ایشیائی ممالک میں نومولود بچوں کی مالش جو ان کی زندگی بدل سکتی ہے


 اکتوبر کی ایک ٹھنڈی شام کو انڈیا کے جنوبی شہر بینگلورو سے رینو سازینا اپنی نومولود بیٹی کو ہسپتال سے گھر لا رہی تھیں۔ اس دوران اپنی بیٹی کو تھامے ہوئے انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ کتنی نازک ہے، اس کی شفاف جلد سے پتلی پتلی رگیں نمایاں نظر آ رہی ہیں۔


ان کی بیٹی کی ولادت پری میچور (قبل از وقت پیدائش) ہو گئی تھی۔ 36 ماہ کے حمل پر ہی پیدا ہونے والی اس بچی کا وزن 2.4 کلوگرام تھا۔ رینو سازینا کے خاندان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایک قدیم انڈین ٹوٹکا آزمائیں جس کے ذریعے نومولود بچوں کی نشوونما میں مدد ملتی ہے، یعنی روزانہ بچی کی مالش کیا کریں۔

تاہم ان کے ڈاکٹر اس بارے میں زیادہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے تھے اور انھوں نے رینو کو تب تک مالش نہ کرنے کا مشورہ دیا جب تک بچی کے وزن میں مزید اضافہ نہ ہو جائے۔

رینو نے درمیانی راہ نکالی اور ابتدائی دو ہفتے تک مالش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دورانیے میں ان کی بیٹی کے وزن میں انتہائی معمولی اضافہ ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران ان کی بیٹی کے وزن میں صرف 100 گرام کا اضافہ ہوا اور اس کی نیند بھی متاثر رہی۔

پھر رینو نے نومولود بچوں کا خیال رکھنے والی ریٹائرڈ نرس کی خدمات حاصل کیں اور ان سے بچوں کی روایتی مالش کا طریقہ پوچھا اور یوں ان کی بیٹی کی صحت بہتر ہونے لگی۔ ان کی بیٹی نے نہ صرف سکون سے سونا شروع کر دیا، بلکہ ان کے وزن میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

رینو اکیلی نہیں ہیں جنھیں اس تجربے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی ہو، اب تحقیق سے حاصل ہونے والے شواہد بھی خصوصاً جنوبی ایشیا میں بچوں کی مالش کے حیران کن فوائد بیان کر رہے ہیں خصوصاً وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تیل سے کی جانے والی یہ مالش جب درست انداز میں کی جائے تو اس سے بچے کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے، بچہ بیکٹیریئل انفیکشن سے بھی بچ جاتا ہے اور بچوں کی ہلاکتوں کی شرح بھی 50 فیصد تک گر جاتی ہے۔

تاہم ایسے والدین جو اس تکنیک میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں پہلے اس حوالے سے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ یہ یقین کر لیا جائے کہ ایسا کرنا بچے کے لیے محفوظ اور موزوں ہے۔


ایسے خاندان جو نسل در نسل چلی آ رہی اس روایات کے مداح ہیں، یہ شواہد ان کے اپنی مشاہدات کی تصدیق کرتے ہیں۔

رینو سابق ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹیو ہیں اور ان کا تعلق شمالی انڈین ریاست اترپردیش سے ہے جہاں پیدائش کے بعد ماں اور بچے دوںوں کی مالش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کا خاندان اس روایت پر نسل در نسل عمل کرتا آیا ہے۔

رینو بتاتی ہیں کہ ’جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو میری والدہ مجھے بتایا کرتی تھیں کے وہ میری پیدائش کے بعد فوراً تندرست ہو گئی تھیں حالانکہ میں ان کا تیسرا بچہ تھی اور کیسے میری نشوونما بہترین انداز میں ہوئی کیونکہ انھوں نے ہسپتال سے گھر آنے کے بعد سے میری روزانہ مالش کا باقاعدگی سے آغاز کر دیا تھا۔‘

نومولود بچوں کا خیال رکھنے والی نرس نے انھیں سکھایا کہ تیل کیسے گرم کرتے ہیں، ناریل اور بادام کے تیل کو کب استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی بیٹی کی جلد پر اس تیل کو روزانہ آدھے گھنٹے کے لیے کیسے لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد کیسے گرم پانی سے غسل دیا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے بچی کے پیٹ کو دل کی شکل میں آہستہ آہستہ سہلانا شروع کیا اور پھر اس طریقہ کار کو پورے جسم پر استعمال کیا۔ پھر ہم نے ان کی ٹانگوں کی ورزش کروائی اور پاؤں کی انگلیوں کو ماتھے سے لگا کر اس بات کا یقین کیا کہ ان کے پیٹ میں گیس موجود نہ ہو۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کے لیے مالش کے فوائد ان کی صحت کے لیے بڑی عمر تک رہتے ہیں۔

سٹینوفورڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے پروفیسر گیری ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ جلد جسم کا سب سے بڑا عضو ہے، لیکن ہم اکثر اس پر دھیان نہیں دیتے کہ مجموعی صحت کے لیے جلد کی دیکھ بھال کتنی اہم ہے۔

بنگلہ دیش اور ہندوستان کے اپنے ابتدائی سفر میں ڈارمسٹاڈٹ نے مشاہدہ کیا کہ خاندان، خاص طور پر مائیں اور نانیاں، اپنے نوزائیدہ بچوں کی مالش کرنے میں کافی وقت صرف کرتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ یہ صدیوں سے کیا جا رہا ہے، میں حیران ہوا اور پھر (میں نے) اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‘

سنہ 2008 میں قبل از وقت پیدا ہونے والے 497 بچوں کے مطالعے میں، جنھیں بنگلہ دیش کے ایک ہسپتال میں روزانہ مساج دیا جاتا تھا، ڈرمسٹاٹ اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ یہ قدیم طریقہ زندگی بچا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے انفیکشن کے خطرے میں تقریباً 40 فیصد کمی اور اموات کی شرح میں 25-50 فیصد کمی دیکھی جو کہ نمایاں تھی۔‘

علیحدہ ٹرائلز کے ذریعے ٹیم کو پتہ چلا کہ باقاعدہ مساج بچے کے مائیکرو بایوم بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کی وہ تہہ ہوتی ہے جو جلد اور آنتوں میں رہتی ہے۔ مائیکرو بایوم ایک موثر رکاوٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے قوت مدافعت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس سے انفیکشن دور رہ سکتا ہے۔



ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ ’جن غذائیت سے محروم بچوں کو تیل سے مالش کی گئی ان میں ایک مائیکرو بایوم پیدا ہوا جو کہ کہیں زیادہ متنوع تھا۔ (تیل) نے جلد کی رکاوٹ کے کام کو بہتر بنایا، جس سے بیکٹیریا کے لیے جلد کے اندر داخل ہونا، خون کے دھارے میں جانا اور جان لیوا انفیکشن کا باعث بننا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

یہ نتائج قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے خاص طور پر اہم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں، جلد کی رکاوٹ (تہہ) اچھی طرح کام نہیں کرتی اور اس وجہ سے جلد کے ذریعے آپ کا پانی ضائع ہوتا ہے۔ پانی (جسم سے) بہت تیزی سے بخارات بن کر اڑ جاتا ہے، اور اس کے ساتھ گرمی بھی جاتی ہے۔ اس طرح کے بچے کا ہائپوتھرمک ہونا آسان ہے۔‘

جب جسم کا درجہ حرارت بہت کم ہو جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ (وہ) بچہ بہت زیادہ توانائی کھو رہا ہے (گرمی کے اس نقصان سے لڑ رہا ہے)۔ وہ توانائی جو بصورتِ دیگر نشوونما اور جسمانی کام کے دیگر پہلوؤں میں استعمال ہو سکتی تھی۔

ڈارمسٹاڈٹ اور ان کی ٹیم کی ایک تحقیق میں، جو ابھی تک شائع نہیں ہوئی، محققین نے شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں 26،000 بچوں کو ٹریک کیا ہے، یہ صرف قبل از وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچے ہی نہیں ہیں۔ ان میں سے نصف کو سورج مکھی کے تیل سے مساج کیا گیا اور باقی آدھے کو سرسوں کے تیل سے۔

محققین نے تمام بچوں کی نشوونما میں بہتری پائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ نارمل وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اموات پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا، چھوٹے بچوں میں (جن کا پیدائشی وزن 1.5 کلو سے کم تھا) ، اموات کا خطرہ 52 فیصد کم ہوا۔‘

دوسرے محققین کو بھی اسی طرح کے فوائد ہی ملے ہیں۔ ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مساج ’وگس نیرو (اعصاب) کو متحرک کرتے ہیں، جو ایک لمبی اعصابی رگ ہے جو دماغ اور پیٹ کو جوڑتی ہے، جس سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور غذائی اجزا جذب ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کا وزن بڑھتا ہے۔ پیٹ کی روزانہ مالش ذہنی تناؤ اور درد کو بھی کم کر سکتی ہے، جو خاص طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کے لیے اہم ہو سکتا ہے، جو ہسپتال میں تنہا کئی مہینے گزارتے ہیں۔

یونیورسٹی آف میامی سکول آف میڈیسن میں پیڈیاٹرکس، سائیکالوجی اور سائیکائٹری کی پروفیسر ٹفنی فیلڈ کہتی ہیں کہ ’ہم مشورہ دیتے ہیں کہ والدین پیدائش کے وقت سے ہی اپنے بچوں کی مالش شروع کر دیں۔‘ انھوں نے مختلف ممالک سے حاصل کیے گئے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے مساج کے مطالعے کا جائزہ لیا ہے، اور وہ اسے فروغ دیتی ہیں، تاہم وہ والدین کو یاد بھی دلاتی ہیں کہ صحیح تکنیک ہونا بہت اہم ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جلد پر درمیانہ سا دباؤ ڈال کر جلد کو ہلانا چاہیے، لیکن بہت ہلکا ہاتھ بچے کو گدگدی کر سکتا ہے۔ زیادہ تر چھوٹے بچے اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے اور یہ علاج نہیں ہے۔‘

ڈارمسٹاڈٹ بھی اعتدال پسند نقطہ نظر تجویز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو ہم نہیں کرنا چاہتے، خاص طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں میں، وہ زور سے مالش کرنا ہے۔ آپ جلد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘

تیل کو احتیاط سے منتخب کرنا اور لگانا پڑتا ہے، اور روایت ہی ہمیشہ اس کے لیے بہترین رہنما نہیں ہوتی۔ سنہ 2013 میں جنوبی بھارت میں 194 شیر خوار بچوں کا مطالعہ کیا گیا، جن میں سے تقریباً سبھی کو ان کی مائیں مساج کرتی تھیں۔

اس مطالعہ سے پتہ چلا کہ نصف سے زیادہ ماؤں نے بچے کے کانوں اور آنکھوں پر بھی تیل لگایا۔ محققین خبردار کرتے ہیں کہ اس سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔ انڈیا کے شہر بنگلور کے قریب کستوربا میڈیکل کالج میں کمیونٹی میڈیسن میں مہارت رکھنے والے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس مطالعے کے اہم محقق نیتن جوزف کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس سے بچنے اور صحیح تکنیک پر عمل کرنے کے لیے مزید وسیع آگاہی کی ضرورت ہے۔‘

ڈارمسٹاڈٹ اور کے ساتھی سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ڈرمیٹالوجی کے پروفیسر پیٹر ایم ایلیاس کی تحقیق کے مطابق سورج مکھی کے بیج، ناریل اور تل کا تیل سب سے زیادہ فوائد دیتا ہے۔

ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ ’ان تیلوں میں لینولیک ایسڈ کی شرح زیادہ ہوتی ہے، جو آپ کا جسم نہیں بنا سکتا۔ اور جلد پر ایسے رسیپٹر ہوتے ہیں جو اس فیٹی ایسڈ کو خاص طور پر جوڑتے ہیں، تاکہ یہ میٹابولائز ہو جائے۔ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ تیل میں موجود فیٹی ایسڈ جلد کے مدافعتی نظام کو بھی متحرک کر سکتے ہیں اور بڑھا سکتے ہیں۔‘

تاہم انڈین ریاست اتر پردیش میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سرسوں کے تیل میں یروسک ایسڈ ہوتا ہے، جو سوجن یا انفلیمیشن کا باعث بن سکتا ہے اور جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

خاندانوں کے لیے یہ معمول نسلوں کے روابط کو مضبوط کرنے کا ایک موقع بھی ہو سکتا ہے۔


مغربی انڈیا کے شہر پونے میں مقیم مصنفہ پرانجلی بھونڈے اپنے 14 ماہ کے بچے سمر کو دن میں دو بار مساج کرتی ہیں۔ انھوں نے یہ کام اس کی پیدائش سے ہی شروع کر دیا تھا۔ پہلے چار مہینے تو ان کی والدہ نے اس کام میں ان کی مدد کی۔ یہ ایک ایسی سرگرمی تھی جس سے وہ دونوں ہی لطف اندوز ہوتی تھیں۔

اب، جب وہ تنہا مالش کرتی ہیں، تو ان کی کوشش ہوتی ہے مساج کے دوران بچے کے ساتھ ان کا آنکھوں کا رابطہ برقرار رہے اور وہ اسے گانے اور نظمیں بھی سناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے ہمارا رشتہ مضبوط کیا اور میں دیکھ رہی تھی کہ باقاعدہ مساج سے اس کی نیند اور اس کی جلد کیسے بہتر ہوئی ہے۔‘

تیل کی مالش سے خاندان کے بوڑھے افراد کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ ’ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ یہ بوڑھے لوگوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ جب آپ کی عمر بڑھ جاتی ہے تو اس کے ساتھ جلد بھی زیادہ نازک ہو جاتی ہے۔‘ خشک جلد پر چھوٹی موٹی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے، جو بیکٹیریا کو اندر جانے دیتی ہے اور تیل اسے ملائم رکھتے ہوئے ایسا ہونے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔

اپنے شمالی ہندوستانی خاندان کی روایات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف سکینہ کی بیٹی کی صحت بہتر ہوئی ہے بلکہ ان کی اپنی بھی۔ 40 سال کی عمر میں پہلی بار ماں بننے والی سکینہ کو حمل کے دوران ذیابیطس ہو گئی تھی اور ان کی بیٹی سیزرین سیکشن کے ذریعے پیدا ہوئی تھی۔

وہ اپنی بیٹی کا پہلا مساج سیشن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ مساج کے بعد بغیر کسی خلل کے چار گھنٹے تک سوتی رہی تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس سے مجھے بھی آرام کرنے کا موقع ملا اور اس سے مجھے لگا کہ ہو سکتا ہے باقاعدہ مساج ایک صحت مند بچپن کی کنجی ہو۔‘

٭اس تحریر کا مواد عام معلومات کے لیے لکھا گیا ہے اور اسے کسی ڈاکٹر کے طبی مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ ایسے افراد جو بچوں کی مالش میں دلچسپی لیتے ہیں وہ کسی ماہر کی مدد حاصل کریں کیونکہ اس تکنیک کے غلط استعمال سے نومولود بچوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

٭انتباہ: ہم اس سائٹ پر دی گئی معلومات کے باعث کسی صارف کی جانب سے کیے گئے فعل یا تشخیص کے ذمہ دار نہیں۔  اگر آپ اپنی یا اپنے بچے کی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں تو اپنے معالج سے رابطہ کریں۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی