🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اکیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داستان گو نے کہا ہے کہ حسن بن صباح جہاز سے حلب اترا اور وہاں سے بغداد اور بغداد سے اصفہان پہنچا۔
کوئی غلط فہمی نہ رہے اس لئے داستان گو داستان کو ذرا پیچھے لے جاتا ہے ،پہلی بات یہ ہے کہ حلب بندرگاہ نہیں بندرگاہ انطاکیہ تھی جہاں جہاز لنگر انداز ہوا اور حسن بن صباح وہاں اترا تھا، حلب وہاں سے ساٹھ میل دور ہے، حلب سے وہ بغداد گیا یہ چار سو میل کی مسافت ہے ،بغداد سے وہ اصفہان گیا یہ فاصلہ بھی چار سو میل ہے ،اس طرح حسن بن صباح انطاکیہ سے اصفہان تک آٹھ سو میل سفر کیا۔
گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر عام رفتار سے چلنے سے یہ ایک مہینے کا سفر تھا، تیز رفتار سے جلدی بھی طے ہوسکتا تھا، لیکن حسن بن صباح اپنی منزل اصفہان تک چھ ماہ بعد پہنچا تھا۔
اسے اصفہان تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، اسے جلدی صرف یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے زیر اثر لے لے، اور ان کی عقل پر اس طرح قابض ہو جائے کہ بلا سوچے سمجھے وہ اس کے اشاروں پر ناچیں، آگے چل کر حالات بتائیں گے کہ حسن بن صباح کی ذہن میں اشاروں پر ناچنا مشہور عام محاورہ ہی نہیں تھا وہ اپنے پیروکاروں کو دیوانگی یا پاگل پن کے اس مقام پر لے جانا چاہتا تھا جہاں وہ کسی سے کہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو تو وہ اپنا خنجر اپنی ہی دل میں اتار لے ،حسن بن صباح اپنے پیروکاروں کو جو فدائین کہلاتے تھے اس مقام پر لے آیا تھا اور اس نے یہ مظاہرے کرکے بھی دکھا دیئے اور اپنے دشمنوں کو حیرت میں ہی نہیں بلکہ خوف میں مبتلا کر دیا تھا ،حسن بن صباح کی سوانح حیات افسانے سے زیادہ دلچسپ اور طلسم ہوشربا سے زیادہ حسین اور پراسرار ہے۔
کوئی بھی انسان صرف اس صورت میں سنسنی خیز پراسرار اور چونکا دینے والی داستان کا ہیرو بنتا ہے جب بنی نوع انسان کی محبت میں وہ دیوانہ ہو جاتا ہے، یا وہ انسان ہیرو بنتا ہے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کا شائبہ تک نہ رہے اور اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہو اور وہ آسمان میں اور زمین پر سورج چاند اور ستاروں میں صرف اپنی ذات کو دیکھ رہا ہو اور ساری کائنات کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہو۔
ابتدا میں بیان ہو چکا ہے کہ ایسا انسان عورت ہو یا مرد خیر سگالی اور پیار و محبت کے جذبات سے عاری ہوتا ہے، اس کا دل ابلیس کا آشیانہ ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے شکار کے لئے پیار و محبت کا جال پھیلاتا ،خیر و برکت اور جذبہ ایثار کی ایسی اداکاری کرتا ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے، یہ ھے ابلیس کا حسن اور شر کی سحر انگیزی، اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے۔
*فَذَرہُم یَخُوضُوا وَ یَلعَبُوا حَتّٰی یُلٰقُوا یَومَہُمُ الَّذِی یُوعَدُونَ ﴿ۙ۴۲)*
"تو انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے یہاں تک کہ اپنے اس (عذاب کے) دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے،"
سورہ المعارج۔آیت 42
حسن بن صباح اس دن سے پہلے پہلے جس دن کا اللہ نے وعدہ کیا ہے اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش میں تھا ،وہ جانتا تھا یہ حساب کا اور عذاب کا دن ہوگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح کو جس طرح مصر سے عبیدیوں نے نکالا اور جس طرح بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آ کر نکلا ،اور جس طرح جہاز کے کپتان نے حسن بن صباح کو انعام کے طور پر شام کے ساحل پر اتارا وہ پچھلے باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے ،وہاں سے تاریخ کی یہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان یوں آگے چلتی ہے کہ انطاکیہ کی بندرگاہ میں اترنے والا اکیلا حسن بن صباح نہیں تھا ،اس کے ساتھ دو اس کے اپنے ساتھی تھے جو اس کے رازدار ہمدرد اور بہی خواہ تھے، اور سات آٹھ آدمی جن میں ایک جوان عورت بھی تھی حسن بن صباح کے ساتھ انطاکیہ اتر گئے تھے، ان سات آٹھ آدمیوں نے اس بندرگاہ پر اترنا تھا جو جہاز کی منزل تھی اور وہاں سے ملک شام جانا تھا، ان کی خوش قسمتی کہ حسن بن صباح نے جہاز کا رخ شام کی طرف کروا لیا اور وہ پیدل سفر سے بچ گئے۔
ان کے ساتھ جو عورت تھی وہ اپنا چہرہ نقاب میں رکھتی تھی، اس کی صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں ہوتا تھا اس کی پیشانی سفیدی مائل گلابی تھی جس پر ریشم کی باریک تاروں جیسے چند ایک بے ترتیب بال بہت ہی بھلے لگتے تھے، اس کی آنکھیں صحرائی غزل جیسی تھیں، جس میں خمار کا تاثر تھا، جو ان آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کو مسحور کرلیتاتھا، اس کے کھڑے قد میں اور چال ڈھال میں جاذبیت تھی اور ایسا تاثر کہ یہ کوئی عام عورت نہیں اور اس کا تعلق کسی قبیلے کے سردار خاندان سے یا کسی بڑے ہی امیر کبیر تاجر خاندان سے ہے۔
یہ سب آدمی مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر رہے تھے، انہوں نے اتنے زیادہ طوفان میں حسن بن صباح کو پرسکون بیٹھے اور مسکراتے دیکھا تھا اور وہ اسے پاگل سمجھتے تھے جسے یہ احساس تھا ہی نہیں کہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا، پھر انہوں نے حسن بن صباح کی یہ پیشن گوئی سنی تھی کہ جہاز اس طوفان سے بخیر و خوبی گزر جائے گا۔
جہاز بپھرے ہوئے سمندر کی پہاڑوں جیسی طوفانی موجوں پر اوپر کو اٹھتا گرتا ڈولتا طوفان سے نکل گیا ،حسن بن صباح کے دونوں آدمیوں نے تمام مسافروں کو بتا دیا کہ جہاز کو اس برگزیدہ درویش نے طوفان سے نکالا ہے ،مسافروں نے حسن بن صباح کے ہاتھ چومے اور اس کے آگے رکوع میں جاکر تعظیم و تکریم پیش کی۔
یہ سات آٹھ آدمی جو حسن بن صباح کے گرویدہ ہو گئے تھے سب سے زیادہ فائدہ تو انہیں پہنچا تھا یہ لوگ پیدل سفر سے بچ گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انطاکیہ میں انہیں رکنا پڑا ،یہ سرائے میں چلے گئے، حسن بن صباح اور اس کے دونوں ساتھیو نے الگ کمرہ لے لیا ،اور باقی آدمی ایک بڑے کمرے میں چلے گئے ،اس عورت اور اس کے خاوند کا کمرہ الگ تھا ،حسن بن صباح اور اس کے ساتھی نہا چکے تھے اور اب انھوں نے سرائے کے لنگر سے کھانا لینے جانا تھا، دروازے پر دستک ہوئی ایک آدمی نے دروازہ کھولا، سرائے کا مالک آیا تھا۔
کیا میں خوش نصیب نہیں کہ آپ نے مجھے میزبانی کی سعادت عطا کی ہے۔۔۔۔ سرائے کے مالک نے کہا۔۔۔ میں سرائے کا مالک ابو مختار ثقفی ہوں، ابھی ابھی آپ کے ہمسفروں نے مجھے اپنے بحری سفر کی داستان سنائی ہے، خدا کی قسم جہاز میں آپ نہ ہوتے تو یہ لوگ مجھے اس طوفان کی کہانی سنانے یہاں نہ آتے۔
آؤ ثقفی !،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔بیٹھ کر بات کرو ،یہ تو بتاؤ ایک ثقفی اپنے وطن سے اتنی دور کیوں چلا آیا ہے؟
سنا ہے میرے آباء و اجداد حجاج بن یوسف سے عداوت مول لے بیٹھے تھے۔۔۔ ابو مختار نے جواب دیا۔۔۔ ان میں سے کچھ قتل کردئے گئے، کچھ بھاگ کر وطن سے دور چلے گئے، اور میرا کوئی بزرگ ادھر آ نکلا ،یہ سراۓ اس نے تعمیر کی تھی جو ورثے میں مجھ تک پہنچی ہے ۔
کیا اس سرائے میں صرف مسلمان ٹھہرا کرتے ہیں؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
نہیں پیرومرشد !،،،،،ابو مختار نے جواب دیا۔۔۔ اس سرائے کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں، یہ سرائے دنیا کی مانند ہے، یہاں ہر مذہب ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آتے ہیں کچھ دن گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، دنیا کی طرح اس سرائے میں بھی آمدورفت لگی رہتی ہے، آپ جیسا ولی اللہ اور غیب کا بھید جاننے والا مدتوں بعد آتا ہے ،،،،،،کیا مطلب کی بات نہ کہہ دوں؟ اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
آج رات کا کھانا میری طرف سے قبول فرمائیں۔۔۔ ابو مختار نے کہا ۔۔۔اور میں نے آپ کے لئے الگ کمرہ تیار کیا ہے، آپ اس کمرے میں آجائیں۔
کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کمرے میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا ،کھانا بہت ہی پر تکلف تھا، تین چار اور اجنبی بھی مدعو تھے، یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جسے رنگا رنگ ریشمی پردوں اور فانوسوں سے سجایا گیا تھا، آدھے سے زیادہ کمرہ خالی تھا ،دیوار سے دیوار تک دلکش رنگوں والا قالین بچھا ہوا تھا ،دسترخوان کمرے کے وسط میں نہیں بلکہ ایک طرف چوڑائی والی دیوار کے ساتھ بچھایا گیا تھا، دیوار کے ساتھ گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے، پیچھے دیوار کے ساتھ ایک قالین لٹک رہا تھا ،جس پر ہرے بھرے جنگل کا منظر بنا ہوا تھا اور اس میں ایک شفاف ندی بہتی دکھائی گئی تھی، مختصر یہ کہ یہ شاہانہ انتظام اور یہ عالیشان ضیافت ایک اعزاز تھا جو حسن بن صباح کو دیا گیا تھا۔
میں آپکے مزاج سے واقف نہیں۔۔۔ سرائے کے مالک نے حسن بن صباح سے کہا۔۔۔ آپ کے ذوق کا بھی مجھے کچھ پتہ نہیں، گستاخی ہی نہ کر بیٹھوں، کیا آپ رقص گانا یا صرف سازوں کی موسیقی پسند کریں گے؟
تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ بات پوچھی ہے؟ ۔۔۔۔حسن بن صباح نے پوچھا ۔
ایک برگزیدہ ہستی ۔۔۔سرائے کے مالک نے جواب دیا۔۔۔ اللہ کے جتنا قریب آپ ہیں وہ ہم جیسے گنہگار تصور میں بھی نہیں لا سکتے۔
اللہ نے کسی بندے پر کوئی نعمت حرام نہیں کی ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ رقاصہ کے فن سے لطف اندوز ہونا گناہ نہیں، اس کے جسم کو اپنے قبضے میں لے کر اس سے لطف اور لذت حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
کیا اسلام نیم برہنہ رقاصہ کا رقص دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ؟،،،،،سرائے کے مالک نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔اسلام جہاد میں ہر مسلمان سے جان کی قربانی مانگتاہے اور مسلمان نعرے لگاتے ہوئے جانوں کی قربانی دیتے ہیں، اس لئے اسلام ہر مسلمان کو دنیا کی ہر نعمت اور ہر تفریح سے لطف اٹھانے کی اجازت دیتا ہے۔
ہم نے آج تک جو سنا ہے،،،،،،،، ؟
وہ اسلام کے دشمنوں نے مشہور کیا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے اپنے میزبانوں کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ یہودیوں اور نصرانیوں نے دیکھا کہ اسلام تھوڑے سے عرصے میں آدھی دنیا میں مقبول ہوگیا ہے تو انہوں نے امام اور خطیب بن کر یہ بے بنیاد بات پھیلا دی کہ اسلام صرف قربانیاں مانگتا ہے اور دیتا کچھ بھی نہیں، اور اسلام میں سوائے پابندیوں کے اور کچھ بھی نہیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ حسن بن صباح اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہلاتا تھا، وہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر مشتعل کر کے انہیں اسلام کے خلاف استعمال کرتا تھا، یہ ضرورت اسے اس لیے پیش آئی تھی کہ اس نے اپنی سرگرمیوں اور اپنے عزائم کے لئے جو علاقہ منتخب کیا تھا وہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا علاقہ تھا۔
سرائے کے مالک نے حسن بن صباح کی یہ باتیں سنیں تو اس نے کھانے پر حاضری دینے والے ایک ملازم کی طرف اشارہ کیا ،ملازم بڑی تیزی سے باہر چلا گیا، فوراً ہی وہ واپس آگیا ،اس کے پیچھے چار پانچ سازندے ساز اٹھائے کمرے میں آئے اور قالین پر بیٹھ گئے،
سازوں کی آواز ابھری تو نیم برہنہ رقاصہ یوں کمرے میں داخل ہوئی جیسے جل پری شفاف ندی میں تیرتی آ رہی ہو، سازوں کی دھیمی دھیمی آواز سحر جگا رہی تھی، اور نوجوان رقاصہ کا مرمریں جسم ناگن کی طرح بل کھا رہا تھا ،اس کے بازو رقص کی اداؤں میں یوں اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہو رہے تھے جیسے فردوس بریں کے ایک بڑے ہیں حسین پودے کی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل رہی ہوں، فانوسوں کی رنگا رنگ روشنیوں کا اپنا ہی ایک حسن تھا۔
دسترخوان پر بیٹھے ہوئے مہمان کھانا بھول گئے، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس نوجوان رقاصہ نے سب کو ہپنا ٹائز کر لیا ہو، لیکن حسن بن صباح اس لڑکی کو کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں کسی جوہری کے اس وقت کا تاثر تھا جب وہ ہیرا یا کوئی قیمتی پتھر پَرکھ رہا ہوتا ہے۔
اس ضیافت، اس رقاصہ پھر ایک مغنیہ اور سازندوں نے اس رات کو الف لیلہ کی ایک ہزار راتوں جیسی ایک رات بنا دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آدھی رات گذر گئی تھی جب حسن بن صباح ضیافت سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں داخل ہوا ،سرائے کا مالک بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلا گیا، حسن بن صباح پلنگ پر بیٹھ گیا ۔
پیرومرشد!،،،،،، سرائے کے مالک نے نماز کی طرح اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر باندھ کر کہا ۔۔۔کیا میں آپ کی خدمت میں کوتاہی تو نہیں کر رہا؟
یہ میرا مطالبہ نہیں تھا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مجھے تم بورئیے پر بٹھا کر اور روٹی پر دال رکھ کر دے دیتے تو بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس کے ایک بندے نے مجھ پر اتنا بڑا کرم کیا ہے، اب یہ بتا دو کہ تمہارے دل میں کوئی خاص مراد ہے یا تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو؟
اے طوفانوں کا منہ پھیر دینے والے امام!،،،،،، سرائے کے مالک نے کہا ۔۔۔پہلے اس شہر میں صرف میری سرائے تھی اور تمام مسافر میری سرائے میں آتے تھے، تھوڑے عرصے سے دو یہودیوں نے ایک سرائے کھولی ہے، وہ مسافروں کو شراب بھی پیش کرتے ہیں لڑکیاں بھی، اس سے میری آمدنی بہت کم ہو گئی ہے، آپ کو اللہ نے ایسی طاقت عطا کی ہے،،،،،،
ان کا بیڑہ غرق کرنا ہے،،،، یا اپنا بیڑا پار لگانا ہے؟،،،، حسن بن صباح نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا ۔
یہ فیصلہ آپ ہی کر سکتے ہیں حضور!،،،،، سرائے کے مالک نے کہا۔۔۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میری آمدنی پہلے جتنی ہو جائے۔
ہوجائے گی ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔کل ایک کالا بکرا ذبح کرو ،خواہ چھوٹا سا ہی ہو، اس کے دونوں شانوں کی ہڈیاں میرے پاس لے آنا ،اور مجھے یہ بتاؤ کہ یہ رقاصہ کس کی ملکیت ہے۔
ایک بوڑھی رقاصہ کی بیٹی ہے یا ولی!،،،،، سرائے کے مالک نے جواب دیا ۔۔۔زیادہ تر میں ہی اسے اپنی سرائے میں خاص مہمانوں کے لیے بلایا کرتا ہوں ،کیا حضور کے دل کو یہ اچھی لگی ہے؟
ہاں !،،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔لیکن اس مقصد کے لیے نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، اگر تم اس کی ماں کو بلاؤ تو میں اسے اس لڑکی کے متعلق کچھ بتانا بہت ضروری سمجھتا ہوں، وہ اس لڑکی کو صرف جسم سمجھتی ہو گی لیکن یہ کمسن لڑکی جسم سے کہیں زیادہ کچھ اور ہے۔
سرائے کے مالک نے ایک ملازم کو بلا کر کہا کہ رقاصہ اور اس کی ماں کو یہاں لے آئے، وہ دونوں ابھی گئی نہیں تھیں، اطلاع ملتے ہی آ گئیں، سرائے کا مالک انہیں پہلے ہی حسن بن صباح کے متعلق بتا چکا تھا کہ یہ کوئی امام یا ولی ہیں اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی روحانی طاقت ہے جو طوفانوں کو روک دیتی ہے، رقاصہ اور اس کی ماں نے بے تابی سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حسن بن صباح سے ملنا چاہتی ہیں، وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہی تھیں کہ امام نے خود ہی انہیں بلا لیا تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو حسن بن صباح نے دیکھا کہ رقاصہ ابھی رقص کے لباس میں تھی، یہ کوئی لباس نہیں تھا، کمر سے اس نے ریشم کی رنگا رنگ رسیا لٹکا رکھی تھیں، ان رسیوں نے اس کا کمر سے نیچے کا جسم ڈھانپ رکھا تھا ،لیکن وہ چلتی تھی یا ناچتی تھی تو اس کی ٹانگیں رسیوں سے باہر آ جاتی تھیں، اس کے سینے کا کل لباس ایک بالشت تھا، ان کے شانوں اور پیٹ کو اس کے نرم و ملائم بالوں نے ڈھانپ رکھا تھا جو اس نے کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔
مستور ہو کر آ لڑکی!،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں تیرے جسم کا طلبگار نہیں، میں تیری روح کو برہنہ کر کے دیکھوں گا اور تجھے بھی دکھاؤں گا، تو اپنی روح سے ناآشنا ہے۔۔۔ اس نے رقاصہ کی ماں سے کہا۔۔۔ جا اسے ایسے کپڑے پہنا کے لا کہ اس کے صرف ہاتھ نظر آئیں، اور کچھ چہرہ نظر آئے۔
ماں بیٹی چلی گئیں، سرائے کا مالک وہیں بیٹھا رہا۔
تمہارا کام ہو جائے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے اسے کہا ۔۔۔جب یہ ماں بیٹیاں آ جائیں تو تم چلے جانا ،اور صبح میرے پاس آنا ۔
سرائے کا مالک بھی چلا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رقاصہ اور اس کی ماں آ گئی، رقاصہ نے ویسے ہی لباس پہن رکھا تھا جیسا حسن بن صباح نے اسے کہا تھا، اس لیے اس نے اس کے چہرے کے نقش و نگار میں سحر انگیز نکھار پیدا کر دیا تھا، وہ نوجوان تھی لیکن اب وہ کمسن لگتی تھی ،،،،،،معصوم سی لڑکی۔
کیا تجھے یہ اس لباس میں اچھی نہیں لگتی؟،،،،، حسن بن صباح نے رقاصہ کی ماں سے پوچھا۔
ہاں مرشد!،،،،، ماں نے جواب دیا۔۔۔ یہ مجھے اسی لباس میں اچھی لگتی ہے۔
اس لیے یہ اچھی لگتی ہے کہ ایک پاک روح ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ نا پاک جسم نہیں، اس کی قیمت پہچان۔
میرے مرشد !،،،،رقاصہ کی ماں نے کہا ...میں بھٹکی ہوئی ایک بے آسرا عورت کیا جانوں ہم ماں بیٹی کا کل کیسا ہوگا ،ہم نے آپ کی کرامات سنی تو سرائے کے مالک سے التجا کی کہ مجھے آپ کے حضور پیش کر دے، اور میں آپ سے پوچھوں کہ بیٹی کو اسی پیشے میں رکھوں یا کوئی اور راستہ دیکھوں، مجھے آنے والے وقت کی کچھ خبر دیں۔
حسن بن صباح نے سحر اور علم نجوم میں دسترس حاصل کر لی تھی، اس نے نوجوان رقاصہ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پھیلایا اور اس کی آڑی ترچھی لکیریں پڑھنے لگا ۔
رقاصہ نے اس انتظار میں حسن بن صباح کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں تھیں کہ خدا کا یہ برگزیدہ انسان جو بحری جہاز کو ایک خوفناک طوفان کے جبڑوں سے صحیح سلامت نکال لایا تھا وہ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر کیا پیشن گوئی کرتا ہے۔
حسن بن صباح کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلیاں نظر آرہی تھیں، ایک بار تو اس نے اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے رقاصہ کی ہتھیلی کی کوئی لکیر سانپ بن گئی ہو، رقاصہ اور اس کی ماں بھی چونک پڑیں۔
کیا دیکھا ہے میرے مرشد؟،،،،، ماں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
پردے اٹھ رہے ہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے اس عورت کی طرف دیکھے بغیر زیر لب کہا۔
پھر اس نے رقاصہ کا ہاتھ چھوڑ دیا ،اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر ذرا اوپر اٹھایا۔
آنکھیں پوری کھلی رکھو۔۔۔ اس نے رقاصہ سے کہا ۔
اس کی آنکھوں نے رقاصہ کی آنکھوں کو جکڑ لیا، حسن بن صباح نے دونوں انگوٹھوں سے رقاصہ کہ کنپٹیاں آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں، وہ زیر لب کچھ کہہ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد رقاصہ نے دھیمی سی آواز میں کہا ،،،،میں نے سیاہ پردے کے پیچھے دیکھ لیا ہے،،،،،، میں جاؤں گی،،،،، یہ جسم نہ گیا تو میں اس سے آزاد ہو کر وہاں پہنچ جاؤں گی۔
یہ جسم تمہارے ساتھ جائے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔
یہ جسم میرے ساتھ جائے گا۔۔۔ رقاصہ نے کہا ۔
کیا کرو گی اس جسم کا ؟،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔
یہ جسم ناچے گا نہیں ۔۔۔رقاصہ نے کہا۔۔۔ یہ دوسروں کو ناچائے گا ۔
تمہیں ایک قلعہ نظر آرھا ھے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
رقاصہ خاموش رہی، حسن بن صباح نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے چھ سات مرتبہ کہا۔۔۔ تمہیں ایک قلعہ نظر آرہا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہاں!،،،،،، رقاصہ نے کہا۔۔۔۔مجھے ایک قلعہ نظر آ رہا ہے ۔
اس قلعے میں تم اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو؟،،،،، حسن بن صباح نے خواب ناک سی آواز میں کہا۔۔۔ اور یہ الفاظ چند مرتبہ دہرائے۔
دیکھو ماں!،،،،،، رقاصہ نے بچوں کی طرح مچلتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوں۔
اپنے آپ کو کس حال میں دیکھ رہی ہو؟
چار لڑکیاں ہیں۔۔۔ رقاصہ نے کہا۔۔۔ شہزادیاں لگتی ہیں، میں انہیں جیسے لباس میں ہوں، اور ہم سب ایک خوشنما باغ میں اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں۔
حسن بن صباح نے رقاصہ کا چہرہ چھوڑ دیا اور کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ رقاصہ نے اپنی آنکھیں تیزی سے جھپکیں اور سرجھکا لیا ،اس نے جب سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا ،وہ آنکھیں پھاڑے کبھی حسن بن صباح کو اور کبھی اپنی ماں کو دیکھتی تھی، حسن بن صباح مسکرا رہا تھا۔
میں کہاں چلی گئی تھی؟،،،،، رقاصہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔ میں ایک تاریکی میں سے گزری تھی اور آگے کوئی اور ہی دنیا آ گئی تھی۔
تمہاری اصل جگہ اس دنیا میں ہے جو تم نے دیکھی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اب تم جہاں ہو یہ ایک فریب اور حسین دھوکا ہے، یہاں تمہارا انجام بہت برا ہوگا ،میرے خدا نے تمہاری قسمت میں بہت اونچا مقام لکھا ہے، میں نے تمہیں وہ مقام دکھا دیا ہے، ماں کو بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے ؟
رقاصہ نے اپنی ماں کو بتایا۔
لیکن پیرومرشد !،،،،،رقاصہ کی ماں نے پوچھا۔۔۔ ہم اس مقام تک پہنچ کس طرح سکتے ہیں ،کیا آپ ہماری رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں؟
کرسکتاہوں !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن کرونگا نہیں،،،،، ،میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں، انسان کی فطرت ایسی ہے کہ میں تو انسان ہوں، انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتا، میں نے دو تین آدمیوں کو اسی طرح ان کے اصل مقام دکھائے اور انہیں وہاں تک پہنچا بھی دیا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے میرے خلاف باتیں شروع کردیں، اب تو میں کسی کو اس کے متعلق کچھ بتاتا نہیں، تم عورت ہو اور مجبوریوں نے یا درہم و دینار کے لالچ نے تمہیں غلط اور خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے، پھر مجھے تمہاری بیٹی کا خیال آتا ہے، میں نے اسکا اصل روپ دیکھ لیا ہے، تم نے اس پر بہروپ چڑھا دیا ہے، میں اسے اس مقام تک پہنچانا چاہتا ہوں، تم اس کے ساتھ رہو گی اور تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی تعظیم اور تکریم ملے گی ۔
پھر ہم پر کرم کیوں نہیں کرتے یا مرشد!،،،، ماں نے التجا کی۔
صرف ایک صورت میں کرم ہو سکتا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اپنی سوچیں میرے حوالے کر دو ،اپنے آپ کو بھی میرے حوالے کردو۔
کر دیا مرشد!،،،،، ماں نے کہا ۔۔۔آپ جو حکم دیں گے ہم ماں بیٹی مانیں گے۔
پھر سن لو !،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔میں جب یہاں سے جاؤں گا تو تم دونوں میرے ساتھ چلو گی ۔
چلیں گی یا مرشد !،،،،،رقاصہ کی ماں نے کہا۔
آج کا رقص تمہارا آخری رقص تھا ۔۔۔حسن بن صباح نے نوجوان رقاصہ سے کہا۔۔۔۔ اب تمہاری نئی اور حقیقی زندگی شروع ہوگئی ہے، جاؤ اور سو جاؤ ،صبح سے بیمار پڑ جانا، سر کپڑے سے باندھ لینا ،اس سرائے والا یا دوسرے سرائے کے یہودی تمہیں رقص کے لیے بلانے آئیں، تو ہائے ہائے شروع کر دینا، جیسے تم اس بیماری سے مری جا رہی ہو، میری کہنا کہ انہیں بلاؤ میرا علاج کریں، میں آکر کوئی بیماری بتا کر سب کو ڈرا دوں گا کہ اس لڑکی کے قریب کوئی نہ آئے ورنہ اسے بھی یہ بیماری لگ جائے گی۔
ماں بیٹی چلی گئیں انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ اس شخص نے انہیں ایک عمل سے مسحور کر لیا تھا، یہ تھا عمل تنویم جسے مغربی دنیا نے اپنی زبان میں ھیپناٹائزم کا نام دیا ہے، حسن بن صباح نے رقاصہ کو اپنے کام کی چیز سمجھ کر اسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا اور رقاصہ کو وہی کچھ نظر آتا رہا جو حسن بن صباح اسے دکھانا چاہتا تھا۔
عمل تنویم کا تو اپنا اثر تھا ،حسن بن صباح کے بولنے کے انداز کا اپنا ایک اثر تھا جو سننے والے کو مسحور کرلیتاتھا ،یورپی تاریخ نویسوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے آپ میں ایسے اوصاف پیدا کر لیے تھے جو دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے، یہ تھے ابلیسی اوصاف۔
رقاصہ اور اس کی ماں کے جانے کے بعد حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے کمرے میں آئے۔
میں نے اپنی ترکش میں ایک اور تیل ڈال لیا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے فاتحانہ انداز سے اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔ یہ رقاصہ ایسا دانہ ہے کہ عقابوں اور شہبازوں کو بھی جال میں لے آئے گا۔
ہمارے ساتھ جا رہی ہے؟،،،، اس کے ایک ساتھی نے پوچھا ۔
دونوں ہمارے ساتھ جا رہی ہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
انہیں کسی طرح چھپا کر ساتھ لے جانا پڑے گا ۔
یہ انتظام ہو جائے گا۔۔۔ دوسرے نے کہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن حسن بن صباح کے کمرے کے باہر اسے ملنے والوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا تھا، لیکن کسی کو کمرے میں جانے نہیں دیا جا رہا تھا ،لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ امام عبادت میں مصروف ہیں۔
کچھ دیر بعد ایک آدمی اور ایک عورت کو اندر جانے کی اجازت دی گئی، یہ میاں بیوی تھے اور یہ اسکندریہ سے انطاکیہ تک حسن بن صباح کے ہمسفر تھے، یہ وہی عورت تھی جس کا پہلے ذکر آیا ہے کہ چہرہ نقاب میں رکھتی تھی، صرف پیشانی اور آنکھوں پر نقاب نہیں تھا ،پیشانی اور آنکھوں سے پتہ چلتا تھا کہ عورت حسین ہے، اس کے کھڑے قد میں کشش تھی، اس کی چال ڈھال میں ایسا جلال سا تھا جس سے لگتا تھا جیسے یہ کسی سردار خاندان کی خاتون ہو ،بہرحال وہ کوئی معمولی عورت نہیں لگتی تھی۔
کمرے میں جا کر اس عورت کے خاوند نے حسن بن صباح کے آگے رکوع میں جاکر مصافحہ کیا ،وہ پیچھے ہٹا تو عورت نے آگے بڑھ کر حسن بن صباح کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پہلے آنکھوں سے ہونٹوں سے لگایا پھر اس کا ہاتھ احترام سے اس کی گود میں رکھ دیا ۔
بیٹھ جاؤ میرے ہمسفرو !،،،،،،حسن بن صباح نے کہا اور خاوند سے پوچھا۔۔۔ تم لوگ کہاں گئے تھے اور کس منزل کے مسافر ہو؟
ہماری منزل رے ہے۔۔۔ خاوند نے جواب دیا۔۔۔ میں اصلاً اصفہانی ہوں،،،، حافظ اصفہانی میرا نام ہے،،،،،،، رزق کے پیچھے بہت سفر کیا ہے، اور اللہ نے جھولی بھر کے رزق دیا ہے،،،،، دوسری تلاش علم کی ہے ،علم کے حصول کے لیے بہت سفر کیا ہے، سنا تھا مصر میں دو عالم ہے جن کے پاس علم کا سمندر ہے ،میں اپنی اس بیوی کو ساتھ لے کر مصر گیا تھا، ان علماء سے ملا لیکن انہوں نے علم کو اپنے ہی ایک نظریے میں محدود کر دیا ہے۔
وہ عبیدی ہیں ۔۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور ظاہر کرتے ہیں کہ اسماعیلی ہیں، تم کس فرقے اور کس عقیدے کے آدمی ہو؟
یاولی!،،،،،، حافظ اصفہانی نے کہا ۔۔۔میں ایک اللہ کو مانتا ہوں جو وحدہٗ لاشریک ہے، اس کے آخری کلام کو مانتا ہوں جو قرآن ہے، اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہوں جن کے ذریعہ اللہ کا کلام ہم تک پہنچا، اس سے زیادہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میں کون سے فرقے سے تعلق رکھتا ہوں۔
اور اب رے کیوں جا رہے ہو ؟
ابومسلم رازی سےملونگا ۔۔۔حافظ اصفہانی نے جواب دیا ۔۔۔وہ وہاں امیر ہے اللہ کو ماننے والا حاکم ہے۔
اس سے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟
میں نے اسے کچھ بتانا ہے۔۔۔ حافظ اصفہانی نے جواب دیا ۔۔۔میں خلجان گیا تھا، وہاں ایک بڑا ہی خطرناک فرقہ سر اٹھا رہا ہے، ایک شخص احمد بن عطاش نے خلجان پر قبضہ کر لیا ہے، سنا ہے وہ شعبدہ بازی اور سحر کا ماہر ہے، سنا تھا کہ قلعہ شاہ در اور خلجان کے درمیانی علاقے میں ایک پہاڑی پر اللہ کا ایلچی اترا تھا، اور اس علاقے کے لوگوں نے اسے دیکھتے ہی اللہ کا ایلچی مان لیا ہے، اس ایلچی کا نام حسن بن صباح ہے، وہ آپ کا ہم نام ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ آپ کے نام کی توہین ہے، آپ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں، میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو ولی کہوں یا امام کہوں؟
تم نے اس کا نام غلط سنا ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اس کا نام احسن ابن سبا ہے، لوگوں نے اسے حسن بن صباح بنا دیا ہے۔
یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔۔۔ حافظ اصفہانی نے کہا ۔۔۔اس کا صحیح نام سن کر مجھے روحانی اطمینان ہو گیا ہے، آپ کے نام کی بے ادبی نہیں ہو رہی، سنا ہے اس احسن ابن سبا کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں ایسا جادو ہے کہ پتھروں کو بھی موم کر لیتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے اور احمد بن عطاش نے لوگوں کی ایک فوج تیار کرلی ہے، یہ باقاعدہ فوج نہیں، لوگ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں، انہیں تیغ زنی، تیراندازی ،برچھی بازی ،اور گھوڑ سواری کی تربیت دی جاتی ہے۔
کیا تم ان لوگوں کے متعلق ابومسلم رازی کو بتاؤ گے؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
ہاں یا ولی!،،،،، حافظ اصفہانی نے جواب دیا۔۔۔ میں تو سلطان ملک شاہ تک بھی پہنچوں گا، اور اسے اکساؤں گا کہ وہ اس باطل فرقے کو طاقت سے ختم کرے، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑی مدت سے یہ لوگ قافلوں کو لوٹ رہے ہیں، وہ زروجواہرات لوٹتے ہیں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، آٹھ دس سال عمر کی بچیوں کو بھی لے جاتے ہیں، انہیں اپنے مذموم مقاصد اورعزائم کے مطابق تربیت دیتے ہیں، زروجواہرات کا استعمال بھی یہی ہوتا ہے۔
میں جانتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔وہ بہت خطرناک لوگ ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حافظ اصفہانی کو معلوم نہ تھا کہ اس نے جس حسن بن صباح کی بات سنی ہے وہ یہی شخص ہے جسے وہ ولی اور امام کہہ رہا ہے، اور احمد بن عطاش اس کا استاد ہے، حسن بن صباح حافظ اصفہانی سے یہ باتیں سن کر ذرا سا بھی نہ چونکا، نہ اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار کیا ،بلکہ حافظ اصفہانی کی باتوں کی تائید کرتا اور احمد بن عطاش پر لعنت بھیجتا رہا ۔
اب ایک عرض سن لیں یا ولی!،،،،، حافظ اصفہانی نے کہا۔۔۔ اجازت ہو تو کہوں۔
اجازت کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ کہو وہ جو کہنا ہے۔
اولاد سے محروم ہوں۔۔۔ حافظ اصفہانی نے کہا۔۔۔ پہلی بیوی سے بھی اولاد نہیں ہوئی وہ فوت ہو گئی تو کچھ عرصے بعد میں نے اس کے ساتھ شادی کرلی ۔
اس کے ساتھ کب شادی کی ہے؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا ۔
بارہ تیرہ سال ہوگئے ہیں ۔۔۔حافظ اصفہانی نے جواب دیا ۔۔۔۔اس کا پہلا خاوند ایک قافلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔
کیا اس سے اس کا کوئی بچہ تھا؟
ایک بچی تھی۔۔۔ حافظ نے جواب دیا۔۔۔ نو دس سال کی تھی ڈاکو اسے اٹھا کر لے گئے تھے۔
بہت خوبصورت بچی تھی۔۔۔ حافظ کی بیوی نے کہا ۔۔۔مجھے اس سے بہت پیار تھا ،شاید یہ اس کے غم کا اثر ہے کہ میں کوئی بچہ پیدا نہ کر سکی۔
اور مجھے اس بیوی سے اتنا پیار ہے کہ میں صرف اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کروں گا ۔۔۔حافظ اصفہانی نے کہا ۔۔۔آپ کو اللہ نے کرامت عطا کی ہے ۔
چہرے سے نقاب ہٹا دو ۔۔۔حسن بن صباح نے عورت سے کہا۔
عورت نے چہرہ بے نقاب کیا تو حسن بن صباح کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ بدک گیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو گی کہ یہ عورت غیر معمولی طور پر حسین تھی ،اس کی عمر زیادہ تھی لیکن اس کے چہرے پر معصومیت ایسی کے وہ پچیس چھبیس سال کی نوجوان لڑکی لگتی تھی۔
حسن بن صباح کے بدکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے یوں لگا جیسے شمونہ نے اس کے سامنے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہو ،شمونہ وہ لڑکی تھی جسے حسن بن صباح مرو لے گیا تھا، اور اسے اپنی بیوہ بہن بتایا اور نام فاطمہ بتایا تھا ،وہ نظام الملک کی جگہ وزیراعظم بننے کے لیے اس لڑکی کو استعمال کر رہا تھا کہ بھانڈا پھوٹ گیا ،اور اسے اس لڑکی کے ساتھ شہر بدر کر دیا گیا تھا۔
اب اس کے سامنے جو چہرہ بے نقاب ہوا تھا وہ اسی لڑکی کا چہرہ تھا جس کا نام شمونہ تھا۔
تمہارا نام کیا ہے؟،،،،،، حسن بن صباح نے اس سے پوچھا ۔
میمونہ۔۔۔ عورت نے جواب دیا۔
حسن بن صباح عام سے دماغ والا انسان نہیں تھا ،اس نے اپنے دماغ میں ایسی طاقت پیدا کر لی تھی جسے تین مورخوں نے مافوق العقل کہا ہے۔
میمونہ !،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔تمہیں واقعی اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی اس لیے تم نے اس کا نام شمونہ رکھا تھا ،یہ نام تمہارے نام سے ملتا ہے۔
یہ حسن بن صباح کی قیاس آرائیاں قافیہ شناسی تھی، اس عورت کی بیٹی قافلے سے اغوا ہوئی تھی اور اس کی بیٹی کی شکل اس کے ساتھ ملتی تھی، اس لیے حسن بن صباح نے بڑی گہری سوچ میں سے ہوا میں تیر چلایا جو ٹھیک نشانے پر جا لگا۔
یا امام !،،،،،میمونہ نے حیرت زدگی کے عالم میں کہا۔۔۔ میں نے تو آپ کو اپنی بیٹی کا نام نہیں بتایا تھا۔
نہیں میمونہ!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر تمہارے بتانے سے مجھے تمہاری بیٹی کا نام معلوم ہوتا تو پھر میرا کیا کمال ہوا۔
یا امام !،،،،،میمونہ نے کہا۔۔۔میں نے آپ کو امام مان لیا ہے، آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟
حسن بن صباح نے اپنے آپ پر مراقبہ کی کیفیت طاری کر لی، آنکھیں بند کر لیں ہاتھوں سے عجیب طرح کی حرکتیں کرنے لگا پھر ایک بار اس نے تالی بجائی۔
کہاں مر گئے تھے!،،،، اس نے کہا۔۔۔ میرے سوالوں کے جواب دو ،،،،،ہوں،،،، اچھا ،،،،،وہ ہے کہاں؟،،،،،،ٹھیک ہے،،،،، ہاں،،،،،،،، تم جاسکتے ہو ۔
وہ زندہ ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے مراقبے سے بیدار ہو کر میمونہ سے کہا۔۔۔ اور اسے رے میں دیکھا گیا ہے۔
کیا یہ پتہ چل سکتا ہے کہ رے میں وہ کہاں مل سکتی ہے؟،،،، میمونہ نے پوچھا ۔
امیر شہر ابومسلم رازی سے اس کا سراغ مل سکتا ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے جواب دیا۔۔۔ شمونہ کے ساتھ مجھے ابومسلم رازی کا چہرہ بھی نظر آیا ہے۔
کیا حسن بن صباح کو علم غیب سے اشارہ ملا تھا کہ شمونہ زندہ ہے، اور رے میں ہے، کیا اس نے کسی پر اسرار عمل کے ذریعے معلوم کر لیا تھا؟
نہیں ،،،،،،،،،داستان گو پچھلے سلسے میں اصل حقیقت بیان کر چکا ہے، حسن بن صباح نے رے سے مفرور ہوتے وقت حکم دیا تھا کہ شمونہ کو خلجان پہنچا دیا جائے جہاں دوسری لڑکیوں کے سامنے اسے قتل کیا جائے گا، لیکن حسن بن صباح کو فرار ہوکر مصر جانا پڑا، فرار سے پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ شمونہ کہیں بھاگ گئی ہے، پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ شمونہ ابومسلم رازی کے پاس چلی گئی ہے ۔
میمونہ یہ سمجھ رہی تھی کہ حسن بن صباح کو مراقبے میں یہ جنات نے بتایا ہے کہ شمونہ اس وقت کہاں ہے؟
کیا میری بیٹی مجھے مل جائے گی؟،،،، میمونہ نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،حسن بن صباح نے جواب دیا ۔۔۔مل جائے گی۔
یا امام !،،،،،میمونہ نے کہا ۔۔۔اب یہ بتا دیں کہ میرا کوئی اور بچہ ہوگا یا نہیں۔
حسن بن صباح ایک بار پھر مراقبے میں چلا گیا۔
نہیں،،، نہیں،،، کچھ دیر بعد آنکھیں بند کئے ہوئے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کے انداز سے بولا۔۔۔ کچھ کرو ،،،،،کوئی طریقہ ،کوئی ذریعہ بتاؤ، میں انہیں دو بچے دینا چاہتا ہوں۔۔۔ اچھا ،،،،،ہاں ، بتاتا چلو،،،، قبر کی نشانی بتاؤ،،، ٹھیک ہے۔
حسن بن صباح نے خاصی دیر بعد آنکھیں کھولیں۔
ایک بچے کی امید بندھ گئی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے میمونہ کے خاوند سے کہا ۔۔۔لیکن میرے جنات نے جو طریقہ بتایا ہے وہ ذرا خطرناک ہے، ضروری نہیں کہ اس میں جان چلی جائے، میں تمہاری حفاظت کا انتظام کر دوں گا ،لیکن خطرے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے۔
آپ طریقہ بتائیں۔۔۔ حافظ اصفہانی نے کہا۔
یہ کام تمہیں ہی کرنا پڑے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔ میں کاغذ پر لکھ کر اور یہ کاغذ تہہ کرکے تمہیں دوں گا ،دن کے وقت قبرستان میں جاکر کوئی ایسی قبر دیکھ لینا جو بیٹھ گئی ہو، ایک کدال ساتھ لے جانا، قبر میں اتر جانا اور کدال سے اتنی مٹی نکال کر باہر پھینکنا جو تمہارے اندازے کے مطابق تمہارے جسم کے وزن جتنی ہو، مٹی دو بالشت چوڑی جگہ سے نکالنا ،تاکہ گڑھا بنتا چلا جائے، یہ گڑھا اس طرف سے کھودنا ہے جس طرف مردے کا سر ہوتا ہے، ہو سکتا ہے مردے کی کھوپڑی نظر آ جائے ،کھدائی ختم کر دینا اور یہ کاغذ کھوپڑی پر رکھ کر کھودی ہوئی مٹی سے گڑھا بھر دینا اور واپس آ جانا، اگر کھوپڑی نظر نہ آئے تو یہ اندازہ کرلینا کہ تمہارے جسم کے وزن جتنی مٹی نکل آئی ہے، یہ کاغذ گڑھے میں رکھ کر گڑھا مٹی سے بھر کر آ جانا ،گیارہ دنوں بعد تمہیں میمونہ خوشخبری سنا دے گی۔
حسن بن صباح کے دونوں ساتھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
تم دونوں کو معلوم ہے کون سی قبر موزوں ہے ۔۔۔اس نے ان دونوں ساتھیوں سے کہا۔۔۔ صبح اسے ساتھ لے جانا اور قبرستان میں کوئی بہت پرانی اور بیٹھی ہوئی قبر اسے دکھا دینا ،رات کو یہ اکیلا جائے گا۔
حسن بن صباح نے کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر کاغذ پر پھونکیں ماریں، کاغذ کی کئی تہہ کرکے حافظ اصفہانی کو دیا اور کہا کہ اسے کھول کر نہ دیکھے۔
حافظ اور اس کی بیوی میمونہ چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تم نے اس شخص کی باتیں سنیں ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔ یہ کوئی معمولی آدمی نہیں مالدار اور سردار ہے، یہ ابومسلم رازی کے پاس جا رہا ہے، اسے بتائے گا کہ خلجان میں کیا ہو رہا ہے ؟
ہمارے خلاف طوفان کھڑا کرے گا۔۔۔ ایک ساتھی نے کہا ۔۔۔آپ حکم دیں کیا کرنا ہے؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے ،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ کل رات یہ قبرستان سے زندہ واپس نہ آئے، میں نے اسے سب کچھ تمہاری موجودگی میں بتایا ہے ،تمہیں قبرستان میں پہلے سے موجود ہونا چاہیے۔
اب یہ ہم پر چھوڑ دیں۔۔۔ اس کے ساتھی نے کہا ۔۔۔اس کی لاش اسی قبر میں پڑی ملے گی جس میں کھدائی کر کے وہ تعویذ رکھنے جائے گا۔
اس کی اس بیوی کا کیا بنے گا؟،،،،، دوسرے ساتھی نے پوچھا ۔
یہ ہمارے ساتھ جائے گی ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہمارے کام کی عورت ہے ہو سکتا ہے اس کے ذریعے اس کی بیٹی شمونہ واپس آجائے۔
اگلے روز ابھی سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ حافظ اصفہانی حسن بن صباح کے ساتھیوں کے کمرے میں گیا، وہ انھیں قبرستان لے جانا چاہتا تھا ،دونوں تیار تھے اس کے ساتھ چلے گئے۔
وہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس میں نئی قبریں بھی تھیں اور پرانی بھی، اور کچھ اتنی پرانی کے اس کے ذرا ذرا سے نشان باقی رہ گئے تھے، ضرورت ایسی قبر کی تھی جو بیٹھ گئی ہو، یعنی جو اندر کو دھنس گئی ہو، قبرستان کا یہ حصہ ایسا تھا جو بارشوں کے بہتے پانی کے راستے میں آتا تھا، وہاں دھنسی ہوئی چند قبریں نظر آ گئیں ،ایک قبر اتنی زیادہ دھنس گئی تھی کہ اس میں مدفون مردے کی کھوپڑی اور کندھوں کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔
یہ قبر آپ کا کام کرے گی۔۔۔ حسن بن صباح کے ایک ساتھی نے کہا۔۔۔ آپ کو کھدائی نہیں کرنی پڑے گی، رات کو اس میں اترے اور امام کا دیا ہوا کاغذ اس کھوپڑی کے منہ میں رکھ دیں ،اور پھر اس پر کدال سے مٹی ڈال دیں۔
مٹی بہت ساری ڈالنا بھائی صاحب ۔۔۔دوسرے ساتھی نے کہا۔۔۔ اپنے وزن کے برابر مٹی ہو، میں آپ کو ایک خطرے سے خبردار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں، آپ کو ننگی کھوپڑی مل گئی ہے یہ آپ کی مراد پوری کر دے گئی، اور بہت جلد کر دے گی، لیکن آپ نے ذرا سی بھی بدپرہیزی یا بے احتیاطی کی تو یہ کھوپڑی آپ کی جان لے لے گی۔
پھر بھی اس موقعے سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔۔۔ دوسرا ساتھی بولا۔۔۔ امام نے آپ کی حفاظت کا انتظام کردیا ہے، اللہ کا نام لے کر رات کو آ جائیں ۔
میں ضرور آؤں گا ۔۔۔حافظ اصفہانی نے پرعزم لہجے میں کہا۔
اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہے، اور اس کی آنکھیں کل کا سورج نہیں دیکھ سکیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*