📿 *مسجد کے نمازیوں کو کھانا کھلانے کی نذر کا حکم:*
اگر کسی شخص نے یہ نذر مانی کہ: اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں مسجد کے نمازیوں کو کھانا کھلاؤں گا، تو یہ نذر صرف اس مسجد کے مستحقِ زکوٰۃ افراد کے حق میں منعقد اور درست ہوگی، دیگر افراد کے حق میں یہ نذر منعقد نہ ہوگی۔ اس لیے جب وہ کام ہوجائے جس کے لیے نذر مانی تھی تو اس مسجد کے صرف مستحقِ زکوٰۃ افراد ہی کو یہ کھانا کھلانا جائز ہے، ان کے علاوہ دیگر غیر مستحقِ زکوٰۃ افراد کو یہ کھانا کھلانا جائز نہیں، تاہم اگر وہ کھانا اس مسجد کے مستحقِ زکوٰۃ افراد سے زائد ہو تو ایسی صورت میں دیگر افراد بھی یہ کھانا کھا سکتے ہیں لیکن ان کا یہ کھانا بطورِ نذر نہ ہوگا۔ نیز اگر اس مسجد کے تمام نمازی غیر مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ایسی صورت میں یہ نذر منعقد ہی نہ ہوگی اور نہ ہی اس کو پورا کرنا لازم ہوگا، البتہ اگر اس کے باوجود بھی وہ نمازیوں کو کھانا کھلانا چاہے تو یہ بھی جائز ہے لیکن یہ بطورِ نذر نہ ہوگا۔
☀️ رد المحتار علی الدر المختار:
قلت: ويزاد ما في زواهر الجواهر وأن لا يكون مستحيل الكون فلو نذر صوم أمس أو اعتكافه لم يصح نذره. وفي القنية: نذر التصدق على الأغنياء لم يصح ما لم ينو أبناء السبيل ... (قوله: وفي القنية إلخ) عبارتها كما في البحر: نذر أن يتصدق بدينار على الأغنياء ينبغي أن لا يصح. قلت: وينبغي أن يصح إذا نوى أبناء السبيل؛ لأنهم محل الزكاة. (كتاب الأيمان)
☀️ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري»:
"في القنية: نذر أن يتصدق بدينار على الأغنياء ينبغي أن لا يصح قلت: وينبغي أن يصح إذا نوى أبناء السبيل؛ لأنهم محل الزكاة ولو قال: إن قدم غائبي فلله علي أن أضيف هؤلاء الأقوام وهم أغنياء لا يصح." (كتاب الأيمان)
☀️ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:
«والمنذور يلزمه "إذا اجتمع فيه" أي المنذور "ثلاثة شروط" أحدها "أن من جنس واجب" بأصله وإن حرم ارتكابه لوصفه كصوم يوم النحر "و" الثاني "أن يكون مقصودا" لذاته لا لغيره كالوضوء "و" الثالث أن يكون "ليس واجبا" قبل نذره بإيجاب الله تعالى كالصلوات الخمس والوتر وقد زيد شرط رابع أن لا يكون المنذور محالا كقوله لله علي صوم أمس اليوم إذ لا يلزمه .... وقد زيد شرط رابع" وزيد أيضا أن لا يكون ما التزمه أكثر مما يملكه أو ملكا لغيره، وفي القنية: نذر التصدق على الأغنياء لم يصح ما لم ينو أبناء السبيل."
(كتاب الصوم: باب ما يلزم الوفاء به)
☀️ امداد الفتاوی میں ہے:
اہل محلہ کو گائے ذبح کر کے کھلانے کی نذر میں اغنیاء کو کھلا نا درست ہے یا نہیں؟
سوال (۱۴۴۶) : قدیم ۲/ ۵۵۹ - ہمارے یہاں اس طرح پر نذر کرتے ہیں اگر فلاں مقصود میرا حاصل ہو تو ایک گائے اللہ تعالی کے نام پر ذبح کر کے محلہ والوں کو کھلاؤں گا یا یوں کہے کہ للہ ذبح کروں گا مگر اہل محلہ کو کھلا نا منظور ہوتا ہے حالانکہ محلہ میں نصاب والا اور فقیر دونوں ہیں بلکہ بہ نسبت فقیر کے پیسے والے کو کھلانے کا زیادہ خیال رہتا ہے ۔ جناب من اس صورت میں ایفاء نذر واجب ہوگا یا نہیں اور دونوں فرقوں کو کھلا نا اس کا درست ہوگا یا نہیں؟
*الجواب:* في الدر المختار: نذر التصدق على الأغنياء لم يصح ما لم ينو أبناء السبيل. وفيه ولو قال: إن برأت من مرضى هذا ذبحت شاة أو على شاة أذبحها فبرئ لا يلزمه شيء؛ لأن الذبح ليس من جنسه فرض بل واجب كالأضحية فلا يصح إلا إذا زاد وأتصدق بلحمها فيلزمه؛ لأن الصدقة من جنسها فرض وهي الزكاة. الخ .
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بقدر اغنیاء کے نذر منعقد نہیں ہوئی اور بقدرِ فقراء منعقد ہوگئی اور فقراء کوکھلانا ضروری ہو گا اور اغنیاء نے اگر کھایا تو دیکھنا چاہیے کہ اُس نے بقد رحصہ فقراء پکوایا ہے یا زیادہ؟ پہلی صورت میں اغنیاء کو کھانا درست نہیں، دوسری صورت میں درست ہے۔ فقط (کتاب النذور)
☀️ وفیه أیضًا:
اغنیاء کے واسطے نذر کی تحقیق:
سوال (۱۴۴۷): قدیم ۲/ ۵۶۰ - زید نے نذر کی یعنی یہ کہا کہ اگر میرا افلاں کام ہو گیا تو میں فلاں مدرسہ کے مدرسین کی
دعوت کروں گا۔ اس کا کام ہو گیا تو ناذ رکو انھیں مدرسہ کے مدرسین کو کھلانا چاہیے یا کہ دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے اور مدرسین کو یہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟۔
*الجواب:* اگر مدرسین غنی ہیں تو بقدر ان کے حصہ کے یہ نذر نہ ہوگی اور یہ بھی اختیار ہو گا کہ اُس مقدار کا ایفاء نہ کرے اور اگر مساکین ہیں تو نذر ہو جاوے گی مگر یہ تخصیص لازم نہ ہوگی جس مسکین کو چاہے کھلائے ۔ (کتاب النذور)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں