Top Ad unit 728 × 90

خاص الخاص

random

مری تقدیر شکوہ سنج دور آسماں کیوں ہو


مری تقدیر شکوہ سنج دور آسماں کیوں ہو 
ملے جب درد میں لذت تلاش مہرباں کیوں ہو 

شریک لذت آزاد کوئی ہم زباں کیوں ہو 
تمہیں بتلاؤ معنی خیز میری داستاں کیوں ہو 

وہی دل ہے وہی خواہش وہی تم ہو وہی میں ہوں 
مری دنیا میں آخر انقلاب آسماں کیوں ہو 

وہ میرے بعد روتے ہیں اب ان سے کوئی کیا پوچھے 
کہ پہلے کس لئے ناراض تھے اب مہرباں کیوں ہو 

بگولوں میں اڑے جب خاک میرے آشیانے کی 
قفس کی سمت ہی یا رب ہوائے گلستاں کیوں ہو 

تمہیں فریاد رس کہتے ہیں میں فریاد کرتا ہوں 
تمہیں آخر بتاؤ پھر یہ کوشش رائیگاں کیوں ہو 

ستانا ہی اگر منظور ہے کہہ دو ستاتے ہیں 
مری تقدیر کے پردہ میں میرا امتحاں کیوں ہو 

ہمیں معلوم ہے طالبؔ حقیقت راز ہستی کی 
مگر اس بے حقیقت کی حقیقت ہی عیاں کیوں ہو 

شاعر: طالب باغپتی


 

مری تقدیر شکوہ سنج دور آسماں کیوں ہو Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on جولائی 26, 2024 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.