🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➍➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آپ نے لکھا ہے کہ میں فوج کو نہ مرواؤں اور مصر مسلمانوں کو دے دوں۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنی فوج کو خون خرابے سے بچا لوں اور مسلمان فرما سے ہی واپس چلے جائیں میں نے اطربون کو حملے سے روکا تھا بہت کچھ سوچ کر روکا تھا لیکن اطربوں نے میرا حکم نہ مانا اور مجھے بتائے بغیر فوج لے کر بلبیس چلا گیا اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا مسلمانوں نے اطربون کی فوج کا جم کر مقابلہ کیا اور پھر اطربون کی فوج کی خیمہ گاہ پر ہر دوسری تیسری رات ایسے شب خون مارے کہ ہماری فوج کا ایک تو جانی نقصان ہوا ۔اور دوسرا نقصان ذہنی تھا وہ یہ کہ ہماری فوج پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی شکست کی وجہ یہی تھی،،،،،، آپ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے اور میں اتنی زیادہ فوج ہوتے ہوئے بھی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی تھوڑی تعداد کے مسلمان ہے جنہوں نے آپ کو اور آپ کی فوج کو شام کے ملک سے نکال باہر پھینکا تھا ۔ شام سے ہماری جو بچی کھچی فوج مصر آئی تھی اس پر مسلمانوں کی بے خوفی بےجگری آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی۔ ان شکست خوردہ فوجیوں نے مصر آ کر ساری فوج کو یہ تاثر دیا کہ مسلمان انسان نہیں جنات ہیں جن کے مقابلے میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ اس طرح ہماری فوج کا جذبہ مجروح ہوا اور ہماری فوج کی شکست کا باعث یہی ہے میں یہ کہنے کی گستاخی کروں گا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ آپ پر عائد ہوتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ بحیرہ روم کے اس پار جا کر سب کچھ بھول گئے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کس طرح جانوں کی بازی لگا کر لڑتے ہیں یہ جذبہ ہماری فوج میں پیدا ہو ہی نہیں سکا،،،،،،
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے اسقف اعظم قیرس کے ہاتھوں آپ کی عیسائیت کو نہ ماننے والوں پر جو ظلم و تشدد کروایا تھا آج مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کی آبادی لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن وہ ہماری فوج میں شامل ہوتے ہی نہیں۔ اسقف اعظم قیرس بھی اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ آپ نے ان کی وفاداری پر جس شک کا اظہار کیا ہے وہ صحیح نہیں۔ وہ اس رعایا سے تعاون کسطرح حاصل کرسکتے ہیں جس رعایا کے لیے وہ جلاد بنا دیئے گئے تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ مصر کے بدو ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں سے جا ملے ہیں۔ غور کریں کہ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہ ملے اور حملہ آوروں کے ساتھ کیوں چلے گئے۔ ان تک ہم نے بھی رسائی حاصل کی تھی لیکن انھوں نے ہمیں انکار دیا اور وہ کہتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ہیں اور کسی کے حکم سے ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے مقابلے میں انہوں نے مسلمانوں کو پسند کیا اور ایک لشکر کی صورت میں مسلمانوں کے لشکر میں چلے گئے،،،،،، میں آپ کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے میں نے بنیامین کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیج دیا ہے۔ اور اسے اپنے ہاں بلوایا ہے۔ اسقف اعظم قیرس نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی ہے۔ اگر بنیامین آگیا تو میں قیرس اور بنیامین کے اختلافات ختم کرا دوں گا۔ اور پھر بنیامین کوقائل کروں گا کہ وہ قبطی عیسائیوں کا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوج کے ساتھ آ جائے تاکہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالا جائے ۔اگر آپ کو میری یہ الفاظ مطمئن نہ کر سکے تو ہمارے پاس آجائیں اور لڑائی کی نگرانی خود کریں میں آپ کو یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ ہم میں سے کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور ہمارے حوصلے مضبوط ہیں۔
مقوقس نے یہ پیغام سربمہر کر کے ایک قاصد کو دیا اور ہدایت یہ دی کہ جس قدر جلدی ہو سکے وہ بزنطیہ پہنچے اور یہ پیغام ہرقل کے ہاتھ میں دے دے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم پھر واپس بلبیس چلتے ہیں جہاں شہر کے اندر اور باہر لاشیں بکھری ہوئی تھی اور شدید زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ اور جو ہوش میں تھے وہ اپنے آپ کو گھسیٹ رہے تھے کہ عافیت کے کسی مقام تک پہنچ جائیں ۔ مسلمان خواتین زخمیوں کو پانی پلا پلا کر اٹھا رہی تھیں زمین کا وسیع وعریض خطہ خون سے سیراب ہوا جا رہا تھا۔
یہیں سے اطربون کی لاش اٹھائی گئی تھی۔ اس کی لاش مقوقس کو بھجوا کر شارینا اور اینی اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھیں۔ حدید، فہد، اور مسعود وہاں سے چلے گئے تھے ۔بہت سی مسلمان خواتین زخمیوں کو اٹھا رہی تھی اور انہیں مرہم پٹی کے لیے لے جا رہی تھیں۔ ان کے ساتھ مجاہدین بھی تھے جو ان زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لے جارہے تھے جو بے ہوش تھے یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔
کسی بھی خاتون کے چہرے پر ایسا نقاب نہیں تھا کہ وہ پہچانی نہ جا سکے لیکن ایک خاتون نے اپنا چہرہ اس طرح نقاب میں چھپا رکھا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ وہ زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی چلی جا رہی تھی
اور اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے وہاں مجاہدین بھی اور ان کے خواتین بھی اتنی مصروف تھیں کہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی زخمیوں کو اٹھانے کی جلدی اس لئے تھی کہ کوئی زخمی خون زیادہ بہہ جانے سے شہید نہ ہوجائے۔
شارینا اور اینی مل کر ایک زخمی کو اٹھا رہی تھی زخمی مجاہد اٹھا اور دونوں لڑکیاں اسے سہارا دے کر لے جانے لگی تو زخمی نے انہیں روک دیا اور کہا کہ وہ خود اپنے سہارے پیچھے چلا جائے گا ۔شارینا نے دیکھا کہ اس زخمی سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ شارینا نے اسے کہا۔۔۔ کہ وہ اپنے آپ پر جبر نہ کرے اور اس کا سہارا لے لے اینی بھی زخمی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اور اپنا ایک بازو زخمی کے کمر میں ڈال دیا۔
نہ میری بہنو!،،،،، مجاہد نے شارینا اور اینی سے الگ ہوکر اور مسکرا کر کہا۔۔۔ ہمیں سہاروں کا عادی نہ بنائیں ہم سہاروں کے بل پر چلنے پھرنے لگے تو پھر مصر کون فتح کرےگا تم جاؤ اور بے ہوش پڑے ہوئے زخمیوں کو اٹھاؤ مجھے اللہ کا سہارا بہت ہے۔
زخمی چلا گیا شارینا اور اینی دوسرے زخمیوں کو ڈھونڈنے چل پڑی زخمیوں کی قربناک آوازوں اور زخمی گھوڑوں کے بھاگنے دوڑنے کے دھماکوں اور میدان جنگ کی دیگر آوازوں اور آہٹوں میں شارینا کو یوں لگا جیسے اسے کسی عورت نے پکارا ہو ۔شارینا نے رک کر دائیں بائیں دیکھا اسے ایک خاتون نظر آئی جس نے چہرہ نقاب میں ڈھانپ رکھا تھا اور صرف آنکھیں ننگی تھیں۔
شارینا!،،،، اس لڑکی نے قریب آکر کہا۔۔۔ تمہیں پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کیا تم شارینا نہیں ہو؟
ہاں میں شارینا ہی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ چہرے سے نقاب تو ہٹاؤ کہ میں بھی دیکھ سکو تم کون ہو؟ تم نے میری زبان میں بات کی ہے کیا تم مسلمان نہیں ہو؟
نہیں!،،،، اس لڑکی نے کہا۔۔۔ میں اربیلا ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کو بھول نہیں سکتے۔
او ہو۔۔۔۔ اربیلا۔۔۔ شارینا نے اربیلا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑی تیزی سے کہا ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کس کے ساتھ آئی ہو؟ جلدی بولو تمہارا یہاں اکیلے پھرتے رہنا ٹھیک نہیں۔
وہ بدکار اطربون مجھے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔ اربیلا نے کہا ۔۔۔سنا ہے وہ مارا گیا ہے اس خبر سے میں بہت ہی خوش ہوں یہاں ایک فوجی افسر روباش کو ڈھونڈتی پھر رہی ہوں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ اطربون کی لاش نظر آئے تو مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں آزاد ہو گئی ہوں اس کی لاش کے منہ پر تھوکوں گی۔
اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اسے اطربون اپنے ساتھ داشتہ بنا کر لایا تھا وہ ایک جواں سال فوجی افسر روباش کو دل وجان سے چاہتی تھی اور روباش اس پر فدا ہوا جاتا تھا ۔اس کی شادی ہو سکتی تھی اور ہو بھی جاتی۔ لیکن اطربون کی نظر پڑ گئی اور اس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اربیلا کو داشتہ بنا لیا اور اس کے ماں باپ کو کچھ نقد معاوضہ دیا اور ساتھ ہی برے نتائج کی دھمکیاں دے کر ان پر دہشت بھی طاری کردی اربیلا کے ماں باپ پہلے ہی دہشت زدہ رہتے تھے کیونکہ وہ ھرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کو نہیں مانتے تھے اور وہ قبطی عیسائی تھے۔ انہوں نے قبطیی عیسائیوں کو قتل ہوتے یا زیر اعتاب آتے دیکھا تھا دل پر پتھر رکھ کر چپ ہو رہے۔
یہ پانچ چھ مہینے پہلے کی بات تھی اربیلا اطربون کی قید میں بہت روئی تھی تھی مگر اطربون نے اس پر تشدد کرکے اپنے قبضے میں ہی رکھا پھر بھی اربیلا دو تین مرتبہ اپنے محبوب روباش سے ملی ایک بار اطربون کو پتہ چل گیا تو اس نے اربیلا کو مارا پیٹا اور روباش کے خلاف بھی کارروائی کی ۔ روباش چونکہ فوجی افسر تھا اور اس کا کوئی دور کا تعلق شاہی خاندان سے بھی بنتا تھا اس لیے اس کے خلاف کوئی سنگین یا شدید کارروائی نہ کر سکا۔ لیکن اسے معاف کرنے پر بھی راضی نہ ہوا اس وقت روباش اسکندریہ میں تھا ۔ اطربون اس کو اسکندریہ سے بلا کر ان فوجی دستوں میں شامل کردیا جو فرما اور بلبیس کے قلعوں میں تھے یہ اس توقع پر کیا کہ روباش لڑائی میں مارا جائے گا۔اب اطربون بارہ ہزار فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے آیا تو اربیلا کو بھی ساتھ لے آیا اربیلا کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی اسکے ساتھ تھی۔ مسلمان تو اپنی بیویوں بہنوں یا بیٹیوں کو ساتھ رکھتے تھے لیکن رومی فوج کے افسر داشتاؤں کو محاذ پر لے جاتے تھے۔ اطربون عورت کا دلدادہ تھا اربیلہ کو کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ روباش بلبیس کے قلعے میں ہے ۔اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اطربون کی دوسری داشتہ اس کا ساتھ دیتی تو شاید دونوں مل کر اطربون کو زہر پیلا دیتیں یا کسی طرح اسے قتل کر دیتیں۔ لیکن دوسری داشتہ بہت خوش تھی کہ وہ اتنے بڑے جرنیل کی داشتہ ہے۔ اربیلا یہی کر سکتی تھی کہ اطربون کے مارے جانے کی دعائیں کرتی جو وہ کرتی ہی رہتی تھی آخر اس کے کانوں میں بلبیس کے آخری معرکے کے دوران یہ آواز پڑی کہ اطربون مارا گیا ہے ۔رومی فوج کی خیمہ گاہیں بلبیس کے میدان جنگ سے دو تین میل دور تھے وہاں جو رومی ملازمین وغیرہ تھے وہ سب وہیں سے بھاگ گئے۔ اطربون کی دوسری داشتہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔ اربیلا اطربون کے خیمے میں ہی رہی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی خوش قسمت ہو گئی ہے کہ اطربون مارا گیا ہے۔
بہت دیر بعد وہ خیمے سے نکلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اتنی بڑی خیمہ گاہ میں اکیلی ہے وہاں کوئی گھوڑا بھی نہیں تھا کہ وہ اس پر سوار ہو کر بھاگ جاتی اس نے بھاگ جانے کا پکا ارادہ کیا بھی نہیں تھا۔ اطربون کی موت سے بےخبر بلبیس کی طرف چل پڑی وہ روباش کی تلاش میں جا رہی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتی پھر رہی تھی کہ اسے شارینا نظر آگئی ۔شارینا جب اپنی ماں کے ساتھ ہرقل کے محل میں رہتی تھی اس وقت اربیلا شارینا کے پاس آتی اور کچھ دیر دونوں لڑکیاں ہنستی کھیلتی رہتی تھیں۔
اندازہ کرو شارینا!،،،، اربیلا نے کہا ۔۔۔میری محبت دیکھو میں نے روباش کی تلاش میں یہ بھی نہ سوچا کہ مسلمانوں نے مجھے پکڑ لیا تو میرے ساتھ کیسا برا سلوک ہوگا۔
نہیں اربیلا!،،، شارینا نے کہا۔۔۔۔ خطرہ صرف یہ تھا کہ تم پکڑی جاتی لیکن مسلمانوں کے ہاں ایسا کوئی خطرہ نہیں جو تم ذہن میں لئے پھرتی ہو۔ مسلمان دشمن کی جن عورتوں کو قیدی بناتے ہیں انہیں پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو کسی عورت کو داشتہ نہیں بنا سکتا۔ اسے باقاعدہ نکاح کے بعد بیوی بنا سکتا ہے۔ اور قیدی عورتوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ تم پکڑی جاتی تو تمہیں نقصان صرف یہ ہوتا کہ روباش کو نہیں ڈھونڈ سکتی تھی،،،،،، میں سوچتی ہوں تم روباش کو کہاں کہاں ڈھونڈتی پھرو گی۔
کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرسکو گی شارینا!،،،،،، اربیلا نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔یہ تو میں نے تم سے پوچھا ہی نہیں کہ تم یہاں کس حیثیت میں ہو؟،،،،، اور کیا تم میری کچھ مدد کر بھی سکتی ہو یا نہیں۔
میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ میں نے یہاں پہنچتے ہی اسلام قبول کر لیا تھا اور جس کے ساتھ آئی تھی اس کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ میں تم پر شرط عائد نہیں کر رہی مشورہ دے رہی ہوں کہ تمہارے ساتھ روباش کو تلاش کروں گی۔
اگر وہ زندہ مل گیا تو تم دونوں اسلام قبول کرلینا اور تمہاری شادی ہو جائے گی۔
شارینا نے اربیلا کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں اور رومیوں میں کیا فرق ہے سب سے بڑی بات یہ کہ مسلمانوں کے یہاں کوئی خاندان شاہی خاندان نہیں ہوتا ۔ خلیفہ اور سپہ سالار بھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور اعلی نسل نہیں سمجھتے،،،،،، اربیلا نے یہ باتیں سنی تو کہا۔۔۔ کہ یہ شرط ہے یا مشورہ، روباش مل جائے تو دونوں اسلام قبول کرلیں گے۔
شارینا اینی کو وہیں چھوڑ کر اربیلا کو ساتھ لئے قلعے کے اندر چلی گئی وہ سب سے پہلے ان رومی فوجیوں کو دیکھنا چاہتی تھی جو ہتھیار ڈال رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بڑی مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں کے حصار میں بلبیس کا شہر آباد تھا۔ ان دیواروں کے اندر بھی جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں ان میں بے ہوش، زخمی بھی تھے۔ شارینا کو معلوم تھا کہ ہتھیار کہاں ڈلوائے جا رہے ہونگے۔ اندر ایک بڑا وسیع و عریض میدان تھا شارینا سب سے پہلے قیدیوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔
شارینا اور اربیلا اس میدان سے ابھی کچھ دور ہی تھیں کہ انھیں رومی فوجیوں کی ایک ٹولی آتی نظر آئی تعداد میں وہ پچیس تیس ہونگے۔ تین چار مجاہدین انہیں ہانک کر میدان کی طرف لے جا رہے تھے۔ یہ ٹولی ان دونوں کے قریب سے گزری تو اچانک اربیلا چلائی روباش ۔۔۔وہ اس ٹولی کی طرف دوڑ پڑی تھی، شارینا بھی اس کے پیچھے دوڑی، روباش نے اربیلا کو دیکھا تو ٹولی سے نکل آیا۔
اوئے رومی۔۔۔۔ ایک مجاہد نے روباش کو ڈانٹ کر کہا ۔۔
۔کدھر چل پڑے!،،،،،،، اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو، تم قیدی ہو۔
اگر یہ مجاہد روباش کو دھکیل کر پھر ٹولی میں شامل نہ کردیتا تو روباش کو پتا ہی نہ چلتا کہ مجاہد نے کیا کہا تھا کیونکہ مجاہد عربی بول رہا تھا اور روباش یہ زبان نہیں سمجھتا تھا ۔
شارینا نے اربیلا کو وہیں روک لیا اور کہا کہ وہ چہرے پر پہلے کی طرح نقاب ڈال لے۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔مجاہد نے ان دونوں سے کہا۔۔۔ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر اپنا کام کرو یہاں تماشہ دیکھنے کے لئے مت رکو۔
شارینا نے اربیلا کو ساتھ لیا اور فوراً وہاں سے چل پڑی اور بڑی تیزی سے چلتی ہوئی شہر سے نکل گئی معلوم نہیں اس مجاہد نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رومی فوج کا ایک افسر انہیں دیکھ کر ان کی طرف کیوں چل پڑا تھا؟
شارینا یہ خطرہ محسوس کرتی ہی رہی کے روباش سے پوچھا جائے گا کہ وہ ان لڑکیوں کی طرف کیوں جا رہا تھا؟
شارینا اربیلا کو ساتھ لئے بڑی ہی تیز چلتی اپنے خاوند حدید کے پاس پہنچی۔
اس نے اربیلا کو حدید سے متعارف کروایا اور وہ ساری بات سنائی جو اربیلا نے اسے سنائی تھی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے روباش کو قیدیوں میں دیکھا ہے اگر اسے رہائی مل جائے تو یہ دونوں اسلام قبول کرلیں گے،،،،، حدید نے اپنے ساتھیوں کو بتایا حدید اور اس کے ساتھی جاسوسی کے نظام کے مجاہدین تھے ان کا سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ براہ راست تعلق تھا یہ مسئلہ سپہ سالار کا تھا اور وہی اس کا آخری فیصلہ دے سکتے تھے۔ اس وقت سپہ سالار کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شہر ابھی ابھی فتح ہوا تھا سپہ سالار نہ جانے کہاں کہاں گھوم پھر رہے تھے۔ انہیں شہر کے نظم ونسق کو بحال کرنا تھا اور ہر طرف کی رپورٹ لینی تھی اور سب سے زیادہ نازک اور اہم کام سرکاری مال غنیمت اکٹھا کرنے کا تھا۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہو اور لوٹ مار بھی نہ ہو ۔مجاہدین تو لوٹ مار کو گناہ سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ مصری بدو تھے جو اس افرا تفری اور نفسانفسی میں اسلامی اصولوں کے خلاف ورزی کا موقع نکال سکتے تھے۔
حدید ، شارینا اور اربیلا کو ساتھ لئے سپہ سالار کی تلاش میں چل پڑا تلاش بسیار کے بعد سپہ سالار مل گئے لیکن ایسی حالت میں کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد اور اپنے دو نائب سالاروں کے ساتھ مصروف تھے۔ انتظار میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا وہاں کوئی مسجد تو تھی نہیں ایک مجاہد نے باہر کھڑے ہوکر اذان دی اور وہیں سب باجماعت نماز کے لیے اکٹھا ہو گئے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنی سرگرمیاں ملتوی کردیں اور امامت کے لیے آ گئے۔
یہ موقع اچھا تھا نماز سے فارغ ہوتے ہی حدید سپہ سالار سے ملا اور انہیں اربیلا اور روباش کے متعلق ساری بات سنائی سپہ سالار نے حکم دے دیا کہ روباش نام کے رومی افسر کو قیدیوں سے نکال کر انکے خیمے میں پیش کیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص نماز کے بہت دیر بعد اپنے خیمے میں آئے تو روباش وہاں موجود تھا ۔حدید، شارینا، اور اربیلا بھی تھے۔ عمرو بن عاص نے چاروں کو خیمے میں بٹھایا اور پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے سب سے پہلے اربیلا نے بولنا شروع کیا اور وہ ایسی روئی کہ بولنے کے لیے دشوار ہو گیا اپنے آپ کو سنبھال کر اس نے وہی بات سنائی جو وہ شارینا کو سناچکی تھی۔
اب تم کیا چاہتی ہو؟،،،،، عمرو بن عاص نے پوچھا اس سوال کا جواب مجھ سے سنیں۔۔۔۔ روباش نے کہا۔۔۔۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں مظلوم انسان ہوں اور مجھے رہائی چاہیے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا میں اس ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا جس ملک میں کسی کی عزت اور آبرو ہی محفوظ نہ ہو اور ایک جرنیل اپنا قانون چلاتا پھرے۔ ہرقل وہ بادشاہ ہے جس نے اپنا ہی مذہب رائج کردیا ہے اور بزور شمشیر لوگوں کو اپنے مذہب میں لا رہا ہے۔ میں نے مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ سنا ہے اگر یہ سب صحیح ہے تو میں آپ کا مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں ۔
اربیلا کی بھی یہی خواہش ہے میں تجربے کار فوجی افسر ہوں میری خدمات آپ کو مایوس نہیں کریں گی۔ اگر آپ نے مجھے قید میں ہی رکھنا ہے تو سوچ لیں کہ آپ ایک قیمتی انسان کو ضائع کر رہے ہیں ۔ میں عیسائی ہوں لیکن رومی حکمرانوں سے انتقام لینے کو بے تاب ہوں۔
عمرو بن عاص اتنی آسانی سے کسی غیر کی باتوں میں آنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ انہوں نے روباش کے ساتھ ایسی گفتگو کی جس سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ یہ رومی افسر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔
شارینا نے سپہ سالار کو یہ بتایا کہ وہ اربیلا کو بچپن سے جانتی ہے اور اخلاقی لحاظ سے قابل تعریف ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
خاصی لمبی اور بامقصد گفتگو کے بعد عمرو بن عاص نے فیصلہ دے دیا کہ روباش اور اربیلا کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا جائے اس طرح روباش اور اربیلا نے عمرو بن عاص کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے اسلامی اصول کے مطابق دونوں کا نکاح پڑھوا دیا ۔ سپہ سالار نے یہ حکم بھی دیا کہ ان دونوں کو اسلامی اصولوں سے پوری طرح آگاہ کردیا جائے اور انہیں نماز پڑھنی سکھا دی جائے،،،،،،،، ایسا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ نظام موجود تھا جو نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کرتا تھا۔ مسلمان جس بستی کو فتح کرتے تھے وہاں کئی لوگ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے فوراً ہی ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق شروع ہوجاتی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص مصر سے تو واقف تھے ،لیکن وہ اس وقت مصر کئی بار آئے تھے جب انہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور وہ تجارت کے سلسلے میں آیا کرتے تھے وہ سب سے زیادہ اسکندریہ سے متاثر تھے اس کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اب عمرو بن عاص جس خطے میں پیش قدمی کر رہے تھے اس سے بھی وہ واقف تھے ،لیکن اتنا نہیں جتنا اب ضرورت محسوس ہو رہی تھی، انہوں نے اس وقت مصر کو کسی اور نگاہ سے دیکھا تھا اب وہ اس علاقے کو جنگی نگاہ سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے جاسوس انہیں معلومات فراہم کر رہے تھے لیکن انہیں وہ غالباً کافی نہیں سمجھتے تھے۔ اب رومی فوج کا ایک افسر ان کے ہاتھ آگیا تھا صحیح اور مکمل معلومات تو اس سے مل سکتی تھی انہوں نے روباش کا نام فاروق اور اربیلا کا نام فاطمہ رکھا تھا۔
تم فوج کے افسر ہو فاروق!،،،،،، عمر بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تم ایک اس دستے کی قیادت کرنے والے ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہوں لیکن ابھی میں تمہیں کسی دستے کی کمان نہیں دوں گا۔ تم تھوڑا ہی عرصہ میری جاسوسی نظام میں رہو گے تمہیں شب خون مارنے کے لیے بھی بھیجا جائے گا میں تمہیں نہایت اہم فرد سمجھتا ہوں، ابھی میری ضرورت یہ ہے کہ مجھے دریا نیل تک اور اس سے کچھ آگے کی معلومات مل جائے، یہ تو میں جانتا ہوں کہ آگے دو تین اور قلعے ہیں لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے میں ان قلعوں کے احوال و کوائف معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
مجھ سے بہتر اور کون آپ کو یہ باتیں بتا سکتا ہے۔۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہاں سے آپ پیشقدمی کریں گے تو تھوڑی دور جاکر صحرا آجائے گا اس سے آگے اس قدر سرسبزوشاداب اور خوشنما علاقہ آجائے گا جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ۔نیل کے کنارے پر ایک شہر ام دنین آباد ہے جو بڑا مضبوط قلعہ بند شہر ہے اس کے بالکل قریب دریا کا گھاٹ ہے جہاں کشتیاں بھی کھڑی رہتی ہیں اور درمیانے درجے کے بادبانی جہاز بھی ہیں ،فرعونوں نے اپنے زمانے میں اس شہر کو اپنا دارالحکومت بھی بنایا تھا دراصل مصر کا دفاعی نظام یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ کی جرات اور آپ کے جذبے کا بڑا ہی سخت امتحان انہی قلعوں پر ہوگا جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنے کی جرات کرونگا کہ آپ کے ساتھ جو لشکر ہے اس کی تعداد بہت کم ہے اس قلعے کے اندر جو رومی فوج ہے اس کی تعداد آپ کے لشکر سے بہت زیادہ ہے،،،،،،، اس قلعے میں اور آگے آنے والے ہر قلعے میں جو رومی فوج ہے اس میں ایک ایسی کمزوری ہے جو آپ کو فائدہ دے سکتی ہے، وہ یہ کہ اس فوج پر آپ کا ایسا رعب طاری ہے کہ جب آپکی فوج سے نعرے بلند ہوتے ہیں تو رومی فوج کے ہر سپاہی کے چہرے پر خوف اور بزدلی کا تاثر آجاتا ہے۔ آپ نے بلبیس فتح کیا ہے ۔اس فتح میں آپ کے ہاتھ ایک اتنا بڑا قلعہ بند شہر اور بے شمار مال غنیمت ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی فوج ایک دہشت بن کر رومی فوج پر طاری ہو گئی ہے ۔وہ جو رومی فوج بلبیس سے بھاگ گئ ہے وہ جہاں بھی جائی گی وہاں آپ کا رعب طاری کرتے جائی گی مختصر یہ کہ جو جذبہ آپ کے لشکر میں ہے وہ رومی فوج میں نہیں،،،،،،،،
ام دنین کے جنوب میں چند میل دور بابلیون کا بہت بڑا قلعہ بند شہر ہے میں آپ کو پورے خلوص سے مشورہ دیتا ہوں کے اس قلعے کو سر کرنے کے لیے یہ لشکر نہ لے جائیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی کم ہے اور شہر کے اندر اتنی زیادہ فوج ہے کہ اس نے باہر آکر آپ کے لشکر پر حملہ کردیا تو آپ کے قدم اکھڑ جائیں گے ۔اس قلعے کی دیواروں پر پتھر پھینکنے والی منجیقیں بھی نصب ہیں یہ آپ کے لشکر کو بہت نقصان پہنچائیں گی، اس قلعے کی دیواریں بہت ہی چوڑی اور پتھریلی ہے ان میں آپ شگاف نہیں ڈال سکیں گے ۔یہ فرعونوں کا تعمیر کیا ہوا قلعہ ہے جسے رومیوں نے آکر اور زیادہ مضبوط کردیا ہے رومی اسے ناقابل تسخیر قرار دیتے ہیں جو غلط نہیں،،،،،
دریا کے پار فیوم ایک اور قلعہ بند شہر ہے یہ بھی مضبوطی کے لحاظ سے کچھ کم نہیں جب تک آپ ام دنین اور بابلیون کوفتح نہ کرلیں آپ فیوم تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے ،کیونکہ آپ سیدھے چلے جائیں گے تو بابلیون کے اندر کتنی فوج ہے جس کا کچھ حصہ فیوم کا محاصرہ توڑنے کے لیے آپ پر عقب سے حملہ کردے گی ،اگر آپ کو کمک مل جائے تو پھر آپ بابلیون تک کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
ان تمام علاقے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ فرعونوں کے احرام اسی علاقے میں ہیں اور ابوالہول کا مجسمہ بھی اسی علاقے میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کے جس نے یہ وسیع و عریض علاقہ لے لیا اس نے پورا مصر فتح کر لیا ۔ہمیں مقوقس اور اطربوں نے اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا تھا کہ امدنین، بابلیون اور فیوم تک اگر مسلمان پہنچ گئے تو یہ رومیوں کے لئے زندگی اور موت کی جنگ ہوگی، اگر رومی ہار گئے تو ان کا مصر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا ۔ اور ہرقل نے شام سے نکلتے وقت کہا تھا اے ملک شام الوداع اب ہم کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ اگر آپ یہ جنگ جیت گئے تو ہرقل مصر کے ساحل پر کھڑا ہو کر یہی الفاظ کہے گا الوداع مصر اب ہم کبھی یہاں نہیں آ سکیں گے۔
عمر بن عاص فاروق کی یہ تفصیلات غور سے سنتے رہے اور کچھ سوال بھی کرتے گئے اس طرح اس علاقے کا بڑا ہی واضح اور شفاف نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ پھر انہوں نے فاروق سے پوچھا کہ قبطی عیسائیوں کا رویہ کیا ہے؟،،،،،، اور کیا ایسا امکان موجود ہے کہ وہ ہرقل کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔
کبھی ان پر بھروسہ نہ کریں۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ قبطی عیسائی جنگ کے دوران رومی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے لیکن بنیامین بڑا دانشمند اور دوراندیش آدمی ہے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اس نے ہرقل کو ناراض کردیا اور فتح اسی کی ہوئی تو مصر میں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس کے علاوہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی بڑا دانشمند اور ہوشیار آدمی ہے وہ ایسی چال چلے گا کہ قبطی عیسائیوں کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ قیرس اور بنیامین کی سیاست بازی کو سمجھیں اور قبطیوں پر بھروسہ نہ کریں بھروسہ اسی لشکر پر کریں جو اس وقت آپ کے پاس ہے یہ تھوڑا ہے خواہ زیادہ ہے یہ آپ کی اپنی طاقت ہے یہی آپ کے کام آئے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مدینہ سے چلی ہوئی کمک ابھی تک عمرو بن عاص تک نہیں پہنچی تھی۔ عمروبن عاص نے بلبیس کی فتح کی پہلی ہی رات امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوا کر کہ انھوں نے ایک اورقلعہ فتح کرلیا ہے۔ اوراب کمک کے بغیر آگے ایک قدم بھی اٹھانا ایسے خطرے میں کود جانے کے مترادف ہوگا جس میں پورے لشکر کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے۔ قاصد کو مدینہ کے لیے دوڑا دیا تھا۔ ان کو ابھی یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ کمک مدینہ سے چل پڑی ہے۔
اگلے روز نماز فجر کے بعد عمرو بن عاص نے اپنے نائب سالاروں اور ان سے چھوٹے عہدیداروں کو بلایا یہ ایک اہم اجلاس تھا۔
میرے رفیقو!،،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ میں تم سب کو بڑے امتحان میں ڈال رہا ہوں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اپنے لشکر کی جسمانی حالت کو میں دیکھ رہا ہوں اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہاں سے ہمیں فوراً پیش قدمی کرنی چاہیئے اور ہم آگے آنے والے کسی قلعے کو محاصرے میں لے لیں ،ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ مصر پر فوج کشی کے مخالفین نے جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کہا تھا کہ میں اندھا دھند خطروں میں کود پڑتا ہوں اور میں پورے لشکر کو کسی انجان خطرے میں ڈال کر مروا دوں گا۔ میرے مخالفین نے غلط نہیں کہا تھا لیکن میں اندھا دھند کوئی خطرہ قبول نہیں کرتا۔
میں سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر خطرے میں داخل ہوا کرتا ہوں۔
ائے سپہ سالار!،،،،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔۔اس وقت ہمارا سامنا ان مخالفین سے نہیں جو مصر پر حملے کے خلاف تھے ،ہمارا سامنا رومی فوج سے ہے جو آگے آنے والے قلعوں میں موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اس دشمن کی بات کریں۔
تو نے میرے دل سے بوجھ اتار دیا ہے میرے رفیق۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ رومی فوج کو دم لینے اور سستانے کی مہلت نہ دی جائے اگر ہم یہیں بیٹھے کمک کا انتظار کرتے رہے تو رومیوں کو یہ تاثر ملے گا کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے ۔ اور ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد رومی فوج سے خائف ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم یہاں بیٹھے رہے تو کسی بھی وقت رومی فوج آکر بلبیس کو محاصرے میں لے لے گی اور ہمارے لئے رسد رک جائے گی۔ یہ سوچ لو کہ رومی فوج کے لئے پیچھے ہٹنے کو پورا مصر پڑا ہے مگر ہم مات کھا گئے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا نہ کہیں پناہ ملے گی۔ میں رومی فوج پر اپنے لشکر کی دہشت اور اس کا رعب برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اتنا بھی تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم تھک گئے ہیں اور کچھ دن سستا کر اگلا قدم اٹھائیں گے۔
کیا ہمیں کمک کی توقع رکھنی چاہیے یا نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے پوچھا۔
کمک آرہی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایسا سوچو ہی نہیں کہ کمک نہیں آئے گی کیا تم سب امیرالمومنین سے واقف نہیں وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے،،،،،
میرا ارادہ اور فیصلہ یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر ام دنین کو محاصرے میں لے لیں گے۔
اور اپنی پوری طاقت صرف کرکے یہ قلعہ سر کریں گے اگر ہم اللہ کی مدد سے کامیاب ہوگئے تو اس گھاٹ پر کھڑے تمام جہاز اور کشتیاں ہماری ہوںگی پھر ہمیں دریائے نیل پار کرنے کی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ حالات کا اور احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ عمرو بن عاص پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لیتے اور کمک کا انتظار کرتے لیکن وہ اللہ تعالی کی ذات باری پر بھروسہ رکھنے والے اور خطروں میں کود جانے والے سپہ سالار تھے۔ انہیں اپنے آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے فیصلوں کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنتے تھے۔
سالاروں اور عہدے داروں نے کچھ مشورے دیے عمرو بن عاص نے کچھ مشورے قبول کئے اور کچھ رد کئے اور آخر یہ پلان بنا کہ فوری طور پر پیش قدمی کی جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر مقوقس نے ام دنین اور بابلیون میں مزید فوج بھیج دی تھی، اس سے پہلے مقوقس اس خوش فہمی میں مبتلا رہا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور اتنی تھوڑی نفری کسی بھی قلعے کو فتح کرنے کے لیے کافی نہیں ،اس خوش فہمی کے زیر اثر اس نے یہ پھندا تیار کیا تھا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اور پھر انہیں نرغے میں لے کر بالکل ہی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ لیکن جو ہوا وہ اس کی توقعات کے بالکل الٹ تھا مسلمانوں نے بلبیس جیسا ہر لحاظ سے مضبوط قلعہ بھی لے لیا اور جرنیل اطربون کو مار بھی ڈالا۔
اطربون کی لاش نے اور ہرقل کے پیغام نے مقوقس کو خوش فہمیوں سے نکال دیا تھا۔
ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بھی اس کے ساتھ مل گیا تھا ،اور قیرس نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بنیامین کو بھی راضی کر لے گا ۔ اب مقوقس کی سوچیں بدل گئی تھیں اس نے ان دو قلعہ بند شہروں کو نا قابل تسخیر بنانے کے لئے نئی تیاری کی ہوئی فوج استعمال کی، ام دنین میں بھی اس نے فوج میں اضافہ کردیا لیکن اس کی زیادہ توجہ بابلیون پر تھی اسے احساس تھا کہ بابلیون ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مصر کو مسلمانوں سے بچانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نے بابلیون میں فوج میں جو اضافہ کیا تھا وہ صرف اس شہر کے دفاع کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ مقوقس کا پلان یہ تھا کہ مسلمان جدھر بھی حملہ کریں گے وہ بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے گا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو نومسلم فاروق نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آگے دفاعی نظام کیسا ہے۔ اس نے عمروبن عاص کو بابلیون سے خبردار کر دیا تھا اس کے باوجود عمرو بن عاص اسی علاقے میں جا رہے تھے۔
عمرو بن عاص نے صرف ایک دن انتظار کیا اور وہ بھی اس لیے کہ بلبیس شہر کا نظم و نسق اور دیگر امور بحال کرنے کے انتظامات کرنے تھے ۔ اگلے ہی روز نماز فجر کے بعد انہوں نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا
پیش قدمی سے پہلے انہوں نے لشکر سے انتہائی مختصر خطاب کیا اس خطاب کے الفاظ کچھ مختلف ہوں گے اس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارے دین کا دشمن جب بھاگ اٹھے تو اس کے تعاقب میں جاؤ اور اس کا ٹھکانہ بھی تباہ کر دو مجھے احساس ہے کہ ہماری نفری بہت تھوڑی ہے لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کمک آرہی ہے۔ مدینہ سے کمک شاید کچھ دیر سے پہنچے لیکن اللہ نے فرشتوں کی کمک تمہارے ساتھ کردی ہے۔ میں تمہیں جس خطرے میں لے جا رہا ہو وہاں تم میرے حکم سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لڑو گے، یاد رکھنا اسلام کے مجاہدوں کہ ہم یہاں پِٹ گئے تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی، یہاں کی زمین یہاں کے پیڑ اور پتھر اور یہاں کے ریت کے ذرے بھی تمہارے دشمن ہیں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھو۔
مقوقس بابلیون میں آگیا تھا اسے مسلمانوں کی پیشقدمی کی اطلاعات تواتر سے مل رہی تھیں مجاہدین جب ام دنین کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے توجہ نہیں کی تھی کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دو ایک مسافر آ جا رہے تھے۔ ظاہری طور پر وہ بے ضرر لوگ معلوم ہوتے تھے لیکن وہ مقوقس کے جاسوس تھے جو مجاہدین کے لشکر کو دیکھ رہے تھے کے اس کا رخ کس طرف ہے اور اس کی نفری کتنی کچھ ہے۔
مجاہدین کی نفری تو اور ہی زیادہ کم ہو گئی تھی بلبیس کی لڑائی میں مجاہدین شہید بھی ہوئے اور شدید زخمی بھی ہوئے تھے ، معمولی طور پر زخمی ہونے والے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ وہ ابھی لشکر کے ساتھ نہ جائیں، اور اس وقت آگے آئیں جب ان کے زخم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن انہوں نے لشکر کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ لڑنے کے قابل ہیں اور پیچھے نہیں رہیں گے۔
نفری میں مزید کمی اس لیے بھی ہوئی تھی کہ مجاہدین کی کچھ تعداد بلبیس میں رکھنی تھی شہریوں میں نظم ونسق بحال کرنے کے علاوہ کئی اور سرکاری امور تھے جن کی دیکھ بھال ضروری تھی وہاں تین ہزار قیدی بھی تھے ان پر بھی کچھ نفری مقرر کر دی گئی تھی۔
یہ واضح نہیں کہ مجاہدین کا لشکر کتنے دنوں بعد ام دنین پہنچا یہ شہر کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا کہ کئی دن لگ جاتے بہرحال لشکر پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔
مسلمانوں کے دو چار جاسوس پہلے ہی اس شہر میں موجود تھے لشکر ابھی شہر کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ یہ جاسوس شہر سے نکل آئے کیونکہ محاصرے کی صورت میں دروازے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکتے تھے۔ انھیں سپہ سالار کو ضروری اطلاعات کی معلومات دینی تھی ،عمرو بن عاص کو بتایا کہ شہر میں رسد اور پانی کی کمی ہے اور یہ دونوں چیزیں باہر سے اندر جاتی ہیں ۔
عمرو بن عاص کے لیے یہ اطلاع بڑی ہی اہم تھی انہوں نے رسد کے راستے بند کردیئے اور پانی بھی روک لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦