درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے
درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے
کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے
خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے
میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے
میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم
اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے
ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ
سب سہی، دل مگر اک تیرا ہی شیدائی ہے
پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل
اب تو بس تیری تمنا کا تمنائی ہے
ان کا دیدار تقی کیسا قیامت ہوگا
جب فقط انکے تصور میں یہ رعنائی ہے
کلام: مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی
درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے
Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif
on
جنوری 06, 2025
Rating:

کوئی تبصرے نہیں: