Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🌻 ”سید کے طور پر مشہور“ لوگوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم


 📿 *”میاں گان“ قوم کو زکوٰۃ دینے کا حکم:*

جو ”میاں گان“ قوم واقعی لوگوں کے درمیان ’’سید‘‘ (یعنی ہاشمی آلِ رسول ﷺ) معروف ومشہور ہے اور اس کے خلاف کوئی معتبر دلیل موجود نہیں، تو محض یہ شہرت ہی ان کے ’’سید‘‘ ہونے کے لیے کافی ہے، ایسی صورت میں عام حالات میں ان کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔

☀️ ’امداد الفتاوٰی‘‘ میں ہے:

’’سوال: جو شخص ’’سید‘‘ کہا جاتا ہے، مگر اس کے نسب کا کہیں پتا نہیں، بلکہ یہ خیال ہوتا ہے کہ چوں کہ اس کے یہاں تعزیہ داری وغیرہ ہوتی ہے اس کے سبب سے ’’سید‘‘ کہلاتا ہے، اور اس طرح قرابتیں بھی عام طور سے جو لوگ شیخ کہلاتے ہیں ان میں ہوتی ہیں، تو ایسے شخص کو زکات کا مال دے سکتے ہیں یا نہیں؟ یا صرف تسامع سے اس کو ’’سید‘‘ مانیں گے گو کہ ’’سید‘‘ نہ ہو؟

الجواب: نسب میں تسامع کافی ہے، جب کہ مکذبِ بیّن نہ ہو، فقط۔‘‘ (کتاب الزکاۃ والصدقۃ، ۲/ ۵۸، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

☀️ ’احسن الفتاوٰی‘‘ میں ہے:

’’سوال: زید اپنے آباء واجداد سے یہی سنتا آیا ہے کہ ہمارا سلسلہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے، لیکن زید کے پاس کوئی مکمل شجرۂ نسب نہیں ہے، جس سے صحیح طور پر معلوم ہوسکے کہ ہم واقعی قریشی عباسی ہیں۔ تو اس صورت میں زید کو مالِ زکات لینا جب کہ زید کے پاس کوئی مالِ زکات کی چیز نہیں ہے ٗ درست ہے یا نہیں؟ 

الجواب باسم ملہم الصواب: ثبوتِ نسب کے لیے عام شہرت کافی ہے، شجرہ ہونا ضروری نہیں، لہذا زید کے لیے زکاۃ لینا حرام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (کتاب الزکاۃ، ۴/ ۲۸۹، ط: ایچ ایم سعید)

☀️ وفي المحيط البرهاني:

"وتجوز الشهادة بالشهرة ‌والتسامع في أربعة أشياء: ‌النسب والنكاح والقضاء والموت، والقياس 

في هذه الأشياء أيضا أن لا تحل الشهادة ‌بالتسامع؛ لأن شرط جواز الشهادة علم معاينة، قال عليه السلام: «إذا علمت مثل الشمس فاشهدوا وإلا فدع» فقد شرط لحل الشهادة علم معاينة، ولم توجد، إلا أنا استحسنا وجوزنا الشهادة بالشهرة والتسامع في هذه الأشياء الأربعة للتوارث والتعامل بين الناس . . . فأما النسب فصورته: إذا سمع الرجل من الناس أن فلان بن فلان الفلاني، وسعه أن يشهد بذلك وإن لم يعاين الولادة على فراشه للتوارث والتعامل، فإنا نشهد أن أبا بكر الصديق رضي الله عنه ابن قحافة، وعمر رضى الله عنه ابن الخطاب، وعثمان رضي الله عنه ابن عفان، وعلي رضي الله عنه ابن أبي طالب، ونحن ما رأينا أبا قحافة ولا الخطاب ولا أبا طالب، وما أدركناهم، وكذلك الغلام منا إذا أدرك فسمع الناس يقولون: فلان بن فلان ولم يدرك هذا الغلام أباه، فإنه يشهد أنه فلان بن فلان ولأن سبب النسب العلوق منه، وإنه لا يمكن الوقوف عليه حقيقة؛ لأنه أمر باطن لا يعلمه إلا الله تعالى، وسبب العلوق وهو الوطء يكون سرا من الناس لا يعرفه إلا الواطئان، والولادة لا يعرفها غير القابلة، فتعذر الوقوف على حقيقته، فلم يكلف الشهود معرفته حقيقة، واكتفى فيه بالدليل الظاهر، وهو الشهرة وقوعا وبقاء، فالنسب مشتهر وقوعا وبقاء، وقوعا بأن الولادة تكون بين جماعة من النسوان غالبا، ثم يهيأ بعد ذلك لأجلها ويتخذ لذلك وليمة، وهو العقيقة. وأما بقاء: فلأن بمضي الزمان يشتهر نسبه فيما بين الناس، فيقولون هذا ابن فلان، فيقوم مقام المعاينة."

(كتاب الشهادات: الفصل الأول، ٨/ ٣٠٠-٣٠١، ط: دار الكتب العلمية)


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی


کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.