🌻 *وتر میں قنوت کے بعد درود پڑھنے کا حکم*
📿 *نماز وتر میں دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم:*
نمازِ وتر میں دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنے کو بعض فقہاء کرام نے مستحب اور بہتر قرار دیا ہے کیونکہ ’’سنن النسائی‘‘ کی ایک حدیث سے دعائے قنوت کے بعد درود ’’صَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ‘‘ کا ثبوت ملتا ہے اور اس روایت کو امام نووی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے، اور ’’البحر الرائق‘‘ اور ’’الدر المختار‘‘ اور دیگر بعض کتب میں دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنے کو ترجیح دی گئی ہے، جبکہ بعض حضرات کے نزدیک دعائے قنوت کے بعد درود شریف نہیں پڑھنا چاہیے، اور ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘میں ہے کہ اسی کو مشایخ نے اختیار کیا ہے۔
جہاں تک ’’سنن النسائی‘‘ کی مذکورہ روایت کا تعلق ہے تو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کی مذکورہ رائے کی تردید فرماتے ہوئے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے، نیز اس روایت پر مزید کلام بھی کیا ہے۔ اس لیے اس روایت کی بنیاد پر دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنے کو سنت یا مستحب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنے میں حضرات فقہاء کرام کی دو آرا ہیں، اس لیے اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھنا چاہے تو ناجائز نہیں، نیز اس کے پڑھنے سے سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوتا۔
📚 *عبارات*
☀️ سنن النسائي:
1745- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَلِيٍّ عَن الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ.
☀️ الأذكار للنووي:
ويستحب أن يقول عقيب هذا الدعاء: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وسلم، فقد جاء في رواية النسائي في هذا الحديث بإسناد حسن: وصلى الله على النبي. (بابُ القُنوتِ في الصُّبح)
☀️ التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير:
وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ: إنَّهَا زِيَادَةٌ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَوْ حَسَنٍ، قُلْتُ: وَلَيْسَ كَذَلِكَ؛ فَإِنَّهُ مُنْقَطِعٌ إلخ.
☀️ سبل السلام شرح بلوغ المرام:
(ولا يعِزُّ من عاديتَ. زاد النسائي في وجه آخر في آخره: وصلى الله على النبيِّ إلخ). إلا أنه قال المصنف في تخريج أحاديث الأذكار: إن هذه الزيادة غريبة لا تثبت؛ لأن فيها عبد الله بن علي، لا يعرف، وعلى القول بأنه عبد الله بن علي بن الحسين بن علي فالسند منقطع؛ فإنه لم يسمع من عمه الحسن. ثم قال: فتبين أن هذا الحديث ليس من شرط الحسن؛ لانقطاعه أو جهالة رواته. انتهى. فكان عليه أن يقول: ولا تثبت هذه الزيادة.
☀️ الفتاوى الهندية:
وَلَا يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُنُوتِ وَهُوَ اخْتِيَارُ مَشَايِخِنَا. كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.
(الْبَابُ الثَّامِنُ فِي صَلَاةِ الْوِتْرِ)
☀️ البحر الرائق شرح كنز الدقائق:
وَلَمْ يَذْكُر الْمُصَنِّفُ الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُنُوتِ لِلِاخْتِلَافِ فِيهَا وَاخْتَارَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ أَنَّ الْأَوْلَى الصَّلَاةُ عَلَيْهِ ﷺ؛ لِأَنَّ الْقُنُوتَ دُعَاءٌ وَالْأَوْلَى فِي الدُّعَاءِ أَنْ يَكُونَ مُشْتَمِلًا عَلَيْهَا وَذَهَبَ أَبُو الْقَاسِمِ الصَّفَّارُ إلَى أَنَّهُ لَا يُصَلِّي فِيهِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ مَوْضِعَهَا وَمَشَى عَلَيْهِ فِي الْخُلَاصَةِ. وَالْحَقُّ هُوَ الْأَوَّلُ؛ لِمَا رَوَاهُ النَّسَائِيّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَنَّ فِي حَدِيثِ الْقُنُوتِ وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ. وَلِمَا رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ عَلِيٍّ: كُلُّ دُعَاءٍ مَحْجُوبٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ. وَفِي الْوَاقِعَاتِ: وَيُسْتَحَبُّ فِي كُلِّ دُعَاءٍ أَنْ تَكُونَ فِيهِ الصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ اهـ.
وَهُوَ يَقْتَضِي أَنَّهُ يُصَلِّي عَلَيْهِ فِي الْقُنُوتِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَهُوَ الْأَوْلَى. (بَابُ الْوِتْرِ وَالنَّوَافِلِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی