جون 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙  𝟟⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عالم اسلام کے اسی خطے میں جہاں آج شامی مسلمان لبنانی صلیبیوں کے ساتھ مل کر فلسطینی حریت پسندوں کو پوری جنگی قوت سے کچل رہے ہیں وہیں آٹھ سو سال پہلے بہت سے مسلمان امراء اور حاکم اور مسلمان زنگی مرحوم کا نو عمر بیٹا صلیبیوں سے مدد لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا تھا اس وقت فلسطین صلیبیوں کے قبضے میں تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی قبلۂ اول کے اس خطے کو کفار سے آزاد کرانے کا عزم لے کر نکلا تھا صلیبی اس سے فلسطین کو نہیں بچا سکتے تھے مگر مسلمان ہی اس کے راستے میں حائل ہوگئے آج بھی فلسطین پر کفار کا قبضہ ہے اور فلسطینی حریت پسند جو قبلۂ اول کو آزاد کرانے کے لیے اٹھے تھے شامی مسلمانوں کی توپوں اور ٹینکوں سے بھسم کیے جا رہے ہیں
مارچ ١١٧٥ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی اسی خطے کے الرستان سلسلۂ کوہ میں کسی جگہ اپنے کوارٹر میں بیٹھا اپنے مشیروں اور کمانڈروں کے ساتھ اگلے اقدام کے متعلق باتیں کررہا تھا جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ اس نے حلب کا محاصرہ اس لیے اٹھا لیا تھا کہ ملک الصالح نے صلیبی بادشاہ ریمانڈ کے ساتھ جو جنگی معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ریمانڈ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے آگیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے بروقت محاصرہ اٹھا لیا اور ایسی چال چلی کہ ریمانڈ کی فوج کے عقب میں چلا گیا اور ریمانڈ نے لڑے بغیر بھاگ جانے میں عافیت سمجھی حلب مسلمانوں کا شہر تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن مسلمان امراء اور الملک الصالح کا جنگی مرکز بن گیا تھا حلب کے مسلمانوں نے خلیفہ اور امراء کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقابلہ بے جگری سے کیا تھا
وہ حلب پر ایک بار پھر حملہ کرکے غداروں اور ایمان فروشوں کے اس مرکز کو ختم کرنے کی سکیم بنا رہا تھا کہ اسے مصر سے اطلاع ملی کہ مصر میں اس کے ایک جرنیل القند نے صلیبیوں کی مدد سے سوڈانی حبشیوں کی فوج اس مقصد کے لیے تیار کرلی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر پر حملہ کیا جائے اور مصر کی امارت سلطان صلاح الدین ایوبی سے چھین لی جائے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل نے حبشیوں کو اسوان کے مقام پر شکست دی اور القند نے خودکشی کرلی اس کی اطلاع ابھی سلطان صلاح الدین ایوبی تک نہیں پہنچی تھی اس لیے وہ الرستان میں پریشان بیٹھا تھا
عظمت اسلام کا یہ پاسبان ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہوا تھا کئی ایک مسلمان امراء کی فوجیں اس کے خلاف متحد تھیں اور صلیبیوں کا خطرہ الگ تھا ان سب کے مقابلے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس بہت تھوڑی فوج تھی اس نے ایسا اقدام کر دکھایا تھا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اس کے دشمنوں کو یہ توقع تھی کہ اس پہاڑی خطے میں سردیوں میں کوئی جنگ کی سوچ ہی نہیں سکتا پہاڑیاں جو بلند تھیں وہاں برف پڑتی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو ٹریننگ دے کر اس وقت حملہ کیا جب سردی عروج پر تھی اس دلیرانہ اور غیر متوقع اقدام سے اس نے قلیل فوج سے سب کو خوفزدہ کردیا اور ایسی پوزیشن حاصل کرلی کہ دشمن کی کسی بھی فوج کو اپنی پسند کی جگہ گھسیٹ کر لڑا سکتا تھا اس کی فوج اتنی تھوڑی تھی کہ اسے کبھی کبھی ناکامی کا خطرہ بھی محسوس ہونے لگتا تھا لیکن سبھی اس سے ڈر رہے تھے اسے یہ ڈر تھا کہ ریمانڈ سکیم اور راستہ بدل کر اس پر حملہ کرے گا لیکن ریمانڈ کی حالت یہ تھی کہ اس نے اپنے علاقے تریپولی کا دفاع اس ڈر سے مضبوط کرلیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی حملہ کرے گا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جس طرح اسے بھگایا تھا اس سے سلطان صلاح الدین ایوبی اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتا تھا کہ صلیبیوں کا تعاقب کرتا مگر فوج کی قلت نے اسے آگے نہ جانے دیا اور بڑی وجہ یہ تھی کہ مصر میں القند کی بغاوت نے اسے روک دیا تھا اسے خطرہ نظر آرہا تھا کہ مصر کے حالات بگڑ جائیں گے اس صورت میں اسے مصر چلے جانا تھا وہ اس صورتحال سے ڈرتا تھا اگر اسے مصر جانا پڑتا تو مسلمان امراء عالم اسلام کو صلیبیوں کے ہاتھ بیچ ڈالتے اس کا دارومدار اس پر تھا کہ مصر سے اسے کیا اطلاع ملتی ہے
اپنے مشیروں اور کمانڈروں سے وہ مصر کے متعلق ہی پریشانی کا اظہار کررہا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ قاہرہ سے قاصد آیا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بادشاہوں کی طرح یہ نہ کہا کہ اسے اندر بھیج دو وہ اٹھا اور دوڑتا خیمے سے باہر نکل گیا قاصد اتنے لمبے سفر کی تھکن سے چور گھوڑے سے اتر کر خیمے کی طرف آرہا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھبراہٹ کے لہجے میں پوچھا کوئی اچھی خبر لائے ہو؟
بہت اچھی سلطان عالی مقام! اس نے جواب دیا محترم العادل نے حبشیوں کے لشکر کو اسوان کی پہاڑیوں میں ایسی شکست دی ہے کہ اب سوڈان کی طرف سے لمبے عرصے تک کوئی خطرہ نہیں رہا سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا خیمے سے دوسرے لوگ بھی باہر آگئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں یہ خوشخبری سنائی اور قاصد کو خیمے میں لے گیا اس کے لیے کھانا وہیں لانے کو کہا اور اس سے اسوان کے معرکے کی تفصیل سن کر پوچھا اپنی فوج کی شہادت کتنی ہے؟
تین سو ستائیس شہید قاصد نے جواب دیا پانچ سو سے کچھ زیادہ زخمی دشمن کا تمام تر جنگی سامان ہمارے ہاتھ لگا ہے ایک ہزار دو سو دس حبشی قیدی پکڑے ہیں صلیبی اور سوڈانی سردار اور کمانڈر جو قید کیے گئے ہیں الگ ہیں قاصد نے پوچھا محترم العادل نے پوچھا ہے کہ قیدیوں کے متعلق کیا حکم ہے
صلیبی اور سوڈانی سالاروں اور کمانڈروں کو قید خانے میں ڈال دو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا اور گہری سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد کہنے لگا اور وہ جو ایک ہزار اور کچھ حبشی قیدی ہیں انہیں اسوان کی پہاڑیوں میں لے جاؤ وہ جن غاروں میں چھپے تھے وہ ان سے پتھروں سے بھرواؤ وہاں فرعونوں کے جو زمین دوز محل ہیں انہیں بھی پتھروں سے بھرا دو یہ کام ان حبشیوں سے کراؤ اگر پہاڑ کھودنے پڑیں تو ان حبشیوں سے کھدواؤ وہاں کوئی غار اور پہاڑیوں کے اندر کوئی محل نہ رہے العادل سے کہنا کہ قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنا روزانہ ان سے اتنا کام لینا جتنا ایک انسان کرسکتا ہے کوئی قیدی بھوکا اور پیاسا نہ رہے اور کسی پر صرف اس لیے تشدد نہ ہو کہ وہ قیدی ہے وہیں اسوان کے قریب کھلا قید خانہ بنا لو اور کھانے کا انتظام وہیں کرو اس کام میں کئی سال لگیں گے اگر تمہارے سامنے کوئی اور کام ہو تو وہ ان قیدیوں سے کراؤ اور اگر سوڈانی اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کریں تو مجھے اطلاع دینا میں خود ان کے ساتھ سودا کروں گا
اس پیغام کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصد سے کہا العادل سے کہنا کہ مجھے کمک کی شدید ضرورت ہے اپنی ضرورت کا بھی خیال رکھنا بھرتی اور تیز کردو جنگی مشقیں ہر وقت جاری رکھو جاسوسی کا جال اور زیادہ پھیلا دو اگر القند جیسا قابل اعتماد سالار غداری کا مرتکب ہوسکتا ہے تو تم بھی غدار ہوسکتے ہو اور میں بھی اب کسی پر بھروسہ نہ کرنا علی بن سفیان سے کہنا کہ اور تیز اور چوکنا ہوجائے مصر سے کمک آنے تک میں کوئی جارحانہ کارروائی نہ کروں تو بہتر ہوگا سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصد کو واپس روانہ کرکے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا ابھی ہم ان کامیابیوں کے دفاع میں رہیں گے جو ہم حاصل کرچکے ہیں اپنی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالو تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا اپنا بھائی ہے تمہارے طاقتور دشمن تین ہیں حلب میں الملک بیٹھا ہے دوسرا اس کا قلعہ دار گمشتگین ہے جو حران میں فوج تیار کیے ہوئے ہے اور تیسرا سیف الدین ہے جو موصل کا حاکم ہے یہ تینوں فوجیں اکٹھی ہوگئیں تو ہمارے لیے ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوگا ریمانڈ کو تم نے پسپا کردیا ہے لیکن وہ اس انتظار میں ہے کہ مسلمان فوجیں آپس میں الجھ جائیں تو وہ ہمارے عقب میں آجائے میں محصور ہوکر بھی لڑ سکتا ہوں لیکن لڑنا چاہوں گا نہیں کیا ایک کوشش اور نہ کی جائے کہ ملک الصالح سیف الدین اور گمشتگین کو اسلام اور قرآن کا واسطہ دے کر راہ راست پر لایا جائے؟
ایک سالار نے کہا نہیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا جو لوگ اپنے دل اور دماغ حق کی آواز کے لیے سربمہر کرلیا کرتے ہیں وہ خدا کے قہر اور عذاب کے بغیر اپنے دل اور دماغ نہیں کھولا کرتے کیا میں کوشش کر نہیں چکا؟ 
اس کے جواب میں مجھے دھمکیاں ملیں اگر اب میں صلح اور سمجھوتے کے لیے ایلچی بھیجوں گا تو وہ لوگ کہیں گے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی لڑنے سے گھبراتا اور ڈرتا ہے اب میں ان پر خدا کا وہ عذاب اور قہر بن کر گرنا چاہتا ہوں جو ان کے دل اور دماغ کی مہریں توڑ دے گا یہ قہر تم ہو اور تمہاری فوج اس نے آہ بھری اور کہا تم نے حلب کا محاصرہ کیا تو حلب کے مسلمان جس دلیری سے لڑے وہ تم کبھی نہیں بھولو گے وہ بے شک ہمارے خلاف لڑے لیکن میں ان کی تعریف کرتا ہوں ایسی بے جگری سے صرف مسلمان لڑ سکتا ہے کاش یہ جذبہ اور یہ طاقت اسلام کے لیے استعمال ہوتی تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ نہیں بننا چاہتا میرا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام متحد ہو اور یہ قوت جو بکھر گئی ہے مرکوز ہوکر صلیبی عزائم کے خلاف استعمال ہو اور فلسطین آزاد کرا کے ہم سلطنت اسلامیہ کی توسیع کریں
ہم مایوس نہیں ایک سالار نے کہا نئی بھرتی آرہی ہے اس علاقے میں جوان خاصی تعداد میں بھرتی ہو رہے ہیں مصر سے بھی کمک آرہی ہے ہم آپ کی ہر توقع پوری کریں گے لیکن میں کب تک زندہ رہوں گا سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تم کب تک زندہ رہو گے؟ 
ابلیسی قوتیں زور پکڑ رہی ہیں ان کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے میرے وہ عزیز دوست جن پر مجھے بھروسہ اور اعتماد تھا صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیلے اور میرے ہاتھوں قتل ہوئے القند تمہارے ساتھ کا معتمد سالار تھا کیا تم سن کر حیران نہیں ہوئے کہ القند نے سوڈان سے حبشیوں کی فوج بلائی اور مصر پر قابض ہونے کی کوشش کی؟ 
اس نے مجھ پر یہ کرم کیا ہے کہ شکست کھا کر اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی ہے میں نے اسے سزائے موت نہیں دی حکومت کا نشہ دولت اور عورت اچھے اچھے انسانوں کو اندھا کردیتی ہیں ایمان میں کیا رکھا ہے؟ ایمان سونے کی طرح چمکتا نہیں عورت کی طرح عیاشی کا ذریعہ نہیں بنتا اور ایمان بادشاہ اور فرعون نہیں بننے دیتا ایک بار روح کے دروازے بند کرلو تو ایمان بیکار شے بن جاتا ہے پھر عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں, سپین سے تمہارا پرچم کیوں اترا؟ تاریخ کہتی ہے کہ یہ کفار کی سازش کا نتیجہ تھا مگر ان کی سازشیں کیوں کامیاب ہوئیں؟ 
کیونکہ خود مسلمانوں نے اپنے آپ کو کفار کا آلۂ کار بنایا اور اجرت وصول کی سپین ان کا تھا جنہوں نے سمندر پار جاکر کشتیاں جلا ڈالی تھیں تاکہ واپسی کا خیال ہی دل سے نکل جائے سپین کی قیمت وہی جانتے ہیں جنہوں نے یہ قیمت دی تھی سپین شہیدوں کا تھا یہ ہوتا آیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہی ہوتا چلا جائے گا کہ خون کے نذرانے دے کر ملک حاصل کرنے والے دنیا سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں جن کے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا تھا انہیں چونکہ ملک مفت ہاتھ آجاتا ہے اس لیے اسے وہ عیاشی کا ذریعہ بناتے ہیں اور اپنے تخت وتاج کی سلامتی کے لیے دین و ایمان والوں اور دل میں قوم کا درد رکھنے والوں کی زبانیں بند کرتے اور ان کا گلا گھونٹ دیتے ہیں انہیں افلاس اور فاقوں کی چکی میں پیس کر ان کے جذبوں کو ختم کردیتے ہیں
سپین میں یہی ہوا کفار نے ہمارے بادشاہوں کو زور جواہرات اور یورپ کی حسین لڑکیوں سے اپنے ہاتھ میں لیا انہیں انہی کی فوج کے خلاف کیا مجاہدین کو مجرم بنایا اور سپین کی اسلامی مملکت کو دیمک کھا گئی ہمارے رسول اکرمﷺ کے پروانوں نے لہو کے چراغ چلا کر آدھی دنیا کو حق کی آواز سے منور کیا کہاں ہیں وہ چراغ؟ 
ایک ایک کرکے بجھتے جارہے ہیں یہ چراغ لہو مانگتے ہیں مگر لہو دینے والے صلیبیوں کی شراب اور عورت کے طلسم میں گم ہوگئے ہیں ان لوگوں کو یہ سلطنت مفت ہاتھ آئی ہے وہ ان شہیدوں کو بھول چکے ہیں جن کے خون کے عوض خدا نے قوم کو یہ سلطنت عطا کی تھی اور خدا نے یہ سلطنت بادشاہیاں قائم کرنے اور عیاشی کے لیے عطا نہیں کی تھی بلکہ اس لیے کہ اسے مرکز بنا کر اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیلایا جائے اور بنی نوع انسان کو شر کی قوتوں سے نجات دلائی جائے مگر شر کا جادو چل گیا اور آج جب قبلۂ اول پر کفار کا قبضہ ہے ہم ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں
کافر سے پہلے غدار کا قتل ضروری ہے ایک مشیر نے کہا اگر ہم حق پر ہیں تو ہم ناکام نہیں ہوں گے مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ خطہ خون میں ہی ڈوبا رہے گا سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا حکومت شاید مسلمانوں کی ہی رہے مگر ان کے دلوں پر صلیبیوں کی حکمرانی ہوگی جنگی نقطہ نگاہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو ایسی پوزیشنوں میں تقسیم کررکھا تھا کہ کسی بھی ایسے قلعے پر جو وہ فتح کرچکا تھا دشمن براہ راست حملہ نہیں کرسکتا تھا ان قلعوں میں اس نے مختصر سی نفری رکھی تھی کیونکہ وہ قلعہ بند ہوکر لڑنے کا قائل نہیں تھا پہاڑی علاقے میں اس نے تمام راستوں اور وادیوں کی بلندیوں پر تیر انداز بٹھا دئیے تھے جو راستے تنگ تھے ان کے اوپر پہاڑیوں پر اس نے بہت بڑے بڑے پتھر رکھ کر کچھ آدمی بٹھا دئیے تھے تاکہ دشمن گزرے تو اوپر سے پتھر لڑھکا دئیے جائیں دمشق سے آنے والے راستے کو اس نے کمانڈو قسم کے گشتی دستوں سے محفوظ کررکھا تھا تاکہ رسد دشمن سے محفوظ رہے ایک جگہ ایسی تھی جسے حماة کے سینگ کہا جاتا تھا یہ ایک وسیع وادی تھی جس میں ایک نیکری جو خاصی بلند تھی آگے جا کر سینگوں کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے پھندے کی حیثیت دے رکھی تھی اس نے اپنے سالاروں کو تکنیکی لحاظ سے سمجھا دیا تھا کہ دشمن باہر آکر لڑا تو اسے اس وادی میں گھسیٹ کر لڑایا جائے گا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے تمام علاقے میں ایسی جگہوں پر پوزیشنیں قائم کرلی تھیں جن سے وہ دشمن کو کسی بھی جگہ لانے پر مجبور کرسکتا تھا اس اہتمام کے علاوہ اس کے چھاپہ مار جوان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دور دور تک گھومتے پھرتے رہتے تھے جاسوسی (انٹیلی جنس) کا نظام ایسا تھا کہ دشمن کے قلعوں کے اندر بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس موجود تھے جو خبریں بھیجتے رہتے تھے اسے یہاں تک معلوم ہوگیا تھا کہ سلطانی کے نام نہاد دعویدار الملک الصالح نے اپنے گورنر (حران کے قلعہ دار) گمشتگین کو اور موصل کے حاکم سیف الدین کو مدد کے لیے بلایا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں کچھ شرائط کے بدلے مدد دیں گے صرف بلاوے پر نہیں جائیں گے جاسوسوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مسلمان حکمران اور امراء بظاہر اتحادی ہیں لیکن ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں ہر ایک اپنی جنگ لڑ کر زیادہ سے زیادہ علاقے پر قابض ہونے کی فکر میں ہے اور صلیبی انہیں مدد کم اور شہ زیادہ دے رہے ہیں اور ان کی باہمی چپقلش کو ہوا بھی دے رہے ہیں
شمس الدین اور شاہ بخت کی کوئی اطلاع نہیں آئی؟
سلطان صلاح الدین ایوبی نے حسن بن عبداللہ سے پوچھا کوئی تازہ اطلاع نہیں حسن بن عبداللہ نے جواب دیا وہ بڑی کامیابی سے اپنا کام کررہے ہیں گمشتگین نے کوئی بھی قدم اٹھایا یہ دونوں سالار اپنا پورا کام کریں گے ان کا پیغام بھی یہی تھا کہ حالات کے مطابق وہ کارروائی کریں گے حسن بن عبداللہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا وہ علی بن سفیان کا نائب تھا علی بن سفیان مصر میں تھا کیونکہ دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کا زیادہ خطرہ مصر میں تھا سلطان صلاح الدین ایوبی حسن بن عبداللہ کے ساتھ باہر ٹہل رہا تھا اس نے شمس الدین اور شاہ بخت کا نام لیا تھا یہ دونوں گمشتگین کے جرنیل تھے گمشتگین کے متعلق بتایا جاچکا ہے کہ شیطان فطرت مسلمان تھا عہدے اور رتبے کے لحاظ سے وہ گورنر تھا اور حران کے قلعے میں مقیم تھا اس قلعے میں اور باہر اس نے خاصی فوج جمع کررکھی تھی وہ خلافت کے تحت تھا اور خلیفہ کے احکام کا پابند لیکن اس نے ذاتی سیاست بازی اور چالبازیوں سے فوجی اور سیاسی لحاظ سے ایسی پوزیشن حاصل کرلی تھی جہاں وہ کسی کو پلے نہیں باندھتا تھا اس نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ کررکھا تھا یہاں تک کہ اس کے قلعے میں نورالدین زنگی کے پکڑے ہوئے صلیبی قیدی تھے جن میں کمانڈر بھی تھے زنگی فوت ہوگیا تو گمشتگین نے کسی کے حکم کے بغیر تمام قیدی رہا کردئیے اس نے یہ اقدام صلیبیوں کی خوشنودی کے لیے کیا تھا کیونکہ وہ اب صلیبیوں کے خلاف نہیں بلکہ ان سے مدد حاصل کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کی تیاریاں کررہا تھا اس کے دو سالار تھے جو ذہانت اور جنگی اہلیت کی بدولت اس کے معتمد تھے یہ دونوں بھائی تھے ایک کا نام شمس الدین علی اور دوسرے کا شاد بخت علی تھا یہ دونوں ہندوستانی مسلمان تھے عراق کے اس وقت کے ایک مورخ کمال الدین نے عربی میں تاریخ حلب کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی اس نے ان کا اتنا ہی ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں سگے بھائی تھے اور نورالدین زنگی کی زندگی میں ہندوستان سے اس کے پاس آئے تھے زنگی نے انہیں فوج میں اچھا رتبہ دے کر حران بھیج دیا تھا قاضی بہاؤالدین ابن شداد نے بھی ان کا اپنی ڈائری میں ذکر کیا ہے عرب میں چونکہ نام کے ساتھ باپ کا نام بھی لکھا اور بولا جاتا ہے اس لیے ان دونوں بھائیوں کے نام تحریروں میں اس طرح آتے ہیں شمس الدین علی ابن الضیا اور شاد بخت علی ابن الضیا یہ اشارہ کہیں بھی نہیں ملتا کہ ضیا کون تھا تاریخ میں ان دونوں کے نام آنے کا باعث ایک واقعہ ہے جسے اس دور کے وقائع نگاروں نے قلمبند کیا ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
واقعہ اس طرح ہے کہ گمشتگین من مانی کا قائل تھا حران میں عملاً اسی کی حکومت تھی اس نے اپنے ایک خوشامدی اور بدطینت افسر ابن الخاشب ابو الفضل کو قاضی کا رتبہ دے دیا تھا اسلام کے قاضی انصاف اور دانش کی وجہ سے مشہور تھے لیکن ابو الفضل بے انصافی اور گمشتگین کی خوشنودی کی وجہ سے مشہور ہوا اس کی بے انصافی کے قصے شمس اور شاد بخت تک بھی پہنچتے رہتے تھے لیکن وہ خاموشی اختیار کیے رکھتے تھے وہ فوج کے جرنیل تھے قاضی کے فیصلوں اور شہری امور کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا طبعاً بھی وہ خاموش رہنے والے انسان تھے یہ مشہور تھا کہ گمشتگین پر ان کا بہت اثر ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ انہوں نے گمشتگین پر اپنا اثر پیدا کررکھا تھا
ان دنوں جب سلطان صلاح الدین ایوبی نورالدین زنگی کی وفات کے بعد سات سو سواروں کے ساتھ آیا اور شام اور مصر کی وحدت کا اعلان کیا تھا اس نے اپنے بہت سے جاسوس ان اسلامی علاقوں میں بھیج دئیے تھے جو خلافت کے تحت ہوتے ہوئے ذاتی ریاستوں کی صورت اختیار کرگئے تھے (ان جاسوسوں کے چند ایک کارنامے سنائے جا چکے ہیں) ان میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا انطانون نام کا ایک ترک جاسوس حران چلا گیا وہ خوبرو اور وجیہہ جوان تھا ترکی کے علاوہ عربی زبان روانی سے بولتا تھا اس نے گمشتگین تک رسائی حاصل کرلی اور یہ کہانی سنائی کہ اس کا خاندان یروشلم میں آباد ہے جو اس وقت صلیبیوں کے قبضے میں تھا اس نے بتایا کہ صلیبی وہاں مسلمانوں پر بے رحمی سے ظلم وتشدد کرتے ہیں اور بلاوجہ جسے چاہتے ہیں بیگار پر لگا دیتے ہیں انہوں نے اس کی دو جوان بہنوں کو اغوا کرلیا اور اس کے بھائیوں اور باپ کو بیگار کے لیے پکڑ لیا ہے وہ فرار ہوکر یہاں تک پہنچا ہے اور صلیبیوں سے انتقام لینے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے
اس نے اپنا حال حلیہ بگاڑ رکھا تھا اور پتہ چلتا تھا کہ وہ یروشلم سے پیدل آیا ہے اور بھوک اور تھکن نے اسے ادھ موا کررکھا ہے گمشتگین نے اسے فوجی نظروں سے دیکھا تو اس کا قد بت اسے پسند آیا اس سے پوچھا کہ وہ گھوڑ سواری اور تیر اندازی جانتا ہے یا نہیں اس نے کہا کہ اسے ذرا آرام اور کھانے کی ضرورت ہے اس کے بعد دکھائے گا کہ وہ کیا کرسکتا ہے گمشتگین نے اسے کھلا پلا کر سلا دیا وہ بہت دیر بعد اٹھا تو اسے گمشتگین کے دربار میں پیش کیا گیا ایک گھوڑا منگوایا گیا باہر لے جاکر ایک باڈی گارڈ کی کمان اور ایک تیر اسے دے کر کہا گیا کہ خود ہی کہیں نشانے پر تیر چلا کر دکھاؤ پھر گھوڑا دوڑاؤ قریب ایک درخت تھا جس پر پرندے بیٹھے تھے ان میں سب سے چھوٹا پرندہ ایک چڑیا تھی اس نے اس کا نشانہ لیا اور تیر چلایا تیر چڑیا کے جسم میں اتر کر اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا اس نے ایک اور تیر مانگا جو لے کر وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور کہا کہ وہ قریب آئے تو کوئی چیز اوپر پھینکی جائے وہاں گمشتگین کے باڈی گارڈ کھڑے تھے ایک دوڑا گیا اور اپنے کھانے کی پلیٹ اٹھا لایا جو مٹی کی تھی انطانون گھوڑے کو دور لے گیا وہاں سے موڑ کر ایڑی لگائی تو گھوڑا سرپٹ دوڑا انطانون نے کمان میں تیر ڈالا ایک باڈی گارڈ نے پلیٹ ہوا میں اچھالی انطانون دوڑتے گھوڑے سے تیر چلایا اور پلیٹ کے ٹکڑے ہوا میں بکھیر دئیے اس نے گھوڑا موڑ کر سواری کے کچھ اور کرتب دکھائے یہ تو کسی کو بھی نہ معلوم تھا کہ وہ تجربہ کار جاسوس اور چھاپہ مار (کمانڈو) ہے اور اسے ہر ایک ہتھیار کے استعمال اور گھوڑ سواری کا ماہر بنایا گیا ہے
اس کے قدبت گھٹے ہوئے جسم گورے چٹے رنگ اور کرتب دیکھ کر گمشتگین بہت متاثر ہوا اور اسے اپنے باڈی گارڈز میں رکھ لیا دو باڈی گارڈز گمشتگین کے گھر بھی ڈیوٹی دیا کرتے تھے کچھ دنوں بعد انطانون گھر کی ڈیوٹی پر گیا جہاں اسے آٹھ دن اور آٹھ راتیں رہنا تھا مسلمان حکمرانوں کی طرح گمشتگین کا حرم بھی با رونق تھا اس میں بارہ چودہ لڑکیاں تھیں انطانون نے پہلے دن جاکر گھر کے تمام دروازوں اور کونوں کھدروں کو دیکھا اس نے وہاں کے تمام ملازم مردوں اور عورتوں سے کہا کہ وہ چونکہ گھر کی حفاظت کے لیے آیا ہے اس لیے سارے گھر سے واقفیت حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہے اس نے کمرے تک دیکھ ڈالے وہ بہت چالاک تھا باتوں کا جادو چلانا جانتا تھا حرم میں جانے کی اسے جرأت نہ ہوئی ایک جوان لڑکی اسے برآمدے میں مل گئی یہ بھی حرم کی ملکیت تھی اس نے انطانون سے شہزادیوں والے رعب سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے؟
محافظ ہوں اس نے گردن تان کر جواب دیا دیکھ رہا ہوں کہ اس محل جیسے مکان میں آنے اور جانے کے راستے کتنے ہیں اور کہاں کہاں ہیں اور یہ بھی دیکھ رہاں ہوں کہ آپ کے علاوہ یہاں کون رہتا ہے
محافظ تو پہلے بھی یہاں رہتے ہیں کبھی کوئی اندر نہیں آیا لڑکی نے کہا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں یہ میرا فرض ہے اس نے جواب دیا اگر حرم سے کوئی ایک بھی حسینہ غائب ہوگئی تو محترم قلعہ دار اس کی جگہ میری بہن کو اٹھا لائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی بہن کی حفاظت کے لیے آئے ہو لڑکی نے مسکرا کر کہا اگر میں اس کی حفاظت کرسکتا تو آج ایک لڑکی سے یہ نہ کہلواتا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کررہے ہو اس نے چہرے پر اداسی کا تاثر پیدا کرکے کہا میں اپنی بہن کی حفاظت نہیں کرسکا تھا اس لیے آپ کی حفاظت میں پوری پوری احتیاط کررہا ہوں اس نے آہ بھر کر کہا وہ بھی آپ جیسی تھی بالکل آپ جیسی مجھے روکنے کی کوشش نہ کریں کہ میں کیا کررہا ہوں
اس نے اندھیرے میں جو تیر چلایا تھا وہ نشانے پر لگا اس نے عورت کی جذباتیت پر تیر چلایا تھا وہ بھی جوان لڑکی تھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ وہ اپنی بہن کی حفاظت نہیں کرسکا تھا تو کیا ہوا تھا؟ 
کیا اس کی بہن اغوا ہوگئی تھی؟
اگر اغوا کرنے والے مسلمان ہوتے یا وہ خود کسی مسلمان کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا اس نے کہا دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ کوئی اس سے شادی کرلے گا یا اسے کسی مسلمان امیر کے حرم میں دے دیا جائے گا اسے صلیبیوں نے اغوا کیا ہے ایک نہیں دو بہنوں کو میں ان کی حفاظت نہیں کرسکا لڑکی نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے اور کس طرح اغوا ہوئی ہیں اس نے وہی یروشلم والی کہانی سنا دی اور اپنے فرار کی کہانی ایسی سنسنی خیز بنا کر سنائی کہ لڑکی کا چہرہ بتاتا تھا جیسے یہ تیر اس کے دل میں اتر گیا ہے اس نے کہا میں وہاں سے پیدل یہ ارادہ لے کر آیا ہوں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہوکر صرف اپنی بہنوں کا ہی نہیں ان تمام بہنوں کا انتقام لوں گا جنہیں صلیبیوں نے اغوا کیا ہے قلعہ دار نے مجھے اپنے محافظ دستے میں رکھ لیا ہے اس نے اور بھی بہت سی جذباتی باتیں کیں جو لڑکی کے دل میں اترتی گئیں انطانون اچھی طرح جانتا تھا کہ حرم کی لڑکیوں کے جذبات نازک ہوتے ہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے وہ کمزور ہوتی ہیں وجہ صاف ہے ایک آدمی کی ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ بیویاں ہوں تو کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتی کہ یہ آدمی اسی کو چاہتا ہے اور جب بیویاں بغیر نکاح کے حرم میں قید رکھی ہوئی ہوں تو انہیں محبت کا اشارہ بھی نہیں ملتا جوان لڑکی کے کچھ جذبات بھی ہوتے ہیں حرم کی جوان لڑکی یہ بھی جانتی ہے کہ چند سال بعد اس کی قدر وقیمت ختم ہوجائے گی انطانون کو معلوم تھا کہ حرم کی لڑکیوں نے اپنے خوابوں اور رومانوں کو دبا کررکھا ہوتا ہے اور وہ چوری چھپے اپنے خاوند یا آقا کے کسی جوان دوست یا کسی جوان اور خوبرو ملازم کے ساتھ عشق ومحبت کا نشہ پورا کرلیتی ہیں
انطانون کے سامنے چونکہ یہی لڑکی اتفاق سے آگئی تھی اس لیے اس نے اسی کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی اپنے جاسوسی کے مقاصد کے لیے اسے حرم کی ایک لڑکی کے دوستانے کی ضرورت تھی اسے ٹریننگ میں بتایا گیا تھا کہ گمشتگین جیسے عیاش گورنر اور امراء رقص اور شراب کی محفلیں جماتے ہیں جن میں حرم کی لڑکیاں بھی شریک ہوتی ہیں شراب اور عورت کے نشے میں ان لوگوں کی زبانیں بے قابو ہوجاتی ہیں لہٰذا راز انہی محفلوں اور ضیافتوں میں بے نقاب ہوتے ہیں انطانون اور اس کے ساتھی جاسوس علی بن سفیان کے تربیت یافتہ تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں بے دریغ مالی اور دیگر مراعات دے رکھی تھیں کوئی جاسوس دشمن کے علاقے میں پکڑا یا مارا جاتا تو سلطان صلاح الدین ایوبی اس کے خاندان کو اتنا زیادہ مستقل وظیفہ دیا کرتا تھا کہ مالی لحاظ سے اس خاندان کو کسی کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی تھی
انطانون نے اس لڑکی پر ایسا اثر پیدا کردیا جو اس کے چہرے سے عیاں تھا اسے امید نظر آنے لگی کہ یہ لڑکی اس کے جال میں آجائے گی وہ وہاں سے ہٹنے لگا تو لڑکی نے اسے دبی زبان میں کہا پچھلی طرف ایک باغیچہ ہے رات کے دوسرے پہر وہاں بھی آکر دیکھ لینا مکان میں کوئی ادھر سے بھی داخل ہوسکتا ہے لڑکی کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ تھی اس نے دل کی بات کہہ دی باڈی گارڈز کے فرائض میں رات کو پہرہ دینا نہیں ہوتا تھا وہ بڑے دروازے کے سامنے نہایت اچھے لباس میں چمکتی ہوئی برچھیاں تھامے نمائش کے لیے موجود رہتے تھے اور جب باڈی گارڈز اپنے آقا کے ساتھ ہوتے وہ اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے تھے ان کا اصل کام میدان جنگ میں سامنے آتا تھا جب وہ اپنے آقا کے ساتھ ساتھ رہتے تھے انطانون رات کے دوسرے پہر باغیچے میں چلا گیا اور ٹہلتا رہا یہ مکان محل جیسا تھا اندر سے گانے بجانے اور ناچنے کی آوازیں آ رہی تھیں انطانون نے ان مہمانوں کو بڑے غور سے دیکھا تھا جو آئے تھے ان میں دو تین صلیبی بھی تھے وہ باغیچے میں کچھ دیر ٹہلا تو پچھلے دروازے سے لڑکی نکلی اور اس کے پاس آگئی آپ کیوں آئی ہیں؟
انطانون نے انجان بن کر پوچھا اور تم کیوں آئے ہو؟
لڑکی نے پوچھا آپ کا حکم بجا لانے انطانون نے جواب دیا آپ نے حکم دیا تھا کہ رات کے دوسرے پہر باغیچے میں آکر دیکھ لینا کوئی ادھر سے بھی داخل ہوسکتا ہے اس نے پوچھا آپ اتنی گرما گرم محفل چھوڑ کر باہر کیوں آگئی ہیں وہاں دم گھٹتا ہے لڑکی نے جواب دیا شراب کی بو سے متلی آنے لگتی ہے آپ شراب کی عادی نہیں؟
نہیں لڑکی نے جواب دیا میں یہاں کی کسی بھی چیز کی عادی نہیں ہوسکی بیٹھ جاؤ اس نے پتھر کے ایک بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا میں مالکہ کی برابری کی جرأت نہیں کرسکتا انطانون نے کہا کسی نے دیکھ لیا تو دیکھنے والے شراب میں بدمست ہیں لڑکی نے کہا بیٹھو اور اپنی بہنوں کی باتیں سناؤ انطانون نے اپنے فن کے کمالات دکھانے شروع کردئیے اور لڑکی اس کے قریب ہوتی گئی وہ بات کو بہنوں سے پھیر کر اپنے آپ پر لے آئی اس میں جو جھجک تھی وہ انطانون نے ختم کردی یہ انطانون تھا جس نے کہا کہ اسے اب چلے جانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعہ دار لڑکی کی تلاش کے لیے نوکروں کو دوڑا دے اور وہ پکڑی جائے لڑکی نے کہا کہ اس کی غیرحاضری کو کوئی بھی محسوس نہیں کرے گا وہاں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی انطانون نے اگلی رات پھر ملنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا لڑکی نے اسے اپنے متعلق جو کچھ بتایا تھا وہ یہ تھا کہ اسے شراب سے نفرت ہے اسے جس طرح عیاشی کا ذریعہ بنایا گیا ہے اس سے بھی اسے نفرت ہے وہ حلب کی رہنے والی تھی اس کے باپ کے ایک دوست نے اسے گمشتگین کے لیے منتخب کیا اور برائے نام نکاح پڑھا کر باپ نے اسے رخصت کردیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی پیار کی پیاسی تھی دوسری رات ان کی وہیں ملاقات ہوئی لڑکی انطانون کے انتظار میں بے حال ہوگئی تھی وہ آیا تو لڑکی نے اسے پہلی بات یہ کہی اگر تم مجھے ایک خوبصورت لڑکی سمجھ کر کسی اور نیت سے آئے ہو تو واپس چلے جاؤ مجھے تم سے ایسی کوئی غرض نہیں جس روز میں نے بدنیتی کا اظہار کیا اس روز میرے منہ پر تھوک کر اندر چلی جانا انطانون نے کہا میں تمہیں اپنی بہنوں جیسی پاکیزہ لڑکی سمجھتا ہوں لیکن مجھے ابھی بہن نہ کہنا لڑکی نے سنجیدگی کو مسکراہٹ میں بدل کر کہا معلوم نہیں میں کسی وقت کیا فیصلہ کر بیٹھوں یعنی تم میرے ساتھ کہیں بھاگ چلنے کا فیصلہ کرو گی؟
یہ تم پر منحصر ہے لڑکی نے کہا ساری عمر چوری چھپے ملتے تو نہیں گزرے گی تم یہاں آٹھ یا دس دنوں کے لیے آئے ہو چلے جاؤ گے تو میں تمہاری صورت کو بھی ترستی رہوں گی اس رات وہ ایک دوسرے کے دل میں اتر گئے اگلے دن لڑکی اتنی بے قابو ہوئی کہ اس نے انطانون کو دن کے وقت اپنے کمرے بلالیا اس دن گمشتگین حران سے کہیں باہر چلا گیا تھا یہ ملاقات دونوں کے لیے خطرناک تھی لڑکی جذبات کے جادو میں بھول گئی تھی کہ ان محلات میں سازشیں بھی ہوتی ہیں اور حرم کی لڑکیاں ایک دوسرے کو خاوند کی نظروں میں گرانے کے مواقع ڈھونڈتی رہتی ہیں انطانون کی شخصیت اور اس کی باتوں کے طلسم نے اسے اندھا کردیا تھا یہ محبت کی تشنگی کا نتیجہ تھا انطانون نے اسے شک نہ ہونے دیا کہ اسے اس کے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے وہ لڑکی کے لیے سراپا خلوص اور پیار بن گیا تھا وہ جب اس کے کمرے سے نکلا تو لڑکی کی یہ کیفیت تھی جیسے اس کے ساتھ ہی نکل جائے گی رات کے دوسرے پہر انہیں پھر ملنا تھا
وہ جب وہاں سے نکلا تو حرم کی ایک اور لڑکی اسے دیکھ رہی تھی اس لڑکی نے اسے کمرے میں جاتے بھی دیکھا تھا گمشتگین رات کو بھی غیر حاضر تھا لڑکی باغیچے میں چلی گئی انطانون بھی آگیا اب ان کے درمیان نہ کوئی حجاب رہا تھا اور نہ کوئی پردہ لڑکی نے اسے کہا تم نے کہا تھا کہ تم اپنی بہنوں کا انتقام لینے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہونے آئے تھے پھر تم اس فوج میں کیوں بھرتی ہوگئے؟
کیا یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج نہیں؟
انطانون نے ایسے پوچھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہ تھا اس نے کہا یہ اسلامی فوج ہے اور یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سوا اور کس کی ہوسکتی ہے؟
یہ فوج اسلامی ہے لیکن اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے لڑکی نے کہا یہ تو بہت بری بات ہے انطانون نے کہا تمہارا کیا خیال ہے؟ 
کیا مجھے ایسی فوج میں رہنا چاہیے جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو رہی ہے؟ 
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یروشلم میں ان تمام علاقوں میں جہاں صلیبیوں کا قبضہ ہے مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی کو امام مہدی بھی کہتے ہیں وہ صلیبیوں کے مظالم سے خوفزدہ رہتے ہیں مسجدں میں امام بھی کہتے ہیں کہ یہ قوم کو گناہوں کی سزا مل رہی ہے دمشق سے امام مہدی صلاح الدین ایوبی کے روپ میں نجات دلانے آرہے ہیں مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟
اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے ساتھ لو یہاں سے نکلو لڑکی نے کہا میں تمہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تک پہنچا دوں گی تمہیں اس فوج میں نہیں رہنا چاہیے لیکن میں یہ نہیں چاہوں گی کہ تم مجھے یہاں چھوڑ کر بھاگ جاؤ کیا تم اپنے خاوند سے اس لیے بھاگنا چاہتی ہو کہ اس نے تمہیں زرخرید لونڈی بنا رکھا ہے یا وہ بوڑھا ہے یا اس لیے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہے؟
مجھے اس شخص سے نفرت ہے لڑکی نے جواب دیا وجوہات تم نے خود ہی بتا دی ہیں اس نے مجھے لونڈیوں کی طرح حرم میں قید کر رکھا ہے وہ بوڑھا بھی ہے اور نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن اور صلیبیوں کا دوست ہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*



ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں 
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں 

خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں 
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں 

دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں 
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں 

پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں 
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں 

اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا 
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں 

ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی 
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں 

ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن 
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں 

دعوئ خوش سخنی خیرؔ ابھی زیب نہیں 
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں 

شاعر: رؤف خیر


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟟⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فوج کی کوئی نقل وحرکت نہ کرے تاکہ دشمن کو یہ امید رہے کہ وہ تمہیں بے خبری میں لے لے گا ظاہر یہ کرتے رہنا کہ قاہرہ کی فوج کو علم نہیں کہ قاہرہ پر حملہ ہونے والا ہے شہر کو محاصرے میں نہ آنے دینا اس سے پہلے ہی جوابی حملہ کردینا کوشش یہ کرو کہ دشمن کے حملے سے پہلے ہی ڈھونڈ لو اگر پتہ چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو زیادہ نفری سے حملہ نہ کرنا شب خون مارنا سرحدی دستوں کی نفری زیادہ کردو تاکہ دشمن بھاگ کر نہ جاسکے میں حیران ہوں کہ اتنی فوج سرحد پار کس طرح کر آئی ہے کسی نہ کسی سرحدی چوکی کی مدد یا کوتاہی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوسکتا اللہ تمہیں کامیابی عطا فرمائے گا دشمن رسد اور کمک کے بغیر نہیں لڑ سکے گے سرحد کو مضبوطی سے بند کر دینا لڑائی کو طول دینا تاکہ دشمن بھوک سے مرے میں تمہیں عملاً بتا چکا ہوں کہ دشمن کو بکھیر کر کس طرح لڑایا جاتا ہے زیادہ نفری کے خلاف زیادہ نفری سے آمنے سامنے آ کر لڑنا قطعاً ضروری نہیں مجھے توقع نہیں تھی کہ القند بھی غدار نکلے گا پھر بھی میں حیران نہیں ایمان کی نیلامی میں کوئی دیر نہیں لگتی بادشاہی کا صرف تصور ہی انسان کو ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیتا ہے اقتدار کا نشہ قرآن کو بند کرکے الگ رکھ دیتا ہے مجھے افسوس القند پر نہیں میں اسلام کے مستقبل کے متعلق پریشان ہوں ہمارے بھائی صلیبیوں کے ہاتھوں فروخت ہوتے جارہے ہیں ادھر میرے بھائی میرے خلاف لڑ رہے ہیں میرا پیرومرشد نورالدین زنگی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے کل پرسوں ہم بھی اٹھ جائیں گے اس کے بعد کیا ہوگا؟ 
یہی سوال مجھے پریشان رکھتا ہے کوشش کرنا کہ جب تک زندہ رہو اسلام کا پرچم سر نگوں نہ ہونے پائے اللہ تمہارے ساتھ ہے مجھے باخبر رکھنا اس نے پیغام لانے والے کمان دار کو بہت سی ہدایات دے کر رخصت کردیا مصری فوج کے چند ایک دستوں کو دو دو چار چار کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے بھیج دیا گیا کہ وہ گھوم پھر کر دشمن کے اجتماع کو ڈھونڈیے اس دوران اس سرحدی چوکی سے جس کا کمانڈر زہرہ کے ساتھ لاپتہ ہوگیا تھا ایک سپاہی نے قاہرہ آکر رپورٹ دی کہ چوکی کا کمانڈر چند دنوں سے لاپتہ ہے سپاہی نے یہ نہ بتایا کہ ان کی چوکی پر ناچ گانا ہوا تھا اور ایک رقاصہ کمانڈر کے خیمے میں گئی تھی اس اطلاع سے شک ہوا کہ وہ دشمن کے ساتھ مل گیا ہے اور اسی کی مدد سے دشمن اندر آیا ہے علی بن سفیان نے رائے دی کہ چونکہ وہ چوکی دریائی راستے کی نگرانی کے لیے ہے اس لیے دشمن دریا کے راستے آیا ہوگا فیصلہ ہوا کہ کسی ذہین کمانڈر کو اس چوکی پر محافظوں کے ایک دستے کے ساتھ بھیجا جائے چوکی کا کمانڈر اور زہرہ حبشیوں کے قبضے میں تھے لیکن قید ہوتے ہوئے بھی وہ قیدی نہیں تھے انہیں جو لباس پہنایا گیا تھا وہ پرندوں کے رنگ برنگ پروں کا بنا ہوا تھا جس کمرے میں انہیں رکھا گیا تھا اسے پروں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا انہیں خاص قسم کی غذا کھلائی جارہی تھی حبشیوں کے مذہبی پیشوا ان کے آگے سجدے کرتے اور کچھ بڑبڑا کر چلے جاتے تھے کسی اور کو ان کے قریب آنے کی اجازت نہیں تھی ایک بار انہیں درختوں کی مضبوط ٹہنیوں اور پتوں کی بنی ہوئی پالکیوں پر اٹھا کر دریا میں نہلانے کے لیے لے جایا گیا تھا دونوں کو معلوم تھا کہ انہیں ذبح کیا جائے گا رات کو وہ تنہا ہوتے تھے لیکن باہر آٹھ دس حبشی موجود رہتے تھے کمانڈر نے کئی بار اٹھ کر دیکھا تھا کہ فرار کی کوئی صورت بن سکتی ہے یا نہیں فرار ممکن نظر نہیں آتا تھا
ایک رات حبشیوں کے دو مذہبی پیشوا آئے کمانڈر اور زہرہ سوئے ہوئے تھے انہیں جگایا گیا وہ سمجھے کہ ان کی موت آن پہنچی ہے مذہبی پیشواؤں نے ان کے آگے سجدہ کیا اور دونوں کو باہر لے گئے باہر پالکیاں رکھی تھیں ایک پر کمانڈر اور دوسرے پر زہرہ کو بٹھایا گیا دو دو حبشیوں نے ایک ایک پالکی اٹھالی مذہبی پیشوا آگے آگے چل پڑے وہ دونوں مل کر کچھ گنگنانے لگے پالکیوں کے پیچھے دو اور حبشی تھے جن کے پاس برچھیاں تھیں وہ محافظ تھے کمانڈر اور زہرہ خاموش تھے پہاڑیوں سے نکل کر وہ لوگ دریا کی طرف چل پڑے کمانڈر نے دیکھا کہ چاند افق سے نکل رہا تھا اس سے اس نے اندازہ کیا کہ رات آدھی گزر گئی ہے اس وقت سے پہلے چاند نہیں ہوتا تھا
دریا کے کنارے لے جا کر پالکیاں اتاری گئیں مذہبی پیشوا آگے بڑھ کر کمانڈر اور زہرہ کا لباس اتارنے لگے چاند کی روشنی میں کمانڈر نے دیکھا کہ برچھیوں والے دونوں محافظ اور پالکیاں اٹھانے والے دونوں حبشی ان کی طرف پیٹ کرکے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے تھے ان کے لیے شاید یہی حکم تھا کمانڈر نے چیتے کی طرح جست لگائی اور ایک حبشی سے برچھی چھین لی وہ تجربہ کار سپاہی تھا اس نے پیچھے ہٹ کر دوسرے حبشی کے پہلو میں برچھی اتار دی اس حبشی کی برچھی گر پڑی کمانڈر نے چلا کر کہا زہرہ بھاگ کر آؤ یہ برچھی اٹھا لو زہرہ دوڑی کمانڈر نے گری ہوئی برچھی کو ٹھڈا مارا تو وہ زہرہ تک پہنچ گئی۔ کمانڈر نے کہا اب مرد بن جاؤ حبشیوں نے خالی ہاتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ برچھیوں کا مقابلہ نہ کرسکے مذہبی پیشوا بھاگ اٹھے۔ کمانڈر نے انہیں دور نہیں جانے دیا زہرہ بھی ادھر کو ہی دوڑ پڑی۔ دونوں پیشوا ختم ہوگئے باقی بھی مرنے سے پہلے زور زور سے کراہ اور چلا رہے تھے کمانڈر کی برچھی نے سب کو خاموش کردیا اور وہ چوکی کی طرف دوڑ پڑے بہت آگے گئے تو انہیں دو گشتی سنتری گھوڑوں پر سوار آتے نظر آئے کمانڈر نے انہیں پکار کر کہا کہ جلدی آگے آؤ سنتریوں نے اپنے کمانڈر کو پہچان لیا کمانڈر نے انہیں کہا گھوڑے ہمیں دو ہم قاہرہ جارہے ہیں تم دونوں واپس چوکی میں چلے جاؤ اگر کوئی ہماری تلاش میں آئے تو کہنا کہ تم نے ہمیں نہیں دیکھا سپاہی پیدل واپس چلے گئے کمانڈر نے زہرہ کو گھوڑے پر سوار کیا اور خود دوسرے گھوڑے پر سوار ہوکر زہرہ سے کہا کہ اگر تم نے کبھی گھوڑ سواری نہیں کی توگھبرانا نہیں گھوڑا تمہیں گرائے گا نہیں ڈرنا مت اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی زہرہ نے ڈر کے مارے چیخنا شروع کردیا کمانڈر نے گھوڑا روک لیا اور زہرہ کو اپنے گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور دوسرے گھوڑے کی باگیں اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر زہرہ سے کہا کہ وہ اس کی کمر کے گرد بازو ڈال لے گھوڑا پھر دوڑ پڑا کمانڈر خطے سے دور ہٹ کر اور چکر کاٹ کر جارہا تھا اسے سمت اور راستے کا علم تھا وہ ابھی دو میل بھی نہیں گیا ہوگا کہ ایک طرف سے اسے آواز سنائی دی ٹھہر جاؤ کون ہو؟
کمانڈر رکا نہیں بیک وقت چار گھوڑے اس کے تعاقب میں دوڑ پڑے کمانڈر نے اپنے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا گھوڑا تھک گیا تھا اس نے کوشش کی کہ دوسرے گھوڑے کو اپنے پہلو میں کرکے اس پر سوار ہوجائے وہ گھوڑا بغیر وزن کے بھاگ رہا تھا اس لیے زیادہ تھکا ہوا نہیں تھا مگر زہرہ کے ساتھ بھاگتے گھوڑے سے دوسرے گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں تھا چاند اوپر آگیا تھا جس سے دور تک نظر آسکتا تھا چاروں گھوڑے بہت قریب آگئے تھے
دو تیر آئے جو کمانڈر کے قریب سے گزر گئے ان کے ساتھ آواز آئی اگر نہ رکے تو اب تیر کھوپڑی میں اتر جائیں گے کمانڈر کو معلوم تھا کہ وہ رکا تو بھی موت ہے یہ لوگ حبشیوں کے حوالے کرکے آج ہی رات ذبح کردیں گے بھاگتے رہنے میں بچ نکلنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے اس نے گھوڑا دائیں بائیں گھما گھما کر دوڑانا شروع کردیا تاکہ تیر نشانے پر نہ آئیں یہ اس کی غلطی تھی اس کے تعاقب میں آنے والے سیدھے آرہے تھے جس سے فاصلہ کم ہوگیا اور وہ گھیرے میں آگیا اس کے جسم پر پروں کا لباس تھا جس سے وہ پرندہ لگتا تھا یہی حالت زہرہ کی تھی کمانڈر نے ان چاروں کو دیکھا تو اسے شک ہوا ان میں سے ایک نے پوچھا تم کون ہو؟
دوسرے نے کہا پوچھتے کیا ہو سوڈانی ہے یہ دیکھو تو انہوں نے پہن کیا رکھا ہے
کمانڈر ہنس پڑا اور بولا میرے دوستو میں تمہاری فوج کا ایک کمان دار ہوں اس نے زہرہ کا تعارف کرایا اور ساری واردات سنا دی یہ چار سوار دیکھ بھال کے کسی دستے کے تھے وہ یہی دیکھتے پھر رہے تھے کہ سوڈان کی فوج کہاں ہے اور کہیں ہے بھی یا نہیں وہ کمانڈر اور زہرہ کو ساتھ لے کر قاہرہ کی سمت چل پڑے بڑی ہی لمبی مسافت طے کرکے وہ اگلی رات قاہرہ پہنچے انہیں سب سے پہلے علی بن سفیان کے پاس لے جایا گیا اور رات کو ہی العادل کو جگا کر بتایا گیا کہ چار ہزار سے زیادہ حبشی فوج فلاں جگہ چھپی ہوئی ہے اور اس کی قیادت سالار القند کررہا ہے العادل نے اسی وقت اپنی فوج کو کوچ کا حکم دے دیا سلطان صلاح الدین ایوبی کے طریقہ جنگ کے مطابق اس نے ہر اول میں سوار دستے رکھے جن کی نفری خاصی تھوڑی تھی دو حصے پہلوؤں میں پیچھے رکھے درمیان میں اپنا مین کوارٹر اپنے پیچھے زیادہ سے زیادہ دستے ریزرو میں رکھے اسے معلوم تھا کہ وہ خطہ پہاڑی ہے اس نے فوج کو قلعے کا محاصرہ کرنے کی تربیت میں رکھا اور کمانڈروں کو وہ جگہ سمجھا کر محاصرے کی ہی ہدایات دیں پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے اس نے چھاپہ مار دستے الگ کرلیے جنہیں اس نے اپنی کمان میں رکھا ادھر صبح کے وقت کسی نے دیکھا کہ مذہبی پیشواؤں اور چار حبشیوں کی لاشیں دریا کے کنارے پڑی ہیں القند اور اس کے صلیبی مشیروں کو اطلاع دی گئی کسی حبشی کو پتہ نہ چلنے دیا گیا القند کو یہ بھی بتایا گیا کہ جس مرد اور عورت کو قربانی کے لیے رکھا گیا تھا وہ لاپتہ ہیں تب القند نے پوچھا کہ وہ آدمی کون تھا اسے جب بتایا گیا کہ وہ اس قریبی چوکی کا کمانڈر تھا تو وہ چونکا اسے یاد آگیا کہ اس کمانڈر نے اسے دیکھا تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ سیدھا قاہرہ گیا ہوگا القند نے کہا اسے چوکی میں جاکر دیکھنا اور پکڑنا بیکار ہے اب ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے ہم قاہرہ پر بے خبری میں ہلہ بولنا چاہتے تھے لیکن ہم نے وقت ضائع کیا اب ہم بے خبری میں مارے جائیں گے میں اپنی فوج کو جانتا ہوں خبر ملتے ہی اڑ کر پہنچے گی اور ایک کام فوراً کرو حبشیوں کی لاشیں دریا میں بہا دو اگر ان حبشیوں کو پتہ چل گیا کہ ان کے مذہبی پیشوا اور ان کے محافظ مارے گئے اور جنہیں قربان کرنا تھا وہ بھاگ گئے ہیں تو یہ ہجوم قاہرہ کے بجائے خرطوم کی طرف چل پڑے گا
فوراً ہی اعلان کردیا گیا کہ دریا کے کنارے قربانی دے دی گئی ہے خدا نے حکم دیا ہے کہ میرے دشمنوں پر فوراً حملہ کردو ان کے جو کمانڈر مقرر کیے گئے تھے انہوں نے حبشیوں کو تعداد کے مطابق الگ الگ کردیا تیر انداز الگ ہوگئے جنگی سکیم کے مطابق انہیں ترتیب میں کرلیا گیا انہیں پہاڑیوں کے اندر سے نکال کر دریا کے کنارے اس جگہ کے قریب سے گزارا گیا جہاں حبشیوں کا خون بکھرا ہوا تھا اور پالکیاں پڑی تھیں وہاں ایک آدمی کھڑا اعلان کررہا تھا یہ خون اس مرد اور عورت کا ہے جنہیں قربان کیا گیا ہے
یہ فوج دریا کے کنارے قاہرہ کی سمت روانہ ہوئی حبشی جنگی ترانہ گاتے جارہے تھے دن چلتے گزر گیا رات آئی تو پڑاؤ کیا گیا اگلی صبح پھر کوچ ہوئی پہاڑی خطہ بہت پیچھے رہ گیا یہ دن بھی گزر گیا اور ایک اور رات آئی حبشیوں کو پڑاؤ کرنے کو کہا گیا وہ کھا پی کر صحرا میں بکھر گئے اور بے سدھ سوگئے آدھی رات کے وقت ان کے پچھلے حصے پر العادل کے ایک چھاپہ مار گروہ نے شب خون مارا گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے اور غائب ہوگئے حبشیوں میں ہڑبونگ مچ گئی بہت دیر بعد ایسا ہی ایک اور ہلہ آیا جو بہت سے حبشیوں کو روندتا کچلتا نکل گیا القند سب سے آگے تھا اسے اطلاع ملی تو اس نے اگلے روز کی پیش قدمی روک دی یہ شب خون بتاتے ہیں کہ ہم مصری فوج کی نظر میں آگئے ہیں اس نے صلیبی اور سوڈانی کمانڈروں سے کہا یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا خصوصی طریقہ جنگ ہے ہم اب آگے نہیں بڑھ سکتے تم ہزار جتن کرو مصری فوج سے تم کھلے صحرا میں لڑ نہیں سکتے اور اب تم بھاگ بھی نہیں سکتے اب پیچھے چلو اور پہاڑیوں میں لڑو ہمارا تمام تر منصوبہ ناکام ہوچکا ہے قاہرہ والے نہ صرف بیدار ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے فوج بھیج دی ہے کیا ہم صحرا میں مصری فوج کو ڈھونڈ کر اس سے لڑ نہیں سکتے؟
ایک صلیبی نے کہا اگر تم لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کو سامنے لاکر لڑا سکتے تو آج مصر تمہارا ہوتا القند نے کہا میں اسی فوج کا سالار ہوں تم مجھ سے بہتر نہیں سمجھتے کہ اس فوج سے کیسے لڑنا ہے
سحر کے وقت حبشیوں کی فوج واپس چل پڑی ہر طرف حبشیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں القند ٹھیک کہتا تھا کہ اس کی فوج مصری فوج کی نظر میں آگئی ہے مصری فوج کا دیکھ بھال کا انتظام القند کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا وہ حبشیوں کی فوج کو پیچھے لے چلا تو العادل فوراً سمجھ گیا کہ القند پہاڑیوں میں لڑنا چاہتا ہے اس نے اسی وقت سوار تیر انداز دستے دور کے راستے سے پہاڑی خطے کی طرف روانہ کردئیے پیادہ دستے بھی بھیجے گئے اور اس نے زیادہ تر دستے اپنے پاس روکے رکھے ان دستوں کے ساتھ وہ حبشی فوج سے بہت فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے چل پڑا راستے میں رات آئی حبشیوں کا پڑاؤ ہوا رات کو العادل کے چھاپہ مار دستے حرکت میں آئے حبشیوں کے ایک جیش کو بیدار رکھا گیا تھا یہ تیر انداز تھے انہوں نے بہت تیر چلائے جن سے کچھ سوار چھاپہ مار شہید ہوئے لیکن وہ جو نقصان کرگئے وہ بہت زیادہ تھا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ حبشیوں کا لڑنے کا جذبہ مجروح ہوگیا تھا وہ کچھ اور سوچ کر آئے تھے وہ آمنے سامنے لڑنے کے عادی تھے مگر یہاں دشمن انہیں نظر ہی نہیں آتا تھا وہ تباہی بپا کرجاتا تھا اس کے علاوہ آگے بڑھتے بڑھتے پیچھے ہٹ رہے تھے اگلے دن حبشیوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں دیکھیں اور پیچھے کو چل پڑے سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی جب وہ پہاڑی خطے میں داخل ہوئے لیکن اب انہیں پہلے کی طرح ایک جگہ جمع نہیں کرنا تھا بلکہ پہاڑیوں کے اوپر نیچے اور وادیوں میں لڑنے کی ترتیب میں رکھنا تھا ان کی آدھی نفری پہاڑیوں میں پہنچ چکی تھی جب ان پر بلندیوں سے تیر برسنے لگے العادل کے برق رفتار دستے پہلے ہی وہاں پہنچ کر مورچہ بند ہوگئے تھے حبشیوں کے کمانڈروں نے چیخ چلا کر انہیں اوٹ میں کہا اور تیر اندازی کا حکم دیا باقی نصف فوج ابھی باہر تھی اسے پیچھے ہٹایا گیا القند نے اس نفری کو پہاڑیوں پر چڑھا کر آگے جانے اور اوپر سے تیر چلانے کی چال چلی مگر حبشی ابھی پہاڑوں پر چڑنے ہی والے تھے کہ ادھر سے العادل کی فوج جو ان کے عقب میں جارہی تھی پہنچ گئی حبشیوں کی خاصی نفری بلندیوں پر جانے میں کامیاب ہوگئی جہاں سے حبشیوں نے نہایت کارگر تیر اندازی کی العادل کو نقصان اٹھانا پڑا مگر اس کی سکیم اچھی تھی اس نے ادھر سے دستے پیچھے ہٹا لیے اس کی پہلی ہدایات کے مطابق دوسری طرف سے تیر انداز اور دیگر دستے پہاڑی خطے کی بلندیوں پر جارہے تھے
سوار دستوں میں ایک کو دریا کے کنارے بھیج دیا گیا
اسوان کے اس سلسلہ کوہ میں خونریز معرکہ لڑا گیا وادیوں پر تیر برس رہے تھے پھر سوار دستوں کو وادیوں میں ہلہ بولنے کا حکم ملا رات کو حبشی تو دبک گئے لیکن العادل نے منجنیقوں کے دستوں کو حکم دیا کہ وہ جگہ جگہ آتش گیر مادے کی ہانڈیاں پھینک کر آگ کے گولے پھینکیں تھوڑی دیر بعد پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر آگ کے شعلے اٹھے اور ہر طرف روشنی ہوگئی اس روشنی میں رات کو بھی معرکہ جاری رہا صبح کے وقت حبشی خاموش ہوچکے تھے ان میں سے کچھ زمین دوز محلات میں چلے گئے تھے انہیں بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا
دن کے وقت القند کی لاش مل گئی وہ کسی کے تیر سے یا تلوار سے نہیں اپنی تلوار سے مرا تھا اس کی اپنی تلوار اس کے دل کے مقام پر اتری ہوئی تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے خودکشی کی ہے چند ایک صلیبی اور سوڈانی کمانڈر زندہ پکڑے گئے اور حبشی جنگی قیدیوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی العادل نے وہیں سے قاصد کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام کامیابی کا پیغام دے کر روانہ کردیا اور اسے حکم دیا کہ بہت جلدی سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچو وہ بہت پریشان ہوں گے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تجھے اس سے ملنا ہی ہوگا ہمارے لشکر کا سردار نہیں سپہ سالار ہوتا ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں تجھے اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں ، ہمارا لشکر یہاں قیام کیے ہوئے ہے ہم کسی پر شک تو نہیں کیا کرتے لیکن شک رفع کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں تجھ جیسے بزرگ پر بھی شک نہیں کروں گا لیکن بظاہر بے ضرر اور بے کار سے آدمی دراصل دشمن کی آنکھ اور کان ہوا کرتی ہیں کیا تو میرے سپہ سالار کے پاس جائے گا؟،،،
میری ایک بات سمجھنے کی کوشش کر بیٹا!،،،، بوڑھے نے کہا ۔۔۔اگر تیرا سپہ سالار فرعون جیسا ہے یا فارس کے آتش پرست بادشاہوں جیسا ہے یا رومی ہرقل جیسا بادشاہ ہے تو وہ تجھے حکم دے گا کہ اس بوڑھے کو گھسیٹ کر پیش کرو ،وہ یہاں ہمارے درمیان بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ اور اگر وہ اس جیسا سردار ہے جس کا مجھے ایک صدی سے انتظار ہے تو جا اسے بتا اور وہ خود میرے پاس آئے گا یا اسے بتا کہ وہ تیرے ہی انتظار میں بیٹھا ہے۔
بوڑھے کی اس بات سے اور یہ بات کہنے کے انداز سے مجاہد کچھ ایسا مرعوب ہوا کہ اس کے دل میں تقدس سا پیدا ہو گیا۔ اسے شک پھر بھی رہا۔ لیکن اس کا تقدس اس شک پر حاوی ہوگیا ۔ وہ اٹھا اور باہر کو چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہد جب باہر شفّاف چاندنی میں نکلا تو اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ روحوں کے دیس میں چلا گیا تھا۔ اس ہیبت ناک کھنڈر کا اس پر جو خوف طاری ہوا تھا وہ کھنڈر کے اندر ہی نکل گیا تھا اس نے یہ بھی محسوس کیا جیسے یہ سفید ریش جھریوں بھرے چہرے والا بزرگ اس دنیا کا زندہ انسان نہیں، کیونکہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے اندر گیا تھا اس لئے اس نے اس شک کو فراموش نہ کیا کہ اس بوڑھے کے پاس گاؤں کے جو آدمی آتے ہیں ان میں کوئی جاسوس ہوسکتا ہے ۔ بہرحال اس نے اپنی گشت کا وقت پورا کیا اور اپنے کمانڈر کو جگا کر بتایا کہ اس کھنڈر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا ہے اور اس کے پاس گاؤں کے کچھ لوگ آتے ہیں۔ مجاہد نے کمانڈر کو بوڑھے کی کچھ باتیں بھی سنائیں۔
فجر کی نماز کا وقت ہو گیا کھنڈرات کے اس شہر میں اذان کی مقدس آواز اٹھی اور کھنڈروں میں سے صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اللہ کی آواز کھنڈروں میں سے گھوم پھر کر روحوں کو بھی بیدار کر رہی ہو اور مصر کے اس صحرا میں پھیلتی جا رہی ہو۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے امامت کے فرائض ادا کئے نماز کے بعد کمانڈر نے اپنے دستے کے سالار کو رات کے مجاہد کی رپورٹ سنائی اور سالار نے عمرو بن عاص تک یہ بات پہنچا دی۔
اتنی دور پردیس میں ذرا ذرا سا شک بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمرو بن عاص نے رات کی ڈیوٹی والے مجاہد کو طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ پوری بات سنائے۔
مجاہد نے بوڑھے کا ایک ایک لفظ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو سنایا اور اس وقت اس کے جو اپنے تاثرات تھے وہ بھی بیان کیے۔
عمرو بن عاص نے جب بوڑھے کہ یہ الفاظ سنے کے تیرہ سردار فرعون ہرقل جیسا بادشاہ نہ ہوا تو وہ خود میرے پاس آئے گا۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ میں ابھی اس کے پاس چلوں گا۔
مجھے وہاں لے چل ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے رات والے مجاہد سے کہا ۔۔۔اور سالار سے کہا۔۔۔ اس بوڑھے کے لئے کچھ کھانے کا سامان ساتھ لے چلو۔
کچھ ہی دیر بعد عمرو بن عاص کمک کے سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجاہد کی رہنمائی میں اس کھنڈر میں داخل ہورہے تھے جس میں وہ بوڑھا بیٹھا عبادت کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے دو مجاہد بوڑھے کے لئے دودھ اور کھانے کی کچھ اشیاء اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ جب سپہ سالار بوڑھے کے کمرے میں داخل ہوئے اس وقت بوڑھا لاٹھی کے سہارے کمرے میں یوں ٹہل رہا تھا کہ بڑی مشکل سے پاؤں گھسیٹتا اور آگے رکھتا تھا ۔ صبح کا اجالا دو بے کواڑ کھڑکیوں میں سے اندر آ رہا تھا لیکن چھوٹی سی مشعل پھر بھی چل رہی تھی ۔ بوڑھا اس پارٹی کو دیکھ کر رک گیا۔
تجھ پر اللہ کی سلامتی ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے بوڑھے سے کہا۔۔۔ تو نہ کہتا تو بھی میں تیرے پاس آ جاتا۔
تو بادشاہ معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ بوڑھے نے روک کر کہا۔۔۔ مصر کی مٹی تیرے قدموں کی منتظر تھی آجا میرے پاس اس زمین پر بیٹھ جا۔۔۔۔بوڑھا قدم گھسیٹتا وہاں تک جا پہنچا جہاں وہ رات بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے پاس زمین پر ہاتھ مارا جو عمرو بن عاص کے لیے اشارہ تھا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ۔
عمرو بن عاص نے اشارہ کیا تو مجاہدین آگے بڑھے اور دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں بوڑھے کے آگے رکھ دیں، پھر عمرو بن عاص، اور زبیر بن العوام اس کے پاس بیٹھ گئے، مجاہدین پیچھے ہٹ کر کچھ دور جا بیٹھے،
پہلے اپنے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تو کب سے یہاں پڑا ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ اور تیرے پاس کون آتا ہے؟
پہلے مجھے اس کا شکر ادا کرنے دے جس نے مجھے زندہ رکھنے کے لئے یہ نعمتیں تیرے ہاتھ بھیجی ہیں۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ پھر تجھے پہلے اس شہر کے عروج و زوال کی بات سناؤں گا کہ تو عبرت حاصل کرے کہ ایک طاقت اور ہے جو نظر نہیں آتی اور وہی طاقت انسان کو بلندیوں تک پہنچا کر پستیوں میں پھینک دیتی ہے، لیکن ہر کسی کو نہیں میں نے رات تیرے اس آدمی سے کہا تھا کہ وہ فرعون کہاں ہے جو خدا بن بیٹھے تھے، سن سپہ سالار تو نے اس زمین کا احترام کیا تو آسمان کی بلندی تک پہنچے گا اور اگر تو نے یہ کہا کہ تو خود ہی آسمان کی بلندی تک پہنچ گیا ہے تو اس زمین کے نیچے جاکر گم ہوجائے گا۔
تو عبادت کس کی کرتا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے بوڑھے کا مذہب اور عقیدے معلوم کرنے کے لئے پوچھا۔
اپنی ۔۔۔۔بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میں اپنی ذات کی عبادت کرتا ہوں حیران مت ہو سپہ سالار تو اسے خدا کہہ لے، کچھ کہہ لے، جو کچھ بھی ہے وہ میری اپنی ذات میں ہے اپنی ذات سے یہ مراد نہیں کہ سب مجھے لائق عبادت سمجھیں ۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں ۔کیا تو میرے اس عقیدے کو پسند نہیں کرے گا کہ میں کسی بت کی عبادت نہیں کرتا؟ میں آگ کی عبادت نہیں کرتا ۔اور میں نے اپنا کوئی خدا نہیں بنا رکھا ۔لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مذہب ابھی تک میرے سامنے نہیں آیا جو مجھے یہ بتائے کہ عبادت کے لائق کون ہے؟ اتنا جانتا ہوں کہ وہ خدا ہے یا جو کوئی بھی ہے وہ بندوں کو نظر نہیں آتا۔ نظر آنا بھی نہیں چاہیے۔
مجھ سے سن وہ کون ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہمیں ایسے ہی نظر نہ آنے والے خدا نے بھیجا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو گمراہی سے نکالو اور انہیں بتاؤ کہ میں اپنے ہر بندے کی ذات میں موجود رہتا ہوں، اور یہ بھی بتاؤ کہ سدا بادشاہی میری ہے کسی بندے کی نہیں اور بندہ بندوں کو غلام نہیں بنا سکتا۔
یقین ہو چلا ہے کہ میں تیرے ہی انتظار میں زندہ ہوں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں نہیں مصر کی مٹی تیرے انتظار میں تھی۔ لیکن مت سوچنا کہ تیری ذات کا انتظار تھا ۔اپنے آپ کو اس خدا کا قاصد سمجھ اور اس نے جو پیغام دے کر تجھے بھیجا ہے اس پر دھیان رکھ اور گمان میں نہ رہنا کہ اب کوئی موسٰی آئے گا ۔فرعون کو موسٰی نے نیل میں ڈبو دیا فرعون کو نہیں بلکہ فرعونیت کو ، اپنے آپ کو موسٰی سمجھ کہ مصر سے فرعونیت ابھی گئی نہیں۔
تیری عمر کتنی ہوگی اے بزرگ !،،،عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔عمر کی مت پوچھ بوڑھے نے جواب دیا لگتا ہے یہ دنیا وجود میں آئی تھی تو میں بھی اس کے ساتھ آ گیا تھا اور اس وقت دنیا سے رخصت ہونگا جب یہ دنیا رخصت ہو جائے گی جہاں تک یاد کام آتی ہے میری عمر ایک سو سے بیس پچیس سال اوپر ہو گی بڑی بڑی بستیاں بستے اور اجڑتے دیکھی ہیں۔
عمرو بن عاص اور تمام مسلمان جوتش اور نجوم یا کسی بھی ایسے علم کے پیشنگوئیوں کے قائل نہیں تھے ،عقیدہ یہ تھا کہ غیب کا حال احوال صرف اللہ جانتا ہے پھر بھی کسی خیال سے عمرو بن عاص نے اس بوڑھے سے پوچھا کیا وہ پیشن گوئی کرنے کا علم رکھتا ہے۔
نہیں اے سپہ سالار۔۔۔ بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایسا کوئی علم نہیں دنیا دیکھی ہے اور وہی کہتا ہوں جو دیکھا ہے، اور دیکھ رہا ہوں، گمراہ کو دیکھ کر کون پیشنگوئی نہیں کرسکتا کہ یہ شخص تباہی کے گڑھے میں گرے گا، اور جن کے اعمال نیک اور بنی نوع انسان کی محبت کے حامل ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی بھی شخص پیشن گوئی کرسکتا ہے کہ یہ سب سے بلندیوں کی طرف جا رہا ہے،،،،،،،،میں سمجھتا ہوں تو نے یہ کیوں پوچھا ہے،،،،، میں تجھے پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ تیرا یہاں میرے پاس آنا اور اس مٹی پر میرے ساتھ بیٹھنا اس امر کی دلیل ہے کہ فتح تیری ہوگی۔ اور تونے اسے اپنی ذاتی فتح سمجھ کر خود ہی انعام حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر پیشنگوئی الٹ جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس شہر کے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔
آہ یہ شہر ۔۔۔۔بوڑھے نے کہا یہ شہر عظمت کی یادگار بھی ہے اور عبرت کا نشان بھی، لگتا ہے جیسے یہ شہر فرعونوں نے میری آنکھوں کے سامنے آباد کیا تھا اور اس کی عمارتوں اور شاہانہ مکانوں میں اپنی پوری شہنشاہیت اور قدرت کا تمام تر حسن سمو دیا تھا۔ انہوں نے اس شہر کا نام مدینۃ الشمس رکھا تھا ۔ مجھے اس شہر کے جو بن اور عروج کا قصہ میرے آباء و اجداد نے اورانہیں ان کے آباؤ اجداد نے سنایا تھا ۔میرے باپ دادا مذہبی پیشوا تھے اور مذہبی پیشوائی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن آگے چل کر میں عقیدوں میں الجھ گیا اور کچھ عرصہ تو یوں گزرا کے سمجھ نہ سکا کہ عبادت کرو تو کس کی کروں،،،،،،یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں تجھے اس شہر کی داستان سنا رہا ہوں،،،،،، جانے دے اس بات کو کہ یونانی یہاں کب اور کیسے آئے ، میں صرف یہ بتاتا ہوں کہ یہ شہر مختلف علوم کا مرکز بن گیا تھا۔ یونان کے مشہور فلسفی افلاطون، ارسطو ،اور سقراط اسی شہر میں آکر علم و فضل سے فیضیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسفے اور ہیئت کی تعلیم یہیں سے حاصل کی تھی۔ عجیب بات سن فرعونوں کا زوال شروع ہوا تو اس شہر کا عروج شروع ہو گیا فرعونیت پر نزع کا عالم طاری ہوا تو اس شہر میں مختلف مذہبوں اور مذہبی عقیدوں کی عبادت گاہیں ابھرنے لگی، مینار اور گنبد نظر آنے لگے اور ان سے شہر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ،مختلف مذہبی شخصیتوں نے یہاں کے مدرسوں سے تعلیم پائی تھی اور سارے مصر میں اور اردگرد کے ممالک میں پھیلائی،،،،، فارس کے آتش پرستوں نے یہاں اپنے آتشکدے بنائے لیکن رومیوں نے آکر انہیں مصر سے بے دخل کردیا اور اپنے ساتھ عیسائیت لائے، اہل مصر نے عیسائیت قبول کرنی شروع کردی اور آتشکدوں اور دیگر عبادت گاہوں کی جگہ گرجے ابھرنے لگے،،،،، یہاں سے اس شہر کی تقدیر الٹے پاؤں چل پڑی، وجہ یہ ہو گئی کہ یہاں جو بھی عقیدہ پھیلا وہ لوگوں نے متاثر ہو کر قبول کر لیا تھا ،لیکن رومیوں نے یہاں بزور شمشیر عیسائیت پھیلائی آج بھی دیکھ لے۔ یہ مت سمجھ کہ میں یہاں اس کھنڈر میں بیٹھا ہوں اور مجھے باہر کی کوئی خبر نہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے،،،،،
، آج بھی دیکھ لے رومی بادشاہ ہرقل نے اپنی ہی عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور ایسے ظلم و ستم سے اسے پھیلا رہا ہے کہ سنو تو جگر کانپ اٹھتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہ کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں،،،،،،، رومیوں نے یہاں آتے ہی اس شہر سے عبادتگاہوں کو اجاڑنا شروع کردیا تھا۔ بڑے خوبصورت بت اور حسین مورتیاں اٹھا کر لے گئے ،کیا تو مانے گا کہ انھیں کوئی مینار اچھا لگا تو وہ سالم کا سالم اکھاڑ کر لے گئے ۔ بے انداز کتابیں جو علوم کا خزانہ تھیں یہاں سے اٹھا لیں کچھ جلائی اور کچھ روم بھیج دیں ۔مختصر یہ کہ انہیں یہاں جو کچھ بھی اچھا لگا وہ اٹھایا اور بحیرہ روم سے پار روم بھیج دیا ۔ یوں کہہ لیں کہ رومیوں نے اس اتنے حسین اور عظیم شہر کا وہی حال کردیا جو گدھ اور لومڑیاں مردار کا کیا کرتی ہیں،،،،،، انہوں نے علوم کا یہ سرچشمہ بند کردیا تو اس شہر کی رونقیں ہی مانند پڑ گئیں۔ باہر سے علم کے شیدائیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ یونانیوں نے اس شہر کا نام پہلے ہیلو بولیس رکھا تھا لیکن رومیوں نے اس کا نام بدل کر عین الشمس رکھ دیا ۔ اب لوگ اسے عین شمس کے کھنڈر کہتے ہیں۔ آج دیکھ اس شہر کی زنگ آلود دیواریں جھکی ہوئی چھتیں، اور دیمک کے کھا ہوئے کواڑ والے دروازے، اس شہر کی عظمت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ میں تجھے اس شہر کی نہیں بلکہ بادشاہوں کے عروج و زوال کی بات سنا رہا ہوں،،،،،،،،،، اس داستان سے میں نے عرق نکالا ہے اور اس کے زیر اثر کبھی کا پیش گوئی کر رہا ہوں کہ ایک لشکر آ رہا ہے جو طوفان بادوباراں کی طرح سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ اور ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔عروج اسی کو حاصل ہوگا جو ایک ایسا عقیدہ لائے گا جو کسی انسان کی تخلیق نہیں ہو گا بلکہ اس کی تخلیق ہو گا جو انسان کا خالق ہے۔ تیرا لشکر طوفان بادوباراں کی طرح یہاں پہنچا ہے میں سب کچھ سن چکا ہوں یہ بھی معلوم ہے کہ رومیوں کے مقابلے میں تیرے پاس طاقت ہے ہی نہیں لیکن سوچ ، تو نے شاید سوچا بھی ہوگا کہ تیرے ساتھ کوئی ایسی قوت ہے جو رومیوں کی جنگی قوت کو روندتی تجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں سے اس خوش فہمی میں نہ پڑ جانا کہ اب تو فتح ہی فتح ہے ۔کسی بھی قلعے کو اپنا سمجھ جب تو اپنا جھنڈا اس پر گاڑ دے گا ۔ یہ مت سوچ کے یہ قلعہ تو بس اپنے ہاتھ آ یا کے آیا۔ یہ بھی یاد رکھ کہ تو آیا نہیں بھیجا گیا ہے۔
جس نے مجھے بھیجا ہے اسے ہم اللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کی جاہ و حشمت کے لیے نہیں لڑتے ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے اوراسکاپیغام ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے لڑتے ہیں ہمارا نصب العین بنی نوع انسان کی نجات ہے ۔
بوڑھے نے کہا: "جا فتح تیری ہے۔۔"
سپہ سالار عمرو بن عاص اور سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہا وہاں سے اٹھے سپہ سالار نے حکم دیا کہ جب تک ان کا لشکر ان کھنڈرات میں ہے اس بزرگ کا کھانا ہمارے ذمے ہوگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر بابلیون میں مقوقس کے یہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ اس نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ مسلمان اور آگے آ جائیں تو انھیں گھیرے میں لے کر ختم کردیا جائے لیکن اس کا یہ پلان بری طرح ناکام ہوا اور اطربون جیسا جرنیل مارا گیا ۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ رومی فوج کو اتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا جس کی مقوقس کو توقع نہیں تھی، اور اس کے ساتھ نقصان یہ کہ جو فوج زندہ تھی اس کا لڑنے کا جذبہ بری طرح مجروح ہو گیا تھا۔
اس فوج میں وہ دستے بھی تھے جو شام میں مسلمانوں سے نہیں لڑے تھے شام سے بھاگ کر آنے والے فوجیوں نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمان کس بے جگری اور بے خوفی سے لڑتے ہیں اب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تو انہیں یقین آیا کہ مسلمان تو اس سے زیادہ نڈر اور بے خوف ہیں جتنا انہیں بتایا گیا تھا۔ ذہنی طور پر یہ فوج شکست قبول کرچکی تھی۔
مقوقس پر دوسری چوٹ یہ پڑی تھی کہ ہرقل نے اسے مسلمانوں کی فتوحات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے بڑا سخت پیغام بھیجا اس پیغام کے جواب میں مقوقس نے ہرقل کو ایسا ہی پیغام بھیجا اور اس پر شام کی شکست کی طنز بھی کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا کہ مورخوں کے مطابق ہرقل اور مقوقس کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت پیدا ہو گئی تھی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مقوقس نے ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے مشورے سے اپنا ایک خاص آدمی قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھیجا تھا کہ بنیامین قیرس سے ملے اور مسلمانوں کی پسپائی کا کوئی بندوبست کیا جائے۔
مقوقس کا یہ آدمی بنیامین تک پہنچ گیا تھا اس نے مقوقس اور قیرس کی ہدایت کے مطابق بنیامین کو تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے مقوقس اور قیرس پر کیا الزام عائد کیے ہیں۔ اور یہ دونوں ہرقل کے خلاف ہوگئے ہیں پھر اس آدمی نے بنیامین کو یقین دلایا کہ قیرس نے اسے نیک نیتی سے بلایا ہے اور ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی ملاقات کی خبر ہرقل کو نہیں ملے گی کیونکہ اس ملاقات کا واحد مقصد عیسائیت کا تحفظ اور فروغ ہے۔ اور مسلمانوں کا راستہ روکنا بھی مقصود ہے۔
بنیامین اصل عیسائیت پر قربان ہوا جا رہا تھا اور اصل عیسائیت کو ہی بحال کرنا چاہتا تھا۔ اصل عیسائیت پر اس نے اپنا ایک بھائی قربان کردیا تھا۔ بنیامین مقوقس کے اس آدمی کے ساتھ ہی آ گیا اور جب مسلمانوں کا لشکر ام دنین کی طرف بڑھ رہا تھا بنیامین بابلیون میں قیرس اور مقوقس کے پاس پہنچ گیا۔
مقوقس اور قیرس نے اس کا استقبال بڑے ہی خلوص سے کیا۔ اور اسے پہلا یقین یہ دلایا کہ یہ ملاقات خفیہ ہوگی اور اگر بنیامین نے اس ملاقات کو ناکام کیا تو بھی اسے بحفاظت واپس بھیج دیا جائے گا۔ بنیامین اور قیرس کی یہ ملاقات تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ بعض یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کا باعث یہ تھا کہ قبطی عیسائی ان کے ساتھ مل گئے تھے اور انہوں نے رومی فوج کو زمین دوز طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا تھا ۔
یہ محض بے بنیاد بات ہے مصر میں مجاہدین اسلام کو اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہیں تھی۔
بنیامین جب بابلیون پہنچا تو مقوقس نے قیرس سے کہا کہ وہ دونوں الگ بیٹھ کر بات کریں اور اس میں وہ خود دخل انداز نہیں ہو گا۔ مقوقس اور قیرس کا مقصد یہ تھا کہ قبطی عیسائی رومی فوج کے ساتھ ہو جائیں قیرس نے بنیامین کے آگے یہی مقصد رکھا اور کہا کہ عیسائیت کو بچانا اور اسلام کا راستہ روکنا ہے۔
بنیامین زیادہ زور اس بات پر دیتا تھا کہ جب تک ہرقل زندہ ہے وہ اپنی عیسائیت سے دستبردار نہیں ہو گا نہ کسی کو دستبردار ہونے دے گا۔ قیرس نے اسے بتایا کہ ہرقل اب اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ مقوقس نے یہاں تک کہا کہ ہرقل نے بے جا دخل اندازی کی تو اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ مصر سے دستبردار ہو جائے۔ اور اپنی عیسائیت کو سنبھال کر رکھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس نے ان دونوں مذہبی پیشواؤں کو الگ بیٹھ کر بات کرنے کو کہہ دیا لیکن انہیں یہ نہ بتایا کہ وہ خود کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے ہرقل کو بلبیس کے قلعے کی فتح کی خبر سنا دی تھی ،اور پھر یہ خبر سنائی کہ مسلمان نیل تک پہنچ گئے ہیں۔ اور اطربون کے بعد اس کا ایک اور منظورنظر جرنیل حنّابھی مارا گیا ہے۔ مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل کیا ہو گا۔ مقوقس کو یہ بھی شکایت تھی کہ ہرقل بزنطیہ سے مصر کے لیے امدادی فوج نہیں بھیج رہا اتنی شکستوں کے بعد مقوقس کو یہ توقع تھی کہ ہرقل اسے مصر کی فرمانروائی سے معزول کر دے گا ۔ اس کے علاوہ مقوقس کو ہرقل سے توقع تھی کہ قبطیوں کو اپنا دشمن بنائے رکھے گا اور اپنی عیسائیت کو نہیں چھوڑے گا ۔ اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ کسی بھی وقت قبطی بنیامین کے اشارے پر بغاوت کر دیں گے۔
بنیامین اور قیرس الگ بیٹھے گفت و شنید کر رہے تھے مقوقس نے اپنے جرنیل تھیوڈور کو بلایا اور اپنے خاص کمرے میں جابیٹھا ،تھیوڈور کے ساتھ مقوقس کی رازداری تھی ،اب بازی تھیوڈور کے سر تھی، وہ اور مقوقس مزید شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
تھیوڈور !،،،،،مقوقس نے کہا ۔۔۔بنیامین اور قیرس کو میں نے الگ بٹھا دیا ہے لیکن میں سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہرقل ہمارے سروں پر موجود ہے ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ،اور ایک روز مسلمان سارے مصر پر چھا جائیں گے اور ہرقل اس کا الزام ہمارے منہ پر تھوپ دے گا۔
میں ساری صورتحال سے واقف ہوں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ بتائیں کہ اس کا حل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہرقل کو معزول کر دیں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہاں اس کے حامی فوج میں موجود ہیں وہ ہم دونوں کو یا مجھے قتل کروا دیں گے، دوسری صورت زیادہ بہتر ہے وہ یہ کہ ہم ہرقل کو قتل کروا دیں۔
جرنیل تھیوڈور نے سر جھکا لیا جیسے گہری سوچ میں کھو گیا ہوں مقوقس اسے کچھ دیر دیکھتا رہا آخر تھیوڈور نے سر اٹھایا اور آہستہ آہستہ سر اوپر نیچے ہلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مقوقس سے اتفاق کرتا ہے۔
کام خطرناک بھی ہے آسان بھی نہیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ اس کا انتظام کیا ہوگا؟
میں انتظام کر چکا ہوں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ دو آدمی تیار کرلیے ہیں ان کے ساتھ ایک ایسی خوبصورت اور ہوشیار لڑکی جائے گی کہ اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہرقل نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی یہ لڑکی میں تحفے کے طور پر ہرقل کو بھیج رہا ہوں اسے میرے اپنے دو قابل اعتماد آدمی لے جائیں گے اس کام کے لئے میں نے انہیں ایک خزانہ پیش کیا ہے۔
کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ تھیوڈور نے پوچھا۔۔۔۔ ظاہر ہے لڑکی کم عمر ہو گی وہاں جاکر ڈر ہی نہ جائے۔
قتل خنجر یا تلوار سے تو نہیں کرنا ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔۔ ہرقل کی شراب میں زہر ملانا ہے جو یہ لڑکی آسانی سے ملا دے گی میں نے لڑکی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ہرقل کس طرح شراب پیتا ہے۔ اور اس دوران کیا کرتا ہے اور لڑکی کس طرح موقع پیدا کرکے ذرا سا زہر اس کے گلاس میں ڈال دے ، زہر اتنا تیز ہے کہ اس کے چند ذرے شراب میں پڑ گئے تو کام کر دیں گے۔
احتیاط تو آپ کرینگے ہی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ ایک احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے، یہ جو دو آدمی ساتھ جا رہے ہیں انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔
مقوقس نے اسے بتایا کہ اس نے یہ احتیاط خاص طور پر پیش نظر رکھی ہے انہیں وہ نہایت معمولی قسم کے لوگوں کے لباس میں بھیج رہا تھا ،لڑکی کو بھی کسی غریب آدمی کی بیٹی کے لباس میں بھیجنا تھا اور چہرے پر نقاب رکھنا تھا،،،،،، مقوقس نہ جانے کب سے ہرقل کے قتل کا پلان بنا رہا تھا اور اب اس نے عملدرآمد کا پکا فیصلہ کر لیا تھا ۔
اس نے تھیوڈور کو بتایا کہ دونوں آدمیوں اور اس لڑکی کو وہ دو بار ریہرسل کروا چکا ہے۔ تھیوڈور نے اس کی تائید ہی نہ کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔
اس کے بعد دونوں نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا کہ وہ اس راز کو راز ہی رکھیں گے اور ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیں گے۔
ادھر بنیامین اور قیرس عیسائیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متفق ہوگئے۔ بنیامین صرف ہرقل کی ضمانت چاہتا تھا مقوقس نے اسے یقین دلایا کہ ہرقل اس اقدام کو پسند کرے گا ۔ مقوقس نے یہ بھی کہا کہ ہرقل کو عیسائیت سے زیادہ اپنی سلطنت پیاری ہے۔ اسے مصر چاہیے مذہب نہیں۔ قیرس تو پہلے ہی بنیامین کو یقین دلا چکا تھا ۔
تھیوڈور کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ مقوقس کس بنیاد پر ہرقل کی ضمانت دے رہا ہے، وہ تو ہرقل کو اس دنیا سے ہی اٹھا رہا تھا۔
بنیامین یہ وعدہ کرکے رخصت ہوا کہ وہ اپنے مشیروں کو اس فیصلے سے آگاہ کر دے گا۔ اور پھر قبطی فوج میں شامل ہو جائیں گے وہ فوج میں شامل ہوں یا نہ ہوں بغاوت نہیں کریں گے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ذرا سا بھی تعاون نہیں کریں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام کا لشکر عین شمس کے کھنڈرات میں قیام کئے ہوئے تھا کمک پہنچ گئی تھی اور اب سپہ سالار عمرو بن عاص کو آگے بڑھنا تھا وہ زیادہ دیر انتظار کرنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ لیکن لشکر میں زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی تھی ان کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اور توقع تھی کہ کچھ دنوں تک یہ لڑنے کے قابل ہو جائیں گے غوروخوص کرکے یہ بھی طے کرنا تھا کہ اگلا قدم کدھر اٹھایا جائے۔
عین شمس کے کھنڈرات کا شہر ذرا بلندی پر تھا اور دفاعی لحاظ سے یہ موزوں تھا دشمن اچانک حملہ کر دیتا تو اس شہر کی بلندی فائدہ دے سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پانی کثرت سے موجود تھا جس کے ختم ہونے کا امکان نہیں تھا اشیائے خوردنوش کی ایسی افراط کے خوراک کی قلت کا خطرہ تھا ہی نہیں۔
ایک روز عمرو بن عاص نے زبیر بن عوام اور دوسرے تمام سالاروں کو طلب کیا۔
میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔۔ اب بابلیون کا قلعہ بند شہر ہمارے سامنے ہے لیکن وہاں جو رومی فوج ہے اس کا کوئی شمار ہی نہیں ایک تو مفتوحہ قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجی بابلیون میں جا پہنچے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مقوقس اپنی زیادہ سے زیادہ فوج شہر میں لے آیا ہے ظاہر ہے اس شہر کا محاصرہ کرنا ہوگا،،،،،،،، اگر اللہ میری دعا قبول فرما لے تو رومی باہر آکر کھلے صحرا میں لڑائی کریں، دعا کرو میرے بھائیوں اللہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ رومیوں کو قلعے سے باہر لے آئے، اللہ نے ہمیں مایوس تو کہیں بھی نہیں کیا۔۔۔ زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ اگر ہمارے لیے رومیوں کا باہر آ کر لڑنا بہتر ہوا تو اللہ یہ صورت بھی پیدا کر دے گا۔
یہ بات بھی دل میں بٹھا لو میرے رفیقو!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔۔اب ہم مصر کی فتح و شکست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اب ہم کہیں بھی ہار گئے تو ہماری منزل اگلے جہان ہوگی یا ملک شام،،،،،،،،،، میں اپنے اسی اصول کا پابند رہوں گا کہ کہیں بیٹھے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہیں ،دشمن کے سر پر سوار رہیں ،اس اصول نے ہمیں ہر معرکے میں کامیاب کیا ہے۔
ادھر بابلیون میں مقوقس اور تھیوڈور دو تین جرنیلوں کو بٹھائے مسلمانوں کو پسپا کرنے کی اسکیم بنا رہے تھے ۔
مقوقس کہہ رہا تھا کہ ان عربوں نے بابلیون بھی لے لیا تو پھر ان کے کہیں بھی پاؤں نہیں جم سکیں گے۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کسی جگہ کہا تھا کہ ہم کہیں سے پسپا ہوئے تو یاد رکھو دشمن ملک میں ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی ،اور بھاگنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہوگی۔
لیکن بابلیون میں مقوقس یہی الفاظ اپنے جرنیلوں سے کہہ رہا تھا کہ ہم بابلیون سے اکھڑ گئے تو پھر سارے مصر میں ہمیں کہیں بھی جم کر لڑنے کی مہلت نہیں ملے گی، خود اپنے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں پناہ نہیں دیں گے۔
میں مسلمانوں کی چال سمجھ گیا ہوں ۔۔۔جرنیل تھیوڈور نے کہا ۔۔۔افسوس ہے اطربون جیسا تجربہ کار جرنیل نہ سمجھ سکا،،،،،، عربوں کا سپہ سالار پہلے حملے سے ہی اس اصول کا کاربند چلا آرہا ہے کہ اپنی تعداد کو نہ دیکھو، اور حملہ کرنے میں زیادہ دیر نہ کرو ،ایک جگہ بیٹھے نہ رہو، اور دشمن پر اس طرح ٹوٹ پڑو کہ وہ اس حملے کو غیرمتوقع سمجھے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ہر معرکے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ قلعہ بند ہو کر دشمن کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ،محاصرے میں ہمارا طریقہ جنگی رہا ہے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر نکال کر عربوں پر حملہ کرتے ہیں ،عرب ہماری یہ چال سمجھ گئے ہیں اور انہوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔
تم جو چاہتے ہو وہ بیان کرو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم قلعہ بند ہو کر نہ لڑیں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔۔ہم عربوں کو اتنی مہلت دیں ہی نہیں کہ وہ آکر بابلیون کا محاصرہ کر لیں ان کے سپہ سالار کا ایک اصول یہ ہے کہ دشمن کے سر چڑھے رہو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ دل چھوڑ بیٹھے، اور حوصلہ ہار بیٹھے، یہی اصول میں آپ کو دینا چاہتا ہوں آپ نے شاید سنا نہیں کہ مصر کے لوگ ہمیں بزدل اور کمزور کہنے لگے ہیں۔ جو قلعوں کی دیواروں کی پناہ میں بیٹھ کر اپنا دفاع کرتے ہیں،،،،،، اب ہمیں باہر جا کر مسلمانوں کو للکارنا چاہیے۔
یہی دعا سپہ سالار عمرو بن عاص مانگ رہے تھے انہوں نے اپنے دو تین جاسوس بابلیون بھیج رکھے تھے۔ جو دوسرے مفتوحہ شہروں سے بھاگے ہوئے شہریوں کے بہروپ میں وہاں گئے تھے، اللہ ان کی دعا قبول کر رہا تھا۔
مقوقس نے کہا کہ فوج کو شہر سے باہر کھلی جنگ کے لئے تیار کیا جائے اور کوئی پہلو کمزور نہ رہ جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کو جب مسافر گہری نیند سو گئے اور جہاز کے عملے کے وہی آدمی بیدار تھے جنھیں بیدار رہنا تھا ۔اس وقت کپتان اپنے کیبن سے نکلا اور سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں لڑکی لپٹے ہوئے بادبانوں میں چھپی سو رہی تھی۔ کپتان نے لڑکی کے پاؤں کو ہلکی سی ٹھوکر مار کر جگایا لڑکی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
کون ہو تم ؟،،،،کپتان نے بڑے رعب سے پوچھا۔۔۔ یہاں کیوں سو رہے ہو؟
میں جہاز کا مسافر ہوں،،،،،لڑکی نے جواب دیا۔۔۔۔ یہاں کھڑا تھا تو میری آنکھ لگ گئی۔
کپتان نے لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کے سر کا کپڑا اتار دیا لڑکی کے لپٹے ہوئے لمبے بال کھل گئے اور شانوں اور پیٹھ پر بکھر گئے اس کا لباس تو مردانہ تھا لیکن وہ اپنی آواز کو مردانہ نہیں بنا سکتی تھی۔
مجھے دھوکہ دے رہی ہو۔۔۔ کپتان نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ اور اسے باہر گھسیٹ کر کہا۔۔۔ اکیلی ہو یا کوئی آدمی ساتھ ہے؟
کپتان کو معلوم تھا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہیں لیکن وہ ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہیں اور وہ ویسے ہی اس طرف آ نکلا تھا ۔لڑکی نے بتا دیا کہ اس کے ساتھ دو آدمی ہیں، یہ نہ بتایا کہ جہاز کے ہی ایک آدمی نے اسے کرائے کے علاوہ رشوت لے کر مردانہ لباس میں جہاز میں سوار کرایا تھا۔
میں تمہیں سمندر میں پھینک دوں گا۔۔۔ کپتان نے لڑکی کو ایک جھٹکے سے اپنے قریب کرلیا۔۔۔۔۔لڑکی اپنے حسن و جوانی سے واقف تھی اور وہ مردوں کی کمزوری سے بھی آگاہ تھی کپتان نے اسے جب جھٹکے سے اپنے قریب کیا تو وہ دانستہ کپتان کے سینے سے جا لگی اور اپنا ایک بازو کپتان کے گلے میں ڈال دیا پھر اپنا ایک گال کپتان کے گال سے لگا دیا۔
مجھے روشنی میں لے جاکر دیکھو۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اتنی قیمتی چیز کوئی پاگل ہی سمندر میں پھینکتا ہو گا۔
کپتان تو آیا ہی اسے اپنے کیبن میں لے جانے کے لیے تھا، وہ لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے کیبن میں لے گیا، اس نے اس لڑکی کو سرائے میں دیکھا تھا لیکن کچھ دور سے صرف چہرہ دیکھا تھا، اب اسے دیکھا اور اس کے ریشمی چمکدار بال دیکھے تو کپتان کو پتہ چلا کہ یہ تو بہت ہی قیمتی چیز ہے اور ایسی لڑکیاں عموماً کسی بادشاہ کے حرم میں ہی دیکھی جاتی ہیں لڑکی ذرا سی بھی گھبرائی ہوئی نہیں تھی۔
دیکھ لڑکی!،،،،، کپتان نے کہا۔۔۔ یہ عمر مرنے والی نہیں یہ خطرہ میں مول لیتا ہوں اس سفرمیں تم میرے اس کمرے میں رہو گی تیرے لئے میں شہنشاہ ہرقل کا قانون توڑ رہا ہوں۔
کپتان نے شراب نکالی خود بھی پینے لگا اور لڑکی کو بھی دی لڑکی نے بلاتکلف پینی شروع کردی،،،،،، لڑکی نے وہ رات کپتان کے کمرے میں گزاری۔
صبح کپتان لڑکی کے دونوں ساتھیوں سے ملا اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کہا کہ انہوں نے اسے دھوکہ دیا ہے لیکن لڑکی اتنی بھولی بھالی اور معصوم ہے کہ اسے اس پر ترس آ گیا ہے ورنہ اگلی بندرگاہ پر جاکر انہیں گرفتار کرلیا جاتا اور سزا ملتی پھر اس نے کہا کہ لڑکی کو چھپا کر رکھے گا دونوں آدمی چپ رہے انہیں کوئی غم نہ تھا کہ لڑکی جہاز میں کہاں رہتی ہے۔
تین چار دن لڑکی کپتان کے ساتھ رہی اس نے مردانہ لباس اتار دیا تھا کپتان اسے نہایت اعلی قسم کا کھانا کھلاتا تھا اور رات شراب بھی پلاتا تھا لڑکی کپتان کے ساتھ پوری طرح بے تکلف ہو گئی ، وہ تو تکلف اور حجاب والی لڑکی تھی ہی نہیں۔
تین چار دنوں بعد ایک رات لڑکی کچھ زیادہ ہی شراب پی گئی ادھیڑ عمر کپتان زندہ دل اور خوش گوار طبیعت آدمی تھا اس نے ایسی فضا پیدا کر دی اور اس کے ساتھ شراب نے اپنا رنگ دکھایا کہ لڑکی آپے سے باہر ہو گئی۔ کپتان نے اسے اپنے ساتھ لگاتے اور کچھ بیہودہ حرکتیں کرتے ہوئے کہا تم جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
تم نے میرا صرف حسن دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے مخمور آواز میں کہا۔۔۔ جب سنو گے کہ ہرقل قتل ہو گیا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میں صرف حسین ہی نہیں بلکہ جس کی چاہوں جان لے سکتی ہوں، خواہ وہ قیصر روم ہرقل ہی ہو۔
کپتان قہقہے لگا کر ہنسا اس کا خیال تھا کہ لڑکی نے یہ بات مذاق میں کہی ہے لڑکی اس کے قہقہے پر سنجیدہ ہو گئی۔
کیا سمجھتے ہو میں مذاق کر رہی ہوں ؟،،،،لڑکی نے کہا۔۔۔ میں ہرقل کو زہر پلانے جارہی ہو یہ جو دو آدمی میرے ساتھ ہیں یہ میرے محافظ ہیں میں واپس مصر پہنچوں گی تو پھر میرے پاس آ کر وہ خزانہ دیکھ لینا جو مصر کا حکمران مجھے دے گا۔
یہ بات سن کر کپتان کچھ سنجیدہ ہوا ۔
تھا تو وہ بھی شراب کے نشے میں لیکن اس ادھیڑ عمری میں آکر شراب اس کی عقل پر حاوی نہیں ہوسکتی تھی، لڑکی عیار اور مکار ہی سہی لیکن نوجوانی کی عمر میں وہ پختہ کار نہیں ہوسکتی تھی، اور شراب کا اس کی عقل پر حاوی ہو جانا قدرتی تھا ۔ نوعمری کی وجہ سے وہ راز فاش کرنے پر اتر آئی تھی۔ اور فخر محسوس کر رہی تھی کپتان نے محسوس کیا کہ لڑکی یہ بات شراب کے نشے میں نہیں کہہ رہی بلکہ کوئی بات ضرور ہے۔ اس نے ذرا بہتر طریقے سے یہ راز لینا چاہا،
ہرقل کو کوئی نہیں قتل کرسکتا۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔ میں خود چاہتا ہوں کہ ہرقل کو قتل کر دیا جائے لیکن مجھے اتنی ہمت نہیں نہ میں ہرقل تک پہنچ سکتا ہوں۔
میں ہرقل تک پہنچنے کے لئے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اور دیکھنا میں کس طرح پہنچتی ہوں۔
کس طرح ؟،،،،،کپتان نے پوچھا۔
تم نے سرائے میں مجھے غریبوں جیسے کپڑوں میں دیکھا تھا۔۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میرا اصل لباس میرے سامان میں ہے وہ لباس دیکھو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ میں کس حیثیت اور معیار کی لڑکی ہوں، میرے ساتھ جو دو آدمی ہیں ان کو بھی پہنے ہوئے کپڑوں سے نہ دیکھنا یہ کوئی معمولی سے آدمی نہیں یہ مقوقس کے خاص اعتماد کے آدمی ہیں، ہم غریبانہ کپڑے پہن کر اس لئے جارہے ہیں کہ کسی کی نظر ہماری طرف نہ اٹھے۔
لیکن میں سوچتا ہوں۔۔۔ کپتان نے کہا۔۔۔تم ہرقل تک پہنچو گے کس طرح؟
نہایت آسانی سے پہنچوں گی۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔یہ دو آدمی مجھے مقوقس کی طرف سے تحفے کے طور پر ہرقل کو پیش کریں گے، مقوقس نے مجھے ہرقل کی عادت بتادی ہے میں اس کی شراب میں تھوڑا سا زہر ملا دوں گی۔
زہر کہاں سے لاؤں گی؟،،،، کپتان نے پوچھا۔
ساتھ لے جا رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ زہر ہمارے سامان میں ہے۔
اس طرح لڑکی نے نوعمری کی نادانی اور شراب کی زیادتی کے زیر اثر اس قدر خطرناک راز فاش کردیا۔ کپتان نے مزید باتیں کرید کر یقین کر لیا کہ لڑکی زیادہ پی جانے کی وجہ سے بے معنی باتیں نہیں کر رہی بلکہ اس کے اندر سے صحیح بات نکل رہی ہے۔ اس لڑکی اور اس کے ساتھ دونوں آدمیوں کی بدقسمتی اور ہرقل کی خوش بختی کی یہ کپتان رومی تھا اور ہرقل کے مداحوں میں سے تھا ،ایسا نہ ہوتا تو بھی کپتان نے انعام واکرام کے لالچ میں فیصلہ کر لیا جو یہ تھا کہ وہ ہرقل تک پہنچے گا اور اسے بتائے گا کہ اس لڑکی کو مقوقس نے تمہیں زہر دینے کے لئے بھیجا ہے۔ اس نے اگلی صبح باہر نکلتے ہی ان دونوں آدمیوں کو بلایا اور پھر اپنے عملے کے دو چار آدمی بلائے انہیں کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو لے جاؤ اور ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں باندھ دو اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو ، جہاز میں ایسے ایک دو کمرے بنے ہوئے تھے جن میں عملے کے ان آدمیوں کو بند کیا جاتا تھا جو جہاز میں کوئی جرم کرتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟞⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسری گہری نیند سوئی ہوئی تھی سازندے نے اسے نہ جگایا اسے معلوم تھا کہ زہرہ کہاں گئی ہے وہ چوکی کے کمانڈر کے پاس ہی جاسکتی تھی اس میں خطرہ یہ تھا کہ کمانڈر اس کے ساتھ آگیا تو اپنے سنتریوں کو غائب پا کر انہیں ڈھونڈے گا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ دریا کے کنارے اس جگہ بھی پہنچ جائے جس جگہ کو اس رات باہر کی دنیا سے چھپا کر رکھنا تھا سازندے نے اپنے دو ساتھیوں کو جگایا اور انہیں بتایا کہ ان کی ایک لڑکی غائب ہے وہ چوکی پر ہی گئی ہوگی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دریا سے دور گھات لگائی جائے اور اگر کمانڈر لڑکی کے ساتھ واپس آرہا ہو تو دونوں کو پکڑ کر اپنے کمانڈر کے حوالے کردیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو دونوں کو قتل کرکے لاشیں دریا میں پھینک دی جائیں پہاڑیوں کے اندر کی دنیا جاگ رہی تھی یہ وسیع وعریض علاقہ تھا جہاں کوئی نہیں جاتا تھا ایک اس لیے کہ یہ جگہ دور دراز اور راستوں سے ہٹ کر تھی اور دوسرا اس لیے مشہور تھا کہ اندر فرعونوں کی بھی بدروحیں رہتی ہیں اور ان کی بھی جو فرعونوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے یہ بھی مشہور تھا کہ بدروحیں آپس میں لڑتی رہتی ہیں اور اگر کوئی انسان اس علاقے میں چلا جائے تو اس کے جسم کا گوشت غائب ہوجاتا ہے اور پیچھے ہڈیوں کا پنجر رہ جاتا ہے یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس پہاڑی خطے کے وسط میں فرعونوں کے بہت بڑے بڑے بت پہاڑیوں کو تراش کر بنائے گئے تھے پہاڑیوں کو اندر سے کھوکھلا کرکے اندر محل جیسے کمرے اور غلام گردشیں بنائی گئی تھیں
اس رات ان زمین دوز محلات میں روشنی ہی روشنی تھی ہزاروں حبشی باہر اس میدان میں جمع تھے جسے ہر طرف سے پہاڑیوں نے گھیر رکھا تھا حبشیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اونچی بات نہ کریں انہیں ان کا خدا دکھایا جانے والا ہے حبشیوں پر خوف اور عقیدت مندی کے جذبات سوار تھے ڈر کے مارے وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں بھی بات نہیں کرتے تھے وہ ان پہاڑیوں اور چٹانوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے انہیں معلوم تھا کہ جس پہاڑی کی طرف وہ منہ کرکے بیٹھے ہیں اس کی نصف بلندی پر ایک بہت بڑا بت ہے یہ ابوسمبل کا بت تھا جس کے متعلق ان حبشیوں کو بتایا گیا تھا کہ ان کے خدا کا بت ہے اور ایک رات یہ خدا ایک انسان کے روپ میں ان کے سامنے آئے گا
اچانک ایسی گرج دار آواز آئی جیسے گھٹائیں گرجی ہوں حبشی پہلے ہی خاموش تھے اس گرج نے ان کی سانسیں بھی روک دیں اس کے ساتھ ہی انہیں ایک آواز سنائی دی خدا جاگ رہا ہے سامنے پہاڑی پر دیکھو اوپر دیکھو یہ آواز بڑی بلند تھی جو پہاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان گونج بن کر کچھ دیر سنائی دیتی رہی فضا میں دو شرارے اڑتے نظر آئے جو سامنے والی پہاڑی کی طرف گئے اور پہاڑی سے جہاں ٹکرائے وہاں سے ایک شعلہ اٹھا ابو سمبل کا بت اس شعلے کے پیچھے اور کچھ اوپر تھا شعلے کی ناچتی تھرکتی ہوئی روشنی بت کے مہیب چہرے پر پڑی تو ایسے نظر آنے لگا جیسے بت آنکھیں جھپک رہا ہو اس کا منہ کھلتا اور بند ہوتا نظر آتا تھا اور یوں بھی لگتا تھا جیسے اس کا چہرہ دائیں بائیں ہل رہا ہو حبشیوں کا یہ سیاہ کالا ہجوم سجدے میں گر پڑا ان کے مذہبی پیشوا سجدے سے اٹھے سب نے بازو پھیلا دئیے ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے بت سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا آگ اور پانی کے خدا ریگستانوں کو جلانے اور دریاؤں کو پانی دینے والے خدا! ہم نے تجھے دیکھ لیا ہے۔ ہمیں بتا کہ ہم تیرے قدموں میں کتنے انسان قربان کریں، مرد لائیں یا عورت ایک مرد ایک عورت پہاڑیوں میں سے آواز آئی تم نے ابھی مجھے نہیں دیکھا میں انسان کے روپ میں تمہارے سامنے آرہا ہوں اگر تم نے میرے دشمنوں کا خون نہ بہایا تو تم سب کو ان پہاڑیوں کے پتھروں کی طرح پتھر بنا دوں گا پھر تم دھوپ میں ہمیشہ جلتے رہو گے تم میں سے جو لڑائی سے بھاگے گا اسے صحرائی ریت چوس لے گی انتظار کرو میرا انتظار کرو خاموشی اور گہری ہوگئی شعلہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا پہاڑیوں میں سے حبشیوں کے مذہبی ترانے کی آواز آنے لگی۔ یہ ان کا وہ گیت تھا جو مذہبی تہواروں پر عبادت کے دوران گایا کرتے تھے بہت سے آدمی مل کر گا رہے تھے اور ساتھ دف بج رہے تھے نیچے بیٹھے ہوئے ہزاروں حبشیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ان میں سے کوئی بھی نہیں گا رہا تھا یہ غیب کی آواز معلوم ہوتی تھی زہرہ چوکی کے کمانڈر کے خیمے میں تھی اس کی باتیں پہلے سے زیادہ جذباتی ہوگئی تھیں اس نے کمانڈر سے کہا اگر میں تمہیں نہ دیکھتی تو باقی عمر ناچتے اور دوسروں کا دل بہلاتے گزار دیتی تمہیں دیکھ کر مجھے یاد آگیا ہے کہ میں بیٹی ہوں رقاصہ اور فاحشہ نہیں یا تم اپنے آپ کو مار لو تاکہ مجھے یقین ہوجائے کہ میرا باپ مرگیا ہے یا مجھے قتل کردو اگر یہ نہیں کرسکتے تو مجھے پناہ میں لے لو اپنے گھر بھیج دو آج مجھے واپس نہ جانے دو تم آج چلی جاؤ کمانڈر نے جواب دیا میں تمہیں چوکی میں نہیں رکھ سکتا میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اپنے گھر بھیجنے کا انتظام کردوں گا اور اگر تم یہاں سے چلی گئی تو مجھے قاہرہ میں اپنا ٹھکانہ بتا دو وہاں آکر تمہیں لے جاؤں گا تھوڑی دیر بعد کمانڈر نے دو گھوڑے تیار کیے اور زہرہ سے کہا کہ چلو چلیں دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چل پڑے راستے میں زہرہ نے کمانڈر سے پوچھا رات کو کشتیاں یہاں کیوں آیا کرتی ہیں؟
کشتیاں؟
کمانڈر نے حیران سا ہوکر پوچھا کدھر سے آتی ہیں؟
ادھر سے اس نے سوڈان کی طرف اشارہ کرکے کہا مجھے اب رات کو نیند کم آتی ہے آدھی رات کو اٹھ کر خیمے سے باہر بیٹھ جاتی ہوں میں نے دو راتیں دیکھا ہے ایک رات تین اور ایک رات دو بادبانی کشتیاں آئیں ان کے سفید بادبان اندھیرے میں بھی نظر آتے تھے آگے جاکر کشتیاں کنارے لگیں مجھے اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی رہیں جیسے ان سے بہت سے لوگ اتر رہے ہوں مجھے کچھ دور درختوں کے پیچھے سائے سے جاتے اور پہاڑیوں میں غائب ہوتے نظر آۓ
تم نے ہمارے دو سپاہیوں کو کبھی نہیں دیکھا؟
کمانڈر نے پوچھا دو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں انہیں دریا کے کنارے موجود رہنا چاہی نہیں زہرہ نے جواب دیا میں نے کبھی کوئی سپاہی نہیں دیکھا دن کے دوران سپاہی آتے ہیں آگے ایک قافلہ اترا ہوا ہے ان کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں ایک روز میں نے ایک سپاہی کو ایک لڑکی کے ساتھ بے تکلفی سے چٹانوں کے پیچھے جاتے دیکھا تھا
زہرہ کو تو علم ہی نہیں تھا کہ سرحدوں پر کیا ہوتا ہے اور کیا ہوسکتا ہے اور سرحدی دستوں کے فرائض کیا ہیں اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رات کو یا دن کو سوڈان کی طرف سے کشتیوں کو آنا چاہیے یا نہیں اس نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا لیکن کمانڈر کے لیے یہ اہم خبر تھی زہرہ اگر صحیح کہہ رہی تھی تو وہ اسے راز کی بات بتا رہی تھی وہ بے شک اس ڈیوٹی اور سرحدی ماحول سے اکتا گیا تھا مگر زہرہ کی باتوں نے اسے بیدار کردیا اس نے زہرہ سے کہا آؤ آج دریا کے کنارے چلتے ہیں اس نے گھوڑے کا رخ موڑ دیا وہ دریا تک پہنچے اور کنارے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے کمانڈر کی نظریں دریا پر تیر رہی تھیں کچھ وقت گزرا تو اسے دریا میں دور ایک لو نظر آئی جو دئیے کی معلوم ہوتی تھی پھر ایک اور لو نظر آئی اور پھر دونوں روشنیاں بجھ گئیں ادھر کنارے پر بھی ایک دیا جلا اور بجھ گیا کمانڈر نے ان گشتی سنتریوں کو آواز دی جنہیں وہاں گشت پر ہونا چاہیے تھا اسے کوئی جواب نہ ملا اس نے اور بلند آواز سے پکارا پھر بھی کوئی جواب نہ ملا اس نے اور زور سے پکارا اسے اب دریا میں دو کشتیوں کے بادبان دکھائی دئیے وہ پریشان ہوگیا وہ زہرہ کی موجودگی کو بھول گیا اور گھوڑے کو کنارے کے ساتھ آگے چلا دیا زہرہ بھی اسی کے پیچھے گئی کمانڈر سنتریوں کو پکار رہا تھا
سنتریوں کو اس کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ چٹانوں کی اوٹ میں بوڑھے خاوندوں کی نوجوان بیویوں کے جال میں پھنسے ہوئے تھے انہوں نے اپنے کمانڈر کی آواز پہچان لی اور وہاں سے اٹھے۔ وہ جب وہاں جاکر اکٹھے ہوئے جہاں وہ اپنے گھوڑے باندھ گئے تھے تو دیکھا کہ دونوں گھوڑے غائب ہیں وہ وہیں رکے رہے انہیں دور دو گھوڑے جاتے دکھائی دئیے کمانڈر آگے جارہا تھا زہرہ کا گھوڑا اس کے پہلو میں تھا انہیں آواز سنائی دی تم جنہیں پکار رہے ہو وہ بہت دور آگے ہیں
تم کون ہو؟
کمانڈر نے پوچھا آگے آؤ ہم مسافر ہیں اسے جواب ملا اور دو گھوڑے کمانڈر کی طرف بڑھنے لگے پھر ایک اور آواز آئی آگے چلیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے کمانڈر نے تلوار نکال لی رات کے وقت مسافروں کا گھوڑوں پر سوار ہونا اور اس علاقے میں ہونا مشکوک تھا وہ دونوں ان کے قریب آگئے ایک نے کمانڈر سے کہا ادھر دیکھو، وہ آرہے ہیں جونہی کمانڈرنے ادھر دیکھا کسی آدمی نے ایک بازو کمانڈر کی گردن کے گرد لپیٹ کر بازو کا شکنجہ تنگ کردیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی تلوار والی کلائی پکڑ لی۔ دوسرے نے لڑکی کو دبوچ لیا کمانڈر کو جس نے پکڑ رکھا تھا اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگا دی گھوڑا تیز چلا تو کمانڈر اپنے گھوڑے سے گرنے لگا اندھیرے سے دو اور آدمی دوڑے آئے انہوں نے کمانڈر کو بے بس کرلیا
یہ سازندے تھے جو دراصل تربیت یافتہ چھاپہ مار سپاہی تھے ان میں سے دو تین زہرہ کے پیچھے گئے تھے اور انہیں راستے میں دیکھ کر اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے تعاقب میں آرہے تھے سنتریوں کے گھوڑوں پر سوار ہوکر آنے والے ان کے ساتھی تھے ان میں سے کسی نے کہا انہیں زندہ لے چلو یہی حکم ملا تھا ک کوئی مشتبہ آدمی نظر آئے تو اسے زندہ لے آؤ کمانڈر اور زہرہ کو جب پہاڑیوں کی طرف لے جایا جارہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ کشتیوں میں سے حبشی سامان اتار رہے تھے۔ یہ جنگی سامان اور رسد تھی
پہاڑیوں میں دور اندر ہزاروں حبشیوں کا ہجوم ابھی تک خاموش بیٹھا تھا شعلہ کب کا بجھ چکا تھا مذہبی گیت کی آوازیں سنائی دے رہی تھی حبشیوں پر طلسم طاری تھا ان کی جذباتی کیفیت کچھ اور ہوئی جارہی تھی وہ اپنے آپ کو ان حبشیوں سے برتر سمجھنے لگے تھے جو سوڈان میں رہ گئے تھے گیت گانے والے خاموش ہوگئے اچانک سامنے پہاڑی پر چمک نظر آئی تھی جیسے بجلی چمکی ہو چمک پھر پیدا ہوئی جو مستقل روشنی بن گئی یہ روشنی ابوسمبل کے چہرے پر پڑ رہی تھی کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ روشنی کہاں سے آرہی ہے یوں لگتا تھا جیسے ابو سمبل کا چہرہ اپنی روشنی سے روشن ہوگیا ہو روشنی بجھ گئی ذرا سی دیر بعد روشنی پھر نظر آئی سب نے دیکھا کہ ابوسمبل کے پہاڑ جیسے بت کی گود میں سے ایک آدمی اترا اور آگے چل پڑا بت کے پیچھے سے چار آدمی نمودار ہوئے سب ایک ایک سفید چادر میں ملبوس تھے جنہوں نے کندھوں سے پاؤں تک جسم کو ڈھانپ رکھے تھے جو آدمی بت کی گود سے آیا تھا وہ کوئی بادشاہ معلوم ہوتا تھا اس کے سر پر تاج تھا اور تاج پر ایک مصنوعی سانپ کے پھن کا سایہ تھا اس کا چغہ لال رنگ کا تھا روشنی جو معلوم نہیں کہاں سے آرہی تھی۔ اس آدمی پر پڑ رہی تھی اس کے چغے پر ستارے تھے جو روشنی میں چمکتے اور ٹمٹماتے تھے اس کے ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں ننگی تلوار تھی تلوار بھی چمکتی تھی سفید چادروں والے آدمی اس کے پیچھے آئے وہ ڈھلان سے اتر رہے تھے اور روشنی ان کے ساتھ ساتھ آرہی تھی اگلا آدمی جو بادشاہ لگتا تھا رک گیا پیچھے والے چاروں آدمیوں نے اکٹھے بڑی بلند آواز سے کہا خدا زمین پر اتر آیا ہے سجدہ کرو اٹھو اور غور سے دیکھو سارا ہجوم سجدے میں گر پڑا سب نے سر اٹھائے اور خدا کو دیکھا اس وقت خدا نے تلوار اوپر اٹھا لی تھی وہ ڈھلان سے اترنے لگا سناٹا ایسا طاری ہوگیا جیسے وہاں ایک بھی انسان نہ ہو وہ اترتے اترتے ایسی جگہ آن کھڑا ہوا جو بلند تھی اور ہجوم کے قریب بھی تھی یہ جگہ چوڑی تھی روشنی صرف اس پر اور ان چار آدمیوں پر پڑ رہی تھی جو اس کے ساتھ تھے اچانک اس روشنی میں چار لڑکیاں داخل ہوئیں ان کے لباس اتنے سے ہی تھے کہ صرف ستر ڈھانپے ہوئے تھے ان کے جسموں کے رنگ گورے تھے ان کی پیٹھوں پر کندھوں سے ذرا نیچے پرندوں کی طرح پر پھیلے ہوئے تھے ان کے بال کھلے تھے وہ یوں حرکت کرتی تھیں جیسے اڑ رہی ہوں وہ رقص کی اداؤں سے اس بادشاہ (حبشیوں کے خدا) کے اردگرد گھوم کر وہیں کہیں غائب ہوگئیں شاید چٹان کے پیچھے اتر گئی تھیں اس وقت چار آدمی کمانڈر اور زہرہ کو وہاں ایک غار میں لے گئے اور ایک کمرے میں داخل کردیا ایک آدمی باہر چلا گیا وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا۔ اسے بتا دیا گیا کہ یہ چوکی کا کمانڈر ہے اور یہ رقاصہ ہے اور انہیں دریا کے کنارے سے اس وقت پکڑا گیا ہے جب کشتیاں سامان اور مزید حبشیوں کو اتار رہی تھیں
تم انہیں بڑے اچھے وقت لائے ہو اس نے کہا یہ بدبخت حبشی انسانی قربانی مانگ رہے تھے ہم نے القند کے کہنے پر خدا کی آواز میں اعلان کردیا تھا کہ ایک مرد اور ایک عورت کی قربانی دی جائے گی ہمیں کہیں سے ایک مرد اور ایک عورت کو اغواء کرکے ان کے حوالے کرنا تھا تم نے ہمارا مسئلہ حل کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے ہر کام پوری کامیابی سے ہورہا ہے قربانی کے لیے اپنے آپ ہی دو انسان آگئے ہیں حبشیوں نے خدا دیکھ لیا ہے؟
ایک نے پوچھا اگر تم وہاں تھے تو دیکھتے کہ ہم نے کیسی استادی سے انہیں خدا دکھایا ہے اس نے جواب دیا بت کی سامنے والی پہاڑی سے جلتے ہوئے فلیتے والے دو تیر چلائے گئے تیر اندازوں نے اندھیرے میں ایسا نشانہ باندھا کہ صحیح جگہ پر تیر گرے ہم نے تیل اور مادہ زیادہ جگہ پھیلا دیا تھا پہلے ہی دو تیروں نے اسے آگ لگا دی اینڈرسن تجربہ کار آدمی ہے اس نے کہا تھا کہ شعلے میں بت ہنستا مسکراتا اور جھپکتا نظر آئے گا یہ شعلے کا کرشمہ تھا کہ خود ہمیں یقین ہونے لگا تھا کہ بت نہ صرف آنکھوں اور ہونٹوں کو حرکت دے رہا ہے بلکہ اس کا چہرہ دائیں بائیں حرکت کررہا ہے اور حبشیوں کا ردعمل کیا تھا؟
سجدے میں گر پڑے تھے اس نے جواب دیا ہمارے آدمیوں کی آوازیں بڑی گونج دار تھیں پہاڑیوں میں ان کی گونج کچھ دیر تک سنائی دیتی رہی میں اندھیرے میں دیکھ نہیں سکا مجھے یقین ہے کہ حبشی خوف سے کانپ رہے ہوں گے القند کا ناٹک تو بہت ہی کامیاب رہا شعلہ بجھا تو ہم نے اسے پوشاک پہنا کر بت کی گود میں بٹھا دیا اور چار آدمی پہلے ہی وہاں چھپے بیٹھے تھے بت پر سامنے کی پہاڑی سے روشنی پھینکنے کا سلسلہ بھی کامیاب رہا ساتھ والی پہاڑی پر جو آگ جلائی گئی تھی وہ نیچے کسی کو نظر نہیں آئی تھی اس کے قریب بڑا آئینہ رکھ کر بت پر عکس پھینکا تو یوں لگتا تھا جیسے یہ بت کے چہرے کا نور ہے اس میں سے القند خدا بن کر اترا تو ہماری لڑکیوں نے سب کو یقین دلا دیا کہ یہ خدا ہے اور وہ پریاں ہیں ہم کسی قدم پر ناکام نہیں ہوئے اب القند کو اندر بٹھا کر تمام حبشیوں کو ان کے سامنے سے گزارا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا خدا جو جنگ میں تمہارے ساتھ ہوگا
ان دونوں (کمانڈر اور زہرہ) کو آج ہی قربان کردیں گے اس کا فیصلہ حبشی کریں گے وہ شاید انہیں تین چار روز پالیں پوسیں گے اور اپنی کچھ رسمیں ادا کریں گے
انہیں کسی کی آواز سنائی دی مجھے معلوم نہیں تھا کہ لڑنے والے سالار کو یہ سوانگ بھی بھرنا پڑے گا تین چار آدمیوں کی ہنسی سنائی دی کسی اور نے کہا اس کے بغیر ان حبشیوں کو لڑانا آسان نہیں تھا بہرحال آپ کو اس سوانگ کی بہت زیادہ قیمت مل رہی ہے پورا مصر ہے القند اور اس کے ساتھیوں کی آوازیں تھیں وہ قریب آئے تو ان دونوں نے بتایا کہ ایک مرد اور ایک عورت اتفاق سے ہاتھ آگئی ہے انہیں حبشیوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے القند نے یہ پوچھا کہ یہ دونوں کون ہیں وہ سر سے تاج اتار کر اس کمرے میں چلا گیا جہاں کمانڈر اور زہرہ کو رکھا گیا تھا القند کمانڈر کو نہ پہچان سکا کمانڈر نے اسے پہچان لیا کمانڈر کے کانوں میں وہ باتیں بھی پڑ گئی تھیں جو باہر ایک آدمی دوسرے کو سنا رہا تھا اس نے اس کے منہ سے کئی بار القند کا نام سنا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اسے اور زہرہ کو قربان کیا جائے گا القند اس کے سامنے آیا تو اسے اس پر حیرت نہ ہوئی کہ اس کا سالار یہاں کیسے آگیا ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
القند یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ ان دونوں کو حبشیوں کے مذہبی پیشواؤں کے حوالے کردو تین چار روز بعد قاہرہ میں العادل نے علی بن سفیان کو بلایا اور کہا تین چار دنوں سے سالار القند نہیں مل رہا میں اسے جب بھی بلاتا ہوں جواب آتا ہے کہ وہ نہیں ہے اس کے گھر سے بھی یہی جواب ملا ہے وہ کہاں جاسکتا ہے؟
اگر سرحدی دستوں کے معائنے کے لیے سرحد کے دورے پر جاتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا علی بن سفیان نے جواب دیا فوری طور پر میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ اسے تخریب کاروں نے اغوا یا قتل کردیا ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تخریب کاروں سے ہی جا ملا ہو العادل نے کہا کبھی ایسا شک ہوا نہیں تھا علی بن سفیان نے کہا میں اس کے گھر سے پتہ کراتا ہوں وہ خود اس کے گھر چلا گیا القند کے بارہ باڈی گارڈ موجود تھے ان کے کمانڈر سے پوچھا کہ سالار القند کہاں ہیں؟ 
اس نے لاعلمی کا اظہار کیا کسی بھی باڈی گارڈ کو معلوم نہیں تھا ملازمہ کو باہر بلا کر کہا گیا کہ القند کی بیویوں سے پوچھے کہ القند کہاں گیا ہے ملازمہ اسے اندر لے گئی۔ الگ کمرے میں بٹھایا وہ بوڑھی عورت تھی اس نے علی بن سفیان سے کہا اس گھر سے آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ سالار القند کہاں چلے گئے ہیں میں ایک عرصے سے یہاں جو کچھ دیکھ رہی ہوں وہ بتا دیتی ہوں لیکن میری جان کی حفاظت آپ کے ذمہ ہوگی اگر میں مرگئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا خاوند مدت ہوئی مرگیا تھا ایک ہی بیٹا تھا وہ سوڈان کی لڑائی میں شہید ہوگیا ہے میں نے یہاں نوکری کرلی ہے یہ لوگ مجھے غریب اور سیدھی سادی عورت سمجھتے رہے انہیں معلوم نہیں تھا کہ شہید کی ماں اس ملک اور اس مذہب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتی جس کی خاطر اس نے اپنا بیٹا شہید کرایا ہو اس گھر میں مشکوک سے لوگ آتے رہتے ہیں میں نے ایک رات آدمی کو اندر آتے دیکھا وہ عربی لباس میں تھا اور اس کی داڑھی تھی مجھے اندر بلا کر کہا گیا کہ میں شراب لانے کا انتظام کروں شراب ایک نئی بیگم پلایا کرتی ہے جو مصری یا عربی معلوم نہیں ہوتی میں نے دیکھا کہ داڑھی والا مہمان داڑھی اتار رہا تھا اس کی داڑھی اور مونچھیں مصنوعی تھیں اس سے پہلے بھی یہاں ایسے لوگ آتے رہے ہیں جن پر مجھے شک ہے کہ یہ نیک نیت لوگ نہیں میرے کانوں میں اس قسم کے الفاظ بھی پڑے ہیں آدھا مصر سوڈان کا مصر کی امارت ایک ہی رات میں کام ہوجائے گا سالار رات کو نکلے تھے ان کے ساتھ دو اجنبی صورت آدمی تھے میں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ سالار نے محافظوں کے کمان دار سے کچھ باتیں کی تھیں
بوڑھی ملازمہ نے کچھ اور باتیں بتا کر علی بن سفیان پر یہ ثابت کردیا کہ سالار القند نہ اغوا کیا گیا ہے نہ قتل اور نہ ہی وہ کسی سرکاری ڈیوٹی پر گیا ہے مصر میں تخریب کاری اور غداری اتنی زیادہ ہوئی تھی اور ہورہی تھی کہ کسی شریف انسان پر بھی شک نہ کرنا بہت بڑی لغزش تھی القند نے کبھی شک پیدا نہیں ہونے دیا تھا لیکن علی بن سفیان بال کی کھال اتارنے والا سراغ رساں تھا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ کسی سالار کے رتبے کے آدمی کے گھر کی تلاشی کسی شہادت کے بغیر نہیں لے سکتا تھا۔ اس کے لیے مصر کے قائم مقام سپریم کمانڈر العادل کی اجازت کی ضرورت تھی اس نے فوری طور پر یہ کارروائی کی کہ اپنے محافظ کو بھیج کر اپنے شعبے کے تین چار سراغ رساں بلا لیے اور انہیں القند کے مکان پر نظر رکھنے کے لیے ادھر ادھر چھپا دیا انہیں ہدایت دی کہ کوئی مرد یا عورت مکان سے باہر آئے تو چوری چھپے اس کا تعاقب کیا جائے باہر آکر اس نے باڈی گارڈ کے کمانڈر کو حکم دیا کہ اپنے اور تمام محافظوں کے ہتھیار اندر رکھ دو اور سب میرے ساتھ چلو بارہ آدمیوں کی گارڈ کو نہتہ کرکے علی بن سفیان اپنے ساتھ لے گیا اور العادل کو تفصیل رپورٹ دی العادل نے اسے القند کے گھر پر چھاپہ مارنے کی اجازت دے دی وقت ضائع کیے بغیر سپاہیوں کی ایک ٹولی لائی گئی ادھر القند کے گھر میں کوئی اور ہی صورت پیدا ہوگئی تھی علی بن سفیان جب وہاں سے نکلا تھا تو القند کی ایک بیوی جو جوان تھی ملازمہ کو اپنے کمرے میں لے گئی اور اس سے پوچھا کہ علی بن سفیان نے اس سے کیا پوچھا اور اس نے کیا بتایا ہے بڑھیا نے جواب دیا کہ وہ سالار کے متعلق پوچھ رہا تھا میں نے بتایا تھا کہ میں غریب سی ملازمہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں تمہیں بہت کچھ معلوم ہے بیگم نے اسے کہا اور تم نے بہت کچھ بتایا ہے بڑھیا اپنی بات پر قائم رہی بیگم نے ایک ملازم کو بلایا اور اسے ساری بات بتا کر کہا اس نامراد بڑھیا کی زبان کھولو۔ کہتی ہے میں نے کچھ نہیں بتایا ملازم نے بڑھیا کے بال مٹھی میں لے کر مروڑے اور ایسا جھٹکا دیا کہ وہ چکرا کر گری ملازم نے اس کی شہ رگ پر پاؤں رکھ کر دبا دیا بڑھیا کی آنکھیں باہر نکل آئیں ملازم نے دانت پیس کر کہا بتا اسے کیا بتایا ہے اس نے پاؤں اٹھا لیا بڑھیا میں اٹھنے کی ہمت کم رہ گئی تھی وہ خاموش رہی ملازم نے اس کی پسلیوں میں لات ماری بڑھیا تڑپنے لگی اس کے بعد ملازم نے اسے طرح طرح کی اذیتیں دے دے کر ادھ موا کردیا تب اس نے کہا جان سے مار ڈالو اپنے شہید بیٹے کی روح کے ساتھ غداری نہیں کروں گی تم غدار ہو تم ایمان فروش کی بدکار بیوی ہو کوشش نہ کرے وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں بتائے گا تو اس کا کیا حشر کیا جائے گا اس نے یہ کہہ کر وہ حکم کا پابند اور انعام واکرام کا طلب گار تھا علی بن سفیان کو بتایا کہا لقند کا مسلسل رابطہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ تھا اور وہ انہی کے ساتھ گیا ہے یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ ایک گھریلو ملازم کو ایک سالار کے خفیہ پلان کا علم ہوتا ملازم نے بتایا کہ القند نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ بہت دنوں کے بعد آئے گا اور جب تک ممکن ہوسکا اس کی غیر حاضری کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے رہیں ملازم کو یہ معلوم نہیں تھا کہ القند گیا کہاں ہے نئی بیگم کو علی بن سفیان نے اپنے دو آدمیوں کے ساتھ اپنے مخصوص تہہ خانے میں بھیج دیا اور خود کچھ اور تفتیش کرکے اور القند کے گھر پر پہرہ لگا کر اپنے دفتر میں چلا گیا جہاں القند کے باڈی گارڈ نہتے بیٹھے تھے ان سب کو علی بن سفیان نے کہا تم مصر اور شام کی متحدہ سلطنت کے فوجی ہو کچھ چھپاؤ گے تو اس کی سزا موت ہے اور اگر تم نے حکم کی پابندی کرتے ہوئے سالار القند کی سرگرمیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو شاید میں تمہیں کوئی سزا نہ دوں گا
گارڈ کا کمانڈر بول پڑا۔ اس نے جو بیان دیا اس سے اس کی تصدیق ہوگئی کہ القند کے پاس صلیبی اور سوڈانی آتے تھے اور القند غداری کا مرتکب ہورہا تھا انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ القند گیا کہاں ہے
آدھی رات کے قریب علی بن سفیان تہہ خانے میں گیا القند کی نئی بیگم تنگ سی ایک کوٹھڑی میں بند تھی اسے دہشت زدہ کرنے کے لیے اس کی کوٹھڑی میں ایک ایسے قیدی کو ڈال دیا گیا تھا جو مسلسل اذیتوں سے تڑپتا اور کراہتا تھا وہ صلیبیوں کا جاسوس تھا۔ اپنے ساتھیوں کی نشاندہی نہیں کرتا تھا نئی بیگم دوپہر سے اس کے ساتھ بند تھی اور اسے تڑپتا دیکھ رہی تھی۔ اب آدھی رات ہوگئی تھی وہ تو شہزادی تھی تہہ خانے اور کوٹھڑی کی صرف بدبو ہی اسے پاگل کرنے کو کافی تھی اس آدمی کی حالت دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہوگیا تھا
علی بن سفیان جب اس کے سامنے گیا تو لڑکی چیخنے چلانے لگی اسے باہر نکال کر علی بن سفیان ایک اور کوٹھڑی کے سامنے لے گیا سلاخوں کے پیچھے تنگ سی کوٹھڑی میں ایک سیاہ کالا حبشی بند تھا ہیبت ناک شکل اور جسم بھینسے جیسا اس نے سرحدی دستے کے ایک کمانڈر کو قتل کیا تھا علی بن سفیان نے لڑکی سے کہا کہ باقی رات اسے اس کے ساتھ بند کیا جائے گا لڑکی چیخ کر علی بن سفیان کے پاؤں پر گر پڑی پوچھو مجھ سے کیا پوچھتے ہو اس نے علی بن سفیان کی ٹانگوں سے لپٹ کر کہا القند کہاں گیا ہے؟ 
کیوں گیا ہے؟ 
اس کے ارادے کیا ہیں؟
علی بن سفیان نے پوچھا اور اسے تہہ خانے میں لے جاکر ختم کردو بیگم نے کہا رات کو لاش غائب کردینا ہمارے سر سے ابھی خطرہ ٹلا نہیں وہ ہمارے محافظ کو نہتہ کرکے اپنے ساتھ لے گیا ہے اس بدبخت بڑھیا کو بہت کچھ معلوم ہے اس راز سمیت زمین میں دبا دو بڑھیا فرش پر پڑی تھی اس پر نیم غشی کی کیفیت طاری تھی ملازم نے اسے ہلکی سی گٹھڑی کی طرح اٹھا کر کندھے پر ڈال دیا کمرے سے نکل کر وہ برآمدے میں جارہا تھا کہ آواز آئی رک جاؤ اس نے گھوم کر دیکھا سپاہی دوڑے آرہے تھے علی بن سفیان کے حکم پر وہ سب بکھر کر کمروں اور برآمدوں وغیرہ میں پھیل گئے ملازم بھاگ نہ سکا اس کے کندھے سے بڑھیا کو اتارا گیا بڑھیا کے منہ سے خون نکل رہا تھا اس نے آنکھیں کھولیں علی بن سفیان کو دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اس نے کہا اس سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں کیا ہورہا ہے تم آئے تو میرا شک پختہ ہوگیا کہ یہ تو گڑبڑ ہے اس کی آواز اکھڑ رہی تھی اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ نئی بیگم اور اس کے اس ملازم نے اس سے یہ اگلوانے کے لیے کہ اس نے علی بن سفیان کو کیا بتایا ہے اسے بہت مارا ہے
علی بن سفیان نے ایک سپاہی سے کہا کہ بڑھیا کو فوراً طبیب کے پاس لے جاؤ بڑھیا نے روک دیا اور کہا مجھے کہیں نہ بھیجو میں اپنے شہید بیٹے کے پاس جارہی ہوں مجھے نہ روکو اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی القند کے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا گیا تہہ خانے میں گئے تو یہ اسلحہ خانہ بنا ہوا تھا گھر سے سونے کے ٹکڑوں اور نقدی کے انبار برآمد ہوئے ایک مہر بھی برآمد ہوئی جس پر القند کا پورا نام اور اس کے ساتھ سلطان مصر کندہ تھا القند کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ اس نے اپنے نام کی مہر بھی بنوا لی تھی اس مہر نے شکوک کو یقین میں بدل دیا۔ القند کے گھر میں چھ بیویاں تھیں اور شراب کا ذخیرہ بھی تھا القند کے متعلق مشہور تھا کہ شراب نہیں پیتا اب اس کے گھر سے پتہ چلا کہ رات کو پیا کرتا تھا علی بن سفیان نے اس کی تمام بیویوں سے پوچھ گچھ کی تو اور کارآمد معلومات حاصل ہوئیں اہم شہادت نئی بیگم کی تھی جس نے ملازم کے ہاتھوں بڑھیا کو مروا دیا تھا۔ باقی تمام بیویوں نے کہا کہ سارا راز نئی بیگم کے سینے میں ہے اس کے متعلق یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی زبان مصری نہیں سوڈانی ہے اور جب باہر کے آدمی آتے ہیں تو صرف یہی لڑکی ان میں اٹھتی بیٹھتی اور ان کے ساتھ شراب پیتی ہے ان بیویوں کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں اور کچھ بھی معلوم نہیں نئی بیگم کو الگ کرلیا گیا۔ علی بن سفیان نے کہا کہ وہ اب کچھ چھپانے کی کوشش نہ کرے اس کے متعلق جو کچھ جانتی ہو بتا دو نازک سی لڑکی نے سب کچھ ہی بتا دیا اسے بھی یہ معلوم نہ تھا کہ القند کہاں گیا ہے اس نے بتایا کہ سوڈان سے حبشیوں کی فوج لائی جارہی ہے جو کسی رات قاہرہ پر حملہ کرکے سارے مصر پر قابض ہوجائے گی یہ لڑکی چونکہ شراب پلانے کا فرض ادا کرتی تھی اس لیے القند کے گھر میں آئے ہوئے صلیبی اور سوڈانی مہمان اسے اپنا سمجھ کر اس کے سامنے بھی باتیں کرتے رہتے تھے یہ لڑکی سوڈان کے کسی بڑے آدمی کی بیٹی تھی اسے القند کے لیے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ القند نے اس کے ساتھ شادی کرلی تھی لڑکی بہت ہوشیار اور تیز تھی وہ سوڈان کے مقصد کو اچھی طرح سمجھتی تھی اس کے بتانے کے مطابق یہ سونا اور نقدی جو اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی سوڈان سے آئی تھی یہ جنگ کے اخراجات کے لیے اور مصر کی فوج سے غدار خریدنے کے لیے تھی اس لڑکی کو اس مقام کا علم نہیں تھا جہاں حبشیوں کی بہت سی فوج آچکی تھی اس نے بتایا کہ فوج کہیں دریا کے کنارے ہے اور اس کا حملہ شب خون کی قسم کا ہوگا
جس قدر معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں کرلی گئیں علی بن سفیان نے العادل کو تفصیلی رپورٹ دی اور تجویز پیش کی کہ دو دو چار چار سپاہی دیکھ بھال کے لیے ہر طرف پھیلا دئیے جائیں جو یہ دیکھیں کہ سوڈانی فوج کا اجتماع کہاں ہے اور یہ بھی معلوم کیا جائے کہ حبشیوں کی فوج اگر واقعی اندر آگئی ہے تو کدھر سے آئی ہے اس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع نہ دی جائے کیونکہ وہ سوائے پریشان ہونے کے کوئی مدد نہیں کرسکے گا العادل سلطان صلاح الدینایوبی کو اطلاع دینا ضروری سمجھتا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ حالات زیادہ بگڑ سکتے ہیں اس صورت میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی ضرورت پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا مکمل رپورٹ لکھ کر ایک سینئر کمانڈر کو چار محافظوں کے ساتھ دی گئی اور اسے یہ حکم دیا گیا کہ ہر چوکی پر گھوڑے تبدیل کریں اور کہیں رکیں نہیں
میدان جنگ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا ہیڈکوارٹر کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا وہ دن کو کہیں اور رات کو کہیں اور ہوتا اور خود گھومتا پھرتا رہتا تھا لیکن اس نے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ اس تک پہنچتے وقت دقت نہیں ہوتی تھی جگہ جگہ رہنما موجود تھے جنہیں خبر پہنچا دی جاتی تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کہاں ہے۔ یہ ایک راز ہوتا تھا، اس لیے رہنما ذہین قسم کے افراد ہوتے تھے جس دن تین دنوں کی مسافت کے بعد پیغام لے جانے والا کمانڈر چار محافظوں کے ساتھ دمشق پہنچا اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان کے سلسلہ کوہ میں تھا سردی کا عروج تھا کمانڈر اور اس کے محافظوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک نیند اور مسلسل سواری سے ان کے چہرے لاشوں کی طرح سوکھ گئے تھے۔ زبانیں باہر نکلی ہوئیں اور سر ڈول رہے تھے پھر بھی وہ فوراً روانہ ہونے کے لیے تیار ہورہے تھے انہیں زبردستی کھلایا پلایا گیا اور وہ الرستان کے لیے روانہ ہوگئے
تریپولی کا صلیبی حکمران ریمانڈ الملک الصالح کی مدد کے لیے آیا اور بغیر لڑے واپس چلا گیا تھا کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے آگے گھات لگائی اور عقب سے اس کی رسد روک لی تھی۔ عقب میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج دیکھ کر ریمانڈ اپنی فوج کو کسی اور طرف سے نکال کر لے گیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کا تعاقب مناسب نہ سمجھا کیونکہ اس سے وقت اور طاقت ضائع ہوتی تھی اس نے زیادہ نفری کے چھاپہ مار دستے ریمانڈ کی رسد کو پکڑ لانے یا دوسری صورت میں تباہ کردینے کے لیے بھیج دیئے موسم سرما کی بارشیں بھی شروع ہوگئی تھیں صلیبیوں کی رسد کا قافلہ بہت ہی بڑا تھا رات کے وقت رسد کے محافظ گھوڑا گاڑیوں کے نیچے اور خیموں میں پڑے تھے انہیں رسد واپس لے جانی تھی اگلی صبح انہیں کوچ کرنا تھا انہیں معلوم نہیں تھا کہ دن کے وقت پہاڑیوں اور چٹانوں کی اوٹ سے چند آنکھیں انہیں دیکھتی رہی تھیں انہیں غالباً توقع تھی کہ اتنی سردی میں اور بارش کے دوران ان پر کوئی حملہ نہیں کرنے آئے گا
رات کو اچانک ان کے کیمپ کے ایک طرف شور اٹھا شعلے بھی اٹھے خیمے جل رہے تھے۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ ماروں کا شب خون تھا انہوں نے پہلے چھوٹی منجنیقوں سے آتش گیر مادے کی ہانڈیاں پھینکیں پھر جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے تھے شعلوں کی روشنی میں انہوں نے حملہ کردیا برچھیوں اور تلواروں سے بہت سے صلیبیوں کو ختم کرکے چھاپہ مار پہاڑیوں میں غائب ہوگئے۔ کچھ دیر تک قریبی چٹانوں سے رسد کے کیمپ پر تیر برستے رہے اس کے بعد چھاپہ ماروں کی دوسری پارٹی نے حملہ کیا صبح تک ڈیڑھ دو میل علاقے میں پھیلے ہوئے کیمپ میں رسد رہ گئی تھی یا لاشیں یا ایسے زخمی جو چلنے کے قابل نہیں تھے بہت سے گھوڑوں کو صلیبی بھگالے گئے تھے بہت سے پیچھے بھی رہ گئے تھے چھاپہ ماروں کے شب خونوں کے درمیانی وقفے میں صلیبی کچھ گھوڑا گاڑیاں نکال لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو رسد اور گھوڑے رہ گئے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج نے قبضے میں لے لیے حلب کا محاصرہ اٹھا لیا گیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اس اہم شہر کو ایک بار پھر محاصرے میں لینے کی سکیم بنا رہا تھا دن کے وقت جب چھاپہ ماروں کا کمانڈر سلطان صلاح الدین ایوبی کے شب خونوں کی رپورٹ دے رہا تھا دربان خیمے میں داخل ہوا اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی کہ قاہرہ سے ایک کمان دار ایک پیغام لایا ہے پیغام قاصد لایا لے جایا کرتے تھے کمان دار کا نام سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی دوڑ کر باہر آیا اور اس کے منہ سے نکلا خیریت؟
تم کیوں آئے ہو؟
پیغام اہم ہے کمان دار نے کہا خدائے ذوالجلال سے خیریت کی امید رکھنی چاہیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے پیغام لیا اور کمان دار کو اندر لے گیا اس نے پیغام پڑھا اور گہری سوچ میں کھوگیا ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سوڈانیوں کی فوج مصر میں داخل ہوکر کہاں خیمہ زن ہوئی ہے؟
سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا دیکھ بھال کے دستے بھیج دئیے گئے ہیں کمان دار نے جواب دیا مجھے توقع تھی کہ میری غیرحاضری میں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوگی سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا میرے بھائی (العادل) سے کہنا کہ گھبرائے نہیں قاہرہ کے دفاع کو مضبوط کرلے لیکن صرف دفاعی لڑائی نہ لڑے زیادہ تر دستے اپنے پاس رکھے اور ان میں سے جوابی حملے کے لیے تجربہ کار دستے الگ کرلے لیکن انہیں شہر ہی میں رہنے دے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget