Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی


رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی 
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی 

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے 
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی 

سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے 
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی 

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے 
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی 

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے 
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی 

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن 
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی 

وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد 
اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی 

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن 
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی 

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری 
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی 

شاعرہ: پروین شاکر


 

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on ستمبر 03, 2024 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.