📿 مورث کے انتقال کے بعد مرتد ہونے والے کی میراث کا حکم:
اگر کوئی وارث اپنے مورث (جیسے والد وغیرہ) کے انتقال کے وقت مسلمان تھا، لیکن بعد میں وہ ۔۔معاذَ اللہ۔۔ مرتد ہوگیا یعنی دائرہ اسلام سے نکل گیا، تو ایسی صورت میں بھی اس کو اپنے مورث کی میراث میں سے شریعت کی جانب سے طے کردہ حصہ ملے گا، گویا کہ بعد میں مرتد ہوجانے کی وجہ سے میراث میں سے اس کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔
☀️جیسا کہ ”امداد الاحکام“ میں ہے:
قال في الدر: ويبطل منه اتفاقا ما يعتمد الملة وهي خمس النكاح و الذبح والصيد والشهادة والإرث اهــ. قال الشامي: فلا يرث أحدا ولا يرثه أحد مما اكتسبه في ردته بخلاف کسب إسلامه فإنه يرثه ورثته (أي لأن ارتداد المسلم كموته فكأنه مات المورث المسلم فيرثه وارثه المسلم في كسب إسلامه). (ج 3، ص 466). وفي البدائع: وأما المرتدة فلا يزول ملكها عن أمور لها بلا خلاف فيجوز تصرفاتها في مالها بالإجماع؛ لأنها لا تقتل فلم تكن ردتها سببا لزوال ملكها عن أمور لها بلاخلاف اهــ (ج 7 ، ص 137)، وأما حكم الميراث فنقول: لا خلاف بين أصحابنا رضي الله عنهم في المال الذي اكتسبه في حالة الإسلام يكون ميراثا لورثته المسلمين إذا مات أو قتل أو لحق وقضي باللحاق، وقال الشافعي: وهو فيء إلى أن قال: وعلى هذا الاختلاف المرتدة إذا لحقت بدار الحرب؛ لأن المعنى لا يوجب الفضل اهــ (ج 3 ص 139). قلت: وأما ما قاله الفقهاء أن المرتد لا يرث أحدا فمعناه إذا كان مرتدا وقت موت مورثه، وأما إذا كان مسلما وقت موته فيرثه وإن ارتد بعد موته؛ لأن المانع لم يوجد وقت الإرث. صورتِ مسئولہ میں یہ عورت اپنے شوہر سے میراث کا حق پانے کے مستحق ہے کیونکہ اس کی موت کے وقت یہ مسلمان تھی اور عورت کی ملک ارتداد سے زائل نہیں ہوتی۔ لہذا اس کا حق میراث اس کی ملک میں باقی ہے، اسی طرح اگر اس نے دین مہر وصول و معاف نہیں کیا تو وہ دین مہر کی بھی مستحق ہے۔
قلت: وأما علة اللحاق فلم توجد؛ لأنها ما انتقلت من دار الإسلام إلى دار الحرب بل ھي مسلمة في دار الحرب قد ارتدت فيها، والله أعلم.
(كتاب الفرائض: ص:636 ج:4 ط: مكتبه دار العلوم)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی


ایک تبصرہ شائع کریں