ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋-سورہ-یوسف آیت نمبر 100🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا١ۚ وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ١٘ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا١ؕ وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
وَرَفَعَ : اور اونچا بٹھایا اَبَوَيْهِ : اپنے ماں باپ عَلَي : پر الْعَرْشِ : تخت وَخَرُّوْا : اور وہ گرگئے لَهٗ : اس کے لیے ( آگے) سُجَّدًا : سجدہ میں وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا هٰذَا : یہ تَاْوِيْلُ : تعبیر رُءْيَايَ : میرا خواب مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے قَدْ جَعَلَهَا : اس کو کردیا رَبِّيْ : میرا رب حَقًّا : سچا وَ : اور قَدْ اَحْسَنَ : بیشک اس نے احسان کیا بِيْٓ : مجھ پر اِذْ : جب اَخْرَجَنِيْ : مجھے نکالا مِنَ : سے السِّجْنِ : قید خانہ وَجَآءَ : اور لے آیا بِكُمْ : تم سب کو مِّنَ : سے الْبَدْوِ : گاؤں مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد اَنْ : کہ نَّزَغَ : جھگڑا ڈالدیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ : اور میرے بھائیوں کے درمیان اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَطِيْفٌ : عمدہ تدبیر کرنیوالا لِّمَا يَشَآءُ : جس کے لیے چاہے اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَلِيْمُ : جانے والا الْحَكِيْمُ : حکمت والا
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا، اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گرپڑے، (62) اور یوسف نے کہا : ابا جان ! یہ میرے پرانے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا، (63) اور اس نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا کہ مجھے قید خانے سے نکال دیا، اور آپ لوگوں کو دیہات سے یہاں لے آیا۔ حالانکہ اس سے پہلے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا، (64) حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے، اس کے لیے بڑی لطیف تدبیریں کرتا ہے۔ بیشک وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
62: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس آیت کی جو تفسیر مروی ہے، اس کے مطابق ان سب حضرات نے یہ سجدہ یوسف ؑ کے سامنے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے لئے کیا تھا، یعنی سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کو تھا، البتہ یوسف ؑ کے سامنے اور ان کے مل جانے کی خوشی میں کیا تھا، امام رازی ؒ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے، البتہ دوسرے مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ عبادت کا نہیں بلکہ تعظیم کا ویسا ہی سجدہ تھا جیسا فرشتوں نے حضرت آدم ؑ کو کیا تھا، اور وہ حضرت یوسف ؑ کی شریعت میں جائز تھا، تاہم آنحضرت ﷺ کی شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو تعظیمی سجدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
63: یعنی اس خواب میں چاند سورج سے مراد حضرت یوسف ؑ کے والدین تھے، اور ستاروں سے مراد ان کے گیارہ بھائی
64: حضرت یوسف ؑ کو مصائب وآلام کے جس طویل دور سے گذرنا پڑا تھا۔ اگر کوئی اور ہوتا تو والدین سے ملاقات کے بعد اپنی تکلیفوں کا دکھڑا سناتا۔ لیکن حضرت یوسف ؑ کو دیکھئے کہ ان مصائب کے بارے میں ایک لفظ کہے بغیر واقعات کے صرف اچھے رخ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا۔ قید خانے میں جانے کا نہیں، وہاں سے نکلنے کا ذکر فرمایا۔ والدین کی جدائی کا بیان کرنے کے بجائے ان کے مصر آجانے کا تذکرہ فرما کر اس پر شکر ادا کیا۔ بھائیوں نے جو ستم ڈھائے تھے، ان کو شیطان کا مچایا ہوا فساد قرار دے کر بات ختم فرما دی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ سخت سے سخت حالات میں بھی واقعات کے مثبت رخ کا تصور کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو۔