Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🌻 اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات کی حقیقت


 📿 اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات کی حقیقت:

متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اچھے اور بُرے ناموں کا اثر ہوتا ہے، اس لیے بچوں کے لیے اچھے نام رکھنے چاہیے، ذیل میں اس حوالے سے چند روایات ملاحظہ فرمائیں:

1️⃣ حضرت یَعِیش غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک دن اونٹنی منگوا کر (لوگوں سے) پوچھا کہ:’’اس کا دودھ کون دوہے گا؟ ‘‘تو ایک آدمی نے کہا کہ: میں۔  تو حضور اقدس ﷺ نے اس سے پوچھا کہ:’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ تو اس آدمی نے کہا کہ: مُرَّۃ (یعنی کڑوا)۔ یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے اس سے فرمایا کہ:’’بیٹھ جاؤ۔‘‘پھر دوسرا آدمی اس غرض سے اُٹھا تو حضور اقدس ﷺ نے اس سے بھی پوچھا کہ:’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ تو اس نے کہا کہ: جَمْرَۃ (یعنی چنگاری)۔ یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے اس سے بھی فرمایا کہ:’’ بیٹھ جاؤ۔‘‘پھر ’’یعیش‘‘ نامی آدمی اس غرض سے اُٹھا تو حضور اقدس ﷺنے اس سے بھی پوچھا کہ:’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ تو اس نے کہا کہ: یَعِیْش (یعنی زندگی جینے والا)۔ تو حضور اقدسﷺ نے اس سے فرمایا کہ: ’’تم دودھ دوہو۔‘‘  

☀️ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:

12831- وَعَنْ يَعِيشَ الْغِفَارِيِّ قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ نَاقَةً يَوْمًا فَقَالَ: «مَنْ يَحْلِبُهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا. فَقَالَ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: مُرَّةُ. قَالَ: «اقْعُدْ». ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: «مَا اسْمُكَ؟» قَالَ: مُرَّةُ. قَالَ: «اقْعُدْ». ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: «مَا اسْمُكَ؟» قَالَ: جَمْرَةُ. فَقَالَ: «اقْعُدْ». ثُمَّ قَامَ يَعِيشُ، فَقَالَ: «مَا اسْمُكَ؟» قَالَ: يَعِيشُ. قَالَ: «احْلِبْهَا».

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ. (بَابُ الْأَسْمَاءِ وَمَا جَاءَ فِي الْأَسْمَاءِ الْحَسَنَةِ)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ:

اچھے نام رکھنے چاہییں، جبکہ بُرے ناموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اچھے ناموں کا اچھا اثر ہوتا ہے، جبکہ بُرے ناموں کا بُرا اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے حضور اقدس ﷺ نے 

بُرے نام والوں کی بجائے اچھے نام والے شخص کو اونٹنی کا دودھ دوہنے کا حکم دیا۔

2️⃣ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد حضور اقدس ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو حضور اقدس ﷺ نے ان سے پوچھا کہ: ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘تو انھوں نے جواب میں کہا کہ: حَزن (یعنی غم اور سختی)۔ تو حضور اقدس ﷺ نے (ان کا نام تبدیل کرنے کی غرض سے) ان سے فرمایا کہ:’’آپ کا نام سہل (یعنی آسانی) ہے۔‘‘ تو ان کے والد نے کہا کہ: میں اُس نام کو نہیں بدلوں گا جو میرے والد نے رکھا تھا۔ اس پر حضرت  سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس کے بعد ہمارے گھرانے میں مسلسل غم ہی کے حالات رہے۔

☀️ صحيح البخاري:

6190- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أَبَاهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: «مَا اسْمُكَ؟» قَالَ: حَزْنٌ، قَالَ: «أَنْتَ سَهْلٌ»، قَالَ: لَا أُغَيِّرُ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي. قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: فَمَا زَالَتِ الْحُزُونَةُ فِينَا بَعْدُ. (بَاب اسْمِ الْحَزْنِ)

اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ بُرے ناموں کا اثر ہوتا ہے، اس لیے اچھے نام رکھنے چاہییں اور بُرے ناموں کو تبدیل کرلینا چاہیے۔


📿 حاصلِ کلام:

احادیث کی رو سے بچوں کے اچھے اور پیارے نام رکھنا سنت ہے، خود حضور اقدس ﷺ اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے اور اس سے خوش ہوتے تھے جس کا اظہار بھی فرماتے تھے، جبکہ بُرے ناموں کو ناپسند فرماتے تھے جس کا اظہار بھی فرماتے تھے، حتی کہ متعدد ناپسندیدہ نام تبدیل بھی فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بُرے نام رکھنا سنت کے خلاف، ناپسندیدہ اور نقصان دہ ہے۔ نیز مذکورہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات ہوتے ہیں، اس لیے مستند اہلِ علم کی مشاورت کے بعد ہی بچوں کا نام رکھنا چاہیے اور  اپنے اور اپنے بچوں کے اچھے نام رکھتے ہوئے بُرے ناموں سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ ناموں کے اثرات سے متعلق وہم اور خود ساختہ نظریات سے بھی بچنا چاہیے، جیسا کہ بعض لوگ بلاوجہ اور بلا دلیل ناموں کے خود ساختہ اثرات بیان کرکے پریشان ہوتے رہتے ہیں۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.