📿 *بیوی کو ”طلاق، طلاق، طلاق“ کہنے کا حکم:*
شوہر جب بیوی کو ”طلاق، طلاق، طلاق“ کے الفاظ کہہ دے تو اس میں اگرچہ صراحتًا ان الفاظ کی نسبت بیوی کی طرف نہیں ہوتی لیکن چونکہ یہ الفاظ بیوی ہی سے کہے ہوتے ہیں، اس لیے اس قرینے کی وجہ سے ان الفاظ کی نسبت بیوی کی طرف ہی سمجھی جائے گی اور اس طرح کہنے سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ایسے الفاظ سے بھی مکمل اجتناب کرنا چاہیے تاکہ بعد میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
📿 *تنبیہ:* مذکورہ حکم تو اصولی ہے، اس لیے اگر کسی نے اس طرح کے الفاظ اپنی بیوی سے کہہ دیے تو اس حوالے سے مکمل الفاظ وتفصیلات کسی مفتی صاحب کے سامنے ذکر اس کا شرعی حکم معلوم کرلیا جائے۔
☀️ الدر مع حاشية ابن عابدين:
(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ. أقول: وما ذكره الشارح من التعليل أصله لصاحب البحر أخذا من قول البزازية في الأيمان قال لها: لا تخرجي من الدار إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لا يقع لعدم حلفه بطلاقها، ويحتمل الحلف بطلاق غيرها فالقول له .... لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي: طلقت امرأته. ... ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها ... أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله.
(كتاب الطلاق: باب صريح الطلاق)
☀️ فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
▪️ *سوال:* زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق،
طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟
▪️ *جواب:* موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی۔‘‘ (کتاب الطلاق، ج:9، ص: 196، ط: دار الاشاعت)
☀️ وفیہ ایضا:
▪️ *سوال:* شخصے زنے خود را سہ طلاق گفت و اضافت بسوئے زوجہ نہ کرد چہ حکم است؟
▪️ *جواب:* در صورت مسئولہ سہ طلاق بر زوجہ واقع شود فانہ لا یشترط ان یکون الاضافۃ صریحۃ کما حققہ الشامی۔ (کتاب الطلاق، ج: 9، ص:166، ط: دار الاشاعت)
☀️ فتاوی محمودیہ میں ہے:
زدوکوب اپنی عورت کو کیا، اس کی وجہ سے ساس سے جھگڑا ہوا، اس کی طلاق کے لئے ساس سے دریافت کیا، جس پر ساس نے جواب نفی میں دیا۔ پھر اسی مجلس میں تین دفعہ طلاق طلاق طلاق کہا تو طلاق واقع ہونے پر کیا شبہ رہ گیا نام لینا یا اشارہ کرنا ضروری نہیں۔ یہ سب قرائن کافی ہیں۔ ویسے بھی طلاق بیوی ہی کو دی جاتی ہے کسی اور کو نہیں دی جاتی ۔ (کتاب الطلاق، باب وقوع الطلاق وعدم وقوعہ، ج:12، ص:278، ط: ادارۃ الفاروق)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی