🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پچیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داستان گو جس دور کی داستان سنا رہا ہے وہ ابلیس کا دور تھا ،قرآن حکیم کی وہ پیشن گوئی جو سورہ الاعراف کی آیت 11 سے 23 تک واضح الفاظ میں آئی ہے، حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی تھی، ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ابلیس کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں دھتکار دیا اور اسے کہا تو ذلیل و خوار ہوتا رہے گا، تو ابلیس نے کہا کہ مجھے روز قیامت تک مہلت دے، اللہ نے اسے مہلت دی، ابلیس نے کہا اب دیکھنا میں تیرے ان انسانوں کو کس طرح گمراہی میں ڈالتا ہوں، میں تیرے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور تیرے انسانوں کو آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور ہر طرف سے گھیرونگا ،پھر تو دیکھے گا کہ ان میں سے بہت سے تیرے شکر گزار نہیں رہیں گے۔
اللہ تعالی نے آدم اور حوا سے کہا کہ جنت میں رہو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ گنہگاروں میں لکھے جاؤ گے، شیطان نے آدم سے کہا کہ اللہ نے اس درخت کو تمہارے لئے اس لیے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ ،اور تمہیں وہ زندگی نہ مل جائے جس کی موت ہوتی ہی نہیں، یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی،،،، ابلیس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں۔
ابلیس نے زبان کا ایسا جادو چلایا اور الفاظ کا ایسا طلسم پیدا کیا کہ آدم اور حوا کو شیشے میں اتار لیا ،انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا ،اور اس حکم عدولی کے نتیجے میں آدم اور حوا کے ستر بے نقاب ہوگئے، اور وہ درختوں کے پتوں سے ستر ڈھانپنے لگے۔
بات یہ سامنے آئی کی یہ ابلیس تھا جس نے آدم اور حوا کو ایک دوسرے کی شرمگاہوں سے روشناس کیا ،انسان میں تجسس کی بے تابی پیدا کی اور یہ جذبہ بھی کہ اللہ جس کام سے منع کرے وہ ضرور کر کے دیکھو اور شجر ممنوعہ کا پھل ضرور چکھو۔
حسن بن صباح نے یہی ابلیسی حربے استعمال کئے اور انسان کی ستر پوشی کو برہنگی میں بدل دیا ،مرد پر عورت کی برہنگی کا طلسم طاری کیا ،اور یہ تاثر پیدا کیا کہ شجر ممنوعہ کا پھل ضرور کھاؤ۔
ابلیس اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چل آؤں گا ،پانچویں صدی ہجری میں حسن بن صباح اللہ کے سیدھے راستے پر گھات لگا کر اور اللہ کے بندوں کو ہر طرف سے گھیر کر اپنے راستے پر چلا رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ تبریز کی لڑائی میں سلجوقی سالار امیر ارسلان مارا گیا، اس کے پانچ سو مجاہدین ہلاک یا زخمی ہوگئے تو مزمل آفندی نے شدید زخمی حالت میں مرو پہنچ کر سلطان ملک شاہ کو لڑائی کے اس انجام کی اطلاع دی، اس کا زندہ رہنا معجزہ تھا۔
جب سے مزمل آفندی سالار امیر ارسلان اور اس کے پانچ سو سواروں کے ساتھ چلا گیا تھا، رے میں شمونہ نے روزمرہ کا معمول بنا لیا تھا کہ بار بار چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھنے لگتی جس راستے پر مزمل آفندی چلا گیا تھا ،شمونہ کو معلوم تھا کہ وہ دو چار دنوں میں ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی بغداد سے اتنی جلدی اطلاع آ ہی نہیں سکتی تھی، لیکن شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں پاگل ہوۓ جا رہی تھی، وہ حقائق کو تو قبول ہی نہیں کر رہی تھی، وہ چھت پر جا کر کبھی بالائی منزل کا اس طرف والا دریچہ کھول کر اس راستے کو دیکھنے لگتی تھی، اسے قاصد کا انتظار تھا۔
اور اسے انتظار تھا کہ مزمل آفندی اسی راستے سے واپس آئے گا، اس کے چہرے پر فاتحانہ تاثر ہوگا، سینہ پھیلا ہوا اور گردن تنی ہوئی ہوگی، اور حسن بن صباح اس کے ساتھ ہوگا زندہ یا مردہ۔
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے، نہ جانے کتنی راتیں بیت گئیں مزمل آفندی نہ آیا، مرو سے کوئی قاصد نہ آیا ۔
شمونہ!،،،،،، دو تین بار اس کی ماں میمونہ نے اسے کہا ۔۔۔ایک آدمی کی محبت میں گرفتار ہو کر تم دنیا کو بھول گئی ہو، تمہیں دن اور رات کا ہوش نہیں رہا ،یوں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
میں صرف اس کا انتظار نہیں کر رہی جسے میں چاہتی ہوں۔۔۔ شمونہ نے ماں سے کہا تھا۔۔۔ میں حسن بن صباح کے انتظار میں ہوں، اگر وہ زندہ آیا تو میں اسے زنجیروں میں بندھے دیکھنا چاہوں گی، اور اگر اس کی لاش آئی تو میں سمجھوں گی کہ میرا زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے، مزمل اسے زندہ یا مردہ لے ہی آئے گا۔
شمونہ کو کوئی قاصد یا مزمل آفندی آتا نظر نہیں آتا تھا ،راستہ ہر روز کی طرح شہر سے نکل کر درختوں اور کھیتوں میں بل کھاتا دور ایک پہاڑی میں گم ہوجاتا تھا، اسے ہر روز ویسے ہی اونٹ گھوڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ٹٹو اور پیدل چلتے ہوئے لوگ نظر آتے تھے، شمونہ کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جا رہی تھی، اور وہ اکتانے بھی لگی تھی، اس کی مزاجی کیفیت بھی کچھ بکھر سی گئی تھی، آخر ایک روز دن کے پچھلے پہر دور سے اسے ایک گھوڑسوار آتا نظر آیا، گھوڑے کی رفتار اور انداز بتاتا تھا کہ وہ کوئی عام سا مسافر نہیں ،شمونہ کی نظریں اس پر جم گئیں، اور اس کے ساتھ ساتھ شہر کی طرف آنے لگیں۔
گھوڑ سوار شہر میں داخل ہوا تو شمونہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ،وہ شہر کی گلیوں میں گم ہو گیا تھا ،کچھ دیر بعد وہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر کے قریب ایک گلی سے نکلا ،شمونہ دوڑتی نیچے آئی، گھوڑسوار اس شاہانہ حویلی کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا ۔
تم قاصد تو نہیں ہو !،،،،،،شمونہ نے اس سے پوچھا۔
ہاں بی بی!،،،،، سوار نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا۔۔۔ میں قاصد ہوں امیر شہر سے فوراً ملنا ہے۔
کہاں سے آئے ہو؟
مرو سے آیا ہوں۔
سالار امیر ارسلان اور مزمل آفندی کی کوئی خبر لائے ہو ؟،،،،،شمونہ نے بچوں کی سی بے تابانہ اشتیاق سے پوچھا۔
انہی کی خبر لایا ہوں۔
کیا خبر ہے ؟،،،،شمونہ نے تڑپ کر پوچھا۔
امیر شہر کے سوا کسی اور کو بتانے والی خبر نہیں۔۔۔ قاصد نے جواب دیا۔
شمونہ دوڑتی اندر گئی دربان کے روکنے پر بھی نہ رکی، ابومسلم رازی اپنے کسی کام میں مصروف تھا، شمونہ نے زور سے دروازہ کھولا کہ ابو مسلم رازی چونک اٹھا ۔
مرو سے قاصد آیا ہے۔۔۔ شمونہ نے بڑی تیزی سے کہا۔۔۔ اسے فوراً بلا لیں۔
ابومسلم رازی نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ شمونہ باہر کو دوڑ پڑیں اور قاصد کو ابومسلم رازی کے پاس لے گئی
کیا خبر لائے ہو؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا۔
قاصد نے شمونہ کی طرف دیکھا اور پھر ابو مسلم رازی کی طرف دیکھا، بات بالکل صاف تھی کہ قاصد شمونہ کے سامنے پیغام نہیں دینا چاہتا تھا ۔
تم ذرا باہر چلی جاؤ شمونہ!،،،،،ابومسلم رازی نے کہا۔
شمونہ وہاں سے ہلی بھی نہیں اور کچھ بولی بھی نہیں، اس کی نظریں ابومسلم رازی کے چہرے پر جم گئی تھیں، اور اس کے اپنے چہرے کا تاثر یک لخت بدل گیا تھا ،رازی کی دانشمندی نے راز پا لیا وہ شمونہ کی اس بات کو سمجھتا تھا ،اس لڑکی نے ابومسلم رازی کے دل میں اپنی قدر و منزلت پیدا کر لی تھی۔
ہاں !،،،،،ابومسلم رازی نے قاصد سے پوچھا۔۔۔ کیا خبر لائے ہو؟
خبر اچھی نہیں امیر شہر!،،،،،، قاصد نے کہا۔۔۔ سالار امیر ارسلان مارے گئے ہیں، اور ان کے پانچ سو سواروں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو ۔
مزمل آفندی کی کیا خبر ہے؟،،،،، شمونہ نے تیزی سے اٹھ کر پوچھا۔
خاموش رہو شمونہ!،،،،، ابومسلم رازی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔میں تمہیں باہر بھیج دوں گا، تم ایک آدمی کا غم لیے بیٹھی ہو، اور ہم اس سلطنت اور دین اسلام کے لئے پریشان ہو رہے ہیں ،اس نے قاصد سے کہا آگے بولو۔
مزمل آفندی زندہ ہیں۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ لیکن بہت بری طرح زخمی ہے، وہ مرو میں سلطان عالی مقام کے پاس ہے، وہی آگے کی خبر لائے تھے۔
قاصد نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے وہ خبر سنائی جو مزمل آفندی نے سلطان ملک شاہ کو سنائی تھی ،پھر اس نے یہ بتایا کہ اب سلطان مکرم نے سالار قزل ساروق کو ایک ہزار سوار دے کر حسن بن صباح کی گرفتاری اور اس کے پیروکاروں کی تباہی کے لئے بھیج دیا ہے ۔
قاصد پیغام دے چکا تو ابومسلم رازی نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔
میں مرو جانا چاہتی ہوں۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ آپ مجھے اسی قاصد کے ساتھ بھیج دیں ۔
تم وہاں جا کر کیا کروگی؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا.
میں مزمل آفندی کی تیمارداری کروں گی۔۔۔ شمونہ نے جواب دیا ۔۔۔اس شخص نے مجھ پر جو احسان کیا ہے کیا میں بھول سکتی ہوں؟،،، اس نے مجھے بچھڑی ہوئی ماں سے ملایا ہے، اور امیر شہر میں نے اور مزمل آفندی نے عہد کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ حسن بن صباح کو ہم دونوں قتل کریں گے، اس مقصد کے لیے میں مزمل کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
ایسے کام جذبات کے جوش سے نہیں ہوا کرتے شمونہ!،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ اس کے لیے تجربے کی اور دور اندیشی سے ہر پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ،تم میرے ساتھ رہو ،تمہاری ماں یہی ہے، میرا بھی یہی مقصد ہے، حسن بن صباح جب یہاں آیا تھا تو میں نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا لیکن اس سے قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ فرار ہوگیا۔
میں نے بھی حسن بن صباح کے قتل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے، پھر اس لیے بھی میں تمہیں وہاں نہیں بھیج سکتا کہ مزمل آفندی سلطان کے پاس ہے ،میری بات اور ہے سلطان کے یہاں فضا اور ماحول کچھ اور ہے، انہوں نے مزمل آفندی کو اپنی نگرانی میں رکھا ہوگا اور وہ پریشان بھی ہوں گے کہ امیر ارسلان جیسا سالار اپنے تمام سواروں کے ساتھ مارا گیا ہے، یہ پریشانی بھی لاحق ہو گئی ہے کہ حسن بن صباح کے پاس اتنی فوجی طاقت اکٹھی ہوگئی ہے کہ اس نے پانچ سو سلجوقی سواروں کو ختم کر دیا ہے، کسی کو سلجوقی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا دینے والا جنگجو ہے اور ناقابل تسخیر، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسن بن صباح کے پیروکار سلجوقیوں سے زیادہ سرفروش ہیں، تم یہیں رہو ،ہو سکتا ہے سلطان تمہارا وہاں جانا پسند نہ کریں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں اس بنا پر شک کی نظروں سے دیکھیں کہ تم نے حسن بن صباح کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے۔
ابومسلم رازی نے شمونہ کی ماں کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو اپنے قابو میں لے لیں، ورنہ یہ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار قزل ساروق نے تبریز کی قلعہ نماء بستی کو نذرآتش تو کردیا لیکن وہ اس بستی کو نذر آتش کرنے کے لیے نہیں گیا تھا ،یہ تو غصے کا اظہار تھا جو اس نے کیا ،اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے جنگجو پیروکار کہاں گئے، اس نے جو لاشیں دیکھی تھیں ان میں سالار امیر ارسلان کے سواروں کی لاشیں زیادہ تھی اور حسن بن صباح کے آدمیوں کی لاشیں بہت ہی تھوڑی تھیں۔
سالار قزل ساروق کے ساتھ جاسوسی کرنے والے آدمی بھی تھے، بھیس اور حلیہ بدلنے کا بھی ان کے پاس انتظام تھا ،قزل ساروق نے اپنے چار آدمیوں کو جاسوسی کے لیے تیار کیا اور انہیں ضروری ہدایات دے کر ادھر ادھر بھیج دیا ،اس نے خود ذرا سا بھی آرام نہ کیا اپنے دو تین ماتحت کمانڈروں کو ساتھ لے کر تبریز سے کچھ دور زمین کو کھوجنے کے لئے چلا گیا، اس نے ہر طرف زمین دیکھی حسن بن صباح اکیلا ہی تو نہیں تھا کہ اس کا پورا کھوج نہ ملتا ،اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے جن میں گھوڑ سوار بھی تھے۔
ایک جگہ مل ہی گئی زمین گواہی دے رہی تھی کہ یہاں سے ایک قافلہ یا لشکر گزرا ہے۔ قزل ساروق زمین کے یہ نشان دیکھتا ہوا آگے ہی آگے چلتا گیا ،یہ کوئی عام سا راستہ نہیں تھا ،یہ لوگ اونچی نیچی زمین پر چلتے گئے، آگے ایک ندی تھی وہ اس ندی میں سے بھی گزرے تھے، اگر یہ کوئی پرامن لوگوں کا قافلہ ہوتا تو کسی باقاعدہ پگڈنڈی پر جارہا ہوتا یا ہموار زمین پر چلتا ،یہ قافلے لوٹنے والے ڈاکوؤں کا گروہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ حسن بن صباح کا گروہ بھی ہو سکتا تھا۔
زمین کے ان نشانات سے تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس سمت کو جا رہے ہیں، لیکن اصل بات تو یہ معلوم کرنی تھی کہ وہ گئے کہاں؟، آگے ایسا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے اندر کسی آبادی کا گمان نہیں کیا جاسکتا تھا۔
سالار قزل ساروق ایک جگہ رک گیا ،اس کا آگے جانا ٹھیک نہیں تھا کیونکہ وہ دور سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ کسی شہر کا امیر یا فوج کا سالار ہے، اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ اس طرف اپنا کوئی آدمی بھیس بدل کر جائے تو کچھ سراغ مل سکتا ہے، ایک ماتحت نے اسے کہا کہ چل کر ایک اور آدمی کو اس سمت میں روانہ کر دیتے ہیں ۔
اور وہ واپس آگئے۔
بہت دیر بعد ایک شتر سوار آتا نظر آیا وہ بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا، قریب آیا تو وہ اپنا ایک جاسوس نکلا جسے علی الصبح بھیجا گیا تھا، وہ اونٹ سے اترا اور اپنے سالار کے پاس گیا۔
سراغ مل گیا ہے۔۔۔ جاسوس نے کہا ۔۔۔میں نے گھوڑوں اونٹوں اور آدمیوں کے پاؤں کے نشان دیکھے اور ان پر چلتا گیا یہ نشان مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں تین مکان تھے جن کے مکینوں کے بچے مکانوں سے کچھ دور کھیل رہے تھے، میں اونٹ سے اترا اور ان بچوں سے پوچھا کہ ادھر ایک قافلہ گیا ہے میں اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ قافلہ کدھر گیا ہے، بچوں نے مجھے صرف سمت بتائی۔
اس جاسوس نے اپنے سالار کو جو تفصیل بتائیں وہ یوں تھی کہ جب یہ شخص بچوں سے پوچھ رہا تھا اس وقت ان مکانوں کے رہنے والے کسی آدمی نے دیکھ لیا اور اس کے پاس آکر پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اس نے وہی بات کہی جو وہ بچوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ اس قافلے سے بچھڑ گیا تھا۔
وہ ایک عجیب قافلہ تھا۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ اس میں بہت سے آدمی تھے جو زخمی تھے ان کے کپڑے خون سے لال تھے، ان میں کچھ گھوڑوں پر سوار تھے اور کچھ اونٹوں پر اور چند ایک پیدل بھی چلے جا رہے تھے، ہمیں تو وہ قافلوں کو لوٹنے والے ڈاکو لگتے تھے، ان کے ساتھ جو اونٹ تھے ان میں سے دو اونٹوں پر پالکیاں تھیں دونوں میں ایک ایک یا شاید دو دو عورتیں تھیں ،ہمیں شک ہے کہ وہ ڈاکو تھے، انہوں نے کسی قافلے کو لوٹنے کی کوشش کی ہوگی اور قافلے والوں نے مقابلہ کرکے انہیں مار بھگایا ہوگا ۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے دوست!،،،، جاسوس نے کہا ۔۔۔وہ ڈاکو کا ہی گروہ ہے، انہوں نے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا لیکن ناکام رہے، کیونکہ قافلے میں لڑنے والے بہت سے آدمی تھے، انہوں نے ان ڈاکوؤں کے کئی ایک آدمی مار ڈالے اور باقی بھاگ آئے، میں سلجوقی فوج کا آدمی ہوں اور اس قافلے کا سراغ لیتا پھر رہا ہوں، اگر تم بتا سکو کہ یہ لوگ آگے کہاں گئے ہیں تو تمہیں سلطان کی طرف سے جھولی بھر کر انعام ملے گا۔
میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں گئے ہیں، میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کے اس پہاڑی علاقے کے اندر پرانے زمانے کا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے ،جو دراصل قلعے کے کھنڈرات ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ اس قلعے میں گئے ہوں ،ان پہاڑیوں کے اندر کوئی اور آبادی نہیں، بڑے بڑے غار ہیں، جہاں صرف ڈاکو ہی جا سکتے ہیں ،کسی اور نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قزل ساروق کا جاسوس وہیں سے واپس آگیا اور اپنے سالار کو بتایا۔
اس جاسوس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جب وہاں سے قافلے کا سراغ لے کر آ گیا تھا تو پیچھے کیا ہوا تھا، ہوا یہ تھا کہ جب جاسوس وہاں سے چلا تو ایک بوڑھا آدمی مکان سے نکلا اور اس نے اپنے اس آدمی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ شتر سوار کون تھا اور کیا کہتا تھا۔
اس نے اس بوڑھے کو بتا دیا کہ وہ کیا پوچھ رہا تھا اور اس نے کیا بتایا تھا۔
بے وقوف آدمی!،،،،، بوڑھے نے کہا ۔۔۔تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے۔
یہ سلطان کی فوج کا آدمی تھا۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ وہ ڈاکوؤں کے اسی گروہ کے تلاش میں تھا، میں تو جانتا تھا اور اسے بتا دیا ہے، اگر سلطان کی فوج نے ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا تو مجھے انعام ملے گا۔
تمہیں انعام بعد میں ملے گا ۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔لیکن انعام لینے کے لیے نہ تم زندہ رہو گے نہ ہم میں سے کوئی زندہ رہے گا ،تم نے ہم سے پوچھ کر بات کرنی تھی، تم نے جس کی نشاندہی کی ہے وہ حسن بن صباح تھا ،کیا تم نہیں جانتے حسن بن صباح کون ہے ؟
ہاں !،،،،اس نے کہا ۔۔۔وہ آسمان سے اترا ہے اور خدا نے اسے اپنا ایلچی بنا کر بھیجا ہے۔
وہ خدا کے بندوں کو سیدھا راستہ دکھانے آیا ہے ۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ اس کے مقابلے میں کتنا ہی بڑا لشکر آ جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ،آسمان سے معلوم نہیں جنات اترتے ہیں یا قہر برسانے والے فرشتے آ جاتے ہیں جو لشکر کو کاٹ کر پھینک جاتے ہیں، کیا تم نے تبریز کی لڑائی نہیں سنی، ابھی چند ہی دن گزرے ہیں سلطان کا پورے کا پورا لشکر اپنے ہی خون میں ڈوب گیا ہے۔
ہاں سنا تھا۔۔۔ اس نے کہا۔
پھر مکانوں سے ایک اور آدمی نکل آیا بوڑھے نے اسے بتایا کہ اس نے سلطان کے ایک جاسوس کو بتا دیا ہے کہ حسن بن صباح ادھر چلا گیا ہے۔
یہ تو نیم پاگل ہے ۔۔۔دوسرے آدمی نے کہا۔
یہ تو میں جانتا ہوں ۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔۔لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ سلطان نے حسن بن صباح کے پیچھے فوج بھیج دی تو کیا ہم نہ مارے جائیں گے، سوچو ہم کیا کریں۔
وہ حسن بن صباح ہی تھا جو تبریز سے اپنے تمام پیروکاروں کو اور ابو علی کے قزوین سے بھیجے ہوئے تین سو سواروں کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے گزرا تھا، ان مکانوں کے قریب آیا تو تمام مکین باہر آکر راستے میں کھڑے ہوگئے تھے، حسن بن صباح نے انہیں دیکھا تو اپنے دو مصاحبوں سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ ہم ادھر سے گزرے ہیں، اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو ان کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کے مکانوں کو آگ لگا دی جائے گی۔
اب ان کے لیے یہ صورت پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے ایک آدمی نے جسے وہ نیم پاگل کہہ رہے تھے ایک جاسوس کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ آگے گئے ہیں، اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان پہاڑیوں کے اندر ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی قلعے میں گئے ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے جاسوس کسی اور طرف چلے گئے تھے ان کی واپسی کے انتظار میں پوری رات گزر گئی وہ اگلے روز یکے بعد دیگرے آئے تو آدھا دن گزر چکا تھا ان سب نے یہی خبر دی کہ حسن بن صباح ان پہاڑیوں کے اندر گیا ہے، اس طرح تصدیق ہوگئی کہ اس وقت ان کا شکار کہاں ہے، تبریز سے اس جگہ کا فاصلہ کم وبیش چالیس میل بتایا گیا تھا ۔
آدھا دن گزر چکا تھا جب قزل ساروق نے اپنے ایک ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دیا۔
لشکر انہیں مکانوں کے قریب سے گزرا، ایک جاسوس نے راستہ معلوم کر لیا تھا، لشکر پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا آگے راستہ بہت ہی دشوار تھا اس لئے لشکر کی رفتار بہت ہی سست رہی، ابھی پندرہ سولہ میل بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ سورج غروب ہو گیا چونکہ علاقہ پہاڑی اور جنگلاتی تھا اس لئے شام بہت جلدی گہری ہوگئی، پھر بھی قزل ساروق نے سفر جاری رکھا، آگے راستہ دشوار ہوتا چلا گیا یہ راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ بل کھاتا جا رہا تھا، رات بالکل تاریک تھی پھر بھی سالار نے لشکر کو نہ روکا۔
تھوڑا ہی اور آگے گئے ہونگے لشکر میں شور سا سنائی دیا ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا دو تین آوازیں سنائی دیں کہ ایک سوار کا گھوڑا پھسل کر نیچے چلا گیا ہے، اس جگہ راستہ تنگ تھا ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف وادی کی گہرائی تھی، اس طرف پہاڑی کی ڈھلان عمودی تھی، پہاڑ پر درخت تھے لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے جو گھوڑے یا سوار کو روک لیتے ،کچھ دیر تک گھوڑے کے گرنے اور لڑتے ہوئے نیچے جانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
قزل ساروق نے لشکر کو روک لیا اس کے کہنے پر اس سوار کو آواز دی گئی جو گر پڑا تھا اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا وہ بے ہوش ہوگیا یا مر گیا تھا۔
سالار قزل ساروق نے یہ کہہ کر کوچ کا حکم دے دیا کہ ایک سوار کے لیے پورے لشکر کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکتی۔
سوار اور زیادہ محتاط ہو کر چلنے لگے دو چار اور موڑ مڑے تو راستہ نیچے کو جانے لگا آخر وہ اس پہاڑی سے اترے تو آگے خاصی چوڑی وادی تھی جہاں قزل ساروق نے سواروں کو صبح تک کے لئے روک لیا، سواروں نے گھوڑوں کی زینیں اتاریں اور باقی رات آرام کے لئے ادھر ادھر لیٹ گئے۔
صبح طلوع ہوئی تو کوچ کی تیاری کا حکم ملا، سوار گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک ادھیڑ عمر آدمی ایک عورت کے ساتھ آتا نظر آیا ،اس کے ساتھ دو لڑکے تھے جن میں ایک چودہ پندرہ سال کا اور دوسرا گیارہ بارہ سال کا تھا، آدمی نے ایک ٹٹو کی باگ پکڑ رکھی تھی اور ٹٹوں پر کچھ سامان لدا ہوا تھا ،انہوں نے وہیں سے گزرنا تھا جہاں لشکر کوچ کے لئے تیار ہو رہا تھا، وہ ایک طرف سے گزرتے گئے، سالار قزل ساروق لشکر سے تھوڑا پرے تھا وہ خود تیار ہو چکا تھا اس کا سائیس اس کے گھوڑے کو تیار کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس کے تین چار ماتحت کماندار اس کے پاس آ گئے وہ بالکل تیار ہو کر آئے تھے۔
یہ کون ہے؟،،،، قزل ساروق نے ادھیڑ عمر آدمی اور عورت کو دیکھ کر پوچھا ۔
ہم نے پوچھا نہیں ۔۔۔ایک کماندار نے جواب دیا۔ ان سے پوچھو۔۔۔ قزل ساروق نے کہا۔۔۔ ان کے ادھر سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آگے یا اس علاقے میں کہیں کوئی آبادی ہے، اگر یہ یہاں کے رہنے والے ہیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہ قدیم قلعہ کہاں ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم غلط راستے پر جا رہے ہوں۔
وہ لوگ قریب آئے تو انہیں روک لیا گیا۔
السلام علیکم۔۔۔۔ ادھیڑ عمر آدمی نے کہا ۔۔۔آپ اس لشکر کے سالار معلوم ہوتے ہیں، آپ نہ روکتے تو بھی میں نے رکنا تھا۔
آپ کہیں سے آ رہے ہیں یا کہیں جا رہے ہیں؟،،،،، قزل ساروق نے پوچھا ۔۔۔ہم آرہے ہیں سالار محترم!،،، اس نے جواب دیا۔۔ ہم تقریبا ایک سال بعد واپس اپنے گھر آ رہے ہیں، الحمدللہ ہم فریضہ حج ادا کرنے گئے تھے ۔
کیا آپ پیدل ہی گئے تھے ؟
پیدل بھی سمجھیں اور سوار بھی سمجھیں۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔یہ ایک ٹٹو ساتھ تھا باری باری اسی پر سوار ہوتے گئے کہیں سب کو کرائے کی سواری مل گئی اور یوں ارض حجاز تک پہنچے ،مقامات مقدسہ کی زیارت کی، فریضہ حج ادا کیا ،اور پھر جنگوں کے وہ میدان دیکھے جہاں رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کفار سے لڑے تھے، بدر کا میدان دیکھا ،احد کا میدان دیکھا، اور پھر اس جگہ کو سجدے میں جاکر چوما جہاں ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے تھے، خدا کی قسم وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن پیچھے بوڑھے ماں باپ کو نوکروں کے سپرد کر گئے تھے ان کی خاطر واپس آگئے ہیں۔
اللہ آپ کا حج قبول فرمائے۔ ۔ قزل ساروق نے کہا۔۔۔ آپ خوش نصیب ہیں جو اللہ کے گھر میں رکوع و سجود کرکے آئے ہیں ،کیا آپ کی بستی یہاں کہیں قریب ہے؟
ایسی قریب بھی نہیں ۔۔۔۔۔حج سے آنے والے نے جواب دیا ۔۔۔تقریباً پورے دن کی مسافت ہے۔
کیا اس علاقے میں کوئی بہت پرانا قلعہ بھی ہے ؟،،،،،قزل ساروق نے پوچھا اور خود ہی کہا ۔۔۔۔سنا ہے اس کے کھنڈرات باقی ہیں۔
ہاں محترم سالار !،،،،،حاجی نے جواب دیا۔۔۔۔۔ کہنے کو تو اس پہاڑی کے دوسری طرف ہے ،لیکن وہاں تک پہنچتے آج کا دن گزر چکا ہو گا ،کیا آپ اس قلعے تک جانا چاہتے ہیں؟
ہاں !،،،،قزل ساروق نے کہا ۔۔۔ قصد تو وہیں کا ہے، راستہ معلوم نہیں ۔
راستہ مجھ سے پوچھیں۔۔۔ حاجی نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ بیوی بچے نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ چلتا ت تاکہ کہیں آپ بھٹک نہ جائیں، آپ جو فرض ادا کر رہے ہیں اسے میں تو فریضہ حج کے برابر سمجھتا ہوں، آپ یقینا سلجوقی ہیں ۔
ہاں !،،،،حجاز کے مسافر ۔۔۔قزل ساروق نے کہا ۔۔۔میں سب سے پہلے مسلمان ہوں اس کے بعد سلجوق ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس اجنبی نے قزل ساروق کو اس قدیم قلعے کا راستہ سمجھانا شروع کردیا ،راستہ کوئی پیچیدہ تو نہیں تھا البتہ دشوار تھا، قزل ساروق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ اس وادی سے الٹے رخ چلنے والا تھا۔
آپ تو فرشتہ معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔قزل ساروق نے کہا ۔۔۔ہم تو کسی اور ہی طرف چلنے والے تھے اللہ نے آپ کو ہماری رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔
اللہ مسبب الاسباب ہے۔۔۔ حاجی نے کہا ۔۔۔اللہ نے یہ سعادت بھی میری قسمت میں لکھی تھی کہ مجاہدین کی رہنمائی کروں، مجھے آپ کے کام میں دخل تو نہیں دینا چاہیے لیکن پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اس قدیم قلعے میں کیوں جا رہے ہیں؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام سنا ہے؟ ۔۔۔۔قزل ساروق نے پوچھا۔
اس ابلیس کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا ۔۔۔۔حاجی نے کہا ۔۔۔میں بغداد پہنچا تو وہاں سے یہاں تک اسی کا نام سنتا رہا ہوں، افسوس یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اسے نبی اور اللہ کا ایلچی مان رہے ہیں، یہاں سے دور پیچھے مجھے پتہ چلا کہ وہ اسی قدیم قلعے میں ہے اور اس کے ساتھ بڑے خونخوار قسم کے جاں باز ہیں،،،،،، اگر آپ اس ابلیس کو ختم کر دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو حج اکبر کا ثواب ملے گا۔
ہماری کامیابی کی دعا کریں ۔۔۔سالار قزل ساروق نے عقیدت مندی کے لہجے میں کہا۔ انہیں مکہ کی ایک ایک کھجور کھلا دیں۔۔۔ حاجی کی بیوی بولی ۔۔۔اور زم زم کے پانی کا ایک ایک گھونٹ پلا دیں ۔
اس شخص نے ٹٹو کی پیٹھ پر لدے ہوئے سامان میں سے چھوٹا سا ایک تھیلا نکالا اس میں سے کچھ کھجوریں نکالیں، ایک ایک کھجوروں سالار قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں کو دی۔
ان کی گھٹلیاں نکلی ہوئی ہیں۔۔۔ حاجی نے کہا ۔۔۔وہاں ایسی ہی ملتی ہیں ۔
بڑی خاص قسم کی کھجوریں ہیں، اگر آپ کے لشکر کے پاس بہت بڑا ڈول یا مٹکا ہو تو وہ پانی سے بھر لیا جائے تو میں اس میں زمزم کا پانی ملا دوں گا ،پورے لشکر کو دو دو گھونٹ پلائیں۔
یہ ایک ہزار کا لشکر تھا جس کے کھانے پینے کا انتظام اور برتن وغیرہ ساتھ تھے، پانی سے بھرے ہوئے بڑے مشکیزے اونٹوں پر لدے ہوئے تھے ،اس کے حکم سے دو تین مشکیزے لائے گئے، حاجی نے خشک چمڑے کی بنی ہوئی ایک صراحی نکالی جس کا منہ بڑی مضبوطی سے بند تھا ،حاجی نے یہ صراحی تینوں مشکیزوں میں خالی کر دی اور کہا کہ کوچ سے پہلے ہر آدمی یہ پانی پی لے۔
پھر آپ دیکھنا سالار محترم !،،،،،حاجی نے کہا۔۔۔ آپ کو راستے کی دشواریوں کا احساس تک نہیں ہوگا ،اور آپ اور آپ کا ہر سوار یہ محسوس کرے گا کہ وہ اڑ کر اس قلعے تک پہنچ گیا ہے، قزل ساروق اور اس کے ماتحتوں نے ایک ایک کھجور کھا لیں پھر انہوں نے مشکیزہ سارے لشکر میں اس حکم کے ساتھ گھمائے کہ ہر سوار پانی پیے، لشکر کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آب زمزم ہے۔
حاجی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رخصت ہوگیا ،سالار قزل ساروق نے صرف اس خیال سے اپنے آپ میں ایک توانائی محسوس کی کہ اس نے مکے کی کھجور کھائی ہے اور آب زم زم پیا ہے، لشکر کے ہر سوار نے عقیدت مندی سے آب زم زم پیا ،اور پھر لشکر اس راستے پر چل پڑا جو حاجی نے بتایا تھا ۔
حاجی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*