فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 22═(شوخ ادا بلقیس)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ وادی بہشت زار تهی، جس طرف اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی چٹانیں سبزہ سے لدی ہوئی نظر آتی تھیں _
ان کی مست و بے خود کر دینے والی خوشبو مہک رہی تھی - کچھ دور چل کر اسمٰعیل اور بلقیس ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں ایک چھوٹا سا چشمہ رواں تھا اور اس میں صاف شفاف بہہ رہا تھا -
اسمٰعیل چشمہ کے کنارے بیٹھ گئے. انہوں نے آستین چڑھائیں اور وضو کیا.
پھر جرعہ جرعہ کر پانی پینے لگے.
پانی پی کر اٹھ کر دیکها تو بلقیس ان سے چند قدم کے فاصلے پر ایک پتهر پر بیٹھی ہوئی تھی جس پر رنگ برنگے پھول کهل رہے تھے.
اس وقت چار گھڑی دن باقی رہ گیا تھا - مغرب کی طرف جھک جانے والے آفتاب کی شعاعیں حور وش بلقیس کے چاند سے چہرے پر پڑ کر جگمگا رہی تھیں _"
وہ حوروں کی شان سے پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی - پھول اس کے چاروں طرف جھوم رہے تھے - شاید وہ رشک حور کو دیکھ کر وجد میں آ گئے تھے -
اسمٰعیل نے اس کے حسین چہرے کی طرف دیکھا تو شرم سے اس کا سر جھک گیا -
وہ شربا نگاہیں چشمہ کی طرف سرک گئیں اور وہ پہلے سے بھی خوب صورت معلوم ہونے لگی.
اسمٰعیل اس کی طرف بڑھے اور اس کے قریب پہنچ کر رکے اور کچھ وقفہ کے بعد بولے:
تم سحر از نگاہوں سے کس پر جادو گری کر رہی ہو؟ "
بلقیس شرمیلے انداز میں مسکرائی اور کہا" جادو گری_____؟"
اسمٰعیل:ہاں تمہاری آنکھوں میں جادو ہے تم جادو پھونک رہی ہو.
بلقیس نے سحر انگیز نگاہیں اٹها کر اسمٰعیل کو دیکھتے ہوئے کہا "آپ پر جادو پھونک رہی ہوں میں-"
اسمٰعیل :مجھ پر تو تم پہلے ہی جادو کر چکی ہو.
بلقیس :نے مصنوعی غصہ سے کہا میں جادو گر ہوں_____؟"
اسمٰعیل:بگڑ گئیں اچھا جادو گر نہیں تو کون ہو تم پهر؟؟
بلقیس : میں بچاری بهلا جادو کیا جانوں؟
اسمٰعیل : اگر جادو نہیں جانتی تو؟_____؟
بلقیس : تو کیا_____؟
اسمٰعیل : تو مجھے_____!!!
بلقیس نگاہ ناز سے انہیں دیکھ رہی تھی اور مسکرا کر بجلیاں گرا رہی تھی - اسمٰعیل دیکھ رہے اور بے خود و مسحور ہوتے جاتے تھے انہوں نے کہا"خوبصورت ساحرہ_____!!
بلقیس خفا ہو گئی اور اس نے چیں بہ جبین ہوتے ہوئے کہا جب ہم جادوگر ہیں تو کوئی ہم سے بات نہ کرے-"
اسمٰعیل ایک قدم آگے بڑھے اور لجاجت سے کہا کیا اب نہ بولو گی مجھ سے؟ "
بلقیس ان پھولوں کی طرف دیکھتے لگی جو اس کے قریب ہی کھڑے اسے گھور رہے تھے -
اسمٰعیل نے ہاتھ بڑھا کر اس کا دست ناز اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور کہا کیوں ناراض ہو گئی ہو مجھ سے؟ "
بلقیس : کوئی بول بھی رہا ہے آپ سے؟ "
اسمٰعیل : یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ کیا قصور ہوا ہے مجھ سے؟ "
بلقیس : ہم جادوگر ہیں بے مروت ہیں.
اسمٰعیل:تم ہی انصاف کرو؟
بلقیس نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور منہ بنا کر بیٹھ گئی.
اسمٰعیل اسے دیکھنے لگے - اگرچہ وہ مصنوعی طور پر بگڑ گئی تھی مگر اس پر بھی اس کا رخ روشن دمکنے لگا.
عارض ترو تازہ گلاب کے پھول کی پتیوں کی طرح شاداب اور سرخ ہو گئے تھے اس نے کہا - آپ سے بول کون رہا ہے؟ "
اسمٰعیل : وہی ہوشربا جس نے میرا صبر لوٹ لیا ہے! !
بلقیس مسکرانے لگی.
اسمٰعیل نے کہا - کس قدر فسوں ساز ہو تم! "
بلقیس:پھر وہی گفتگو شروع کر دی آپ نے؟ ہاں ایسی باتیں نہ کہیں!
اسمٰعیل : نہ کہوں گا!
اب بلقیس نے اسمٰعیل کی طرف دیکھا - اسمٰعیل کچھ افسردہ ہو گئے تھے - بلقیس نے مسکراتے ہوئے کہا -
اچھا اب شاید آپ خفا ہو گئے ہیں؟ اب آپ بھی خفا ہو جائیں !
اسمٰعیل : پھر کیا ہو گا؟
بلقیس : ہم منا لیں گے!
اسمٰعیل : تم بے رحم تم کیوں منانے لگیں!
بلقیس : اچھا تو آپ خفا ہو کر دیکهہ لیں.
اسمٰعیل:مگر مجھے تو خفا ہونا نہیں آتا !
بلقیس ہنسنے لگی. اس کے سفید اور چھوٹے چھوٹے دانت آبدار موتیوں کی طرح نظر آ کر بجلی گرانے لگے. اسمٰعیل نے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے-"
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بلقیس نے دریافت کیا کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟ -
اسمٰعیل:کس قدر شوخ ہو!
بلقیس : آپ کو جو کچھ کہنا ہے ایک ہی دفعہ کہہ لیں.
اسمٰعیل:میں کیا کہنا چاہتا ہوں مگر نہیں کہہ سکتا بلقیس نے ترچھی نظروں سے دیکھ کر کہا کیوں؟ "
اسمٰعیل : تمہاری خفگی کا ڈر ہے!
بلقیس : آپ نے یہ بھی دیکھا کہ یہ مقام کس قدر فرحت افزا ہے؟
اسمٰعیل : فردوس بریں کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہو تم اور کیا_____؟"
بلقیس : اور کیا؟
اسمٰعیل اور تم اس فردوس بریں کی حور ہو!
بلقیس شرما گئی
اسمٰعیل نے دریافت کیا یہ تم کو کیا سوجھی ؟
بلقیس : کیا_____؟
اسمٰعیل : یہی کہ وہاں سے چل پڑیں-
بلقیس :میں شاید سو گئی تھی جب آنکھ کھلی اور آپ کو نہ دیکھا تو بہت گھبرائی مجھے خیال ہوا کہ شاید آپ مجھ سے تنگ آ کر مجھے چهوڑ کر چل دئیے_______!
اسمٰعیل : کس قدر غلط خیال ہوا تمہیں.
بلقیس :مردوں کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا.
اسمٰعیل : عورتوں کا_____؟"
بلقیس : : بلقیس : عورتیں وفا شعار ہوتی ہیں، اسمٰعیل نے تمسخرانہ انداز میں کہا وفا شعار! ".
بلقیس نے زرا بلند آواز میں کہا جی ہاں-"
اسمٰعیل : خیر یونہی سہی اچھا پھر تم نے کیا کیا؟ "
بلقیس : میں پریشان ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی طرف چلی آئی یہاں آ کر پانی نظر آیا میں نے پانی پی کر آپ کی تلاش شروع کی ابهی کچھ دور ہی چلی تھی کہ ایک سیاہ سانپ میری طرف لپکا میں بھاگی تو وہ میرے پیچھے بھاگا بے اختیار میری چیخ نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گئی -
اسمٰعیل نے کہا تم فضول سانپ سے ڈر گئی.
بلقیس نے حسین نگاہیں اٹها کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا - کیوں-"؟
اسمٰعیل : اس لیے کہ وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا-
بلقیس : کس وجہ سے؟ "
اسمٰعیل : وہ بھی تم پر فریفتہ ہو گیا تھا -
بلقیس پهر شرما گئی اسمٰعیل نے کہنا شروع کیا.
جب میں آیا وہ تمہارے پاس کهڑا تمہارا حسین چہرہ دیکھ رہا تھا بلقیس نے بات ٹالنے کے لیے کہا اب دن چھپنے والا ہے کیا رات یہیں گزارنے کا ارادہ ہے؟ "
اسمٰعیل : نہیں زرا ٹھہرو میں عصر کی نماز پڑھ لوں
انہوں نے نماز پڑھی نماز پڑھ کر بلقیس کو ساتھ لیا اور چشمہ کے کنارے کنارے چل پڑے.
ان کا خیال تھا کہ چشمہ ضرور اس وادی سے کہیں باہر نکلتا ہو گا -
چشمے کے دونوں کناروں سبزہ لہلہا رہا تھا پھول کثرت سے کھلے ہوئے تھے جوں جوں وہ بڑھتے جا رہے تھے وادی نشیب کی طرف ڈھلتی جا رہی تھی.
تقریباً ایک میل چل کر چشمہ ایک شگاف میں داخل ہو کر آبشار کی صورت میں نیچے کسی چٹان پر پڑنے لگا.
یہ دونوں بھی شگاف میں داخل ہو گئے چند قدم چل کر انہوں نے جھانک کر دیکھا.
چشمہ کے دونوں کنارے کٹاو دار تھے اور چٹانیں نیچے کی طرف جھکتی چلی گئیں تھیں _
اسمٰعیل نے چند پل دیکھ کر کہا ہم ان چٹانوں کے ذریعے نیچے اتر سکتے ہیں-"
بلقیس : تو کوشش کیجئے-
اسمٰعیل : تم ڈر تو نہیں جاو گی؟ "
بلقیس : نہیں! !
اسمٰعیل : دیکهو ہم بہت اونچائی پر کھڑے ہیں اور چٹان بہت پتلی ہے.
بلقیس کچھ اندیشہ نہ کیجئے-
اسمٰعیل : بہت اچھا!
اسمٰعیل بسم اللہ کہہ کر بڑھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پیچھے چل پڑی.
یہ چٹان جس پر وہ چل پڑے تھے زیادہ سے زیادہ دو فٹ چوڑی تهی.
اس میں بے ترتیب قدرتی سیڑھیاں بنتی چلی گئیں تھیں لیکن کوئی سیڑھی گز بھر اونچی تهی تو کوئی دو گز اور کوئی اس سے بھی زیادہ اور چٹان کے ہر دو جانب خلا تھا.
ایک طرف چشمہ کا پانی گر رہا تھا اور دوسری جانب وادی تهی -
یہ چٹان ان پتهروں سے کسی ایک کی زرا سی غلطی سے دونوں دونوں کا نیچے گر کر چور چور ہو جانا بہت ممکن تھا لیکن اسمٰعیل نہایت ہوشیار سے سنبھل سنهبل کر اتر رہے تھے اور نازک اندام بلقیس کو بھی اتار رہے تھے.
یہ چٹان ان پتهروں سے جن پر پانی گر رہا تھا 40 یا 45 فٹ اونچی تهی -
آخر اللہ اللہ کرکے وہ نیچے اتر آئے اور چشمے کے کنارے کنارے پهر چل پڑے-
کچھ دور چل کر چشمہ پهر نیچے کی طرف چلا اور تقریباً ایک فرلانگ چل کر سطح زمین پر آ گیا-
یہ دونوں بهی پہاڑ سے نیچے اتر آئے-
انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسمٰعیل وضو کر کے مغرب کی نماز پڑھنے لگے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔