے :
اتنا فرر جلاً ھو اطول منک قامۃً و او سم و سامۃً و اعظم منک ھامۃً و اکثر منک ولداً و اجزل منک مفداً او انی لا اقوال ھذا و انک لبعید الغضب رفیع الصوت فی العرب جلد المریرۃ لحبل العشیرۃ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برادرِ عم زاد
نفیل کے دو بیٹے تھے۔ عمرو، عمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے۔ لیکن ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے۔ وہ ان ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کر دیا تھا۔ اور موحد بن گئے تھے۔ ان میں زید (زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور معارف ابن قنیبہ میں ملے گا) کے سوا باقیوں کے یہ نام ہیں۔ قیس بن ساعدہ، ورقہ بن نوفل۔
زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو علانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے۔ اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہو گئے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ معظمہ سے نکل گئے۔ اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں۔ جن سے ان کے اجتہاد اور روشن ضمیری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں :
ارباً واحداً ام الف ربِ
ادین اذا تقسمت الامور
ترکت اللات والعزیٰ جمیعاً
کذلک یفعل الرجل البصیر
ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو؟ جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات اور عزیٰ (بتوں کے نام تھے ) سب خیر باد کہا اور سمجھدار آدمی ایسا ہی کرتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد خطاب
خطاب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے (کتاب المعارف ابن قتیبہ)۔ قبیلہ عدی اور بنی عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی اور چونکہ بنو میں خطاب بھی شامل تھے ، مجبور ہو کر سہم کے دامن میں پناہ لی، اس پر بھی مخالفوں نے لڑائی کی دھمکی دی تو خطاب نے یہ اشعار کہے :
ابو عد لی ابو عمر و دولی
رجال لا ینھنھا الوعید
رجال من بنی سھم بن عمرو
الی ابیا تھم باوی الطرید
کل آٹھ شعر ہیں اور علامہ ارزقی نے تاریخ مکہ میں ان کو بتمامہا نقل کیا ہے۔ عدی کا تمام خاندان مکہ معظمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ لیکن خطاب کے متعدد مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا اور مروہ کے بیچ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا۔ لیکن اس سے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں۔
(تاریخ مکہ للارزقی۔ ذکر رباع بن بنی عدی بن کعب)۔ خطاب نے متعدد شادیاں اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں کا نام خنتمہ تھا، جو ابن ہشام بن المغیرۃ کی بیٹی تھیں، مغیرۃ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی سے لڑنے کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی سے متعلق ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ کے بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا تھے۔ ایک ممتاز آدمی تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*