مولانا محمد علی جوہر اور سید حسین ابن علی ہاشمی : تاریخ کا جبر یا قدرت کی ستم ظریفی


 مسجد اقصیٰ کے بیرونی احاطے میں ایک مدرسہ ہے اس مدرسے کے ایک کمرے میں مولانا محمد علی جوہر دفن ہیں اور دوسرے کمرے میں سید حسین ابن علی ہاشمی

اسے تاریخ کا جبر کہیں یا ستم ظریفی کہ مولانا محمد علی جوہر نے اپنی جوانی اپنی دولت اپنا خاندان سب کچھ تحریک خلافت میں خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے جھونک دیا اور اور دیوار کے اس پار دفن حسین بن علی نے خلافت عثمانیہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
یہ تاریخی حقیقت بلاشبہ ایک دلچسپ ستم ظریفی کی مثال ہے۔ مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے، جنہوں نے برصغیر میں خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے اپنی جوانی، دولت، اور توانائیاں وقف کر دیں۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں وفات کے بعد بیت المقدس میں دفن کیا جائے، اور یوں وہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔
دوسری طرف، حسین بن علی، جو مکہ کے شریف اور حجاز کے حکمران تھے، نے برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف 1916 میں عرب بغاوت کی قیادت کی۔ اس بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلافت عثمانیہ مشرق وسطیٰ سے بے دخل ہو گئی، اور برطانوی سامراج نے اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
سید حسین ابن علی ہاشمی تھے۔ یہ اہل بیت سے ہونے کی وجہ سے 1908ء میں شریف مکہ بنے۔ پہلی جنگ عظیم میں جب انگریزوں کو ترکوں کے خلاف کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی ایک انگریز جاسوس لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی جس کے نتیجے کے طور پر ترکوں کو شکست ہوئی۔

حسین ابن علی نے برطانیوں اور تھامس لارنس کا ساتھ دیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف 1915ء میں جنگ شروع کیا جس سے سارے عرب ممالک سے عثمانی تسلّط ختم ہو گیا اور پھر مشرقِ وسطی پر دونوں برطانوی اور فرانسیسی تسلط قائم ہو گئے۔ حسین بن علی نے مدینہ المنوّرہ کا عثمانی گورنر عمر فخرالدین پاشا کے خلاف مدینہ المنوّرہ پر قبضہ کرنے کے لیے دو سال محاصرہ کیا۔

اس کے دو بیٹے دونوں عراق اور اردن کے بادشاہ بنے ۔ اس کے ایک بیٹے امیر فیصل کو برطانیوں نے عراق کا اور دوسرے بیٹے کو اردن کے بادشاہ بنائے جو آج تک اردنی شاہی خاندان کا سلسلہ جاری ہے۔

1924ء میں نجد کے فرمانروا ابن سعود سے شکست کھا کر تخت سے دست بردار ہوئے۔ 1924ء سے 1931ء تک قبرص میں جلاوطن رہنے کے بعد اردن کے درالحکومت عمان میں وفات پائی۔
یہ تاریخی جبر ہی کہلائے گا کہ ایک ہی مقام پر ایک ایسی شخصیت دفن ہے جو خلافت کی بقا کے لیے کوشاں رہی، اور دوسری وہ جس نے خلافت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ واقعہ تاریخ کے ان تضادات میں سے ایک ہے جو ہمیں ماضی کی پیچیدگیوں اور سیاست کی ستم ظریفیوں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی