🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ ہِجدہ🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴 قاتلین کا انجام 🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰
https://bit.ly/Haq-O-Batil17
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قاتلین کا انجام
مختار سقفی:
مختار سقفی نہ تو کوئی بادشاہ تھا نہ حکمران اور نہ ہی اس کے پاس طاقت یا بڑی فوج تھی۔وہ حضرت امامِ حسین کی حمایت میں اٹھا اور قدرت نے اس کا ساتھ دے کر اسے کوفہ کا حاکم بنا دیا۔ مختار نے کوفہ کا حاکم بننے کے بعد جو پہلا حکم جاری کیا وہ یہ تھا کہ جس گھر سے بھی قاتلینِ حسین کی نشان دہی ہوئی اور جس نے بھی ان ظالموں کو پناہ دی ۔
اس کے مکان کی بنیادیں اکھیڑ دی جائیں گی۔جو لوگ اس میں شامل تھے وہ چھپنے لگے۔مگر مختار کی فوج نے ہر طرف تلاشی شروع کر دی۔
ابن سعد کا قتل:
مختار نے ایک دن کہا کہ میں کل ایک ایسے شخص کو قتل کروں گا کہ اس سے تمام مومنین اور ملائکہ مقربین بھی خوش ہوں گے۔
حیثم بن اسود نہعی اس وقت مختار کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سمجھ گیا کہ عمر بن سعد کل مارا جائے گا ۔
مکان پر آ کر اس نے اپنے بیٹے کو سعد کے پاس بھیج کر اطلاع کر دی کہ تم اپنی حفاظت کا انتظام کرو مختار کل تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے۔مگر مختار چونکہ اپنے خروج کے ابتدائی زمانے میں ابن ِ سعد سے نہایت ہی اخلاق کے ساتھ پیش آتا تھا ۔اس لیے اس نے کہا مختار ہمیں نہیں قتل کرے گا۔
دوسرے دن صبح کو مختار نے ابن سعد کو بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا ۔
اس نے اپنے بیٹے حفص کو بھیج دیا۔مختار نے اس سے پوچھا تیرا باپ کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ خلوت نشین ہو گیا ہے۔اب گھر سے باہر نہیں نکلتا ۔مختار نے کہا اب وہ ”رے “کی حکومت کہاں ہے جس کے لیے فرزند ِ رسول ﷺ کا خون بہایا تھا؟ اب کیوں اس سے دستبردارہو کر گھر میں بیٹھے ہو؟ حضرت امامِ حسین کی شہادت کے دن وہ کیوں نہیں خانہ نشین ہوا تھا؟
پھر مختار نے اپنے کوتوال ابو عمرہ کو بھیجا کہ ابن سعد کا سر کاٹ کر لے آئے۔
وہ ابن سعد کے پاس گیا اور اس کا سر کاٹ کر اپنی قبا کے دامن میں چھپا کر مختار کے پاس لایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔مختار نے حفص سے پوچھا پہچانتے ہو یہ سر کس کا ہے؟ اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر کہا یہ میرے باپ کا سر ہے اور اب ان کے بعد زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔ مختار نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو اور تم زندہ بھی نہیں رہو گے۔پھر اسے بھی قتل کر دیا اور کہاباپ کا سر حسین کا بدلہ ۔
اور بیٹے کا سر علی اکبر کا بدلہ ۔اگرچہ یہ دونوں ان کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے۔خدا کی قسم! میں اگر قریش کے تین دستے بھی قتل کر ڈالوں تب بھی وہ حسین کی انگلیوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔پھر مختار نے ان دونوں کے سر حضرت محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیے۔
خولی بن یزید کا قتل:
خولی ان بد بختوں میں شامل ہے جنہوں نے امام ِ عالی مقام کے سرِ انور کو جسم ِ اقدس سے جدا کرنے میں ساتھ دیا تھا۔
مختار نے اپنے کوتوال ابوعمرہ کو چند ساتھیوں کے ساتھ اس کی گرفتاری کے لیے بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر خولی کو گھر سے گھیر لیا ۔جب اس بد بخت کو معلوم ہوا تو وہ اپنی کوٹھری میں چھپ گیا اور بیوی سے کہہ دیا کہ تم لاعلمی ظاہر کر دینا ۔کوتوال نے اس کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا ۔اس کی بیوی باہر نکل آئی۔ اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ چونکہ جس وقت خولی امامِ حسین کا سر لایا تھا وہ اس کی دشمن ہو گئی تھی ۔
اس نے زبان سے تو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے مگر ہاتھ کے اشار ے سے اس نے چھپنے کی جگہ بتا دی۔سپاہی اس مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ سر پر ایک ٹوکرا رکھے زمین سے چپکا ہوا ہے۔ اس کو گرفتار کر کے لا رہے تھے کہ مختار کوفہ کی سیر کے لیے نکلا ہوا تھا راستے میں مل گیا۔اس نے حکم دیا کہ خولی کے گھر والوں کو بلا کر ان کے سامنے شاہراہ ِ عام پر اس کو قتل کیا جائے۔
پھر اس کو جلایا گیا اور جب تک اس کی لاش جل کر راکھ نہیں ہو گئی مختار کھڑا رہا۔
شمر کا قتل :
مسلم بن عبد اللہ ضیابی کا بیان ہے کہ جب حضرت حسین کے مقابلے میں کربلا جانے والوں کو پکڑ پکڑ کر مختار قتل کرنے لگا تو ہم اور شمربن ذی الجوشن تیز رفتا ر گھوڑوں پر بیٹھ کر کوفہ سے بھاگ نکلے۔
مختار کے غلام زربی نے ہمارا پیچھا کیا ۔ہم نے اپنے گھوڑوں کو بہت تیز دوڑایا مگر زربی ہمارے قریب آگیا۔شمر نے ہم سے کہا کہ تم گھوڑے کو ایڑ دے کے مجھ سے دور ہو جاؤ ۔شاید یہ غلام میری تاک میں آ رہا ہے۔ہم اپنے گھوڑے کو خود تیزی سے بھگا کر شمر سے الگ ہو گئے۔غلام نے پہنچتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو شمر ا سکے وار سے بچنے کے لیے گھوڑے کداتا رہا مگر جب زربی اپنے ساتھیوں سے دور ہو گیا تو شمر نے ایک ہی وار میں اس کی کمر توڑ دی۔
جب مختار کے سامنے زربی لایا گیا اور اس کو واقعہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ اگر یہ مجھ سے مشورہ کرتا تو میں کبھی اس کو شمر پر حملہ کرنے کا حکم نہ دیتا۔
زربی کو قتل کرنے کے بعد شمرکلطانیہ گاؤں پہنچا جو دریا کے کنارے واقع تھا ۔اس نے گاؤں کے کسان کو بلا کر مارا پیٹا اور اسے مجبور کیا کہ میرا یہ خط مصعب بن زبیر کے پاس پہنچاؤ۔
اس خط پر یہ پتا لکھا ہوا تھا ۔شمرزالجوشن کی طرف سے امیر مصعب بن زبیر کے نام۔ کسان اس خط کو لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں ایک بڑا گاؤں آباد تھا ۔جہاں کوتوال ابو عمرو چند سپاہیوں کے ہمراہ جنگی چوکی قائم کرنے کے لیے آیا ہوا تھا ۔ یہ کسان اس گاؤں کے ایک کسان سے مل کر، شمر نے جو اس کے ساتھ زیادتی کی تھی، اس کو بیان کر رہا تھا کہ ایک سپاہی ان کے پاس سے گزرا اس نے شمر کے خط اور اس کے پتہ کو دیکھا توپوچھا کہ شمر کہاں ہے؟ اس نے بتا دیا ۔معلوم ہوا کہ پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ابو عمرہ فوراً اپنے سپاہیوں کو لیے ہوئے شمر کی طرف چل پڑا ۔
مسلم بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں رات میں شمر کے ہمراہ تھا ۔میں نے اس سے کہا کہ بہتر ہے کہ ہم اس جگہ سے روانہ ہو جائیں ۔اس لیے کہ ہمیں یہاں ڈر معلوم ہوتا ہے۔اس نے کہا کہ میں تین دن سے پہلے یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔اور تمہیں خوف غالباََ مختار کذاب کی وجہ سے ہے۔ تم اس سے مرعوب ہو گئے ہو۔ہم جہاں ٹھہرے تھے وہاں ریچھ بہت زیادہ تھے ابھی زیادہ رات نہیں گزری تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی ۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ ریچھ ہوں گے۔مگر آواز تیز ہو گئی تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اپنی آنکھوں کو ملنے لگا اور کہا یہ ریچھوں کی آواز ہرگز نہیں ہو سکتی۔اتنے میں انہوں نے پہنچ کر تکبیر کہی اور ہماری جھونپڑیوں کو گھیرے میں لے لیا ۔ہم اپنے گھوڑے چھوڑ کر پیدل ہی بھاگے۔اور وہ لوگ شمر پر ٹوٹ پڑے۔
شمر جو پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھا اور اس کے برص کی داغوں کی سفیدی چادر کے اوپر سے نظر آ رہی تھی ۔
وہ کپڑے اور زرہ وغیرہ بھی نہیں پہن سکا ۔اسی چادر کو اوڑھے ہوئے نیزے سے ان کا مقابلہ کرنے لگا۔ابھی ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ تکبیر کی آواز کے بعد ہم نے سنا کہ اللہ نے خبیث کو قتل کر دیا۔پھر ان لوگوں نے اس کے سر کو کاٹ کر لاش کو کتوں کے لیے پھینک دیا۔
ابن زیادکا قتل:
عبد اللہ بن زیاد وہ بد بخت انسان ہے جو یزید کی طرف سے کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔
اس بد بخت کے حکم سے حضرت اما م اور آپ کے اہل ِ بیت کو تمام تکلیفیں پہنچائی گئیں ۔یہ ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ اُترا۔مختار نے ابراہیم بن مالک اشتر کو اس کے مقابلے کے لیے ایک فوج کولے کر بھیجا ۔موصل سے تقریباً پچیس کلو میڑ کے فاصلے پر دریائے ِ فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا ۔اور صبح سے شام تک خوب جنگ ہوئی۔
جب دن ختم ہونے والا تھا اور سورج غروب ہونے والا تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی ۔ابن زیاد کو شکست ہوئی اور اس کے ہمراہی بھاگے۔ابراہیم نے حکم دیا کہ فوج مخالف میں سے جو بھی ہاتھ آئے اس کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔چنانچہ بہت سے لوگ ہلاک کیے گئے۔اس ہنگامے میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کے مہینے میں ہی مارا گیا۔اور اس کا سر کاٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا۔
ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا ۔مختار نے دار الامارت کوفہ کو آراستہ کیااور اہلِ کوفہ کو جمع کر کے ابن زیاد کا سر ناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرور بند ئہ دنیا نے حضرت امامِ حسین کا سر مبارک رکھا تھا۔مختار نے اہلِ کوفہ کو خطاب کر کے کہا اے اہلِ کوفہ! دیکھ لو کہ حضرت امامِ حسین کے خون نا حقنے ابنِ زیاد کو نہ چھوڑا ۔
آج اس نامراد کا سر اسی جگہ ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔یہ وہی جگہ ہے۔خدا وندِ عالم نے اس مغرور فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا کہ اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل و ہلاکت پر جشن منایا جا رہا ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن ِ زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لا کر رکھے گئے تو ایک بڑا سانپ نمودار ہوا ۔
اس کی ہیبت سے سب لوگ ڈر گئے۔وہ تمام سروں میں پھرا ۔عبید اللہ بن زیاد کے سر پاس پہنچا تو اس کے نتھنے میں گھس گیا ۔اور تھوڑی دیر ٹھہر کے اس کے منہ سے نکلا ۔اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہو گیا۔
جو لوگ بھی حضرت امامِ حسین کے مقابلے میں کربلا گئے تھے اور ان کے قتل میں شریک تھے۔ان میں سے تقریباً چھ ہزار کوفی تو مختار کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
اور دوسرے لوگ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہ بچا جس نے آخرت کے عذاب سے پہلے اس دنیا میں سزا نہ پائی ہو۔ان میں سے کچھ تو بُری طرح قتل کیے گئے۔کچھ اندھے اور کوڑھی ہوئے اور کچھ لوگ تو سخت قسم کی آفتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔
مختار کا دعویٴ نبوت:
مختار نے حضرت امامِ حسین کے قاتلین کے بارے میں بہت شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔
لیکن آخر میں وہ دعو یٴ نبوت کر کے مرتد ہو گیا۔کہنے لگا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آتے ہیں اور مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں۔میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کو جب اس کے دعوی نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اسے ختم کرنے کے لیے لشکر روانہ فرمایا۔جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ ِ رمضان ستاسٹھ ہجری میں بد بخت کو قتل کر دیا۔
شہادت امام حسین اور مقام رضا
صبر، توکل اور رضاکے تین مدارج:
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اپنے مالک کے قرب و وصال اور خوشنودی کی منزلوں کو حاصل کرنے کے لیے جو جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ا س کے کئی مراحل ہیں۔صوفیاء کرام نے اس کے تین مراحل ترتیب سے بیان کئے ہیں۔
1 ۔ مرحلہٴ صبر
2 ۔ مرحلہٴ توکل
3 ۔ مرحلہٴ رضا
# مرحلہٴ صبر
صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔
# زاہدوں کا صبر
# عاشقوں کا صبر
# زاہدوں کا صبر
زاہدوں کے صبر کے تین مراتب اور درجات ہیں۔
# ایک الصبر للہ
# دوسرا الصبر علی اا للہ
# تیسرا الصبر مع اللہ
صبر کی یہ تقسیم اور درجات حضرت ابو بکر شبلی کی بیان فرمائی ہے۔جو سید نا حضرت غوثِ اعظم کے مشائخ میں سے ہیں۔
# پہلا الصبر للہ
زاہد ، عبادت گزار ، اور پرہیزگار لوگوں کے صبر کا پہلا درجہ
” الصبر للہ “ یعنی اللہ کے لیے صبر کرنا ہے۔اللہ نے ہمیں بعض کام کرنے کا حکم فرمایا ہے انہیں امر کہتے ہیں۔اسی طرح اللہ نے ہمیں بعض کاموں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔
شریعت نے فرض ، واجب، سنت، مستحب ، اور مباح چیزوں کو حلال کیا ہے۔اور ان پر ثابت قدمی اختیار کرنے کو کہا ہے۔جن چیزوں کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اور ان سے ثابت قدمی سے بچے رہنے کی تلقین کی ہے۔حلال راہ پر چلنے اور حرام سے بچتے ہوئے انسان کو کبھی پریشانی ہوتی ہے۔وہ کبھی حلال راہ پر چلتے ہوئے آرام و راحت اور ذاتی فائدہ کو چھوڑتا ہے۔
اور کبھی حرام سے بچتے ہوئے اپنے مفاد کو قربان کر دیتا ہے۔حلال پر چلنے اور حرام سے بچنے ، حلال و حرام کے درمیاں تمیز کرنے اور’ امر و نہی ‘ پر عمل کرنے میں انسان کو جو پریشانی اور تکلیف پہنچے اس تکلیف کو ہنس کر برداشت کرنا ” الصبر للہ “ کہلاتا ہے۔مثلاً شریعت نے رزق ِ حلال کھانے اور رزق ِ حرام سے بچنے کا حکم دیا ہے۔چناچہ رزق ِ حلال کی تلاش میں رزق ِ حرام سے بچتے ہو ئے اگر انسان پر تنگی یا فاقہ آ جائے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر لینا ہی الصبر للہ ہے۔
# لمحہ فکریہ:
الصبر للہ کی اس وضاحت کی روشنی میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس صبر کو کس حد تک حاصل کر سکتے ہیں جو زاہدوں کا صبر ہے کیونکہ ہم حلال کو پسند کرتے ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک حلال کی راہ میں کوئی تکلیف نہ آئے۔ہم اپنی دینداری اور پرہیز گاری کا جھنڈا تو اٹھائے پھرتے ہیں مگر صرف اس حد تک جب تک حلال میں اور ہمارے مفاد میں کوئی ٹکراؤ نہ آئے۔
جہاں ہمارے مفاد اور دین میں ٹکراؤ آئے وہیں ہماری ساری دینداری اور پرہیز گاری دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اور ہم اپنے مفاد کو سینے سے لگا کر نظریں پھیر لیتے ہیں۔ حلانکہ یہی وقت آزمائش اور قربانی کا ہوتا ہے تا کہ پتا چلے کہ کون دین کی راہ پر ہے اور کون اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔
# الصبرعلی اللہ:
زاہدوں کے صبر کا دوسرا درجہ ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
اللہ کی طر ف سے جو کچھ مقدر ہو اس پر خوش رہنا ، بیماری ہو یا راحت ، کھانے کو ملے یا فاقہ آئے، خوشی ملے یا رنج، اولاد ملے یا چھن جائے، دنیا دوست ہو یا دشمن ، عزت ملے یا بے وقار ہو جائے۔الغرض جو کچھ اللہ کی بارگاہ میں ملے اس پر خوش ہونا اور صبر کرنا ، تکلیف میں شکوہ نہ کرنا اور خوشی و مسرت میں تکبر سے کام نہ لینابلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر اد اکرنا ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہم تو اس بازار کے سوداگر ہی نہیں ہیں۔ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہمیں کھانے کو ملتا رہے ، خوشی ، صحت ، مال و دولت ، عزت و آسائش ، راحت و سکون الغرض جو کچھ ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں ملتا رہے تو ہم اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔بلکہ یہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ نعمتوں کی فراوانی سے ہم تکبر میں آ جاتے ہیں۔
اور اگر کوئی نعمت ان میں سے چھن جائے تو ہم شکوہ شکایت میںآ جاتے ہیں۔ہمارا رب تو صرف اس وقت تک اچھا ہے جب تک وہ ہمیں ہماری مرضی کے مطابق عطا کرتا ہے۔ہم اللہ پر بھی اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔اور اسے اپنی منشا ء کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔
# ایک حکایت :
ایک بزرگ تجارت کرتے تھے ایک دن انہیں خبر ملی کہ جہاز بمع مال ِ تجارت ڈوب گیا۔
یہ خبر سن کر انہوں نے چند لمحے سوچ کر کہا ” الحمد للہ “۔پھر کچھ دن بعد خبر ملی کہ وہ خبر صحیح نہیں تھی۔آپ کے جہاز کا سامان بک چکا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔یہ خبر سن کر پھر انہوں نے کہا ”الحمدللہ“۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ماجرا ہے کہ جب جہاز ڈوبنے اور نقصان کی خبر سنی تو بھی الحمد للہ کہا۔ اور جب مال بک گیا اور نفع ملنے کی خبر ملی تو بھی آپ نے الحمدللہ کہا ۔
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جب جہاز ڈوب جانے کی خبر ملی تو میں نے فوراً اپنے دل کو دیکھا کہ مال کے چلے جانے پر دل رنجیدہ تو نہیں ہے؟ یہ دل جو اپنے رب کی یاد میں مست تھا ، کہیں اس کی توجہ اس طرف سے ہٹ تو نہیں گئی ؟ جب میں نے دل کو دیکھا تو اس کو لاکھوں کے نقصان کی خبر سن کر بھی نقصان سے بے پرواہ اپنے رب کی یاد میں مست پایا تو دل کی حالت پر شکر ادا کیا۔
اس کے بعدجب جہاز کے محفوظ اور نفع ہونے کی خبر آئی تو پھر میں نے اپنے دل کو دیکھا کہ نفع کی خبر سن کر یہ خوش تو نہیں ہو گیا ۔تو میں نے دیکھا کہ میرے دل کو نقصان کی طرح نفع سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اسے صرف اللہ کی یاد سے خوشی اور دلچسپی ہے۔میں نے جب دل کی یہ استقامت دیکھی تو اس پر پھر اللہ کا شکر ادا کیا ۔
# الصبر مع اللہ :
زاہدوں کے صبر کا تیسرا درجہ” الصبر مع اللہ“ ہے۔
اگر معمول کی تکلیفیں اور راحتیں آئیں اور حالات ایک جیسے رہیں تو یہ زاہدوں کے صبر کا دوسرا درجہ یعنی ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
لیکن اگر زندگی میں کوئی ایسا وقت آ جائے کہ جہاں تکلیف ، مصائب، رنج و غم ، پریشانیاں اور دکھ اک ہجوم کی صورت میں انسان پر حملہ آور ہوں تو انسان غیر معمولی مصائب و الم تلے دب جائے اور مسلسل پریشانیوں کی زد میں رہے۔
گویا اللہ کی قضا ء و تقدیر کی چھری چل رہی ہو ، سر پر آرے چلائے جا رہے ہوں یا سینہ گولیوں سے چھلنی ہو رہا ہو۔تو عین ان لمحات میں بھی اللہ کے لیے صابر رہنا ” الصبرمع اللہ “ کہلاتا ہے۔زاہدوں کے صبر کا یہ آخری اور تیسرا درجہ ہے۔
حضرت علی کے اس واقعے سے اس کاپتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی دشمن کا نیزہ آپ کے جسم میں پیوست ہو گیا۔
نیزہ اتنا گہرا چلا گیا تھا کہ اس کا نکلنا حضرت علی کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔آپ کو اذیت ہونے کا خیال کر کے نیزہ نہ نکالا گیا۔اور یہ طے ہوا کہ جب آپ اپنے اللہ کے حضور نماز میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت نیزہ نکالا جائے۔اس طرح جب حضرت علی نے نماز شروع کی تو نیزہ نکال لیا گیا۔اور حضرت علی کو تکلیف کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔خون کا فوارہ جاری ہو گیا۔پر آپ بدستور نماز میں مشغول رہے۔تکلیف کے لمحات میں مطمئن اور خوش رہنا اور صبر کرنا ’الصبر مع اللہ‘ ہے۔
# عاشقوں کا صبر
# الصبرعن اللہ:
اللہ کے وصال سے محروم ہوتے ہوئے بھی ہجر و فراق کی گھڑیوں میں صبر کرنا عاشقوں کا صبر کہلاتا ہے۔اسے الصبر عن اللہ کہتے ہیں۔
مرد ِ مومن ہر وقت اپنے مولیٰ کی ملاقات و وصال اور اس کے بے نقاب جلوے کا خواہشمند رہتا ہے۔
لیکن یہ جلوہ اسے اس وقت نصیب ہوتا ہے جب اس کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کرتی ہے۔اور سارے حجابات کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دی جاتی ہے۔جب تک وصال اورقربت کی یہ گھڑیاں نہ آئیں ۔اس وقت تک محرومیوں کی گھڑیوں میں صابر و شاکر رہنا اور اپنے احوال عشق و محبت ملغوب نہ ہونا ’ الصبر عن اللہ ‘ ہے۔
زاہدوں کا صبر یہ تھا کہ وہ اوامر و نہی کی پیروی کریں ۔
تکلیف ، مصیبت اور اذیت کے انتہائی لمحوں میں صابر و شاکر رہیں مگر عاشقوں کا صبر یہ ہے کہ محبوب ِ حقیقی سے وصال اور محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کریں ۔صبر کی یہ کیفیت زاہدوں کے صبر کی کیفیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔کیونکہ عاشق ہر چیز برداشت کر لیتے ہیں ان کے لیئے فرحت و سکون، یا اذیت و مصیبت یکساں ہے۔اوامر و نہی پہ عمل ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
وہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر کوئی بات وہ گوارا نہیں کر سکتے تو یہ محبوب کے وصال سے محرومی ہے۔ ہجر و فراق کی گھڑی عاشق پر بھاری ہوتی ہے۔
# مشکل ترین صبر:
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص شبلی کے پاس گیا۔اور آپسے پوچھا کہ کون سا صبر ، صبر کرنے والوں پہ سب سے مشکل اور گراں ہے؟ حضرت شیخ شبلی نے فرمایا ” الصبر فی اللہ“( اللہ کے سوا سب سے رک جانا )اس شخص نے کہا نہیں۔
آپ نے فرمایا ”الصبرللہ “ اس شخص نے کہا جی یہ بھی نہیں ۔ یہ سن کر شیخ شبلی کہنے لگے پھر تم ہی بتاؤ وہ کون سا صبر ہے ؟اس شخص نے کہا وہ ”الصبر عن اللہ “ ہے۔
روای کا بیان ہے کہ جواب سن کر شیخ شبلی نے اتنی زور سے چیخ ماری کہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان کی جان نکل جائے گی۔( عوارف المعارف، شیخ شہاب الدین سہروردی )
یہ ہے بھی حقیقت کہ اپنی کٹھن منزلوں کے اعتبار سے عاشقوں کے صبر کے مقابلے میں عبادت گزاروں کا صبر کو ئی حقیقت نہیں رکھتا۔
حضرت مولانا غوث علی شاہ پانی پتی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کسی عاشق درویش کی خدمت میں جاتا ان کی صحبت میں بیٹھا رہتا اور اپنی کوئی مراد یا حاجت پیش نہ کرتا ۔ایک روز درویش پوچھنے لگا کہ تم روزانہ آتے ہو اور بیٹھ کر چلے جاتے ہو۔ہر کوئی اپنی مراد یاحاجت کہتا ہے تم کبھی کچھ نہیں کہتے۔آخر تم کس لیے آتے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا کہ حضور میں تو عشق کی چنگاری لینے آتا ہوں ۔
میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ مجھے عشق کی آگ لگ جائے۔یہ سن کر وہ درویش چپ ہو گیا۔کچھ دن بعد انہوں نے دوبارہ پوچھا اس شخص نے کہا کہ میرا تو بس ایک ہی مطالبہ ہے۔وہ بزرگ درویش چپ ہی رہے۔اس طرح کچھ دن بعد انہوں نے پھر پوچھا تو اس شخص نے اپنا وہی مطالبہ دہرایا کہ مجھے عشق کی چنگاری چاہیے۔اور کچھ نہیں۔اس پر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ کل جنگل میں فلاں جگہ جانا وہاں ایک شخص پڑا ہوا نظر آئے گا مجھے آ کر اس کا حال بتانا ۔
اگلے دن وہ شخص جنگل کے اس مقام پر گیا ۔وہاں اس نے دیکھا کہ ایک شخص پڑا ہوا تھا ۔جس کا سر بازو اور ٹانگیں دھڑ سے جدا پڑی تڑپ رہیں ہیں۔یہ حالت دیکھ کروہ شخص واپس اس بزرگ کے پاس آیا اور لوگوں کے جانے کے بعد بزرگ سے کہنے لگاکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس شخص کا ہر عضو دھڑ سے جدا ہے اور تڑپ رہا ہے۔یہ سن کر درویش نے کہا کہ عاشقوں کا یہ حال ہوتا ہے اگر یہ حال قبول ہے تو عشق کی چنگاری دے دیتے ہیں۔
وہ لوگ جو عشق و محبت کا دعوی نہیں کرتے اس سے محبوب اور طرح سے پیش آتا ہے اور جب وہ عشق و محبت کا دعوی کریں تو محبوب کا وطیرہ بدل جاتا ہے۔اور وہ اور طرح سے آزماتا ہے۔انہی عشق ومحبت والوں کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
” اور ہم تم کو کچھ خوف سے ، کچھ بھوک سے ، کچھ مالوں سے ، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔
“(البقرة ۲:۱۵۵)
جوعشق و محبت کا دعوی کرتے ہیں انہیں آزمائشوں کی بھٹی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔اور خوف اور بھوک کے ساتھ جان و مال اور دوسری نعمتوں میں کمی کر کے آزمایا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ لوگ اپنے دعوی محبت میں کہاں تک سچے ہیں۔
# صابرین کی جزا:
اوامر و نہی پر عمل کرتے ہوئے تکلیف برداشت کرنا ، ہر قسم کی خوشی اور غم پر صبر کرنا، بڑے بڑے مصائب کو برداشت کرنا ، محبوب ِ حقیقی سے وصال کی محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کرنا، الغرض صبر کے تمام مراحل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں ۔
اس لیے صابرین کی جزا بیان کرتے ہوئے قرآن ِ پاک کہتا ہے۔
” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ ( ا لبقرہ۲:۱۵۳)
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں انہیں اللہ کی معیت ( ساتھ ) نصیب ہو جاتی ہے۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کے ارشاد فرمایا :
” اپنے لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے“
(البقرہ ۲:۱۵۷ )
صبر کرنے والوں پر اللہ کی رحمت نچھاور کی جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں تکلیف برداشت کر کے صبر پر پورا اترتے ہیں ۔
ہر قسم کے جان و مال کے خوف کی مشکل منزلوں سے گزرتے ہیں ۔جو زندگی کی ہر محبوب چیز لٹا دیتے ہیں ۔مگر اللہ کی خوشنودی کے حصول کی منزل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔یہ لوگ اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ ان پر رحمتوں کا نزول ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::>
https://bit.ly/Haq-O-Batil19

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں