ضرب امثل: آبے سونٹے تیری باری — کان چھوڑ، کنپٹی ماری
▄︻デ تلفظ ══━一
آبے سونٹے، تیری باری — کان چھوڑ، کنپٹی ماری
(سخت لہجے میں، طنز و کرب سے بھرپور)
▄︻デ معانی و مفہوم (متبادل تعبیر) ══━一
اس محاورے کا گہرا مفہوم کچھ یوں بھی لیا جاتا ہے:
جب کوئی شخص ایک ہی دائرے میں پٹتا رہے، ہر تدبیر ناکام ہو جائے، اور آخرکار وہ انتہائی سخت یا فیصلہ کن قدم اٹھا لے —
تو اس کیفیت کو اس محاورے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یعنی:
"بڑی نرمی سے کوشش کی، دھیرج رکھا، سمجھایا — لیکن جب کچھ نہ بن پڑا، تو آخرکار ایک جھٹکا دیا!"
یہ ایک طرح کا انجامی طنز ہے، جس میں کہا جاتا ہے:
"جب کچھ کام نہ آیا، تو کان چھوڑ کے کنپٹی پر مارنا پڑا!"
▄︻デ موقع و محل ══━一
یہ محاورہ ان مواقع پر خوب جچتا ہے:
جب کسی نے صبر، سمجھانے، نرمی، اپروچ سب کچھ کر لیا ہو
مگر بات نہ بنی ہو، تب وہ آخر میں "سخت قدم" اٹھاتا ہے
یا پھر جب کسی مرحلے پر کہنے والا آخری حربہ آزماتا ہے
مثال:
"میں نے اُسے بار بار سمجھایا، منتیں کیں، صلح کرائی، کچھ اثر نہ ہوا — اب تو میں نے بھی کہا، آبے سونٹے تیری باری!"
▄︻デ تاریخ و واقعہ ══━一
اس محاورے کی جڑیں لوک کلچر اور مدرسہ یا گاؤں کی عدالت نما نشستوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
پہلے بزرگ یا استاد کسی شرارتی لڑکے کو نرمی سے پکڑتے، پہلے کان کھینچتے، نرم تنبیہ کرتے۔
جب وہ نہ سمجھتا، تو آخری بات کنپٹی پہ تھپڑ یا سونٹا ہوتی —
یعنی صبر کی حد ختم، اب فیصلہ کن عمل!
یہی کیفیت پھر بڑے سماجی تناظر میں تبدیل ہو گئی اور محاورہ بن گیا۔
▄︻デ پُرلطف لیکن سبق آموز قصہ ══━一
عنوان: ’’اکرم حلوائی کی آخری چال‘‘
اکرم حلوائی کے دکان سے محلے کے بچے روزانہ سموسے چرا لیتے تھے۔
وہ روز کہتا:
"بیٹا، نہ کیا کرو، میں رزقِ حلال کماتا ہوں۔"
دوسرے دن پھر ایک پلیٹ غائب!
اکرم نے والدین سے بھی کہا، مسجد میں بھی تنبیہ کی، یہاں تک کہ چوک پر بینر بھی لگا دیا:
"چوری سے بچیں، دل دُکھتا ہے!"
پھر ایک دن، وہ چپ چاپ ایک تند خو چوکیدار سونٹے والا لے آیا، اور جیسے ہی اگلے دن بچہ سموسہ لے کر بھاگا —
سونٹا لپکا، اور کنپٹی پر پڑا۔
بچہ روتے ہوئے بولا:
"چچا! یہ کیا؟"
اکرم بولا:
"بس پتر، آبے سونٹے تیری باری — کان چھوڑ، کنپٹی ماری!"
اس کے بعد کبھی کوئی بچہ سموسہ نہیں چرا سکا۔