🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ شانزدہ 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴سرِ انور پر نور اور سفید پرندے🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰
https://bit.ly/Haq-O-Batil15
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اہل ِ بیت نبوت کے قافلے کے باقی افراد گیارہ محرم الحرام کو کوفہ پہنچے۔جب کہ شہداء کے سر مبارک پہلے ہی پہنچائے جا چکے تھے۔امام ِ عالی مقام کے سرِانور کو ابن سعد نے خولی کے ہاتھ ابن ِ زیاد کے ہاتھ بھیجا تھا۔جب خولی حضرت امامِ حسین کا سر مبارک لے کر پہنچا تو گورنر ہاؤس کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
چنانچہ وہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر پہنچا ۔اور ایک برتن کے نیچے ڈھانپ کے رکھ دیا۔پھر اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا کہ تیرے لیے زمانے بھر کی عزت لایا ہوں۔اس نے پوچھا وہ کیا؟خولی نے کہا کہ حسین کا سر لے کر آیا ہوں ۔اس کی بیوی نے کہا لوگ سونا چاندی لے کر آتے ہیں اور تو رسول ِ خدا ﷺ کے نواسے کاسر لایا ہے۔
خدا کی قسم میں آئندہ کبھی تیرے ساتھ شب باش نہیں ہوں گی۔
یہ کہہ کر وہ بستر سے اٹھ گئی ۔اس پر خولی نے اپنی دوسری بیوی کو جو بنو اسد سے تھی کو بلا لیا۔
نوار جب خولی کے پاس سے اٹھ گئی تو وہاں آ بیٹھی جہاں حضرت امام حسین کا سرِ انور رکھا تھا۔وہ کہتی ہے کہ خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نوربرابر آسمان سے اس برتن تک ایک ستون کی مانند چمک رہا ہے۔ اور میں نے سفید پرندے دیکھے جو برتن کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔
صبح ہوئی تو خولی سرِانورکو ابن زیاد کے پاس لے گیا۔(ابن اثیر۔ طبری)
امامِ عالی مقام کا سرِ انور اور ابن زیاد
اگلے دن ا بن زیاد کا دربار لگا اور لوگوں کو بھی اذن ِ عام ہوا تو بھرے دربار میں اس کے سامنے حضرت امام حسین کا سرِانور ایک طشت میں رکھ کر پیش کیا گیا۔حمید بن مسلم نے کہا کہ عمر بن سعد نے فتح و نصرت کی خوشخبری اوراپنی عافیت کا پیغام دے کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوفہ بھیجا۔
جب میں وہاں پہنچا تو ابن زیاد دربار لگائے ہوئے تھا۔اور ملاقاتیوں کا ایک وفد بھی اس کے پاس بیٹھا تھا۔میں بھی ان کی مجلس میں جا کر بیٹھ گیا۔میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین کا سرِمبارک اس کے سامنے رکھا ہوا تھا وہ تھوڑی دیر اپنی چھڑی سے آپ کے سامنے کے دانتوں اور لبوں کو کریدتا رہا۔جس پر رسول اللہ ﷺ کے ایک بوڑھے صحابی زید بن ارقم جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
ان سے نہ رہا گیا۔اور وہ اس گستاخی کو دیکھ کے تڑپ گئے ۔اور روتے ہوئے فرمایا کہ چھڑی کو ان دانتوں سے دور ہٹاؤ۔قسم ہے اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ان لبوں کو چوما کرتے تھے۔یہ کہہ کر ابن ارقم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ابن زیاد نے کہا خدا تجھے رُلائے۔خدا کی قسم تو اگر بوڑھا نہ ہوتا اور تیری عقل نہ ماری گئی ہوتی تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔
راوی کہتا ہے کہ اس پر ابن ِ ارقم اٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو لوگوں نے کہا خدا کی قسم !خدا کی قسم زید بن ارقم نے جو بات کہی ہے وہ اگر ابن زیاد سن لیتا تو وہ انہیں ضرور قتل کر دیتا۔حمید بن مسلم نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کہ :
ایک غلام غلاموں کا بادشاہ بن بیٹھا اور حکومت کو اس نے جاگیر بنا لیا ہے۔
اے اہل ِ عرب آج کے بعد تم غلام ہو کہ تم نے ابن فاطمہ کو شہید کر دیا۔مگر ابن مرجانہ کو اپنا حاکم بنا لیا۔اب وہ تمہارے بہترین لوگوں کو قتل کرے گا اور تم سے بڑوں کو اپنا غلام بنا لے گا۔پس تم اس ذلت و رسوائی کی زندگی پر راضی ہو۔ اس کے مقدر میں محرومی ہے۔(البدایہ و النہایہ)
ابن زیاد اور اسیرانِ کربلا
حضرت امامِ حسین کے سرِمبارک کے بعد اہلِ بیت ِ نبوت کے بقیہ افراد کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔
حضر ت زینب نے معمولی سا لباس پہنا ہوا تھا اور لونڈیوں کے جھرمٹ میں تھیں ۔ا س لیے پہچانی نہیں جا تی تھیں۔جب انہیں ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گیا ۔تو اس نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟حضرت زینب کچھ نہ بولیں اس پر ایک لونڈی نے کہا کہ یہ زینب بنتِ علی ہیں۔
ابن ِ زیاد نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے تمہیں رسوا کیا اور قتل کیا اور تمہارے دعوی کو جھوٹا کیا ۔
حضرت زینب نے فرمایا بلکہ ہمیں سب سے زیادہ عزت بخشی اور پاک و طاہر بنایا بلاشبہ۔ اور فاسق کو رسوا کرتا ہے اور فاجر کو جھٹلاتا ہے۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے اہل ِ بیت کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ حضرت زینب نے فرمایا کہ ان کے لیے شہادت مقدر ہو چکی تھی۔اس لیے وہ اپنی شہادت گاہ کی طرف خود نکل کر آگئے۔عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اور تجھ کو ایک جگہ جمع کرے گا۔
اس وقت وہ تیرا معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔اس پر ابن زیاد بھڑک اٹھا اور کچھ کارروائی کرنے کا ارادہ کیا تو عمرو بن حریث نے کہا کہ خداتعالیٰ بہتری کرے یہ تو ایک عورت ہے ۔کیا آپ ایک عورت کی باتوں پر گرفت کریں گے؟عورت کی بات پر مواخذہ نہیں کیا جاتا۔اور نہ ہی ان کی نادانی پر ان پر ملامت کی جاتی ہے۔(البدایہ و النہایہ)
جب ابن زیاد نے علی بن حسین (امام زین العابدین )کو دیکھا تو ایک سپاہی سے کہا اس لڑکے کو دیکھو اگر بالغ ہو گیا ہے تو اسے قتل کر دو۔
سپاہی نے امام زین العابدین کی بلوغت کی تصدیق کی تو ابن زیاد نے کہا کہ اسے لے جاؤ اور قتل کر دو۔اس پر امام زین العابدین نے فرمایا کہ اگر تیرا ان عورتوں سے قرابت داری کا کوئی واسطہ ہے تو کوئی محافظ بھیج دے جو ان کی حفاظت کرے۔ابن زیاد نے ان سے کہا کہ تم ہی آ جاؤ اور پھر حضرت زین العابدین کو ہی عورتوں کے ساتھ بھیج دیا۔
ابن زیاد کے دربار سے یزید کے دربار تک سفر کے دوران کے مختلف واقعات
1 ۔ دوران ِ سفر امام زین العابدین کی حالت
اس کے بعد ابن ِ زیاد نے بد بختوں کی ایک جماعت کے ساتھ دوسرے شہداء کے سروں کو اور اسیران ِ اہلِ بیت کو یزید کے پاس اس حالت میں بھیجا کہ حضرت امام زین العابدین کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں زنجیریں ڈال دیں گئیں۔
جبکہ عورتوں کو اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر بیٹھایا گیا تھا۔ابن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو تاکید کر دی کہ وہ سروں کو نیزوں پر چڑھا کر لوگوں کو بتاتے ہوئے جائیں کہ یزید کی مخالفت کرنے والے اس انجام سے دوچار ہوتے ہیں تاکہ لوگ ڈر کر مخالفت سے باز رہیں۔
2 ۔ ابن ِ عفیف کی شہادت
ابن ِ زیاد کی طرف سے اعلان ہوا کہ تمام لوگ جامع مسجد میں جمع ہو جائیں ۔
جب لوگ جمع ہو گئے تو ابن ِ زیاد منبر پرچڑھا اوراپنی فتح و کامرانی اور قتل ِ حسین کے ذکر کے بعد کہا کہ حسین جماعت میں تفرقہ ڈال کر حکومت چھیننا چاہتے تھے۔اس پر عبداللہ بن عفیف ازدی جو حضرت علی کے اصحاب میں سے تھے اور اپنی بینائی دونوں آنکھوں سے کھو چکے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ افسوس ابن ِ زیاد !نبیوں کی اولاد کو قتل کرتے ہو اور صدیقوں جیسی باتیں کرتے ہو۔
ابن ِ زیاد کو اس پر طیش آیا اور اس کے حکم سے انہیں قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا گیا۔اور حضرت امام ِ حسین کے سر مبارک کو نیزے پر نصب کر کے ابن زیاد کے حکم پر کوفہ کی گلی کوچوں میں پھرایا گیا اور زہیر بن قیس کے ہا تھ معززین کے ایک وفد کی صورت میں یزید کے پاس ایک گھڑ سوار دستے کی نگرانی میں شام بھیج دیاگیا۔
3 ۔ ایک غیبی شعر
امام ِ عالی مقام کے سر مبارک کو لے جانے والے قافلے کے راستے میں ایک منزل پر ایک گرجا گھر تھا ۔
رات گزارنے کے لیے قافلے نے وہاں قیام کیا ۔اور بقول ابن کثیر وہ لوگ آپ کا سر مبارک اپنے پاس ہی رکھ کر شراب پینے لگے کہ اتنے میں پردئہ غیب سے ایک آہنی قلم نمودار ہوئی ۔دیوار پر اس نے لکھا ۔ترجمہ:
”کیا حسین کو شہید کرنے والے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے روز اُن کے نانا ﷺ اِن کی شفاعت کریں گے“(البدایہ و النہایہ)
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ شعر پہلے سے ہی دیوار پہ لکھا ہوا تھا ۔
بد بختوں نے جب یہ دیکھا تو بہت تعجب ہوا اور گرجا گھر کے راہب سے پوچھا کہ یہ شعر کس نے لکھا ہے اور کب کا لکھا ہوا ہے؟
راہب نے کہا کہ کس نے لکھا ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ اتنا جانتا ہوں کہ تمہارے نبیﷺ کے زمانے سے پانچ سو برس پہلے کا لکھا ہوا ہے۔
4۔ عیسائی راہب کا اسلام قبول کرنا
جس گرجا میں یہ قافلہ ٹھہرا ہوا تھا اس گرجا کے راہب نے جو شہیدوں کے سروں کو نیزوں پر اور چند عورتوں کو اسیری کی حالت میں دیکھا تو اس کے دل پربڑا اثر ہوا۔
اس نے یہ حالت دریافت کی۔جب اس کو سب معلوم ہوا تو وہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تم لوگ بہت بُرے ہو۔کیا کوئی اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے جیسا تم نے کیا؟پھر اس راہب نے کہا کہ اگر تم ایک رات کے لیے اپنے نبی کے نواسے کا سر میرے پاس رہنے دو اور مجھے ان عورتوں کی خدمت کا موقع دو تو میں تم کو دس ہزار دینار اس کے بدلے میں دوں گا۔
وہ لوگ دولت کے غلام تھے اس لیے انہوں نے دس ہزار دینار کی خاطر رات کو راہب کے پاس پڑاؤ کرنا قبول کر لیا ۔راہب نے اپنا گھر خالی کر لیا ۔پردے دار مقدس بیبیوں کو گھر کی چار دیواری میں ایک صاف کمرہ رات گزارنے کے لیے پیش کیا۔اور اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔میں مسلمان نہیں ہوں ۔میرے دل میں تمہارے خاندان کی بڑی عزت ہے۔
راہب نے گرجے کے خادموں سے کہا کہ رات بھر ان مقدس عورتوں کی خدمت کرو کیونکہ یہ مسلمانوں کے نبی کی بیٹیاں ہیں۔اور وہ خود امام ِ عالی مقام کا سرِ مبارک ایک دھلے ہوئے صاف طشت میں رکھ کر چہرئہ مبارک کو مقدس زلفوں اور داڑھی مبارک جو غبار اور خون میں اٹے ہوئے تھے... کو دھونے لگا۔ اس نے چہرئہ مبارک دھو کر صاف کیا اور عطر کافور لگا کر معطر کیا۔
پھر بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ ساری رات سرِانور کے سامنے بیٹھا زار و قطار روتا رہا۔
ساری رات اس خدمت کے عوض خانوادئہ رسولﷺ کی مقدس بیبیاں اس راہب کو دعائیں دیتی رہیں۔اور سرِحسین بھی زبانِ حال سے اسے دعائیں دیتا رہا۔یہاں تک کہ راہب کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اس کی آنکھوں سے حجابات اٹھ گئے ۔اور وہ نور جو خولی کی بیوی نے عرش سے فرش تک پھیلا ہوا دیکھا تھا وہ راہب پر بھی آشکار ہو گیا۔
اور اس نے بھی دیکھا کہ ایک ہالہٴ نور ہے جو سرِحسین کے گرد طواف کر رہا ہے۔جب اس نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا اور سرِمقدس کے رعب و جلال کا مشاہدہ کیا تو اس کے دل کی کیفیت بدل گئی۔اس کی محبت اور حسن ِ عقیدت کا صلہ ملنے کا انتظام ہو گیا۔اس کی زباں سے بے ساختہ کلمہ ٴشہادت جاری ہو گیا۔چونکہ اس نے دنیا کی دولت قربان کی تھی اس لیے اسے ایمان کی دولت عطا فرما دی گئی ۔اب اس کے لیے اہلِ بیتِ نبوت سے دور رہنا نا ممکن ہو گیاچنانچہ جب اگلے روز قافلہ روانہ ہوا تو وہ بھی مطیع و خادم بن کر ساتھ ہو لیا۔(الصداعق المحرقد)
یہاں ایک اور نہایت حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔یزیدی فوج کے بد بخت سپاہیوں نے امام ِ عالی مقام کے لشکر کے خیموں سے جو درہم و دینا ر لوٹے تھے اور جو دینار انہوں نے راہب سے لیے تھے ان کو تقسیم کرنے کے لیے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے۔ان کی ایک طرف آیت ِ مبارکہ لکھی ہوئی تھی ۔
” اور اے مخاطب !تو یہ ہرگز خیال مت کرنا کہ یہ ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان کے (اعمال) سے بے خبر ہے“(سورة ابرہیم ۱۴:۴۲)
جبکہ ان کے دوسری طرف یہ آیت لکھی ہوئی تھی:
” اور جن لوگوں نے ظلم ڈھایا ہے ان کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ انہیں کس کروٹ لوٹایا جائے گا “(سورة الشعراء۲۶:۲۲۷)
یزیدی فوج کے پاس درہم و دینار کے ٹھیکریاں بن جانے میں ایک تنبیہ بھی تھی کہ تم نے اس فانی اور مادی دنیا کے لیے دین چھوڑا اور آل ِ رسول ﷺ پر ظلم و ستم کیا ہے۔
یاد رکھو!دین تو تم نے چھوڑ ہی دیا ہے مگر جس فانی اور بے وفا دنیا کے لیے تم نے دین چھوڑا ہے وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم دنیا اور آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤ گے۔
5۔ ایک صحابی کا پیار اسیرانِ کربلا کے لیئے
جب یزید پلید کو معلوم ہوا کہ اسیرانِ کربلا اور حضرت امام حسین وغیرہ کے سر عنقریب دمشق پہنچنے والے ہیں تو اس نے پورے شہر کو آراستہ کرنے اور سب کو خوشی منانے کا حکم دیا۔
نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سہل تجارت کے لیئے ملک شام آئے ہوئے تھے۔ جب وہ دمشق شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سب لوگ خوشی منا رہے ہیں ۔ انہوں نے لوگوں سے وجہ پوچھی تو بتا یا گیا کہ اہلِ عراق نے حسین ابن ِ علی کے سر کو یزید کے پاس ہدیہ بھیجا ہے۔ تمام اہل شہر اس کی خوشی منا رہے ہیں۔حضرت سہل نے ایک سرد آہ بھری اور پوچھا کہ حضرت امام حسین کا سر مبارک کون سے دروازے سے لائیں گے۔
بتایا گیا کہ بابِ الساعتہ سے ۔آپ اس تیزی سے بڑھے اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اہل ِبیت تک پہنچ گئے۔ آ پ نے دیکھا کہ ایک سر ہے جو رسول اللہﷺ کے سر سے بہت زیادہ مشابہ ہے، نیزے پر چڑھا رکھا ہے، جسے دیکھ کر آپ بے اختیا ر رو پڑے۔
اہلِ بیت میں سے ایک نے پوچھا کہ تم ہم پر کیوں رو رہے ہو؟ حضرت سہل نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ فرمایا میرا نام سکینہ بنتِ حسین ہے۔
انہوں نے فرمایا اور میں آپ کے ناناجان نبی کریمﷺ کا صحابی ہوں۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو توحکم فرمائیے۔حضرت سکینہ نے فرمایا میرے والد کے سرِ انور کو سب سے آگے کرادیجیئے تا کہ لوگ ادھر متوجہ ہو جائیں اور ہم سے دور رہیں۔ حضرت سہل نے ۴۰۰ درھم دے کر امامِ عالی مقام کے سر مبارک کو آگے کرا دیا۔
6 ۔ حضرت بی بی سکینہ
قافلہ چلا جا رہا تھا کہ رات کے وقت ایک مقام پر حضرت امامِ حسین کے سر مبارک والا نیزہ جس نے پکڑ رکھا تھا وہ زور لگانے پر بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا۔
سب نے بہت زور لگایا پر کچھ نہ ہوا ۔تو سب کو خیال آیا کہ بی بی سکینہ ساتھ موجود نہیں ہیں۔ذرا فاصلے پر جا کے ڈھونڈا تو بی بی سکینہ وہاں کہیں گر گئیں تھیں۔اور اپنے بابا جان کو پکار پکار کے رو رہیں تھیں۔انہیں اپنے ساتھ قافلے میں لایا گیا تو قافلہ چل پڑا اور امامِ حسین کے سر مبارک والا نیزہ بھی آرام سے آگے چلنے لگا۔اور حضرت بی بی سکینہ کے بارے میں ہی بتایا جاتا ہے کہ آپ شام کے ایک قید خانے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
حضرت امامِ حسینکا سرِمبارک دربار ِ یزید میں
جب سرِ حسین دیگر شہداء کے سروں اور اسیرانِ کربلا کے ہمراہ یزید کے دربار میں پہنچا تو یزید نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟؟ اس سلسلے میں مختلف روایات کتبِ تاریخ سے ملتی ہیں۔مختصراً دو روایات یہاں بتائی جائیں گی۔
پہلی روایت:
ایک روایت کے مطابق جب شہداء کے سر اور اسیرانِ کربلا یزید کے پاس دمشق پہنچے تو یزید نے دربار لگایا اور عوام و خواص کو دربار میں آنے کی اجازت دی۔
لوگ اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ امامِ حسین کا سرِ انور یزید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔یزید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جو وہ آپ کے دندان مبارک پر مارتاتھا اور کہتا تھا کہ اب تو ان کی اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے حصین ابن الحمام نے کہا ہی کہ” تمہاری قوم نے انصاف کرنے سے انکار کر دیا تھا پس ان تلواروں نے انصاف کر دیا۔جو ہمارے دائیں ہاتھ میں تھیں جن سے خون ٹپکتا ہے۔
انہوں نے ایسے لوگوں کی کھوپڑیاں توڑیں جو ہم پر غالب تھے۔اور وہ نہایت نافرمان اور ظالم تھے“
حضرت ابو برزہ اسلمی نے جب یہ دیکھا کہ یزید حضرت امام حسین کے دندان ِ مبارک پر چھڑی مار رہا ہے تو وہ یہ بے ادبی برداشت نہ کر سکے۔انہوں نے یزید سے کہااے یزید ! تو اپنی چھڑی حضرت امام حسین کے دانتوں پر مار رہا ہے؟ ( اس گستاخی سے باز آ جا) میں نے بارہا نبیٴ کریم ﷺ کو ان ہونٹوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
بے شک اے یزید ! کل قیامت کے دن جب تو آئے گا تو تیرا شفیع ابن ِ زیاد ہو گا اور حسین آئیں گے تو ان کے شفیع حضرت محمد ﷺ ہوں گے۔یہ کہہ کر ابو برزہ وہاں سے چلے گئے ۔(البدایہ وا لنہایہ)
دوسری روایت:
دوسری روایت کے مطابق جب حضرت امامِ حسین کا سرِانور یزید کے پاس لا کر اس کے آگے رکھا گیا تو اس نے مثال دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
”اے کاش ! بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیا خ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں پر چیخنا چلانا دیکھتے۔ہم نے تمہارے دو گنا اشراف کو قتل کر دیاہے اور یوم ِ بدر کا میزان برابر کر دیا ہے“(البدایہ وا لنہایہ)
یزید جو برملا نواسہٴ رسول ﷺ کے لبان ِ مبارک پر چھڑی مار کر کہہ رہا تھا کہ اگر آج میرے وہ بزرگ زندہ ہوتے جو غزوئہ بدر میں مروائے گئے تھے تو میں انہیں بتاتا کہ تمہارے قتل کا بدلہ میں نے حسین کی شہادت کی صورت میں نبی ِ کریم ﷺ کے خاندان سے لے لیا ہے۔
ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اس کھلے اعلان کے بعد اس کے ایماندار ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔نہ ہی اسلام ، آخرت، جنت کے ساتھ یزید کے کسی تعلق کو کوئی تصور کیا جا سکتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::>
https://bit.ly/Haq-O-Batil17