🌴⑩🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑩⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
یرموک 5 رجب 15 ہجری (636 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے۔ انطاکیہ پہنچے۔ ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامالکر دیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ ” عرب تم سے زور میں جمعیت میں، ساز و سامان میں کم ہیں پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے۔ ” اس پر سب نے سر جھکا لیا۔ اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ ” عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک سے ایک برابری کے ساتھ ملتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بد کاریاں کرتے ہیں، اقرار کی پابندی نہیں کرتے ، اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے۔ اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خال ہوتا ہے۔ قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شاہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے۔ روم، قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کئے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقامات فتح کئے تھے۔ وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود مخالف مذہب کے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا۔ اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں! خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ پر پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلہ میں خدا نے ہمیشہ تم کو منصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس ساز و سامان سے تمہارے مقابلہ کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتاؤ کیا صلاح ہے ؟ یزید بن ابی سفیان (معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی) کھڑے ہوئے اور کہا کہ ” میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں۔ اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آرا ہوں۔ اس کے ساتھ خالد اور عمرو بن العاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں۔ ” شرجیل بن حسنہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے۔ یزید نے جو رائے دی بلا شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تمام عیسائی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں۔ یا خود مار ڈالیں۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں۔ شرجیل نے اٹھ کر کہا اے امیر! تجھ کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں۔ اس لئے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے۔ عام حاضرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ اتنا وقت کہاں ہے ؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہر چکا تو حضرت ابو عبیدہ نے حبیب بن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے۔ سب ان کو واپس دے دو۔ اور ان سے کہہ دو کہ ہم جو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے واپس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا ” تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں، قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے۔ اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابو عبیدہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ (ان واقعات کو بلاذری نے فتوح البلدان میں، قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں ، ازدی نے فتوح الشام میں تفصیل سے لکھا ہے )۔
غرض ابو عبیدہ دمشق کو روانہ ہوئے (میں نے یہ تفصیلی واقعات فتوح الشام ازدی سے لیے ہیں۔ لیکن ابو عبیدہ کا حمص چھوڑ کر دمشق چلا آنا ابن واضح عباسی اور دیگر مورخوں نے بھی بیا ن کیا ہے۔ ) اور ان تمام حالات کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے۔ نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کل فوج اور افسران نے یہی فیصلہ کیا تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ ابو عبیدہ جو جواب میں لکھا کہ ” میں مدد کے لیے سعد بن ابی عامر کو بھیجتا ہوں۔ لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہے۔ ابو عبیدہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورت کی۔ یزید بن ابی سفیان، شرجیل بن حسنہ، معاذ بن جبل، سب نے مختلف رائیں دیں۔ اسی اثناء میں عمرو بن العاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ ” اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص کو چھوڑ کر چلے آنا نہایت بے رعبی کس سبب ہوا ہے۔ ” ابو عبیدہ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہو جائیں۔ خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو، میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔
دوسرے دن ابو عبیدہ دمشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عمرو بن العاص بھی یہیں آ کر ملے ، یہ موقع جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کے سرحد بہ نسبت اور تمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی۔ اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا۔ جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سعید بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان کا حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک قاصد دوڑایا۔ اور لکھا کہ ” رومی بحر و بر سے اُبل پڑے ہیں۔ اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں۔ ” خط پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا۔ تمام صحابہ بے اختیار رہ پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ ” امیر المومنین، خدا کے لیے ہم کو اجازت دیجیئے کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیں۔ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجر و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ امیر المومنین، تو خود سپہ سالار بن اور ہم کو ساتھ لے کر چل، لیکن اور صحابہ نے اس رائے سے اختلاف کیا۔ اور رائے یہ ٹھہری کہ اور امدادی فوجیں بھیجی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ ” افسوس اب کیا ہو سکتا ہے ؟ اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے۔ ” ابو عبیدہ کے نام نہایت پُر تاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا۔
الاعمر یفرلگ السلام و یقول لکم یا احل الاسلام اصدقو اللقاء و تشدوا علیھم شد اللبوت ولیکونوا اھون علیکم من اللو فانا قد کما علمنا الکم علیھم منصورون۔
یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہوا کہ جس دن قاصد ابو عبیدہ کے پاس آیا۔ اسی دن عامر بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انہوں نے نہایت استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر الجبل میں اتریں۔ خالد نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ معاذ بن جبل کو جو بڑے رتبہ کے صحافی تھے ، میمنہ پر مقرر کیا۔ قباث بن الثھم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج کی افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کئے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا۔ باقی پر قیس بن بیرہ، میرہ بن مسروق، عمرو بن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں انتخاب تھے۔ اور اس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے۔ رومی بھی بڑے سر و سامان سے نکلے۔ دو لاکھ سے زیادہ کی جمعیت تھی۔ اور 24 صفیں تھیں۔ جس کے آگے آگے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلاتے جاتے تھے۔ فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا، خالد نے روکا اور قیس بن ببیرہ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے بڑھے۔
صل النساء اطبی الی احجابھا
الست یوم الحرب من ابطالھا
“پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو، کیا میں لڑائی کے دن بہاروں کے کام نہیں کرتا۔ “
قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا۔ کہ ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر گئی۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ خالد نے کہا “شگون اچھا ہوا۔ اور اب خدا نے چاہا تو آگے فتح ہے۔ ” عیسائیوں نے خالد کے ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کی تھیں۔ لیکن سب نے شکست کھائی۔ اس دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی ہو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
رات کو باہان نے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ ” کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو ہم اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرنی چاہتے ہیں۔ ” ابو عبیدہ نے خالد کو انتخاب کیا۔ قاصد جو پیغام لے کر آیا تھا، اس کا نام جارج تھا۔ جس وقت پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس سکون و وقار، ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی، قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے ابو عبیدہ سے چند سوالات کئے ، جن میں ایک یہ تھا کہ تم عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابو عبیدہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں :
یا اھل الکتب لا تفلوا فی دینکم ولا تقولو اعلی اللہ الا الحق الھا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ و کلمنہ الفاھا الی مریم سے لن یستکف المسیح ان یکون عبد اللہ ولا الملٰکۃ المقربون تک۔
مترجم نے ان الفاظ کا ترجمہ کیا۔ تو جارج پکار اٹھا کہ ” بے شک عیسیٰ کے یہی اوصاف ہیں اور بے تمہارا پیغمبر سچا ہے۔ ” یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو، مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔
دوسرے دن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے۔ رومیوں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب سواروں کی صفیں قائم کی تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے۔ لیکن خالد اس بے پروائی اور تحقیر کی نگاہ سے ان پر نظر ڈالتے جاتے تھے ، جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیرتا چلا جاتا ہے۔ باہان کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور لا کر اپنے برابر بٹھایا۔ مترجم کے ذریعے سے گفتگو شروع ہوئی۔ باہان نے معمولی بات چیت کے بعد لکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی۔ حضرت عیسٰی کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیا۔ اور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ مترجم ان الفاظ کا پورا ترجمہ نہیں کر چکا تھا کہ خالد نے باہان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہی ہو گا۔ لیکن ہم نے جس کو سردار بنا رکھا ہے اس کو ایک لمحہ کے لیے اگر بادشاہی کا خیال آئے تو ہم فوراً اس کو معزول کر دیں گے۔ باہان نے پھر تقریر شروع کی، اور اپنے جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا کہ ” اہل عرب تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا، لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اور چاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دو۔ تم کو معلوم نہیں کہ بہت سی قوموں نے بارہا ایسے ارادے کئے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اب تم کو کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم وحشی اور بے ساز و سامان نہیں، یہ حوصلہ ہوا ہے ، ہم اس پر بھی درگزر کرتے ہیں۔ بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسر کر ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دلا دیئے جائیں گے۔
باہان اپنی تقریر ختم کر چکا تو خالد اٹھے اور حمد نعت کے بعد کہا کہ ” بے شبہ تم دولت مند ہو، مالدار ہو، صاحب حکومت ہو، تم نے اپنے ہمسایہ عربو کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ہم کو معلوم ہے لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہت کی ایک تدبیر تھی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عیسائی ہو گئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر ہم سے لڑتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے۔ ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی کمزور کر پیس ڈالتا تھا۔ قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہو جاتے تھے ، بہت سے خدا بنا رکھے تھے اور ان کو پوجتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن خدا نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ شریف، زیادہ فیاض، زیادہ پاک خو تھا۔ اس نے ہم کو توحید سکھائی اور بتلا دیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بیوی و اولاد نہیں رکھتا۔ وہ بالکل یکتا و یگانہ ہے۔ اس نے ہم کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں، جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا، لیکن وہ جزیہ دینا قبول کرتا ہے اس کے ہم حامی اور محافظ ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔ “
باہان نے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ” یہ مر کر بھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیں دیتے نہیں۔ ” غرض کوئی معاملہ طے نہیں ہوا اور خالد اٹھ کر چلے آئے۔ اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ جس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے۔ خالد کے چلے آنے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ ” تم نے سنا اہل عرب کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو ان کی غلامی منظور ہے ؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ ” ہم مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی۔ “ صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سر و سامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو حیرت ہوئی۔ خالد نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی۔ فوج جو 30 – 35 ہزار تھی اس کے 36 حصے کئے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اس طرح صفیں قائم کیں، قلب فوج ابو عبیدہ کو دیا۔ میمنہ پر عمرو بن العاص اور شرجیل مامور ہوئے۔ میسرہ یزید بن ابی سفیان کی کمان میں تھا۔ ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کئے چن چن کر ان لوگوں کو متعین کیا جو بہادری اور فنون جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہل چل ڈال دیتے تھے اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں۔ انہی میں ابی سفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے۔
الا الک، زارۃ العرب و انصار الا سلام و انھم زارۃ الروم و انصار الشرک اللھم ان ھذا یومن آیاتک اللھم انزل نصرک علی عبادک۔
عمرو بن العاص کہتے پھرتے تھے۔
ایھا الناس غضوا ابصار کم واشر عوا الرماح والزموا مراکز کم فانا حمل عدوکم فامھلوھم حتی اذا رکبوا اطراف الاسنۃ و ثبوا فی وجوھھم و ثوب الاسد۔
” یارو! نگاہیں نیچی رکھو برچھیاں تان لو، اپنی جگہ پر جمے رہو، پھر جب دشمن حملہ آور ہوں تو آنے دو۔ یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔
فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی 30 – 355 ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے۔ لیکن تمام عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جمال مبارک دیکھا تھا۔ ایک ہزار تھے ، سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمرکاب تھے۔ عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف ازد کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی۔ ہمدان، کولان، خم، جذام، وغیرہ کے مشہور بہادر تھے۔ اس معرکہ کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں تھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں ہندہ حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں۔ عضدو العلفان بسیوفکم۔ امیر معاویہ کی بہن جویریہ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔
مقداد جو نہایت خوش آواز تھے فوج کے آگے آگے سورۃ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے ) تلاوت کرتے جاتے تھے۔ ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ ائے۔ جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی۔ دو لاکھ ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے آگے تھے۔ اور حضرت عیسٰی کے جے پکارتے آتے تھے۔ یہ ساز و سامان دیکھ کر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار نکلا اللہ اکبر کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ خالد نے جھلا کر کہا ” چپ رہ خدا کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی فوج اور بڑھا لیں۔ “
غرض عیسائیوں نے نہایت زور شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ زور کا تھا کہ مسلمان کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا۔ اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ یزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا، اور خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں۔ اور پکاریں کہ ” نامرادو ادھر آئے تو چولوں سے تمہارا سر توڑ دیں گے ” خولہ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں :
یاھارباً عن نسوۃ تفلیات
و میت بالسھم والمنیات
یہ حالت دیکھ کر معاذ بن جبل جو میمنہ کے ایک حصے کے سپہ سالار تھے گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ ” میں پیدل لڑتا ہوں، لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔ ” ان کے بیٹے نے کہا ” ہاں یہ حق میں ادا کروں گا۔ کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ ” غرض دونوں باپ بیٹھے فوجوں میں گھسے اور دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ زبیدہ کے سردار تھے ، پانسو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے اگا روک لیا۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ میں یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر ہاتھ بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کی لغزش نہیں ہوتی تھی۔ عمرو بن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے کہ ازدیو دیکھنا۔ مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ بڑے بڑے رومی بہادر انکے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔
حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعتہً صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے اور اسلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑتے تھے۔ گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا ” عیسائیو! میں کسی زمانے میں (کفر کی حالت میں) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑ چکا ہوں کیا آج تمہارے مقابلہ میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے۔ ” یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون ،،،،،،،،،، کرتا ہے ؟ چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے مرنے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھی۔ خالد نے اپنے رانوں پر انکا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا ” خدا کی قسم عمر کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔ ” (تاریخ طبری واقعہ یرموک)۔
غرض عکرمہ اور انکے ساتھ گو خود ہلاک ہو گئے۔ لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر یئے۔ خالد کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی۔ یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار در۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تک پہنچ گئے۔ در۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لئے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔
عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا ابن ناطیر (رومیوں کے میمنہ کا سردار تھا) نے میسرہ پر حملہ کیا۔ بد قسمتی سے اس حصے میں اکثر لخم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بود و باش رکھتے تھے۔ ایک مدت سے روم کے باج گزار رہتے آئے تھے۔ رومیوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے۔ اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن الحثم، سعید بند زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے۔ مگر ان کے تیور پر بل نہ آیا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتا تو کہتے کہ کوئی ہے ؟ جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔ لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے۔ اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابو الا عود گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ ” صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے۔ اور عقبٰی میں رحمت، دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ” سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار گرایا۔ زید بن ابی سفیان (معاویہ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے۔ اتفاق سے ان کے باپ ابو سفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ان کی طرف سے نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا ” جان پدر، اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے۔ تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لئے شرم کی بات ہے۔ ” شرجیل کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح کھڑے تھے۔ قرآن کی یہ آیت ” ان اللہ اشعری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقطون و یقطون” پڑھتے تھے اور نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟ یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج سنبھل گئی اور شرجیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو لڑتے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔
ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں۔ اور چلا کر کہتی تھیں کہ ” میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔ “
لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے۔ بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتہً قیس بن ہبیرہ، جو کو خالد نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبرا کر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کر دیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے۔ یہاں تک میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا۔ اور میدان خالی ہو گیا۔
اس لڑائی کا یہ واقعہ (یہ تمام واقعہ فتوح البلدان میں مذکور ہے ) یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے ، بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے ، اسی اثنا میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ ” میرا پاؤں کیا ہوا؟” ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ ہر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ چنانچہ سوار بن ادنٰی نامی ایک شاعر نے کہا ہے :
ومنا ابن عناب و ناشدر جلہ
و منا للذی اوسی الیٰ الحی حاجباً
رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور۔ ۔ ۔ ۔ نے لاکھ سے زیادہ تعداد بیان کی ہے۔ بلازری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا۔ جن میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعید وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اس وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رخ کر کے کہا ” الوداع اے شام۔ “
ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامہ فتح لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جن میں حذیفہ بن۔ ۔ ۔ ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سوئے نہ تھے۔ فتح کی خبر پہنچی تو دفعتہً سجدہ میں گرے اور خدا کا شکر ادا کیا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یرموک سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو واپس گئے اور خالد کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روانہ کیا۔ شہر والوں نے اول مقابلہ کیا لیکن پھر قلعہ بند ہو کر جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ یہاں عرب کے قبائل میں سے قبیلہ۔ ۔ ۔ ۔ مدت سے آ کر آباد تھا۔ یہ لوگ برسوں تک کمبل کے خیموں میں بسر کرتے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تمدن کا ان پر یہ اثر ہوا کہ بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنوائی تھیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم قومی کے لحاظ سے ان کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ سب مسلمان ہو گئے۔ صرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا خاندان عیسائیت پر قائم رہا۔ اور چند روز کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ قبیلہ طے کے بھی بہت سے لوگ یہاں آباد تھے۔ انہوں نے بھی اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا۔ قصرین کی فتح کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حلب کا رخ کیا۔ شہر سے باہر میدان میں عرب کے بہت سے قبیلے آباد تھے۔ انہںوں نے جزیہ پر صلح کر لی اور تھوڑے دنوں کے بعد سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ حلب والوں نے ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد سن کر قلعہ میں پناہ لی۔ عیاض بن ٹنم نے جو مقدمنہ الجیش کے افسر تھے شہر کا محاصرہ کیا۔ اور چند روز کے بعد اور مفتوحہ شہروں کی طرح ان شرائط پر صلح ہو گئی کہ عیسائیوں نے جزیہ دینا منظور کر لیا۔ اور ان کی جان و مال، شہر پناہ، مکانات قلعے اور گرجوں کی حفاظت کا معاہدہ لکھ دیا گیا۔ حلب کے بعد انطاکیہ آئے۔ چونکہ یہ قیصر کا خاص دارالسلطنت تھا، بہت سے رومیوں اور عیسائیوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کیا۔ چند روز کے بعد عیسائیوں نے مجبور ہو کر صلح کر لی۔ ان صدر مقامات کی فتح نے تمام شام کو مرعوب کر دیا۔ اور یہ نوبت پہنچی کہ کوئی افسر تھوڑی سی جمعیت کے ساتھ جس طرف نکل جاتا تھا عیسائی خود آ کر امن و صلح کے خواستگار ہوتے تھے۔ چنانچہ انطاکیہ کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ اور عبان یہ چھوٹے چھوٹے مقامات اس آسانی سے فتح ہوئے کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرا۔ اسی طرح پالس اور قاصرین بھی پہلے ہلہ میں فتح ہو گئے۔ جوجومہ والوں نے جزیہ سے انکار کیا اور کہا کہ ہم لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ دیں۔ چونکہ جزیہ فوجی خدمت کا معاوضہ ہے ، ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی۔
انطاکیہ کے مضافات میں بفرامن ایک مقام تھا جس سے ایشیائے کوچک کی سرحد ملتی تھی۔ یہاں عرب کے بہت سے قبائل طسان، تنوغ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رومیوں کے ساتھ ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حبیب بن مسلمہ نے ان پر حملہ کیا اور بڑا معرکہ ہوا۔ ہزاروں قتل ہوئے۔ خالد مے مرعش پر حملہ کیا اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ عیسائی شہر چھوڑ کر نکل جائیں ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*