کھانے میں وقفہ بڑھانے سے انسانی جسم کیسے بہتر ہوتا ہے؟


 اسلام کی طرح دنیا کے کئی مذاہب میں روزے کا تصور موجود ہے لیکن ’انٹرمٹنٹ فاسٹنگ‘ یا دو کھانوں کے دوران وقفے کو بڑھانا ایک نیا رجحان ہے جسے نامور شخصیات کی جانب سے وزن میں کمی اور صحت مندانہ فوائد کے باعث اپنایا جا رہا ہے اور اسی باعث اس کی عام عوام میں بھی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کھانے میں کمی، جیسے روزہ رکھنے، سے انسانی زندگی کی طوالت اور جسمانی بہتری کے کئی سائنسی شواہد موجود ہیں لیکن شاید وزن میں کمی کے لیے یہ بہترین طریقہ نہیں کیوںکہ ماہرین غذائیت کے مطابق کھانے میں وقفے کی عادت اپنانے سے قبل بہت سے عوامل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

کھانے میں وقفہ بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟
دراصل یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں گذشتہ دن کے آخرے کھانے کے بعد اگلے دن کے پہلے کھانے کے درمیان ایک طویل وقفہ دیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس عادت کو اپنانے والے 16 گھنٹے تک بنا کچھ کھائے گزارتے ہیں جس کے بعد بقیہ آٹھ گھنٹوں کے دوران ہی خوارک لی جاتی ہے۔ یہ کھانے میں وقفے کا واحد طریقہ نہیں بلکہ کئی اور طریقے بھی اپنائے جا سکتے ہیں۔

ایسے ہی ایک طریقے کو '5:2 ڈائیٹ' کا نام دیا گیا ہے جس میں پانچ دن تک عام طریقے سے کھانے پینے کے بعد بقیہ دو دن میں خوراک کا پچیس فیصد حصہ کھایا جاتا ہے۔ یعنی خوراک میں وقفے کی بجائے مقدار پر زور دیا جاتا ہے۔

کیا کھانے میں وقفہ بڑھانے سے وزن کم ہوتا ہے؟
برطانیہ کے شہر لندن سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت ریچل کلارکسن ’دی ڈی این اے ڈائیٹیشن‘ ادارے کی بانی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کھانے میں وقفہ بڑھانے کا طریقہ وزن میں کمی کے لیے استعمال ضرور کیا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ بہترین طریقہ نہیں ہے کیوںکہ اس سے آپ خوراک کی کیلوریز تو کم کر رہے ہیں لیکن جسم میں کیا جا رہا ہے اس پر دھیان نہیں دیا جاتا۔‘

کلارکسن کے مطابق یہ جانے بغیر کہ صحت مند خوراک کیا ہوتی ہے، ایسے لوگ جو کھانے میں زیادہ وقفہ دے کر وزن کم کر لیتے ہیں ان کا وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ ’ہوتا یہ ہے کہ آپ کم کھاتے ہیں اور بھوک بڑھتی ہے جس کے باعث اگلے دن زیادہ کھا لیا جاتا ہے۔‘

چلیں اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ کھانے میں وقفہ بڑھانے سے وزن کم کرنا بہترین طریقہ نہیں ہے لیکن کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اپنانے کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

کھانے میں وقفے کا فائدہ: جسمانی خلیوں کی زندگی بڑھ جاتی ہے
کھانے میں وقفے کا عمل جسم کے ایک ایسے اندرونی عمل کی شروعات کرتا ہے جس کو ’آٹو فیگی‘ کہا جاتا ہے۔ اور یہی وہ عمل ہے جس کے سائنسی فوائد کھانے میں وقفے کے اس تازہ ترین رجحان کی وجہ بن رہے ہیں۔

آٹو فیگی ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران انسانی جسم اندرونی خلیوں کی از سر نو تعمیر شروع کر دیتا ہے خصوصاً وہ جگہ جہاں ڈی این اے موجود ہوتا ہے یعنی نیوکلیئس۔ ساتھ ہی ساتھ مائیٹوکونڈریا جہاں انسانی خلیوں کو درکار توانائی مہیا کرنے والے کیمیائی مواد بنتا ہے اور لائسوسومز جو خلیوں سے فضلہ خارج کرتے ہیں، ان میں بھی یہ عمل اندرونی طور پر انھیں توانا کرتا ہے۔

اس عمل کے دوران نئے سرے سے انسانی جسم کے خلیے جنم لیتے ہیں اور کچھ ایسا مواد بھی پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے انسانی جسم کے خلیوں کی زندگی بڑھ جاتی ہے۔

یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا آٹو فیگی کے دوران صرف خلیوں کی ہی عمر بڑھتی ہے یا پھر یہ اثر حیاتیات کی عمر پر بھی ہوتا ہے۔ اب تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کیوںکہ جانوروں میں تو اس حوالے سے کچھ تحقیق کی گئی ہے لیکن انسانوں کی زندگی میں بھوکا رہنے اور کھانے میں وقفہ کرنے سے عمر بڑھنے یا نہ بڑھنے پر حتمی رائے اس وقت دینا قبل از وقت ہو گا۔

اب تک ہونے والی سائنسی تحقیقات کے مطابق آٹو فیگی انسانی جسم کے مدافعتی نظام میں بہتری لاتی ہے۔ جسمانی خلیوں کی صحت بہتر رکھنے کی اسی وجہ کے باعث اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ سرطان پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹو فیگی ایک قدرتی عمل ہے۔ یعنی ہم میں سے زیادہ تر افراد کچھ نہ بھی کریں تو یہ عمل نیند کے دوران ہونا ہی ہوتا ہے۔ ورزش اور فاقہ کشی بھی آٹو فیگی کے عمل کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آٹو فیگی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

کیا آٹو فیگی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
اسلام کی طرح دنیا کے کئی مذاہب میں روزے کا تصور بھی موجود ہے لیکن دنیا میں تازہ ترین رجحان میں کھانے میں وقفے کو بڑھانا اس سے تھوڑا مختلف ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دن کے آخری کھانے اور اگلے دن کے پہلے کھانے میں وقفہ زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔

کلارکسن کے مطابق ایسا کرنے والے عموماً اپنی کل خوراک میں بھی کمی لاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کھانے کے بعد جسم کے اندر کیا ہوتا ہے۔ ’جب آپ رات کو سات بجے کھانا کھاتے ہیں تو کم از کم دس بجے تک تو بھوک نہیں لگتی کیوںکہ جسم کو درکار توانائی چند گھنٹوں تک فراہم ہوتی رہتی ہے۔‘

یہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے جسے ’کیٹابالک سٹیٹ‘ کا سائنسی نام دیا گیا ہے جس میں جسم خون میں موجود گلوکوز کو بطور ایندھن استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب توانائی کا یہ ذریعہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد انسانی جسم ایک اور حالت میں چلا جاتا ہے جو کھانے کے تقریبا تین گھنٹے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اس حالت میں انسانی جگر اور پٹھوں میں موجود گلائیکوجن کو توڑ کر گلوکوز بنائی جاتی ہے جسے توانائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب جسم میں موجود گلائی کوجن بھی ختم ہو جاتی ہے تو پھر توانائی کے لیے گلوکوز کی جگہ کیٹونز کو استعمال کیا جاتا ہے جنھیں جگر میں موجود فیٹی ایسڈز سے بنایا جاتا ہے۔ اس عمل کو کیٹوسس کہا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہے جب آٹو فیگی کا آغاز ہوتا ہے۔

کلارکسن کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ گلوکوز سے کیٹون پر جسم کب منتقل ہوتا ہے کیوںکہ اس کا انحصار کئی باتوں پر ہے جیسا کہ جینیات، صحت، رہن سہن کا طریقہ۔ اب کسی کے جسم میں کتنی گلائیکوجن ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کی خوراک کیسی ہے اور آپ دن بھر میں کتنے چست رہتے ہیں جس سے جسم کی توانائی استعمال ہوتی ہے۔‘

اگر کوئی شخص زیادہ کاربوہائیڈریٹس والی خوراک کھاتا ہے تو اس کے پاس گلائیکوجن کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ لیکن ایسا شخص جو کم کاروبو ہائیڈریٹس والی خوراک لیتا ہے اور ورزش کرتا ہے اس کا جسم جلد ہی آٹوفیگی کی جانب جا سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک طریقہ ہے جس کو آج کل کیٹو ڈائیٹ کہا جاتا ہے جس میں خوراک سے کاربوہائیڈریٹس نکال دیے جاتے ہیں تاکہ خون میں گلوکوز اور جسم میں گلائیکوجن کم رہے۔

کھانے میں وقفے کا عمل کیسے اپنایا جائے؟
کلارکسن کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ اپنی بھوک کے احساس کو کم کریں۔ بھوک اس وقت لگتی ہے جب معدہ ایک ایسے ہارمون کا اخراج کرتا ہے جسے غریلن کا نام دیا گیا ہے، یہ ہارمون دو اور ہارمونز کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ ہائیپوتھیلیمس سے جاری ہونے والے ان ہارمون کو این پی وائی اور اے جی آر پی کہا جاتا ہے۔

یہ تینوں مل کر بھوک کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ایسے ہارمون بھی جسم میں موجود ہوتے ہیں جو اس بھوک کے احساس کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھی میں سے ایک لیپٹن ہے جو جسم کو توانائی حاصل کرنے کے دیگر ذرائع کی جانب توجہ دلاتا ہے۔

غریلن کو جسم کا قلیل مدتی بھوک کا ردعمل بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ یہ اسی وقت جاری ہوتا ہے جب معدہ خالی ہو جاتا ہے اور پیٹ پر دباؤ کم ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب آپ پانی پیتے ہیں تو بھوک کم ہو جاتی ہے کیوںکہ معدہ بھر جاتا ہے اور پیٹ پر دباؤ بھی جس کے باعث غریلن جاری نہیں ہوتا۔

کلاکسن کہتی ہیں کہ پانی پیتے رہنے سے بھوک کے احساس میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جسے اپنا کر بھوک میں وقفے کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ ’چند ہفتوں میں جسم کو بھی اس کی عادت ہو جاتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر لوگوں میں کیٹوسس کا عمل کھانے کے بارہ یا چودہ گھنٹے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ نے اپنا شام کا کھانا چھ سے ساڑھے آٹھ بجے کے درمیان کھایا تو جسم کو نو یا ساڑھے گیارہ تک توانائی ملتی رہتی ہے جس کے بعد کیٹوسس اور آٹو فیگی کا عمل شروع ہوتا ہے جو تقریباً صبح چھ سے آٹھ بجے تک ہو۔

’لیکن اکثر لوگ رات کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں جیسے میٹھی چیز یا کوئی سنیکس۔ اس وجہ سے جسم کو توانائی ملنے کا عمل تین چار گھنٹے مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ رات کے دس بجے سنیکس کھائیں گے تو پھر رات تین بجے تک جسم کو توانائی ملتی رہے گی۔ یعنی عین ممکن ہے کہ کیٹوسس کا عمل آپ کے اگلے کھانے سے پہلے شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘

کلارکسن کہتی ہیں کہ ’اگر آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے رات کا کھانا ایک گھنٹہ معمول سے قبل کھانا ہے اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں کھائیں گے تو پھر صبح صبح کیٹوسس کا عمل شروع ہو چکا ہو گا۔ دوسری طرف صبح کا ناشتہ بھی دیر سے کیا جا سکتا ہے یعنی وقفہ بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ یہ عمل مزید جاری رہ سکے۔‘

کلارکسن کے مطابق ایسا معمول اپنانے سے پہلے کوشش کرنی چاہیے کہ ہفتے میں ایک دو دن سے ہی شروعات کی جائیں۔ اس احتیاط سے جسم میں موجود خلیوں کو تازہ دم ہونے میں مدد ملے گی اور جسمانی مدافعت بھی بڑھے گی۔ یاد رہے کہ آٹو فیگی عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ ایک صحت مند طریقہ اپنانے میں دیر نہ کی جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ متناسب خوارک کا کوئی نعم البدل نہیں۔

نوٹ: اس آرٹیکل میں فراہم کی جانے والی تمام معلومات کا مقصد آگاہی فراہم کرنا ہے جسے ماہرین کی رائے نہ سمجھیں۔ اگر آپ اس طرح کے کسی بھی طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں تو بہتر ہو گا کہ پہلے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں یا پھر کسی ماہر غذائیت سے تاکہ آپ کی جسمانی صحت اور بیماریوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ جان سکیں کہ آپ کو کیا خوارک لینی ہے اور کیا نہیں۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی